Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عالاں

MORE BYاحمد ندیم قاسمی

    کہانی کی کہانی

    عالاں گاؤں کے مرحوم موچی کی ایک الھڑ اور خوبصورت بیٹی ہے، جس کا باپ اسے بغیر جوتے گانٹھنا سکھائے مر گیا۔ اسلیے اپنا گزارہ کرنے کے لیے اسے گاؤں کے گھروں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ عارف میاں اپنے باپ کی برسی پر گاؤں آیا ہوا ہے۔ حویلی میں اس کی ملاقات عالاں سے ہوتی ہے۔ گاوں کے نوجوان لڑکوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ عالاں کوئی کام نہیں جانتی جبکہ وہ گھر کے اندر باہر کے سارے کام کرتی ہے۔ واپس جانے سے پہلے جب عارف اس سے ملنے آتا ہے تو وہ اس کے سامنے اقرار کرتی ہے کہ عالاں پیار کرنا بھی جانتی ہے۔

    اماں ابھی دہی بلو رہی تھیں کہ وہ مٹی کا پیالہ لئے آ نکلی۔ یہ دیکھ کر کہ ابھی مکھن ہی نہیں نکالا گیا تو لسی کہاں سے ملے گی؟ وہ شش و پنج میں پڑ گئی کہ واپس چلی جائے یا وہیں کھڑی رہے۔

    ’’بیٹھ جاؤ عالاں۔‘‘ اماں نے کہا، ’’ابھی دیتی ہوں۔۔۔ کیسی ہو؟‘‘

    ’’جی اچھی ہوں۔‘‘

    وہ وہیں بیٹھ گئی جہاں کھڑی تھی۔ کچھ دیر کے بعد اماں بولیں، ’’اب میں مکھن نکالنے لگی ہوں، برا نہ ماننا۔۔۔ نیت بری نہ ہو تب بھی نظر لگ جاتی ہے! ابھی پچھلے دنوں نوراں نے مجھے مکھن کا پیڑا نکالتے دیکھا تھا تو دوسرے دن مرغی کے انڈے کے برابر مکھن نکلا۔۔۔ اور اس سے اگلے دن چڑیا کے انڈے کے برابر۔۔۔ گائے کو تین دن مرچوں کی دھونی دی تو نظر اتری۔‘‘

    عالاں گٹکی، ’’نظر تو کبھی کبھی میری بھی لگتی ہے بی بی جی! اس سے پہلے آپ کا شیشے کا ایک گلاس توڑ چکی ہوں۔‘‘

    ’’ہاں ہاں!‘‘ اماں کو یاد آ گیا۔

    ’’تم نے کہا، ہائے بی بی جی! کیسا صاف شفاف ہے کہ نظر آر پار جاتی ہے۔ اور پھر یوں ہی پڑے پڑے چھناکے سے ٹوٹ گیا! میں تو حیران رہ گئی۔‘‘ پھر انہوں نے عالاں کو ڈانٹا مگر اُس ڈانٹ میں غصہ نہیں تھا۔ ’’لو۔۔۔! اب پرلی طرف دیکھو۔‘‘

    اور وہ مسکراتی ہوئی ایک طرف گھوم گئی اور سامنے دیکھنے لگی۔ سامنے میں بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ دوپٹے کا پلو آدھے سر پر سے کھینچ کر ماتھے تک لے آئی اور بولی، ’’بی بی جی! اندر چھوٹے میاں جی تو نہیں بیٹھے؟‘‘

    ’’اری! وہی عارف تو ہے!رات آیا ہے۔‘‘

    عالاں اٹھ کر دروازے تک آئی اور بولی، ’’رد بلائیں دور بلائیں۔‘‘

    ’’کیسی ہو عالاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’جی اچھی ہوں۔‘‘ وہ بولی۔

    پھر اس کے چہرے پر شرارت چمکی، ’’پہلے تو میں آپ کو پہچانی ہی نہیں۔ میں سمجھی، کوئی بچہ مونچھیں لگائے بیٹھا ہے۔‘‘

    اس پر اماں کی ہنسی چھوٹ گئی، ’’توبہ ہے۔ کمبخت ایسی باتیں کرتی ہے کہ۔۔۔ توبہ ہے۔‘‘

    عالاں دہلیز پر یوں بیٹھ گئی کہ اس کا ایک پاؤں باہر صحن میں تھا اور ایک کمرے کے اندر۔

    ’’عارف میاں! پردیس میں آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘

    اس نے مجھ سے یوں پوچھا جیسے چوپال میں بیٹھی گپ لڑا رہی ہے۔ ساتھ ہی وہ المونیم کے ایک پیالے کو فرش پر ایک انگلی سے مسلسل گھمائے جا رہی تھی۔

    میں نے کہا، ’’نوکری کرتا ہوں روپیہ کماتا ہوں۔‘‘

    ’’بی بی جی کو کتنا بھیجتے ہیں؟‘‘ اس نے شرارت سے مسکرا کر پوچھا۔

    ’’اے لڑکی! اماں نے اسے ڈانٹا، اپنی عمر کے لڑکوں سے یوں باتیں نہیں کرتے۔ اب تو چھوٹی نہیں ہے۔۔۔ کیا ابھی تک تجھے کسی نے نہیں بتایا کہ تو بڑی ہو گئی ہے؟‘‘

    وہ دہلیز پر بیٹھی بیٹھی اماں کی طرف گھوم گئی۔ اب اس کے دونوں پاؤں صحن میں تھے اور بالوں کا ایک ڈھیر کمرے میں تھا۔ ’’کون بتائے بی بی جی؟‘‘ وہ بولی، ’’اماں ابا ہوتے تو بتاتے۔ انہیں تو خدا کے پاس جانے کی اتنی جلدی پڑی تھی کہ میرے سر پر سے اپنا ہاتھ اٹھایا تو انتظار بھی نہیں کیا کہ کوئی اس لڑکی کہ سر پر ہاتھ رکھے تو چلیں۔‘‘ عالاں کی آواز کو آنسوؤں نے بھگو دیا تھا۔

    میں نے کہا، ’’عالاں۔۔۔ تمہاری ماں تو کب کی چل بسی تھی کیا باپ بھی چل دیا؟‘‘

    اب کے گھوم کر اس نے دونوں پاؤں کمرے میں رکھ دیے اور بولی، ’’جی! وہ بھی چلا گیا۔ میں لڑکا ہوتی تو شائد مجھے جوتے گانٹھنا سکھا جاتا پر وہ مجھ سے روٹیاں ہی پکواتا رہا۔ اب میں ایک موچی کی بیٹی ہوں پر اپنے جوتے دوسروں سے مرمت کرواتی ہوں۔‘‘

    ’’تو کیا ہوا؟ اماں بولیں، ’’تجھے صرف جوتے گانٹھنا نہیں آتا نا! باقی تو سب کام آتے ہیں۔ اپنی محنت سے کماتی اور کھاتی ہو۔ سارا گاؤں تمہاری تعریف کرتا ہے۔۔۔ لو لسّی لے لو۔‘‘

    عالاں جو اماں کی گفتگو کے دوران میں انہی کی طرف گھوم گئی تھی، اُٹھی اور جا کر پیالہ اماں کے پاس رکھ دیا۔ وہ لسی کا پیالہ لے کر جانے لگی مگر چند قدموں کے بعد ایک دم رک گئی اور پلٹ کر بولی، ’’آج بھی چکی پیسنے آ جاؤں بی بی جی؟‘‘

    ’’آ جانا آ جانا! اماں بولیں، آٹا تو ڈھیروں پڑا ہے پر عارف کے ابا کی برسی بھی تو زیادہ دور نہیں ہے۔ کئی بوریوں کی ضرورت پڑے گی۔۔۔ آ جانا۔‘‘

    ’’جی اچھا! وہ بولی، پھر وہیں کھڑے کھڑے مجھ سے پوچھا، ’’عارف میاں! آپ کتنی چھٹی پر آئے ہیں؟‘‘

    میں نے کہا، ’’میں ابا کی برسی کر کے جاؤں گا۔‘‘ بولی، ’’پھر تو بہت دن ہیں۔‘‘

    میں جب گاؤں میں اِدھر اُدھر گھوم کر واپس آیا تو وہ اندر ایک کوٹھریا میں بیٹھی چکی پیس رہی تھی۔ اوڑھنی اُس کے سر سے اُتر گئی تھی اور کھلے بال چکی کے ہر چکر کے ساتھ اُس کے چہرے کو چھپا اور کھول رہے تھے۔ اُس نے ایک ٹانگ کو پورا پھیلا رکھا تھا۔ نیلا تہہ بند اس کی پنڈلیوں تک کھنچ گیا تھا۔ اگر ایسی پنڈلی کو کاٹ کر اور شیشے کے مرتبان میں رکھ کر ڈرائنگ روم میں سجا دیا جائے تو کیسا رہے۔ میں نے ادھر اُدھر دیکھا۔ اماں کہیں نظر نہ آئیں تو میں پنجوں کے بل کوٹھریا تک گیا۔

    دروازے سے آتی ہوئی روشنی ایک دم کم ہوئی تو اُس نے چونک کر دیکھا، چکی روک لی، بالوں کو جھک کر سمیٹا اور اوڑھنی کو سر پر کھینچ لیا مگر پھیلی ہوئی ٹانگ کو پھیلا رہنے دیا۔ پھر وہ چکی کی ہتھی کو تھام کر آہستہ آہستہ گھمانے لگی اور میری طرف دیکھتی چلی گئی۔۔۔ اس وقت میرا پہلا تاثر یہ تھا ایک موچی کی بیٹی کی آنکھوں کو اتنا بڑا نہیں ہونا چاہیے۔ غریب غرباء کو چھوٹی چھوٹی آنکھیں ہی کفایت کر جاتی ہیں۔ اس کے چہرے پر شرارت تھی اور اس ڈر کے مارے کہ وہ کوئی فقرہ نہ مار دے میں نے پوچھا، ’’اماں کہاں ہیں؟‘‘

    وہ بولی، ’’تو کیا آپ بی بی جی کو دیکھنے یہاں تک آئے تھے؟‘‘

    ’’تو کیا تمھیں دیکھنے آیا تھا؟‘‘ مجھے حملے کا موقع مل گیا۔ اس نے بس اتنا کیا کہ ٹانگ سمیٹی اور پھر پھیلا دی۔ پھر وہ کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ میں نے پھر پوچھا، ’’اماں کہاں ہیں؟‘‘

    ’’یہیں حویلی میں ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’آپ کے چچا کی بیٹی بیمار ہیں انہیں دیکھنے گئی ہیں۔‘‘

    میں نے کہا، ’’یہ جو تم پسائی کر رہی ہو اس کی کتنی اجرت لو گی؟‘‘

    ’’دو دن کا آٹا تو مل ہی جائے گا۔‘‘ اس کے لہجے میں کاٹ سی تھی نہ جانے طنز کر رہی تھی یا اس کا لہجہ ایسا تھا۔

    ’’اچھا دو دن گزر گئے تو پھر کیا کروگی؟‘‘

    ’’پھر آ جاؤں گی آٹا پیسنے، پانی بھرنے یا چھتیں لیپنے۔‘‘

    ’’چھتیں لیپنے! کیا تمھیں چھتیں لیپنا بھی آتا ہے؟‘‘ میں نے سچ مچ حیرت سے پوچھا۔

    وہ بولی، ’’مجھے کیا نہیں آتا عارف میاں۔ بس ایک جوتے گانٹھنے نہیں آتے۔۔۔ اور بہت کچھ آتا ہے۔‘‘

    ’’مثلاً کیا کیا آتا ہے؟‘‘ میں نے شرارت سے پوچھا۔

    ’’اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ وہ کچھ بتانے لگی تھی مگر جیسے سوچ میں پڑ گئی اور آخر بولی، ’’سبھی کچھ آتا ہے۔۔۔! آپ دیکھ لیں گے ہولے ہولے۔‘‘

    چند لمحے وہ یوں چکی چلانے میں مصروف رہی جیسے مجھے بھول گئی ہے۔ پھر چکی روک کر اٹھ کھڑی ہوئی اور دروازے کی طرف بڑھی۔ میں ایک طرف ہٹا تو وہ باہر آ گئی اور بولی، ’’پیاس لگی ہے۔۔۔ پر بی بی جی کا کٹورا جھوٹا ہو جائے گا، مجھے بک میں پلا دیجیے۔‘‘

    ’’تم کٹورے میں ہی پی لو۔‘‘ میں نے کہا، اور پھر ڈانٹ کے لہجے میں کہا، ’’چلو! اُٹھاؤ کٹورا۔۔۔ پیو پانی۔‘‘

    اُس کی مسکراہٹ کتنی گلابی تھی۔۔۔ زندگی میں پہلی بار انکشاف ہوا کہ مسکراہٹ کا بھی رنگ ہوتا ہے۔

    وہ پانی پی چکی تو کٹورے کو کھنگالنے کے لئے اس میں ذرا سا اور پانی ڈالا۔ میں نے کہا، ’’بھر دو کٹورا۔ وہ سمجھی شائد میں کٹورے کو پوری طرح پاک کرانا چاہتا ہوں۔ کٹورا بھر گیا تو اس نے میری طرف دیکھا اور میں نے کٹورا اس کے ہاتھ سے اچک کر منہ سے لگا لیا۔

    ’’عارف میاں جی۔۔۔‘‘ وہ انتہائی حیرت اور صدمے سے بولی، وہ حواس باختہ میری طرف دیکھتی رہی اور جب میں نے خالی کٹورا واپس کیا تو اس کے ہاتھ میں رعشہ تھا اور اس کی آنکھوں پر نمی کی ایک چمکیلی تہہ نمودار ہو گئی تھی اور اس نے اوڑھنی کو یوں کس کے لپیٹ لیا تھا جیسے نماز پڑھنے چلی ہے۔

    گاؤں میں جوان لڑکی کا ایک ایک قدم گنا جاتا ہے، ایک ایک نظر کا حساب رکھا جاتا ہے۔ بہت سے دوست بیٹھے تھے لڑکیوں کا ذ کر ہو رہا تھا فلاں، فلاں کے ساتھ ہے۔ میں نے کہا، ’’ایک لڑکی عالاں بھی تو ہے نادرے موچی کی بیٹی!‘‘

    اس پر سب ہنسنے لگے۔ ’’وہ۔۔۔!‘‘

    انہوں نے کہا، ’’وہ کسی کام کی نہیں ہے۔ گھر گھر میں کام کرتی پھرتی ہے روپیہ کما رہی ہے خوب صورت ہے پر نکمی ہے۔‘‘

    ایک بار بیگو موچھیل نے چھیڑا تو بولی، ’’میں موچی کی بیٹی ہوں کھال اتار لیتی ہوں۔‘‘ بیگو کو اتنی شرم آئی کے سیدھا نائی کے پاس گیا اور مونچھوں کی نوکیں کٹوا دیں۔ سب ہنسنے لگے اور دیر تک ہنستے رہے۔

    میں نے کہا، ’’اگر وہ اتنی محنتی لڑکی ہے تو اس کی عزت کرنی چاہیے۔‘‘

    ایک بولا، ’’وہ عزت بھی تو نہیں کرنے دیتی۔‘‘

    اس پر سب کو ایک بار پھر ہنسی کا دورہ پڑا۔

    دوسرا بولا، ’’تمہارے ہاں تو وہ بہت کام کاج کرتی ہے کبھی اس کی عزت کر کے دیکھو کھال اتار لے گی۔‘‘

    وہ پھر ہنسنے لگے اور مجھے ان کی ہنسی میں شریک ہونا پڑا مگر۔۔۔ مجھ سے اپنی ہنسی کی آواز پہچانی ہی نہیں گئی، بالکل ٹین کے خالی کنستر میں کنکر بجنے کی آواز!

    میں گھر واپس آیا تو وہ دروازے سے نکل رہی تھی، چہرہ بالکل تپا ہوا تھا آنکھیں بھی سرخ ہو رہی تھیں میں چونکا اور پوچھا، ’’کیا بات ہے عالاں؟ تم روتی رہی ہو؟‘‘

    وہ ہنسنے لگی اور ہنسی کے وقفے میں بولی، ’’روئیں میرے دشمن، میں کیوں روؤں؟ میں تو مرچیں کوٹتی رہی ہوں عارف میاں!‘‘

    ’’تم مرچیں بھی کوٹ لیتی ہو؟ میں نے پوچھا، ’’کوئی ایسا کام بھی ہے جو تمہیں کرنا نہ آتا ہو۔ تم اتنے بہت سے کام کیوں کرتی ہو عالاں؟‘‘

    وہ بولی، ’’روپیہ کما رہی ہوں آپ تو جانتے ہیں روپے والے لوگ غریب لڑکیوں کو خرید لیتے ہیں میرے پاس روپیہ ہو گا تو مجھ پر نظر اٹھانے کی کسی کو مجال نہیں ہو گی۔۔۔ ہے کسی کی مجال؟ پھر وہ میرے قریب آ کر سرگوشی میں بولی، ’’میں نے آپ کے کرتے کے لیے ململ خریدی ہے اس پر بیل بوٹے کاڑھ رہی ہوں۔‘‘

    ’’یہ غلط بات ہے!‘‘ میں نے احتجاج کیا، تمہاری محنت سے کمائے ہوئے روپے سے خریدا ہوا کرتا مجھے کاٹے گا۔‘‘

    ’’میں کسی کو بتاؤں گی تھوڑی!‘‘ وہ بولی، ’’آپ بھی نہ بتائیے گا، پھر نہیں کاٹے گا۔ وہ گٹکی پھر ایک دم گھبرا گئی، ’’ہائے میں مر جاؤں۔ کہیں بی بی جی تو نہیں سن رہیں۔۔۔‘‘

    بی بی جی کے لفظ پر میرے جسم میں بھی سنسنی دوڑ گئی۔ اندر جھانکا تو صحن خالی تھا پلٹ کر دیکھا تو وہ جا چکی تھی۔

    ٹھیک ہے! میں نے سوچا، اچھی لڑکی ہے! پیاری بھی ہے! شوخ بھی ہے! سب کچھ ہے مگر آخر موچی کی لڑکی ہے اور خاندان کے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ بلندی پر کھڑے ہو کر گہرے کھڈ میں نہیں جھانکنا چاہیے ورنہ آدمی گر جاتا ہے۔

    ابا کی برسی کے روز ہمارے ہاں پورا گاؤں جمع تھا، مگر اُس ہجوم میں بھی عالاں کی دوڑ بھاگ نمایاں تھی وہ پھرکنی کی طرح گھومتی پھر رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کہ اگر یہ لڑکی اس ہجوم سے نکل گئی تو برسی کی ساری تنظیم بگڑ جائے گی۔ وہ بالکل برمے کی طرح ہجوم میں سے راستہ بناتی ہوئی پار ہو جاتی اور پلٹ کر غڑاپ سے امی کے کمرے میں گھس کر کواڑ دھڑ سے بند کر دیتی وہاں سے ہدایات لے کر وہ پھر باہر نکلتی اور پھر سے ہجوم میں برما لگا دیتی۔

    عشاء کی اذان تک سارا گاؤں کھانا کھا چکا تھا۔ خالی دیگیں ایک طرف سمیٹ دی گئی تھیں۔ نائی، دھوبی، میراثی، موچی سبھی فارغ کر دیے گیے تھے دن بھر کے ہنگامے کے بعد ایک بہت بھاری سناٹا گھر پر ٹوٹ پڑا تھا۔ آخری مہمان کو رخصت کر کے جب میں امی کے کمرے میں آیا تو مجھے یقین تھا کہ عالاں بیٹھی امی کے بازو اور پنڈلیاں دبا رہی ہو گی۔ مگر امی تو اکیلی بیٹھی تھیں۔ زندگی میں شائد پہلی بار امی کا لحاظ کئے بغیر میں اُن سے پوچھ بیٹھا، ’’عالاں کہاں ہے؟‘‘

    مگر امی اس سوال سے بالکل نہیں چونکیں، بولیں، ’’وہ لڑکی ہیرا ہے بیٹا! بالک ہیرا! آج تو وہ میری آنکھیں، میرے بازو میرا سب کچھ تھی۔ دن بھر کی تھکی ماندی تو تھی ہی، کھانے بیٹھی تو دو چار نوالوں کے بعد جی بھر گیا۔ اٹھ کر جانے لگی تو میں نے اسے روکا، اس کی دیگچی کو چاولوں سے بھرا اور اسے لے جانے کو کہا تو وہ بولی، یہ چاول تو مجھے عارف میاں دیتے ہوئے بھلے لگتے! اوروں کو رخصت کرتے رہے پر اُنہوں نے مجھے تو پوچھا ہی نہیں۔‘‘

    ’’میں نہیں لے جاتی، اس نے یہ بات ہنسی میں کہی۔ پر اس نے ٹھیک کہا بیٹا! اندر کا سارا کام اسی نے سنبھالے رکھا۔۔۔ تم تو سب کو رخصت کر ہی رہے تھے، اسے بھی رخصت کر دیتے۔ ویسے تو وہ ہنستی ہوئی چلی گئی ہے پر اسے ہنسنے کی عادت ہے۔۔۔ اور بیٹا! جن لوگوں کو ہنسنے کی عادت ہوتی ہے نا۔۔۔ انہیں جب رونا بھی ہوتا ہے تو وہ ہنسنے لگتے ہیں۔ جب وہ ہنستے ہیں تو اندر سے رو رہے ہوتے ہیں۔ تم نے ایک موچن سمجھ کر عالاں کی عزت نہ کی حالانکہ عالاں کا اپنا مان ہے۔ اس کا یہ مان قائم رکھو بیٹا اور چاولوں کی یہ دیگچی اسے دے آؤ۔ تھوڑی دیر پہلے گئی ہے، سوئی نہیں ہو گی۔ پھر کل صبح تم جا بھی رہے ہو۔ وہ کیا یاد کرے گی تمہیں؟ جاؤ۔‘‘

    عالاں اپنے گھروندے کے دروازے کے پاس چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی، میں نے پاس جا کر اسے آہستہ سے پکارا تو وہ تڑپ کر یوں کھڑی ہو گئی جیسے اس کے قریب کوئی گولا پھٹا ہے۔

    ’’عارف میاں جی!‘‘ وہ بولی، ’’چاول دینے آئے ہوں گے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’ہاں! چاول ہی دینے آیا ہوں۔‘‘

    ’’لائیے۔‘‘ اس نے ہاتھ بڑھائے، ’’بی بی جی نے بتایا ہو گا۔۔۔ میں نے کیا کہا تھا؟‘‘ وہ ہنسنے لگی۔

    ’’ہاں! بتایا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    دیگچی لے کر اس نے چارپائی پر رکھ دی اور بولی، ’’وہاں گھر میں دیتے تو زیادہ اچھا لگتا! ویسے اب بھی اچھا لگ رہا ہے۔‘‘

    کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہوں؟

    آخر ایک بات سوجھی، ’’میں کل واپس جا رہا ہوں۔‘‘

    ’’وہ مجھے معلوم ہے۔‘‘ عالاں بولی۔

    ’’معلوم تھا تو وہاں گھر میں ذرا سی دیر رک جاتیں۔‘‘ میں نے کہا۔

    وہ بولی، ’’آپ کے کرتے کا آخری ٹانکا باقی تھا وہ آ کے لگایا ہے۔۔۔ بکسے میں اس کرتے کی جگہ تو ہو گی ناں؟‘‘

    ’’اور ہاں صبح آپ کا بکسا اٹھا کر بسوں کے اڈے پر مجھے ہی تو پہنچانا ہے! بی بی جی نے کہا تھا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’تم کیا کچھ کر لیتی ہو عالاں؟ چکی تم پیس لیتی ہو، چھتیں تم لیپ لیتی ہو، مرچیں تم کوٹ لیتی ہو، کنوئیں سے دو دو تین تین گھڑے تم پانی بھر کے لاتی ہو، پورے گھر کا کام تم سنبھال لیتی ہو، کرتے تم کاڑھ لیتی ہو، بوجھ تم اُٹھا لیتی ہو۔ تم کس مٹی کی بنی ہوئی ہو عالاں؟‘‘

    وہ خاموش کھڑی رہی، پھر دو قدم اٹھا کر میرے اتنے قریب آ گئی کہ مجھے اپنی گردن پر اس کی سانسیں محسوس ہونے لگیں۔۔۔

    ’’میں تو اور بھی بہت کچھ کر سکتی ہوں! عارف میاں۔‘‘ اس کی آواز میں جھنکار سی تھی۔ ’’آپ کو کیا معلوم؟ میں اور کیا کچھ کر سکتی ہوں۔‘‘

    ذرا سے وقفے کے بعد وہ بولی، ’’مجھ سے پوچھئے نا، میں اور کیا کچھ کر سکتی ہوں؟‘‘

    پہلی جماعت کے بچے کی طرح میں نے اس سے پوچھا، ’’اور کیا کچھ کر سکتی ہو؟‘‘

    ’’میں۔۔۔ پیار بھی کر سکتی ہوں عارف میاں!‘‘

    اس نے جیسے کائنات کا راز فاش کر دیا۔

    مأخذ:

    نیلا پتھر (Pg. 29)

    • مصنف: احمد ندیم قاسمی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے