aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اے رود موسیٰ

واجدہ تبسم

اے رود موسیٰ

واجدہ تبسم

MORE BYواجدہ تبسم

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسی خوددار لڑکی کی کہانی ہے، جو دنیا کی ٹھوکروں میں رلتی ہوئی ویشیا بن جاتی ہے۔ تقسیم کے دوران ہوئے فسادات میں اس کے باپ کے مارے جانے کے بعد اس کی اور اس کی ماں کی ذمہ داری اس کے بھائی کے سر آگئی تھی۔ ایک روز وہ بہن کے ساتھ اپنے باس سے ملنے گیا تھا تو انہوں نے اس سے اس کا ہاتھ مانگ لیا تھا۔ مگر اگلے روز باس کے باپ نے بھی اس سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس نے اس خواہش کو ٹھکرا دیا تھا اور گھر سے نکل بھاگی۔

    تم میری باتیں غور سے سن تو رہے ہونا؟

    سترہ سال کی عمر میں میں خوبصورتی کا مکمل نمونہ تھی۔ میرا جسم متناسب تھا، قد لمبا لمبا ہاتھ پاؤں صندلیں۔ آنکھیں شراب کے پیالے۔ رنگت ایسی جیسے کسی نے میدہ، گلابی پانی سے گوندھ کر رکھ دیا ہو۔ تم اگر اسے خود ستائی نہ کہو تو میں یہ کہنے کی جرات کروں کہ میں نے دنیا میں خود سے زیادہ حسین شکل نہ دیکھی اور میرے اس حسن کا مول بھی بہت اونچا تھا۔

    میری منگنی شہر کے ایک بہت بڑے رئیس کے ولایت پلٹ لڑکے سے ہو چکی تھی اور اسی لئے بھائی میاں مجھے بڑی سرگرمی سے چھری کانٹے سے کھانا کھانا سکھا رہے تھے۔ کبھی کبھی میں کانٹا زبان میں چبھا لیتی۔

    یا چھری اس بےدردی سے ڈبل روٹی پر لچاتی کہ میری انگلی کٹ جاتی اور نتیجے میں بھائی جان میرے سر پر ایک آدھ دھول جڑ دیتے۔ انھوں نے ہزار بار بڑے پیار سے سمجھایا تھا کہ کانٹے میں اٹکے روٹی یا گوشت کے ٹکڑے کو دانتوں کی مدد سے بڑی آہستگی سے زبان پر اتار لینا چاہئے۔ مگر میں اکثر کانٹا اس انداز سے منہ میں رکھتی کہ زبان میں چبھ چبھ جاتا۔ مگر کانٹے کی یہ چبھن بھی بھلی لگتی۔ یہ سب کچھ میں اپنی نئی زندگی میں داخل ہونے کے لئے ہی تو سیکھ رہی تھی نا؟

    جب بھائی میاں مجھے کھانا سکھا رہے ہوتے، دالان میں اماں بیٹھی خشمگیں نگاہوں سے مجھے گھورتے جاتیں۔ جس گھرانے میں میری بات لگی ہوئی تھی، وہ گھرانا بڑا فارورڈ تھا، وہاں کے سارے طور طریقے بالکل انگیریزوں کے سے تھے، اماں ڈرتی تھیں کہ میں نے اپنی نادانی کی وجہ سے اگر کوئی لٹ پلٹ بات کردی تو اچھا رشتہ ہاتھوں سے نکل جائےگا۔ ولایت پلٹ لڑکے کوئی روز روز ملتے ہیں جی؟ (تم میری باتیں غور سے سن تو رہے ہونا؟)

    میں سوچتی اماں کے خدشے بھی بےبنیاد تو نہں ہیں۔ کانچ کے نازک اور خوبصورت کھلونے کو کوئی ٹھوکر مار دے تو کیا انجام ہوتا ہے؟ (وطن میں ہماری زندگی بھی تو ایسی ہی نازک نازک خوبصورت کانچ کے کھلونے ایسی تھی) وقت کی مضبوط ٹھوکر پڑی اور کھلونا چکنا چور تھا۔ پرانی زندگی کی یاد کو لے کر اب کرنا بھی کیا تھا۔ وہ ساری خوشیاں اور ولولے تو سرد پڑ گئے تھے۔ اب تو پیٹ کی آگ تھی اور کچھ نہیں۔ جسے کسی نہ کسی صورت بجھانا تھا۔ ابا راستے میں بلوائیوں کے ہاتھوں مارے گئے اور لٹ لٹا کرمیں، اماں اور بھائی میاں کسی نہ کسی طرح بچ نکلے۔ ان دنوں میں کس قدر ذراسی تھی؟ پھول کی طرح تازہ۔ کانچ کی طرح نازک۔ اماں مجھے اس طرح بچا بچاکر لائی تھیں جیسے مرغی، چیل کو منڈلاتے دیکھ اپنے پروں میں اپنے بچے کو چھپا چھپا لیتی ہے۔ میں اماں کے پروں میں دبی دھنسی، پتہ نہیں کن کن راستوں سے گزر جاتی تھی۔ راستے میں کبھی کبھار آنکھیں کھول کر ذرا سر اٹھا کر ریل کی کھڑکی سے باہر جھانکتی تو رات کا پر اسرار اندھیرا اور سناٹا جو میری روح سلب کئے لیتا۔ میں گھبراکر پھر آنکھیں موندھ لیتی۔

    زندگی کا پہلا سفر انہی اندھیروں میں کٹا۔ شائد اس دنیا کا یہی دستور ہے کہ جو اجالوں کی چاہ کرتے ہیں انہیں کو اندھیرے ملتے ہیں۔ اپنے پیچھے ہم کیسی زندگی چھوڑ آئے تھے؟ بھرا پورا گھر۔ ہنستا جھومتا وہ باغ۔ پورٹیکو میں ابھی ابھی آکر کھڑی ہوئی کار۔ وہ نئے رنگ کے پردوں والا ڈرائنگ روم اور۔۔۔ اور۔۔۔

    ہم آگے بڑھ آئے، زندگی وہیں رہ گئی۔ میں نے اپنی کتابیں کا پیاں جو میز پر کھول رکھی تھیں شائد ابھی تک کھلی پڑی ہوں۔ میز کے کنارے میں نے دوات کا ڈھکنا رکھ دیا تھا۔ کون جانے وہ وہیں پڑا ہو۔ الجبرا کا ایک سوال میں نے ابھی پورا حل بھی نہںپ کیا تھا۔ سنہری سنہری روشنی وہیں کھو گئی۔ شائد وہ دوات لڑھک گئی تھی۔ تبھی تو سارے میں سیاہی پھیل گئی تھی۔ رات کی طرح تاریک اور ڈراونی۔ پھر سب کچھ اس سیاہی، اس تاریکی میں ڈوب گیا۔ مٹ گیا۔ فنا ہو گیا اور ہم دھیرے دھیرے چوروں کی طرح اپنے ہی گھر سے یوں نکل آئے کہ پیچھے پلٹ کر دیکھ بھی نہ سکے۔ میں تو پوچھتی ہوں اتنے دن گزرنے پر بھی یہ دکھ جی سے کیوں نہیں جاتا۔ ماہ وسال کے کندھوں پر رکھا ہوا یہ بوجھ ہلکا کیوں نہیں ہوتا۔ کیوں نہیں ہوتا؟۔ بولو۔ بولونا۔ مگر نہیں۔ مجھے اس طرح جذباتی نہیں ہونا چاہیئے مجھے آج تم سے کوئی سوال نہیں کرنا ہے۔ بس تمہیں سب کچھ سنانا ہے۔ جی کا یہ بوجھ کسی طرح تو ہلکا پڑے۔ دل کا یہ دکھڑا کوئی تو سنے۔ میرے غم سے بھرے دل کو ایک ہلکی سی مسرت، تو مل جائے کہ کوئی تو تھا جس نے میرا غم بانٹا۔ تمہارا یہ پر سکون انداز۔ تمہاری خاموشی بتا رہی ہے کہ واقعی تم غور سے میری باتیں سن رہے ہو۔ نا؟

    میں الجھے ہوئے دھاگوں میں سرا تلاش کرتے کرتے بھٹک جاتی ہوں۔ بھول جاتی ہوں کہ میں کیا کہہ رہی تھی۔ اتنی ساری باتیں اکدم سے زبان کی نوک پر آ کر مچلنے لگیں تو کیسے نہ کوئی راہ بھولے؟۔ کیسے نہ میں سرا کھو دوں؟

    ہم نے اس دیار غیر میں قدم رکھا تو کوئی آسرا نہ تھا۔ کوئی سہارا نہ تھا۔ بھائی میاں پنی ادھوری تعلیم مکمل کرنا چاہتے تھے، مگر کوئی ذریعہ کوئی آسرا نہ تھا۔ وہ ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھتے تھے مگر صرف ایف ایس ہی پر آکر ان کی گاڑی رک گئی۔ میں نے زندگی کے جو سہانے خواب بنے تھے، سب جہاں کے تہاں رہ گئے۔ بھائی میاں جوتیاں چٹخاتے سارے شہر کی خاک چھانا کرتے کہ کہیں سے چار پیسے کا آسرا مل جائے اور ادھر میں اور اماں ایک تنگ تاریک سے مکان میں۔ (ایسا مکان۔ جسے مکان کہنے کو بھی جی نہیں چاہتا) زندگی کی دھوپ چھاؤں کے رنگ دیکھا کرتیں۔ کیا تم سمجھتے ہو ویرانے میں کھلنے والی کلی کبھی پھول نہیں بنتی؟ میں اسی ویرانے میں کلی سے پھول بننے لگی اور سچ جانو ایک دن اسی اندھیارے کمرے کی دیواروں نے پہلی بار چاند کی کرنوں کا سامنا کیا۔

    بھائی میاں کو چالیس روپے ماہانہ کی بہت بڑھیا سی ملازمت مل چکی تھی۔ جہاں وہ دن بھر مغزپاشی کرتے اور شام کو یوں لوٹتے جیسے ابھی ابھی مر جائیں گے۔ کاش مر ہی جاتے۔ زمین کی چھاتی پر کا بوجھ کچھ تو کم ہوتا۔ مگر یہ سنو کہ ہم میں سے کبھی کوئی نہ مرا۔ دنیا میں غریبوں کے لئے جینے کی تو راہ ہی نہیں ہے۔ مگر مرنے کی بھی کوئی راہ نہیں ہے۔ کوئی کیا جئے کوئی کیا مرے؟

    معاف کرنا، تم پتہ نہیں ہمارے متعلق کیا سوچو، مگر یہ بات میں سنائے بغیر نہیں رہوں گی کہ ان حالات کے باوجود میرا اس قدر اعلی گھرانہ میں رشتہ طے پا جانا، کس وجہ سے تھا۔ وہ محض ایک سوٹ تھا۔ ہاں، ہاں اونی سوٹ۔ گرے کلر کا۔ بھلے ہی تم اسے برا کہہ لو، مگر میں نہیں کہوں گی۔ اگر آدمی کو کھانے کو نہ ملے، پہننے کو نہ ملے تو میں سمجھتی ہوں اسے ہر عیب کو ہنر سمجھنا چاہئے۔ بھائی میاں کئی دنوں سے ایک جوڑے پر گزارہ کر رہے تھے۔ چالیس روپے میں کیا ہو سکتا ہے؟ شائد یہ بات تمہاری سمجھ میں نہ سکے۔ مگر ہم تو سمجھ سکتے ہیں نا۔ اس دن چکنی، کالی، لمبی۔ سڑک پر، جبکہ کوئی موٹر، سائیکل، بس نہ تھی، اکیلے بھائی میاں چلتے چلے آ رہے تھے اور ان کے آگے ایک خوش پوش نوجوان۔ (اوہ ذرا سوچو۔ غریبی کس قدر بڑی معلم ہے) بھائی میاں نے جلدی جلدی قدم بڑھائے اور پیچھے سے اس خوش پوش کی گردن پر ایک دھول جمائی۔ بھائی میاں ایسے کوئی ظالم تو نہ تھے کہ اسے جان سے مارنے کے بارے میں سوچتے۔ وہ تو محض اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد جب بھائی میاں اسی تمکنت اور بھرم سے سڑک پر چل رہے تھے تو ان کے جسم پر وہ قیمتی گرے کلر کا سوٹ تھا اور اس خوش پوش نوجوان کے جسم پر چیتھڑے لٹک رہے تھے۔

    ہاں تب میں نے جانا کہ لباس قسمتیں بدل دیا کرتا ہے۔ بدل سکتا ہے۔ دیکھو ہم لوگ غریب ضرور ہیں۔ مگر اپنا عیب نہیں چھپاتے۔ سچائی میں جیت ہے نا۔ بس اسی لئے۔ رات کو بھائی میاں نے بڑے فخر سے بتایا کہ کس طرح پلک جھپکتے میں ایک قیمتی سوٹ کے مالک بن بیٹھے تھے۔ اس رات ہم دونوں کتنی دیر تک ہنستے رہے تھے۔ اف! پوچھو مت۔ کیسی، خوشی تھی کہ بس ہنسی رکتی نہ تھی۔

    دوسرے دن وہی سوٹ پہن کر بھائی میاں اپنی سروس گئے تھے۔ اپنی میز پر جھکے قلم چلا رہے تھے تو ان کا باس ان کے پاس آ کھڑا ہوا۔ پہلے تو وہ سر سے پاؤں تک ان کو دیکھتا رہا۔ دیکھتا رہا۔ پھر یوں گھوم پر کر ان کے گرد پھیرے ڈالے جیسے کوئی قربانی کے لئے بکرا خریدنا چاہتا ہو۔ دیکھ لینا چاہتا ہو کہ کوئی کمی تو نہیں ہے۔ کن کٹا تو نہیں ہے۔ لنگڑا تو نہیں ہے۔ بیمار تو نہیں ہے۔ بھائی میاں نے سر اٹھا کر دیکھا اور گھبرا کر سر جھکا لیا۔

    ’’آجکل تو یہ کپڑا ملتا ہی نہیں۔ کہاں سے خریدا مسٹر۔‘‘ وہ بہت سادگی سے پوچھ رہا تھا۔

    ’’جی۔ جی۔ جی۔‘‘ بھائی میاں ہکلا کر بولے۔‘‘ اگر آپ کو یونہی بھلا لگتا ہے تو لے لیجئے نا۔ ایسی کون جاگیر چلی جائےگی میری۔‘‘

    باس مسکراکر رہ گیا۔

    گھر آ کر پوری رودار بھائی میاں نے مجھے بتائی اور یہ بھی کہا کہ اس اہم فرض کو میں ہی انجام دوں۔ کہ ان کے پاس تک یہ سوٹ پہنچا دوں۔ (اس لمحہ ان کے چہرے پر چراغ سا جل رہا تھا۔ امید کا ہی ہوگا۔

    پہلے تو بڑی دیر تک حیل حجت ہوتی رہی کہ میرا جانا مناسب ہوگا۔ بھی یا نہیں اور جب یہ طے ہو گیا تو یہ مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ میں اتنے بڑے بنگلے پر جاؤنگی تو سہی مگر پہنوں گی کیا؟

    تم یوں لمبے لمبے سانس کیوں لے رہے ہو؟ ترل۔ ترل۔ ترل۔ شاید یہ سوچ رہے ہو کہ آگے میں کیا کہوں گی۔ ہاں شاید تم یقین نہ کرو کہ زندگی کیا تھی۔ کیسی تھی۔ کس کمبخت کے پاس خوشی تھی؟ آنسو ہی آنسو تو تھے جو ہر موقع پر بر برس برس کر اندھیروں میں اجالے پیدا کرتے تھے۔ خیر۔ اس کلوتی سفید ساڑی کو جو اماں نے پتہ نہیں کس خیال سے سینت کر رکھی تھی میں نے اپنے جسم کے گرد لپیٹا اور تم ایک لمحے کو تو سوچو کہ اس سفید لباس میں کیا قیامت ڈھا رہی ہوں گی؟ یہ گال اس وقت مرجھاکر زرد پڑ گئے ہیں تو کیا ہوا؟ یہ لمبے لمبے بال اب دھول سے اٹ گئے ہیں تو کیا ہوا۔ یہ صندلیں بازو اور کھلتا جسم اب نڈھال نڈھال ہو گیا ہے تو کیا ہوا۔ تب تو میں ایسی نہ تھی۔ میں تو شبنم میں نہایا ہوا تازہ پھول تھی۔ جس کی پنکھری پنکھڑی سے رس نتھرتا تھا۔

    حسن اپنی قیمت اپنی بولی اٹھوانے چلا تھا۔

    بھائی میاں نے پھاٹک کو ذرا سا دھکا دیا اور ایک بڑے بڑے بالوں والے پیلے رنگ کے کتے نے بھونک بھونک کر ہمارا استقبال کیا۔ بھائی میاں تو مصلحتاً باہر جاکر چھپ گئے اور میں وہی ں کاغذ میں تہہ شدہ سوٹ سنبھالے سہمی سہمی کھڑی رہ گئی۔ کتے کی آواز سن کر پہلے تو چپراسی اور پھر ایک خوبصورت ساجوان آدمی باہر نکل آیا۔

    اب میں تم سے یہ نہ بتاؤں گی کہ کتنے لمحے یونہی گزر گئے تھے۔ نہیں، ایک لمحہ بھی نہیں گزرا تھا۔ نہیں نہیں۔ شاید میں بھول گئی ہوں۔ مجھے تو کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ ساری عمر گزر گئی تھی۔ ایک صدی سے کم کیا گزری ہوگی۔ نہیں شاید وقت ٹھٹھک کر یونہی ساکت ہو گیا تھا وقت تو مگر کبھی نہیں رکتا نا؟ تو شاید میں ہی بھول رہی ہوں۔

    پھر میں ایک بہت سےش سجائے ڈرائنگ روم میں تھی۔ ہمارے دلی والے ڈرائنگ روم سے بھی بڑھ چڑھ کر سجا سجایا۔ تم کیا سمجھتے ہو میں اپنا ماضی بھول گئی ہوں۔ بھول سکتی ہوں ارے توبہ کرو۔ عورت کے چار آنکھیں ہوتی ہیں۔ دو چہرے پر۔ دو پیٹھ پر۔ چہرے پر کی آنکھیں تو سبھوں کو نظر آتی ہیں۔ مگر وہ جو پیٹھ پر ہوتی ہیں وہ کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ صرف عورت انھیں محسوس کرتی ہے اور ان سے ماضی کو دیکھتی رہتی ہے۔ پوجتی رہتی ہے۔ مرد کی نگاہ مستقبل پر ہوتی ہے اور عورت ماضی کو دیکھتی ہے پلٹ پلٹ کر، مڑ مڑ کر بڑھتی ہے میں کیسے اپنا ماضی بھول جاتی۔ بچہ تھی تو کیا ہوا۔ عورت تو تھی۔

    میں سہمے ہوئے پرندے کی طرح صوفے کے کونے میں دبکی بیٹھی تھی اور وہ بچوں کی طرح مجھ سے برتاؤ کر رہے تھے۔ یہ لو۔ وہ لو۔ یہ کھاؤ۔ وہ چکھو۔

    اتنے میں دروازہ کا پردہ ہٹا اور بھائی میاں داخل ہوئے۔ اپنے ازلی اور اکلوتے جوڑے میں ملبوس۔ میں نے ذرا طنز سے باس کی طرف دیکھا۔ ‘‘دیکھ لی ہماری حقیقت۔‘‘

    میری نگاہیں یہی کچھ کہہ رہی ہونگی۔ اس کا مجھے یقین ہے۔ کیوں اسی لمحہ میری نگاہوں کو پڑھ کر انھوں نے فوراً بھائی میاں سے کہا تھا۔

    ’’جمیل صاحب۔ بات بے ڈھب اور اچانک ہی کہہ رہا ہوں۔ مگر آپ اپنی بہن کو میری دلہن بنانا پسند کریں گے۔‘‘

    وہ باس تھے اور بھائی میاں ان کے ماتحت۔ شائد کوئی اور موقع ہوتا، کوئی دوسرا مخاطب ہوتا، تو ان کے لہجے میں اتنی بےتکلفی اور انداز گفتگو اتنا صاف صاف نہ ہوتا۔ مگر بھائی میاں تو پاتال میں تھے۔

    بھائی میاں اس قدر سراسیمہ، اس قدر حیرت زدہ، اس قدر پریشان سے رہ گئے کہ منہ سے کچھ نکلا ہی نہیں۔ بڑی دیر بعد وہ بولنے پر آئے تو پھر بولتے ہی چلے گئے اور ہماری زندگی کی کوئی بات ایسی نہ تھی، جو انھوں نے نہ سنا دی ہو۔

    ’’میں جانتا ہوں۔ میں جانتا ہوں۔‘‘ وہ سگار کو میز پر تھپک تھپک کر اتنا ہی کہے جا رہے تھے۔

    ’’آپ جانتے ہیں نا ہم کتنے غریب ہیں۔ آپ کو معلوم ہوگا نا کہ میری بہن صرف ساتویں کلاس پاس ہے۔ آپ تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ہمارے پاس رہنے کو ڈھنگ کا مکان بھی نہیں ہے، پہننے کو کپڑے بھی نہیں۔ سونے کو بستر بھی نہیں اور۔۔۔‘‘

    ’’اور۔‘‘ انھوں نے بات کاٹ دی۔ ’’اور آپ جانتے ہیں کہ میں ایک نواب باپ کا بیٹا ہوں۔ اپنا ایک ذاتی بزنس چلائے ہوئے ہوں، اتنی بڑی دولت کا مالک ہوں اتنے بڑے بنگلے میں تنہا رہتا ہوں اور تنہا حقدار ہوں اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ میں محض سیر کے طور پر ہزاروں روپے خرچ کر کے لندن ہو آیا ہوں اور آپ یہ بھی جان رہے ہیں کہ میں آپ سے آپ کی بہن کا ہاتھ مانگ رہا ہوں اور یہ بھی سنا دوں میں پاگل نہیں ہوں۔ آپ سے مذاق بھی نہیں کر رہا ہوں۔ آپ کو دھوکا بھی نہیں دے رہا ہوں۔ آپ کی بہن سے باقاعدہ شادی کروں گا۔‘‘ وہ رکے۔ آگے بڑھے۔ میرے قریب آکر ٹھٹھک گئے اور میرا چہرہ اوپر اٹھا کر بولے۔

    ’’یہ انسان نہیں۔ پری ہے اور میں بہت حسن پرست واقع ہوا ہوں جمیل۔‘‘ اور وہ امید بھری نگاہوں سے بھائی میاں کو دیکھنے لگے۔

    ’’تم میری باتیں غور سے سن تو رہے ہونا؟‘‘

    ایک انسان، خدا بن کر ہماری زندگی میں آیا اور ہم پر آسمان بن کر چھا گیا۔

    زندگی کس قدر حسین تھی۔ کتنی پیاری۔ مگر، مگر کیا انجام بھی اتنا ہی حسین، اتنا ہی خوشگوار۔ اتنا ہی پیارا ہو سکتا تھا؟

    تم بےچین ہو رہے ہو۔ ہاں تمہاری ساکن سطح پر یہ کیسی ہلچل ہے۔ کیا میری باتوں سے تمہارے دل میں بھی دکھ کی لہریں پیدا ہو رہی ہیں؟ اے رود موسیٰ۔ ٹھہر جا۔ تھم جا۔ میری باتیں سن لے۔ میرے دل کا درد اپنے دل میں بھر لے۔ میں اس درد کو اپنے ساتھ لے جانا نہیں چاہتی۔ نہیں لیجانا چاہتی۔ آج اپنی زندگی کی خوشیوں اور مسرتوں کا حساب لے کر میں تیرے پاس آئی ہوں۔ سن لے میری داستان۔ سن لے۔ سن لے۔

    زندگی پر چھائے غم کے گہرے بادل جیسے اکدم چھٹ کر رہ گئے۔ زندگی میں سکون اور مسرت آ گئی۔ یہ ایسی خوشی تھی جس کے بارے میں سوچا بھی نہ جا سکتا تھا۔ اماں میرے لئے کتنی پریشان رہا کرتی تھیں۔ غریبی اور حسن جہاں ایک جگہ ہو جائیں۔ وہاں آپ ہی آپ ایک چکلہ کھل جاتا ہے۔ جوانی بہاریں لتاٹی آتی ہے اور پھر کسی سہارے کی ضرورت باقی نہیں رہ جائیگی۔ اب نالہ مشک کی طرح میری خوشبو گھر سے باہر نکل کر پھیل رہی تھی۔ زندگی جس راہ پر جا رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے اس کے سوا اور سوچا بھی کیا جا سکتا تھا؟ مگر بالکل اس طرح، جیسے کالی رات میں اچانک بجلی چمک جائے۔ اسی انداز سے ضیا میری زندگی میں داخل ہو گیا۔

    بھائی میاں مجھے سر پر دھول دھپے جڑ جڑکر چھری کانٹے سے کھانا سکھانے لگے اور اماں مجھے رہ رہ کر گھورنے لگیں کہ میں یہ رشتہ کھو نہ بیٹھوں۔

    اے موسیٰ کے گہرے پانیو۔ اے بے تاب لہرو۔ ذرا میرے دل میں آکر جھانکو۔ اے موسی تیری زندگی تو اسی حیدرآبادی میں گزری ہے، یہاں کے چپے چپے سے تیری شناسائی ہوگی۔ یہاں کی زندگی کا ہر ہر راز تیرے سینے میں دفن ہوگا۔ مجھے یہ تو بتا یہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ باپ، بیٹیوں کے دلوں کا خون بھی کر دیں۔ دولت کے بل پر اپنی بوڑھی رگوں کے لئے تازہ خون خرید لیں۔ کیا یہاں پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ کیا نیکی سچائی اور پیار کا کوئی مول نہیں۔ کوئی قیمت نہیں؟ میں ان اتھل پتھل لہروں سے جواب مانگتی ہوں۔ بولو۔ بولو۔ مگر نہیں۔ مجھے آج کوئی سوال کرنا نہیں ہے۔ مجھے تو آج صرف اپنی داستان سنائی ہے یہ دکھ، یہ کرب، یہ غم، میں اپنے سینے میں نہیں لے جانا چاہتی۔ میں پھول کی طرح ہلکی ہو جانا چاہتی ہوں۔

    اس دن میں اور بھائی میاں ضیا صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ خود کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ بارش زور شور سے ہو رہی تھی اور میں نے سردی سے بچنے کو اپنی ساڑی کا آنچل اپنے کانوں اور سرکے گرد لپیٹ لیا تھا۔ بیٹھے بیٹھے بھائی میاں نے مجھے دیکھا اور یونہی ہنس کر کہا۔ ’’مہر! خدا کی قسم تو خطر ناک حد تک حسین ہے۔ کوئی حیرت کی بات نہیں جو ضیا صاحب نے تجھے مانگ لیا۔ مجھے تو فرشتوں کے بارے میں بھی شک کرنا پڑےگا۔!‘‘

    میں نے ذرا جھینپ کر سر جھکا لیا۔ مگر دوسرے ہی لمحے مجھے پھر سے سر اتھانا پڑا۔ کیوں کہ دھڑ سے دروازہ کھلا اور۔۔۔

    ہم دونوں گھبراکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ ضیا صاحب نہیں تھے، کوئی اور تھا۔ آنے والے کی نگاہیں جیسے مجھ پر جم کر رہ گئیں اور خود میں بھی گھبرا کر بھائی میاں کو دیکھتی تھی کبھی آنے والے کو۔

    ’’آپ کی تعریف؟‘‘ آخر آنے والے نے بھائی میاں سے مخاطب ہو کر زبان کھولی۔

    ’’جی میں جمیل ہوں۔ ضیا صاحب میرے باس ہیں اور یہ۔۔۔ یہ میری بہن۔ مہر۔‘‘

    ’’سچ مچ مہر۔‘‘ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا اور بولا۔ ‘‘اور میں ضیا کا والد ہوں نواب آصف الدولہ۔ نام تو سنا ہوگا میرا؟ وہ مسکراکر کر میری طرف گھوما۔’’ حیدرآباد میں جتنی کوٹھیا میری ہیں۔ اتنی شائد ہی کسی نے بنوائی ہوں اور پھر کوٹھیوں کی کیا بات ہے۔ بزنس وغیرہ بھی چلتے ہی رہتے ہیں اور ضیا میاں کو جو کام میں نے سونپا ہے وہ بھی بس۔۔۔ وہ خود ہی مسکراکر رک گیا۔ مگر ہم دونوں میں سے کوئی نہ مسکرا سکا۔ پہلی ملاقات میں آتے ہی ایسی بےسرپیر کی ہانکنا۔ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ یہ سب کچھ سچ بھی ہو سکتا ہے۔ اتنے عجیب انداز میں تو کوئی اپنے متعلق نہیں بتاتا اور حد یہ کہ کسی نے جھوٹوں بھی نہ پوچھا تھا۔ پھر وہ کہےگا۔

    ’’جب کبھی اپنے بیٹے سے ملنے آتا ہوں تو بس یونہی اٹ چھٹ کر چلا آتا ہوں۔ نوکروں اور مصاحبوں کے جمگھٹے میں باہر نکلنا مجھے مطلق پسند نہیں۔ کار بھی خود ڈرائیو کرتا آیا ہوں۔ پورے ساٹھ ہزار کی ہے۔‘‘

    یقیناً یہ شخص پاگل ہے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ مگر اسے دیکھ کر میں اس قدر سہم گئی تھی کہ کچھ نہ کہی سکی۔

    تم میری باتیں غور سے سن تو رہے ہونا؟ ذرا دل لگا کر سنو خدا کی بنائی یہ دنیا کیسی ہے یہاں بسنے والے کیسے ہیں۔ تو تم جاننا چاہوگے ناکہ پھر آخر ہوا کیا۔ سنو اس بڈھے نے مجھے بھائی میاں سے مانگ لیا۔

    ترل۔ ترل۔ترل۔ یہ تمہارے سینے میں بےچینی کیسی؟ شاید تمہیں حیرت ہو رہی ہے۔ مگر آئیں حیرت کی کون سی بات ہے میرے شفیق اور مہربان دوست۔ یہ تو دنیا ہے، یہاں تو ایسا ہوتا ہی ہے اور جب بھائی میاں نے انکار کیا تو وہ سانپ پھن پھنا اٹھا۔ اس کے حرم میں شائد مجھ ایسی بے بس روح کی ہی کمی تھی۔ جو مجھ پر ہر ہر حربہ آزمانے پر تل گیا تھا اور پھر انسان نے انسان کے ساتھ شیطان کی سی چال چلی۔

    روپیہ۔ روپیہ۔ روپیہ۔ اس دنیا میں روپیہ کیا نہیں کر سکتا؟ کیا نہیں کر سکتا۔ محبت کی بولی لگوا سکتا ہے۔ پیار کا نیلام کروا سکتا ہے۔ بہن کی محبت بکوا سکتا ہے۔ تم جانود س ہزار روپے معمولی چیز تو نہیں ہوتے۔ بھائی میاں نے مجھے بہکانا شروع کیا۔ ’’مہرو۔ تو یہ سوچ زندگی بھر روپوں پر چلےگی۔ ضیا جو اتنا امیر ہے تو نواب صاحب کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا۔ نواب صاحب آسمان ہیں وہ پاتال ہے۔ تو تو ملکہ بن کر راج رجےگی۔ ہاں دیکھ انکار نہ کرنا۔‘‘

    میں کبھی غصہ کو چھپا کر ان کی طرف دیکھتی تو وہ میری سرخ رنگت کو شرم پر محمول کرتے۔ کیسی بے بسی تھی؟ ذرا سوچونا۔

    میں یہاں بھائی میاں کو الزام نہیں دوں گی۔ کیوں دوں؟ زندگی سے خوشیاں سمیٹنے کا حق ہر انسان کو ملنا چاہئیے۔ نہیں ملتا تو پھر وہ ٹیڑھے میڑھے راستے پر چلنا شروع کر دیتا ہے۔ بھائی میاں نے اب تک کیسی زندگی گزری تھی؟ ضیا نے صرف مجھے مانگا تھا۔ میرے دکھوں کو سمیٹ کر اپنے دل میں چھپانا چاہا تھا۔ بھائی میاں کے سکھوں کے لئے اس نے کیا قیمت ادا کی۔ یہ کچھ بھی تو نہیں۔ اگر انہیں یہاں کوئی فائدہ نظر آیا۔ تو کیا برا کیا۔ جو انھوں نے میری زندگی کی بولی اٹھا دی؟ یہ دنیا ہے میرے بوڑھے دوست۔ یہاں ایسا ہی ہونا چائیے۔

    بھائی میاں کے جسم پر اب بہترین کپڑے تھے۔ رہنے کو خوبصورت سا گھر اور زندگی کی ہر آسائش مہیا تھی۔ ایک دن نواب صاحب نے ہمیں خاص الخاص اپنے دولت کدے پر بلوایا تھا۔ ڈرائنگ روم میں داخل ہو کر جب ہم آگے بڑھے تو ایک لمحے کو میں چکرا گئی۔ کیا اس قید خانے (وہ خوبصورت ہی سہی) میں مجھے رہنا ہوگا؟ میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔ میرے خدا، یہاں لوگ کیسے رہ سکتے ہوں گے؟ اتنی اونچی اورہیبت ناک دیواریں۔ کس میں بوتا تھا کہ ان کو پھلانگے کے بارے میں سوچ بھی سکتا۔ نرم اور گہرے صوفے میں ایک بیگم بیٹھی ہوئی تھیں۔ بڑی رعونت سے دیکھتے ہوئے۔ بھائی میاں نے آگے بڑھ کر تعارف کروایا۔

    ’’ان سے ملو مہر۔ یہ نواب صاحب کی بیگم صاحبہ ہیں اور یہ میری بہن ہے مہر۔‘‘

    میرا خون جوش کھا گیا۔ یہ میرا سگا بھائی تھا۔ میرا ماں جایا۔ جو نواب کی بیگم سے میرا تعارف کروا رہا تھا۔ میں نے پھوں پھوں کرکے اس کی طرف دیکھا۔ مجھے اس کی جیب سے نوٹ جھانکتے نظر آئے۔ میں نے خود کو مطمئن کر لیا۔ ہاں، ہاں ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ ایسا ہی ہونا چائیے۔ اس کے آگے انسان سوچ بھی کیا سکتا ہے؟

    (تم میری باتیں غور سن تو رہے ہونا؟)

    پتہ نہیں کن کن موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ پھر پردہ اٹھا اور ایک بانکی طرح دار لڑکی کمرے میں داخل ہوئی۔ پتہ چلا وہ نواب صاحب کی بیٹی تھی، (جو عمر میں مجھ سے بھی بڑی تھی۔) اس نے لڑکوں کی طرح پتلون اور قمیص پہن رکھی تھی، سر کے بال پوڈل کٹ کی شکل میں تھے۔ وہ مزے میں سگرٹ پھونکے جا رہی تھی اور دھوئیں کے مارے میرا دم گھٹ رہا تھا۔ یوں تو ہم عورتوں کی زندگی دھوئیں میں ہی گزرتی ہے۔ مگر تم جانو یہ دھوواں تو دم گھونٹ دینے کے تلا ہوا تھا۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی اور وہ لڑکی اچھلی۔ اپنے ہونٹوں کا سگرٹ نکال کر اس نے جھٹ اپنی ماں کے منہ میں دے دیا۔

    ’’مما۔ تم ذرا اسے اسموک کرو۔ میں بھی آتا ہوں۔‘‘ مما خوشی خوشی سے اسموک کرنے لگیں۔

    میں نے لرز کر دیکھا۔ یہ کیسی تہذیب تھی؟۔ کیا میں اس ماحول میں جی سکتی تھی؟ میرا سانس رک رک کر چلنے لگا۔ بھائی میاں لہک لہک کر ہنس ہنس کر سبھوں سے باتیں کئے جا رہے تھے۔ میں وہاں تھی مگر نہیں تھی۔ مجھے ہوش آیا تو وہ لڑکا نما لڑکی کہہ رہی تھی۔

    ’’ہلو پپا! ایسا اسٹیچو ہم لوگاں میوزیم میں دیکھے تھے نا؟‘‘ اس کا اشارہ میری طرف تھا۔

    بھائی میاں نے اپنی بہن کے حسن کی تعریف کو بڑی خوش دلی اور فخر سے سنا اور سینہ تان کر مجھے دیکھنے لگے جیسے ’’اس مال کا حق دار تو میں ہی ہوں۔‘‘

    جب ہم باہر نکلے تو میرے قدم اس قدر وزنی ہو رہے تھے کہ مجھ سے چلتے نہ بن رہا تھا۔ دل و دماغ میں اس قدر کشمکش ہو رہی تھی۔ کیا کروں کیا نہ کروں؟ اکدم مجھے نواب صاحب کے مکر وہ چہرے اور بڑے برے دانتوں کا خیال آ گیا اور میں نے طے کر لیا کہ نہیں میں اپنے آپ کو کبھی نہیں بیچوں گی۔ کبھی نہیں۔ کبھی نہیں۔ اس موت سے موت کیا بری ہے؟

    میں نے بڑی ہمت کر کے، شرماتے، شرماتے، آہستگی سے بھائی میاں سے پوچھا۔

    ’’نواب صاحب کو معلوم نہیں کہ میری شادی ضیا صاحب سے ہونے والی ہے؟‘‘

    ’’معلوم کیسے نہیں ہے۔ میں نے انھیں پہلے ہی بتا دیا تھا۔ مگر وہ بات ادھوری چھوڑ یونہی رک گئے۔‘‘

    میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا۔ مگر اسی لمحہ مجھے کوٹ کی جیب سے نوٹ جھانکتے نظر آ گئے۔ میں نے سوچا ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ اس کے آگے انسان کچھ نہیں سوچ سکتا۔ عقل چٹ ہو جاتی ہے۔

    ’’تم میری باتیں غور سے سن تو رہے ہونا؟)‘‘

    گھر پہنچ کر بھائی میاں نے اماں سے میرے پیام کے بارے میں بات کی اماں بھی راضی جیسی تھیں۔ بیٹیاں تو اپنے گھر میں پھلتی پھولتی ہی بھلی لگتی ہیں اور ایسی بیٹیاں تو کبھی کبھار ہی جنم لیتی ہیں جو ماں باپ کا گھر بھی بھرتی جائیں۔ ورنہ بیٹیاں تو سدا گھر ہی خالی کرتی گئی ہیں۔

    اماں کسی کام سے اٹھ کر گئیں۔ تو میں نے اپنی ساری ہمت سمیٹی اور منہ سے آواز نکالی مگر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ وہ بات نہ تھی جو میں کہنے چلی تھی۔ میں کچھ بھی بک گئی۔ پھر سے میں نے ہمت جمع کی اور سوچا۔ یہ تو میری زندگی اور موت کا سوال ہے۔ خاموشی سے کچھ نہ بنےگا۔ مجھے کہہ دنیا ہی چاہئے اور میں نے پھر سے خود کو راضی کیا۔

    ’’بھائی میاں۔‘‘ میں دوسری طرف دیکھ رہی تھی۔ ان سے نظر ملانے کی ہمت مجھ میں نہ تھیں۔

    میں نے پھر تھوک نگلا اور بولی۔ ’’بھائی میاں۔‘‘

    پھر کچھ اس طرح جیسے لبلبی دبا دینے پر پھٹ سے گولی نکل پڑے، میں بول گئی۔‘‘ میں نواب صاحب سے شادی نہیں کروں گی۔‘‘

    میرے دل پر سے جیسے پہاڑ ہٹ گیا۔ بھائی میاں خلاف توقع یونہی بیٹھے رہے شائد وہ مجھے سوجھ بوجھ کی مہلت دے رہے تھے۔ بڑی دیر بعد بولے۔

    ’’مہر تم ابھی بچی ہو۔‘‘

    میں نے تیزی سے کہا۔ ’’بچی ہوتی تو یوں میرا سودا نہ ہوتا۔‘‘

    اب کے انھوں نے چونک کر دیکھا اور خود بھی تیزی سے بولے۔

    ’’بہت سمجھ دار ہو گئی ہو۔‘‘

    ’’جب بڑے نا سمجھ ہو جائیں تو چھوٹے خود بخود سمجھدار ہو جاتے ہیں۔‘‘ میں نے جل کر کہا۔

    ’’بک بک مت کرو۔ ’’وہ گرجے۔

    میں نے ان کی طرف دیکھا۔

    ’’بک بک تو آپ کر رہے ہیں۔ میں تو ہمیشہ سے ہی خاموشی طبیعت ہوں۔‘‘

    وہ تیزی سے اٹھے، مگر جانے کیا سوچ کر رک گئے۔ بولے۔

    ’’خیر آج نہیں تو کل تو جانے والی ٹھہری، اس لئے خاموش ہوا جاتا ہوں، ورنہ ابھی اس بک بک کا مطلب سمجھا دیتا۔‘‘

    ’’میں نے اسی لہجے میں مضبوطی سے کہا۔ میں نے کہہ دیا میں نواب صاحب سے شادی نہیں کروں گی۔ اس سے اچھا تو یہ ہے کہ انسان شیر کے ساتھ اس کے بھٹ میں جا رہے۔‘‘

    بھائی میرے قریب آئے اور خونخوار آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔

    ’’نہیں کرےگی نواب صاحب سے شادی؟ اور جو تیرے باپ کا گھر بھر دیا ہے نواب صاحب نے؟ یہ عیش و آسائش اور کہاں مل سکتی ہے نا سمجھ کتیا۔ بھول گئی کیا دو دن کے فاقے کرتی تھی، اندھیرے میں سوتی تھی۔ ننگی پھرتی تھی۔ اب رہنے کو گھر مل گیا۔ پہننے کو ریشم مل گیا اور پیٹ میں ترمال پہنچ گیا ہے تو اینٹھتی ہے حرامزادی۔‘‘

    تم سن رہے ہونا؟ یہ میرا بھائی تھا۔ سگا بھائی۔ جو مجھ سے یہ سب کچھ کہہ رہا تھا۔ میں نے حلبلا کر کہا۔

    ’’مجھے یہ سب کچھ نہیں چاہئے۔ مجھے اپنی وہی زندگی پسند ہے۔‘‘

    ’’ہے نافقیرنی۔ اپنی اصلیت پر ہی جانے والی۔ مگر اب میں تجھے نہ چھوڑوں گا۔‘‘

    میں اسی تیزی سے نہیں نہیں کہےگی اور بھائی میاں نے پیر سے جوتا نکال لیا۔ ان کا دم الٹ گیا۔ میرا جسم نیلا پڑ گیا اور میں بے سدھ ہوکر فرش پر گر پڑی۔

    ’’دیکھتا ہوں کیسے نہیں کرتی۔‘‘ جاتے جاتے وہ پھر سنا گئے۔

    پھر دھیرے دھیرے رات گزرنے لگی۔ چوٹوں سے میرا جسم درد کر رہا تھا۔ زخم رس رہے تھے اور چکر کے مارے سر نہ اٹھنا تھا۔

    ’’بھاگ چل۔ خدا کی اتنی بڑی دنیا میں تیرا کوئی تو ٹھکانا ہوگا۔ یہی وقت ہے۔ دیر نہ کر۔‘‘

    میں نے یہ پکار سنی اور سر اٹھاکر ادہر ادہر دیکھا۔ زیر و پاور کا بلب بڑی اداس روشنی بکھیر رہا تھا۔ اماں کا کمرہ پر لے سرے پر تھا۔ بھائی میاں کے کمرے سے خراٹوں کی آواز آ رہی تھی اور، اور۔۔۔

    میں نے دھیرے دھیرے خود کو سہارا دیا اور کسی صورت کھڑی ہو گئی۔ جسم ٹوٹا جا رہا تھا۔ آنسو بہے جارہے تھے اور سارا عالم ڈوبتا محسوس ہو رہا تھا۔ پھر میں نے دھیرے دھیرے اپنے جسم کو پیروں کے سہارے آگے بڑھانا شروع کیا۔ الوداع میری پیاری ماں۔ الوداع۔ میں نے کمرے کی طرف دیکھا، جہاں میری ماں سوئی ہوئی تھی۔ اپنے دل میں کئی ادھوری حسرتیں لئے۔ بیٹے کے بیاہ کی۔ بیٹی کی وداعی کی۔ پوتے کھلانے کی، نواسے جھلانے کی۔ آج یہ سب حسرتیں ہمیشگی کی نیند سو رہی ہیں، میری ماں الوداع۔

    بھائی میاں کے کمرے کی طرف منہ کرکے میں کی ک ہی دیر یونہی کھڑی رہی۔ اے مالک تونے عورت کے سینے میں اتنا درد کیوں بھر دیا؟ جو اسے دکھ دیتا ہے، اسے ہی پیار کرتی ہے۔ جو اس سے نفرت کرتا ہے۔ اسی سے محبت کرتی ہے۔ تونے عورت کا دل بہن کا دل اتنا درد مند کیوں بنایا؟ الوداع میرے بھیا۔ الوداع۔ زخموں کے نشان جب تک میرے جسم پر رہیں گے، پھول بن بن کر مہکیں گے اور تمہاری یاد دلائیں گے۔ آج تمہارا پیار دولت کے انبار تلے دب گیا ہے۔ مگر کبھی تو تمہیں اس دل کی یاد آئےگی۔ جس کی ایک ایک ادا پر تم دل سے ہنستے تھے، خوش ہوتے تھے، پیار کرتے تھے، مسکراتے تھے۔ الوداع دروازے سے سر لگا کر میں کتنی ہی دیر کھڑی رہی۔ رات آہستہ آہستہ یوں جا رہی تھی جیسے کوئی دلہن میکے سے پہلی بار سسرال کو چلے۔ قدموں میں وہی بوجھل پن۔ دل میں وہی غم۔ آنکھوں میں وہی ستارے۔ آج دو دلہنیں اپنے اپنے میکوں سے ٹوٹ رہی تھیں۔ اے رات تیرا پیا تو افق کے اس پار تیرا منظرن ہے۔ تیر اپیا تو سورج کا تلک لئے تیری راہ تک رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تو محبت کی دہلیز پر قدم دھڑےگی اور تیری زندگی میں صبح کا نور بھر جائے۔ مگر میں؟ میں کون سے پیا کی منتظر ہوں؟ میری پیشانی پر کون سے سورج کا ٹیکا جھمکےگا؟ میں کون دیش جا رہی ہوں؟ غم کی ڈولتی پر چھائیوں کے ساتھ ساتھ میرے دل میں پیار کی روشنی، امیدوں کی کرنیں اور محبت کے پھول کیوں نہیں مہک رہے ہیں؟ میں کہاں جا رہی ہوں۔ کہاں؟

    میں نے ایک بار پیچھے پلٹ کر دیکھا اور پھر آگے بڑھتی چلی گئی۔ تو سنا تم نے؟ میں گھر سے نکل گئی اور آج مجھے گھر سے نکلے پانچواں دن ہے۔ پانچواں! اور ان پانچ دنوں میں زندگی سے جی بھر گیا ہے۔ ان پانچ دنوں کی کہانی بھی تمہیں سنا دوں۔ پھر میرا دل ہلکا ہو جائےگا۔ پھر مجھے یہ غم نہیں رہےگا کہ دنیا میں کسی نے میری داستان غم نہ سنی کہ ایک لمحے کو ہی سہی، جی ہلکا تو ہو جاتا۔ تم میری باتیں غور سے سن تو رہے ہونا؟

    میں گھر سے نکل تو گیس مگر معلوم نہ تھا کہ کہاں جاؤں گی۔ کدھر جاؤں گی۔ ایک نوجوان اور خوبصورت عورت کے لے دنیا میں جگہ ہو بھی کہاں سکتی ہے؟ میں صبح تک چلتی رہی۔ جب سورج نے ہر طرف روشنی بکھیرنی شروع کی، میں ایک نل کے پاس کھڑی تھی۔ میں نے چلووں میں پانی لے لے کر اپنا چہر دھویا اور جب گرد آلود بال چھٹکانے لگی۔ تونل کے پاس کھڑی عورتیں مجھ سے پوچھنے لگیں۔

    ’’کیا تم عورت ہو؟‘‘

    میں ہنسنے لگی۔ عورت ہوں اسی لئے تو یہ دکھ اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ میں نے دل میں سوچا۔

    ’’میری ہنسی پر وہ اور حیرت زدہ ہوئیں اور آپس میں بولنے لگیں۔‘‘ صبح آوارہ روحیں بھٹکا کرتی ہیں۔ یہ تو کوئی ہم تم جیسی عورت نہیں معلوم پڑتی جی۔ ‘‘اور وہ اپنے اپنے مٹکے گھڑے اٹھائے گھروں کو بھاگنے لگیں۔ مجھے پھر ہنس آگئی۔ آج سارا زمانہ مجھ سے دور بھاگ رہا ہے۔ میرے دل نے درد کے ساتھ سوچا۔ میں نے آواز دی۔ میں روح نہیں ہوں ایک دکھیا عورت ہوں۔ میری بات تو سن لو۔ میرے دل کا درد تو دیکھ لو۔’’ مگر وہ پیچھے نہ پلٹیں۔ میں ہی آگے بڑھ گئی۔

    میں ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتی بڑھتی رہی، چلیر رہی۔ ایک آدمی نے مجھے دیکھ کر آنکھ ماری۔ میں دکھ سے مسکرادی۔ عورت کے لئے کہیں جائے فرار نہیں۔ یہاں ہر آدمی نواب ہے جوپیسے دے کر عورت کو خرید لینا چاہتا ہے۔ میں اس کے قریب پہنچی اور کمزور آواز سے بولی۔

    ’’بھائی صاحب آپ۔۔۔‘‘

    ’’اس نے ذرا غور سے میری صورت دیکھی اور پھر بوکھلا کر پلٹ گیا۔’’ ہونہہ۔ بھائی صاحب۔

    دنیا کس قدر گندی جگہ ہے۔ دیکھا تم نے؟ ایک مرد ایک عورت کو آنکھ مار کر اشارہ کر سکتا ہے کہ چل میرے ساتھ۔ لیکن عورت اگر اسے بھائی کا سا پوتر رشتہ لگا کر سہارا مانگتی ہے تو وہ ہونہہ کہہ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔

    میں نے پھر اپنے بےجان قدم بڑھائے۔ اتنے دنوں گھر کی چار دیواری میں بیٹھی رہی، چلو آج موقع ہاتھ آیا ہے تو دنیا اور دنیا والوں کی ایک نظر دیکھ تو لوں اور میں پھر چلنے لگی۔ صبح سے دوپہر ہوئی، دوپہرے سے شام اور شام کے بعد رات آئی اور پھر سے میرے زخم جاگنے لگے۔ یہ زندگی کی پہلی رات تھی کہ میں اپنے گھر سے، اپنی ماں سے، اپنے بھائی سے دور رہ کر سو رہی تھی۔ مگر کہاں؟ چلتے چلتے میں قبرستان تک آ نکلی تھی۔ میں نے سوچا ہم جیسوں کا سب سے اچھا گھر تو یہیں بن سکتا ہے۔ مگر میں نے کہا نا کہ غریبوں کے لئے جینے کی تو کوئی راہ ہے ہی نہیں، مگر مرنے کی بھی راہ نہیں۔ زندگی اپنے بس کی نہیں۔ موت بھی بس کی نہیں۔ چھوٹی بڑی قبروں کے بیچ میں وہیں لیٹ گئی اور کوئی موقع ہوتا تو شائد میں ڈر سے لرز لرز جاتی۔ مگر آج کی بات اور تھی۔ پے در پے صدموں اور تنہائیوں نے جیسے ڈر کا احساس ہی چھین لیا تھا اور میں یوں مزے سے قبر کے پہلو بہ پہلو لیٹی تھی جیسے سہاگرات منا رہی ہوں۔

    پھر صبح ہو گئی۔ مگر میری زندگی کی صبح کہاں تھی؟ اور کون جانے میرے نصیبوں میں کتنی راتوں کی سیاہی لکھی ہوئی تھی؟ بھوک سے میری چال ڈگمگا رہی تھی۔ آنکھوں میں سیاہ دھبے ناچ رہے تھے اور چکر کے مارے قدم اٹھانا محال تھا مگر میں چلی جا رہی تھی۔ ایک جگہ جا کر میں ٹھٹھک گئی۔ بہت سارے مرد بچے اور چند عورتیں کسی کو گھیرے میں لئے کھڑی تھیں۔ میں نے جگہ بنا کر جھانک کر دیکھا۔ گھنگھرؤں کی تال پر کوئی الھڑی سی عورت چھم چھم ناچ رہی تھی اور کوئی کوئی دل والا آنے دو آنے بھی پھینک دیتا تھا۔

    ’’ہاں زندگی کا ایک روپ یہ بھی ہے۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر سوچا اور پھر بہکے بہکے قدم اٹھانے لگی۔ بڑی دیر چلتے رہنے کے بعد آخر میں ایک نیم کے نیچے بیھا گئی۔۔۔ ‘‘ناچنا شروع کر دوں؟‘‘ میں نے بہت صلاحیت کے ساتھ سوچا۔ پھر خیال آیا عورت ہوکر زندہ رہنا ہی مصیبت ہے۔ دل والے مجھے کب زندہ چھوڑیں گے؟ اس عورت کی بات اور تھی، اس کے ساتھ اس کا ایک رکھوالا بھی تو تھا۔ عورت کے لئے رکھوالے کا وجود بھی کس قدر ضروری ہے؟ بغیر سہارے کے تو یہاں پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔

    اف۔ میں کس قدر نیچ ہو گئی ہوں۔ سڑکوں پر ناچنا؟! بھلا کس نے ایسی ذلیل بات سوچی بھی ہوگی؟ اف یہ پیٹ!!

    بھوک شدید، احساس پھر سے جاگنے لگا اور میں للچائی نگاہوں سے اس فقیر کو دیکھنے لگی جو ابھی ابھی پتے کے دونے میں سالن لئے چپڑ چپڑ روٹی سے کھا رہا تھا۔ میں نے بہت دیر تک اسے دیکھا۔ مگر اس نے میرا کوئی نوٹس نہ لیا۔ شاید وہ صورت سے مجھے کوئی بہت امیر کبیر لڑکی سمجھ رہا ہوگا۔ بڑی دیر بعد میں نے کچھ اس انداز میں، جیسے اپنے آپ سے مخاطب ہوں کہنا شروع کیا۔ (مگر دراصل میں اس فقیر سے مخاطب تھی۔)

    ’’میں بڑی دکھیا ہوں۔۔۔‘‘

    اس نے ایک لمحے کو حیرت سے میری طرف دیکھا، پھر دوسرے ہی لمحے ٹانگیں جھاڑتا ہوا یہ کہہ کر چل دیا۔ ’’اونہہ یہاں سبھی دکھی ہیں۔ کون کس کا دکھڑا سنتا پھرے۔‘‘

    میں اس جگہ گئی جہاں وہ بیٹھا تھا۔ روٹی کے چند ٹکڑے ادھر ادھر گر گئے تھے۔ میں نے جلدی جلدی ہاتھ مار کر سمیٹے اور ندیدوں کی طرح منہ میں بھرنے لگی۔

    ’’تم میری باتیں غور سے سن تو رہے ہونا؟ ہاں یہ میں تھی میں۔ جو ایک فقیر کے آگے کے ٹکڑے چن چن کر کھا رہی تھی۔ مگر مجھے اب حیرت نہیں ہوتی کیوں کہ اس دنیا میں رہ کر میں نے جانا ہے کہ انسان کو ذلیل کرنے والا یہ پیٹ ہی تو ہوتا ہے۔ خالی پیٹ۔‘‘ اور یہ نہ بھولو کہ اس لمحہ میرا پیٹ بھی خالی تھا۔

    یہ دوسرا دن تھا جو میں گھر سے الگ تھی۔ چند ٹکرے کھا کر میری آگ اور بھڑک گئی۔ پتہ نہیں کیا جی چاہ رہا تھا۔ کسے پھاڑ ڈالوں۔ میں دیوانوں کی طرح ادھر ادھر دیکھتی بڑھی۔ ایک جگہ کچرے کے ڈبے کے پاس کیلے کے چھلکے پرے ہوئے تھے۔ میں نے بغیر کسی تکلف یا شرم کے وہ چھلےا اٹھائے اور جلدی جلدی منہ چلانے لگی۔ اب میں پھر اسی نیم تلے آ بیٹھی تھی اور راہگیر مجھے آتے جاتے بڑی شوق بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ایک موٹے سے سیھ نے مجھے حد درجہ مکروہ انداز میں آنکھ مار کر دیکھا۔ میں نے متزلزل ہو کر اسے دیکھا۔ پارسائی اور بےحیائی میں بڑی کشمکش ہو رہی تھی۔ کوئی ادھر کھینچ لیتا کوئی ادھر۔ میں بیچ میں ادھ مری بیٹھی تھی۔

    چھی چھی چھی۔ یہ میں کیا سوچنے لگی۔ کیا میں اتنی نیچ تھی؟ کیا زندہ رہنا ایسا ہی ضرور ہے؟ کیا پیٹ کے لئے انسان اتنا بھی نیچ ہو جایا کرتا ہے۔ مہر کیا یہ تم سوچ رہی ہو تم۔ تم اپنی خاندانی روایات بھول گئیں۔ دلی کی تمہاری شاندار حویلی۔ تمہارے گھرانے کی وہ عزت۔ تمہاری وہ لوگوں کے لئے قابل تقلید زندگی۔ اب تم اپنا جسم بیچوگی؟ ہر رات ایک نئی سیج سجا کر، نئے نئے مردوں کے ساتھ سویا کروگی؟ میں نے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں بھر لیں۔

    ’’نہیں نہیں میں نے کبھی اس کے متعلق سوچا بھی نہیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ بند کرو یہ بکواس۔‘‘

    ’’اور پھر سب کچھ جیسے ساکت ہو گیا۔ بیٹھے بیٹھے ہی جانے کتنے جگ بیت چلے۔ مگر وہ تصور کی دنیا تھی۔ حقیقت تو یہ تھی کہ صرف سہ پہر کا وقت بیت رہا تھا۔‘‘ اور دھوپیں ترچھی ہو رہی تھیں۔ میں بلا کسی ارادے اور مقصد کے یونہی بےدلی سے اٹھی اور چلنے لگی۔ رکی تو میں ایک ہاسپٹل کے سامنے تھی۔ مریضوں کے رشتے دار آ جا رہے تھے اور کسی کو اتنی فرصت نہ تھی کہ دو گھڑی کو رک کر میرا حال بھی پوچھ لیتا۔ اب دل برداشت کی حد سے اس طرح باہر ہو رہا تھا کہ جی چاہتا تھا کہ چلا چلاکر ساری دنیا کو سنا دوں۔ دیکھو میرے دل کے گھاؤ دیکھو۔ میں وہ بدنصیب لڑکی ہوں جسے اس کے سگے گھائی نے بیچ دیا۔ دیکھو روپے کی طاقت کیسی ہوتی ہے کہ ماں جایا۔ ایک بہن کے جسم سے خون کے فوارے اڑا دیتا ہے اور یہ پیٹ کی آگ۔۔۔ مگر کوئی نہ تھا۔ کوئی نہ تھا۔ چپراسی نے مجھے وہاں رکا دیکھ کر پوچھا۔

    ’’اے لڑکی۔ تم وہاں کیوں کھڑی ہو۔‘‘

    میں نے خوشی خوشی زبان کھولی۔ ’’بابا۔ میرا اس دنیا میں اب۔۔۔‘‘

    ’’یہاں ہم لوگوں کے دکھڑے سننے نہیں کھڑے جی۔ ہسپتال میں جانا ہے تو جاؤ، ورنہ راستہ چھوڑ دو۔ موٹریں آ رہی ہیں۔‘‘

    تو یہاں کوئی بھی نہیں جو کسی بےکس کی ہائے ہی سن لے۔ یہ کسی دنیا ہے مولیٰ تیری۔ یہ کیسی زندگی ہے خداوندا؟ میں وہیں پرے ہٹ کر ایک کھمبے سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔

    میری زندگی میں آوارگی کا کوئی گزر نہ تھا۔ ورنہ ممکن تھا کہ میں بھی اپنے لئے کوئی راستہ ڈھونڈ ہی لیتی۔ مگر میں نے تم سے بتایا ناکہ میں ایک شریف اور اعلی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ بدچلنی کا میرے پاس ایک سرے سے کوئی تصور ہی نہیں۔ اپنا جسم بیچ کر اپنے دوزخ کی آگ بجھانا۔ اس فلسفے کو ماننے کی میرے دل میں تاب نہیں۔

    میں پھر چلنے لگی۔ چلتے چلتے میں شہر کے پررونق بازار میں آ گئی۔ ہر طرف رنگ و بو کا سیلاب تھا۔ موٹریں اڑ رہی تھیں۔ عورتیں زرق برق کپڑے پہنے اتراتی پھر رہی تھیں، آدمیوں کا ہجوم تھا کہ بس چلا جا رہا تھا۔ ایک دریا کی مانند روادواں۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے دو چار موٹریں رکیں۔ اسی طرح کھمبوں کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی عورتوں کو اشارے سے پاس بلایا گیا اور موٹر زوں زوں، یہ جاوہ جا۔

    ’’بیٹھ جاؤں میں بھی کسی موٹر میں؟‘‘ میں نے دل سے سر گوشی کی؟ چھی چھی چھی۔ ایسا سوچنا بھی پاپ ہے۔ یہاں تو میں بس اس لئے کھڑی ہوں کہ زندگی کا تماشا دیکھوں۔

    میں جانے کب تک تماشا دیکھتی رہتی کہ اکدم کسی نے میرا کندھا تھپ تھپا کر کہا۔ ’’کیا آپ چند لمحے میرے ساتھ گزار سکتی ہیں؟‘‘

    میں نے لرز کر دیکھا۔ ایک ادھیڑ عمر کا شخص تھا۔ نیلے سرخ کے سوت میں ملبوس۔ سر کے بالوں میں اکا دکا سفید بال بھی چمک رہا تھا۔ اونچا اور چہرے پر عجب بے کسی چھائی ہوئی۔ میں نے پھر اسے غور سے دیکھا۔ اس کے تیور آوارہ گردوں کے سے نہ تھے۔ وہ خود بھی مصیبت کا مارا دکھائی دے رہا تھا۔

    ’’میں آپ ہی سے مخاطب ہوں۔‘‘ وہ بڑی شائستگی سے بولا۔ ’’کیا آپ چند لمحوں کے لئے چل کر اس ہوٹل میں میرے ساتھ بیٹھ سکیں گی؟‘‘

    میں نے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکالا اور جدھر اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا تھا، ادھر چلنے لگی۔

    ہم دونوں ایک ہوٹل میں داخل ہو گئے اور اس نے آگے بڑھ کر میرے لئے کرسی کھینچی اور خود بھی ایک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔

    زندگی کا یہ پہلا موقع تھا کہ میں کسی ہوٹل میں آئی تھی۔ میں حیران حیران نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ چھت پر بجلی کے پنکھے چل رہے تھے۔ سارے میں کپوں اور برتنوں کی کھڑ کھڑ ہو رہی تھی۔ سگرٹ اور سگارے کے دھوئیں بگولے کھا رہے تھے اور ٹھنڈی روشنیوں میں یہ سب کچھ عجیب خواب کی سی بات لگ رہی تھی۔ ہمارے اطراف چند مرد بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ جیسے ہی انھوں نے مجھے دیکھا مسکرا مسکراکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

    شاید میرے کپڑوں کی ہنسی اڑا رہے ہوں۔ میں نے دل میں سوچا اور بوکھلا کر نگاہیں جھکا لیں۔

    اس شخص نے بوائے کو جانے کیا کیا الابلا لانے کا حکم دے دیا تھا اور اب میز لدی ہوئی تھی اور میری آنکھوں میں جیسے ستارے ناچ رہے تھے۔ اس نے محض تکلفاً ’’لیجئے نا۔‘‘ کہا اور میں جیسے پل پڑی۔

    وہ دھیمے سروں میں گویا ہوا۔

    ’’آپ جانتی ہیں میں آپ کو یہاں کس لئے لایا ہوں؟‘‘

    اس کے اس جملے پر مجھے اپنے سارے دکھ یاد آ گئے۔ میرا تیزی سے کام کرتا ہاتھ رک گیا اور میں بے بسی سے بولی۔

    ’’میں بہت بدنصیب لڑکی ہوں۔ آپ نہیں سمجھ سکتے کہ میں کن مصیبتوں میں گھری ہوں۔۔۔‘‘

    ’’اس نے میری بات یونہی کاٹ دی۔‘‘ آپ اپنے دکھ ایک لمحے کو اپنے ہی دل میں محفوظ رکھیئے پہلے میری بات سنیے۔

    مگر میں اس کی بات نہیں سن رہی تھی۔ کوئی بھی ایسا دل والا نہیں ملتا جو کسی غم نصیب کے دکھ کو اپنے سینے میں منتقل کر لے۔ وہ مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا۔

    ’’آپ جانتی ہیں میں آپ کو یہاں کس لئے لایا ہوں؟ آپ جیسی عورتوں کو رات گزارنے کو تو بہت سے مرد لے جاتے ہوں گے مگر۔۔۔ مگر اس کے بعد میں نے کچھ نہ سنا۔ آپ جیسی عورتیں۔ آپ جیسی عورتیں۔ آپ جیسی عورتیں۔۔۔‘‘

    ہوٹل میں جیسے طوفان آ گیا تھا۔ بادلوں کی گرج اور جہازوں کی کھڑکھڑاہٹ سے بھی بڑھ کر کوئی گونج گرج تھی۔ جو مجھے ہلا رہی تھی۔ تھرا رہی تھی۔

    آپ جیسی عورتیں۔۔۔

    آپ جیسی عورتیں۔۔۔

    میں نے کانوں پر اپنے ہاتھ رکھ لئے اور تیزی سے اٹھ بھاگی۔ بھاگتے میں میز پر سے دو تین طشتریاں اور کپ لڑھک گئے اور برتنوں کے شور اور قہقہوں کی گونج میں، میں بھاگتی ہی چلی گئی۔ باہر آکر میں نے لمبی سانس لی۔

    یہ میری پارسائی اکا انعام تھا۔ یہ میری ریاضت اور پاکیزگی کا صلہ تھا۔ یہ دنیا جہاں دلوں کا درد کوئی نہیں دیکھتا۔ تسلی کے دو بول کوئی نہیں کہتا مگر جہاں الزام خوب تراشے جاتے ہیں۔ عزتیں لوٹی جاتی ہیں۔ کہاں جاؤں؟ کہاں جاؤں۔

    میں نے بےبسی سے آسان کی طرف دیکھا۔ آسمان روشن تھا۔ پاس پاس ستاروں کے گچھے چمک رہے تھے اور ان سبھوں کے بیچ میں چاند تھا جو تیرتا چلا جا رہا تھا۔ اپنی منزل کی طرف۔

    ’’مجھے بھی روشنی دے دے۔ مجھے بھی اجالے دے دے۔‘‘ میں دکھے دل کو تھام کر بےبسی سے بولی۔ میں بھی اپنی منزل کو جانا چاہتی ہوں۔ مجھے روشنی چاہئے۔ مجھے زندگی چاہئے۔

    اور میں وہیں گھٹنوں میں سر دبائے بیٹھ گئی اور پھر میں نے کچھ یوں محسوس کیا جیسے میں زمین پر گری جا رہی ہوں۔ میرے کانوں میں شور کی آوازیں اور راہگیروں کے قہقہے، ہلکے اور ہلکے اور ہلکے ہوئے جا رہے تھے۔ میرے سامنے ہسپتال کی بلند و بالا دیواریں تھیں اور۔۔۔ پھر کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا۔

    آنکھ کھلی تو میں نے خود کو ایک بستر پر پایا۔ میں ہسپتال کے بستر پر پڑی ہوئی تھی۔ سفید سفید لباس پہنے ٹک ٹک کرتی نرسیں۔ ادھر ادھر، ادھر سے ادھر آ جا رہی تھیں اسٹیھتسکوپ گلے میں ڈالے، ڈاکٹر، مریضوں پر مہربان نظریں ڈالتے ہوئے آ جا رہے تھے۔ ایک نرس قریب سے گزری تو میں نے پوچھا۔

    ’’مجھے یہاں کس نے لاکر ڈال دیا ہے؟‘‘

    نرس رک کر بولی۔ ’’ہمارے کونئیں مالوم۔ مریضوں کو ادھر سے اڈمٹ کرتے۔ کوئی تمہارے بھائی بند ہی لاکر ڈالے ہوں گے۔‘‘

    ’’میرا بھائی بند۔ ہونہہ! ایک زہر خند مسکراہٹ میرے لبوں پر پھیل گئی۔‘‘

    دو دن میں نے ہاسپٹل میں کاٹے۔ نرسیں مشین کی طرح مصروف رہتیں۔ ڈاکٹر ٹائم سے آتے اور جلدی جلدی چلے جاتے۔ بازو کے بیڈ والے پیشنٹ کو اپنی ہائے ہائے سے فرصت نہ تھی، پورا وارڈ ہی آہوں اور کراہوں کا مسکن تھا۔ کون کس کا دکھ سننے چلا تھا۔

    ایک دن میں نے ڈاکٹر کے کوٹ کا دامن تھام ہی لیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب۔ میرے دل میں ہر دم اک آگ لگی رہتی ہے۔ اس آگ کو بجھانے کی کوئی صورت بھی ہے؟‘‘

    ڈاکٹر صاحب نے نرس کو آواز دی۔ ’’سسٹر! ٹمپریچرلو۔ دماغ پر گرمی کا اثر معلوم ہوتا ہے۔ برا رہی۔‘‘ میں نے تکئے پر سر پٹخ دیا۔

    ’’میں پاگل نہیں ہوں۔ میرے دماغ پر گرمی نہیں ہے۔ میں سب کچھ سوچ سمجھ سکتی ہوں۔ سب جانتی ہوں، بوجھتی ہوں مگر میں کہتی ہوں کوئی مجھ سے کبھی ہمدردی بھی جتائےگا۔ یا میں یونہی مر جاؤں گی؟‘‘

    نرس نے آکر لال شال سر سے پیر تک اوڑھا دی۔

    ’’اتا پکارا مت کرو بی بی۔ دوسرے پیشنٹ جاگ جائیں گے۔‘‘ اور وہ میرے منہ میں تھرمامیٹر کی نلکی دے کر چلی گئی۔

    میں نے تھرما میٹر منہ سے نکال کر رکھ دیا اور جب نرس آئی تو اس سے بڑی لجاجت سے بولی۔ ‘‘مجھے کھانا چاہیئے۔ بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

    ’’اتے بخار میں کھانا نہیں دیا کرتے۔ چین سے سو جاؤ۔ اٹھے بعد دودھ پی لینا موسمبی یہ رکھی ہے۔‘‘ اور وہ پیر پٹخنی چلی گئی۔

    میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ ڈاکٹروں کی راؤنڈ کا ٹائم ختم ہو چکا تھا۔ نرسیں اپنے اپنے کاموں میں تھیں۔ مریض بستروں پر پڑے پڑے ہائے وائے کر رہے تھے۔ پورے وارڈ میں عجیب سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ کیسی غیر دلچسپ زندگی ہے خدایا۔ دو ایک دن میں ڈسچارج ہو جاؤں گی۔ پھر وہی زندگی اور زندگی کے ستم۔ یہ دو دن کا آرام بھی کون بھلا لگ رہا ہے مجھے؟ میں نے پڑے پڑے موسمبی کھائی اور دھیرے دھیرے اپنے جسم کو اٹھ بیٹھنے پر آمادہ کیا۔ بڑے سے وارڈ میں سے ہلکے ہلکے قدم اٹھاتی میں باہر نکل آئی، دروازے پر چپراسی نے پوچھا۔

    ’’کہاں جا رہی ہو۔‘‘

    ’’گھر۔‘‘ میں ایک ہی لفظ بول سکی اور اس ایک لفظ نے پھر میرے دل میں غم ہی غم بھر دیا۔

    وہ غیر یقینی انداز میں بولا۔ ’’مگر ٹکٹ کہاں ہے؟‘‘

    میں چڑ کر بولی۔ ’’تو کیا میں یونہی بھاگی جا رہی ہوں؟‘‘

    میرے لہجے سے وہ ذرا سہم گیا اور بازو ہٹ گیا۔ میں دھیرے دھیرے ہسپتال کے گیٹ سے باہر نکل گئی۔

    اور آج پانچواں دن ہے کہ میں گھر سے باہر ہوں۔ اس گھر سے بھی جہاں میں اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ رہتی تھی اور اس گھر سے بھی جہاں تصور ہی میں سہی مگر میں اپنے شوہر اور چھ بچوں کے ساتھ سکون سے رہتی تھی۔ گھر! جس کی لال اینٹوں کی دیواریں تھیں اور جس کے پھاٹک پر بوگیں دیلیا کے ترمزی رنگ کے پھول، ہرے ہرے پتوں میں چھپے مسکراتے جھومتے تھے۔

    تم میری باتیں غور سے سن تو رہے ہو نا؟

    وہی حیدر آباد کی سڑکیں تھیں۔ وہی راہگیر۔ وہی چہل پہل اور وہی میں، جس کا دل قبرستان تھا۔ جہاں کئی آرزوئین پہلو بہ پہلو سو رہی تھیں۔ جنھیں خدا کا ہاتھ بھی زندہ نہیں کر سکتا تھا۔ میں بھوک سے نڈھال تھی۔ میرا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ میری ساڑھی دھول اور گرد سے اٹ گئی تھی۔ میرا دل دکھی تھا، جسم بےجان اور میرے آس پاس مکروہ چہرے تھے اور بھوکی نگاہیں۔ دل جیسے بار بار سمجھاتا تھا۔

    ایک ہی راستہ ہے۔ ایک ہی راستہ ہے۔ چل پڑو۔ چل پڑو۔ پھر نہ دکھ ہوں گے نہ غم۔ بس خوشیاں ہی خوشیاں۔ ہاں ایک ہی راستہ ہے۔۔۔

    کیا اس راستے کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں ہے؟ کیا دنیا میں ایک بے سہارا عورت کے لئے سوائے چکلے کے اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہے؟ کیا سارے راستے اسی منزل پر آکر ختم ہوتے ہیں؟ اور یوں ہی قدم اٹھاتے اٹھاتے میں تم تک آ پہنچی اور جیسے میرے دل میں ایک ساتھ کئی چراغ جل اٹھے۔

    ’’ارے! مجھے پتہ ہی نہ تھا۔ تم سے بڑھ کر اور کون منزل ہو سکتی ہے؟ تم نے کتنوں کو سہارا دیا ہے؟ کتنوں کے غموں کی پردہ پوشی کی ہے، کتنی آنکھوں کی فریادیں سنی ہیں۔ کتنے دکھوں کو اپنے دل میں جگہ دی ہے۔ میں۔ میں بھی تو اسی درد کی ماری ہوئی ہوں۔ مجھے بھی تو یہاں پناہ مل سکتی ہے نا۔ اے دریائے موسیٰ۔ اے مہربان!‘‘

    میں نے اپنے گرد آلود پاؤں پانی میں ڈال دیئے اور تم سے باتیں کرنے لگی۔ انسانوں کے دلوں سے اچھا تو تمہارا دل ہے۔ تم میری پکار اور غم زدہ آواز سن کر بھاگے نہیں۔ ورنہ یہاں کون کسی کا دکھ سمیٹتا ہے۔ تم اسی متانت اور سکون سے بہہ رہے ہو۔ تمہارے دل میں ساروں کے غم سمیٹ کر بھر لینے کی وسعت ہے اور وں کی طرح تم نے بےزار ہوکر منہ نہیں پھیرا۔ ہاتھ نہیں جھٹکا۔ طعنے نہیں دئیے اور غور سے میری باتیں سنتے رہے۔

    کچھ یوں لگ رہا ہے جیسے میں خواب دیکھ رہی ہوں۔ ہاں ایسی اوٹ پٹانگ باتیں بس خواب میں ہی تو نظر آتی ہیں۔ رستی بستی زندگیاں اور کیسے اجڑا کرتی ہیں؟ تمہارا یہ سکون تمہاری یہ خامشی۔ کیا سچ تم نے میری باتیں غور سے سنی ہیں۔

    ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ مجھ ایسی لڑکی کے لئے آج کی ترقی یافتہ دنیامیں اور کون راستہ تھا؟ اور کون منزل ہو سکتی تھی؟ میں نے تو بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہے اور اب میں کس قدر خوش ہوں۔ میں اب دھیرے دھیرے پانی میں اتر رہی ہوں، ٹھنڈا پانی میرے جسم کو چھو رہا ہے اور میں زندگی سے قریب اور قریب اور قریب ہوتی جا رہی ہوں۔

    مأخذ:

    آیا بسنت سکھی (Pg. 109)

    • مصنف: واجدہ تبسم
      • ناشر: اشفاق احمد
      • سن اشاعت: 1974

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے