الاؤ

MORE BYسہیل عظیم آبادی

    گاؤں سے پورب ایک بڑا سا میدان ہے۔ کھیت کی سطح سے کچھ اونچا اور چورس۔ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے زمانے میں کسی راجہ کا یہاں پر راج محل تھا، اسی کی مٹی اور اینٹ سے زمین اونچی ہو گئی ہے۔ میدان کے پوربی کنارے پر پیپل اور برگد کے پیڑ ہیں اور اس کے بعد کھیت، اتر طرف ناگ پھنی کی گھنی اور لمبی قطار ہے، اس کے بیچ بیچ میں کوئی نیم یا پاکڑ کے پیڑ، اور اس کے بعد کھیت۔

    دکھن میں ایک کنارے پر ایک پیپل کا پیڑ ہے، اس کے پاس ہی ایک کنواں پھر کھیت، پورب دکھن کونے پر ایک بڑا سا گڑھا ہے جس میں برسات کا پانی جمع ہوکر کئی مہینے رہا کرتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ راج محل کا یہ پوکھر تھا، اس میں رانی اپنی سہیلیوں کے ساتھ نہایا کرتی تھی۔ نہانے سے پہلے پوکھر میں گلاب کا عرق ڈال دیا جاتا تھا، جس کی مہک دور دور تک پھیل جاتی تھی، چاندنی راتوں میں راجہ اور رانی دونوں ناؤ پر اس پوکھر میں سیر کیا کرتے تھے، یہ پوکھر بہت بڑا تھا، بھرتے بھرتے بھر گیا اور جو نشان باقی رہ گیا ہے وہ بھی راجہ اور راج محل کی طرح مٹ جائےگا۔

    گاؤں میں اب کسان ہی کسان رہتے ہیں، پرجا ہی پرجا۔۔۔ راجہ کو مرے، برباد ہوئے تو زمانہ بیت گیا، اس کا راج محل تو میدان ہے۔ یہ میدان گاؤں والوں کے لئے سب کچھ ہے، ہر روز سارے گاؤں کے ڈھور اس میدان میں جمع ہوتے ہیں، لوگ اپنی اپنی بھینسوں کو کنوئیں پر دھوتے ہیں، پھر گھر لے جاتے ہیں، فصل کٹنے پر کھلیان لگاتے ہیں، روکھ پیڑ نے کو کولھو بٹھاتے اور کولہو سار بناتے ہیں، گاؤں کے لڑکے صبح سے شام تک کھیلتے اور بڑے بوڑھے کسی پیڑ کے نیچے بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔

    کاتک کا مہینہ تھا، ٹھنڈک اچھی خاصی پڑنے لگی تھی اور میدان میں کتکی دھان کا کھلیان لگایا جانے لگا تھا، گاؤں میں نئی زندگی پھیلی ہوئی تھی۔ کچھ لڑکے میدان میں کبڈی کھیل رہے تھے، عورتیں کنوئیں سے پانی بھر کر اپنے گھروں کو لے جا رہی تھیں، پھگوا پورب کی طرف آگ جلا کر اپنی لاٹھی کو سینک کر سیدھی کر رہا تھا، اسی دن وہ اپنی بہن کے گھر دھرم پور سے آیا تھا، بہنوئی نے چلتے وقت یہ لاٹھی اپنی بسواڑی میں سے کاٹ کر دی تھی، لاٹھی نیچے کی طرف سے ذرا ٹیڑھی تھی، اس کا سیدھا کرنا ضروری تھا۔ پھگوانے لاٹھی سیدھی کرنے کو الاؤ جلا رکھا تھا، وہ پہلے لاٹھی کو سینک کر پیپل کی جڑ میں پھنسا کر اسے سیدھا کر رہا تھا، وہ اپنی بہن کے یہاں سے ایک گیت سیکھ کر آیا تھا، اس گیت کو ہلکے ہلکے سروں میں گاتا جاتا تھا۔ ساتھ ہی اس کے دماغ میں بہت سی باتیں گھوم رہی تھیں، سب سے زیادہ یہ کہ گاؤں میں ایک بہت بڑی سبھا ہونی چاہئے، ٹھیک ویسی ہی، یا اس سے بھی بڑی جیسی اس کی بہن کی سسرال میں ہوئی تھی اور سبھا میں وہ کھڑا ہو کر کل لوگوں کو ساری باتیں سمجھائے، جیسے وہاں ایک آدمی نے سمجھایا تھا۔

    پھگوا اپنے خیالوں میں مگن تھا کہ اکلو آ گیا، یہ ادھیڑ عمر کا آدمی تھا، اور گاؤں کے ناتے میں پھگوا کا چچا تھا، اکلو نے آتے ہی کہا، ’’بیٹا! لاٹھی تو اچھی ہے، مگر اس میں گڑا سا لگے تب۔‘‘ پھگوا نے پلٹ کر دیکھا اور بولا، ’’ہاں چچا، پر گڑا سا اچھا سا مل جائے تب نا۔‘‘

    شام ہو چکی تھی، دھیرے دھیرے اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا، لاٹھی سیدھی ہو چکی تھی، اس نے خوب گھما گھماکر لاٹھی کو دیکھا، پھر پیپل کے پیڑ کے سہارے پر کھڑا کر کے دو قدم پیچھے ہٹ کر دیکھنے لگا، اکلو بھی لاٹھی کو ایک خاص نظر سے دیکھتا رہا، جس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ لاٹھی اچھی ہے اور اگر مل جائے تو بہت اچھا ہو۔ ابھی لاٹھی کو یہ دونوں دیکھ ہی رہے تھے کہ سامو اور باڑھو بھی گھومتے پھرتے آگئے باڑھو نے آتے ہی کہا، ’’ارے بھیا! ابھی اتنا جاڑا تو نہیں پڑتا، ابھی سے الاؤ تاپنے لگے۔‘‘ اکلو بولا، ’’پھاگو اپنی لاٹھی سیدھی کر رہا تھا، الاؤ کون تاپے گا ابھی۔‘‘ باڑھو بولا، ’’مگر آگ بھی معلوم ہوتی ہے بھائی۔‘‘

    یہ کہتا ہوا وہ آگ کے پاس بیٹھ گیا، اور تاپنے لگا، اس کے بیٹھتے ہی اور لوگ بھی بیٹھ گئے، سانول اسی طرف آرہا تھا اور ان لوگوں کی باتیں سن چکا تھا، وہ آتے ہی بولا، ’’واہ! باڑھو چچا پہلے تو دوسرے کو ٹوکا اور سب سے پہلے ہی بیٹھے بھی آگ تاپنے، واہ۔‘‘ باڑھو بولا، ’’ہاں بیٹا! اب آگ بھلی معلوم ہوتی ہے، اور ہم نے ٹوکا کب تھا، ارے ایسے ہی بول رہا تھا۔‘‘ سب کے سب آگ تاپنے لگے، آگ ابھی زیادہ تھی، اس لئے کچھ دور ہی دور بیٹھے۔ باڑھو نے پاؤں پھیلاتے ہوئے کہا، ’’ارے یہ لونڈے سب اتنے بدمعاش ہوتے جا رہے ہیں کہ کیا کہا جائے۔‘‘

    سانول نے کہا، ’’کیا چچا، ہم لوگوں نے تو کوئی بدمعاشی نہیں کی۔‘‘ باڑھو بولا، ’’نہیں تم سب کی بات نہیں، یہی تو میرا کہنا ہے، تم سب جوان اور بال بچے والے ہوئے کبھی کوئی اونچی بات دیکھنے سننے میں نہ آئی، پر اب کی تو دنیا ہی بدلتی جا رہی ہے۔ دیکھ ابھی راستے میں آرہے تھے تو دیکھا کہ چھپی اور چھیدو کے دونوں لڑکے ریڑ (ارنڈ) کی ڈنٹھل جلا کر بیڑی کی طرح بھک بھک کھینچ کر دھواں اڑا رہے ہیں۔ ڈانٹا تو دونوں کھانستے ہوئے بھاگے، سب کا کلیجہ جل جائےگا۔‘‘

    اتنے میں چھپی آ گیا، اور باڑھو نے اس سے بھی یہ بات دہرا دی، لیکن چھپی نے کہا، ’’بھیا، اب اوجمانا ہی نہ رہا، ہم سب بھی کبھی لڑکے تھے، ایک کا قصہ سنو گے تو دنگ رہ جاؤگے، ابھی کل کی بات ہے ہم میدان سے آ رہے تھے۔ میرے ہاتھ میں لوٹا تھا۔ خیال ہوا کہ بڑے کنوئیں پر لوٹا مانجھ کر پانی بھر لیں، جیسے ہی کنوئیں پر پہنچے تو دیکھا، ریتو، کلوا کی عورت کا راستہ روکے کھڑا ہے، وہ کہہ رہی ہے، جانے دو ریتو، تو ریتو کہتا ہے، ایسے نہیں بھوجی، ویسے کہو، موری راہ چھوڑو، گردھاری دیر ہوئی، یاد ہے کرشن لیلا والا گانا۔ جب اس نے بالٹی اٹھا کر کہا کہ سارا پانی اجھل دوں گی تو راستے سے بھگا۔‘‘

    سانول بڑے زور سے قہقہہ لگا کر ہنسا اور بولا، ’’چچا!یہ بھی کوئی بات ہے، بھوجائی ہے وہ ہنسی ٹھٹھا کرتا ہوگا۔۔۔ جانتے ہی ہو ریتو کیسا ہنسوڑ ہے۔‘‘ لیکن چھپی نے بزرگانہ انداز میں کہا، ’’ہش! یہ بھی کیا ٹھٹھا ہے، ایسے لڑکے خراب ہو جاتے ہیں، یہ تو ہم نے دیکھا تھا کوئی دوسرا دیکھ لیتا تو‘‘ نہ جانے کتنی باتیں جوڑ کہتا اور بدنامی ہوتی، گاؤں میں ایسی بات کبھی نہیں ہوئی۔‘‘ سانول چپ ہو گیا، اور باڑھونہ جانے کب تک بولتا رہتا، لیکن سامونے بیچ ہی میں روک کر کہا، ’’ارے پھاگو تونے تو کچھ کہا نہیں، سنا ہے دھرم پور میں بڑی بڑی سبھا ہوئی، بڑے بڑے لوگ جمع ہوئے کسانوں کے فائدہ کی بات ہوئی۔‘‘

    پھاگو نے اس انداز سے سب پر نگاہ ڈالی جیسے وہی اکیلا سب کچھ جانتا ہے، باقی سب کاٹھ کے الو ہیں، پھر بولا، ’’ہاں بہت بڑی سبھا ہوئی تھی، ایک سادھو جی بھی آئے تھے، وہ سب کو ایک بات کہہ گئے، سب کسان ایک ہو جائیں، آپس میں مل جل کر رہیں، تب ہی زمیندار کے ظلم سے بچ سکتے ہیں۔‘‘ سانول بولا، ’’بھیا بات پتے کی ہے، ہم لوگ پر جتنا ظلم ہوتا ہے اسے کون جانے، سال بھر محنت کرکے اپجاتے ہیں اور ہمارے ہی بال بچے بھوکوں مرتے ہیں۔‘‘

    آگ کچھ دھیمی ہو چلی تھی، اس لئے باڑھو کچھ اور بھی آگ سے قریب ہوگیا اور بولا، ’’بات تو ٹھیک ہے، پر ہونا مشکل ہے نا؟‘‘ پھاگو بولا، ’’مشکل کیا ہے؟ آج سے لوگ ٹھان لیں کہ آپس میں مل جل کر رہیں گے، زمیندار کو بیگار نہیں دیں گے، کوئی ناجائز دباؤ نہیں سہیں گے، بس! دھرم پور میں تو ایسا ہی ہوا ہے، اب تو وہاں چین ہی چین ہے۔‘‘

    ابھی بات آگے نہیں بڑھی تھی کہ طوفانی میاں آ گئے، یہ بوڑھے آدمی تھے اور تیس برس سے گاؤں میں کر گہہ چلاتے تھے، طوفانی میاں نے آتے اپنا ٹھریا (معمولی قسم کا حقہ) ذرا الگ رکھ کر ایک دم لگایا، اور اس انداز سے سب کی طرف متوجہ ہوئے جیسے ایک مجسٹریٹ وکیلوں کی بحث سننے کے لئے تیار ہو، لیکن طوفانی میاں کو متوجہ دیکھ کر سب کے سب چپ ہو گئے، جیسے اب وہ کچھ کہنے والے تھے، جب کوئی کچھ نہ بولا تو طوفانی میاں بولے، ’’ارے سب چپ ہو گئے، بات کیا تھی؟‘‘ سانول نے جواب دیا، ’’پھاگو دھرم پور گیا تھا طوفانی چچا، وہیں کی بات تھی۔‘‘

    ’’کیا بات تھی؟‘‘

    طوفانی میاں نے اس انداز میں سوال کیا، جیسے اگر انہیں نہ بتایا گیا تو پھر کوئی بات ہوئی ہی نہیں، سب کا سننا بےکار ہوا، پھاگو نے پھر سے ساری بات دہرادی، طوفانی میاں نے حقے کا لمبا دم لگا کر بزرگانہ انداز میں کہا، ’’بات تو ٹھیک ہے، مگر بھائی یہ کرم کی لکھی باتیں ہیں، آدمی کیا کر سکتا ہے، یہ سب خدائی کارخانہ ہے۔ طوفانی میاں نے ایک ہی جملے میں سب کی ہمت توڑ دی، اب بھلا خدائی کارخانے میں بحث کرنے کا سوال کیسے پیدا ہوتا، جھپکو تیلی نے کہا، ’’طوفانی میاں نے سولہ آنہ ٹھیک بات کہی ہے، پرماتما نے سدا کے لئے آدمی کو بڑا چھوٹا بنایا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو اپنا کام ہی نہ چلتا۔۔۔‘‘ چھٹو دھوبی نے اور آگے بڑھ کر داد دی اور کہا، ’’ہونہہ اگر جمیندار نہ رہےگا تو کوئی نہ رہے، سب جمیندار ہو جائیں تو پھر کھیتی کون کرےگا۔‘‘ دلوّ چپ چاپ بیٹھا سن رہا تھا، وہ بڑا جوشیلا تھا، سب کی باتیں سن کر اس کا خون کھول رہا تھا، لیکن اس کا چچا طوفانی بیٹھا تھا، بات آ آکر اس کے ہونٹوں پر رک جاتی تھی، لیکن اب اس سے ضبط نہ ہو سکا، اس نے کہا، ’’اپنے کئے سب کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘

    طوفانی میاں نے اور ان کے ساتھ دوسروں نے اس کو آنکھیں نکال کر دیکھا، وہ حال ہی میں کلکتہ سے آیا تھا، کلکتہ میں وہ جہاز گھاٹ پر قلی کا کام کرتا تھا، دن رات محنت، چین جاپان اور امریکہ سے آئے ہوئے مال جہاز سے اتارا کرتا تھا، اس کو کمپنی سے روز جھگڑنا پڑتا تھا، وہ پہلے کئی ہڑتالوں میں شریک ہو چکا تھا اور وہ دیہات میں زمینداروں کے ظلم سے بھی واقف تھا، اس نے کہا، ’’ہم لوگ کو اب تیار ہونا ہی پڑےگا۔‘‘ سانول نے کہا، ’’ٹھیک کہتے ہو دلو۔۔۔‘‘

    طوفانی میاں نے قہر آلود نگاہوں سے دلو کو دیکھا اور بڑبڑاتے ہوئے اٹھے، سچ ہے کلکتہ جانے سے آدمی کا دماگ کھراب ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چھٹو اور ایک دو آدمی اٹھ کر چلے گئے اور اس انداز سے جیسے اس جگہ پر کوئی آفت آنے والی ہے، لیکن ان لوگوں کو اس کی پرواہ بھی نہ ہوئی، بلکہ سانول نے کہا، ’’جُلم پر جُلم ہے، پرسوں ہی کی بات ہے، میگھو کو پٹواری جی نے مارا ہے، بات یہ تھی کہ پٹواری جی چاہتے تھے میگھو کی عورت آکر ان کا چوکا کرے اور اس نے انکار کر دیا۔‘‘

    ’’یہ سب اب نہیں چل سکتا، کل میگھو کو کہا جائے کہ وہ بھی کام کرنے نہ جائے۔‘‘

    دلو نے رائے پیش کی، اور سب نے ہاں کہی، پھر آگے چل کر کیا ہوگا؟ اس پر بھی بحث رہی، لیکن سب نے نتیجے سے بے پروا ہو کر یہی فیصلہ کیا کہ پٹواری جی کو رسیدانہ نہ دیا جائے۔ دباؤ ڈال کر دودھ گھی وصول کر لیتے ہیں، وہ بھی بند اور بیگاری آخری طور پر ختم۔۔۔‘‘

    ’’بیگار ختم‘‘ کہتے وقت دلو نے تھوڑا سا کوڑا کرکٹ اٹھا کر الاؤ میں ڈال دیا، الاؤ سے پھر ایک بار تھوڑی سی آگ بلند ہوئی اور بجھ گئی، سانول نے کہا، ’’تب دلو ٹھیک ہے نا؟‘‘ دلو نے کہا، ’’پکا بات ہے بھائی، مرد بات سے نہیں پلٹتا۔‘‘ پھاگو نے کہا، ’’بالکل ٹھیک۔‘‘ پھر سیتل بولا، ’’لیکن دلو بولا بھیا، وہ جو پنڈت جی آتے ہیں نا، کہتے تھے کہ تم سب چپ چاپ بیٹھے رہو، یہ سب کام کانگریس کر دےگی۔‘‘ سیتل کے بولنے سے جمن کو بھی ہمت ہوئی، وہ بھی اپنے ماموں کے گھر گیا تھا، وہاں مسلمانوں کا ایک بڑا جلسہ ہوا تھا، جس میں کانگریس کی برائیاں وہ سن‘‘ چکا تھا، اس نے کہا، ’’دلو بھائی۔۔۔ کانگریس۔۔۔ مولانا صاحب تو کہتے تھے۔۔۔‘‘ دلو نے ذرا تیکھے انداز میں کہا، ’’دھت، یہ سب بکتے ہیں، گریب کا کوئی سالا نہیں ہوتا، اپنے کرنا ہوگا جو ہوگا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے دلو اٹھ کھڑا ہوا، رات بھی کافی جا چکی تھی، الاؤ بھی بجھ چکا تھا اور فضا میں ٹھنڈک کافی پیدا ہو چکی تھی، دلو کے اٹھتے ہی سب کے سب اٹھ گئے۔

    دوسرے دن سے سارے گاؤں میں ہلچل تھی، بوڑھے بچے اور جوان سب کے سب کچھ نہ کچھ اس قسم کی باتیں کرتے تھے، جوان تو ہر دروازے پر کہتے پھرتے تھے، ’’آج سبھا ہوگی۔‘‘ بچے تماشہ سمجھ رہے تھے اور بوڑھے نتیجے پر غور کر رہے تھےکہ بھس میں چنگاری پڑ گئی، پٹواری نے اندر مہتوں اور طوطا رام کو بلا کر خوب ڈانٹا، گالیاں دیں اور صاف کہہ دیا کہ اگر اس سال تم لوگوں نے بقایا بے باق نہیں کر دیا تو کوئی کھلیان سے ایک دانہ بھی اٹھا کر نہ لے جا سکےگا۔۔۔ اس سے جوش اور بھی بڑھ گیا۔ شام کو دو چار نوجوان میدان میں جمع ہوئے، مگر زیادہ لوگ کترا کر نکل گئے، سبھا کرنے والوں کو سخت غصہ ہوا، وہ سب کے گھروں میں پھر گئے، اور سب سے کہا، ’’سب کا‘‘ حشر طوطا رام اور اندر مہتوں کا ہوگا، تم سب چڑیوں کی ٹولی کی طرح چیں چیں کرتے رہ جاؤگے اور پٹواری تمھیں باز کی طرح ہر روز شکار کرےگا، آج وہ کل وہ۔‘‘

    صبح اٹھ کر سانول منہ دھونے بیٹھا تھا کہ پیادے نے آکر کہا، ’’سانول بھائی! تمہیں پٹواری جی نے بلایا ہے، کوئی ضروری بات ہے۔‘‘ سانول کا ماتھا ٹھنکا تو ضرور، لیکن وہ چور نہیں تھا جو منہ چھپاتا، منہ ہاتھ دھوکر اس نے کچھ کھایا پیا اور کچہری کی طرف چلا، راستے میں اسے خیال آیا کہ اس کی خبر دلو کو بھی کرتا جائے، جیسے ہی دلو کے گھر کی طرف مڑا، پھاگو اور دلو آتے دکھائی پڑے، پھاگو نے سانول کو دیکھتے ہی کہا، ’’بھیا جانتے ہو، کچہری سے بلاوا آیا تھا، گماشتہ جی بھی آئے ہوئے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا‘‘ ہے کہ مالک سے کوئی خاص حکم لے کر آئے ہیں۔۔۔ کیا رائے ہے۔۔۔؟‘‘ سانول نے جواب دیا، ’’چلو تمہارے دالان میں بیٹھ کر باتیں کریں گے۔‘‘

    تینوں گئے اور بیٹھ کر باتیں کرنے لگے، پھاگو نے یہ بھی بتایا کہ ان کی ساری باتیں پٹواری کے کانوں تک چھٹو دھوبی پہنچاتا ہے۔ اس سے سانول کو بڑا غصہ آیا اور وہ بولا، ’’دو سالے کو پکڑ کر چار لاٹھی، ہم لوگ سے کھچڑ کھود کھود کر بات پوچھتا ہے اور اپنےباوا کو کہہ آتا ہے، ”حرامی!‘‘ دلو نے کہا، ’’غصہ کرنے کی بات نہیں سانول، کام کرنا ہے، دھیرج سے کام کرنا ہوگا۔۔۔‘‘ سانول نے کہا، ’’ایسے سالوں کو سزا ضرور ملنی چاہئے۔‘‘ پھاگو نے پوچھا، ’’تو اب کیا ہوگا؟‘‘

    ’’ڈرنے کی بات کیا ہے، ٹھہرو، پٹواری نے بلایا ہے، وہاں سے ہو آؤں، دیکھوں بات کیا ہے؟‘‘

    سانول چلا گیا، دلو اور پھاگو کچہری سے ہوکر آئے تھے، ان دونوں پر ڈانٹ پڑ چکی تھی، لیکن ان دونوں نے سانول سے باتیں اس لئے نہیں کہیں کہ وہ اور بھی غصہ ہو جائےگا۔ ذرا سی بات میں اس‘‘ کو غصہ آ جاتا ہے اور روکنے کی کوشش اس لئے نہ کی کہ وہ ہر گز نہ رکتا، بلکہ بات اور بھی بڑھنے کا ڈر تھا، وہ دونوں دیر تک چپ رہے لیکن پھاگو نے کہا، ’’دلو بھائی سانول کو وہاں نہ جانے دینا تھا، گماشتہ جی اگر ٹیڑھے ہوکر بولیں گے تو سانول بھیا نہیں سہ سکتے، وہ تیکھے مزاج کے آدمی ہیں۔‘‘ دلو نے ایک لمبے سانس کے ساتھ کہا، ’’یہ ٹھیک ہے، پر نہ جانے پر بھی تو بات بڑھتی ہے، اب جو بھی ہو دیکھا جائےگا۔‘‘ پھاگو بولا، ’’پھر بھی۔۔۔‘‘

    یکایک وہ چپ ہو گیا، سانول تیزی کے ساتھ سامنے سے آ رہا تھا، اس کا چہرہ لال ہو رہا تھا اور دھوتی پھٹی ہوئی تھی، ابھی وہ دلو سے کچھ کہہ بھی نہ سکا تھا کہ سانول آ گیا اور آتے ہی بولا، ’’پھاگو لاٹھی تو دے۔۔۔‘‘ دلو اور پھاگو دونوں کھڑے ہوگئے، دونوں نے سانول کو سمجھایا مگر وہ تنتا جا رہا تھا۔۔۔ اس نے بتایا کہ وہاں پٹواری اور گماشتہ نے ڈانٹا، بات بڑھی، اس پر گماشتہ نے پھاٹک بند کر دیا اور چاہتا تھا کہ مار پیٹ کرے، مگر وہ اس طرف کی دیوار کو جو نیچی ہے، پھاند کر بھاگ آیا، اس نے یہ بھی بتایا کہ چھٹو اور جھیبی حجام سارے فساد کی جڑ ہیں اور وہ ان دونوں سے بدلہ ضرور لےگا۔

    دلو ہوشیار آدمی تھا، اس نے سانول کو ایک کمرے میں بند کر دیا اور باہر سے کنڈی لگا دی۔ پھاگو جوش میں تھا اور کچھ ڈر رہا تھا، دلو پر کوئی خاص اثر نہ تھا، وہ ایسے جھگڑے کلکتہ میں بار بار دیکھ چکا تھا، پھاگو کے لئے بات نئی تھی، جوش تو ضرور تھا، مگر ایک تو دل کا کچھ کچا تھا اور دوسرے سمجھ بھی زیادہ نہ تھی، وہ گھبرا کر دلو کا منہ دیکھنے لگا، پھر بولا، ’’اب کیا ہوگا دلو بھائی۔‘‘ دلو بولا، ’’دیکھا جائےگا۔۔۔‘‘ اتنے میں گاؤں کے کچھ بڑے بوڑھے آ گئے اور لگے دونوں کو سمجھانے، دلو سب کی بات کا ٹھنڈے دل سے جواب دیتا گیا، سب سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اب کوئی بات نہ ہوگی۔ سانول چلا گیا لیکن جب کچھ جوان آدمی آئے تو ان سے بولا، ’’بولو اب کیا ارادہ ہے، اب عزت چاہتے ہو یا ذلت؟‘‘

    ذلت کون چاہتا ہے، سب نے کہا کہ کچھ بھی ہو ہم ساتھ دیں گے، لیکن دلو نے سب کو سمجھا دیا کہ کوئی اونچی نیچی بات نہ ہونے پائے، صرف اب کام یہ کرنا ہے کہ آس پاس کے گاؤں میں لوگوں کو تیار کیا جائے، ابھی بات ختم بھی نہ