Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپرنا

قرب عباس

اپرنا

قرب عباس

MORE BYقرب عباس

    محبت میں تم تن کی سیما کو پار کیے بنا من کی دنیا تک نہیں پہنچ سکتے اور پھر تم ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے کتنے آزاد ہو، تمہارا ساتھی کتنا آزاد ہے اس بات کا پتا تو بعد میں ہی چلتا ہے۔

    یہ جملہ اپرنا نے شیتل کے گھر پہلی ملاقات میں کہا تھا۔

    شیتل نے اپنی پرانی دوست اپرنا کے نیوجرسی شفٹ ہونے کے بعد اسے کھانے پر بلایا تھا اور مجھے بھی فون کر دیا تھا۔ اپرنا سے میری وہ پہلی ملاقات تھی اور مجھے جتنی حیرت اس کے عجیب انداز پر ہوئی اس سے کہیں زیادہ اس کے خیالات کو جان کر ہوئی تھی، وہ کہیں سے بھی اردو ہندی زبان کی روایتی سی طالب علم نہیں لگ رہی تھی۔

    میری یہ شروع سے ہی عادت رہی ہے کہ میں جب کسی سے ملتا ہوں تو اس کی آنکھوں کو بغور دیکھتا ہوں کیونکہ آنکھیں باتوں کے معنی بتاتی ہیں، لفظ چاہے جو بھی ہوں، جیسے بھی ہوں۔۔۔ اور اس کی کالی آنکھیں گہری اور لمبی پلکوں کے حصار میں بہت چمکدار معلوم ہوتی تھیں، بھوئیں چہرے میں سب سے زیادہ ان آنکھوں کو واضح کرتی تھیں۔ وہ بولتی تھی تو اس کی آنکھیں اس کی باتوں کا ساتھ دیتی تھیں، وہ ہنستی تھی تو اس کی آنکھیں بھی کھل اٹھتی تھیں۔ وہ حیران ہوتی تھی تو یہ حیرانی اس کی آنکھوں سے بالکل صاف جھانکتی دکھائی دیتی تھی۔ آنکھوں کے علاوہ اس کی دونوں کلائیاں اور گندمی رنگ کی انگلیاں تھیں جنہوں نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا، کلائیوں میں رنگ بہ رنگ بینڈز تھے اور انگلیوں میں بہت ساری انگوٹھیاں۔ وہ بالکل بھی مذہبی نہ تھی مگر انگوٹھیوں میں سے ایک گنیش کی انگوٹھی بھی پہن رکھی تھی، جب میں نے اس سے پوچھا تو اس نے مسکرا کر بتایا تھا؛

    “یہ میرے ایک عاشق کی دی ہوئی انگوٹھی ہے، بہت پیار کرتا تھا، ا س کی ناک بہت بڑی تھی، ہاتھی کی سونڈجیسی اور نام بھی گنیش تھا، اس لیے میں اس کو گن پتی کہہ کر بلاتی تھی۔ جب جب اس رنگ کو دیکھتی ہوں تو مجھے اس کی شکل یاد آ جاتی ہے۔ اس لیے میں نے پہن رکھی ہے۔ جو بھی تھا، کیوٹ تھا!“

    پھر اس نے اپنے بال سنوارے اور اسی طرح مسکراتے ہوئے دوبارہ بولی تھی؛

    “ان فیکٹ میرے ہاتھوں میں ساری انگوٹھیاں، یہ بینڈ سب عاشقوں کی طرف سے ہیں۔ ملتے ہیں اور محبت میں ڈوب جاتے ہیں اور پھر کوئی نہ کوئی چیز دے جاتے ہیں۔ میں رکھ لیتی ہوں۔ پر سچی بتاؤں؟”

    میں خاموشی سے اس کو سُن رہا تھا اور آنکھوں کو پڑھ رہا تھا، شیتل سب باتوں سے بےنیاز میز پر کھانا لگانے میں مگن تھی۔ اپرنا ایک انگوٹھی کو گھماتے ہوئے کہنے لگی؛

    “مجھے ان سب سے محبت تھی، سب ایک ہی نظر میں اچھے لگے تھے۔ پر میرا معاملہ یہ ہے کہ میں زیادہ دیر کسی کے ساتھ رہ نہیں سکتی۔ ایک وقت کے بعد میرا سر بھاری ہونے لگ جاتا ہے، مجھے لگتا ہے کہ بس اب ختم ہو جانا چاہیے۔۔۔ بہت ہو گیا! بعد میں روتے ہیں، میرے پاؤں پڑتے ہیں اور میں کہتی ہوں یار جب ایک بندے یا بندی کا من ہی نہ ہو تو اس کو کیسے محبت کروا لوگے؟ بس جب تھی تب تھی، اب نہیں ہے تو نہیں ہے۔ بعد میں ہوگی تو بعد میں دیکھ لیں گے۔”

    میں نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ اس رات ہماری فرد کی آزادی پر بات ہوئی تو اس نے بہت بے باک انداز میں کہا تھا؛

    “دیکھو پہلے معاملہ اور تھا، دیش کی آزادی کو ہی جنتا کی آزادی سمجھا جاتا تھا، دھرم کی آزادی کو انسان کی آزادی سمجھا جاتا تھا۔۔۔ پر اب دور بدل رہا ہے، اب نہ تو کسی دیش کو دوسرے دیش سے خطرہ ہے اور نہ ہی دھرم کی آزادی کوئی مطلب رکھتی ہے، اب انسان اپنے جسم اور آتما کی آزادی کے لیے لڑائی لڑ رہا ہے، اپنے آپ سے، سماج سے، دھرموں سے، ریت رواجوں سے۔۔۔کون کس کے ساتھ سونا چاہتا ہے، کس کے ساتھ نہیں یہ فیصلہ اس کا ہی ہوگا، اس میں سماجی ججمنٹ نہیں ہونی چاہیے۔”

    اس پہلی ہی ملاقات میں، میں کافی الجھ سا گیا تھا، وہ پہلی نظر میں مجھے پاگل اور بےپرواہ سی لڑکی دکھائی دی تھی۔ کچھ دیر کے بعد وہ سنکی لگنے لگی اور پھر اس کے خیالات جان کر اندازہ ہوا کہ میرے تمام اندازے غلط ہیں، وہ بس ایک عام سی انسان ہے لیکن اپنی زندگی کو اپنے ڈھنگ سے جینے والی۔ میں اس سے چند ہی گھنٹوں میں کافی متاثر ہو چکا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ کچھ دیر کے لیے رکی اور پھر ایک فون آنے کے بعد چلی گئی۔ میں نے شیتل کے ساتھ ٹیبل سے برتن اٹھاتے ہوئے کہا تھا؛

    “مجھے تمہاری دوست بہت پسند آئی۔”

    شیتل نے جھٹ سے جواب دیا؛

    “سوچنا بھی مت۔ ایک تو یہ کہ تم اس کے ٹائپ کے نہیں ہو، وہ تمہارے ٹائپ کی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ کسی ریلیشن شپ پر قائم نہیں رہتی۔ مجھے نہیں یاد کہ اس نے ایک مہینے سے زیادہ کسی کے ساتھ کوئی ریلیشن رکھا ہوگا، بہت کمپلیکیٹڈ ہے شروع سے، کوئی بھی اس کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پاتا، یہاں تک کہ میں بھی نہیں، جو اس کے ساتھ کئی سال سے ہوں۔”

    “کیوں ریلیشن شپ میں اس کو کیا مسئلہ ہے؟” میں نے سوال کیا۔

    “اصل میں اس کے اندر بہت گہرے اصول ہیں زندگی کے۔ کون کب کہاں کوئی غلطی کر دے اور اس کا دماغ گھوم جائے، وہی جانتی ہے۔”

    “لیکن اس سے ملنے میں کیا حرج ہے؟”

    “اوکے تو پھر کر لو ٹرائی، اس کے پیچھے لمبی عاشقوں کی لائن ہے، تم بھی اپنا راشن کارڈ لے کر اس لائن میں لگ جاؤ، کبھی تو باری آئےگی ہی۔”

    میں نے قہقہہ لگایا اور شیتل بھی ہنس دی۔

    اپرنا میرے حواس پر پوری طرح سے سوار ہو چکی تھی اور میں کئی دن سے ملنے کے بارے میں سوچ رہا تھا، آخر ہمت کرکے شیتل سے اس کا نمبر لے لیا اور کال ملائی، دونوں نے بہت سارا وقت کافی شاپ پر گزارا اور پھر یہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ تعلق میرے اندر بری طرح سے برپا تھا اور میں پوری زندگی کے لیے اس کو اپنا ہمسفر دیکھنا چاہتا تھا مگر میرے ذہن میں ابھی تک اس کی کہی جسم کی سیما والی بات منڈلا رہی تھی۔ ایک دن ہم پب سے باہر نکلے تو وہ کہنے لگی کہ آج میرے اپارٹمنٹ پر کیوں نہیں چلتے؟ وہاں کوئی مووی دیکھیں گے، میں نے بہانہ کیا تھا کہ مجھے جاب پر جلدی نکلنا ہے۔ تو وہ کہنے لگی کوئی بات نہیں، وہیں سو جانا اور پھر صبح ہوتے ہی چلے جانا۔

    میں سیما کے اس طرف کھڑا تھا اور اگر اس مرتبہ بھی قدم بڑھا کر اس کو پار نہ کرتا تو کب کرتا؟

    ہم دونوں کا ساتھ تئیس دن تک رہا تھا اور پھر وہ میرے نام کی ایک اور انگوٹھی اپنی گندمی سی انگلی میں پہن کر اسی نامعلوم نگر میں واپس چلی گئی جہاں سے آئی تھی۔شیتل کو بھی کچھ اتا پتا نہ تھا۔ میں نے کچھ عرصہ تو اس کی تلاش میں اپنا وقت برباد کیا بعد میں بھول گیا۔ گوکہ میں اس کے سابقہ سارے تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا، اس کی طبعیت کے بارے میں بھی واقف ہو چکا تھا لیکن پھر بھی اس کےیوں اچانک چلے جانے سے ایک کسک سی باقی رہ گئی تھی۔

    قریب چار پانچ سال بیت جانے کے بعد ایک دن شیتل نے فیس بک پر میسج کیا اور پھر ہماری چیٹ شروع ہو گئی۔ بہت دیر باتیں ہوتی رہیں پھر اس نے آنے والے ہفتے کی شام اپنے گھر پر بلا لیا۔ اس شام شیتل کے گھر قدم رکھتے ہی میرے اندر ایک قیامت برپا ہوئی۔اپرنا میرے سامنے ایک گورے کے ہاتھوں میں ہاتھ لیے بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی، مسکراتے ہوئے قریب آئی اور گال پر بوسہ دینے کے بعد بولی؛

    “بہت بدل گئے ہو تم تو!”

    میری مسکراہٹ میں روکھا پن تھا، میں وہاں سے کچن کی جانب گیا جہاں شیتل کھڑی تھی؛

    “اگر مجھے پتا ہوتا کہ تم نے اس کو بھی یہاں بلایا ہے تو کبھی نہ آتا۔“

    شیتل مسکرا دی؛

    “ارے یار جب وہ اتنا سیریس نہیں لیتی ان چیزوں کو تم بھی مت لو۔ چل کرتے ہیں نہ! کیا تم ہندی فلموں کے ہیرو جیسے منہ پھلا کر کھڑے ہو گئے ہو۔”

    ٹیبل پر کھانا لگا تو ہم سب بیٹھ گئے، اس کے ساتھ جو گورا تھا معلوم ہوا کہ وہ ایک آئرش ہے اور فری لانسر رائٹر ہے، اس کا نام ڈیوڈ تھا لیکن اپرنا بات کرتے کرتے اس کو ڈیو کہہ رہی تھی۔ ان دونوں کے درمیان ہم آہنگی دیکھ کر مجھے راجما چاول میں مرچ کچھ زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ اسی دوران مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈیوڈ اور اپرنا کو ایک ساتھ رہتے ہوئے ایک سال ہو چکا ہے، میرے لیے یہ ایک بہت حیران کن خبر تھی، چمچ میرے منہ میں جاتے جاتے رک گیا؛

    “ایک سال؟”

    اپرنا ہنس دی؛

    “کیوں عجیب لگا نہ؟ مجھے بھی ڈیو بہت عجیب لگا تھا۔ یونو، میں جب اس سے ملی تھی تو پہلے ہی اسے بتا دیا تھا کہ میرے ساتھ پرابلم ہے کہ میں زیادہ دیر کے لیے ریلیشن شپ نہیں بنا سکتی، مجھے لگنے لگتا ہے کہ کسی نے مجھے ہانٹ کر لیا ہے اور میری آتما کسی جیل میں سڑ رہی ہے۔ مجھ سے لانگ ٹرم ریلیشن شپ نہیں نبھائے جاتے۔ تو پھر مجھے ڈیو نے کہا تھا کہ دونوں ساتھ رہتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ کہاں تک ساتھ چل سکتے ہیں۔”

    اپرنا بولتی رہی؛

    “اسی دوران میں دیکھا کہ ڈیو بہت الگ مرد ہے، جس کو میرے ہر ملنے جلنے والے سے کوئی جلن نہیں، کوئی اعتراض نہیں، میرا اس دوران ایک اور دوست سے بھی تعلق رہا مگر ڈیوڈ کی محبت میں کمی آئی نہ ہی اس عزت میں جو پہلے دن ہی میں نے اس کی نگاہ میں دیکھی تھی۔ بس ہم دونوں آزاد ہیں، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔”

    اپرنا تو میرے لیے عجیب تھی ہی، ڈیوڈ اس سے بھی زیادہ عجیب دکھائی دیا، میں نے شیتل کو دیکھتے ہوئے اپرنا کی جانب جملہ پھینکا؛

    “ہم میں سے اکثر اپنی ہی تیار کی ہوئی جیل کے قیدی ہیں، مزے کی بات ہے کہ ہر ایک اپنے آپ کو اسی قید میں آزاد سمجھتا ہے۔۔۔ میرے سامنے اس وقت ایک ایسی لڑکی بیٹھی ہے جس نے کلائیوں اور انگلیوں میں اپنے اَن گنت عاشقوں کی دی ہوئی نشانیاں پہن رکھی ہیں، لاتعداد پنجروں کی قیدی خود کو آزاد سمجھتی ہے۔”

    اپرنا میری بات سن کر مسکرا دی اور شیتل سے میرے انداز میں ہی مخاطب ہوئی؛

    “اور دیکھو تو کون کہہ رہا ہے جو رات کو بالکل ننگا سوتا ہے، تن پر ایک بھی کپڑا ہو تو نیند نہیں آتی، کہتا ہے کپڑوں کے بوجھ کے بغیر سنسار میں آیا تھا، سونے سے پہلے وہی ہلکا پن بہت آنند دیتا ہے۔۔۔ اور اپنی اس مجبوری کو وہ بیچارہ خود بھی آزادی سمجھتا ہے۔”

    میں اس کے جواب پر سر جھٹکنے کے سوا کچھ نہ کر سکا، شیتل نے قہقہہ لگایا، ڈیوڈ ہماری بات کو نہ سمجھ کر بھی مسکرا دیا۔

    “تم مقابلہ کرنا چاہ رہی ہو؟”

    میں نے اپرنا کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔ اس کی مسکراہٹ ابھی تک ہونٹوں پر ناچ رہی تھی، کچھ توقف کے بعد وہ بولی؛

    “نہیں تو! میرا تمہارا کیا مقابلہ؟ یہ تو تم ہو جو میرے اندر پچھتاوے کو جنم دینے کی کوشش کر رہے ہو۔”

    “میں تمہارے اندر کسی پچھتاوے کو جنم دینا نہیں چاہ رہا۔ اگر ایسا کرنا چاہتا تو میرے لیے بہت آسان تھا کیونکہ کسی بھی عورت کے اندر محبت، دکھ اور پچھتاوے بہت جلدی جنم لے لیتے ہیں۔”

    “ایسا تو نہیں ہے! محبت، دکھ ، پچھتاوے تو بہت چھوٹی چیزیں ہیں اگر عورت نہ چاہے تمہارا بیج بھی اس کی کوکھ میں نہ جانے پائے۔”

    “فیمینسٹوں کی بکواس نعرہ بازی ہے، ایسا روز ہوتا ہے۔”

    “ہوتا ہے پر تم جسے عورت سمجھ رہے ہو، وہ تو خالی ساڑھی ہے یا تمہارے پاکستان میں شلوار قمیض ڈوپٹہ۔۔۔ اصل عورتیں تو مجھ جیسی ہیں اور میں بالکل تم جیسی ہوں، من موجی اور جی بھر کے پاپی!”

    اس روز شیتل کے گھر ہلکی پھلکی نوک جھوک اور طنز کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارہ سے چل پڑا۔ ہم کسی کافی شاپ پر ملتے یا پب میں، وہ ہمیشہ جذبات کے اظہار میں بہت آزاد تھی لہذا اس مرتبہ بھی اس نے مجھے اپنے اپارٹمنٹ پر بلا نے میں پہل کی اور میں جانے تو لگا مگر ایک عجیب سا تناؤ تھا۔ اس کے ہاں ڈیوڈ بھی موجود ہوتا تھا، لیونگ روم میں بیٹھ کر لکھ پڑھ رہا ہوتا تھا اور میرے آنے پر مسکرا کر ہیلو کہتا میں جواب دیتا لیکن اس جواب میں ایک پھیکا پن ہوتا۔ میرے لیے یہ بالکل عجیب بات تھی کہ میں کسی لڑکی کے بوائے فرینڈ کی موجودگی میں اس کے گھر جاؤں اور پھر اس سے بھی حیران کن بات یہ تھی کہ ڈیوڈ میرے آنے یا جانے پر بالکل عام سے تاثرات چہرے پر رکھتا تھا، جیسے سب کچھ بہت معمولی ہو، جب کہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ میرا اور اپرنا کا ماضی میں کافی گہرا تعلق رہ چکا ہے۔

    اس کے اس قدر مطمئن ہونے پر مجھے نہ صرف تعجب تھا بلکہ ایک خفگی بھی، یہ شاید اس لیے تھا کہ میں ابھی تک پرانے تعلق میں پلنے والے کسی نہ کسی جذبے کے ساتھ اب تک بندھا ہوا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ میں ڈیوڈ کو نہ دیکھوں، جب جب اپرنا کی طرف جاؤں وہ وہاں موجود نہ ہو، مجھ سے اس کا وجود برداشت نہ ہوتا تھا، یہ سوچ سوچ کر وحشت سی ہوتی تھی کہ میں جسے چاہتا ہوں وہ کسی اور کے ساتھ بھی اپنے شب و روز گزار رہی ہے۔ جب جب یہ خیال میرے ذہن میں پوری شدت کے ساتھ طاری ہوتا تو مجھے اپرنا کا جسم بھی گندا، میلا کچیلا، باسی اور بدبودار سا محسوس ہونے لگتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ کیفیت بڑھتی جا رہی تھی۔ کوشش ہوتی تھی کہ اول تو اس کے ہاں میں نہ جاؤں اور اگر جاؤں بھی تو بس ہماری بات چیت ہو اور پھر میں وہاں سے نکل جاؤں۔ شاید اس بات کو اپرنا نے بھی بھانپ لیا تھا اور ہمارے تعلق کے درمیان وہ جوش و خروش نہ رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔

    اس ٹوٹے پھوٹے سلسلے میں مزید کچھ سال کا خلاء پیدا ہوا، شیتل نے شادی کا فیصلہ کر لیا تھا اور مجھے اپنی شادی پر بلایا تھا۔ شیتل سے اب وہ دوستی رہی تھی نہ ہی اس کے ہاں آنا جانا تھا لیکن پھر بھی ایک عجیب ہارا ہوا تجسس مجھے مجبور کر رہا تھا کہ میں ایک مرتبہ جاؤں اور جا کر اپرنا کو دیکھوں۔ جانتا تھا کہ وہ جہاں بھی ہوگی شیتل کی شادی پر ضرور آئےگی اور ایسا ہوا بھی۔۔۔ میرا تجسس ختم ہوا، اپرنا بالکل ویسی تھی جیسی تین سال پہلے تھی، اس کے ساتھ ڈیوڈ ہی تھا جو کہ ایک چھوٹے سے بچے کو گود میں اٹھائے خوش گپیوں میں مشغول تھا، یہ سب میرے لیے مزید حیرت کا باعث بنا۔

    مجھے دیکھتے ہی اپرنا نے اپنے مخصوص پُرجوش انداز میں مجھے پکارا اور تیز قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے میری جانب بڑھی، اسی طرح سے گال چوما اور قریب پڑی کرسی پر مجھے بیٹھا کر خود بھی بیٹھ گئی؛

    “کہاں غائب ہو جاتے ہو تم؟”

    “کہیں نہیں، یہیں تھا۔”

    “ارے یار، عورت اور مرد میں ایک ہی رشتہ تو نہیں ہوتا، ہم اچھے دوست تو تھے ہی نہ، اس ناطے تو مل سکتے ہیں۔ تم تو ایسے بھاگے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔”

    “شاید یہی اچھا تھا۔ میں نے بےاعتنائی سے جواب دیا۔

    اس نے اپنی گہری بھنوئیں سکیڑ کر پوچھا؛

    “کیوں کیوں؟ ایسا کس لیے؟”

    “کیونکہ۔۔۔ بس چھوڑو!”

    “نہیں نہیں کہو نہ!”

    “کیونکہ میں ایسے نہیں کر سکتا!”

    “کیا نہیں کر سکتے؟”

    “یہی کہ دوستی ووستی کچھ نہیں ہوتی، جس سے آپ محبت کرتے ہیں اور جب تک کرتے ہیں وہی ہوتی ہے، پھر کچھ نہیں ہوتا۔”

    “اچھا، تو یعنی تمہیں اب محبت نہیں ہے اور کبھی تم دوست تھے ہی نہیں؟”

    “ایسا ہی سمجھ لو!” میں نے قدرے کرخت لہجے میں جواب دیا۔

    “اچھا۔۔۔ تو یہ بھی اچھا ہے۔”

    “مجھے خوشی ہے کہ تم اب تک ڈیوڈ کے ساتھ ہو!” میں نے دور کھڑے ڈیوڈ کو دیکھتے ہوئے کہا۔

    “ہاں، ڈیو کہاں جائےگا اور میں ڈیو کو چھوڑ کر کہاں جاؤں گی؟ یونو، اب تو کوئی بھی مرد نہیں بھاتا۔ ڈیو سے ہی محبت ہے اس کو مجھ سے ہے۔ کوئی بھی مجھے اس طرح اٹریکٹ نہیں کرتا۔”

    “اچھا؟ یہ کیسے ہو گیا؟” میرے لہجے میں حیرت بھی تھی اور طنز بھی۔

    وہ ایک پل کے لیے کچھ کہتے کہتے رک گئی اور پھر مسکراتے ہوئے بولی؛

    “یہی ہونا تھا۔ کیوں کی ڈیو محبت کرتا ہے۔ تم سارے مرد محبت تو کرتے تھے، وقت اچھا گزرتا تھا، چاہے ہم بستر پر ہوں یا کسی پب میں بیٹھے ہوں پر سب سے زیادہ الجھن اس وقت ہونے لگتی تھی کہ جب مجھے اپنی ملکیت بھی سمجھتے تھے۔۔۔ اتنے ریلیشن شپ رکھنے کے بعد میری سمجھ میں ایک ہی بات آئی ہے کہ محبت میں کوئی کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔ ڈیو نے بس محبت کی اور کبھی اپنی ملکیت مجھ پر نہیں جتائی، میرے جسم پر، میرے خیال پر، میرے خواب پر کبھی کوئی پہرہ نہیں بٹھایا۔ مجھے میری ساری برائیوں اور اچھائیوں کے ساتھ اپنایا۔۔۔ اسی سے ملی ہوں تو جان سکتی ہوں کہ سچا ساتھی اپنی آتما اپنے پاس رکھتا ہے، آپ کی آپ کے پاس رہنے دیتا ہے بس زندگی کے سفر میں قدم سے قدم ملا کر چلتا ہے۔”

    میں کچھ دیر کے لیے خاموش بیٹھا رہا اور پھر اپنی ساری حیرتوں کو ایک لمبی سانس کے ساتھ اپنے دماغ سے باہر نکالنے کے بعد کہا؛

    “خیر! میری سمجھ سے یہ سب باہر ہے۔”

    وہ ہنس دی اور ڈیوڈ کی جانب دیکھتے ہوئے کہنے لگی؛

    “ہاں! ہم لوگوں کے لیے سمجھنا بہت مشکل ہے۔ ہم جن دیشوں سے آئے ہیں وہاں عورت اور مرد کے روپ صدیوں سے طے کر رکھے ہیں۔ آج بھی حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا جاتا ہے، مرد ایک چھوڑ چار عورتوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی پارسا ہے اور عورت کی گواہی تک پوری نہیں۔ دوسری طرف وہ سیتا ہو تو رام اس کو راون کی لنکا میں سے بچا کر نکال تو لاتا ہے پر پھر کہتا ہے کہ اگنی پریکشا دو، آگ میں سے گزر کر دکھاؤ، زندہ باہر آ گئی تو تم نردوش ہو، مان لیا جائےگا کہ راون کے لیے تمہارے من میں کوئی خیال نہیں جاگا اور اگر جل جاؤ تو تم بد چلن ہو! اور رادھا کا کرشنا اتنی گوپیوں کے بیچ میں رہتا ہے پر وہ اس سے کوئی پریکشا نہیں مانگتی۔

    ایسا لگتا ہے کہ صدیوں سے پاروتی، سیتا، رادھا، حوا، مریم سب ایک ہی عورت کے اوتار ہیں، اپنے اسی روپ میں رہے تو دیوی ہے، پوجنے کے لائق ہے اور اگر من کی بات کہےگی تو چنال اور رنڈی کے سوا کچھ نہیں سمجھا جائےگا!

    ایسی کتھاؤں پر یقین رکھنے والے کیسے مان جائیں کہ ہر تن کے بھیتر ایک من بھی ہوتا ہے، اس من میں الگ الگ خیالوں کے پیٹر اُگتے رہتے ہیں، بڑھتے رہتے ہیں، جن پر آشائیں پھوٹتی رہتی ہیں، پکتی ہیں اور ان آشاؤں کے پیچھے من مچلتے ہیں، ان کو پانے کی ہر انسان کی اچھا ہوتی ہے اور اس اچھا کو پورا کرنا ہر انسان کا حق ہے۔ اسے کوئی دھرم، سماج یا دوسرا انسان نہیں روک سکتا۔”

    میں اس کی باتوں میں مکمل طور پر محو ہوچکا تھا۔ خاموشی سے سن رہا تھا، وہ بولتے بولتے چپ بھی ہوگئی تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ابھی تک بول رہی ہے۔ اس خاموش لمحے کے دوران میرے ذہن میں اچانک ایک سوال ابھرا؛

    “لیکن ہم کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ محبت کے بیچ میں ملکیت نہیں ہے؟”

    “میں نے کہا تو ہے کہ ہر من میں آشاؤ ں کے پیڑ اگتے رہتے ہیں، اگر کسی کا ساتھ من کو بنجر کردے تو مانو اس نے محبت کے ساتھ آپ کے من کی دھرتی پر اپنی ملکیت کا سائن بورڈ لگا دیا ہے۔ پر اصل بات تو یہ ہے کہ محبت تو نہ من جیتے کا نام ہے نہ ہارنے کا، کسی کو سونپے کا نہ کسی سے ہتھیانے کا۔ بس یہ تو دو لوگوں کے تن اور من کا ملاپ ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں!”

    میں نے سر اٹھا کر اپرنا کی جانب دیکھا، اس کی کالی آنکھوں کی چمک اب کچھ اور زیادہ واضح ہو چکی تھی، وہ دو آنکھیں ڈیوڈ اور اپرنا کے اپنے وجود کی مکمل تفسیر معلوم ہو رہی تھیں۔

    ذرا نگاہ جھکائی تو دکھائی دیا کہ کلائیوں میں بینڈ اور انگلیوں میں انگوٹھیاں آج بھی موجود تھے لیکن اس مرتبہ ان کا مفہوم میرے لیے کچھ اور ہی تھا۔

    ہاں گلے میں پہنا ایک لاکٹ رہ رہ کر چھاتی کے بوسے لے رہا تھا۔

    جس پر شاید ڈیوڈ لکھا ہوا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے