Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپنی آگ کی طرف

انتظار حسین

اپنی آگ کی طرف

انتظار حسین

MORE BYانتظار حسین

    میں نے اسے آگ کی روشنی میں پہچانا۔ قریب گیا۔ اسے ٹہوکا۔ اس نے مجھے دیکھا پھر جواب دیے بغیرے ٹکٹکی باندھ کر جلتی ہوئی بلڈنگ کو دیکھنے لگا۔ میں بھی چپ کھڑا دیکھتا رہا۔ مگر شعلوں کی تپش یہاں تک آرہی تھی۔ میں نے اسے گھسیٹا، کہا کہ چلو۔ اس نے مجھے بے تعلقی سے دیکھا۔ پوچھا، ’’کہاں؟‘‘ میں چپ ہوگیا جیسے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوسکتا تھا۔

    پھر اس نے تیسری منزل والے کونے کے کمرے کی طرف اشارہ کیا جو دھوئیں سے اٹا ہوا تھا اور جس کی دیوار سے پلستر کے جلتے ہوئے پتڑ کے پتڑ گر رہے تھے۔ ’’میں اس کمرے میں رہتا ہوں۔‘‘

    ’’مجھے معلوم ہے،‘‘ میں نے جواب دیا۔

    ایک دھوتی پوش سائیکل سوار کیریر پہ دودھ سے بھری بڑی سی گڑدی باندھے پیڈل پہ زور زور سے قدم مارتا قریب آیا ، سائیکل سے اترا۔ اس حواس باختہ مجمع میں سننے اور جواب دینے کا کسے ہوش تھا۔ ہمیں چپ چاپ کھڑا دیکھ کر ہمارے قریب آیا اس سے مخاطب ہوا، ’’بابو کیسےآگ لگ گئی۔‘‘ اس نے جواب میں سائیکل والے کو غور سے دیکھا اور پھر جلتی ڈھیتی عمارت کو دیکھنے لگا۔ سائیکل والے کو اپنے سوال کاجواب مل گیا تھا پھر وہ اپنے سوال ہی سے بے نیاز ہوچکا تھا۔ حیرت سے جلتی ہوئی عمارت کو دیکھتا رہا۔ پھر بے کچھ کہے سنے سائیکل پہ سوار ہو، چلا گیا۔

    ایک تانگے والے نے تانگہ دوڑاتے دوڑاتے جلدی سےتانگہ روکا۔ تانگہ سڑک کے کنارے کھڑا کیا۔ پھر تانگہ سے کود کر بھاگا ہوا آیا اور بے کچھ بولے بات کیے اندر سے سامان نکالنے والوں کے ساتھ لگ گیا۔

    ’’تم نے اپنا سامان نکالا؟‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’گھر کی چیزیں گھر کے اندر رکھے رکھے جڑ پکڑلیتی ہیں۔ پھر انہیں ان کی جگہ سے اٹھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ درخت اکھاڑ رہے ہو۔‘‘ چپ ہوا، پھر بولا، ’’تمہیں پتہ ہے، میں یہاں کب سے رہتا تھا۔‘‘

    ’’پتہ ہے۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘ اس نےمجھے یوں دیکھا جیسے لاجواب کردیا ہے۔

    یہ اس نے غلط نہیں کہا۔ میں نے تو طالب علمی کے زمانے سے اسے اسی بلڈنگ کے اسی کمرے میں دیکھا تھا۔ وہ ہوسٹل میں کبھی نہیں رہا۔ کمرہ کرائے پر لے لیا تھا۔ اسی میں رہا۔ اسی میں ہم نے امتحان کے دنوں کی راتیں جاگ جاگ کر کاٹی تھیں۔ میرے لیے وہ اور اس کا کمرہ لازم و ملزوم تھے۔ میرٹک کیا، بے اے کیا، ایم اے کیا، پھر بیروزگاری پھر ٹوٹی پھوٹی ملازمت۔بہرحال وہ یہیں رہا۔ یہیں ہم نے اس بلیڈ سے جسے میں اپنےوالد کے شیونگ باکس سے چراکر لایا تھا پہلی مرتبہ شیو کی تھی۔ اور اب کی کنپٹی کے سب بال سفید ہوچکے تھے۔ اور میرے بھی۔

    اس بلڈنگ میں رہنے والے اور لوگ بھی نئے نہیں تھے۔ منزل بہ منزل فلیٹ ہی فلیٹ تھے جن میں ہر قماش کا آدمی آباد تھا۔ کوئی مقامی کوئی مہاجر۔ کوئی کسی دفتر میں کلرک کوئی کسی کالج میں استاد۔ کوئی صاحب اہل و عیال ہے کہ سال بہ سال بڑھتے ہوئے خاندان کے ساتھ چھوٹی سی چھت کے نیچے سرچھپائے بیٹھا ہے۔ کوئی چھڑا ہے کہ دن بھر مٹرگشت کرتا ہے اور رات گئے تالا کھول کمرے میں پڑا رہتا ہے۔ کسی کا پنشن پہ گزارا ہے، کسی نے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر رکھا ہے کسی نےیہیں اسی بلڈنگ کی دوکانوں میں سے کوئی دکان لے رکھی ہے اور چٹی بٹی سجائے بیٹھا ہے۔ ان دکانوں کا بھی خوب رنگ تھا۔ بعض دکانیں تو واقعی چمکتی دمکتی تھیں۔ سجے ہوئے مال و اسباب کی اسکیم بدلتی رہتی تھی۔ لیکن ایسی دکانیں بھی تھیں جن میں جو کنستر، جو ڈبہ، جو بوری جہاں رکھی ہے، وہاں بس رکھی ہے۔ جیسے ازل سےیہاں رکھی ہے اور ابد تک اسی طرح رکھی رہے گی، یا جیسے یہ دکان کا مال نہیں بلکہ اس عمارت کی پھپھوندی ہے کہ لگ گئی سو لگ گئی۔ اب اتر نہیں سکتی۔ مال و اسباب پر منحصر نہیں یہاں کےبعض بوڑھے بھی اس عمارت کی پھپھوندی سی لگتے تھے۔ میں اپنے آپ کو اور اسے دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ جوانی دنوں میں کیسےچلی جاتی ہے ان بوڑھوں کو دیکھتا ہوں جنہیں ہم نے اپے لڑکپن میں بوڑھا ہی دیکھا تھا اور سوچتا ہوں کہ بڑھاپے کو کتنا قرار اور ثبات ہے۔ شاید عمر بھی اک مقام پر آکر ٹھہر جاتی ہے۔ خیر اس وقت تو کسی کو قرار نہیں تھا۔ مکین مکانوں سے اور مال و اسباب دوکانوں سے نکلا پڑا تھا، جیسے کسی نے مشعال سے چھتے کو سلگادیا ہے اور بھڑیں بلبلاکر نکل پڑی ہیں، بھنبھنارہی ہیں۔ چیخیں، ایک دوسرے کو آوازیں۔ غصیلی آوازیں، دردبھری آوازیں، اذیت ناک آوازیں، گرتی پڑتی عورتیں، بچے، بوڑھے۔ باہر ڈھلتا ہوا سامان، لپک کر آتے ہوئے لوگ، اس غیر وقت میں کہ ابھی صبح نہیں ہو پاتی تھی جس جس نے شور سنا آپہنچا۔ کچھ پانی کی بالٹیاں بھر بھر کے لائے تھے۔ کچھ ڈھاٹے منہ پر باندھ کر اندر گھس پڑے اور اندر کا سامان اندھا دھند باہر پھینکنے لگے۔

    ’’ارے بھائی مختار صاحب کو بھی پتہ ہے یا نہیں؟‘‘ کسی نے یکایک چلاکر کہا۔

    ’’اسے تو اس وقت پتہ چلے گاجب سب جل جائے گا،‘‘ کسی نےغصہ میں کہا۔

    ’’اطلاع دے دینی چاہیے۔‘‘

    ’’اطلاع دینے کون جائے جی۔ یاں جانوں پہ بنی ہوئی ہے۔‘‘

    پھر کسی طرف سے بھاگے بھاگے دو سقے آئے۔ سڑک پر لگے ہوئے نل سے مشکیں بھریں اور لپک جھپک جلتی عمارت کےاندر گھس گئے۔

    ’’ارے بھئی کسی نے فائربریگیڈ والوں کو اطلاع دی ہے؟‘‘

    ’’پتہ نہیں جی۔‘‘

    ’’اطلاع نہیں ہے تو پھر جلدی دے دینی چاہیے۔‘‘

    ’’فائر بریگیڈ والوں کا فون نمبر کیا ہے؟‘‘

    ’’فون نمبر۔۔۔؟ ارے بھئی کسی کو فائر بریگیڈ والوں کا فون نمبر معلوم ہے؟‘‘

    تیسری منزل والا کونے کا فلیٹ اب بالکل شعلوں اور دھوئیں کے نرغے میں تھا۔ سامنے والی دیوار سے پلستر بہت اترگیا تھا۔ ایک دوجگہ اچھے خاصے بھمباقے کھل گئے تھے۔ اب وہ تھوڑا بے چین ہوا، ’’آگ تو بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔‘‘

    مجھے بھی تشویش ہوئی۔ ’’ہاں اب تو بہت بڑھ گئی ہے۔‘‘

    بولا، ’’اصل میں میرے کمرے کی چھت زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ پچھلی برسات میں بہت ٹپکی تھی۔‘‘ رکا۔ پھر آہستہ سے بولا۔ ’’کہیں گر نہ پڑے۔‘‘ یہ کہتے کہتے میرا ہاتھ پکڑا ، ’’چلو چلیں۔‘‘

    وہ اور میں دونوں وہاں سے خاموشی سے سرک آئے۔ لوگ آتے چلے جارہے تھے۔

    اب اجالا ہوچلا تھا۔ وہ اور میں شور سے دور ہوتےجارہے تھے۔

    اب اجالا ہوچلا تھا۔ برکت چائے والے کی دکان کھل چکی تھی اور چولہے پہ رکھی کیتلی میں پانی سنسنانے لگاتھا۔ حاجی صاحب اور منشی احمد دین روز کی طرح آج بھی مسجد سےواپس ہوتے ہوئے یہاں آبیٹھے تھے۔ حاجی صاحب کے ہونٹ ہل رہے تھے اور انگلیوں میں تسبیح گردش کر رہی تھی۔ وہ اور میں ان سے کسی قدر ہٹ کر مونڈھوں پر بیٹھے تھے۔ اور سامنے پڑی ہوئی ٹوٹی پھوٹی میز پر چائے کی پیالیاں۔ چینی چائے کاانتطارکر رہے تھے۔ برکت نے دوسرے چولہے پہ دودھ کی کڑھائی رکھی۔ پھر چائے کے برتن صاف کرنےلگا۔ پھر پیالی کپڑے سے پونچھتے پونچھتے منشی احمد دین سے مخاطب ہوا، ’’منشی صاحب جی۔‘‘

    منشی احمد دین نے سوالیہ نظروں سے برکت کو دیکھا۔ برکت بولا، ’’منشی صاحب جی، مارکیٹ میں آگ لگی تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہجوم نے آگ لگائی ہے۔ اب پوچھو یہ آگ کس نے لگائی ہے۔‘‘

    منشی احمد دین نے افسوس بھرے لہجہ میں کہا کہ ’’بھئی ہماری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ کیوں حاجی صاحب؟‘‘

    حاجی صاحب نے تسبیح پھیرتے پھیرتے ٹھنڈا سانس بھرا، ’’اللہ ہم پہ رحم کرے۔‘‘

    منشی احمد دین بولے، ’’جب ہم ایک دوسرے پہ رحم نہیں کرتے تو اللہ ہم پہ کیوں رحم کرے گا۔‘‘

    برکت نے پرزور لہجہ میں تائید کی۔ ’’بالکل سچ ہے جی۔ روز آگ، روز آگ، حد ہوگئی۔‘‘

    ’’ہاں حد ہوگئی،‘‘ منشی احمد دین بولے۔ ’’ہماری یہ عمر ہونے کو آئی۔ اور کیسا کیسا زمانہ ہم نے دیکھامگر اتنی آگیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔

    ’’کیوں جی کچھ چھوڑیں گے بھی یا سب ہی جلاڈالیں گے؟‘‘

    حاجی صاحب تسبیح پھیرتے پھیرتے منشی احمد دین سے مخاطب ہوئے۔ ’’منشی صاحب تمہیں یاد ہے جب پیلی حویلی میں آگ لگی تھی؟‘‘

    ’’یاد ہے،‘‘ منشی احمد دین کہتے کہتے کانپ گئے۔ ’’کیا قیامت کی آگ لگی تھی۔ لگتا تھا کہ ساری بستی جل جائے گی۔‘‘

    ’’ہاں،‘‘ حاجی صاحب نے ٹھنڈا سانس بھرا، ’’وہ حویلی کیا جلی، بستی ہی جل گئی۔ بعض بعض عمارت اسی طرح جلتی ہے کہ ساتھ میں بستی کی بستی راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہے۔ اللہ بس اپنا رحم کرے۔‘‘ حاجی صاحب نے پھر ایک ڈھنڈا سانس بھرا اور چپ ہوگئے۔

    حاجی صاحب کی بات کا اتنا اثر ہوا کہ تھوڑی دیر کے لیے برکت اورمنشی احمد دین بھی چپ ہوگئے۔ مگر پھر منشی احمد دین خاموشی سے گھبراگئے۔ پوچھنےلگے، ’’حاجی صاحب، پیلی حویلی تو غدر کے وقتوں کی تھی۔‘‘

    ’’ہاں انہیں وقتوں کی عمارت تھی۔ حضرت مہاجر مکی صاحب نے وہاں تین شب قیام فرمایا تھا۔‘‘

    ’’اچھا؟‘‘

    ’’ہاں۔ تیسرے دن عجب واقعہ گزرا۔ مغرب کا وقت تھا حضرت صاحب اصطبل ہی کے اندر چوکی پہ بیٹھے وضو کر رہے تھے۔‘‘

    ’’اصطبل کے اندر؟‘‘ برکت نے چکراکر سوال کیا۔

    ’’ہاں اصطبل کے اندر۔ اصل میں تو وہ وہاں خفیہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ خیال تھا کہ اصطبل کی طرف کسی کا دھیان نہیں جائے گا۔ مگر کسی بے دین نے سی آئی ڈی کردی۔ کلکٹر گھوڑا کوداتا ہوا عین مغرب کی اذان کے وقت آن دھمکا۔ بولا کہ ویل نواب صاحب ہم تمہارا گھوڑا دیکھنا مانگتا۔ اصطبل کھولو۔ نواب کے کاٹو تو خون نہیں۔ مگر حکم حاکم کیا کرتا۔ اصطبل کھول دیا۔‘‘

    حاجی صاحب بولتے بولتے رکے اور برکت اور منشی احمد دین کا دم گلے میں آن اٹکا، ’’اچھا۔۔۔ پھر؟‘‘

    ’’پھر یہ کہ کلکٹر بھنبھناتا ہوا اندر داخل ہوا۔ کیا دیکھا کہ پانی فرش پہ بکھرا ہوا جیسے ابھی ابھی کسی نے وضو کیا ہو۔ لوٹا خالی۔ مصلےٰ بچھاہوا۔ حضرت صاحب غائب۔

    ’’غائب؟‘‘برکت نے حیرت سے سوال کیا۔

    ’’ہاں،‘‘ حاجی صاحب نے اطمینان کے لہجے میں کہا۔

    ’’کہاں گئے جی وہ؟‘‘

    ’’وہ،‘‘ حاجی صاحب مسکرائے۔ ’’حضرت صاحب؟ حضرت صاحب اس وقت تک مدینہ منورہ پہنچ چکے تھے۔‘‘

    ’’سبحان اللہ‘‘ منشی احمد دین کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔

    ’’کمال ہوگیا جی،‘‘ برکت کہتے کہتے کیتلی کی طرف متوجہ ہوا۔ کیتلی کا پانی ابلنےلگا اور ڈھکن بھاپ کے زور سےاڑا جارہاتھا۔ اس نے کیتلی چولہے سے اتار جلدی سے اس میں چائے کی پتی ڈالی اور پیالیوں میں چائے تیار کرنے لگا۔

    ’’حضرت صاحب بڑی ہستی تھے،‘‘ منشی احمد دین بولے۔

    ’’بھائی انہیں کے دم قدم کی برکت تھی۔‘‘ حاجی صاحب کہنے لگے کہ ’’غدر میں خون کی ندیاں بہہ گئیں مگر پیلی حویلی پہ آنچ نہیں آئی۔‘‘ چپ ہوئے تامل کیا۔ پھر ہنسے او ربولے، ’’خدا کی قدرت جس حویلی کا فرنگی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا اسے آگے چل کر اپنوں ہی نے آگ لگادی۔‘‘

    ’’ہم نے تو سنا ہے کہ وہ آگ بھی انگریز ہی نے لگوائی تھی،‘‘ منشی احمد دین بولے۔

    ’’انگریز ہی نے لگوائی تھی۔ مگر لگی کس کے ہاتھوں سے۔ اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں لگی تھی نا۔‘‘

    ’’یہ تو ہے،‘‘ منشی احمد دین فوراً ہی قائل ہوگئے۔

    برکت نےاب چائے بنالی تھی۔ دو پیالیاں حاجی صاحب اور منشی احمد دین کے سامنے رکھیں پھر دو پیالیاں ہماری میز پر لاکر رکھ دیں۔ منشی احمد دین نے پیالی اپنی طرف سرکائی۔ ایک گھونٹ لیا۔ پھر پیالی رکھتے ہوئے بولے، ’’مگر صاحب انگریز کا جواب نہیں۔‘‘

    یہ سنتے سنتے برکت نے جھرجھری لی جیسے اچانک اسے کچھ یاد آگیا ہو۔ بولا، ’’منشی جی، وہ جو ایک گوری چمڑی والا دوسری منزل میں نکڑ والے فلیٹ میں رہتا تھا وہ مجھے دکھائی نہیں دیا۔‘‘

    ’’تم مسٹر جیمز کی بات کر رہے ہو؟‘‘

    ’’ہاں جی اسی کی۔ اس وقت سب فلیٹوں والے باہر نکلے کھڑے تھے۔ جانے وہ کہاں تھا۔ دکھائی تو دیا نہیں۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ ہم سے مخاطب ہوا۔ ’’صاحب جی، آپ نے اسے دیکھا تھا۔‘‘

    وہ تو خاموش بیٹھا رہا۔ میں نے سادگی سے کہا، ’’بھئی نظر نہیں آیا۔‘‘

    ’’یہی تو میں کہہ رہاہوں۔ نظر تو آیا نہیں۔ گیا کہاں؟‘‘

    اتنےمیں ممتاز آگیا۔ تھکا تھکا سا، پسینہ میں شرابور، منہ پر اور کپڑوں پہ ہلکی ہلکی سی کالوئس۔ خاموشی سے کسی قدر بیزاری کے ساتھ ایک ہتھے والی انجر پنجر کرسی منشی احمد دین کے قریب گھسیٹ بیٹھ گیا۔ پھر کرتے کی جیب سے ادھ میلا رومال نکال گردن پونچھنے لگا۔

    ’’کچھ کم ہوئی؟‘‘ منشی احمد دین نے کسی قدر تامل سے پوچھا۔

    ’’کم؟ وہ تو بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔‘‘ ممتاز چپ ہوا۔ پھر بڑبڑایا، ’’لگتاہے کہ پوری بلڈنگ ہی راکھ کا ڈھیر ہوجائے گی۔‘‘

    حاجی صاحب نے تسبیح پھیرتے پھیرتے ممتاز کو غور سے دیکھا۔ پھر سوال کیا۔ ’’مختار صاحب کو تو اطلاع پہنچ گئی ہوگی۔‘‘

    ممتاز نے برا سا منہ بنایا۔ ’’حاجی صاحب صبح ہی صبح کس کا نام لے دیا۔‘‘

    حاجی صاحب نے بہت متانت سے کہا، ’’میاں میں یہ پوچھ رہاہوں کہ مختار صاحب موقعہ واردات پہ پہنچے یا نہیں پہنچے۔‘‘

    ’’پہنچ گیا جی۔ ایسے جتا رہا تھا جیسے اسے کچھ خبر ہی نہیں ہے۔‘‘

    ’’خبرتو کسی کو بھی نہیں تھی۔ خبر ہوجاتی تو آگ لگتی ہی کیوں،‘‘ منشی احمد دین بولے۔

    ’’اسے سب خبر تھی۔‘‘

    ’’مختار صاحب کو خبر تھی؟ غلط۔ یہ الزام تراشی ہے،‘‘ منشی احمد دین نے بہت غصے سے ممتاز کو دیکھا۔

    ممتاز نے منشی احمد دین کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کی طرف سے منہ پھیر کر برکت سے مخاطب ہوا، ’’برکت، چائے پلوائے گا؟‘‘

    ’’ہاں جی۔ کیوں نہیں۔‘‘ برکت پھرتی سے چائے بنانے لگا۔

    اخبار فروش سائیکل پہ پیڈل مارتا تیزی سے آیا۔ گزرتےگزرتے اردو کاایک اخبار میز کی طرف اچھالا اور چھلاوا بن گیا۔ منشی احمد دین نے اخبار اٹھاکر ایک ورق حاجی صاحب کو پکڑادیا۔ دوسراورق میز پر پھیلا کر خود پڑھنےلگے۔ برکت نے چائے بناکر پیالی بڑھائی۔ ممتازنے تھوڑا اٹھ کر پیالی پکڑی۔ میز پر رکھی۔ پینے لگا۔ منشی احمد دین نے کوئی خبر پوری پڑھی، کوئی آدھی، کسی کی صرف سرخی پر نظر ڈالی۔ پھر ورق حاجی صاحب کے حوالے کیا۔ پھر کہنے لگے، ’’حاجی صاحب مشرق وسطیٰ میں حالات بگڑتے ہی جارہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ لڑائی پھر ہوگئی۔‘‘

    ’’اور پھر عرب مار کھائیں گے،‘‘ ممتاز چائے پیتے پیتے جلے پھنکے لہجہ میں بولا۔

    برکت نے ٹکڑا لگایا۔ ’’پاکستان میدان میں آجائے، پھر سالے یہودیوں کاکباڑ ہوجائے گا۔‘‘

    حاجی صاحب نے اخبار ایک طرف رکھا ایک خفیف سے زہرخند کے ساتھ بولے، ’’پاکستان پہلے گھر کی لڑائیوں کو تو نبٹالے۔‘‘

    اس فقرے نے برکت پہ بہت اثر کیا۔ دکھ بھرے لہجہ میں کہنےلگا۔ ’’حاجی صاحب جی، کیا بات ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہیں وہاں آپس میں لڑ رہے ہیں۔ بس اسی میں مارے جارہے ہیں۔‘‘

    حاجی صاحب نے تامل کیا۔ پھر بولے، ’’یہ وقت مسلمانوں کے خلاف جارہا ہے۔‘‘

    منشی احمد دین نےٹکڑا لگایا، ’’یہ امریکہ کازمانہ ہے۔‘‘

    برکت نے تردید کی، ’’اماں منشی جی، امریکہ کی تو فاختہ اڑگئی ہے۔ میں جانوں اب روس کا زمانہ ہے۔‘‘

    ’’ایک ہی بات ہے،‘‘ ممتاز نے پھر اسی جلے لہجہ میں کہا۔

    برکت حاجی صاحب سے مخاطب ہوا۔ ’’حاجی صاحب جی مسلمانوں کا زمانہ کب آوے گا۔‘‘

    ’’مسلمانوں کا زمانہ لنگ گیا،‘‘ ممتاز اسی لہجہ میں پھر بولا۔

    ’’باشاؤ مڑ کے آوے گا،‘‘ برکت نے اعتماد سے اعلان کیا۔

    ’’ایسے ہی جیسے پاکستان میں مڑکے آیا ہے؟‘‘

    ممتاز کے اس وار نے برکت کو بالکل ہی نہتا کردیا۔ لاجواب ہوکر وہ دودھ کی کڑھائی والےچولہے کی طرف متوجہ ہوگیا اور زور زور سے آگ پھونکنے لگا۔

    ممتاز منشی احمد دین سےمخاطب ہوا۔ ’’منشی صاحب، یہ مختار پہلے کیا تھا؟‘‘

    ’’پہلے تو پھانک تھا جی۔‘‘ برکت نےچولہے کو اس کے حال پر چھوڑا اور گرمی میں آگیا۔ ’’بس ہمارے دیکھتے دیکھتے اس نے محل کھڑے کرلیے۔‘‘

    منشی احمد دین نے تو جیہ پیش کی، ’’بہت محنتی آدمی ہے۔‘‘

    ’’محنتی آدمی،‘‘ ممتاززہر بھری ہنسی ہنسا۔

    برکت بولا، ’’منشی صاحب جی، محنت کی کمائی میں بس روکھی روٹی کھائی جاسکتی ہے، جائدادیں نہیں بنائی جاسکتیں۔‘‘

    رمضان کچھ ان حالوں آیا کہ بولتے بولتے سب چپ ہوگئے۔ منہ جھلسا ہوا، کالوئس پتی ہوتی۔ کپڑے کچھ کچھ جلے ہوئے، کچھ دھوئیں میں رچے ہوئے۔ سر سے پیر تک پسینہ بہتا ہوا۔

    ’’رمضان چائے بناؤں تیرے لیے؟‘‘

    ’’نہیں۔ کوکا کولا۔‘‘

    برکت نے جلدی سے ایک کوکاکولا کھولا۔ اور رمضان کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ جب دو تین گھونٹ پی چکا تو خود ہی کھلا۔ ’’ماسٹر کی بیوی خود تو نکل آئی، بچے کو اند رچھوڑ آئی۔ بڑی مشکل سے نکالا ہے۔‘‘

    منشی احمد دین نے بڑی تشویش سے پوچھا، ’’خیریت سے تھا؟‘‘

    ’’بس جی اللہ نے بچالیا۔ جب میں اندر پہنچا ہوں تو آگ بالکل جھولے کے پاس آگئی تھی اور سارے میں دھواں بھرا ہوا۔‘‘ رمضان چپ ہوا۔ پھر بولا، ’’مگر بچہ نے کمال کردیا جی چسر چسر چوسنی چوس رہا تھا۔ بالکل نہیں رویا۔‘‘

    ممتاز نے دانت پیسے آپ ہی آپ بڑبڑانے لگا، ’’سالا یزید کی اولاد۔‘‘

    رمضان ممتاز کو تکنے لگا۔ پھر اطلاعاً کہنے لگا، ’’اب پھنس گیا مختار۔‘‘

    ’’اچھا؟‘‘

    ’’ہاں۔ رحمت پکڑا گیا۔‘‘

    منشی احمد دین افسوس کے لہجہ میں کہنے لگے، ’’میں نے مختار صاحب سے کہا تھا کہ یہ آدمی تمہیں بدنام کرائے گا۔ وہی ہوا۔‘‘

    برکت بولا، ’’پریار رمضان مجھے کچھ اور شک پڑے ہے۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’یار وہ جو سفید چمڑی والا تھا جو دوسری منزل کے نکڑ والے فلیٹ میں رہتا تھا۔۔۔‘‘

    ’’ہاں ہاں۔ جیمز۔‘‘

    ’’وہ ایک دم سے کہاں غائب ہوگیا۔‘‘

    ’’ہاں بے برکت تو کہوے تو ٹھیک ہے۔‘‘ رمضان سوچ میں پڑگیا۔ پھر بڑبڑایا ، ’’وہ گیا کہاں۔‘‘

    ممتاز غصے میں بڑبڑایا، ’’سب سالے ملے ہوئے ہیں۔‘‘

    منشی احمد دین بیٹھے بیٹھے اٹھ کھڑے ہوئے، ’’حاجی صاحب، پھر میں ذرا وہاں جاکے دیکھتا ہوں۔‘‘

    حاجی صاحب پھر خاموشی سے تسبیح پھیرنےلگے تھے۔ تسبیح پھیرتے پھیرتے انہوں نے منشی احمد دین کو دیکھا، آنکھوں ہی آنکھوں میں انہیں الوداع کہی اور پھر تسبیح پھیرنے لگے۔

    ممتاز نے رمضان کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ ’’میں نے منشی کے بارے میں کیا کہا تھا۔‘‘

    ’’مان گیا جی تمہیں ممتاز صاحب۔‘‘

    ’’برکت تم نے دیکھا،‘‘ ممتاز برکت سے مخاطب ہوا۔‘‘ منشی جی کیسا اکھڑا ہے میری باتوں سے۔‘‘ وہ پھر غصے سے بڑبڑایا۔ ’’حرام زادے۔‘‘

    وہ بس بیٹھے بیٹھے اٹھ کھڑا ہوا، ’’چلو۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’کہاں؟‘‘ بولا، ’’کہیں بھی۔‘‘ ہم دونوں وہاں سے اٹھے۔ چل پڑے۔ خاموش چلتے رہے۔ اب اچھی خاصی صبح تھی۔ دھوپ بھی نکل آئی تھی۔ اونچی منڈیروں پر چمک رہی تھی۔ اکا دکا آدمی بھی چلتا پھرتا نظرآرہا تھا۔ سواریاں تو اچھی خاصی ہی چلنی شروع ہوگئی تھیں۔ خاموش چلتے چلتے وہ مجھ سے دفعتاً مخاطب ہوا، ’’تمہیں یاد ہے کہ ہم نے اس شہر کی گرمیوں کی دوپہر میں کس کس طرح گزاری ہیں۔‘‘

    ’’یاد ہے،‘‘ یہ کہتے کہتے میرے تصور میں وہ ان گنت جلتی پھنکتی دوپہریں امنڈ آئیں جو میں نے اور اس نے درختوں کے سائے میں بیٹھ کر، درختوں سے محروم فٹ پاتھوں پر چل پھر کر ائر کنڈیشننگ سے بے نیاز چائے خانوں میں سر جوڑ کر گزاری تھیں مگر اس وقت ان کا کیا ذکر تھا۔ ہاں وہ اس کے بعد کہنے لگا۔ ’’کبھی کبھی دوپہر میں چل چل کر میں تھک جاتا اور سوچتا کہ گھر جاکر آرام کروں گامگر بجلی کے پنکھے سے محروم وہ کمرہ دوپہر میں تندور کی طرح تپتا تھا۔ میں دوپہر کو وہاں لیٹ کر کبھی نہ سوسکا۔‘‘

    اس بات کا میں کیا جواب دیتا۔ سنتا رہا اور چلتا رہا۔ پھر وہ کہنےلگا، ’’تمہیں پتہ ہے کہ کھانے کا اپنا قصہ تو بس ایسا ویسا ہی تھا تو میں نے اس چھت کے نیچے بھوکا رہ کر بھی بہت راتیں بسر کی ہیں اور بھوک میں تو یہی ہوتا ہے کہ نیند آبھی جاتی ہے اور نہیں بھی آتی۔‘‘ وہ چپ ہوا اور بولا، ’’میں نے اس چھت کے نیچے بہت دکھ اٹھائے ہیں۔ اسے گرنا نہیں چاہیے۔‘‘

    ’’یہ کیا منطق ہوئی،‘‘ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

    اس نے تامل کیا۔ پھر بولا، ’’شیخ علی ہجویری نے دیکھا کہ ایک پہاڑ ہے۔ پہاڑ میں آگ لگی ہوئی ہے۔ آگ کے اندر ایک چوہا ہے کہ سخت اذیت میں ہے۔ اور اندھا دھند چکر کاٹ رہا ہے۔ چکر کاٹتے کاٹتے وہ پہاڑ سے اور پہاڑ کی آگ سے باہر نکل آیا۔ اور باہر نکلتے ہی مرگیا۔‘‘ وہ چپ ہوا۔ پھر آہستہ سے بولا، ’’میں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘

    یکایک فائر بریگیڈ کی تند وتیزآواز آنےلگی۔ مجھے کچھ تعجب سا ہوا۔ ’’فائر بریگیڈ اب جارہاہے؟ اتنی دیر بعد؟‘‘ پھر میں نے سوچا کہ شاید یہ مزید کمک بھیجی جارہی ہے۔ فائر بریگیڈ اپنے تند و تیز شور کے ساتھ سامنے سے گزرا چلا گیا۔ اور اب اچانک لوگ جانےکہاں سے ابل پڑے تھے۔ جہاں تہاں کھڑی ہوئی ٹولیاں خوف بھری سرگوشیاں، تبصرہ آرائیاں ’’آگ لگ گئی؟‘‘

    ’’اب کے کہاں آگ لگی؟‘‘

    ’’کچھ باقی بھی بچے گا یا سب کچھ جل جائے گا۔‘‘

    ٹھنڈا سانس ۔۔۔ ’’اللہ ہم پہ رحم کرے۔۔۔‘‘ ایک اور ٹھنڈا سانس۔۔۔ ’’بہت برا وقت آگیا ہے۔‘‘

    میں نے یونہی پوچھ لیا۔ ’’آگ بجھ بھی جائے گی؟‘‘

    اس نے مجھے حیرت سےدیکھا۔ ’’کون سی آگ؟‘‘

    ’’یہی جو لگی ہے۔‘‘

    ’’اچھایہ آگ؟‘‘ وہ سوچ میں پڑگیا۔ پھر بولا۔ ’’تمہارا کیا خیال ہے۔‘‘

    ’’شاید بجھ ہی جائے۔‘‘ میں نے کہا ، ’’فائر بریگیڈ تو پہنچ گیا ہے۔‘‘

    وہ زہر بھری ہنسی ہنسا، ’’ہاں فائر بریگیڈ تو پہنچ گیا ہے۔‘‘

    ہم پھر خاموش چلنےلگے۔ چل رہے تھے کہ وہ بولا، ’’اگر آگ نہ بجھی تو یہ سب لوگ کہا جائیں گے۔‘‘

    میں نے ایک خوف کے ساتھ اس سراسیمہ خلقت کو یاد کیا جسے میں ابھی گھروں سےباہر نکلا ہوا دیکھ کر آیا تھا۔ میں نے کہا کہ ’’خدا کرے آگ بجھ ہی جائے۔‘‘

    وہ چپ رہا۔ میں بھی چپ ہوگیا۔ ہم دونوں چپ چلنے لگے دیر تک چپ چلتے رہے۔ پھر میں نے کسی قدر جھجکتے ہوئے کہا، ’’تم میرے گھر آجاؤ۔‘‘

    ’’تمہارے گھر۔‘‘ وہ عجیب طرح سے ہنسا۔ میں کھسیانا سا ہوگیا۔

    ہم دیر تک خاموش چلتے رہے۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید آگ کے خیال نے اسے بہت پریشان کر رکھا ہے۔ بات بدلنےکی نیت سےمیں نے کوئی بات کہی۔ کوئی ادھر کی بات کوئی اُدھر کی بات۔ پھر اور اور ذکر نکل آئے۔ اور دور دور تک دھیان گیا۔ دن گرم تھا۔ دھوپ اچھی خاصی تیز تھی اور وہ اور میں گھوم رہے تھے، بے مقصد بے وجہ، کبھی اس سڑک پر کبھی اس سڑک پر۔ گمشدہ آوارگی کی روایت تازہ ہو رہی تھی۔ اب ہم پہلے کی طرح کہاں اکٹھے ہوتے تھے اور اب تپتی دوپہروں اور سنسان رات میں آوارہ پھرتے تھے اب اپنی اپنی زندگی تھی اپنا اپنا دھندا تھا۔ آج اچھے خاصے دنوں کے بعد ملے تھے اور عجب ملے کہ کوچہ گردی کی سوتی ہوئی رگ پھڑک اٹھی۔ سارے دن گھومتے رہے۔ رات گئے تک اس چائے خانےسے اٹھ کر اس چائے خانے میں، اس چائے خانے سے اٹھ کر اس خرابے میں۔ آخر کورات ڈھلنے لگی اور میں اور وہ دونوں تھک کو چور ہوگئے۔ ’’اچھا اب میں گھر چلا۔‘‘

    ’’گھر؟‘‘ میں نے اسے حیرت سے دیکھا۔

    ’’ہاں گھر۔‘‘ وہ بولا، ’’میں نے اس چھت کے نیچے بہت دکھ دیکھے ہیں اسے گرنا نہیں چاہیے۔‘‘

    ’’مگر۔۔۔‘‘ جانے میں کیا کہنا چاہتا تھا۔ کچھ الجھ سا گیا۔

    اس نےبہت متانت سے کسی قدر غیر جذباتی لہجہ میں کہا، ’’تم ٹھیک سوچتے ہو مگرمیں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘

    میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ چلا گیا۔ اپنے گھر کی طرف، اپنی آگ کی طرف۔

    مأخذ:

    انتظار حسین کے سترہ افسانے (Pg. 199)

    • مصنف: انتظار حسین
      • ناشر: موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دریا گنج، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1980

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے