aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اصل واقعہ کی زیراکس کاپی

مشرف عالم ذوقی

اصل واقعہ کی زیراکس کاپی

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

     

    ’’وہ جو، 
    ہر طرح کے ظلم، قتل عام اور بربریت/
    کے پیچھے ہیں/
    تلاش کرو/
    اور ختم کر دو/
    اس لئے کہ وہ اس نئی تہذیب کی داغ بیل/
    ڈالنے والے ہیں/
    جو تمہاری جانگھوں یا ناف کے نیچے سے ہو کر گزرےگی۔‘‘ 

    گرمی کی ایک چلچلاتی دوپہر کا واقعہ
    سپریم کورٹ کے وسیع و عرض صحن سے گزرتے ہوئے اچانک وہ ٹھہر گیا۔ سامنے والا کمرہ جیوری کے معزز حکام کا کمرہ تھا۔ اس نے اپنی نکٹائی درست کی۔ خوبصورت سلیٹی کلر کے جیمنی بریف کیس کو، جسے اس نے سوئزرلینڈ کے 25 سالہ ورک شاپ سے خریدا تھا، داہنے ہاتھ میں تھام لیا اور اس جانب دیکھنے لگا جدھر سے پولیس کے دو سپاہی ایک منحنی سے آدمی کو ہتھکڑی پہنائے لئے جا رہے تھے۔ 

    سموئل یہ بھی آدمی ہے۔ وہ بے اختیار ہو کر ہنسا۔۔۔ جیسے اس دبلے پتلے سے آدمی کو ہتھکڑیوں میں دیکھتے ہوئے ہنسنے کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہیں کیا جا سکتا۔ 

    ’’آدمی۔ تم کیا سمجھتے ہو سموئل، اس نے کوئی جرم کیا ہوگا۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہو۔ یہ آدمی ایک مکھی بھی نہیں مار سکتا۔ 

    ’’آپ کا دعویٰ صحیح ہے یور آنر، سموئل نے قدرے کھل کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔‘‘ 

    ’’یہ مکھی بھی نہیں مار سکتا۔ مگر پچھلے دنوں آپ نے وہ چرچا سنی ہوگا۔ ایک شخص نے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ۔ اپنی سگی دو بیٹیوں کے ساتھ۔‘‘ 

    ’’کیا یہ شخص۔‘‘ 

    سموئل نے سر کو جنبش دی۔ ’’یور آنر، یہ وہی شخص ہے۔‘‘ 

    *

    منحنی سا دبلا پتلا آدمی۔ چہرہ عام چہرے جیسا۔۔۔ آگے کے بال ذرا سا اُڑے ہوئے۔۔۔ بالوں پر سفیدی نمایاں ہو چکی تھی۔ سانولا رنگ، کرتا پائجامہ پہنے۔ ایک ہاتھ سے اپنے چہرے کو بہت ساری چبھنے والی نگاہوں سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ سپاہی اسے لے کر کورٹ روم میں داخل ہو گئے۔ 

    اس نے گھڑی دیکھی۔ ’’بینک تو بارہ بجے بند ہوتا ہے نا۔‘‘ 

    ’’یس یور آنر‘‘ 

    ’’مجھے یور آنر مت کہا کرو۔ میں ہوں نا، ایک بہت عام سا آدمی۔ معمولی آدمی، کہتے کہتے وہ ٹھہرا۔۔۔ تم نے کبھی اس طرح کا کوئی مقدمہ دیکھا ہے سموئل؟‘‘

    ’’نہیں میں نے نہیں دیکھا۔‘‘ 

    ’’آہ۔ میں نے بھی نہیں دیکھا۔‘‘ 

    میں سمجھ سکتا ہوں سر، سموئل جھک جھک کر سر ہلا رہا تھا۔ 

    *

    اب وہ کورٹ روم میں تھے۔ جیوری کے ممبر موٹی موٹی کتابوں، فائلوں کے ساتھ اپنی جگہ لے چکے تھے۔ بیچ بیچ میں کوئی وکیل اٹھ کھڑا ہوتا۔ جج درمیان میں بات روک کر گمبھیر آواز میں کچھ کہتا۔ جیوری کے ممبر نظر اٹھا کر اس منحنی سے شخص کو دیکھ کر کچھ اشارہ کرنے لگتے۔ 

    پھر بہت ساری نظریں کٹہرے میں کھڑے ہوئے ملزم کی جانب اٹھ جاتیں۔ وہ آدمی، وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔ وہ چہرے سے عیاش اور ’’پاجی‘‘ بھی نہیں لگ رہا تھا۔ وہ چہرے سے اس قماش کا قطعی نہیں لگ رہا تھا۔ چہ میگوئیوں، شور کرتی آوازوں کے بیچ دو لڑکیاں اپنی جگہ سے اٹھیں۔ ایک کی عمر کوئی سترہ سال کی ہو گی۔ دوسری کی پندرہ سال۔۔۔ دونوں کے چہرے پر ایک خطرناک طرح کا تیور تھا جیسے کسی زمانے میں افریقی نسل کے سیاہ فام ’’جمپانا‘‘ نام کے بندر کے چہرے پر پایا جاتا تھا۔ 

    اسے وحشت سی ہوئی۔۔۔ چلو سموئل۔ باہر چلتے ہیں۔ 

    ’’مگر یور آنر۔‘‘ سموئل کے چہرے پر ہلکی سی ناراضگی پل بھر کو پیدا ہوئی۔۔۔ جسے حسب عادت اپنی مسکراہٹ کے ساتھ وہ پی گیا۔ ’’جیسی آپ کی مرضی یور آنر۔‘‘ 

    *

    دونوں سڑک پر آ گئے۔ اس کی آنکھوں میں سراسیمگی اور حیرانی کا دریا بہہ رہا تھا۔ 

    ’’تم وہاں رکنا چاہتے تھے سموئل۔ کیوں؟ میں سمجھ سکتا ہوں اس نے سر کو جنبش دی، مگر بتاؤ، آخر کو وہ آدمی۔۔۔ کیوں تمہارے ہی جیسا تھا، نا؟‘‘ 

    ’’سموئل گڑبڑا گیا۔۔۔ پھر فوراً سنبھل کر بولا۔ ’’ہاں بالکل سر، ہمارے آپ کے جیسا۔ آدمی۔۔۔ جیسے سبھی آدمی ہوتے ہیں۔‘‘ 

    ’’چہرے پر ملال ہوگا۔ ہونا چاہئے۔ ہوگا ہی۔ تم نے دیکھا نا، سموئل، وہ کٹہرے میں کیسا نظریں بچائے کھڑا تھا۔‘‘ 

    ’’یس یور آنر۔‘‘ 

    ’’میری سمجھ میں ایک بات نہیں آتی سموئل۔۔۔ آخر خود پر لگائے گئے الزامات کی وہ کیا صفائی بیان کر رہا ہوگا۔ وہ کہہ رہا ہوگا کہ۔‘‘ اس کے چہرے کے تیور بدل رہے تھے۔۔۔ آدمی کو ایک زندگی میں ایک ہی کام کرنا چاہئے۔ یا تو بس اپنے کام سے جنون کی حد تک پیار ہو یا پھر شادی کر کے گھر بسا لینا چاہئے۔ دونوں میں سے ایک کام۔۔۔ یہ کیا۔ کہ شادی ہوئی اور ماں کی گود سے کود کر بچی دندناتی ہوئی تاڑ جتنی لمبی ہو گئی۔۔۔ اور لوگوں کی نگاہوں میں ٹینس بال کی طرح پھسلنے لگی۔ ادھر۔ کبھی ادھر۔ 

    سموئل ہنسا، وہ دیکھئے سر!

    سامنے سے دو کانونٹ کی پراڈکٹ ٹھہاکہ لگاتی ہوئی گزر گئیں۔ ایک پل کو اس کی نگاہیں چار ہوئیں۔ جسم میں ایک تیزابی ہلچل ہوئی۔ بجلی کو ندی۔۔۔ گرجی اور خاموش ہو گئی۔ 

    ’’ایسی لڑکیاں۔ ہم آپ کسی نظر سے دیکھیں مگر میرا دعویٰ ہے۔ ان کا ایک باپ ہو گا۔ گھر میں چائے پیتا ہوا۔ اخباروں پر جھکا۔ بیوی سے کسی نامناسب بحث میں الجھا ہوا۔۔۔ اور بیٹیوں کو دیکھ کر اشارتاً کوئی بے معنی سا سوال پوچھتا ہوا۔ یا۔ بریک فاسٹ لنچ، ڈنر یا چائے بنا دینے کی بےچارگی بھری فرمائش کرتا ہوا۔ ایک عام باپ۔ جیسا کہ وہ تھا۔ جیسا کہ اسے ہونا چاہئے۔ اور جیسا کہ سب ہوتے ہیں۔‘‘ 

    سموئل نے داڑھی کھجلائی۔۔۔ پھر یوں چپ ہو گیا جیسے ابھی غیر ارادی طور پر اس کے منہ سے جو بھی بول پھوٹے ہیں وہ اس کے لئے شرمسار ہو۔ اس نے بھی دھیرے سے گردن ہلائی جیسے گہرے صدمے سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا ہو۔ 

    اس نے کچھ سوچتے ہوئے دوبارہ گردن ہلائی اور جیسے، آنکھوں کے آگے بہت کچھ روشن ہو گیا۔ ماں کے ’’حمل‘‘ سے کود کر، آن میں کودتی پھاندتی تاڑ جتنی بڑی ہو جانے والی لڑکی۔ 

    یہ لزا بار بار آنکھوں کے آگے کیوں منڈلاتی ہے اور وہ۔ ایک لاچار باپ۔ چھپ کیوں نہیں سکتا۔ نہیں دیکھے اسے۔ ایک بار بھی۔۔۔ بچپن میں اُچک کر کندھوں پر سوار ہو جانے والی لزا۔۔۔ اچانک ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی ہوئی، کتنی ڈھیر ساری بہاروں کے ساتھ ہوا کے رتھ پر سوار ہو گئی تھی۔۔۔ نہیں لزا، یہاں نہیں۔ یہاں مت بیٹھو۔ یہاں میں ہوں نا۔ جاؤ اپنا ہوم ورک کرو۔ اپنے کمرے میں جا کر اسٹڈی کرو لزا۔ یہاں سے۔ یہاں سے جاؤ، پلیز۔ عمر کے پاؤں پاؤں چلتی ہوئی لڑکی کے بڑے ہوتے ہی باپ اچانک نظریں کیوں چرانے لگتا ہے۔ ہوٹل، کلب، ریستوران کے ڈھیر سارے جانے انجانے لمس کے بیچ یہ رشتے کی نازک پتنگ اسے پریشان کیوں کر دیتی ہے۔ کیوں کر دیتی ہے۔ کہ ایک باپ ہونے کے ناطے اسے سمجھانا پڑتا ہے خود کو۔ ایک اچھا لڑکا۔ ایک عمدہ آدمی۔‘‘ 

    ’’یہ عمدہ آدمی کہاں بستا ہے۔ کہاں ملتا ہے۔۔۔ کیوں سموئل!‘‘ 

    سموئل نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔ وہ کسی اور سوچ میں گم تھا۔۔۔ عمدہ آدمی۔ بہتر آدمی، بےلوث، بےغرض، مخلص، ہمدرد اور عمدہ آدمی۔۔۔ روانڈا کی سڑکوں پر بھی ایسے کسی آدمی سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی۔ لندن، پیرس، برلن کی گلیوں میں بھی اسے سے ایسا کوئی آدمی نہیں ٹکرایا۔ افریقہ کی سڑکوں پر بھی نہیں۔۔۔ جہاں دھوپ سے جھلسے سیاہ فام چہروں پر اس نے ’’بیٹک‘‘ کی نظم لکھی دیکھی تھی۔ 

    ’’اس دھرتی پر۔ 
    ہم اپنے سفید دانتوں سے ہنستے ہیں۔ 
    اس وقت بھی۔ 
    جب ہمارا دل لہو لہان ہو رہا ہوتا ہے۔‘‘ 

    کمپالا (یوگانڈا) کے ہوٹل میں سیاہ فام نگونگی نے اس کے بدن سے کھیلتے ہوئے اچانک پوچھا تھا۔ سر، ایک لمحے کو سوچئے اگر میں آپ کی سگی بیٹی ہوتی تو۔ وہ بستر سے چھلانگ لگا کر اتر گیا تھا۔ ننگ دھڑنگ۔ وہ کانپ رہا تھا۔ نگونگی ایک بے شرم سفاک مسکراہٹ کے ساتھ اس کے بوکھلائے چہرے کو دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔ 

    ’’سموئل، ہم یہ کمینہ پن کیوں کرتے ہیں؟‘‘ 

    ’’ہم۔ تھک جاتے ہیں سر۔ تھک جاتے ہیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے پرے ہو جاتے ہیں۔‘‘ 

    اس نے گہرا سانس کھینچا۔ ’’ٹھیک کہتے ہو۔ ہم تھک جاتے ہیں۔ اس جسم میں کتنی طرح کی لذتیں دفن ہیں سموئل؟ ہاں دفن ہیں۔ اس نے پھر سانس کھینچا۔ کتنی طرح کی لذتیں۔ کتنے ملکوں کی۔ نرم۔ گرم اور۔ ہم کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ یہ کہ چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے اور ہم ایک غیر جسم سے چپکے ہوئے ہیں۔ کھیل رہے ہیں۔۔۔ جب ہم اپنے گلاس میں اسکاچ انڈیلتے ہیں۔ کاکروچ مارتے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔ ہر لمحہ۔ ہندوستان میں۔ پاکستان میں۔ کوئی سا بھی ملک۔۔۔ باقی نہیں ہے۔ جب ہم اپنی ٹائی درست کرتے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔ امریکہ، روس، جاپان، ویتنام۔ ایٹم بم اور میزائلس سے باہر نکلو تو وہی ایک جسم آ جاتا ہے۔ لوگ مر رہے ہیں۔ اور لوگ اپنی سگی بیٹیوں کے ساتھ۔‘‘ 

    ’’یور آنر، بینک آگیا ہے۔‘‘ 

    مہنگے ہوٹل کی ایک رات اور ٹرائل
    ’’اچھا، وہ کیا جرح کر رہا ہوگا سموئل! ذرا سوچو، اس کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لئے کیا رہ جاتا ہے۔ اچھا ایک منٹ کے لئے مان لو۔ وہ آدمی میں ہوں۔ تم وکیل ہو جج ہو یا کچھ بھی مان لو۔ ماننے کو تو کچھ بھی مانا جا سکتا ہے سموئل۔ یوں پاگلوں کی طرح مجھے مت گھور کر دیکھو۔ مان لو اور سمجھ لو، ٹرائل شروع ہوتا ہے۔ اگر شروع ہوتا ہے تو کیسے؟‘‘ 

    ’’یور آنر۔ سموئل نے کچھ کہنے کے لئے حامی بھری، اس نے روک دیا۔۔۔ 

    ’’نہیں، یہاں یور آنر تم ہو سموئل۔ اور سمجھو مقدمہ شروع ہو چکا ہے۔ جیوری کے ممبر بیٹھ چکے ہیں۔ کٹہرے میں، میں کھڑا ہوں۔۔۔ ایک لاچار اپرادھی باپ جس نے اپنی سگی بیٹیوں سے۔ نہیں مجھے یہ جملہ ادا کرنے میں دشواری ہو رہی ہے سموئل۔ تاہم۔ میں۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ۔‘‘ 

    اس نے آنکھیں بند کیں۔ جیسے اپنے تمام تاثرات چہرے پر لا کر جمع کر رہا ہو۔ 

    ’’ہاں تو میں۔ ایک لاچار کمینہ باپ۔ کسی ایک جبر و کشمکش کے لمحے کے ٹوٹ جانے کے دوران۔ نہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ۔۔۔ وہ حوا کی کوکھ سے نہیں، میرے خون سے نکلی تھی۔ جنی تھی۔۔۔ مجھے اعتراف ہے کہ۔۔۔ نہیں، مجھے کہنے نہیں، آ رہا۔ اور کیسے آ سکتا ہے۔ آپ سب مجھے ایسے گھور رہے ہیں۔ سب کی نگاہیں۔۔۔ عیاشی کی اس سے بھدی مثال اور کمینگی کی اس سے زیادہ انتہا اور کیا ہو سکتی ہے۔ مجھے سب اعتراف ہے۔ مگر۔ میں کیسے سمجھاؤں۔ بس ایک جبر و کشمکش کے ٹوٹ جانے والے لمحے کے دوران۔‘‘ 

    ’’آرڈر۔ آرڈر۔ ملزم جذباتی ہو رہا ہے۔۔۔ ملزم کو چاہئے کہ اپنے جذبات پر قابو رکھے۔‘‘ 

    سموئل کے چہرے پر کٹھورتا تھی۔ 

    ’’مورکھتا۔ ملزم جب وہاں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پایا تو یہاں۔۔۔ خیر، میں کہہ رہا تھا۔۔۔ میں پچھلے دنوں ویتنام گیا تھا۔ سیاحت میرا شوق ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ میں ویتنام۔‘‘ 

    ’’اس پورے معاملے کا ملزم کے ویتنام جانے اور سیاحت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ 

    ’’میں مانتا ہوں می لارڈ۔ مگر جو واقعہ یا حادثہ ایک لمحے میں ہو گیا۔ ایک بے حد کمزور لمحے میں۔۔۔ اس کے لئے مجھے ویتنام تو کیا، فلسطین، ایران، عراق، امریکہ، روس، روانڈا سب جگہوں پر جانے دیجیے۔۔۔ میں گیا اور میں نے دیکھا۔ سب طرف لوگ مر رہے ہیں۔ مر رہے ہیں۔ ہر لمحے میں۔ جب ہم ہنستے ہیں روتے ہیں۔۔۔ باتیں کرتے ہیں، قہوہ یا چائے پیتے ہیں۔۔۔ قتل عام ہو رہے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔ مارے جا رہے ہیں۔ 

    سموئل نے ناگواری سے دیکھا۔۔۔ بیوقوفی بھری باتیں۔ کوری جذباتیت۔۔۔ اس کیس میں ایک ریپ ہوا ہے۔ ریپسٹ ایک۔ باپ ہے۔ جس نے اپنی۔ کہیں تم گے (GAY)، لیسبن (Lesbian) یا فری کلچر کے حق میں تو نہیں ہو؟

    ’’نہیں۔ آہ تم غلط سمجھے سموئل، اس نے گردن ترچھی کی۔۔۔ شاید میں سمجھا نہیں پا رہا ہوں۔ ابھی تم نے جن کلچرز کا ذکر چھیڑا، وہ سب دکھ کی پیداوار ہیں۔ دکھ۔ جو ہم جھیلتے ہیں۔۔۔ یا جھیلتے رہتے ہیں۔۔۔ مہاتما بدھ کے مہان بھشکرمن سے لے کر بھگوان کی آستھاؤں اور نئے خداؤں کی تلاش تک۔۔۔ پھر ہم کسی روحانی نظام کی طرف بھاگتے ہیں۔۔۔ کبھی اوشو کی شرن میں آتے ہیں۔ کبھی گے (GAY) بن جاتے ہیں تو کبھی لیسبین۔ قتل عام ہو رہے ہیں۔ اور بھاگتے بھاگتے اچانک ہم شدبد کھو کر کنڈوم کلچر میں کھو جاتے ہیں۔۔۔ ہم مر رہے ہیں سموئل اور جو نہیں مر رہے ہیں وہ جانے انجانے ایچ آئی وی پازیٹیو(H.I.V. POSITIVE) کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں۔‘‘ 

    ’’ہمارا ملزم اپنا دفاع نہیں کر پا رہا ہے۔ اس لئے مقدمہ خارج۔‘‘ 

    وہ غصّے سے سموئل کی طرف مڑا۔۔۔ ایک باپ پشیمانی کی انتہا پر کھڑا ہے اور تم اسے اپنی بات مکمل کرنے کا موقع بھی ہیں دینا چاہتے۔ ویدک ساہتیہ کولو۔ دھرم کے بعد کام کا ہی استھان ہے۔ موکش کا نمبر اس کے بعد کا ہے۔ گیتا میں کہا گیا ہے، شری کرشن سب جگہ ہیں۔ انسانوں کے اندر وہ کامیکچھا کے روپ میں موجود ہیں۔۔۔ کھجوراہو کے مندروں میں سمبھوگ کے چتر اس بات کے ثبوت ہیں کہ سمبھوگ پاپ نہیں ہے۔۔۔ اگر پاپ ہوتا، اپوتر ہوتا تو اسے مندروں میں جگہ کیوں کر ملتی سموئل۔۔۔؟

    ’’بھیانک۔ بہت بھیانک۔‘‘ 

    ’’مان لو کوئی کہتا ہے۔ فلاں چیز میری ہے۔ میں جو چاہوں کروں۔ تم اس بارے میں کیا جو اب دو گے سموئل۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ بیوی میری ہے۔ فرج میری ہے۔ میں جو چاہوں کروں۔‘‘ 

    ’’بھیانک۔ بہت بھیانک۔ سموئل کے چہرے کے رنگ بدل رہے تھے۔ 

    ’’اور مان لو سموئل دنیا ختم ہو جاتی ہے بس ایک ایٹم بم یا اس سے بھی کوئی بھیانک ہتھیار۔ ویتنام کے شعلے تو سیگون ندی سے اٹھ کر آسمان چھو گئے تھے۔ مان لو، صرف دوہی شخص بچتے ہیں اور دنیا کا سفر جاری رہتا ہے۔ ایک باپ ہے اور دوسری۔‘‘ 

    بہت بھیانک۔ سموئل چیخا۔۔۔ بس کرو۔ میں اور تاب نہیں لا سکتا۔‘‘ 

    وہ جبر، کشمکش کا ٹوٹ جانے والا لمحہ اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک ہو سکتا ہے سموئل۔۔۔ ایک بچی۔۔۔ ’’چھوٹی ہے۔ باپ اسے دلار کر رہا ہے۔۔۔ پیار کر رہا ہے، بڑی ہوتی ہے۔۔۔ اسکول جاتی ہے۔ بیل کی طرح بڑھتی ہے۔۔۔ کونپل کی طرح پھوٹتی ہے۔۔۔ گاہے بہ گاہے باپ کی نظریں اس پر پڑتی ہیں۔۔۔ وہ اس سے بچنا چاہتا ہے۔ بچنے کے لئے وہ شادی کی بات چھیڑتا ہے۔۔۔ وہ کئی کئی طرح سے اسے رخصت کرنے کی بات سوچتا ہے۔۔۔ اور بس چھپنا چاہتا ہے۔ بچنا چاہتا ہے۔۔۔ پھر ڈرنے لگتا ہے اپنے آپ سے۔ جیسے ایک نئی صبح شروع کرنے والے اخبار اور اخبار کی خون اگلتی سرخیوں سے۔‘‘ 

    ’’تم ایک گناہ کی وکالت کر رہے ہو۔۔۔‘‘ سموئل پھر چیخا۔ 

    ’’نہیں، اس نے جھرجھری بھری۔۔۔‘‘ جنگ ہمیں تباہ کر رہی ہے سموئل۔ اور کنڈوم ہمیں اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔‘‘ 

    وہ جیسے ہی چپ ہوا، کچھ دیر کے لئے دونوں طرف خاموشی چھا گئی  

    اختتام

    معزز قارئین! اگر آپ اسے سچ مچ کہانی مان رہے ہیں تو اس کہانی کا اختتام بہت بھیانک ہے۔ بہتر ہے آپ اسے نہ پڑھیں اور صفحہ پلٹ دیں۔ 

    مقدمہ ختم ہوا تو دونوں اپنے معمول میں لوٹ آئے۔ 

    اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ بدلی بدلی سی مسکراہٹ۔ ’’سموئل، ہر مقدمے کا ایک فیصلہ بھی ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، تمہیں فیصلہ ابھی اسی وقت سنانا چاہئے۔‘‘ 

    ’’یس یور آنر۔ سموئل بے دردی سے ہنسا۔ ذرا توقف کے بعد اس نے ایک بوتل کھول لی۔ اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’دو پیگ بناؤں یور آنر۔ 

    ’’فیصلہ کا کیا ہوا؟‘‘ اس کی آنکھوں میں مدہوشی چھا رہی تھی۔ 

    سموئل نے دو پیگ تیار کر لئے۔ پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک چیز نکالی۔ وہ اسے دکھا کر مسکرایا۔ یہ امریکن کمپنی کا بنا ہوا کنڈوم کا پیکٹ تھا۔ وہ مسکرایا۔ تو یہ ہے فیصلہ یور آنر۔ وہ آ چکی ہے۔ آواز لگاؤں۔‘‘ 

    ’’تم ایسے ہر معاملے میں، بہت دیر کرتے ہو سموئل۔ کہاں ہے وہ؟‘‘ 

    اس نے گلاس ٹکرائے۔ سموئل نے دروازہ کی طرف دیکھا۔ منہ سے سیٹی بجانے کی آواز نکالی۔ اسی کے ساتھ دروازے سے ایک لڑکی برآمد ہوئی۔ 

    معزز قارئین! ذرا ٹھہر جائیے۔ اس انجام کے لئے میرا دل سو سو آنسو رو رہا ہے مگر۔ اس لڑکی کو آپ بھی پہچانتے ہیں!

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے