aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بابا

MORE BYصغیر رحمانی وارثی

    کئی بار ماچس پر تیلی رگڑنے اور پھر تیلی پھر پھر اکے جلنے کی آواز بابا کے کانوں کے اندر گئی۔

    کون ہے رے.

    میں ہوں انا اور کون؟ تجھے اتا بھی نہیں سوجھتا۔ اندھیرے میں کیوں پڑا رہتا ہے؟

    چور کی طرح کیوں آتی ہے۔ آواز تو دیا کر۔

    چور ہی تو ہوں۔ تیرے یہاں جھانجھر جو پڑے ہیں۔

    جھانجھر تو نہیں پر پتہ نہیں تو کیا چر ا لے۔ تیری حرکتیں تو کچھ چرانے جیسی ہی ہوتی ہیں۔

    اندھیرے میں کیوں پڑا رہتا ہے۔ تو اتنا بوڑھا بھی تو نہیں۔

    گہرائی میں اندھیرا ہی ہوتا ہے۔ وہاں کوئی ہلچل، کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ سمندر کا تل شانت ہوتا ہے۔ ہلچل اس کی اوپری سطح میں ہوتی ہے۔ جس کی گہرائی جتنی شانت ہوگی وہ اتنی ہی ہلچل پیدا کرےگی۔ یہی قدرت کا اصول ہے.”

    پر تو دھوپ کیوں نہیں لگاتا بدن کو۔ اندھیرے میں سڑتا رہتا ہے۔

    بابا ہنس دیتا ہے۔ اتنی نفرت ہے تجھے مجھ سے۔ پھر کیوں سانجھ سویرے میری ہڈیوں کو دیاد کھانے چلی آتی ہے۔ بول... اری بول نا۔ کنٹھ کو لقوا مار گیا کیا؟

    مرتو... کٹورے میں تیل لے کر پائتی بیٹھ گئی وہ۔

    ٹانگیں سیدھی کر۔ کیسی اندھیرے میں اینٹھ گئی ہیں۔ ذرا دھوپ ہوا لگتی تو چکنی ہوتیں۔

    ایک بات پوچھوں بابا؟ اس نے ہاتھوں میں تیل چپچپایا۔

    پوچھ نا۔ ایسی بےچاری کیوں بن جاتی ہے؟

    تیرے گھٹنے کا درد کیسا ہے؟

    یہی پوچھنا تھا تجھے؟ بابا مسکرا دیتا ہے۔

    بتی میں تیل ڈال دے۔ تیرا من بھی بہت اشانت رہتا ہے۔ یہ اچھا نہیں ہے۔ بول کیا پوچھ رہی تھی؟

    وہ چپ رہتی ہے۔ ہاتھ رگڑتی رہتی ہے اس کے گھٹنے پر۔

    سنتی نہیں ۔ تیل ڈال دے بتی میں۔

    تب بھی وہ چپ رہتی ہے۔

    تیرے بچے تجھے یاد نہیں آتے کیا۔ کیا ایک جھلک دیکھنے کا من نہیں کرتا انہیں؟

    کرتا ہے۔ پر یہ تو کیوں پوچھ رہی ہے؟ تو نے اتو ابھی بچے نہیں جنے نا۔ ابھی تو تیری شادی بھی نہیں ہوئی۔ پر میں سب جانتا ہوں۔ دوسری ٹانگ لے۔ ایک ہی پر رگڑتی رہے گی کیا؟

    بابا کی آنکھیں دیے کی روشنی میں جاگ رہی تھیں۔ وہ اوپر چھت کو دیکھ رہا تھا ۔بچے ہوئے تو ارمان جگا کہ مجھے بابا کہیں گے اور میری پتنی کو اماں۔ پر ان کی ماں نے انہیں کچھ اور ہی کہنا سکھایا۔ تو اس رکشہ والے کے بچے کی ماں بنےگی۔ اس کے ساتھ رہنے کو من کرتا ہے تیرا؟

    بابا تو بہت بولنے لگا ہے۔ کم بولا کر۔ تیرے جیسے کو کم ہی بولنا چاہئے۔

    کیوں؟ میری زبان بند کر دینا چاہتی ہے؟ یہی تو جیون ہے۔ جب تک یہ چلتی ہے، آدمی جیتا ہے۔ تو مجھے مرا ہوا سمجھنے لگی ہے کیا؟ مجھے بولنے دے۔ کچھ زیادہ بول دوں تو سن لیا کر، سہہ لیا کر، اتے سے تیرا کچھ چلا نہیں جائےگا۔ زندہ آدمی ہمیشہ حدوں کو توڑتا ہے۔ تالاب کے لیے حد ہوتی ہے، ندی کے لیے نہیں۔ انسان کو طے کرنا پڑتا ہے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ لا تھوڑا پانی پلا دے۔

    زہر ہے بابا۔۔۔

    سچ کہتا ہوں۔ تیری زبان بہت پھسلنے لگی ہے۔ اس پر تیل کم لگایا کر۔ زہر اتنی آسانی سے نہیں ملتا اور مل بھی جائے تو اتنی آسانی سے اسے کوئی کھاتا نہیں۔ بولتے ہوئے تیری آنکھوں میں ذرا بھی لاج نہیں اترتی؟ دیکھ رہا ہوں آج کل تیری حرکتیں۔

    وہ چپ ہوتا ہے پھر بولتا ہے۔ تو ایک کام کر...

    جواب میں اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تو چڑھ جاتا ہے۔ تو یہاں ہے یا نہیں؟

    ہاں، ہوں ہی۔ بول نا۔

    ایسے مرے ہوئے کی طرح کیا رہتی ہے۔ ہوتی ہے تو لگتا ہے، نہیں ہے۔ نہیں ہوتی ہے تو لگتا ہے کہ ہے۔ اچھا سن، مٹکے کا پانی بدل دے۔ کچھ کر کیا کر۔

    انا اسے گھور کر دیکھتی ہے۔ اندر ہی اندر ابلتی ہے اور چپ رہتی ہے۔

    اس پپیتے کے گانچھ کا کیا ہوا۔ اسے دیکھتی بھالتی ہے یا نہیں؟

    تو کیوں نہیں دیکھتا ، تو نے ہی تو لگایا تھا، اپنے ہاتھوں سے مٹی کھود کے۔ جب وہ انگلی بھر تھا۔ اب تو وہ کافی بڑا ہو گیا ہے۔ کبھی دیکھ لے نا اس بھوتنی کو ٹھریا سے نکل کر۔ بس چو کھٹ سے سٹے ہی تو ہے۔ یا اتا بھی نہیں چلا جاتا۔ جانگر میں گھن لگ گئی ہے کیا انا نے بھڑاس نکالی۔

    کچھ بھی کہہ لے، پر مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔ انجام دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ہاں، اس معاملے میں میں بزدل ہوں اورتو کہہ سکتی ہے لیکن مجھے ڈر لگتا ہے۔

    بابا آنکھیں موند لیتا ہے اور گہری خاموشی چھا جاتی ہے۔

    کچھ دیر گزر جانے کے بعد وہ آنکھیں کھولتا ہے۔

    انجام کو دیکھنے سے جتنا میں ڈرتا ہوں اتنی ہی اس کائنات سے میں محبت بھی کرتا ہوں کہ محبت ہی واحد وجہ ہے پوری کائنات کی تخلیق کی۔ میں اس سے نفرت بھی کرتا ہوں کہ نفرت اور محبت میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہوتا۔

    بابا کو لگتا ہے ، اس کی باتیں کوئی نہیں سن رہا۔ وہ مڑ کر دیکھتا ہے۔ انا جا چکی ہے۔ ’باﺅلی‘ بول کر وہ چپ ہو جاتا ہے۔

    دوسرے دن پاﺅں کی آواز سے بابا انا کو پہچان جاتاہے۔ وہ اس کی آہٹ کو جانتا ہے۔وہ آتی ہے تو اس کمرے میں جہاں وہ رہتا ہے، اس میں ہوا بھر جاتی ہے اور روشنی بھی۔ تب وہ کہتا ہے۔

    کل ناراض ہو کر چلی گئی تھی۔ مجھ سے ناراض نہ ہوا کر۔ تیرے سوا میرا کوئی ہے کیا؟

    جھوٹ مت بولا کر۔ میں جانتی ہوں تیرے سگے والے ہیں، شاید بڑے بڑے بابو ہیں۔پر تیرے پاس آنا نہیں چاہتے۔ جاکر دیکھ لے نا ایک نظر ان کو۔ کیسے شہری بابو دکھتے ہوں گے، اجلے اجلے۔

    باﺅلی، کس کی بات کر رہی ہے۔ میرا سگا کوئی نہیں۔ میں سب جانتا ہوں۔ تو مجھے حیران کرنا چاہتی ہے۔

    نہیں رے، وہ تیرے بیٹے ہیں۔ لوگ تو یہی کہتے ہیں۔

    بابا اس کی باتوں کا جواب نہیں دیتا۔ کھلی آنکھوں کو چھت میں گاڑ ے رہتا ہے۔ پھر وہ ہاتھوں کو چھت کی طرف لے جاکرکچھ تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ انا اس کی اس حرکت سے ڈر جاتی ہے۔

    ایسا نہ کرو بابا۔ وہاں کچھ بھی نہیں۔

    جانتا ہوں۔ لیکن تو ڈرتی کیوں ہے، میں ابھی زندہ ہوں۔

    لیکن تمہاری بیوی؟

    ہاں وہ اب زندہ نہیں رہی۔ میرے بیٹے مجھے اسی لیے مجھے مجرم سمجھتے ہیں۔ میں نے اس کا قتل کر دیا تھا۔ میرے بیٹے سمجھتے ہیں، وہ میری بیوی کی مرضی سے پیدا نہیں ہوئے۔ انہیں زبردستی پیدا کیا گیا ہے اور وہ میں نے کیا ہے اپنی بیوی کے ساتھ زنا کرکے۔ ان کا خیال ہے کہ میں مسلسل پندرہ سالوں تک ان کی ماں کے ساتھ زنا کرتا رہا ہوں۔

    وہ ذرا دیر کے لیے چپ ہوا۔ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا، اس کے اندر آڑی ترچھی لکیریں کھنچ رہی ہیں۔ وہ خلاء میں گھورتا رہا۔ میں اپنی بیوی کو پسند نہیں تھا۔ جس چیز کی تلاش تھی اسے، وہ میرے اندر کہیں، کسی کونے میں نہ تھی۔ وہ اپنے گھر والوں کی مرضی کی بھینٹ چڑھی ایک مورت تھی۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کر سکتی تھی، لیکن دنیا گواہ ہے، میں اس سے محبت کرتا تھا، جیسے مجھے کرنا چاہئے تھا، اسی لیے میں نے اس کا قتل کر دیا۔

    لیکن میرے بیٹے کچھ نہیں جانتے۔ وہ کچھ نہیں سمجھتے۔ وہ مجھ سے نفرت کرتے ہیں لیکن نفرت کو نہیں جانتے۔ وہ محبت کو بھی نہیں جانتے، جب کہ یہ دونوں لافانی موضوعات ہیں۔ ہاں محبت کو امتیازی مقام حاصل ہے۔ یہ بنیادی احساس اور ضرورت ہے۔ اس کی ڈور جب چھوٹتی ہے تب انسان بےچین ہوتا ہے، وحشی بنتا ہے۔ رغبت اس بنیادی احساس کا اثر ہے۔ ملن اس کا عمل اور تخلیق اس کا انجام۔ محبت تخلیق کا سبب ہے۔

    انا ٹکر ٹکر بابا کو دیکھتی رہتی ہے۔ بابا پرسکون لگ رہا تھا۔ رہ رہ کر اس کے چہرے کی مہین طنابوں میں لرزش ہو رہی تھی۔

    لیکن میرے بیٹے نہیں جانتے کہ ان کی ماں میرے ساتھ زنا کرتی تھی۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتی تھی۔اس طرح وہ مجھ سے انتقام لیا کرتی تھی۔ مجھے اس کا انتقام بھی پسند تھا کہ محبت میں اسیر کسی سے صحبت کی جائے یا نفرت میں زنا، انجام تخلیق کی صورت میں ہی سامنے آئےگا۔ پھر دونوں میں فرق کہاں۔ کوئی بنیادی فرق نہیں۔

    لیکن میں نے کبھی انجام کی فکر نہیں کی، عمل میں یقین کیا۔ جب وہ بیمار رہا کرتی، میں اس کی دیکھ ریکھ کیا کرتا۔ اس کا گو موت کرتے مجھے کبھی گھن نہیں آئی۔ لیکن وہ شدید تکلیف میں جیا کرتی۔ مجھ سے اس کی تکلیف دیکھی نہ جاتی۔ ایک لمبا سفر ہم نے ایک ساتھ محبت اور نفرت کے بیچ طے کیا تھا۔ وہ تھک چکی تھی اور تھکتی جا رہی تھی۔ ان دنوں مجھے لگا تھا، وہ اپنے اندر برسوں برس لڑتی رہی ہے۔

    ایک دن اس نے بہت اچھے سے مجھے اپنے پاس بلایا۔ مجھے غورسے دیکھا۔ دیکھتی رہی بہت دیر تک اور روتی رہی۔ پھر اس نے کہا۔ مجھے مار دو، مجھ سے اور تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔ سچ مچ وہ بہت تکلیف میں تھی۔ اچانک مجھے لگا میں اس سے بہت، بہت محبت کرتا ہوں اور تب میں نے اس کا قتل کر دیا۔ اسے اس کی تکلیف سے نجات مل گئی۔ اسے آرام مل گیا اور میں اپنے بیٹوں کی نگاہوں میں مجرم، ان کی ماں کا قاتل بن گیا۔ لیکن میرے بیٹوں نے ہمیشہ صداقت سے چشم پوشی کی ہے۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے۔

    بنیاد کے بنا کوئی شے نہیں ٹک سکتی، یہ اصول ہے، لیکن پوری کائنات بنا کسی بنیاد کے ہوا میں ٹکی ہے، یہ قدرت کا خاص اصول ہے۔ کیا اس صداقت سے انکار ممکن ہے، اور کیا ایسا ہونا چاہئے؟

    انا جانے کے لیے اٹھی۔ تیرے بیٹے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ وہ تجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔

    بابا کو حیرت نہیں ہوئی۔ جیسے اس نے انا کی آواز سنی ہی نہ ہو۔ وہ چپ پڑا رہا۔ صبح بابا کے دروازے پر بھیڑ جمع تھی۔ بھیڑ میں اس کے بیٹے تھے اور انا بھی۔ اندر بابا گہری، بہت گہری نیند میں سو رہا تھا۔ کسی کو علم نہیں تھا کہ رات بابا نے کوٹھری سے باہر نکل کر پپیتے کے گانچھ کو نظر بھر کے دیکھا تھا اور اس کی جڑوں میں پانی ڈالا تھا۔ اس بات کو صرف انا سمجھ رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے