aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

باگ ڈور

شہناز رحمن

باگ ڈور

شہناز رحمن

MORE BYشہناز رحمن

    ہر بار کی طرح انعام اللہ منزل کے گلیاروں میں ا س بار سیاسی گیتوں کی صدائیں گونجنی شروع ہو گئیں، تمام رشتہ دارادھر ادھر سے آکر جمع ہو گئے۔

    ’’قرعہ فال کس سیاسی جماعت کے نام نکلےگا یہ تومجھے پتہ نہیں بہر حال یہ طے ہے کہ رائے دہندگان نے اپنے حق کا مناسب استعمال کر کے اپنی بیداری کا اعلان کردیا ہے‘‘۔ نادیہ نے کہا۔

    تم اپنی سرکار کا جتنا شکر یہ ادا کرو کم ہے یہ بیداری یوں ہی تھوڑی پیدا ہو گئی ہے بلکہ سرکار نے شہ دی ہے تب انھیں حرکت وعمل کا راستہ ملا ہے، صبیحہ نے کہا جو ابھی چند گھنٹے پہلے سرحد کے اس پار تھی۔

    ارے بھئی اب کیا پوچھنا ہے ہماری تو چاندی ہی چاندی ہے اب تو اخباروں میں کالم آ رہے ہیں ’’مسلم ریزرویشن ایک تاریخی فیصلہ‘‘ یہ آ ج کا کالم ہے۔ ہماری سرکار نے پچھلے ہفتے اس کفر کو توڑ دیا جس نے ہم سب کو جدا کر دیا تھا اور تایا جان کو ہندوستان کی سرزمین سے دور الگ پہاڑوں میں لے جاکر پھینک دیا تھا۔

    جب سے اس ریزرویشن کا فیصلہ ہوا ہے تمام ریاستیں مسلمانوں کو رجھانے کی کوششیں کر رہی ہیں اور ہرپارٹی باگ ڈور ہتھیانے کا دعوی کر رہی ہے۔

    دعوی کوئی کچھ بھی کرے مگر سچائی یہی ہے کہ عوام کے تیور دیکھ کر تمام سیاسی جماعتیں خوف زدہ ہو رہی ہیں۔ یہ پہلا موقع تو ہے کہ رائے دہند گان نے اتنی کثیر تعداد میں اپنے نمائندوں کے انتخاب میں جوش وخروش کا مظاہرہ کیا ہے اس سے پہلے یا تو 1993ء میں کچھ اسی طرح کے جوش وولولہ کا نظارہ دیکھنے کو ملاتھا یا اب۔ عوام کے اس جوش و خروش سے یوں تو تمام سیاسی جماعتیں حیران وششدہ رہ گئی ہیں۔

    مگر بیٹا! حکمراں جماعت سب سے زیادہ گھبرائی ہوئی ہے اور اس لئے تو ہمارے عمران بھائی کی بھی پینٹ ڈھیلی ہوئی پڑی ہے۔ بلاشبہ انھیں معلوم ہے کہ ان کا ایک مضبوط ووٹ بینک ہے جو پولنگ کی خبر سنتے ہی ابو ظہبی، کینیا، ملبورن سے الٹ کر چلا آئےگا، اس کے باوجود وہ سہمے سہمے نظر آ رہے ہیں۔

    اچھانا دیہ میری پارٹی کا کیا حال ہے؟

    ’’میں کیوں بتاؤں تم سوشل میڈیا کی دنیا سے الگ ہو کیا؟ اور جس لڑکی کا محبوب مسٹر سراج خان اتنا بڑا لیڈر ہے اور اس ملک میں رہتا ہے وہ یہ سوال کرے تو ذرا قابل رحم بات ہے‘‘

    تم تو ہمیشہ تیر کمان لے کر تیار رہتی ہو۔ ویسے بھی دوسرے ملک میں رہ کر میں ا تنی باخبر رہتی ہوں یہی کیا کم ہے۔ میرے دوست مجھے انڈین پولیٹیکس کی دیوانی کہتے ہیں۔

    دیوانی ہونا بھی چاہیے اس سرزمین میں پیدا ہوئی ہو اس کا تو حق ادا ہی کرنا پڑےگا بھلے ہی تم امریکہ لندن، پیرس کہیں بھی چلی جاؤ۔

    اور تم پارٹی کا حال پوچھ رہی ہو؟؟ چ۔چ۔ تمہاری پارٹی تو وہی سوشل انجینئرنگ والا فارمولہ آزما رہی ہے جو ناکام ہو گیا تھا۔ اس بار بھی کوئی کامیاب صورت نظر نہیں آ رہی ہے اس لئے وہ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ ویسے بھی سارے لیڈر پارٹی کا فائدہ پہچانے کے بجائے خود اپنی ہی جڑیں کھودنے کاکام کر رہے ہیں اور تمہارا ہیرو تو واقعی پولیٹکس کا رول چھوڑ کر اداکار کا رول کرنے میدان میں اتر آیا ہے۔

    اتنے کمینٹ مت کر مجھے بڑی تکلیف ہو رہی ہے۔ زیادہ بولےگی تو تجھ سے میری لڑائی ہو جائےگی۔

    ہو جائے تو ٹھیک ہے۔ پھر پوچھ کیوں رہی ہو؟ نادیہ نے منھ کو گول کرتے ہوئے کہا۔ ’’خود ڈاکٹر بننے میں لگی پڑی ہو اور اب آکے مجھ سے حالات دریافت کر رہی ہو‘‘

    اوہ چپ رہو میڈم۔۔۔ انڈین پولیٹکس ہمیشہ میرے بیگ میں رہتی ہے لیکن پھر بھی پہلے کے مقابلے میں دلچسپی ذرا کم ہو گئی ہے ۔ اچھا تم ایسے کیوں کہہ رہی ہو کہ تیرا ہیرو تیرا ہیرو۔۔۔ نالائق لڑکی۔

    پچھلے ہفتے جب وہ پٹنہ یونیورسٹی کے درشن کرنے گئے تھے۔ مت پوچھ کیا جلوے تھے آٹوگراف پہ آٹوگراف لئے جا رہے تھے، لڑکیاں تو دیوانی پھر رہی تھیں۔

    ان کی ماتا شری اور راجکماری بہن لیڈروں کے درمیان گھری ہوئی تھیں۔میں نے سوچا کہ اگر تم یہ پیپر دیکھتی تو ایک بار تمہارابھی دل چاہتا کہ کاش میں بھی اسی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہوتی۔

    بڑی دیر سے زینت خاموش بیٹھی ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی۔ اس نے صبیحہ کو منھ چڑاتے ہوئے کہا نادیہ اسے چھوڑ! اپنی اہم نیوز شروع کر۔

    ہاں مسلم رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد میرے ساتھ ہے اور ۱۵ فیصد برہمن تمہاری اور عمران بھائی کی پارٹی کے ساتھ ہیں ۲۰ فیصد دلتوں پر بھی عمران بھائی کی پارٹی قابض ہے، باقی پینتالیس فیصد پسماندہ ذات ہی طے کریں گے کہ مسند اقتدار پر کس کو جانا چاہیے۔ پھر اس نے صبیحہ کی طرف منھ کرکے کہا اور تیرے ہیرونے تو بچارے۔۔۔ دلتوں کے گھر میں جاکر کھانا کھایا اور ان کے بچوں کو پیار کیا مگر ان وفاداروں نے اپنی پارٹی نہیں چھوڑی۔

    وفاداری کا ایک قصہ اور سن لو۔ میری ایک دوست سودا ادھیکاری کے ماموں بی جے پی ہیں اور ان کے محبوب نامدار سنتوش کے بڑے بھائی کانگریسی ہیں۔ ان دونوں کی منگنی ہو گئی تو سودا کے گھر والوں سے یہ شرط رکھی گئی کہ ان کے کانگریسی بھائی کو ووٹ کریں ورنہ منگنی توڑ دی جائےگی۔ لہٰذا سودا وفا کی دیوی بنی اپنے ماموں کے خلاف اور سنتوش کے بڑے بھائی کے فیور میں پورے خاندان نانیھال سے لے کرداد یھال اور بڑی بہن کے سسرالی رشتہ داروں سے ووٹ کی بھیک مانگتی پھر رہی ہیں۔

    اگر میں ہوتی تو یہ رشتہ ناطہ سب چھوڑ چھاڑ کر اپنے پارٹی کا فیور کرتی۔۔۔ زینت نے کہا۔

    نہیں میری معصوم گڑیا ایسا صرف ہماری فیملی میں ہے کہ سب آزاد ہیں، ہر بچہ اپنی الگ پارٹی بناکر اس کے جھنڈے اور بینرز لے کر گھوم سکتا ہے لیکن سب کے یہاں اس طرح کی آزادی نہیں ہے اور ویسے بھی ان کے یہاں ایک بار رشتہ ٹوٹ جائے تو بہت بدشگون مانا جاتا ہے۔

    یہ سب چھوڑو اوریہ بتاؤ کہ شالینی کا کیا حال ہے وہ کس پارٹی کے ساتھ ہے؟ صبیحہ نے پوچھا۔

    اس کام ت پوچھو وہ بنا پیندے کا گھڑا ہے۔ اس کا بنا لائسنسی میاں جس کی سائیڈ پر رہےگا وہ اسی کے ساتھ رہےگی ویسے وہ کہہ رہی تھی کہ اگر کوئی متبادل نہیں ملا تو تمہاری پارٹی کے ساتھ ہو جائےگی ۔مجھے تو ترس آتا ہے تمہارے پارٹی کے یوراج کی بڑھی ہوئی شیونگ دیکھ کر ،اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پورا ملا لگتا ہے۔

    شالینی آپی تو مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آئیں۔

    بیل بجی۔ شالینی ایک ہاتھ میں پرس اور دوسرے ہاتھ سے سنہرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے داخل ہوئی۔

    لونام لیا شیطان حاضر، نادیہ نے کہا، ’’ارے نہیں اسکی عمر بڑی لمبی ہے‘‘ صبیحہ نے طرف داری کی۔

    ہاں بہن کہاں بزی تھیں اتنی دیر ہوگئی۔ صبیحہ کو آئے ہوئے کافی دیر ہو گئی تمہارا کچھ اتا پتہ ہی نہیں۔

    میں ذرا ائیرپورٹ گئی تھی۔ بھائی کے ساتھ ان کے کچھ دوست اور رشتہ داروں کو ابو جان نے بلایا ہے۔ وہ یہیں کے ہیں مگر اب فیملی کے ساتھ دبئی میں رہتے ہیں۔ ابوجان نے پارٹی کو مضبوط بنانے کے لئے ووٹرلسٹ میں ان سب کا نام بھی ڈال دیا ہے۔

    وہ کس پارٹی میں ہیں؟؟ جیسے میں کنفیوژہوں کس کافیور کروں اسی طرح وہ لوگ بھی بے خبر ہیں کہ کیا کریں آنے کے بعد میں انھیں اپنی پارٹی کے ساتھ کرلوں گی۔۔۔

    رہی میری پارٹی تو۔۔۔ ایک عرصہ ہوگیا اپنا اقتدار کھو چکی ہے اس لئے سوچ رہی ہوں کہ نادیہ کے ساتھ ہوجاؤں کیوں کہ اس وقت میری ہی پارٹی کا وکٹ سب سے کمزور ہے۔

    نہیں یار شالینی! مشاہدین اور تجزیہ کاروں کے مطابق آپ کی پارٹی بڑی عزت ووقار سے صرف چوتھی پوزیشن پر رہ سکتی ہے پھر کیوں دکھی ہو اگر میرے ساتھ تمہارا تال میل نہ بیٹھے تو چھوٹے کھلا ڑیوں کو آزما سکتی ہو مثلاً صبیحہ وغیرہ۔

    نادیہ نے ہوا میں ہاتھ لہراتے ہوئے اشارہ کیا۔

    صبیحہ نے گھورتے ہوئے کہا ’’نادیہ میں نے سنا ہے تمہاری طرح تمہارے کالج کے اسٹوڈنٹ بھی بہت تھرک رہے ہیں کہ اس بار ہم نوجوان اپنے حق کا استعمال کریں گے۔‘‘

    بس ڈئیر کچھ ایسی ہی صورتحال ہے وہ لوگ فرقہ، زبان اور ذات جیسے فالتو جھنجھٹوں سے دور ہیں، انھیں نہ تو مذہبی مقامات کے جھگڑوں میں دلچسپی ہے اور نہ ہی ذات پات کی سیاست سے۔

    اتنی تمہید وپس منظر بیان کرنے کا مقصدکیا ہے نادیہ؟

    یہی کہ وہ سب زندگی کی رفتار کم نہیں کرنا چاہتے وہ لوگ ایسے جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں جو زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اور نئی نئی معلومات کے لئے گوگل کا سہارا لیتے ہیں۔ زندگی کے مختلف مسئلوں، مہنگائی ،بےروزگاری اور کرپشن پر تاثرات مرتب کرتے ہیں اور ان کے تاثرات سے لگ رہا ہے کہ وہ کسی پارٹی کے فیورمیں نہیں بلکہ اسی کو ووٹ کریں گے جس کی امیج صاف ستھری ہوگی۔ مثلاً ایک دن میری کلاس میٹ وشنو تیواری نے فیس بک پہ اپ ڈیٹ کیا تھا کہ:

    ’’ہمارے سیاستدانوں کاخون ٹھنڈا ہو گیا ہے مگر ہمارے خون میں تو گرمی ہے اپنے ملک پر غلط نگاہ ڈالنے والے کا ہم منھ توڑ جواب دیں گے اور ایسے نوجوان لیڈروں کو نکال کرلائیں گے جن کے خون میں ابال آتا ہو۔‘‘

    بیٹا یہ اکیسویں صدی کی نسل ہے سیاستدانوں کی کھٹیا کھڑی کر دےگی۔۔۔ تب تک اس کا فون بجنے لگا۔

    ہیلو بیٹا۔۔۔ تیرا اڑن کھٹولہ کس دن یہاں اترےگا۔ پولنگ والے دن ہی یہاں آکے پہنچےگی کیا؟

    ارے نادیہ کی بچی تونے نیوز نہیں دیکھی؟ کتنی پرابلم کھڑی ہورہی ہیں بارڈر سے 50 کلو میٹر تک پولیس کی کڑی نظر ہے مسلح دستہ سرحدی سشستربل (ایس، ایس، بی) کو سرحد پر دراندازی روکنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ چیکنگ کے لئے الیکشن کمیشن کی طرف سے ریاستی پولیس مشنریوں کو لگا دیا گیا ہے۔

    آخر کیا کیا جائے۔۔۔ تیرے یہاں پولیٹیشن اتنا گر گئے ہیں کہ رائے دہندگان کو نقدی، شراب اور دیگر اشیاء کی شکل میں رشوت دے کر لبھانے کی کوششیں کر رہے ہیں اسی کرپشن کو روکنے کے لئے بڑی سخت نگرانی ہے۔ مزید یہ کہ یہ بھی خطرہ ہے کہ کہیں عورتوں کو سیلنگ پارٹنر اور کیر یرا یجنٹ کے طور پر نہ استعمال کیا جائے۔ اس کے لئے لیڈیز پولیس کی ایک بٹالین تعینات کی گئی ہے۔

    اور ہاں! تم کوشش کر کے کسی طرح گھر والوں کے ساتھ شادی وغیرہ کا بہانہ کر کے بارڈر پار کرلو اور اتنا جان لو کہ الیکشن کے 48 گھنٹہ پہلے ہی بارڈر بند کر دیا جائےگا۔

    ایسا کیوں؟

    کیا تمہیں نہیں معلوم کہ بارڈر سیزاسی لئے ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کی آمد ورفت پر قابو کیا جا سکے اور اس پر قابو کرنے کے لئے مقامی پولیس اور دوسری حفاظتی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ اطلاعات تک کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔

    اور عمران بھائی وغیرہ کیسے ہیں ان کا سیاسی ذہن کیا کیا خرافات کر رہا ہے؟

    بس خیریت سے ہیں ۔سب اپنی اپنی پارٹی کی عزت بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ چونکہ ان کی کشتی بھنور میں ہے اس لئے اخلاقی طور پر کچھ کرنے کی جرأت نہیں کر پا رہے ہیں تم جلدی سے آ جاؤ پھر ساری صورتحال کا اندازہ ہو جائےگا اور یہ بتاؤ تم اپنی پارٹی بدلوگی تو نہیں؟ اور تمہیں بتادیتی ہوں کہ ہمارے رشتہ داروں میں 70 فیصد میری پارٹی میں ہے کیوں کہ بڈھے نے اس بار مسلمانوں سے وعدوں کی جھڑی لگا دی ہے۔

    پارٹی تو نہیں بدلوں گی۔ مگر تمہاری طرح عمران بھائی کی پارٹی نے بھی اس سے پہلے بہت وعدے کئے تھے اور عمران بھائی خوب ہانک رہے تھے ان کی ملکہ معظمہ ساری پرابلم حل کرا دیں گی مگر سب بکواس! دس سال ہوگئے میرا کام کراکے نہیں دیا۔

    اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے چئر مین والے الیکشن میں ووٹرلسٹ میں اپنی بہن کا نام ڈلوایا کہ نہیں ورنہ تمہاری طرح اس کا بھی مسئلہ پھنس جائےگا۔

    ارے سب میں ڈلوایا ہے وہ ووٹ بھی کرچکی ہے سنا تھا اس بار وہاں کے شہر ی ہونے کا سرٹیفکٹ مل جائےگا مگر خداجانے کیا ہوتا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ سے بھی بات ہوئی تھی۔

    فون وارننگ دے رہا ہے۔ خدا حافظ! نادیہ نے کہا۔

    فون کٹتے ہی وہ دونوں آکر نادیہ سے لپٹ گئیں اور پوچھنے لگیں کیا کیا باتیں ہوئیں اس کا مزاج کس طرف مائل ہے۔

    صحیح تو کہہ رہی ہے یار۔۱۰ سال سے بچاری لگی ہوئی ہے کہ یہاں سے citizenship مل جائے اور اسی امید پر اتنی بڑی حمایتی بنی ہوئی ہے مگر خدا جانے کیا مسئلہ ہے کہ اب تک اسے سرٹیفکٹ نہیں ملا اور ہر سال تقریبا اس کی 40 ہزار اسکالر شپ خیرات ہو جاتی ہے، صرف اسی لئے وہ جاب بھی نہیں کر پا رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ سیاسی پارٹیاں صرف عوام کو رجھانے کے لئے وعدے کرتی ہیں اور لمبے لمبے لکچرز دیتی ہیں۔ ذرا اس نوٹ پر ایک نظر ڈالو! جس میں انتخابات کے ضابطہ اخلاق کی پاپندی کرنے کے ہدایات ہیں۔

    ووٹ کے لیے کسی ذات یا فرقہ کے جذبات کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ مساجد، گرجاگھروں، مندروں اور عبادت کے دوسرے مقامات کو الیکشن کی تشہیر کے لئے اسٹیج کے طور پر نہ استعمال کیا جائے اور امیدواروں کو جھنڈا لگانے یا پوسٹر چپکانے، نعرے لگانے کے لئے کسی کی عمارت کو بلا اجازت گندا نہ کریں، کسی بھی سرکاری عمارت یا فون کے کھمبوں کو استعمال نہیں کر سکتے اور یہ کوشش ہونی چاہیے کہ نفرت کا ماحول پیدا نہ ہو، ہر ایک شخص کی پر امن داخلی زندگی کے حق کا احترام کیا جائے۔

    تب تک شالینی بول پڑی۔ 2008 میں بھی سرکار نے وعدہ کیا تھا کہ عربی فارسی یونیورسٹی قائم کرےگی مگر اب تک اس کی بنیاد نہیں پڑی۔

    سرکار کی دلچسپی تو پارکوں اور اسمارک بنوانے پر ہے وہ اس پر کروڑوں روپیہ خرچ کر رہی ہے۔ صبیحہ نے ابھی بات ختم نہیں کی تھی کہ عمران بھائی گنگناتے ہوئے داخل ہوئے اور فرمایا۔ بھئی یہاں تو سیاست کا بازار گرم دکھائی دے رہا ہے کیا بحثیں چھڑی ہوئی ہیں۔

    یہی کہ آپ کی ملکۂ معظمہ ریاست کے عوام کو نظرا نداز کر کے اپنا ڈریم پروجیکٹ پورا کرنے پر کروڑوں روپیہ خرچ کر رہی ہیں۔ سب نے ایک ساتھ کہا۔

    پہلے نمبر پر صبیحہ بیگم آپ تو خاموش ہی رہیں۔ آپ کی پارٹی کا اعمال نامہ ہاتھ میں آہی جائےگا اور اس دن وہ حشر کے میدان میں اپنی زمین کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکےگی۔

    آیا بسنت جاڑا اڑنت بی بی صبیحہ۔

    شالینی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ارے اب تو بہار کی آمد آمد ہے پھول کھل رہے ہیں سیاسی رنگ بکھر رہے ہیں۔

    عمران بھائی نے پوچھا اور ہماری پاکستانی بہن نجمہ خان ابھی تشریف نہیں لائیں؟ کہہ کر گئیں تھیں خالہ جان سے مل کر آ رہی ہوں ان کے بنا سیاسی محفل سونی سونی لگ رہی ہے نادیہ کی خاموشی صاف بتا رہی ہے کہ وہ اس کی کمی محسوس کر رہی ہیں۔

    ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں بھی انتخابات کے تئیں بہت دلچسپی ہوتی تھی اندازے اور تجزئیے چھپتے تھے ۔نجمہ کی گرم جوشی ایسے حالات میں کیا ہوتی مگر افسوس کہ وہ وہاں نہیں تھی۔

    نادیہ نے فون کی اسکرین سے نظر اٹھاکر کہا عمران بھائی! اگر نجمہ کا نام لاکر اس کی یاد میں تڑپنا ہی تھا تو پھر کہیں سہانے سلونے مقام پر چلتے۔ ایسی روکھی سوکھی محفل میں اس جذباتی لڑکی کا ذکر کیوں کر رہے ہیں۔

    عمران نے دم دبا کر بھاگنے میں عافیت سمجھی۔ ورنہ اس کی کھینچائی بری طرح ہونے والی تھی۔ مگر صبیحہ نے روک لیا۔ عمران بھائی ایک دل خراش واقعہ سنتے جاؤ اپنی پارٹی کی کرم نوازیوں پر۔

    میری ایک غریب دوست جو بچپن میں میرے ساتھ پڑھتی تھی اس کی غربت دیکھ کر امی جان بڑی شفقت سے پیش آتی تھیں، اب اس کی شادی ہو گئی، دو بچے بھی ہیں۔ جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ محترمہ ملکہ عالیہ نے پچھلے انتخابات میں مسلم رائے دہندگان سے بھی کس قدر وعدے کئے تھے لیکن الیکشن ہونے کے بعد ان وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی بلکہ اس کے بعد معرض وجو د میں آنے والی سیاسی صف بندی کی ہو گئی۔ ہاں تو آپ کی پارٹی نے اس پر اتنا رحم کیا کہ پھونس کا گھر بنوا دیا لیکن دور روز بعد خبر ملی کہ اس کا گھر کسی نے جلا دیا یعنی کہ سیاسی سرگرمیوں کی چنگاری نے تنکوں سے بنے آشیانے کو جلا دیا۔۔۔ اس نے ہاتھ سر پر رکھ کر فکر کا مظاہرہ کیا۔

    اگر کہانی ختم ہو گئی ہو تو میں بولوں؟ محترمہ صبیحہ آپ اس بھرشٹاچاروں کے ملک میں کیوں آئی ہیں۔

    ایکسکیوزمی! یہ میرا ملک تھا اب بھی میں اسی کی ہوں اور آپ ذرا خاموش رہیں تو بہتر ہے۔ اوہو ہو بچاری۔۔۔ قہقہوں میں اس کی آواز غائب ہو گئی۔

    اچھا وجہ کیا تھی اس غریب کی پناہ گاہ نذر آتش کرنے کی؟

    وجہ یہ تھی کہ رات میں صمد صاحب کی پارٹی والے آئے دس ہزار روپئے دینے لگے اور کہا کہ اپنی پارٹی کو چھوڑ کر صمد صاحب کو ووٹ کرو اور اپنے گھر والوں رشتہ داروں کو بھی راضی کرو۔ اس نے انکار کر دیا۔

    دوسرے دن وہ اپنے بچے کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گئی۔ واپسی میں رات ہو گئی کچھ نوجوان اسے چھیڑنے لگے ’’برسات کا موسم ہے گدرایا ہوا جوبن ہے۔ آ جا میری بانہوں میں۔ آجا آجا میری پارٹی میں۔‘‘ جیسی بےہودہ جملے بازیاں کرنے لگے۔

    اور تیسرے دن غریب خانہ نذرآتش کر دیا گیا۔

    نیچے بڑا شور شرابہ ہو رہا ہے۔ نادیہ ذرا دیکھنا۔ اس نے بالکونی میں جھانک کر دیکھا۔ ارے بھئی عمران بھائی کی ٹیم آئی ہے اور ہم سب کو بلایا جا رہا ہے۔

    یہ میری عزیز بہن نادیہ ہیں پولیٹکل سائنس سے ایم۔ اے۔ کر چکی ہیں۔ دوسری صاحبہ محترمہ صبیحہ پہاڑن ہیں جو میری کلاس میٹ ہیں۔ تیسری شالینی خالہ زاد بہن ہیں جو ڈپلومہ ان ماس کمیو نیکیشن کر رہی ہیں اور چوتھی راجکماری جو خاموش فضاؤں کو گھور رہی ہے وہ زینت ہیں جو لوگوں کے ذہن میں سیاسی خرافات پیدا کرتی ہیں مگر یہ سب اپنی اپنی مرضی کی مالک ہیں الگ الگ پارٹیوں کی حمایتی ہیں۔ میرے ایک بھائی ہیں جو بہت خاموش مزاج ہیں وہ پیس پارٹی کے حمایتی ہیں۔ اس لئے آپ ان ناکارہ لوگوں سے کوئی امید مت رکھئے۔ عمران نے سب کا تعارف کرایا۔

    ان کے جانے کے بعد زینت نے پوچھا یہ لوگ کون تھے۔ عمران نے کہا میری پارٹی کے لوگ ہیں جو صرف جائزہ لینے مرادآباد سے آئے تھے ووٹ مانگنے نہیں۔ چڑیلوں!!

    الیکشن ہو چکا، نتائج بھی آ چکے، جیتنے اور جتانے والے خوش ہو لئے، مبارکبادوں کا دور چلا، ختم ہوا اور حکومت بھی بن گئی۔ اخبار وں میں صفحات کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ داد بھی مل رہی ہے۔

    ’’باشعور رائے دہندگان کا مدبرانہ فیصلہ‘‘

    مبارکباد کے مستحق ہیں رائے دہندگان جنہوں نے اپنے ووٹوں کے طاقت کو محسوس کیا اور اس کا بہتر استعمال کیا۔ نہ صرف یہ کہ مطلق العنان حکومت کو اکھاڑ پھینکا بلکہ اس کی اوقات بھی بتادی۔ پولنگ نہایت سوچ سمجھ کر منظم انداز میں ہوئی، سیکولر باالخصوص مسلم رائے دہندگان نے اپنی ذمہ داری نہایت خوبی کے ساتھ انجام دی لیکن اب دیکھنا ہے کہ نئی حکومت اور نو منتخب نمائندے عوام کی امید اور معیار پر کس حد تک پورے اترتے ہیں۔

    نیوز پڑھنے کے بعد نادیہ نے یک لخت کہا۔ کیوں نہیں پورے اتریں گے جس طرح عوام نے میری پارٹی کو جتایا ہے اسی طرح امید کی جاتی ہے کہ نئی سرکار عوام کے مسائل کو متحد ہوکر حل کرےگی۔

    تب تو صبیحہ پہاڑن جو انڈین ہونے کی سند برسوں پہلے کھو چکی تھی اب دعوی کے ساتھ لے سکتی ہے۔ عمران نے گرہ لگائی۔

    ایک تو اس وقت عمران بھائی کو اپنی پارٹی کی ہار میں لگے ہوئے زخم پر مرہم لگانے کے لئے کوئی نہیں مل رہا تھا اوپر سے نادیہ نے یہ بات کہہ کر نمک پاشی کر دی۔

    نادیہ! تم لوگوں کے مستقبل کی پیشن گوئی کر رہی ہو۔ شالینی نے ٹکڑا جوڑا۔ بالکل، کیوں نہیں اب سب کو ایک ساتھ جاب ملےگی اور مس صبیحہ اور نادیہ ایک ساتھ انڈیا آئیں گی اور اپنے ذاتی مکان میں رہیں گی۔

    صبیحہ، نادیہ اور دوسرے رشتہ داروں کو لوٹے ہوئے عرصہ گزر گیا۔ ایک امید پر جی رہے ہیں کہ انھیں Citizen Ship مل جائےگی ۔ صبیحہ کا فون آیا ہے کہ اس کی جس دوست کا گھر نذر آتش کردیا گیا تھا وہ بچاری دردر بھٹک رہی رہنے کے لئے کوئی سائبان نہیں۔ بچاری کے بچے کی طبیعت خراب ہے۔ سرکاری اسپتال میں علاج کروانے پر فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ پرائیوٹ ڈاکٹر ڈھیروں روپیے مانگ رہے ہیں۔

    مشورہ دیا کہ گورکھپور لے کر چلی جاؤ۔ نوزائیدہ سے لے کر 10 سال کے بچوں تک کے ایک بہت اچھے اسپشلسٹ ہیں صرف چار ہزار لگیں گے۔

    کہنے لگی ’’ہائے رے ہمار بہنی اتنا روپیہ کہاں سے لائی کم ہوت تو مانگ چانگ لیتن‘‘۔

    اس کا بیٹا پیدا ہوا تھا تب بھی کوئی طاقت والی چیز اسے نہیں ملی تھی اسی لئے کمزور ہو گئی ہے محنت مزدوری بھی نہیں کر سکتی۔

    نئی سرکار سے اسے بڑی امیدیں تھیں مگر۔۔۔

    تب نادیہ نے ہار مان لی اور کہا۔

    ’’طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی‘‘۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے