Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

باپ اور بیٹا

مشرف عالم ذوقی

باپ اور بیٹا

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

    (۱)

    باہر گہرا کہرا گر رہا تھا۔۔۔ کافی ٹھنڈی لہر تھی۔ میز پر رکھی چائے برف بن چکی تھی۔ کافی دیر کے بعد باپ کے لب تھرتھرائے تھے۔ ’’میرا ایک گھر ہے‘‘ اور جواب میں ایک شرارت بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔ ’’اور میں ایک جسم ہوں۔۔۔ اپنے آپ سے صلح کر لو گے تب بھی ایک جنگ تو تمہارے اندر چلتی ہی رہے گی۔ ذہن کی سطح پر، ایک آگ کے دریا سے تو تمہیں گزرنا ہی پڑےگا۔ اپنے آپ سے لڑنا نہیں جانتے۔ گھر۔ بچے۔ ایک عمر نکل جاتی ہے۔‘‘

    باپ اس دن جلدی گھر لوٹ آئے تھے۔ شاید، ایک طرح کے احساس جرم سے متاثر، یہ ٹھیک نہیں۔ وہ بہت دیر تک اندھیرے کمرے میں اپنی ہی پرچھائیوں سے لڑتے رہے۔ کمرے میں اندھیرا اور سکون ہو تو اچھا خاصا میدان جنگ بن جاتا ہے۔ خود سے لڑتے رہو۔ میزائلیں چھوٹتی ہیں۔۔۔ تو پین چلتی ہیں۔۔۔ اور کبھی کبھی اپنا آپ اتنا لہو لہان ہو جاتا ہے کہ۔ تنہائیوں سے ڈر لگنے لگتا ہے۔ مگر تھکے ہوئے پریشان ذہن کو کبھی کبھی انہیں تنہائیوں پر پیار آتا ہے۔ یہ تنہائیاں قصے ’’جنتی‘‘ بھی ہیں اور قصے سنتی بھی ہیں۔۔۔

    کمرے میں اتری ہوئی یہ پرچھائیاں دیر تک باپ سے لڑتی رہی تھیں۔ پاگل ہو۔ تم ایک باپ ہو۔ ایک شوہر ہو۔ باپ گہری سوچ میں گم تھے۔ جسم کی مانگ کچھ اور تھی شاید۔ مگر نہیں۔ شاید یہ جسم کی مانگ نہیں تھی۔ جسم کو تو برسوں پہلے اداس کر دیا تھا انہوں نے۔۔۔ بس ایک کھردری تجویز۔۔۔ جیسے بوڑھے ہونے کے احساس سے خود کو بچائے رکھنے کی ایک ضروری کارروائی بس۔۔۔ زندگی نے شاید اداسی کے آگے کا، کوئی خوبصورت سپنا دیکھنا بند کر دیا تھا۔۔۔

    اور ایک دن جیسے باپ نے زندگی کی دور تک پھیلی گپھا میں اپنے مستقبل کا اختتامیہ پڑھ لیا تھا۔ ’’بس۔ یہی بچے۔ انہی میں سمائی زندگی اور۔ یہی اختتام ہے۔ فل اسٹاپ؟‘‘

    وہ اندر تک لرز گئے تھے۔

    باپ اس کے بعد بھی کئی دنوں تک لرزتے رہے تھے۔ دراصل باپ کو یہ روٹین لائف والا جانور بننا کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ مگر شادی کے بعد سے، جیسے روایت کی اس گانٹھ سے بندھے رہ گئے تھے۔ بس یہیں تک۔ پھر بچے ہوئے اور اندر کا وہ رومانی آدمی، زندگی کی ان گنت شاہراہوں کے بیچ کہیں کھو گیا، باپ کو اس کا پتہ بھی نہیں چلا۔

    (۲)

    باپ کے اس بدلاؤ کا بیٹے کو احساس تھا۔ ہو سکتا ہے، گھر کے دوسرے لوگ بھی باپ کی خاموشی کو الگ الگ طرح سے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں، مگر باپ اندر ہی اندر کون سی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ بیٹے سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ یہ نفسیات کی کوئی ایسی بہت باریک تہہ بھی نہیں تھی، جسے جاننے یا سمجھنے کے لئے اسے کافی محنت کرنی پڑی ہو۔ باپ کی اندرونی کشمکش کو اس نے ذرا سے تجزیے کے بعد ہی سمجھ لیا تھا۔

    باپ میں ایک مرد لوٹ رہا ہے؟

    شاید باپ جیسی عمر کے سب باپوں کے اندر، اس طرح سوئے ہوئے مرد لوٹ آتے ہوں؟

    باقی بات تو وہ نہیں جانتا مگر باپ اس ’’مرد‘‘ کو لے کر الجھ گئے ہیں۔۔۔ ذرا سنجیدہ ہو گئے ہیں۔ تو کیا باپ بغاوت کر سکتے ہیں؟

    بیٹے کو احساس تو تھا کہ باپ کے اندر کا مرد لوٹ آیا ہے مگر وہ اس بات سے نا آشنا تھا کہ باپ گھر والوں کو اس مردانگی کا احساس کیسے کرائیں گے؟ باپ کو، گھر والوں کو اس مردانگی کا احساس کرانا بھی چاہئے یا نہیں۔۔۔؟

    ہو سکتا ہے آپ یہ پوچھیں کہ بیٹے کو اس بات کا پتہ کیسے چلا کہ باپ کے اندر کا ’’مرد‘‘ لوٹ آیا ہے؟۔ تاہم یہ بھی صحیح ہے کہ باپ میں آنے والی اس تبدیلی کو گھر والے طرح طرح کے معنی دے رہے تھے۔ جیسے شاید ماں یہ سوچتی ہو کہ پنکی اب بڑی ہو گئی ہے، اس لئے باپ ذرا سنجیدہ ہو گئے ہیں۔

    لیکن بیٹے کو اس منطق سے اتفاق نہیں اور اس کی وجہ بہت صاف ہے۔ باپ کی حیثیت بیٹے کو پتہ ہے۔۔۔ دس پنکیوں کی شادی بھی باپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں، باپ کے پاس کیا نہیں ہے، کار، بنگلہ اور ایک کامیاب آدمی کی شناخت۔۔۔ لیکن بیٹے کو پتہ ہے اس شناخت کے بیچ، اچانک کسی تنہا گوشے میں کوئی درد اتر آیا ہے۔

    باپ کے اندر آئی ہوئی تبدیلیوں کا احساس بیٹے کو بار بار ہوتا رہا۔ جیسے اس دن۔ باپ اچانک رومانٹک ہو گئے تھے۔

    ’’تمہیں پتہ ہے، باتھ روم میں یہ کون گا رہا ہے؟‘‘ اس نے ماں سے پوچھا تھا، ایک بے حد روایتی قسم کی ماں۔

    ماں کے چہرے پر سلوٹیں تھیں۔

    ’’میں نے پاپا کو کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا، کیوں ماں؟‘‘

    ماں کے چہرے پر بل تھے۔

    ’’وہ ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘ ماں کے لہجے میں ڈر تھا۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’انہیں کبھی اس طرح گاتے ہوئے۔‘‘

    بیٹے کو ہنسی آ گئی۔ ’’کمال کرتی ہو تم بھی ماں۔۔۔ یعنی باپ کو کیسا ہونا چاہئے۔ ہر وقت ایک فکرمند چہرے والا، جلاد نما۔ غصیلا، آدرش وادی‘‘۔ بیٹا مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’باپ میں بھی تو جذبات ہو سکتے ہیں‘‘ بیٹے نے پروا نہیں کی۔ ماں اس کے آخری جملے پر دکھی ہو گئی تھی۔ شاید ماں کو اس کے آخری جملے سے شبہ ہوا تھا۔ پورے بیس سال بعد۔ باپ کے تئیں۔ کہیں باپ میں۔

    ماں نے فوراً ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی تسلی کا سامان کیا تھا۔ ’’کوئی زور دار رشوت ملی ہو گی۔‘‘ ماں کو پتہ تھا کہ کسی سرکاری افسر کو بھی اتنا سب کچھ آرام سے نہیں مل جاتا، جتنا کہ اس کے شوہر نے حاصل کیا ہوا تھا۔

    باپ اس دن رومانٹک ہو گئے تھے۔ پھر بعد میں کافی سنجیدہ نظر آئے۔۔۔ جیسے تپتی ہوئی زمین پر بارش کی کچھ بوندیں برس جائیں۔ بیٹا دل ہی دل میں مسکرایا تھا۔ ہو نہ ہو یہ مینہ برس جانے کے بعد کا منظر تھا۔ باپ کی زندگی میں کوئی آ گیا ہے۔ پہلے باپ کو اچھا لگا ہو گا اس لئے باپ تھوڑے سے رومانی ہو گئے ہوں گے۔ پھر باپ کو احساس کے آکٹوپس نے جکڑ لیا ہوگا۔ بیٹے کو اب باپ کی ساری کارروائیوں میں مزہ آ رہا تھا۔

    (۳)

    باپ کو یہاں تک، یعنی اس منزل تک پہنچنے میں کافی محنت کرنی پڑی تھی۔۔۔ جدوجہد کے کافی اوبڑ کھابڑ راستوں سے گزرنا پڑا تھا۔ بیٹے کو پتہ تھا کہ باپ شروع سے ہی رومانی رہا ہے۔۔۔ جذباتی۔۔۔ آنکھوں کے سامنے دور تک پھیلا ہوا چمکتا آسمان۔ بچپن میں چھوٹی چھوٹی نظمیں بھی لکھی ہوں گی۔ ان نظموں میں اس وقت رچنے بسنے والے چہرے بھی رہے ہوں گے۔ تب گھر کے اداس چھپروں پر خاموشی کے کوے بیٹھے ہوتے تھے۔ باپ کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ خوشبوؤں کے درختوں پر رہنے والی رومانی تتلیوں کی تلاش میں اسے ذرا سا پریکٹیکل بننا ہوگا۔ باپ ہوشیار تھا۔ اس نے پتھریلے راستے چنے۔۔۔ نظموں کی نرم و نازک دنیا سے الگ کا راستہ۔ ایک اچھی نوکری اور گھر والوں کی مرضی کی بیوی کے ساتھ زندگی کے جزیرے پر آگیا۔ مگر وہ رومانی لہریں کہاں گئیں یا وہ کہیں نہیں تھیں۔ یا اس عمر میں سب کے اندر ہوتی ہیں۔۔۔ باپ کی طرح۔ اور سب ہی انہیں اندر چھوڑ کر بھول جاتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں کبھی کوئی سیلاب نہیں آتا تھا۔ مگر باپ کی آنکھوں میں سیلاب آ چکا تھا، اور وہ بھی اچانک۔۔۔ اور وہ بھی ایسے وقت جب پنکی جوان ہو چکی تھی اور بیٹے کی آنکھوں میں رومانی لہروں کی ہلچل تیز ہو گئتھی۔ ٹھیک بیس سال پہلے کے باپ کی طرح۔ لیکن بیس سال بعد کا یہ وقت اور تھا، باپ والا نہیں۔

    بیٹے کے ساتھ باپ جیسی اداس چھپر کی داستان نہیں تھی۔ بیٹے کے پاس باپ کا بنگلہ تھا۔ ایک کار تھی۔ کار میں ساتھ گھومنے والی یوں تو کئی لڑکیاں تھیں، مگر سمندر کی بہت ساری لہروں میں سے ایک لہر اسے سب سے زیادہ پسند تھی۔ بیٹے کو سب سے زیادہ گدگداتی تھی اور بے شک بیٹا اس کے لئے، اس کے نام پر رومانی شاعری بھی کر سکتا تھا۔

    بیٹے کے سامنے مشاہدہ ’’منطق اور تسلیوں کے سب دروازے کھلے تھے۔ بیٹا، انٹرنیٹ، کلون اور کمپیوٹر پر گھنٹوں باتیں کر سکتا تھا، اسے اپنے وقت کی ترقی کا اندازہ تھا۔ بہت ترقی یافتہ ملک کا شہری نہ ہونے کے باوجود، خود کو ترقی یافتہ سمجھنے کی بہت سی مثالیں وہ گھڑ سکتا تھا۔

    ہاں، یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی وہ پھسل بھی جاتا تھا۔ جیسے، اس دن۔ اس خشک شام۔ کافی شاپ میں بیٹے کی نظر اچانک اس طرف چلی گئی۔ اس طرف۔۔۔ مگر جو وہ دیکھ رہا تھا وہ صد فی صد سچ تھا۔ اس نے دانتوں سے انگلیوں کو دبایا۔ نہیں جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا، وہ قطعی طور پر نظروں کا دھوکہ نہیں تھا۔۔۔ اس کے ٹیبل کے بائیں طرف والی ٹیبل، ٹیبل پر رینگتا ہوا ایک مردانہ ہاتھ۔ کافی کی پیالیوں کے بیچ تھرتھراتا ہوا ایک زنانہ ہاتھ۔ سخت کھردری انگلیاں، دھیرے سے ملائم انگلیوں سے ٹکرائیں۔

    ’’چھپکلی!‘‘ بیٹے کے اندر کا ترقی یافتہ آدمی سامنے تھا۔

    ’’کیا؟‘‘ لڑکی اچھل پڑی تھی۔

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’تم نے ابھی تو کہا۔‘‘

    ’’نہیں۔ کچھ نہیں بس یہاں سے چلو‘‘

    بیٹا سیٹ چھوڑ کر اٹھ گیا تھا۔ لڑکی حیران تھی۔۔۔

    ’’کیوں چلوں، ابھی ابھی تو ہم آئے ہیں۔‘‘

    لڑکی کی آنکھوں میں شرارت تھی۔۔۔ ’’کوئی اور ہے کیا؟‘‘

    اٹھتے اٹھتے، پلٹ کر لڑکی نے اس سمت دیکھ لیا تھا، جہاں۔

    دونوں باہر آ گئے۔ باہر آ کر لڑکی کے لہجے میں تلخی تھی۔۔۔

    ’’کون تھا وہ؟‘‘

    ’’کوئی نہیں‘‘

    ’’پھر باہر کیوں آ گئے؟‘‘

    ’’بس یوں ہی۔‘‘

    ’’یوں ہی نہیں۔ سنو‘‘۔۔۔ لڑکی اس کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی مسکرا رہی تھی۔

    ’’کوئی تمہاری جان پہچان کا تھا؟‘‘

    وہ چپ رہا۔

    لڑکی کی آنکھوں میں ایک پل کو کرسی پر بیٹھے اس شخص کا چہرہ گھوم گیا۔۔۔

    ’’سنو اس کا چہرہ کچھ جانا پہچانا سا لگا‘‘

    ’’تم ناحق شک کر رہی ہو‘‘

    ’’سنو، وہ تم تو نہیں تھے؟‘‘ لڑکی ہنس دی۔

    ’’پاگل!‘‘ لڑکے کا بدن تھرتھرایا۔

    ’’اچھا، اب میں جان گئی کہ اس کا چہرہ جانا پہچانا کیوں لگا‘‘ لڑکی زور زور سے ہنس پڑی۔ اور میں نے یہ کیوں کہ کہا کہ۔ وہ تم تو نہیں تھے‘‘

    ’’پھر۔‘‘ لڑکے کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک اٹھیں۔۔۔

    ’’کیوں کہ وہ تمہارے۔ تمہارے ڈیڈ تھے، تھے نا؟ اب جھوٹ مت بولو مگر ایک بات سمجھ نہیں سکی۔ تم بھاگ کیوں آئے؟‘‘

    لڑکی حیران تھی۔ ’’تمہاری طرح تمہارے ڈیڈ کو، یا ہمارے پیرینٹس کو یہ سب کرنے کا حق کیوں نہیں؟‘‘

    بیٹے کو اب دھیرے دھیرے ہوش آنے لگا تھا۔ ’’آؤ کہیں اور بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔‘‘

    (۴)

    باپ ان دنوں عجیب حالات سے دوچار تھا۔ باپ جانتا تھا کہ ان دنوں جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہو رہا ہے، اس کے پیچھے ایک لڑکی ہے۔ لڑکی جو پنکی کی عمر کی ہے تاہم باپ جیسا اسٹیٹس (Status) رکھنے والوں کے لئے اس طرح کی باتیں کوئی خبر نہیں بنتی ہیں، مگر باپ کی بات دوسری تھی۔ باپ اس معاشرے سے تھا، جہاں ایک بیوی اور ایک خوشگوار گھریلو زندگی کا ہی سکہ چلتا ہے۔ یعنی جہاں ہر بات کسی نہ کسی سطح پر خاندانی پن سے جڑ جاتی ہے۔ زندگی کے اس الجھے ہوئے پل سے گزرتے ہوئے باپ کو اس بات کا احساس ضرور تھا کہ وہ لڑکی یونہی نہیں چلی آئی تھی۔ دھیرے دھیرے ایک ویکیوم یا خالی پن اس میں ضرور سما گیا تھا جس کی خانہ پری کے لئے کسی چور دروازے سے وہ لڑکی، اس کے اندر داخل ہو کر اس کے ہوش و حواس پر چھا گئی تھی۔ کہیں ایک عمر نکل جانے کے بعد بھی ایک عمر رہ جاتی ہے، جو زندگی کے تپتے ریگستان میں کسی امرت یا کسی ٹھنڈے پانی کے جھرنے کی آرزو رکھتی ہے۔ باپ نے سب کچھ تو حاصل کر لیا تھا، مگر اسے لگتا تھا، سب کچھ پا لینے کے باوجود وہ کسی مشینی انسان یا روبوٹ سے الگ نہیں ہے۔۔۔ اور یہ زندگی صرف اتنی سی نہیں ہے۔ وہ ایسے بہت سے لوگوں کی طرح زندگی بسر کرنے کے خلاف تھا، جن کے پاس جینے کے نام پر کوئی بڑا مقصد نہیں ہوتا۔ یا جو اپنی تمناؤں اور آرزوؤں اور زندگی کے تئیں سبھی طرح کے رومان کو سلاکر اداس ہو جاتے ہیں۔۔۔ باپ کے نزدیک ایسے لوگوں کو بس یہی کہا جا سکتا تھا۔ ایک ناکام آدمی! لیکن اچانک باپ کو لگنے لگا تھا۔ کیا وہ بھی ایک ناکام آدمی ہے؟

    دراصل باپ کے اندر ’’تبدیلی‘‘ لانے میں اس سپنے کا بھی ہاتھ رہا تھا۔ کہنا چاہئے وہ ایک بھیانک سپنا تھا اور باپ کے لئے کسی ذہنی حادثے سے کم نہیں۔ کیا ایسے سپنے دوسروں کو بھی آتے ہیں یا آ سکتے ہیں؟ دنیا سے اگر اچھائی برائی، گناہ و ثواب جیسی چیزیں ایک دم سے کھو جائیں تو؟ اس سے زیادہ ذلیل سپنا۔ نہیں، کہنا چاہئے باپ ڈر گیا تھا، وہ ایک عام سپنا تھا۔۔۔ جیسے سپنے عنفوان شباب میں عام طور پر آتے رہتے ہیں۔ سپنے میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی، بلکہ بہت ہی معمولی سا سپنا۔ جو بہت سے ماہرین نفسیات جیوی ریڈلس، پیٹرہاوز اور فرائڈ کے مطابق۔ ناآسودہ خواہشات والے بوڑھے شخص کے لئے یہ کوئی غیر معمولی حادثہ نہیں۔۔۔ یعنی سپنے میں کسی سے زنا بالجبر۔۔۔ باپ سے سپنے میں ایسے ہی جرم کا ارتکاب ہوا تھا۔۔۔ لڑکی خوف زدہ حالت میں پیچھے ہٹتی گئی تھی۔ باپ پر پاگل پن سوار تھا۔ چر۔ ر۔ سے آواز ہوئی، خوف زدہ لڑکی کا گداز جسم اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ تپتے ریگستان میں جیسے ٹھنڈے پانی کی ایک بوند۔ بوند۔ ٹپ سے گری۔

    سقراط اور ارسطو سے لے کر سگمنڈ فرائڈ تک، سبھی کا یہ ماننا ہے کہ۔ سپنوں میں کہیں نہ کہیں دبی خواہشات اور جنسی افعال رہتے ہیں۔ تو کیا جو کچھ سپنے میں ہوا۔ وہ۔

    تو کیا یہ باپ کی کوئی دبی خواہش تھی؟ نا آسودہ خواہشات فقط جنسی ہیجانات ہی ہوتے ہیں، باپ کو پتہ تھا۔

    سپنوں کے بارے میں باپ کا کوئی گہرا مطالعہ تو نہیں تھا پھر بھی اپنی دلچسپی کے لحاظ سے باپ ایسی باتوں سے آشنا تھا۔ کلیئرواینٹ، ٹیلی پیتھی، پریکا گنیشن، رینڑوکا گنیشن سے لے کر سپنوں میں ہونے والی جنسی خواہش وغیرہ کے بارے میں اسے مکمل جانکاری تھی، باپ کو لگا، عصمت دری کا مرتکب شخص وہ نہیں، کوئی پریت آتما ہے؟ (ایسی پریت آتماؤں کو پیرا نفسیاتی زبان میں انکیوبی اور سکیوبی نام دیئے گئے ہیں۔ یہ شیطانی روحیں عورت اور مرد میں سوئی روحوں کے ساتھ اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرتی ہیں۔ تو کیا وہ سچ مچ باپ نہیں تھا۔ وہ کوئی بد روح تھی؟)

    لیکن یہ تسلی کچھ زیادہ جاندار نہیں تھی۔ اس نے نفسیات اور پیرا نفسیات کے سارے چیتھڑے بکھیر دیئے تھے۔ باپ کے لئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا۔ اس لئے کہ سپنے میں جس لڑکی کے ساتھ باپ نے زنا بالجبر کیا تھا، وہ لڑکی پنکی تھی۔

    دیر تک باپ کا بدن کسی سوکھے پیڑ کی مانند تیز ہوا سے ہلتا رہا تھا۔ انسان کے ذہنی حرکات و سکنات کو قابو کرنے والے جذبے کا نام ہے LIBIDO۔۔۔ یہ مرد، عورت کے ملن سے ہی ممکن ہے۔ اپنے من چاہے ساتھی کے ساتھ جنہیں اس خواہش کی تکمیل میسر ہوتی ہے وہ ذہنی اعتبار سے صحت مند ہو جاتے ہیں۔۔۔ اپنی پسند کی تسکین حاصل نہ ہو تو ذہن میں دبی خواہش ڈراؤنے خوابوں کو جنم دیتی ہے۔ تو کیا باپ نا آسودہ تھا؟ بہت دنوں تک عورت کے بدن کی شبیہیں جیسے اوکھلی، دوات، کمرا، کنواں وغیرہ اس کے سپنوں میں ابھرتے رہے اور ان سپنوں کا خاتمہ کہاں ہوا تھا۔ وہ بھی ایک ایسے ’’زانی‘‘ کے ساتھ۔ اس نے پوری ننگی عورت کے ساتھ مباشرت کی تھی۔۔۔

    باپ گہرے سناٹے میں تھا۔ ایسے گہرے سناٹے میں، جہاں اس طرح کے تجزیے بھی غیر ضروری معلوم ہونے لگتے ہیں کہ۔ وہ ابھی تک صحت مند ہے؟ جوانی ابھی اس میں باقی ہے۔ ابھی تک اس میں پت جھڑ نہیں آیا۔ بیوی کی طرح۔ وہ کسی ٹھنڈے سوکھے کنویں میں نہیں بدلا۔ جانگھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جسم میں، خون کی تمام لہروں پر اس کی نظر رہتی ہے۔ ایک گرم جسم شاید اس کے جوان بیٹے سے بھی زیادہ گرم، بیوی نے برسوں پہلے جیسے یہاں، سکھ کے اس مرکز پر دیوار اٹھا دی تھی۔ اس کے پاس سب سے زیادہ باتیں تھیں پنکی کے بارے میں، پنکی کے لئے اچھا سا شوہر ڈھونڈنے کے سپنے کے بارے میں شاید بیوی کے پاس مستقبل کے نام پر کچھ اور بھی بوڑھے سپنے رہے ہوں، مگر۔

    اس دن پنکی شاور سے نکلی تھی، نہا کر۔ شاید باپ کسی ایسے ہی کمزور لمحے میں، وقت سے پہلے اپنی بیٹی کی شادی کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ باپ نے نظر نیچی کر لی تھی پنکی کے جسم سے میزائلیں چھوٹ رہی تھیں۔ اس نے شلوار اور ڈھیلے گلے کا جمپر پہن رکھا تھا۔ وہ سر جھکائے تولیے سے بال سکھا رہی تھی۔ پہلی ہی نظر میں اس نے آنکھ جھکا لی تھی، آہ! کسی بھی باپ کے لئے ایسے لمحے کتنے خطرناک اور چیلنج سے بھرپور ہوتے ہیں۔

    تو کیا اس اَن چاہے سپنے کے لئے یہ منظر ذمہ دار تھا، یا۔ اس کے اندر دبی خواہش نے اسے ظالم حکمراں میں بدل دیا تھا۔

    خالی دماغ شیطان کا گھر۔۔۔ باپ خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنا چاہتا تھا۔ گزرے ہوئے بہت سارے خوبصورت لمحوں یا بچھڑی ہوئی ا س رومانی دنیا میں ایک بار پھر اپنی واپسی چاہتا تھا۔ اپنی حدوں کو پہچاننے کے باوجود۔ شاید اسی لئے لڑکی کی طرف سے ملنے والی لگاتار دعوتوں کو ٹھکرانے کے بعد، اس دن، اس نے، اسے پہلی بار منظوری دی تھی۔

    (۵)

    ’’چلو!کہیں باہر چائے پینے چلتے ہیں۔‘‘

    بیٹا کچھ دیر تک خاموش رہا۔

    لڑکی کے لئے تجسس کا موضوع دوسرا تھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’تمہیں پہلی بار کیسا لگا اپنے باپ کو دیکھ کر۔‘‘ وہ تھوڑا مسکرائی تھی۔ ’’عشق فرماتے ہوئے دیکھ کر؟‘‘

    ’’باپ ہمیں دیکھ لیتے تو، کیسا لگتا انہیں‘‘۔

    لڑکی کو یہ جواب کچھ زیادہ پسند نہیں آیا۔۔۔

    لڑکا کچھ اور سوچ رہا تھا۔ ’’اچھا مان لو، وہ باپ کی گرل فرینڈ نہ ہو۔ وہ بس باپ کے دفتر میں کام کرنے والی ایک عورت ہو۔‘‘

    ’’عورت نہیں۔ ایک کمسن، جوان اور خوبصورت لڑکی، جیسی میں ہوں‘‘۔۔۔ لڑکی ہنسی۔ ’’میری عمر کی؟‘‘

    ’’کیا اس عمر کی لڑکیاں دفتروں میں کام نہیں کرتیں؟‘‘

    ’’کرتی کیوں نہیں۔ باپ جیسے لوگ ان کے ساتھ چائے پینے بھی آتے ہوں گے، مگر وہ۔ میرا دعویٰ ہے، جس طرح تمہارے پاپا نے۔ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا، میرا یقین ہے، وہ تمہارے پاپا کی گرل فرینڈ ہی ہوگی۔‘‘

    ’’اچھا بتاؤ، مجھے کیسا لگنا چاہئے تھا؟‘‘

    ’’مجھے نہیں پتہ۔‘‘

    ’’اچھا بتاؤ۔ اگر وہ تمہارے پاپا ہوتے تو؟‘‘

    لڑکی نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ ’’میرے پاپا ممی میں طلاق ہو چکی ہے۔ میں ممی کے ساتھ رہتی ہوں، اس لئے کہ پاپا کی زندگی میں کوئی اور آ گئی تھی۔ ہو سکتا ہے وہ اس کے ساتھ ایسے ہی گھومتے ہوں جیسے۔‘‘

    ’’اس حادثے کے بعد تمہارے ممی نے کسی کو نہیں چاہا؟‘‘

    ’’نہیں، لیکن یہ ممی کی غلطی تھی جو یہ سوچتی ہیں کہ جوان ہوتی لڑکی کی موجودگی میں کسی کو چاہنا گناہ ہے۔ کبھی کبھی مجھے ممی پر غصہ آتا ہے۔ صرف میرے لئے ایک پوری زندگی انہیں دیوداسی کی طرح گزارنے کی کیا ضرورت تھی۔ میرے لئے، میرے ساتھ رہنے والی زندگی کا خاتمہ اس طرح ہو جائے، یہ مجھے گوارا نہیں۔‘‘

    ’’مان لو اگر تمہاری ممی کا کوئی رومانس شروع ہو جاتا تو؟‘‘

    ’’ایک سدیش انکل تھے۔ ممی کا خیال رکھتے تھے مگر ممی نے سخت لفظوں میں انہیں آنے سے منع کر دیا۔‘‘

    ’’کیا تمہیں یقین ہے کہ ممی کے اندر، تمہاری طرح ایک جوان عورت بھی ہوگی؟‘‘

    ’’مجھے یقین ہے کہ ممی سدیش انکل کو بھولی نہیں ہوں گی اور یہ کہ۔ ان کے اندر کوئی نہ کوئی بھوک ضرور دبی ہوگی۔ میں جانتی ہوں، ممی اس بھوک کو لئے ہوئے ہی مر جائیں گی۔‘‘

    بیٹے کی آنکھوں میں اُلجھن کے آثار تھے۔ تو کیا باپ بھی اسی طرح برسوں سے اپنی بھوک دبائے ہوئے ہوں گے؟

    ’’تمہاری ممی کیسی ہیں؟‘‘

    ’’ہمارے لئے بہت اچھی۔ ہاں !پاپا کے لئے نہیں۔ لگتا ہے۔ ممی اس عمر میں صرف ہمارے لئے رہ گئی ہیں۔ وہ پاپا کے لئے نہیں ہیں۔‘‘

    لڑکی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’پاپا کی زندگی میں ’’کئی‘‘ آ جائیں تو بھیانک بات نہیں۔ ایسے بہت سے مرد ہمارے سماج میں ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ بہت سی گھر والیاں بھی یہ سب جانتے ہوئے چپ رہ جاتی ہیں۔ اس سے گھر نہیں ٹوٹتا۔ باپ کی زندگی میں کوئی دوسرا آ جائے، تب خطرے کی بات ہے۔ اس دوسرے کے آنے سے گھر ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ جیسا، میرے باپ کے ساتھ ہوا۔‘‘

    ’’پتہ نہیں، باپ کیا کریں گے۔‘‘ لڑکے کو فکر تھی۔ ’’لیکن ایک بات کہوں یہ دہرے پن کا زمانہ ہے، دہرے پن کا۔‘‘

    لڑکی ہنسی۔۔۔ سیدھی سچی بات کہوں تو ’’دوغلا بن کر ہی جی سکتے ہو تم۔ آرام سے۔۔۔ زندگی میں بیلینس کے لئے دوہرے پن کا کردار ضروری ہے یعنی آپ ایک وقت میں دو جگہ ہو سکتے ہیں۔ الگ الگ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے۔ سیدھے سیدھے کہوں تو، اگر آپ بیوی ہیں تو آپ کو بھولنا ہو گا کہ گھر سے باہر آپ کا شوہر کیا کرتا ہے اور اگر شوہر ہیں تو بھول جائیے کہ باقی وقت آپ کی بیوی کیا کرتی ہے۔ اس مارکیٹنگ ایج میں اگر آپ اخلاقی اقدار یا روایات کی بات کریں گے تو خسارہ آپ کا ہی ہوگا۔‘‘

    لڑکا بولا۔ ’’شاید اتنا کچھ قبول کرنا سب کے لئے آسان نہ ہو۔‘‘

    ’’تمہارے باپ کی زندگی میں ایک لڑکی آ چکی ہے، یہ قبول کرتے ہوئے تمہیں کیسا لگےگا؟‘‘

    لڑکے نے بہت سوچنے کے بعد کہا۔۔۔ ’’ابھی اس میز پر بیٹھ کر میں اس کا جواب صحیح طور پر نہیں دے پاؤں گا۔‘‘

    باپ کے لئے یہ ایک غیر متوقع سمجھوتہ تھا۔ یعنی اس سپنے سے اس لڑکی تک کا سفر۔ لڑکی کا ساتھ پاکر جیسے اس کا پورا جسم گنگنا اٹھا تھا۔ نہیں، اس سے بھی زیادہ۔ باپ کا جسم جیسے اچانک وائلن میں بدل گیا ہو اور وائلن کے تار جھنجھنا کر مستی بھری دھنیں پیدا کر رہے ہوں۔

    لڑکی کم عمر تھی، باپ نے پوچھا۔۔۔

    ’’تم نے اپنی عمر دیکھی ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ لڑکی ڈھٹائی سے مسکرائی۔ ’’اور تم نے؟‘‘

    ’’ہاں‘‘

    ’’تمہاری جیسی عمر کو میری ہی عمر کی ضرورت ہے‘‘

    ’’اور تمہاری عمر کو؟‘‘ باپ اس فلسفے پر حیران تھا۔

    لڑکی مدہوش تھی۔ ’’نئے لڑکے نا تجربہ کار ہوتے ہیں۔۔۔ مورتی کی تراش خراش سے واقف نہیں ہوتے۔ اس عمر کو ایک تجربہ کار مرد کو ہی سوچنا چاہئے۔ جیسے تم۔‘‘ لڑکی ہنسی تھی۔

    گھر آ کر بھی باپ کو لڑکی کی ہنسی یاد رہی۔ اس دن لڑکی کے صرف ہاتھوں کے لمس اور خوشبو نے، گھر میں طرح طرح سے اس کی موجودگی درج کرا دی تھی۔ جیسے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھاتے ہوئے دفعتاً غیر شعوری طور پر اس کے ہاتھ ’’طبلہ‘‘ بن گئے تھے۔ جیسے باتھ روم میں وہ یونہی گنگنانے لگا تھا۔ جیسے۔ اور بھی بہت کچھ ہوا تھا۔ مگر شاید اب وہ یاد کرنے کی حالت میں نہیں تھا۔ کیونکہ اب اس لمس یا خوشبو سے گزرتے ہوئے وہ ساری رات اپنی ’’اگنی پریکشا‘‘ دینے پر مجبور تھا۔ پتہ نہیں، بیوی کو اس بدلاؤ پر حیران ہونا چاہئے تھا یا نہیں؟ مگر بیوی ڈر چکی تھی یہ سوچتے ہوئے کہ اس کا شوہر کسی سخت ذہنی الجھن میں گرفتار ہے۔ وہ اپنے باپ کے گھر کی روایت کو نبھانے یا بیوی کا دھرم نبھانے پر مجبور تھی۔۔۔ اور وہ بار بار شوہر کے آگے پیچھے گھوم کر کچھ ایسی مضحکہ خیز صورت حال پیدا کر رہی تھی جیسے کسی چھوٹے بچے پر پاگل پن کا دورہ پڑا ہو اور ماں اپنی مکمل ممتا بچے پر انڈیل دینا چاہتی ہو۔ شوہر کے بدلاؤ پر اس کا ذہن کہیں اور جانے کی حالت میں نہیں تھا۔

    ’’پنکی کے لئے پریشان ہو؟‘‘

    باپ کی مٹھیاں سختی سے بھنچ گئیں۔ ابھی ابھی تو وہ یک ڈراؤنے سپنے کے سفر سے واپس لوٹا تھا۔

    ’’مت سوچو زیادہ‘‘

    ’’نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں‘‘

    ’’قرض چڑھ گیا ہے؟‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’نوکری پر۔ کوئی۔‘‘

    ’’کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘ باپ کا لہجہ ذرا سا اکھڑا ہوا تھا۔

    ’’لاؤ سر میں تیل ڈال دوں۔‘‘

    باپ نے گھور کر دیکھا۔ بیوی کے چہرے کی جھریاں کچھ زیادہ ہی پھیل گئی تھیں۔ سر پر تیل بھی چپڑا ہوا تھا۔ تیل ڈالنے سے سر کے بال اور بھی چپک گئے تھے۔۔۔

    ’’نہیں، کوئی ضرورت نہیں ہے، اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دو۔‘‘

    دوسرے دن بھی ماں پریشان رہی۔

    بیٹے نے ماں کو دیکھ کر چٹکی لی۔ ’’تم نے کچھ محسوس کیا؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’تم محسوس کر بھی نہیں سکتی ہو!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ ماں کے لہجے میں حیرانی تھی۔

    ’’کیونکہ تمہارے مقابلے میں، باپ ابھی تک جوان ہے۔‘‘

    ماں کو خوفزدہ چھوڑ کر بیٹا آگے بڑھ گیا۔

    اسی دن شام کے وقت بیٹے نے اپنی محبوبہ سے کہا۔

    ’’سب کچھ خیال کے مطابق ہی چل رہا ہے‘‘

    ’’کیسا لگ رہا ہے تمہیں؟‘‘

    ’’کہہ نہیں سکتا، مگر لگتا ہے، کشش کے لئے ہر عمر ایک جیسی ہے۔‘‘

    ’’یا ہر عمر کی کشش ایک جیسی ہوتی ہے‘‘

    ’’شاید۔ مگر شاید میں اتنے تذبذب میں نہ ہوتا باپ کی عمر میں پہنچ کر‘‘

    ’’ہر عمر ایک جیسی ہوتی ہے۔ حادثات اپنا چہرہ بدلتے رہتے ہیں‘‘ بدلتے صرف حادثات ہیں لڑکی بولی۔ ’’خیر اس دن میں نے تم سے پوچھا تھا۔ تمہارے باپ کی زندگی میں ایک لڑکی آ چکی ہے یہ قبول کرتے ہوئے تمہیں کیسا لگےگا؟‘‘

    ’’ابھی تک کچھ سوچ پانے کی حالت میں نہیں ہوں‘‘

    لڑکی پھر ڈھٹائی سے ہنس دی۔ ’’اور شاید آگے بھی نہ ہو ا س لئے کہ باپ پر غور فکر کرتے ہوئے تم صرف باپ پر غور نہیں کر رہے ہو بلکہ باپ کے ساتھ اپنے، پنکی، ماں اور صورت حال پر بھی غور کر رہے ہو۔ ا ن سب کو ہٹا کر صرف باپ کے بارے میں سوچو۔‘‘

    ’’لیکن ایسا کیسے ممکن ہے؟‘‘

    لڑکی نے پتہ نہیں کس سوچ کے تحت کہا۔ ’’اسے ممکن بناؤ ورنہ ایک بار پھر یہ دنیا جڑنے کے بجائے ٹوٹ جائےگی۔‘‘

    (۶)

    باپ کو کوئی فیصلہ نہیں لینا تھا۔ بلکہ اندر بیٹے بوجھل آدمی کو ذرا سا خوش کرنا تھا۔ کسی کا ذرا سا ساتھ اور بدلے میں بہت سی خوشیاں یا بے رنگ کاغذ پر نقاشی کرنی تھی۔ ایک کامیاب آدمی کے اندر چھپے ناکام اور ڈرپوک آدمی کو ٹھنڈے اور خوشگوار ہوا کے جھونکے کی تلاش تھی اور یہ کوئی ایسی بے ایمانی بھی نہیں تھی۔ اس میں کوئی مکر و فریب بھی نہیں تھا۔ ریگستان کی تپتی زمین پر جیسے کسی امرت بوند کی تلاش۔ شاید اسی نا آسودہ جنسی خواہش نے اس اذیت ناک سپنے کو جنم دیا تھا۔ باپ اس نئی رفاقت کو کامیابی کی کنجی بھی مان سکتا تھا کہ تسکین میں ہی کامیابی چھپی ہے۔ تسکین ذہنی طور پر اسے غیر صحتمند نہیں رہنے دیتی۔ وہ آرام سے پنکی کی شادی کرتا۔ بیوی سے دوچار اچھی بری باتیں، بیٹے کے ساتھ تھوڑا ہنسی مذاق اور زندگی آرام سے گزرنے والی سیڑھیاں پہچان لیتی۔

    مگر باپ کی آزمائش بھی یہیں سے شروع ہوئی تھی۔ وہ بھیانک اذیت سے گزر رہا تھا۔ صرف ایک لمس یا خوشبو سے وہ خود اپنی نظروں سے کتنی بار ننگا ہوتے ہوتے بچا تھا۔ اس کی عمر، کی تفصیل اس کے اصول، اس کا خاندانی پن۔ باپ کئی راتیں نہیں سویا، اس کے بعد باپ کئی دنوں تک اس لڑکی سے نہیں ملا۔

    ظاہر ہے، آزمائش میں باپ ہار گیا تھا۔ مکمل شکست، باپ کا جرم ثابت ہو چکا تھا۔ باپ کو پھر سے گھر والوں کی نظر میں پہلے جیسا بننا تھا۔ باپ کو اس ’’غیرانسانی زاویے، سے باہر نکلنا تھا۔

    اور باپ دھیرے دھیرے باہر نکلنے بھی لگا تھا اور کہنا چاہئے۔

    (۷)

    ’’باپ نارمل ہو چکا ہے۔‘‘

    بیٹے نے اس کہانی کا کلائمکس لکھتے ہوئے کہا۔

    ’’کیا؟‘‘ لڑکی چونک گئی تھی۔

    ’’ہاں، اس میں توازن لوٹ آیا ہے۔ وہ برابر برابر ہنستا ہے یعنی جتنا ہنسنا چاہئے، وہ برابر برابر۔ یعنی اتنا ہی مسکراتا ہے، جتنا مسکرانا چاہئے اور کبھی کبھی، کسی ضروری بات پر اتنا ہی سنجیدہ ہو جاتا ہے، جتنا۔‘‘

    ’’یعنی وہ لڑکی اس کی زندگی سے دور جاچکی ہے؟‘‘

    ’’یا اسے باپ نے دور کر دیا؟‘‘

    لڑکی کی آنکھوں میں جیسے گھنگور اندھیرا چھا گیا ہو۔ وہ ایک لمحے کے لئے کانپ گئی تھی۔ شاید ایک قطرہ آنسو اس کی آنکھوں میں لرزاں تھا۔۔۔

    ’’کیا ہوا تمہیں؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔ ماں کا خیال آ گیا‘‘

    ’’اچانک۔ مگر کیوں؟‘‘

    لڑکی نے موضوع بدل دیا، ’’اب سوچتی ہوں میری ماں مکمل کیوں نہیں ہو سکی۔ میری ماں بدنصیب ہے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے