Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بدلتا ہے رنگ

اسلم جمشید پوری

بدلتا ہے رنگ

اسلم جمشید پوری

MORE BYاسلم جمشید پوری

    بہت تیز آواز کے ساتھ ایک گولا آسمان کی بلندیوں میں جاکر پھٹا۔ آسمان پر رنگ برنگے ستارے دائرے میں پھیل گئے گو یا ستاروں سے سجی ایک بہت بڑی گیند آسمان پر لمحہ بھر کو ٹھہر گئی ہو۔

    ’’ارے شر پھو! او شر پھو، دیکھ بارات آ گئی ہے۔‘‘

    ’’ہاں سامو! گولے تو بڑے جاندار لگیے ہیں۔ کتنی جبر دست آواج ہے اور کتنی لپٹ آکاس پر پھوٹی۔۔۔؟

    گاؤں کے دو کم عمر ہندو۔ مسلم دوستوں نے گاؤں میں بارات کی آ مد کی خبر پاتے ہی، پہلے اپنی ٹولی اور پھر ٹولی نے سارے گاؤں میں خبر پھیلا دی، رام دین کی بیٹی آشا کی بارات آ گئی ہے۔

    گاؤں دھنورا، میں بارات آنے کا یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ ہزاروں باراتیں آ چکی تھیں، ایک سے بڑھ کر ایک۔۔۔ کسی بارات میں گلاؤٹھی کا مشہور بینڈ، کسی میں جہانگیرآباد کی نوٹنکی، کسی میں نچکیے لاجواب، کسی میں گھوڑ سوار بینڈ باجے۔۔۔ بارات کے گاؤں کی سر حد میں داخل ہوتے ہی، گو لے داغ کر بارات کی آمد کی خبر دی جاتی۔ گاؤں کے لوگ جو کئی دن سے با رات کی آمد کی راہ دیکھ رہے ہو تے ہیں، گولے کی آواز پر بزرگوں اور نوجوانوں کا ایک گروہ بارات کو لینے کے لیے، گاؤں کے باہر جاتا ہے۔

    ’’ارے رام دین! بابا اسماعیل کہاں ہیں؟ بارات کی اگوا ئی کو انہیں لے چلو، ان سو بڑو تو کوئی اور نہ دیکھَے ہے۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ کاکا بلدیو، اسما عیل بابا کو اور اور ان کو بھی لے لیؤ۔ ‘‘

    بابا اسما عیل، کاکا بلدیو، ترکھا بابا، رام پال سنگھ فو جی، آشا رام تیاگی، شیخ نثار احمد اور نو جوانوں کا ایک ٹولہ بارات کے استقبال کے لیے روا نہ ہوا۔

    گاؤں کے باہر بارات کے لوگوں سے ہاتھ ملائے گئے۔ بابا اسما عیل سب سے بڑے تھے، انہوں نے شگن کے سوا روپے رام دین کے سمدھی، مہندر سنگھ کے ہاتھوں میں رکھے اور بولے۔

    ’’آ جاؤ بھئی۔ گام میں آپ کو، سوا گت ہے۔۔۔‘‘

    ایک ساتھ کئی گولے آسمان کو آواز اور روشنی سے چیرتے چلے گئے۔ کچھ نے کانوں میں انگلیاں دے لیں تو کچھ نے اچھلنا کودنا شروع کر دیا۔ بارات سج چکی تھی۔ آگے آگے سروں پر ہنڈوں کو لیے دو طرفہ قطار میں مزدور مرد۔ عورت، ان کے پیچھے ڈھول تاشے لیے با جے وا لے، ان کے پیچھے نو جوانوں کی ڈانس کرتی ٹو لی۔۔۔ جس کے پیچھے آر کے شرما بینڈ پر آواز کے ساتھ ناچتے گاتے نوجوان۔۔۔ ان کے پیچھے لڑ کیوں کی ناچتی ہو ئی دو جوڑیاں۔۔۔ سب جانتے تھے کہ یہ لڑکیاں تو بس نقلی ہیں، اصل میں یہ لڑکے ہو تے تھے جو لڑکیوں کا بھیس بدل کر خوب ناچتے اور نوٹ بٹورتے تھے۔ ان کے پیچھے ایک بڑی بگھّی میں دولہے راجا اور ان کی بغل میں ان کا پیارا سا کم عمر بھانجا۔۔۔ سب سے پیچھے بزرگ۔۔۔ گانوں، باجوں، ناچ کھیل کے ساتھ بارات دھوم دھام سے سارے گاؤں کی گلیوں سے گذرتی رہی۔ چھتوں پر لڑکیاں اور عورتیں ایک کے اوپر ایک، بارات کی دھوم دھام اور دولہے کو دیکھنے کے لیے بےتاب کھڑی تھیں۔

    شام کو گاؤں میں داخل ہو نے والی بارات گھنٹوں گاؤں کی گلیوں اور چوراہوں سے گذرتی ہو ئی اسکول کے احاطے میں آ گئی تھی۔ جہاں پہلے ہی سے پچاسوں چار پائیاں (جو گاؤں کے ایک ایک گھر سے جمع کی گئی تھیں ان پر گاؤں کے گھروں سے اکٹھا کی گئی چوتئی اور دو تئی بچھائی گئی تھیں۔ بیچ میں بڑے سے حصے میں زمین پر کپڑے بچھائے گئے تھے۔ اسکول میں داخل ہو تے ہی بارات کے گانے، ڈھول تاشے سب اچانک بند ہو گئے تھے گو یا بجلی ٹرانسفارمر جل گیا ہو۔ سر پر سے مانو شور کی ایک چادر سی اتر گئی تھی۔ اسکول کے احاطے میں آتے ہی سب نے لپک کر چار پائیاں ہتھیا لی تھیں۔ بزرگوں نے خود کو ایک طرف کر لیا تھا۔ حقہ بجانے والے آمنے سامنے کی چار پائیوں پر قبضہ جما چکے تھے۔ چار پائیوں کے درمیان میں حقے رکھے تھے، جو تازہ دم بھی تھے اور چلم میں سلگتی ہوئی آگ بھی۔ جنہیں چار پائی نہیں ملی وہ بیچ کے حصے میں زمین پر پسر گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں بالٹیوں اور گلاسوں کے ساتھ لڑکوں کا ایک ٹولہ آیا۔ کسی بالٹی میں دودھ، کسی میں پانی اور کسی میں دودھ۔ روح افزا کا شربت، بارات کا سواگت ہو رہا ہے۔ اپنی اپنی پسند کے مشروب پئے جا رہے ہیں۔ حقے کی گڑ گڑا ہٹ اور دھوئیں کے ننھے ننھے بادل ادھر ادھر اڑ رہے تھے۔

    ’’یہ کون نا ہنجار ہے جو دھنو رہ میں بارات لے کر آ یا ہے۔‘‘

    ایک تیز چیختی ہو ئی آواز نے خاموشی کے چہرے پر طمانچہ رسید کر دیا تھا۔ باراتیوں نے دیکھا ایک پولس والا، خاکی وردی میں ملبوس، شانے پر تھری اسٹار، سر پر خوبصورت سی کیپ،کمر میں روالور کی پٹی اور ہاتھ میں چمچماتی ہو ئی بینت۔۔۔ چھ فٹ کا دراز قد، خوبرو نوجوان، اپنے ہاتھ کی اسٹک کو گھماتا ہوا دولہے کے باپ کو تلاش کر رہا تھا۔

    ’’کون ہے بھئی مہندر سنگھ۔۔۔‘‘ تم نے کس کی آ گیا سے دھنو رہ گاؤں میں گولے داغے۔‘‘

    اپنی اسٹک گھماتا ہوا وہ چار پائیوں کے ادھر ادھر غضبناک نظروں سے ایک ایک چہرے کو دیکھتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ چھوٹے بچوں کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ ان کی گھگھی بند گئی تھی۔۔۔ کسی ایک نے مہندر سنگھ کی طرف اشارہ کر کے بتا دیا۔۔۔ پو لس وا لا لپکا۔ اسٹک کو چار پائی پر مارتا ہوا دہاڑا۔

    ’’ہاں بے سمدھی،بتا بارات نے گولے کیوں داغے۔‘‘

    ’’حضور گلطی ہو گئی۔ معاف کر دیو۔‘‘ سمدھی نے گھبرا کر معافی مانگ لی۔

    ’’کوئی معافی وافی نہیں۔ جرمانہ بھرو۔۔۔ لاؤ دو سو روپے نکالو۔‘‘

    مہندر سنگھ نے دھوتی کی انٹی میں رکھے رو پے نکالے اور گن کر پو لس والے کے حوا لے کر دیے۔

    ’’ٹھیک ہے بھئی سمدھی، اب پٹاخے چھوڑ سکتے ہو۔۔۔‘‘

    پو لس والا پاؤں پٹختا ہوا، اسکول سے با ہر چلا گیا۔

    اتنے میں گاؤں کے لڑکوں کی ایک ٹولی آئی۔

    ’’آ ہا۔۔۔ بن گئے۔ ۔ الو، ارے وہ کوئی پولیس وا لا نہ تھا وہ تو اپنا جفرو تھا۔ ،ہا ہا۔۔۔ ہا ہا۔۔۔‘‘ ٹولی چلی گئی تھی۔ باراتی خود کو لٹا ہوا محسوس کر رہے تھے گویا کسی نے سارے باراتیوں کی جیب پر ہاتھ صاف کر دیے ہوں۔

    ظفر الدین، گاؤں دھنورا میں آباد شیخ خاندان کا ایک لڑ کا تھا۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگ اسے جفرو (ظفرو) کہتے تھے۔ ظفرالدین نے جب سے ہوش سنبھا لا تھا، اس نے اپنے باپ فقرو (فخر الدین) کو دو کام کرتے دیکھا تھا۔ ایک تو وہ پورے گاؤں کے حقوں کے نہچے باندھنے کا کام کرتے تھے۔ ان کے بنائے ہوئے نہچے بہت خوبصورت ہوتے تھے۔ وہ حقے کی ساخت اور سائز کے مطابق نہچے تیار کرتے تھے۔ پہلے ایک پتلے بانس کی نلکی کو دوسرے سے جوڑتے، ایک نلکی جس پر چلم رکھی جاتی اس کی گردن موٹی ہو تی تھی۔ دوسری نلکی حقہ پینے والے کے منہ کی طرف جاتی تھی، وہ اتنی لمبی ہو تی تھی کہ چار پائی پر بیٹھ کر آسانی سے حقہ گڑ گڑیا جا سکے۔ دونوں نلکیوں کا میل حقے کی فرشی میں ہوتا تھا۔ نلکی کے اوپر رنگ برنگے کپڑے لپیٹے جاتے اور پھر ریشم کے خو بصورت دھاگوں سے کپڑے کو سختی سے باندھا جاتا۔ فخرو کے بندھے نہچے کئی بار انعام جیت چکے تھے۔ اس کے والد کا دوسرا کام ’بہروپیئے، کا تھا۔ وہ شادیوں، سوانگ، نوٹنکی وغیرہ میں مختلف بھیس بدل بدل کر بہروپیئے کا رول کرتے تھے۔ ان دو کاموں سے ہی فقرو نے آٹھ آٹھ اولادوں کو پالا تھا۔ ظفرو بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ اس نے اپنے والد سے بہروپیئے کا ہنر سیکھا تھا۔ شروع شروع میں تو وہ گھبرا جاتا تھا۔ آواز ساتھ نہیں دیتی تھی۔ جب پہلی بار اس کے والد نے اسے شرا بی کے بھیس میں گھر پر ہی رول کر وایا تو وہ بیچ میں ہی اٹک گیا تھا۔ لیکن بعد میں اس نے بولنے کی خوب مشق کی تھی۔ اب وہ کسی بھی جلسے میں تابڑ توڑ بول سکتا تھا۔ ابھی پچھلے ماہ اس نے ایک نو ٹنکی میں جو کر کا کردار ادا کیا تھا۔

    ’’حضور، حضرات، مہر بان، قدر دان، بندہ آپ کو آ داب بجا لاتا ہے۔ میں ایک جو کر ہوں،۔ جو، کر یعنی، جو کہتا ہوں، کرتا ہوں، جی ہاں۔۔۔ میں آپ کو اپنی اصلیت بتاتا ہوں۔ میں ایک بہت بڑا رئیس ہوں۔ میرے گھر پر تین ہزار چھپکلیاں، دو ہزار مینڈکیاں، ایک ہزار چوہیاں،دو دودھ کی نہریں بہتی ہیں۔ نہر میں ہزاروں مچھر اور مکھیاں ڈبکیاں لگا لگا کر نہاتے ہیں لیکن دودھ پھر بھی صاف رہتا ہے۔ دروازے پر لاکھوں مچھر پہرہ دیتے ہیں، مجال ہے جو کوئی بھی مکڑی یا مکڑا گھر کے اندر داخل ہو جائے۔۔۔‘‘ تالیوں کی گڑگڑاہٹ اور واہ وا ہی کے درمیان وہ اسٹیج سے اتر آ یا تھا۔ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔۔۔ ایک تو اس کا لباس، گویا بانس پر کپڑے ٹانگ دیے ہوں، دوسرے اس کا تیز ترین رفتار سے بولنا، سارا گاؤں، بلکہ آس پاس کے علاقے میں اس کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا تھا۔ اب اسے کام بھی خوب ملنے لگا تھا۔ گاؤں میں آ نے وا لی باراتوں میں تو وہ کسی نہ کسی بھیس میں ضرور جاتا تھا اور اپنا ہنر دکھا کر خوب پیسے بٹورتا۔۔۔ وہ اپنے وا لد کا نام روشن کرنا چاہتا تھا۔ اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کو پڑھانا چاہتا تھا۔ وہ خود تو بالکل نہیں پڑھ پایا تھا،بس تقریر کی مشق نے اسے مختلف لب و لہجے میں بولنے میں مہا رت عطا کر دی تھی، جو اس کا ذریعۂ معاش تھا۔ وہ اپنے کام سے کوئی سمجھو تہ نہیں کرتا تھا۔ دور دراز کے گاؤں سے اسے نیوتا آتا تو وہ ضرور جاتا۔ ایک دن گاؤں میں ایک سیاسی لیڈر کا جلسہ تھا۔ پارٹی کے لوگوں نے ظفرو کو پہلے ہی خبر کر دی تھی۔ انہیں بھیڑ جٹانے سے مطلب تھا۔ ظفرو کو پیسے چاہئیے تھے۔ اس نے عام دنوں سے زیادہ پیسوں کی مانگ کی تھی، جسے منظور کر لیا گیا تھا۔

    گاؤں کی چو پال پر اسٹیج بنایا گیا تھا۔ اسٹیج کے سامنے کچھ چار پائیاں پڑی تھیں۔ سامنے دری بچھی تھی۔ لوگ آہستہ آ ہستہ آنے لگے تھے۔۔۔ اچانک اسٹیج پر ظفرو نمو دار ہوا۔ آج اس نے قصہ گو چور کا روپ دھارا تھا۔

    ڈھول کی تھاپ کے ساتھ ظفرو اسٹیج پر وارد ہوا۔ تالیوں سے استقبال کیا گیا۔ اس کا حلیہ بڑا عجیب لگ رہا تھا۔ اس نے سفید دھوتی کے اوپر لال شرٹ پہن رکھی تھی۔ سر پر منڈا سہ، بڑی بڑی مونچھیں اور پیر میں دو پٹی کی چپل۔

    ’’ہاں تو میرے مہربان، قدردان بھائیو اور بہنو۔۔۔ لو میں تمہیں ایک قصہ سنا تا ہوں۔۔۔‘‘

    لوگوں کی بھیڑ ظفرو کو سننے کے لیے بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ ظفرو اسٹیج پر تھا اور سامنے سینکڑوں لوگ بیٹھے تھے۔ لڑکوں کا ٹولہ الگ، بڑے بوڑھوں کا گروہ الگ، لڑ کیوں اور عورتوں کی ٹولی الگ۔ سب کی نظر یں ظفرو کی حرکات پر تھیں۔

    ’’ایک دفعہ میں ایک شکار پر گیا۔ گھنا جنگل اور میں اکیلا۔ شائیں شائیں کرتی ہوا۔ پتوں کی کھڑ کھڑا ہٹ دل میں دہشت پیدا کر رہی تھی۔ شام کا وقت ہو چلا تھا اچانک پاس کی جھاڑیوں میں حرکت ہو ئی، میں فوراً پیچھے گھوما ( یہ کہتے ہوئے وہ اچانک پیچھے کی جانب گھوم گیا) ڈر کا جھونکا مجمع پر ادھر سے ادھر گذر گیا۔ کیا دیکھتا ہوں ایک خو بصورت ہرن، قلانچیں بھرتا دور کو بھاگ رہا ہے۔ میں نے ہرن کے پیچھے اپنا گھوڑا ڈال دیا۔ ‘‘

    قصہ سناتے سناتے وہ اسٹیج سے نیچے اتر آ یا۔ ٹہلتا ٹہلتا وہ لوگوں کے درمیان جاپہنچا۔۔۔

    ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔ میں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی، گھوڑا برق رفتار ہو گیا تھا، لیکن ہرن گھوڑے سے خاصا آگے دوڑ رہا تھا۔۔۔ دوڑتے دوڑتے۔۔۔ اچانک ہرن کو ٹھوکر لگی۔۔۔ وہ گر پڑا، میں اس سے چند قدم کے فاصلے پر ہی تھا۔ ہرن کے قریب پہنچا تو دیکھا ہرن زخمی ہو ا پڑا ہے۔ میں گھوڑے سے اترا، گھوڑے کو چھوڑا۔ آہستہ آہستہ دبے قدموں، ہرن کی طرف بڑھنے لگا۔‘‘ پورے مجمع پر سناٹا طاری تھا۔ ظفرو ان کے درمیان آہستہ آ ہستہ قدم بڑھا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا فلم کا کوئی منظر نظروں کے سامنے زندہ ہو گیا ہو۔

    ’’ارے یہ کیا۔ میں نے دیکھا ہرن اچانک غائب ہو گیا تھا۔ میرے تو ہو ش اڑ گئے۔ آس پاس سے عجیب و غریب آوازیں آ رہی تھیں۔ میرے جسم پر خوف کے کانٹے اگ آئے تھے۔ میں تھر تھر کانپنے لگا۔ پیچھے گھومنے کی ہمت نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے پیچھے دیکھا تو میں بے ہو ش ہوتے ہوتے بچا، میرا گھوڑا بھی غا ئب تھا۔۔۔‘‘

    قصہ گو سے اٹھنے والی ڈر کی لہروں نے سا معین کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ سارا مجمع مانوں پتھر کے بتوں میں تبدیل ہو چکا تھا۔ سب نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں۔ ظفرو نے خاموشی اور سناٹے کا فائدہ اُٹھا کر کئی لوگوں کی گھڑیاں اور دوسرے قیمتی سامان صاف کر دیے تھے۔

    ’’لو قصہ ختم۔۔۔‘‘ظفرو نے زور سے آواز لگائی۔ آنکھوں نے دیکھا ظفرو اسٹیج پر چہل قدمی کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں چرا یا گیا سامان تھا۔ لوگ حیران تھے۔ انہیں علم ہی نہیں ہوا کب ظفرو نے ہاتھ کی صفا ئی دکھا دی۔ ظفرو نے سب کا سا مان واپس کر دیا۔ لوگ اپنی مرضی اور خوشی سے ظفرو پر پیسو ں کی بارش کر رہے تھے۔ ادھر نیتا جی کی گاڑی سائرن بجاتی ہو ئی آ گئی۔

    وقت گذرتا رہا۔ ظفرو کی شادی ہو گئی تھی۔ اس کے وا لد اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ بہن بھائیوں کی بھی شادی کسی طرح ظفرو نے کر دی تھی۔ ظفرو کی بیوی نوری نے دو خوبصورت جڑ واں بیٹے پیدا کیے۔ دونوں بہت خو بصورت تھے۔ ظفرو اپنی بیوی، بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ کمانا چاہتا تھا۔ اس نے سر کس اور میلوں میں بھی اپنے کرتب دکھانے شروع کر دیے تھے۔

    ظفرو نے میلے میں اپنا شو شروع کیا۔

    اس نے ڈکیتوں کے ایک گروہ کا منظر پیش کیا تھا۔ وہ خود گبر سنگھ بنا تھا۔ اپنے کئی دوستوں کو ڈکیت ساتھی بنایا تھا۔ سارے گروپ کا بہروپ ڈکیتوں جیسا بنانے پر ظفرو نے خاصی محنت کی تھی۔ اس نے لکڑیوں کی بندو قیں اور گولیوں کی پیٹی بنوائی تھی۔ اس نے اسٹیج پر ٹہلنا شروع کیا۔ فوجی بیلٹ کا ایک سرا اس کے ہاتھ میں تھا اور وہ گرج رہا تھا۔

    ’’سور کے بچو! سو چا تھا سردار سباشی دےگا۔ سارا نام مٹی میں ملائے دیو۔۔۔ تمہیں سزا ملےگی۔۔۔ضرور ملےگی۔‘‘

    ’’سر کار ہم نے آ پ کا نمک کھایا ہے۔‘‘

    ’’تو اب گولیاں کھاؤ۔۔۔‘‘

    ظفرو نے اپنے نقلی روالور سے گو لی داغی۔ گولی کی آواز، دھماکہ بن کر چاروں طرف پھیل گئی تھی۔ لوگ تالیاں بجا رہے تھے، اچھل رہے تھے۔ عین اسی وقت میلے میں ایک اور دھماکہ ہو ا۔ شہر کی معروف ہستی حا جی سبحان کو گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ پورے میلے میں بھگدڑ مچ گئی، جس کا سر جہاں سمارہا تھا، بھاگ رہا تھا۔ کہاں کا اسٹیج، کہاں کا گبر۔ کھیل دکھانے وا لے رہے نہ دیکھنے وا لے۔ میلے میں دہشت پھیل گئی۔ پولس نے میلوں کے راستوں پر پہرہ سخت کر دیا۔ دھر پکڑ اور گرفتاری میں ظفرو پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ اس نے بہت منت سماجت کی کہ وہ تو تما شہ دکھا رہا تھا۔ گبر کا رول کر رہا تھا۔ لیکن پو لیس نے ایک نہ سنی، ظفرو کا ڈکیتوں وا لا لباس، روالور اور گو لیاں ثبوت کے لیے کافی تھے۔

    اگلے دن اخبارات کی سرخیاں تھیں۔

    ’’پاکستانی دہشت گرد ظفر گرفتار۔‘‘

    ’’حاجی سبحان کا قتل کر نے والا پاکستانی گرفتار۔‘‘

    ’’آئی ایس آئی کے ایجنٹ کی گرفتاری، میلے میں فائرنگ کر شہر میں فساد کرانے کا منصو بہ تھا۔‘‘

    پولیس ریمانڈ میں ظفرو کو جو اذیتیں دی گئیں، ان سے مزید نہ گذرنے کے لیے اس نے اقبال جرم کر لیا تھا کہ زندگی کے نجانے کتنے روپ ہیں اور ابھی اسے کتنے بہروپ اختیار کرنے ہیں، اسے پتہ نہیں تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے