Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بدن کی خوشبو

عصمت چغتائی

بدن کی خوشبو

عصمت چغتائی

MORE BYعصمت چغتائی

    کمرے کی نیم تاریک فضا میں ایسا محسوس ہوا جیسے ایک موہوم سایہ آہستہ آہستہ دبے پاؤں چھمن میاں کی مسہری کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    سائے کا رخ چھمن میاں کی مسہری کی طرف تھا۔ پستول نہیں شاید حملہ آور کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ چھمن میاں کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ انگوٹھے اکڑنے لگے۔ سایہ پیروں پر جھکا۔ مگر اس سے پہلے کہ دشمن ان پر بھرپور وار کرتا۔ انہوں نے پول جمپ قسم کی ایک زقند لگائی اور سیدھا ٹیٹوے پر ہاتھ ڈال دیا۔

    ’’چیں‘‘ اس سایے نے ایک مری ہوئی آہ بھری اور چھمن میاں نے غنیم کو قالین پر دے مارا۔ چوڑیوں اور جھانجنوں کاایک زبردست چھناکا ہوا۔ انہوں نے لپک کر بجلی جلائی۔ حملہ آور سٹ سے مسہری کے نیچے گھس گیا۔

    ’’کون ہے بے تو‘‘، چھمن میاں چلائے۔

    ’’جی میں حلیمہ۔‘‘

    ’’حلیمہ؟ اوہ!‘‘ وہ ایک دم بھس سے قالین پر بیٹھ گئے۔

    ’’یہاں کیا کر رہی ہے؟‘‘

    ’’جی کچھ نہیں۔‘‘

    ’’تجھے کس نے بھیجا ہے۔ خبردار جھوٹ بولی تو زبان کھینچ لوں گا۔‘‘

    ’’نواب دلہن نے؟‘‘ حلیمہ کانپی۔

    ’’اف پیاری اور ان کی جان کی دشمن!‘‘ ایک دم ان کا دماغ قلانچیں بھرنے لگا۔ کئی دن سے امی انہیں عجیب عجیب نظروں سے دیکھ کر نایاب بوبو سے کانا پھوسی کر رہی تھیں۔ نایاب بوبو ایک ڈائن ہے کمبخت۔ بھائی جان بھی گستاخ نظروں سے دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ ان سب کی ملی بھگت معلوم ہوتی ہے۔

    نوابوں کے خاندان میں کیا کچھ نہیں ہوا کرتا۔ چچا دادا نے کئی بار ابا حضور کو سنکیہا دلوانے کی کوشش کی۔ بدمعاش ان کی جان کو لگادیے کہ جائیداد پر قبضہ کر کے سب ہضم کر جاتیں۔ رفاقت علی خان کو ان کے سگے ماموں نے زہر دلوا دیا، خود ان کی چہیتی لونڈی کے ہاتھوں، لعنت ہے۔ ایسی جائیداد پر۔

    شاید پیاری امی اپنی ساری جائیداد بڑے صاحبزادے کو دینا چاہتی ہیں کہ اپنی بھتیجی بیاہ کر لائی ہیں نا، اس لیے اس کی جان کی دشمن ہو رہی ہیں۔

    چمن میاں کو جائیداد سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اسامیوں کی ٹھکائی کرنا۔ انہیں گھر سے بے گھر کر کے جیسے تیسے لگان وصول کرنا، ان کے ڈھورڈ نگر نیلام کروانا، انہیں وحشت ہوتی تھی ان حرکتوں سے۔

    اف دنیا میں کسی کا بھروسہ نہیں۔ اپنی ماں اگر جان کی دشمن ہو جائے۔ ویسے ہی ہر وقت ٹوکتی رہتی ہیں۔ یہ نہ کرو، وہ نہ کرو، اتنا نہ پڑھو، اتنا نہ کھیلو، اتنا نہ جیو۔

    ’’چاقو کہاں ہے؟‘‘ چھمن میاں نے کہنیوں کے بل جھک کر پوچھا۔

    ’’چاقو۔‘‘

    ’’ہینڈس اپ‘‘، چھمن میاں نے جاسوسی انداز میں کہا۔

    ’’ایں‘‘ حلیمہ چکرائی۔

    ’’الو کی پٹھی ہاتھ اوپر۔‘‘

    حلیمہ نے ہاتھ اوپر اٹھائے تو اوڑھنی پھسل گئی۔ جھینپ کر اس نے ہاتھ دبوچ لیے۔

    ’’پھر وہی بدمعاشی۔ ہم کہتے ہیں ہاتھ اوپر۔‘‘

    ’’اوں کائیکو؟‘‘ وہ اٹھلائی۔

    ’’کائیکو کی بچی۔ چاقو کہاں ہے!‘‘

    ’’کیسا چاقو؟‘‘ حلیمہ چڑگئی۔

    ’’تو پھر کیا تھا تیرے ہاتھ میں!‘‘

    ’’کچھ بھی نہیں، اللہ قسم کچھ بھی نہیں تھا۔‘‘

    ’’تو پھر۔۔۔ پھر کیوں ہے یہاں۔‘‘

    ’’نواب دلہن نے بھیجا ہے‘‘، حلیمہ نے دبی زبان سے کہا اور آنکھیں جھکا کر اپنی نتھنی کا موتی گھمانے لگی۔

    ’’کیوں؟‘‘ چھمن میاں سہم گئے۔

    ’’آپ کے پیر دبانے کے لیے۔‘‘ وہ مسہری سے ٹک گئی۔

    ’’لا حول و لا قوہ۔۔۔ چل بھاگ یہاں سے‘‘، انہوں نے حلیمہ کی شریر آنکھوں سے گھبرا کر کہا۔

    حلیمہ کا چہرہ لٹک گیا۔ ہونٹ کانپے اور وہ قالین پر گھٹنوں میں سردے کر پھوٹ پڑی۔

    ’’اوہو، رو کیوں رہی ہے۔ بیوقوف گدھی کہیں کی۔‘‘

    مگر حلیمہ اور رونے لگی۔

    ’’حلیمہ پلیز حلیمہ۔۔۔ خدا کے لیے رو مت اور جا۔۔۔ ہمیں صبح کالج ذرا جلدی جانا ہے۔‘‘

    حلیمہ پھر بھی روئے گئی۔

    دس برس ہوئے تب بھی حلیمہ اسی طرح روئے جارہی تھی۔ اس کا باپ اوندھے منہ لیٹا تھا۔ اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ مگر وہ خون بہت لال تھا۔ اس میں گلابی گلابی گوشت کے ٹکڑے سے ملے ہوئے تھے۔ جو بابا روز بلغم کے ذریعے اگلا کرتا تھا۔

    اسے کلیجے سے لگائے جھوم جھوم کر بین کر رہی تھی۔ پھر سب نے ابو کو سفید کپڑوں میں لپیٹا اور ہسپتال لے گئے۔ لوگ ہسپتال جاکر پھر نہیں لوٹا کرتے۔

    اور اس دن بھی وہ اسی طرح روئے جا رہی تھی جس دن اس کی اماں نے اسے نواب دلہن کی پٹی تلے ڈال کر اناج سے جھولی بھرلی تھی اور جاتے وقت پلٹ کر بھی نہ دیکھا تھا۔

    غلام گردش کے احاطے میں حلیمہ جھوٹن کھا کر پلتی رہی۔ اسے نواب دلہن کے دالان تک رینگ کر آنےکی اجازت نہ تھی۔ گندگی اور غلاظت میں وہ مرغیوں اور کتے کے پلوں کے ساتھ کھیل کود کر بڑی ہوئی۔

    بے حیا موئی حلیمہ جیتی گئی۔ نایاب بوبو کا دس بارہ برس کا لونڈا جبار کیا دھواں دھواں موئی کو پیٹا کرتا تھا۔ کبھی چمٹے سے پیر داغ دیتا، کبھی آنکھوں میں نارنگی کا چھلکا نچوڑ دیتا کبھی خالہ کی نسوار کی چٹکی ناک میں چڑھا دیتا۔ حلیمہ گھنٹوں بیٹھی مینڈکی کی طرح چھینکتی رہتی۔ سارا گھر ہنس ہنس کر دیوانہ ہو جاتا۔

    اب بھی ستانے سے باز نہیں آتا تھا۔ ڈیوڑھی پر کچھ دینے گئی۔ چٹکی بھرلی، نتھنی پکڑ کے ہلادی۔ کبھی چوٹی کھینچ لی۔ بڑی چلتی رقم تھا۔ نواب صاحب کا تخم تھا نا۔ ان کا بڑا منہ چڑھا تھا۔

    نایاب بوبو ایک باندی تھیں۔ کسی زمانے میں بڑی دھاردار،نواب صاحب یعنی چھمن میاں کے والد ان پر بری طرح لٹو ہوگئے۔ وقتاً فوقتاً نکاح کی دھمکیاں بھی دے دیا کرتے تھے مگر وہ ایک گھاگ تھیں۔

    باندی کا نکاح ہو جائے۔ چاہے نہ ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی سرخاب کے پر نہیں لگ جاتے خاندانی نواب زادیاں مرجائیں گی۔ ساتھ نہ بٹھائیں گی۔ قاضی کے دو بولوں میں اتنا دم درود نہیں کہ چٹانوں میں سوراخ کردیں یا دال روٹی کے سوال کو حل کردیں۔

    نایاب بوبو کے محل میں بڑے ٹھاٹ تھے۔ بجائے بیگم کی سوت بنے کے وہ نہایت جا افشانی سے کوشش کر کے ان کی مشیر خاص گوئیاں بن گئیں اور نواب صاحب پر کچھ ایسا جادو کا ڈنڈا گھمایا تھا کہ انہوں نے ان کے بیٹے جبار کے نام معقول اراضی اور باغات کردیے تھے۔ سارے نوکر اس سے لرزتے تھے۔ بوکسی کی قمیض اور ولائتی پتلون چڑھائے ڈٹا پھرتا تھا۔ نام کو ڈرائیور تھا، مگر رعب سب پر جماتا تھا۔ اندر بوبو اور باہر جبار جو نصیبوں کامارا ان دو پاٹوں کے بیچ آ جاتا، ثابت بچ کر نہ جاتا۔

    حلیمہ روئے چلی جارہی تھی۔

    چھمن نے ڈانٹا تو ریزہ ریزہ ہوگئی۔ تھک کر چمکارا تو بالکل ہی بہہ گئی۔ اس کے سرد ہاتھ پکڑ کر فرش سے اٹھایا تو ڈٹ کر ان کے سینے سے لگ گئی۔

    اللہ! جاڑوں کی ہوشربا راتیں، طوفان کی گھن گرج اور چھمن کے ناتجربہ کار ہاتھوں میں بکھری ہوئی حلیمہ!

    یار لوگوں نے لونڈیوں کو ٹھکانے لگانے کے کتنے گر بتائے تھے، مگر حماقت کہیے یا پھوٹے نصیب، چھمن نے ہمیشہ لغوبات کہہ کر سنی ان سنی کردی۔ اپنی کورس کی کتابوں اور کرکٹ کے علاوہ ان کی کسی بھی شے سے گہری شناسائی نہ تھی۔ کڑکڑاتے جاڑوں میں روے کی ڈلی حلیمہ نے انھیں جھلس کر رکھ دیا۔ ہاتھ جیسے سریش کی تھالی میں چپک گئے۔

    پھر نہ جانے دماغ کے کس کونے میں نشتر سا لگا، اچھل کر دور جاکھڑے ہوئے۔ غصہ سے تھر تھر کانپنے لگے۔

    باہر طوفان رکنےکا نام نہیں لے رہا تھا اور حلیمہ کی سسکیاں تلاطم برپا کیے دے رہی تھیں۔

    ’’حلیمہ مت رو، پلیز! وہ تنگ آکر اس کے سامنے اکڑوں بیٹھ گئے۔ جی چاہا اس کے سینے پر سر رکھ کر خود بھی دہاڑیں مار مار کر روئیں، مگر ڈر تھا کہ پھر سر وہاں سے اٹھنے کا نام نہ لے گا۔ اپنے کرتے کے دامن سے اس کے آنسو پونچھے۔ اسے اٹھایا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتی، باہر دھکیل کر اندر سے کنڈی چڑھالی۔

    نیند تو حلیمہ کے آنسو بہا لے گئی تھی۔ صبح تک چھمن میاں لحاف میں پڑے کانپتے رہے۔ اور زہر میں بجھے آنسو بہاتے رہے۔

    باہر جھنجھلائی ہوئی ہوا بگڑ کر پیڑوں سے لڑتی رہی۔ کراہتی رہی۔

    نایاب بوبو نے سلام پھیرا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جائے نماز کا کونہ پلٹ کر وہ انھیں اور ہولے ہولے سے دروازہ کھول کر جبار کے کمرے میں جھانکا۔ بیٹے کے وجیہہ جسم کو دیکھ کر مامتا سے ان کی آنکھیں بھر آئیں۔

    دبے پاؤں وہ اندر آئیں۔ چھمن میاں کے والد نواب فرحت اور جبار کے باپ کی نئی باندی گل تار چوری چھپے روز جبار کے پاس آتی، نشانیاں چھوڑ جاتی تھی۔ آج بھی لحاف میں سے دوپٹہ لٹک رہا تھا۔ انہوں نے دوپٹہ کھینچا۔ یہ مراد کسی دن ناک چوٹی کٹوائے گی۔ اللہ جبار کو نظربد سے بچائے۔ ہو بہو باپ کا نقشہ پایا ہے۔

    اچانک نایاب بوبو فکر مند ہوگئیں۔ باپ کی لونڈی ماں برابر ہوئی کہ نہیں؟ فتوی لے لیا جائے عالم صاحب سے، تو جی کا ہول کم ہو۔ یہ کیا کہ دنیا تو گئی، عقبیٰ میں بھی انگارے ہی انگارے۔ نگوڑی گل بہار کا بھی کیا قصور، کہاں وہ بواسیر کے مارے کھوسٹ نواب فرحت اور کہاں یہ کڑیل جوان۔ رات کیا چہکی پہکی روتی تھی۔ کواڑ بھیڑنے کا بھی ہوش نہیں اس لڑکے کو۔ بوبو کی نیند کچی نہ ہو تو نہ جانے کسی کی نظر ہی پڑ جائے۔ اللہ پاک سب کا رکھوالا ہے۔

    نایاب بوبو نے جبار کے لیے باقاعدہ باندیاں خریدیں، ایک جاپے میں جاتی رہی، دوسری مہتر کے لونڈے کے ساتھ نکل گئی۔ اس حرافہ نے جی کا چین اڑا دیا تھا۔ شریف گھرانوں کی باندیاں ایسی اچھال چھکا نہیں ہوتیں۔

    کئی بار چاہا کہ بیگم سے حلیمہ مانگ لیں۔ مگر ہمت نہ پڑی۔

    ’’نہیں، حلیمہ تو میرے چھمن کے لیے ہے‘‘، بیگم کو ضد ہے۔ آج ان کی ضد پوری ہوگی ویسے جبار کو مسمی لونڈیاں پسند بھی نہیں۔ باپ کی طرح تتیا مرچ چاہیے۔

    بڑبڑاتی ہوئی نایاب بوبو باندیوں کے کوٹھے میں پہنچیں تو ان کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔

    حلیمہ سروری کی رضائی میں دبکی پڑی تھی۔ سلیپر کی نوک سے انہوں نے حلیمہ کے چھانجن میں ٹھوکر ماری اور رضائی کا کونہ پکڑ کر کھینچ لیا۔

    حلیمہ گھبرا کر جاگ پڑی اور غافل سوئی ہوئی سروری کے نیچے سے اپنا دوپٹہ کھینچنے لگی۔

    بوبو کی چیل جیسی آنکھیں حلیمہ کے جسم پر ٹانکنے بھرنے لگیں۔ حلیمہ چوروں کی طرح سرجھکائے میلی توشک میں لگے ٹانکے گننے لگی۔

    ’’ہوں!‘‘ بوبو نے کمر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا، ’’میں نے کیا کہا تھا تجھ سے۔‘‘

    ’’جی بوبو۔‘‘

    ’’تو؟‘‘

    حلیمہ چپ رہی۔

    ’’اری نیک بخت منہ سے تو کچھ پھوٹ کیا بولے؟‘‘

    ’’ان کے پیروں میں درد نہیں تھا‘‘، حلیمہ کا سر جھک گیا۔

    ’’ہوں‘‘، بو بو تسبیح گھماتی ہوئی مڑگئیں۔ دل میں آپ ہی آپ کلیاں کھلنے لگیں۔ خیر سے بس اب تو نواب فرحت کا نام چلانے والا جبار رہ گیا۔ خدا کی شان ہے بڑے صاحبزادے کا بھی کوئی قصور نہ تھا۔ نگوڑی صنوبر اتنی عمر ہی لے کر آئی تھی۔ مشکل سے چودھواں سال لگا ہوگا۔ کہ صاحبزادے کو پیش کردی گئی۔ کیا پھول سی بچی تھی، ہمیشہ کی دھان پان۔ ماں باپ کا پیار ملتا ایک نہ ایک دن بابل کا گھر چھوڑ کر شہنائیوں کے سریلے کانوں میں بسائے سسرال سدھار جاتی۔ جہاں دو دل ملتے، ایک گھر بنتا۔ ایک دنیا بستی۔

    صنوبر کو بچپن سے ہی دلہن بننے کا ارمان تھا۔ جب دیکھو باندیاں جمع ہیں۔ بڑی سجل سی بچی تھی۔ چھوٹی ہڈی، کھنچا ہوا بدن، چھوٹے ہاتھ پیر منےمنے چھدرے دانت۔ دیوی جیسی روشن انکھڑیاں۔ کتنا کتنا جبار کے لیے چاہا۔ بیگم اڑگئیں، ان کے مائکے کی باندی ہے۔ ماموں جان سے بیٹے کے لیے مانگ کے لائی ہیں۔

    یہ کون کہتا ہے۔ صنوبر دلہن نہیں بنی۔ بو بو پشتینی باندی تھیں۔ انہیں خوب احساس تھا کہ ہر عورت دلہن بننا چاہتی ہے۔ باندی ہے تو کیا عورت نہیں، اس کے سینے میں بھی دل ہے ارمان ہیں۔ سرشام ہی سے انہوں نے صنوبر کو نہلا دھلا کر صاف ستھرا پیازی جوڑا پہنایا، اپنے ہاتھوں سے مہندی توڑ کر پسوائی، خوب رچی تھی، بدنصیب کے ہاتھوں پیرو ں میں، خوشبودار تیل ڈال کر چوٹی گوندی جس میں ٹول کا موباف ڈالا۔ سہیلیاں کانوں میں الٹی سیدھی کھسر پھسر کر کے اسے ستاتی رہیں۔ جب پیروں سے اٹھا کر چھمن میاں کے بڑے بھائی حشمت میاں نے اسے کلیجے سے لگایا تو نگوڑی نے ننھا سا گھونگٹ نکال لیا تھا۔

    چودہ برس کی صنوبر جس نے حشمت میاں کا منہ دیکھ کر جانو ملک الموت کا ہی منہ دیکھ لیا سال کے اندر گابھن ہوگئی۔ پھیکی کسیلی مرگھلی سی بچی سارا دن منہ اوندھے پڑی ابکائیاں لیا کرتی۔ اللہ لوگوں کے کیسے کیسے ناز نخرے ہوتے ہیں۔ میکے سسرال والے صدقے واری جاتے ہیں۔ جب اچھی بھلی تھی۔ نواب زادے سے ہاتھ جڑوا لیتی تھی تب ذرامسکراتی تھی۔ ایک ایک پیار کے لیے ناک رگڑواتی تھی۔ جب جی سے اتری تو میاں گھن کھانے لگے، محل کا دستور تھا جب گائیں بھینسیں گابھن ہو جاتی تھیں انہیں گاؤں بھیج دیا جاتا تھا۔ دو دھاری ہوئی کہ واپس بلا لی گئیں۔ لونڈیاں باندیاں بھی جب بے کار ہو جاتی تھیں تو گاؤں میں ڈلوادی جاتی تھیں بچہ جن کے وہیں ملنے کو دے آتی تھیں تاکہ محل والوں کو کاؤں کاؤں سے وحشت نہ ہو۔

    بڑا فیل مچاتی تھیں نامرادیں، بھینس کی طرح بچھڑے کی یاد میں اراتیں، دودھ بھر کے بخار چڑھتے، تب انہیں کسی بیگم کا بچہ ہلگا دیا جاتا۔ دودھ پلا کے عیش اڑانے کو ملتے اپنا بچہ بھوکا اسی سے مانوس ہوجاتیں، مگر نواب زادیاں گائے بکریوں کی طرح تھوڑے ان کے لیے بچے جننے بیٹھیں گی۔ زیادہ تر روپیٹ کر خشک ہو جاتیں اور پھر کام سے لادی جاتیں۔۔۔ مگر صنوبر اڑ گئی کہ گاؤں نہیں جاؤگی۔ نایاب بوبو نے بہتیرا سمجھایا پر بیگم کے قدم سے لپٹ گئی۔ بوبو دنیا دیکھے ہوئے تھیں۔ لونڈیوں سے انھیں نفرت بھی تھی کہ اپنے وجود سے ہی نفرت تھی۔ مگر ان سے ہمدردی بھی تھی۔

    مگر صنوبر کی گھڑی آگئی تھی، نہ مانی اور حشمت میاں کا منہ کڑوا کرتی رہی، کوئی دوسری سمجھاتی تو اس کا منہ نوچ ڈالتی۔

    ایک دن نجانے کس بات پر زبان چلانے لگی۔ صاحبزادے کو تاؤ آ گیا۔ ایک لات جو کس کے رسید کی تو گری جاکے موری میں۔ بے ڈھب پڑ گئی لات۔ تین دن بھینس کی طرح اراتی رہی۔ کوئی ڈاکٹر بلاتے تو فتنہ کھڑا ہو جاتا۔ پیٹ میں بچہ مر گیا تھا۔ لوگ ویسے ہی دشمن ہیں۔ خیر سے تیسرے دن صنوبر نے غلام گردش کی سب سے تاریک کوٹھڑی میں دم توڑ دیا۔

    صنوبر تھی پورم پور جادوگرنی، نجانے کیا کر گئی کہ چار سال حشمت میاں کی شادی کو ہو گئے۔ مگر اولاد کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ کیسے کیسے علاج ہوئے تھے۔ تعویذ گنڈے ہوئے، مزاروں پر منتیں چڑھائیں، مندروں میں دیے جلائے۔ دلہن بیگم کا پیر بھاری نہ ہونا تھا نہ ہوا۔ سچ کہ جھوٹ دشمن بیری کہتے ہیں۔ صاحبزادے نے بھری کوکھ لات ماردی تھی۔ اس کارن نامراد ہوگئے۔ جب ہی تو بیگم دلہن کو ہسٹریا کے دورے پڑتے ہیں۔ اور دوڑ دوڑ کے میکے جاتی ہیں۔ وہاں ان کے خلیرے بھائی سنا ہے بڑے عمدہ ڈاکٹر ہیں۔ وہی ان کا علاج کر رہے ہیں اور سنا ہے کچھ اور کھٹ پٹ بھی ہے دونوں میں۔

    نایاب بوبو نے ٹھنڈی سانس بھری، بیگم نواب کا منہ ہاتھ دھلانے کے لیے گرم پانی سمویا اور ان کی خواب گاہ کی طرف چل دیں۔

    بیگم نواب کو پہلے تو نایاب کے وجود سے کوفت ہوئی تھی، مگر جب وہ قدموں میں بچھ گئی اور یقین دلایا کہ نواب دولہا کی باندی نواب دلہن کی باندی ہے۔ وہ کوئی رنڈی خانگی نہیں۔ نہ ٹکوں سے خریدی لونڈی ہیں۔ نجانے پشت ہا پشت سے کتنے نوابوں کا خون ان کی رگوں میں موجزن ہے۔ ناچار بیگم کو ماننا پڑا۔ ویسے اب کچھ اندھیرا بھی نہ تھا۔ خاندان کے سب مرد ادھر ادھر منہ مارلیتے ہیں۔ تاہم نایاب بوبو نے بھی کبھی حد سے آگے پیر نہ نکالے۔ نواب کے میٹھے بول اس کان سنتی اس کان اڑادیتی، جب نواب منور مرزا کے چکر میں پھنسے تو انہوں نے باقاعدہ بیگم کے ساتھ مل کر مورچہ سنبھالا۔ بیگم کی بے دخلی پر خوش ہونے کی بجائے آٹھ آٹھ آنسو روئیں۔ ان کا اور بیگم کا نواب سے اٹوٹ ناطہ تھا، مگر یہ ٹکھیائی کون ہوتی ہے۔ جاگیر کے کوڑے کرنے والی۔ وہ تو چلتی ہوا کا جھونکا تھا۔ آج اس رخ، کل اس رخ۔

    انہوں نے بیگم کے ساتھ مل کرمحاذ پر بہت حکمت عملی سے کام لیا۔ اور سردار خان کو راکھی باندھ کر بیگم نواب کا بھائی بنادیا۔ طرحدار خان منور کو ساتھ لے کر پیرس چلا گیا۔ اور جب منور غارت ہوئی۔ تو نایاب نے اپنے ہاتھوں سے سیج سجائی بیگم کو ازسرنو دلہن بنایا۔ انہوں نے بیگم کو پھولوں کے گہنے کے ساتھ دوموتی بھی کان میں ڈال دیے کہ نواب فرحت کو کیسے خوش کرنا ہے۔ اور غلام گردش کی اندھیری کوٹھڑی میں جبار کو کلیجے سے لگائے ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی۔

    وہ دن اور آج کا دن، نایاب بوبو نے بیگم نواب کی خدمت نہ چھوڑی۔

    بوبوکو منہ لٹکائے دیکھ کر بیگم نواب کا ماتھا بھی ٹھنکا۔

    ’’خیریت تو ہے؟‘‘

    رک رک کر بوبو نے تمام تفصیل بتائی۔ بیگم کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ فوراً جبار کو موٹر دے کر بھیجا کے حکیم کو لادے۔ حکیم صاحب بولے، ’’پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ دلہن بیگم، بچہ ناتجربہ کار ہے۔ کمسن ہے، پھر بھی احتیاطاً کچھ مقویات مع تفصیل کے غلام، صاحبزادے کی خدمت میں بھجوا دے گا۔ اس کے علاوہ سرکار ہوسکتا ہے کہ کسی وجہ سے کراہییت آتی ہو۔ بعض وقت ماحضر کچھ اس ڈھنگ سے پیش کیا جاتا ہے کہ رغبت نہیں ہوتی، اس کا یہ مطلب نہیں کہ معدہ ناکام ہوچکا ہے۔‘‘

    ’’میں پہلے ہی کھٹکی تھی حضور، لونڈیا میں کچھ کھوٹ ہے، نواب زادوں کے مزاج کے لائق نہیں۔ سوکھی ماری مرگھلی، میری مانئے تو سرکار اس نامراد کو باقر نواب کو دے ڈالیے۔ کئی بار کہہ چکے ہیں ان کے ولائتی کتوں کی جوڑی حشمت میاں کو پسند ہے۔ وہ بخوشی تبدیل کردیں گے۔‘‘ بوبو بیگم کی پنڈلیوں کو دبانے لگیں۔

    ’’اے ہے نوج، میں موئی کو زہر دیدوں گی مگراس کوڑھی کو نہ دوں گی، موا سڑ رہا ہے سر پر سے۔‘‘

    ایسا اندھیر تو خاندان میں کبھی نہیں ہوا کہ لونڈی جائے اور صحیح سلامت لوٹ آئے۔

    تکلفات خیال کیے بغیر ہی پیش دستی کربیٹھتے ہیں۔ کہیں بھائی بھائی میں رقابت نہ ٹھن جائے۔ اس لیے سگھڑ بیگمیں احتیاط سے بٹوارہ کردیتی ہیں۔ پھر مجال ہے جو دوسرے کی باندی پر کوئی دانت لگائے۔ بالکل قانونی حیثیت ہوتی ہے اس گھریلو فیصلے کی۔

    ’’میں تو عاجز ہوں اس لڑکے سے، اٹھارہ انیس کا ہونے کو آیا۔ کیا مجال جو کسی لونڈی باندی کو چھیڑا ہو کہ چٹکی بھری ہو۔ ہمارے بھائی تو ادھر دس بارہ کے ہوئے اور خرمستیاں شروع کردیں، سولہ سترہ کے ہوئے اور پھیل پڑے۔ اے نایاب نگوڑی ڈھنگ سے نہائی دھوئی بھی تھی کہ تم نے ہلدی لہسن میں سڑتی ہوئی میرے بچے کی جان پر تھوپ دی‘‘، بیگم نواب بولیں۔

    ’’اے حضور مجھے اناڑی سمجھا ہے؟ اللہ کی عنایت سے ان ہاتھوں نے ایسی کیسی باندیاں سنواری لونڈیا کی ایڑی دیکھ کر مرد ذات کوہ قاف کی پری کو نہ پوچھے۔ حشمت میاں فرنگن سے پھنسنے کو ہو رہے تھے۔ مگر میری ہاتھ کی صنوبر سورات ہوئی کہ نہیں؟‘‘ بوبو اپنے فن پر آنچ آتے دیکھ کر بڑی چراغ پا ہوئیں۔

    ’’اے قربان جاؤں بیگم، آپ کا لال جوانوں کا جوان ہے۔ دن بھی تو اب خراب ہیں۔ پچھلے دنوں بھاری قیمت دے کر دوباندیاں افضل نواب نے خریدیں، پولیس نے ناطقہ بند کردیا۔ بہت کچھ کھلایا پلایا، بہت کہا کہ اللہ کے نام پر غریب لڑکیوں کی پرورش کر رہے ہیں۔ مگر لڑکیاں کسی ہوم سوم میں اللہ ماری پہنچادی گئیں۔ ڈیڑھ ہزار پر پانی پھر گیا۔ اب نئی باندی ملنا بھی تو مشکل ہے۔‘‘

    اگرتیسری جنگ شروع ہوتی تو بھی محل میں ایسا طوفان نہ مچتا۔ بات رینگتی ہوئی سارے خاندان میں پہنچ گئی۔ جانو ہر چہار طرف سنپولیے چھوٹ گئے۔ ایک سے دوسرے منہ تک جانے میں کتنی دیر لگتی ہے، جس سے سنا، چھاتی کوٹ لی۔

    ’’ہے ہے اچھن میاں۔‘‘

    افضل میاں کو پتہ چلا، پائنچہ پھڑکاتے، پیک کا غرارہ منہ میں سنبھالے آن پہنچے اور سیدھے چھمن کی جان پر ٹوٹ پڑے۔

    ’’اوی ماں ہمیں کیا معلوم تھا۔ یہ قصہ ہے، ورنہ تمہاری بھابی کا پھندا کاہے کو گلے میں ڈالتے۔ جان من اب بھی کچھ نہیں گیا ہے، بندہ حاضر ہے۔‘‘ کسی زمانے میں وہ چھمن پر بری طرح لٹو ہوگئے تھے بڑے سرکار نے گولی مار دینے کا الٹی میٹم دیا، تب ہوش میں آئے۔ چھمن ان سے بے طرح چڑتے تھے۔

    ’’بکواس مت کیجیے۔ ایسی کوئی بات نہیں، اصل میں مجھے یہ باتیں پسند نہیں، میرا مطلب ہے بغیر نکاح ناجائز ہے۔‘‘

    ’’بالکل جائز نہیں۔‘‘

    ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے جدامجد سب کے سب حرامکار تھے۔ ایک آپ پیدا ہوئے ہیں۔ متقی پرہیزگار۔‘‘

    ’’میرا خیال ہے کہ۔۔۔‘‘

    ’’آپ کا خیال سالا کچھ نہیں، کبھی ارکان دین کا مطالعہ فرمایا ہے؟‘‘

    ’’نہیں تو، مگر۔۔۔ یہ بات عقل میں نہیں۔‘‘

    پتھر پڑگئے ہیں آپ کی عقلِ مبارک پر، معلوم ہے نہیں کچھ اور آئیں بائیں شائیں ہاکنے لگے۔‘‘

    ’’مگر قانوناً جرم ہے۔‘‘

    ’’ہم یہ کافروں کے قانون کو نہیں مانتے ہم خدائے ذوالجلال والکرام کے حکم پر سر ِتسلیمِ خم کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں لونڈی غلام کے ساتھ اولاد جیسا سلوک کیا جاتاہے۔ نایاب کو دیکھو، ملکہ بنی راج کر رہی ہے۔ ان کے بیٹے کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، سب ہی باندیوں پر چربی چڑھ رہی ہے۔ ہاں تمہیں سوکھا مارا مال دیا گیا ہے، تو میاں سروری لے لو۔ دنبہ ہو رہی ہے۔‘‘

    ’’ہشت۔‘‘

    ’’ہم کہتے ہیں آخر معاملہ کیا ہے؟‘‘

    ’’کچھ معاملہ نہیں، آپ مہربانی فرما کر میرا بھیجا نہ چاٹیے۔‘‘

    ’’تمہاری مرضی، تم کو جگ ہنسائی کا شوق ہے تو کون روک سکتا ہے، تمہاری مرضی اور سرکار شاید آپ کو پتہ نہیں کہ آپ کی منگیتر۔۔۔‘‘

    ’’میری کوئی منگیتر ونگیتر نہیں۔‘‘

    ’’ابھی نہ سہی، ہو تو جائیں گی۔ وہ حرمہ خانم اس لفنڈر سے بہت میل جول بڑھا رہی ہیں۔ منصور سے۔‘‘

    ’’تو میں کیا کروں۔‘‘

    ’’بتاؤں کیا کرو، ابھی صدر کی طرف کو جارہا ہوں منہارن کو بھیجے دیتا ہوں، بھر کلائیاں چوڑیاں پہن لو اور کیا‘‘، انہوں نے پیک بھرا قہقہہ مارا۔

    ’’جہالت، سب جہالت کی باتیں ہیں۔‘‘

    ’’ہمارے قبلہ و کعبہ جاہل تھے؟‘‘

    ’’ہوں گے مجھے کیا پتہ۔‘‘

    ’’ابے کیوں گھاس کھا گئے ہو، بزرگوں نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی رواج بنایا، اب تک ہمارے خاندانوں میں اسی پر عمل ہوتا چلا آیا ہے۔ باندی مل جائے تو جوان لڑکے بے راہ نہیں ہوتے بری لتوں سے بچتے ہیں، صحت اچھی رہتی ہے۔‘‘

    ’’یہ سب حرام کاری کو جائز بنانے کے ہتھکنڈے ہیں۔‘‘

    ’’تم کفر بک رہے ہو، مذہب کی توہین۔۔۔‘‘

    ’’ارے جائیے بڑے مذہب والے آئے، مذہب کی بس ایک ہی بات دل پر نقش ہے۔‘‘

    نالائق بھی ہو اور۔۔۔ بدتمیز بھی۔ لاحول ولا، میری بلا سے تم جہنم میں جاؤ۔‘‘

    رات کو خاصا چنا گیا تو نایاب بوبو نے بڑے اہتمام سے چاندی کی چمچی میں معجون مرکب جواہر والا چاندی کے ورق میں لپیٹ کر پیش کیا۔ حکیم صاحب کی ہدایات کا پرچہ چھمن سے بے پڑھے پھاڑ دیا تھا اور سروری کو ڈپٹ بتائی تھی۔ چھمن کا جی چاہا کی قاب میں ڈوب مریں۔ انہوں نے معجون کو ہاتھ مار کر گرادیا۔ اور پیر پٹختے اپنے کمرےمیں چلے گئے۔ ساری دنیا ان کو نامرد سمجھ رہی تھی۔

    انہوں نے اب تک جتنی علمی اور ادبی کتابیں پڑھیں تھیں، سب ہی میں بغیر شادی کیے کسی عورت سے تعلقات رکھنے والے کو زانی اور بدکار کہا گیا تھا۔

    باہر پھر آج ہوا بپھری ہوئی ڈائن کی طرح ہونک رہی تھی، کھڑکی کے شیشے پر ایک کمزور سی ٹہنی بار بار پٹخ رہی تھی، جیسے ہوا سے بچ کر اندر چھپنے کے لیے دستک دے رہی ہو۔ بڑی مشکل سے آنکھ لگی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی بوندیں ان کے پیروں پر رینگیں تو گھبراکر جاگ پڑے۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔

    حلیمہ ان کے پیروں پر منہ رکھے سسک رہی تھی۔ جلدی سے انہوں نے پیر کھینچ لیے پھر وہی آنسوؤں کا طوفان، یہ لڑکی تو دشمن سے مل کر ان کے خلاف مورچہ بندی پر تلی ہوئی تھی۔ یہ لوگ انہیں ڈبو کر ہی دم لیں گے۔

    ’’کیا ہے؟‘‘ انہوں نے ڈپٹا۔

    ’’کیا میں اتنی گھناؤنی ہوں کہ سرکار کے پیر بھی نہیں چھو سکتی‘‘، حلیمہ کراہی۔

    ’’بھئی یہ کیا گدھاپن ہے۔ جاؤ ہمارے کمرے سے۔‘‘

    ’’نہیں جاؤں گی، کیا سمجھا ہے مجھے، باندھی ہوں، کوڑھن تو نہیں۔ سارا محل میرے جنم میں تھوک رہا ہے، میرا مذاق اڑایا جارہا ہے کہ آپ کو مجھ سے گھن آتی ہے۔ میں آپ کے لائق نہیں۔ کل سے سروری آپ کی خدمت گزاری پر مقرر کی جائے گی۔‘‘

    ’’ہم اس سور کو بہت ماریں گے۔ ہمیں خدمت گزاری کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

    ’’ہوجائے گی، ضرورت، حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    ’’جھک مارتے ہیں حکیم صاحب الو کے پٹھے۔‘‘

    ’’تو میں کیا کروں۔‘‘

    ’’جاؤ، سوجاؤ بہت رات ہوگئی۔‘‘

    ’’میرے لیے کیسا دن اور کیسی رات، پر اتنا تو احسان کیجیے کہ مجھے زہر ہی لا دیجیے۔‘‘

    ’’ہم کیوں لادیں زہر؟ بیوقوف، کیسی باتیں کر رہی ہے۔ خودکشی گناہ ہے۔‘‘

    ’’تو پھر باقر نواب کی آگ میں جاکر جلوں، انہیں گرمی کی بیماری ہے۔ چھوٹے میاں‘‘، حلیمہ پھر دریا بہانےلگی۔

    ’’نواب باقر، ان کمبخت کا ذکرکیا ہے۔‘‘

    ’’انہی کا تو ذکر ہے، آپ سروری کو قبول کر لیجیے، مجھے ان کے ہاتھ بیچا جا رہا ہے۔۔۔ ولائتی کتوں کی جوڑی کے عوض جو اٹھارہ سو کی تھی۔‘‘

    ’’افوہ کیا بکواس ہے۔‘‘

    ’’باقر نواب اندر سے سڑ رہے تھے، مہترانی بوبو سے کہہ رہی تھی۔ بوبو کو تو مجھ سے بیر ہے۔ میں نے جبار کے منہ پر جوتی ماردی تھی۔‘‘

    ٹھنڈے دل سے حلیمہ نے سمجھایا تو غصہ سے کانپنے لگے۔ ان کا جی چاہا حلیمہ کےآنسو اپنے دامن میں سمیٹ لیں، مگر اسے ہاتھ لگاتے جی کانپ رہاتھا کہ ہاتھ لگاتو چھوٹنا مشکل ہوجائے گا۔

    ’’کیا تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو؟‘‘ چھمن میاں نے پوچھا۔

    ’’میرے اللہ ساری دنیا کو معلوم ہے، حربہ بٹیا بچپن کی مانگ ہے، آپ کی۔‘‘

    ’’اور تم؟‘‘

    ’’میں آپ کی باندی ہوں۔‘‘

    ’’تم ہماری باندی ہو۔ تمہاری باندی ماں تو باندی نہیں تھی۔ نہ تمہارا باپ باندی زادہ تھا۔ تم تو سیدانی ہو حلیمہ۔ تمہارے ابا کسان تھے۔

    ’’حلیمہ۔۔۔ سنو حلیمہ۔۔۔ اس نے اس کے دونوں ہاتھ مٹھی میں پکڑ لیے۔ سنو تو ہم پیاری امی سے آج ہی کہیں گے کہ ہم حرمہ سے شادی نہیں کریں گے۔ ہماری شادی تم سے ہوگی۔‘‘

    ’’شادی!‘‘ حلیمہ نے جھٹکے سے دونوں ہاتھ چھڑالیے۔ ’’توبہ توبہ آپ تو واقعی بچوں جیسی باتیں کرتے ہیں۔ یاد ہے الف کانجام، صادق نواب نکاح کر رہے تھے، زہر دلوادیا بڑی بیگم صاحب نے، ہائے کیسی تڑپی ہے تین چار دن، دم ہی نہ نکلتا تھا موئی کا چھوٹے میاں، ایسا ہی ہے تو اپنے ہی ہاتھوں سے گلا گھونٹ دیجیے‘‘، حلیمہ نے ان کے دونوں ہاتھ اپنے گلے پر رکھ لیے۔

    وہی ہوا جس کا ڈر تھا، حلیمہ کا جسم گوند کا بنا ہوا تھا۔ چھمن کے ہاتھ الجھ گئے۔

    ’’جاؤ۔۔۔ جاؤ حلیمہ۔۔۔ پیاری حلیمہ۔۔۔ جا۔۔۔جا۔۔۔‘‘ انہوں نے سمیٹ لیا۔

    ’’اف کتنے ٹھنڈے ہیں تیرے ہاتھ۔۔۔ حلیمہ۔۔۔‘‘

    ’’تو گرم کردیجیے میرے سرکار‘‘، اس نے چھمن میاں کر کرتے کے بٹن کھول کر اپنے چھوٹے چھوٹے سرد ہاتھ ان کے بے قرار اچھلتے ہوئے دل پر رکھ دیے۔ روتے سسکتے دومعصوم ناتجربہ کار بچے ایک دوسرے میں تحلیل ہوگئے۔ باہر ہوا دبے پیر شرمائی ہوئی نئی دلہن کی طرح آہستہ آہستہ جھوم رہی تھی۔

    چھمن میاں کی تو ہر بات بے تکی اور نرالی ہوا کرتی تھی۔

    سب ہی ان پر ہنستے تھے۔ کھلونوں سے کھیلتے ہیں، ان کی پوجا نہیں کرنے لگتے۔ بیگم نے اس صبح کیا اطمینان کی سانس لی تھی۔ جب بوبو نے انھیں جھک کر سلام کیا۔ اور جی کھول کر مبارک باد دی تھی۔ آٹھ بجے تھے اور ماشاء اللہ ابھی تک دروازہ بند تھا۔

    پھر جب صاحبزادے کالج چلے گئے تو بیگم نے اپنی آنکھوں سے ثبوت دیکھ کر دورکعت نفل شکرانے کے پڑھے۔ حلیمہ کو حرارت ہوگئی تھی۔ اپنی کوٹھڑی میں منہ اندھائے پڑی تھی۔ بوبو آتے جاتے گندے مذاق کر رہی تھی۔ سارے محل میں غلغلہ تھا کہ چھوٹے میاں نے حلیمہ کو قبول کرلیا۔ دوسری باندیاں کلستی پھر رہی تھیں۔ حلیمہ قسمت والی تھی کہ ایسا سجل معصوم دولہا ملا۔ اپنی بات چیت میں باندیاں دولہا کہہ کر ہی دل کو سہارا دے دیا کرتی تھیں۔

    لڑکیوں کو دیکھ کر چھمن میاں کے ہمیشہ ہاتھ پاؤں پھول جایا کرتے تھے، مگر حلیمہ کو ایک بار چھوکر وہ کسی کام کے نہ رہے۔ خالی گھنٹہ ملا اور بھاگے چلے آرہے ہیں۔ یار دوست چھٹی اتوار کے دن آتےہیں، میاں بہانہ بنا رہے ہیں، مجھے پڑھنا ہے اور پڑھتے بھی تو حلیمہ کے زانوں پر سر رکھا ہوا ہے ہر فل سٹاپ پر پیار کا نکتہ۔

    ’’گنوار لٹھ، کاش ذرا پڑھ لیا ہوتا تو میرے نوٹ فیر کردیتی۔‘‘ اور حلیمہ بیٹھی کوئلے سے زمین پر اے۔ بی۔ سی۔ ڈی کاڑھ رہی ہیں۔

    ’’میرے فونٹین پین میں سیاہی تو بھر دو یار۔‘‘

    سیاہی میں دونوں ہاتھ، ناک، منہ، اوڑھنی رنگ گئی اور اوپر سے ٹسوے، بالکل گدھی ہے۔ بڑا اعلیٰ انتظام ہوا کرتا تھا، میاں کو ایک حصہ الگ محل کا دے دیا جاتا تھا۔ باندی سے پھر کسی اور کام کی توقع نہیں کی جاتی تھی۔ حلیمہ تو نایاب بوبوکی سدھائی تھی۔ بیگم کا ہاتھ منہ دھلانے پر ضد کرتی۔ پاندان پونچھنے سنوارنے، تازہ کتھا چونے بھرنے اور چھوٹے موٹے کام سے منہ نہ موڑتی۔

    ’’اے بھئی بس اپنے چھوٹے سرکار کو سنبھالو‘‘، بیگم اسے ٹالتیں، مگر وہ سر دھکے گردن جھکائے ضد سے ان کے پیر دباتی۔ ساس ہی تو ہوئیں۔ ان کا پوت بھی تو لونڈی کے پیر چومتاہے۔

    نئے جوڑے، زیور سب ہی کچھ دیا جاتا تھا۔ بالکل علیحدہ گھر داری کا سا لطف آجاتاتھا۔ جی چاہا تو اپنی طرف کے باورچی خانہ میں کوئی تازہ چیز جھٹ پٹ بگھار لی۔ روز مالن بھر ٹوکری پھول گجرے دے جاتی۔ مگر سیج پر پھول چھمن میاں کو کبھی نہ بھائے۔

    ’’بھئی بڑا دکھ ہوتا ہے، پھولوں پر چڑھے لیٹے ہیں۔ بڑی بے رحمی ہے۔‘‘ وہ سارے پھول سمیٹ کر حلیمہ کی گود میں بھردیے۔

    نایاب بوبو وہی اپنے طوطے جیسی رٹ لگائے ہوئے تھیں کہ ادھر متلیاں لگیں، ادھر موٹی مردار ہوئی۔ لوگ بیاہتا تک کو جی سے اتار دیتے ہیں تو باندی کی بھلی چلائی۔ چھمن کا جنون اور لگن دیکھ کر بوبو سرور سے آنکھیں نیم باز کرلیتیں۔

    ’’سوچتی ہوں کہ اب کے خالی چاند میں نکاح ہو جائے مجھے کچھ فیروزہ خانم، اکھڑی اکھڑی لگیں۔‘‘

    بیگم نواب اب چھمن میاں کی مردانگی سے مطمئن ہوکر بولیں، ’’کہنے والوں کے منہ میں خاک، سنتے ہیں حرمہ بٹیا بی آزاد ہوگئی ہیں۔ بوبو نے اطلاع دی۔‘‘

    ’’بیگم کہنے والوں۔۔۔ کے منہ میں انگارے کہ کوئی ارشد میاں کا یار ہے۔ بہت آنا جانا ہے اس گھر میں۔‘‘

    ’’ہے ہے، تم سے کس نے کہا۔‘‘

    ’’طرحدار کی دلہن بہت آتی جاتی رہتی ہیں، ان کی ممانی لگتی ہیں جو سوزن کاری سکھانے جاتی ہیں۔ مریم بیٹا کو کہہ رہی تھیں خوب گیند بلا ہووے ہے۔ اللہ رکھے اپنے میاں کی پڑھائی میں کون سے روڑے اٹکتے ہیں میری مانئے تو چھمن میاں کا حرمہ سے نکاح ہو جائے تو اچھا ہے۔‘‘

    ’’مگر لڑکا تو پٹھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتا۔ کہتا ہے کہ حلیمہ سے ہی نکاح پڑھوا دو۔ میں نے کہا ہے اب تو کہا ہے، پھر اگر یہ خرافات منہ سے نکالی تو قسم سے جان دے دوں گی۔‘‘

    ’’اے بیگم بکتے ہیں، ان نوابوں کے قول و فعل میں کون سی سنگت، تیل دیکھیے تیل کی دھار دیکھیے۔ اسی اٹھوارے میں سیدھے تکا ہوجائیں گے۔ لونڈیا مجھے کچھ مری مری سی لگتی ہے۔‘‘

    بوبو سے محل کا کوئی راز پوشیدہ نہ تھا۔ گائے بھینس حتی کہ شاید چوہوں تک کا پیر بھاری ہوا کہ بوبو نے تاڑ لیا۔ وہ تو مرغیوں کے منہ لال دیکھ کر سمجھ جاتی تھیں کہ کڑکی اترگئی اور انڈا دینے والی ہے۔

    ’’پیاری امی کیا حلیمہ گاؤں جارہی ہے؟‘‘ چھمن نے آخر دوبدو پوچھ ہی لیا۔ حلیمہ کئی روز سے ٹسر ٹسر رو رہی تھی۔

    ’’ہاں چندا، نایاب بوبو بھی ساتھ جائیں گی۔ امی حضور سے میں نے کہلوا دیا ہے کہ تمہارے لیے نیبو کا اچار ضرور ارسال فرمائیں۔‘‘

    ’’مگر پیاری امی‘‘ چھمن بولے، ’’حلیمہ کو کیوں بھیج رہی ہیں۔ میرے کپڑے کی دیکھ بھال کون کرے گا۔‘‘

    ’’سروری ہے، لطیفہ ہے۔‘‘

    ’’سروری، لطیفہ نے میری کسی چیز کو ہاتھ بھی لگایا تو۔۔۔ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ ہاں، مگر حلیمہ کو کیوں بھیج رہی ہیں‘‘، چھمن منمنائے۔

    ’’ہماری مرضی۔ تم ان معاملوں میں کون ہوتے ہو دخل دینے والے۔‘‘

    ’’مگر پیاری امی۔‘‘

    ’’میاں ابھی تو ہم جیتے ہیں۔ قبر میں تھوپ آؤ۔ تب من مانی کرنا۔‘‘ پیاری امی کی آنکھوں میں سے چنگاریں چٹخنے لگیں۔ اندرونِ خانہ کے معاملہ میں تمہیں کیا تمہارے باوا تک کو دخل نہیں، تمہیں آج تک تکلیف ہوئی ہے جو اب ہوگی۔ باندیوں کے معاملے میں بوبو کا فیصلہ ہی چلتا ہے۔‘‘

    ’’پیاری امی، حلیمہ باندی نہیں میری جان ہے۔ سید زادی ہے۔ آپ نے خود بڑے شوق سے انتخاب فرماکر اسے میرے دل میں بھیجا ہے اور کچے ناخنوں کو گوشت سے جدا کر رہی ہیں، کیوں؟ کون سی چوک ہوئی مجھ سے‘‘، انہوں نے کہنا چاہا مگر جذبات نے گلا پکڑ لیا۔ حلق میں کانٹے چھبنے لگے۔ اور وہ سر جھکائے اٹھ گئے۔

    حلیمہ اپنے آنسوؤں سے خائف تھی۔ یہ آخری چند دن وہ دھوم دھام سے گزارنا چاہتی تھی۔ پھر زندگی وفا کرے نہ کرے۔ ابھی چار دن باقی تھے زندگی کے، ان چار سلونے دنوں کے لیے اس نے چار جورے نک سک سے تیار کئے تھے۔ عطر کی بو سے قے آرہی تھی،مگر جی پر پتھر رکھ کر اس نے بستر کی ہر تہہ کو بسادیا تھا۔ بال دھوکر مصالحہ کی خوشبو بسالی تھی۔ ہاتھ پیر کی پھیکی مہندی کو اجاگر کرلیا اور پھر بھر ہاتھ چوڑیاں چڑھالی تھیں۔ کیونکہ چھمن میاں کو چٹ چٹ چوڑیاں توڑنے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ وہ کتنی بھی توڑ ڈالیں۔ سہاگ کے نام کی دو چار بچ ہی جائیں گی۔

    ’’گاؤں جانے کا غم نہیں‘‘، چھمن نے اسے پھول کی طرح کھلے دیکھ کر پوچھا۔ خود ا ن کا دل لہو ہو رہا تھا۔

    ’’نہیں‘‘، بوبو نے ٹسوے بہانے کو منع کر دیا تھا۔

    ’’کیوں؟‘‘ انہیں تاؤ آگیا۔

    ’’جلد ہی تو آجاؤں گی۔‘‘

    ’’کتنی جلدی۔‘‘

    ’’تھوڑدے دنوں بعد۔‘‘

    ’’کتنے ہوتے ہیں تھوڑے دن۔‘‘

    ’’بس چھ سات مہینے۔‘‘

    ’’چھ مہینے۔‘‘

    ’’آہستہ بولیے۔‘‘

    ’’ہم مرجائیں گے حلیمہ۔‘‘

    ’’اللہ نہ کرے، آپ کی بلائیں میرے سر میرے نوشاہ۔ برے فال منہ سے نہ نکالیے۔ اللہ اپنے رحم و کرم سے مجھے آپ کی خدمت کے لیے ضرور واپس لائے گا۔ سب ہی تو نہیں مرجاتیں۔ صنوبر کی اور بات تھی۔ بڑے سرکار نے لات مار دی تھی تو پیٹ میں بچہ مرگیا۔ ہائے میں مر جاؤں۔ سہم کر اس نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ یہ وہ کیا بک رہی تھی۔

    ’’بچہ!‘‘ چھمن تڑپ کر اٹھ بیٹھے۔

    ’’نہیں، نہیں چھوٹے میاں۔۔۔ میں۔‘‘

    ’’میرے سر کی قسم کھا‘‘، چھمن میاں نے اس کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا۔

    ’’نہیں اللہ نہیں۔‘‘

    ’’چھوٹی حلیمہ‘‘، انہوں نے جلدی سے لیمپ جلایا۔ سہمی ہوئی نظروں سے تکنےلگے۔ پھر مجرموں کی طرح سر جھکا لیا۔ گود میں ہاتھ رکھے بیٹھے رہے۔

    بچہ، ان کا بچہ، زندہ انسان کا بچہ۔ جی چاہا نہ جانے کیا کریں۔ زور سے ایک قلانچ بھریں۔ یہ آسمان پر جو تارے جگمگارہے ہیں،سارے کے سارے توڑ کر حلیمہ کی گود میں بھر دیں۔

    ’’کب ہوگا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’شاید چھ مہینے بعد‘‘، حلیمہ شرماگئی۔

    ’’اوہ تب تک تو میرا رزلٹ بھی نکل آئے گا‘‘، وہ ٹالنے لگے۔

    حلیمہ کا دل جھونکے کھانے لگا۔ گاؤں سے اس بدنصیب کے رونے کی آواز کیسے پہنچے گی۔ سرکار کے کانوں میں، بے حیا اور ماں کی طرح سخت جان ہوا تو شاید دوسری لونڈی بچوں کے جھرمٹ میں پل جائے گا۔ باپ اسے پہچانے گا بھی نہیں، بیٹا نہیں غلام ہوگا، کپڑوں پر استری کرے گا۔ جوتے پالش کرے گا۔ اور اگر بیٹی ہوئی تو کسی کے پیر دبانے کی عزت حاصل کرکے گاؤں میں زندگی کا تاوان ادا کرنے چلی جائے گی۔

    مگر حلیمہ کی زبان کو تالا لگا ہوا تھا۔ بوبو نے کہہ دیا تھا۔ ’’مالزادی اگر صاحبزادے کو بھڑکانے کی کوشش کی تو بوٹیاں کرکے کتوں کو کھلادوں گی۔‘‘

    ’’حلیمہ تم گاؤں نہیں جاؤں گی۔‘‘

    ’’ایسی باتیں نہ کیجیے۔‘‘

    ’’میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔‘‘

    ’’للہ میرے بھولے سرکار۔‘‘

    مگر انہوں نے اسے بولنے نہ دیا۔ بوبو کہتی تھیں پیٹ والی عورت سے مرد ذات کو گھن آتی ہے۔ تو یہ کیسا مرد تھا کہ بالکل وہی پہلے دن کا سا پیار۔

    دوسرے دن چھمن میاں نے کالج کو لات ماری اور اپنی اکیلی ہستی کا وفد لے کر ہر دروازے پر دہائی دے ڈالی۔

    ’’بھائی جان، حلیمہ کو گاؤں کیوں بھیج رہے ہیں۔‘‘

    ’’میاں، محل کا پرانا دستور ہے۔‘‘

    ’’وہ گائے بھینس نہیں، میرے بچے کی امانت دار ہے۔‘‘

    صاحبزادے کا چہرہ تمتما اٹھا۔ ’’بھئی حد کرتے ہو تم بھی۔ یہ باتیں ہمارے سامنے کہتے ہوئے تمہیں شرم بھی نہیں آتی۔ لا حول و لا قوہ۔‘‘ وہ بھناکر اٹھ گئے۔

    محل کی پالیٹکس میں مردوں کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ پیاری مائیں جب مناسب سمجھتی ہیں، چاق و چوبند باندی پیر دبانے کو مہیا کردیتی ہیں۔ جب اسے صحت کے لیے مضر اور بیکار سمجھتی ہیں۔ دوسرے کاٹھ کبار کی طرح مرمت کے لیے بھجوا دیتی ہیں۔ عوض پر دوسری آجاتی ہے۔ باندی سے جسم کا رشتہ ہوتا ہے۔ شریف آدمی دل کا رشتہ نہیں کر بیٹھتے۔

    ’’افضال بھائی پیاری امی سے کہیے حلیمہ کو گاؤں نہ بھیجیں‘‘، انہوں نے اپنے چچازاد بھائی کی خوشامد کی۔

    ’’اماں دیوانے ہوئے ہو۔ پیٹ والی عورت کے لیے مضر ہوتی ہے۔ کیوں اتنا سٹپٹاتے ہو۔ دوسرا انتظام ہوجائے گا‘‘، انہوں نے ہنس کے ٹال دیا۔

    ’’مجھے دوسرا انتظام نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

    ’’اور پھر دسمبر میں تمہارا نکاح ہے حرمہ بی بی سے۔‘‘

    ’’میں حرمہ سے شادی نہیں کروں گا۔‘‘

    ’’حلیمہ گاؤں جائے گی تو میں کالج چھوڑ دوں گا‘‘، انہوں نےاعلان کردیا۔

    ’’اچھا جی صاحبزادہ کی یہ مجال‘‘، بیگم کا خون کھول گیا۔ ’’اسے ضد کرنا آتی ہے تو ہمیں بھی جواب دینا آتا ہے۔ اب تو چاہے میری میت اٹھ جائے، نامراد حلیمہ یہاں ایک گھڑی نہیں رہ سکتی۔ پرسوں ورسوں نہیں، نایاب تم اسی وقت تیار کرو۔ قسم جناب کی۔‘‘

    ’’انجم بیٹا بھی اللہ رکھے امید سے ہے۔ فراغت پا کر ولایت جانے کا ارادہ ہے۔‘‘

    ’’اس کا کیا ذکر ہے، خدا جیتا رکھے میری بیٹی کو‘‘، انجم چھمن میاں کی بہن کا نام تھا۔

    ’’آمین، مگر گود والے کو ولایت سنگ تو نہ لے جائیں گے۔ اور وہ دولہا نواب کا اکیلا جانا بھی درست نہیں، وہ نگوڑی فرنگن پھر پیچھے لگ گئی تو قیامت ہی آجائے گی۔‘‘

    ’’اے ہے نایاب کہنا کیا چاہتی ہو۔‘‘

    ’’نجم بیٹا بھی زحمت سے بچ جائیں گی۔ وہ لندن جائیں گی تو بعد میں حلیمہ ان کے بچے کو دودھ پلاسکے گی۔ اچھا پاک دودھ بھی بچے کو ملے گا۔‘‘

    ’’جو حکم سرکار۔‘‘

    ’’مگر گاؤں میں اچھی دیکھ بھال نہ ہو تو۔۔۔ حلیمہ دھان پان تو ہے ہی، یہاں نظروں کے سامنے رہے گی۔ میرے ہاتھ کے نیچے، موئی کو اچھی طرح ٹھساؤں گی اور پھر صاحبزادے کی ضد بھی پوری ہوجائے گی۔‘‘

    ’’ضد ہی تو نہیں پوری۔۔۔ کروں گی بس۔‘‘ مگر بیگم ذرا نرم پڑگئیں۔

    ’’آپ کی مرضی، پر اتنا عرض کروں گی، بس کچھ دن جاتے ہیں کہ میاں کا جی بھر جائے گا۔ اپنا کام نکلے گا۔ ان پر احسان الگ سے ہوگا۔‘‘

    نایاب کے پیٹ میں جب جبار نے نزول فرمایا تو فرحت نواب ٹھنڈے پڑ گئے۔ جب عورت حاملہ ہوجاتی ہے تو مرد کی دل چسپی ختم ہوجاتی ہے کہ یہ قانونِ قدرت ہے۔

    مگر چھمن میاں قانونِ قدرت اور نایاب بوبو کو جھٹلا رہے تھے، کیونکہ وہ دیوانے تھے کہ پیر کی جوتی کو کلیجہ سے لگا رکھا تھا۔ ایسی بے حیائی تو کسی نواب زادے نے کسی بیگم کے معاملے میں نہیں لادی۔ سرجھکائے مارا مار زچہ بچہ کے رکھ رکھاؤ پر کتابیں پڑھی جارہی ہیں۔ سارا جیب خرچ باندی کے لیے وٹامن کی گولیاں اور ٹانک لانے پر خرچ ہو رہا ہے۔

    حلیمہ صحن میں بیٹھی چھمن میاں کے کرتے پر مری کا کام کر رہی تھی۔ کچ سے سوئی انگلی میں اترگئی۔ وہ جانتی تھی، وہ گاؤں کیوں نہیں بھیجی گئی تھی مگر اس نے چھمن کے خواب چکناچور نہ کئے تھے۔

    چھمن کیاں کو ہول سوار ہو رہے تھے۔ انہوں نے اتنے قریب سے حاملہ عورت کبھی نہ دیکھی تھی۔ سنا تھانجم باجی کے کچھ ہونے والا ہے، مگر وہ تو بس اوڑھے لیٹے دھما بنی کراہا کرتی تھیں۔ گھڑی بھر کو سلام کیا، دور بھاگ لیے۔

    انہیں ڈر لگتا تھا کہ حلیمہ کہیں مینڈکی کی طرح پھٹ نہ جائے۔ کتابوں سے بھی تسلی نہ ہوئی تو فرخندہ نواب کے ہاں بھاگے گئے۔

    فرخندہ نواب سے سب خاندان والے فرنٹ تھے، کیونکہ کسی زمانے میں وہ اونٹ پٹانگ محبت کرکے ہاتھ جلا چکی تھیں، مگر اشرف صاحب ان کے میاں پولیس میں تھے، اس لیے سب کو غرض پڑتی تھی اور ان کی چاپلوسی کرنا پڑتی تھی۔ ویسے بھی بیگمیں ان سے بہت کٹتی تھیں کہ وہ بہت عالم فاضل تھیں۔ ان کے بیٹے نعیم سے چھمن کی بہت گھٹتی تھی۔

    چھمن میاں کے پرکھوں کو بھی پتہ نہ تھا کہ پیاری امی نے ان کی دلہن کے زیورات کے بارے میں صلاح لینے کے لیے جمعہ کے روز بلایا ہے۔ فرخندہ زیرِ لب مسکرائیں اور وعدہ کیا کہ جمعہ کے روز آئیں گی تو ان کی حلیمہ کو بھی دیکھ لیں گی۔

    پور ٹیسکو سے اتر کر پہلے وہ چھمن کی طرف چلی گئیں۔

    فرخندہ نواب نے ان کی بوکھلاہٹ پر سرزنش کی، ’’حلیمہ بالکل ٹھیک ہے۔ پھٹے وٹے گی نہیں۔

    اتنا چربی والا کھانا نہ کھلاؤ، پھل اور دودھ دو۔‘‘

    ’’تسلیم پھوپھی جان‘‘، حلیمہ نے چلتے وقت ذرا سا گھونگھٹ ماتھے پر کھینچ لیا۔

    ’’جیتی رہو میری گڑیا‘‘، فرخندہ جلدی سے گڑیا کے گھروندے سے نکل گئیں۔

    ادھر بیگم نواب کے کمرے میں انہوں نے چھمن کی دلہن کے زیورات دیکھے تو گم سم بیٹھی رہیں۔

    ’’اے بے کچھ رائے دو کہ منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھی ہو۔‘‘

    ’’بھائی جان زمانہ بدل رہا ہے۔ حرمہ بڑی پیاری بچی ہے، مگر وہ۔۔۔‘‘

    ’’ہاں ہاں کہو، وہ بڑی فیشن ایبل ہے، زیور گنوارو ہے تو میں بمبئی سے منگوا رہی ہوں۔‘‘

    اچھا ہے کھل کر بات ہو جائے۔۔۔ فرخندہ بیگم کچھ اکھڑی اکھڑی بیٹھیں۔ پھر بہانے بنانے لگیں کلب کی میٹنگ ہے۔ ان کے جانے کے بعد بوبو اور بیگم ان میں کیڑے ڈالتی رہیں۔

    نایاب زیور دکھانے کو گئیں تو پتہ چلا فیروزہ نواب تو اپنی کسی ملنے والی کے ہاں گئی ہیں۔ حرمہ گیند بلا کھیل رہی تھیں۔

    حرمہ دھم دھم کرتی آئیں۔ نایاب بوبو نے زیورات کا صندوقچہ دکھایا اور بولیں، ’’زیورات، رانی بیٹا پسند فرمالیجیے۔‘‘

    ’’اوہ، مگر حلیمہ بی بی کے لیے میری پسند کے زیوروں کی کیا صرورت ہے‘‘، حرمہ لاپرواہی سے مڑ کر کٹے بالوں میں برش گھسیٹنے لگی۔

    ’’اے خدا نہ کرے، حلیمہ باندی ہے۔‘‘

    ’’اچھا وہ بچہ چھمن میاں کا ہے نا۔‘‘

    ’’بچہ!‘‘ بوبو کو پسینے چھوٹنے لگے۔ ’’کیسا بچہ؟‘‘

    ’’فرخندہ خالہ کہہ رہی تھیں کہ۔۔۔‘‘

    ’’اے نہیں بیٹا۔۔۔ وہ۔۔۔ توبہ ہے بچی جھاڑ کا کانٹا ہوگئی۔ اماں جان نہیں، اس لیے کچھ بڑھیا کی گت بنارہی ہیں۔ وہ ہوتیں تو مجال نہیں یوں میرے منہ پر جوتیاں مارتیں۔‘‘

    بوبو پھنپھناتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

    ’’کتنا اچھلتا ہے پاجی؟‘‘ چھمن اس کے چاندی جیسے تنے ہوئے پیٹ پر ہتھیلیاں رکھے قدرت کی ہنگامہ آرائیوں پر متحیر ہو رہے تھے۔

    ’’اتنی ٹھنڈی کیوں پڑگئی لیمو‘‘، بہت پیار آتا تو چھمن میاں حلیمہ سے لیمہ اور لیمہ سے لیمو کہتے۔

    چھمن نے اسے رضائی میں سمیٹ لیا اور لمبی لمبی سانسیں بھر کر سونگھنے لگے۔ کیسی مہکتی ہے لیمو جیسے پکا ہوا دسہری، جی نہیں بھرتا، پانی کا چھلکتا کٹورہ روز پیو، روز پیاس تازہ، مگر اتنا پیار کرنا خود غرضی ہے۔ مرجھائی جاتی ہے۔ نہیں اب وہ اسے ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے۔ اے وقت یہیں ٹھہر جا، نہ پیچھے مڑ کر دیکھ، نہ آگے نظر ڈال کر پیچھے چھوٹا اندھیرا ہے اور آگے؟ آگے کیا بھروسہ ہے۔

    ’’غضب خدا کا حلیمہ نے کیسی دغا دی ہے۔‘‘ بیگم نے نواسی کے منہ میں شہد میں انگلی ڈبوکر دے دی۔ ’’نایاب تمہارا منہ ہے کہ نگوڑا بھاڑ کہتی تھیں دونوں ساتھ جنیں گی۔ نجم دھواں دار رو رہی ہیں۔ بچی کو دودھ چھوانے کی روادار نہیں اور تمہاری حلیمہ ہے کہ بچہ نہیں جن پائی۔ تم تو کہتی تھیں کہ حلیمہ کا بچہ گاؤں بھجوا کر نجم کے بچے کو اس کے سپرد کردوگی۔ اب کیا ہوگا۔‘‘

    نایاب کی بات نہ ٹلے۔ چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے۔ دو ٹکے کی باندی حلیمہ کی یہ مجال کہ سارا پروگرام چوپٹ کیے دیتی ہے۔

    حلیمہ بیٹھی نارنگیوں کا رس نکال رہی تھی۔ ابھی چھوٹے سرکار میچ جیت کر آتے ہوں گے۔ بوبو اسے گھور رہی تھیں جیسے چیل جھپٹا مارنے سے پہلے اپنے شکار کو تاکتی ہے۔ آج بڑی برہم نظر آرہی تھیں۔

    ’’حلیمہ ادھر آ‘‘، انہوں نے کرخت آواز میں پکارا۔ حلیمہ تھرا اٹھی۔

    ’’ہوں تو یہ گل کھلایا ہے‘‘، انہوں نے اس کو سر سے پیر تک گھورا۔ ’’بول حرام خور یہ کس کا ہے؟‘‘ جیسے انہوں نے آج پہلی بار اس کا پیٹ دیکھا ہو۔

    ’’یہ۔۔۔ یہ نارنگی۔۔۔‘‘

    ’’نارنگی نہیں، نامراد یہ تربوز۔‘‘ انہوں نے اس کے امڈے ہوئے پیٹ پر پنکھا سے جھپاکا مارا۔ حلیمہ دم بخود رہ گئی۔ آج تک کسی نے اس کے پیٹ کے قطر پر کوئی بات چیت نہیں کی تھی۔ وہ گنگ بس آنکھیں پھاڑے سن رہ گئی۔

    ’’اب بولتی ہے کہ لگاؤں ایک جوتی اس تھوبڑے پر،حرامزادی قطامہ۔‘‘

    منجھلی نواب کی باندی گوری بی سے جب نایاب نے یہی سوال کیا تھا تو اس نے پھٹ سے جواب دیے دیا تھا۔

    حلیمہ کی زبان تالو سے چمٹ گئی۔ کوئی اس کی بوٹیاں کر ڈالتا۔ وہ چھوٹے سرکار کا نام نہ لیتی۔ ان کا گناہ تو اس کا سب سے پیارا ثواب تھا۔

    ’’منہ سے پھوٹتی کیو ں نہیں جنم جلی؟‘‘ انہوں نے چٹاخ سے دیا ایک تھپڑ کہ انگوٹھی گال میں چبھ گئی اور خون نکل آیا۔

    چھمن میاں ہٹ پر ہٹ لگا رہے تھے۔ سارا میدان تالیوں سے گونج رہا تھا۔

    تالیوں کے شور میں چھمن نے چاندی کا کپ دونوں ہاتھوں سے سنبھالا تو ایسا لگا حلیمہ کا چکنا رو پہلی پیٹ دھڑک رہاہے۔

    حسب عادت چھمن میاں بھاگے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ حلیمہ کو پکارا، جواب نہ پایا تو کپ لیے پسینے میں تر پیاری امی کے پاس دوڑ پڑے۔

    ’’اے میاں یہ لوٹا کہاں سے اٹھا لائے اچھا خوبصورت ہے۔‘‘

    ’’یہ لوٹا نہیں بوبو، کپ ہے۔‘‘

    ’’اے بیٹے جان، ذرا حکیم صاحب کو فون کرو کہ ٹانگوں میں پھر سے اینٹھیں شرور ہوگئی ہے۔‘‘ پیاری امی کراہنے لگیں۔

    جی بہت اچھا،’’بوبو، حلیمہ سے کہو بڑی گرمی ہے، سوتی کرتا نکالے۔‘‘

    ٹیلی فون کرکے واپس لوٹے تو بوبو نے اشارے سے کہا سو رہی ہیں۔

    ’’میرے کپڑے؟‘‘ بوبو نے اشارے سے اطمینان دلایا۔

    ’’حلیمہ کہاں ہے‘‘، وہ نہاکر نکلے تو سروری پا جانے میں ازاربند ڈال رہی تھی۔

    ’’ہم پوچھتے ہیں حلیمہ کہاں ہے اور تو بکواس کیے جارہی ہے۔ چھمن غرائے۔

    ’’اللہ ہمیں کیا معلوم۔ شاگرد پیشے میں ہوگی۔ سروری آج بڑی بنی ٹھنی آرہی تھی۔‘‘

    ’’شاگرد پیشے میں؟ جابلا‘‘، انہوں نے پاجامہ اس سے چھین لیا۔

    سروری مسکرائی اور میلے کرتے سے بٹن نکال کر اجلے میں ڈالنے لگی۔

    ’’ارے سنا نہیں تو نے چڑیل، چل بھاگ کے جا‘‘، انہوں نے اس سے کرتا چھین کر پھینک دیا۔

    ’’بوبو نے ہمیں بھیجا ہے۔‘‘

    ’’تجھے بھیجا ہے؟ کیوں؟‘‘ سروری آنکھیں جھکائے ہنس دی۔

    ’’الو کی پٹھی!‘‘ چھمن نے ریکٹ لتارا۔ سروری بڑے ناز سے ٹھمکتی جھانجن بجاتی چلی گئی۔

    پانچ پھر دس منٹ گزر گئے۔ چھمن جھلائے تولیہ باندھے میگزین الٹ پلٹ کرتے رہے۔ جب پندرہ منٹ گزر گئے تو بے قرار ہوگئے۔

    ’’ارے ہے کوئی؟‘‘ وہ حلیمہ کو اسی طرح آواز دیتے تھے۔

    سروری اتراتی زمین پر ایڑیاں مارتی، پھر نازل ہوگئی۔ اس کی زہریلی مسکراہٹ دیکھ کر چھمن کا جی دھک سے رہ گیا۔

    ’’چڑیل سچ سچ بتا، نہیں تو۔۔۔‘‘ انہوں نے اس کی چٹیا کلائی پر لپیٹ کر مروڑی۔

    ’’ہئی میں مرگئی، ہائے میری میّا، سرکار ادھر شاگرد پیشے میں ہے۔‘‘

    چھمن نے اس کی چٹیا چھوڑدی اور سارے بدن سے کانپنے لگے۔ جلدی سے سلیپر پیر میں ڈالے اور بھاگے۔

    ’’اے میاں خدا کا واسطہ، کہاں جارہے ہیں۔ سروری پیچھے لپکی۔‘‘ مردوں کے جانے کا وقت نہیں ہے۔ مگر میاں کہاں سنتے تھے۔ برآمدے میں نایاب مل گئی۔

    ’’بوبو، ڈاکٹرنی کو فون کراؤ۔‘‘

    ’’ہے ہے چھوٹے میاں کپرے تو پہنو، او مالزادی‘‘، انہوں نے سروری کو پھٹکارا۔ وہ تو لطیفہ کو بھیج رہی تھیں پر سروری نے ان کے پیر پکڑ لیے۔

    ’’بوبو جبار کو موٹر لے کر بھیج دو،ٹیلی فون سے کام نہیں چلے گا۔‘‘

    ’’اے میاں، کاہے کے لیے؟‘‘

    ’’حلیمہ۔۔۔‘‘ ان کا حلق سوکھ گیا۔۔۔ ’’حلیمہ۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘

    ڈاکٹرنی نہیں، اس کے لیے تو ولایت سے میم آئے گی۔ بے حیا مردار، لونڈیوں، باندیوں کا دماغ ساتویں آسمان پر چڑھنےلگا ہے۔ ان باتوں سے۔ جائیے آپ کے دوست نعیم میاں کا فون آیا ہے ان کی سالگرہ ہے۔ اور سروری کی بچی نامراد، میاں کا وہ چوڑی دار پاجامہ نکال اور شیروانی۔‘‘ وہ چلنے لگیں۔

    ’’بوبو، حلیمہ۔‘‘

    ’’اے میاں کیا کہنے آئی تھی، آپ نے بالکل ہی بھلا دیا۔ آپ کی پیاری امی کی طبیعت ناساز ہے۔ نعیم میاں کے جاتے وقت ذرا حکیم صاحب کے بھی ہوتے جائیے گا۔ میں جبار سے کہتی ہوں موٹر نکالے۔ وہ دھم دھم کرتی چلی گئیں۔

    چھمن بوکھلائے ہوئے کمرے میں لوٹ آئے بیٹھے، پھر تڑپ کر اٹھ کھڑے ہوئے، پھر جلدی سےالٹے سیدھے کپڑے بدن پر ڈالے۔ انہوں نےکتنی باندیوں کی موت دیکھی تھی۔ صنوبر کی لاش مہینوں انہیں خوابوں میں نظر آتی رہی تھی۔ حلیمہ بھی تو پھول سی بچی تھی۔ خون کی کمی کی وجہ سے دق کی مریضہ لگتی تھی۔ وہ سیدھے بڑے بھائی کی طرف بھاگے۔

    ’’بھائی جان۔‘‘

    ’’کیا ہے؟‘‘ وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ شطرنج کھیل رہے تھے۔

    ’’وہ، وہ۔۔۔ ذرا آپ سے ایک بات کہنا ہے‘‘، انہوں نے لرزتے ہاتھوں سے ان کی آستین کھینچی۔

    ’’ٹھہرو میاں ذرا یہ بازی دیکھو، کیا ٹھاٹھ جمایا ہے، اے بھائی قدوس شہہ بچئے ورنہ۔۔۔‘‘

    ’’بھائی جان‘‘، چھمن کا دم نکلنے لگا۔

    ’’بیٹھو ذرا، ہاں بھائی قدوس۔‘‘

    کوئی بیس منٹ لگے، مگر چھمن پر بیس صدیاں گذر گئیں۔

    ’’ارے ہاں بھئی کپ مار دیا تم نے، مبارک ہو‘‘، انہوں نے پلٹ کر بڑے جوش سے کہا۔

    ’’بھائی جان حلیمہ۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ پلیز ڈاکٹرنی منگوا دیجیے۔‘‘

    ’’ہوں۔ آجائے گی اگر کوئی ضرورت پڑی تو۔۔۔‘‘

    ’’نہیں بھائی جان حلیمہ مرجائے گی۔ کچھ کیجیے۔‘‘

    ’’تو کیا میں خدا ہوں۔ جو کسی کی آئی کو ٹال دوں گا، مگر شرم نہیں آتی ایک باندی کے لیے ہڑبڑائے پھر رہے ہو، کچھ تو لحاظ کرو، ایک آوارہ چھوکری کو سر پر چڑھانا ٹھیک نہیں۔ حرامی پلا جن رہی ہے آوارہ نہیں تو بڑی پارسا ہے۔‘‘

    ’’بھائی جان۔ وہ۔۔۔وہ۔‘‘

    اماں اتنا ہکلاتے کیوں ہو، نکاح نہیں تو عورت فاحشہ ہے، زانیہ ہے، سنگسار کرنے کے قابل ہے، مرجائے تو اچھا ہے۔ خس کم جہاں پاک۔‘‘

    ’’مگر میں بھی تو گناہ گار ہوں۔‘‘

    ’’تو میں کیا کروں، جاؤ اپنے گناہوں کی توبہ کرو۔ میرا سر کیوں چاٹ رہے ہو۔‘‘

    اس قدر کوڑھ مغز انسان سے بات کرنا حماقت تھی۔ کوئی اور ہوتا ان کی جگہ تو چھمن منہ توڑ دیتے، مگر بچپن سے بڑے بھائی کی عزت کرنے کی کچھ ایسی عادت پڑگئی تھی کہ خون کے سے گھونٹ پی کر گردن لٹکائے چلے آئے۔

    دیوانوں کی طرح چھمن نے ہر چوکھٹ پر ماتھا پٹخا۔ باپ کے سامنے گڑ گڑائے، مگر انہیں گل بہارِ نامراد نے ایسا جلاکر خاک کیا تھا کہ باندی کے نام سے ہی تین فٹ اچھل پڑے۔

    ’’تمہاری یہ مجال کہ ہمارے سامنے اپنی بدکاریوں کا اس ڈھٹائی سے اقرار کرو۔ ایک تو موری میں منہ دیتے ہو، پھر اس میں سارے خاندان کو لتھیڑنا چاہتے ہو۔‘‘

    انہوں نے پیاری امی کے تلوؤں پر آنکھیں ملیں، مگر انہوں نے ہسٹریا کا دورہ ڈال لیا۔ ایسی بات سننے سے پہلے وہ بہری کیوں نہ ہوگئیں۔ اندھی ہوگئی ہوتیں تو یہ دن تو دیکھنا نہ پڑتا۔

    چچا ابا کے سامنے ہاتھ جوڑے۔

    ’’لا حول و لا قوہ! اماں مرنے دو سالی کو، ہم تمہیں اپنی ماہ رخ دے دیں گے۔ واللہ کیا پٹاخہ ہے ایک چمرخ سی باندی کے پیچھے دم دیے دے رہے ہو۔ یہ سب تمہاری ان واہیات کتابوں کی خرافات ہے۔‘‘

    لوگ مسکرا رہے تھے۔ ان پر لطیفے چھوڑ رہے تھے اور وہ شاگرد پیشے کے آگے سرد اور سیلی زمین پر بیٹھے رو رہے تھے۔ اٹھارہ برس کا لڑکا دودھ پیتے بچوں کی طرح مچل رہا تھا۔ دھاروں دھاروں رو رہا تھا۔

    ابا حضور غصے سے گرج رہے تھے۔ اگر بیگم نے دورہ نہ ڈال لیا ہوتا، تو وہ اس ننگِ خاندان کی ہنٹر سے کھال ادھیڑ دیتے۔ جس دن انہوں نے سنا تھا کہ فرزندِ ارجمند نے لونڈی ٹھکانے لگادی تو ان کی گبھے دار مونچھیں مسکراہٹ کے بوجھ تلے لرز اٹھی تھیں۔ بڑے صاحبزادے تو دغا دے ہی گئے۔ اگر چھوٹے بھی اسی راہ نکل گئے ہوتے تو جائیداد کا وارث کہاں سے آتا؟

    ایسا تماشا لوگوں نے کبھی نہ دیکھا نہ سنا، نوکر ہنس رہے تھے، باندیاں ٹھی ٹھی کر رہی تھیں۔

    ادھر بان کے چھلنگے میں پڑی حلیمہ مورنی کی طرح کوک رہی تھی۔ کھرے پھانسودار بان سے اس کی ہتھیلیاں چھل گئی تھیں۔

    ’’ہائے سروری، وہ فرش پر بیٹھے ہیں۔ اٹھا وہاں سے جنم جلی۔ سردی لگ جائے گی ان کے دشمنوں کو۔‘‘ اگر درد کے بے رحم حملے اسے وقفہ دیتے تو وہ انہیں اپنے سر کی قسم دے کر زمین سے اٹھا لیتی۔ نہیں قسم خدا کی، ان سے کوئی شکایت نہیں۔

    مگر دردوں کی مہیب موجیں اس کے پسینے میں ڈوبے بےڈول جسم کو بھنبھوڑ رہی تھیں۔ اس نے اپنے ہونٹ چبا ڈالے کہ اس کی آواز سن کر چھمن میاں دیوانے نہ ہوجائیں۔ پر دل کے کان سب سن لیتے ہیں۔ چھمن پر نزع کی کیفیت طاری تھی، جی چاہ رہا تھا کہ پتھر پر سر دے ماریں۔ کہ یہ کھولن پاش پاش ہوجائے۔ اچانک دور سے کسی نے ایک دم پکارا۔ غم و اندوہ کے گہرے کنویں سے انہیں اوپر کھینچ لیا۔ انہوں نے پورٹیکو سے سائیکل اٹھائی اور ویسے ہی کیچڑ میں لت پت تیزی سے پھاٹک سے بال بال بچتے ہوئے نکل گئے۔

    ’’ہائے میرا لال‘‘، بیگم نے ہوش میں آکر چھاتی پیٹ لی۔

    ’’اے ہے چھمن خیر تو ہے۔‘‘

    کیچڑ میں سر سے پیر تک نہائے آنسو کے درمیا بہاتے چھمن ہچکیوں سے نڈھال رو رہے تھے۔

    ’’حلیمہ۔۔۔ پھپو۔‘‘

    ’’اچھی تو ہے۔‘‘

    ’’مر گئی۔ مر رہی ہے۔۔۔ پھپھو۔۔۔ کوئی نہیں سنتا۔‘‘

    ’’بھئی بڑے بے وقوف ہو، میں نے تم سے کہا تھا مجھے فوراً اطلاع کرنا، میں ابھی فون کرتی ہوں ایمبولینس کے لیے ہسپتال پہنچا دیا جائے۔ وہاں محل میں تمہارے بڑوں سے کون لڑے جاکر۔‘‘

    ’’میں کرتا ہوں‘‘، اشرف ان کے شوہر نے فون اٹھایا۔

    ’’میرا آج فائنل تھا پھپھو، وہاں سے آیا تو۔۔۔ پتہ چلا، پھپھو، مر جائے گی، مر بھی گئی ہوگی، اب تک تو۔‘‘

    ’’نہیں بھائی مرے ورے گی نہیں۔‘‘

    جب فرخندہ نواب کی موٹر آگے اور پیچھے ایمبولینس پہنچی تو محل میں کہرام مچ گیا۔ بیگم نے فی البدیہہ ایک عدد دورہ ڈالا اور لبِ دم ہوگئیں۔ نواب صاحب نے رائفل میں کارتوس ڈالے اور پھنپھناتے ہوئے نکل پڑے۔ مگر ایمبولینس کے پیچھے پولیس کی جیپ نظر آئی تو پلٹ پڑے۔ خاندان کی ایسی تھڑی تھڑی تو جب بھی نہیں ہوئی تھی۔ جب منجھلے نواب کی جاگیر کورٹ ہوئی تھی۔

    فرخندہ نواب نے ادھر دیکھا نہ ادھر، سیدھی کال کوٹھڑی میں دندناتی گھس گئیں۔

    چھمن نے خون میں نہائی باندی حلیمہ کو بانہوں میں سمیٹ لیا او رمحل میں صف ِماتم بچھ گئی۔ بیگم کی بے ہوشی جاکر لبوں پر کوسنے آگئے۔

    اگلے روز ایک قلم کی جنبش سے چھمن اپنے حق سے دست بردار ہوگئے۔ کون سی گاڑھے پسینے کی کمائی تھی جو درد ہوتا۔ جواباً حضور نے فرمایا۔ انہوں بے دریغ دستخط کردیے اور جائیداد سے عاق قرار پاگئے۔

    چھمن اب ایک چھوٹی سی گلی میں ایک سڑیل سے مکان میں رہتے ہیں۔ کسی سکول میں گیند بلا سکھاتے ہیں۔ کالج بھی جاتے ہیں۔ سائیکل کے کیریر پر سوداسلف کے درمیان کبھی کبھی شربتی آنکھوں والا ایک بچہ بھی بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ تو گئے خاندان سے۔ اتنا پڑھ لکھ کر گنوایا۔ ایک باندی گھر میں ڈال رکھی ہے۔ پتہ نہیں باندی سے نکاح بھی کیا ہے کہ نہیں۔ اللہ اللہ کیسے برے دن آئے ہیں۔

    مأخذ:

    بدن کی خوشبو (Pg. 64)

    • مصنف: عصمت چغتائی
      • ناشر: روہتاس بکس، لاہور
      • سن اشاعت: 1992

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے