aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

برف کی عورت

شاہین کاظمی

برف کی عورت

شاہین کاظمی

MORE BYشاہین کاظمی

    ’’انھیں لگتا ہے ان کے بودے جواز سے ظلم ،ظلم نہیں رہےگا؟‘‘

    میرے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھاگونگے بہرے درو دیوار کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔۔۔ میں نے اپنے کانپتے وجود کو سنبھال کر اٹھنے کی کوشش کی لیکن چکراکر گر گئی۔ پچھلے دو دن میں اس اندھیرے کمر ے میں بند تھی۔ میرا قصور صرف اتنا تھا کہ میں نے صدیوں کی گرد اوڑھے مکروہ روایتوں کی اونچی فصیلوں سے ٹکرانے کی کوشش کی تھی۔ رات کی تاریکی گہری ہو رہی تھی، فرش پر بچھی گھاس کی گندی باس حواس چاٹنے لگی۔

    ’’یہ حکم خداوندی نہیں ہو سکتا جبر آسمان کا شیوہ نہیں ہے یہ زمین کی پیداوار ہے، دھرتی کی کوکھ میں پنپتے ظلم کو آسمانی کہہ کر اپنے آپ کو اِس گناہ سے آزاد کرانے کی غیر منطقی کو شش ہے‘‘

    ’’بکواس بند کرو اپنی یہ حکمِ خداوندی ہی ہے‘‘

    عبرون کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مجھے قتل کر ڈالے۔

    ’’کسی عورت کو کاٹ کر ادھورا کر دینا خداوند کا حکم کیسے ہو سکتا ہے‘‘

    اپنی چھ سالہ بیٹی کا چہرہ ذہن میں آتے ہی میر ے اندر کہرام مچ جاتا۔ عبرون وانیا کو صدیوں سے عورت کا خون چوستی نسائی ختنوں جیسی بیہودہ رسم کی بھینٹ چڑھانا چاہتا تھا۔

    اس کا بھاری بھرکم ہاتھ اٹھا اور میرے چہرے پر نشان چھوڑ گیا۔

    بےاختیارمیرے دونوں ہاتھ میرے گالوں پر ٹک گئے کالی دیواروں سے آہستہ آہستہ سارے درد سرک کر میرے پہلو میں آن بیٹھے۔

    چہرے پر ادھوری بھوک اور تناؤ لئے عبرون نے نفرت سے مجھے دیکھا۔

    ’’کیسی برف کی سِل جیسی عورت ہو تم‘‘

    اس کا ہاتھ میرے گال پر جم گیا اذیتوں کی صلیب پر لٹکا تن ذلتوں کے بوجھ سے نڈھال ہونے لگا روح سسک اٹھی۔

    ’’یہ سِل تمہارے جیسے ہی کسی کم ظرف نے صدیوں پہلے عورت کے نصیب میں لکھی تھی‘‘

    میرا لہجہ زہر میں بجھا ہوا تھا۔

    ’’عورت کو اپنی پارسائی کی ڈھال سمجھنے والا بزدل‘‘

    ’’ تم کم ازکم میراساتھ تو دے سکتی ہو’’وہ بہت سلگا ہوا تھا۔

    ’’اور کتنا ساتھ چاہیئے؟ میں اذیتوں کے تمام تر چرکے سہنے کے باوجود تمہارے ساتھ ہوں تمہارے بستر پر’’

    ’’اور تم؟ تمہاری ادھوری بھوک کا نوحہ میرے تن پر لگے گھاؤ بڑھا دیتا ہے’’

    ’’صرف عورت ہی کیوں اپنی پارسائی ثابت کرنے کے لئے گیلے ایندھن کی طرح عمر بھر سلگتی رہے’’

    میں رونا نہیں چاہتی تھی لیکن کمبخت گرم سیال سارے بند توڑ کر بہہ نکلا۔

    ’’یہ دو طرفہ اذیتیں آخر تک ساتھ چلتی ہیں بد نامیوں کی طرح اس تاریک براعظم میں ظلم کے اندھے دیوتا کی کشکول میں اور کتنا لہو ڈالا جائےگا۔۔ روشنی کب ہوگی؟’’

    میرے اندر شور بڑھنے لگا۔

    ِِ

    ’’تم اس دنیا کی پہلی عورت نہیں ہو’’

    ادھوری بھوک اسے تڑپا رہی تھی وہ بھی عام مردوں کی طرح تھا ہر حال میں اپنی عظمت کا خواہاں، اپنی لذتوں کے حصول میں ہانپتا ہوا، رال ٹپکاتا، دریدہ بدنوں پر اپنی فتح کے جھنڈے گاڑتا ہوا، برتری کے جھوٹے زعم میں مبتلا۔۔۔ مجھے ابکائیاں آنے لگیں۔

    ’’جسم سے پرے بھی ایک چیز ہوتی ہے جسم پامال کیا جا سکتا ہے لیکن روح آزاد رہتی ہے تم اسے کبھی بھی نہیں چھو سکو گے کبھی بھی نہیں مکمل فتح تمہیں کبھی نصیب نہیں ہوگی’’

    میں بہت ہسٹیرک ہو رہی تھی ہماری ساری حسیں نوچنے والے، کانچ کے ٹکڑے، گندے بلیڈ، ٹین کے تیز دھار ڈھکنے، پتھر اور کند چاقو انھیں کے ہاتھوں میں تو تھے۔

    عبرون اپنی ادھوری بھوک کے پہلو میں بے سدھ سو رھا تھا میری پلکیں پھر سے بھیگنے لگیں۔

    بجھے چراغ کے دھویں میں چند ہیولے ابھرے پل بھر میں اندھیرا کمرہ اور اس میں بچھی بدبو دار گھاس غائب ہو گئے۔ دھند میں کہیں دور منڈھی ہوئی پلکوں پر چمکتے آنسو صاف دکھائی دینے لگے زرد ہتھلیوں والے آبنوسی ہاتھوں میں تھامے آنچل پر دستک ہوئی۔

    ’’کیا ہوا؟’’ آنکھوں میں استفسار تھا۔

    گرم ابلتے آنسوؤں میں تیزی آ گئی دستک پھر ہوئی، اب کی بار اس شوخ شال پر تھی جس میں دیدی کو لپیٹا گیا تھا۔

    ’’دیدی’’ سیاہ آنکھوں میں ہلکی سی چمک ابھری۔

    ’’رواجوں کی مٹی اوڑھ کر سو گئی تیری دیدی’’ آنسو بھل بھل بہنے لگے۔

    میں بہت چھوٹی تھی لیکن پھر بھی دیدی کی ننگی ٹانگوں پر بندھی کپڑے کی رسی اس کا بخار میں تپتا جسم اور لحظہ لحظہ ڈوبتی چیخیں جیسے میرے اندر کنڈلی مار کر بیٹھ گئی تھیں۔ ماں کا دکھ مجھے کاٹ رہا تھا، آج میری اپنی آنکھوں میں وہی خوف اور بےبسی تھی۔

    ’’مت کرو’’ وہ بابا کے آگے گڑ گڑا رہی تھی۔

    ’’مجھے اسے نہیں کھونا’’ ماں نے مجھے دامن میں سمیٹ لیا۔

    ’’میں سر جھکا کر نہیں جی سکتا تم جانتی ہو اسے کوئی بیاہےگا نہیں’’

    بابا کے لہجے میں غصہ تھا۔

    ’’ تو پھر مر جاؤ’’ماں چِلا اٹھی۔

    ’’ہدان آ رہی ہے اپنے ساتھ ایک ماہر کو لے کر مجھے یقین ہے اب کی بار کچھ نہیں ہوگا’’

    بابا مجھے لے کر باہر نکل گیا۔

    ماں بری طرح رو رہی تھی شاید اس کے بس میں صر ف آنسو ہی تھے مجھے بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن بابا کے دئیے ہوئے نئے کپڑے پا کر میں بہت خوش تھی۔

    ’’بیٹیوں کا کاٹ کر جینا ہے تو مر جاؤ’’ ماں کے تیور بہت خراب تھے۔

    ’’چِلاؤ مت’’

    بابا کی آواز ماں سے بھی اونچی تھی انھوں نے زبردستی مجھ ماں کے پہلو سے نوچ لیا۔

    جب ہدان نے کانچ کا نیا گلاس توڑ کر دو ٹکڑے اس بےانتہا تن و توش والی عورت کی طرف بڑھائے تو ماں لکڑی لے کر اس پر پل پڑی۔

    ’’عجیب عورت ہو ایک گلاس کے لئے اتنا شور تمہارے بھلے کے لئے ہی توڑا ہے’’

    موٹے تن وتوش میں سب کچھ تھا بس احساسات نہ تھے۔ وہ بھی تو عورت ہی تھی کٹی پھٹی اور ادھوری۔۔۔ وہ اپنے اندر کی گھٹن بڑی مشّاقی سے ننھے ننھے جسموں میں اتارا کرتی۔

    ’’مردود خبردار جو میری بیٹی کو ہاتھ بھی لگایا تو’’

    ماں جانے کہاں سے بڑی سی چھری نکال لائی۔ لیکن پھر ماں اور میں ہم دونوں چلاتے رہ گئے۔ کانچ کے تیز دھار ٹکڑے میرے جسم کے انتہائی نازک حصے کو بیدردی سے کاٹتے ہوئے گذر گئے۔ سوئی کی ہر چبھن پر میرا درد اور غصہ بڑھتا گیا اور پوری زندگی پر پھیل گیا۔

    ’’یہاں کا مرد انتہائی شاطر ہے صدیوں سے عورت کو اپنے زیرِ نگین رکھنے کے لئے کبھی مذہب اور کبھی رسم و رواج کا سہارا لیتا آیا ہے’’ میرے کانوں میں لیڈی کیتھرین کی آواز گونجی۔

    گھاس کی بو میرے حواس پر طاری ہونے لگی۔ اندھیرے میں سارے درد حلقہ بنائے میرے ارد گرد بیٹھے تھے مجھے کچوکے لگاتے ہوئے، نوچتے ہوئے۔۔۔

    وہ محض چودہ سال کی تھی۔ میری ماں کی اکلوتی بہن کی اکلوتی بیٹی ہرنی کی طرح چوکڑیاں بھرتی ہوئی بات بے بات اس کے سفید دانت کھل اٹھتے۔ اس کی سیاہ آنکھوں میں ہلکورے لیتے سندر سپنوں کے اچھوتے رنگ۔ وہ اپنی شادی سے بہت خوش تھی ہر لڑکی کی طرح۔۔ شوخ گلابی کپڑوں میں اس کا آبنوسی چہرہ دمک رہا تھا لیکن منڈھی ہوئی پلکوں سے پرے جھانکتا خوف میں صاف دیکھ سکتی تھی۔

    ’’دیدی ڈر لگ رہا ہے’’

    اس کی انگلیوں کی پوریں بہت سرد تھیں۔

    ’’کچھ نہیں ہو گا’’

    میں جانتی تھی یہ جھوٹی تسلی ہے۔ شادی کی رات اور اس کے بعد کے عذاب کاتصور ہی کپکپا دینے والا تھا۔ ہماری خوشیاں بھی درد اور خوف کی سیج پر پلتی ہیں۔

    پھر زیادہ کچھ نہیں ہوا اس کا لہو میں ڈوبا ہوا دریدہ بدن اس بات کا گواہ تھا کہ مرد کے سینے میں دل کی جگہ بھوک رکھی ہے۔ کبھی نہ سیر ہونے وا لی بھوک۔ اس مسلی ہوئی معصوم کلی کو مٹی اوڑھتے دیکھ کر میرا دل درد سے بھر گیا۔

    ’’ہماری زندگیوں سے راحت کے سارے پل مٹا کر درد کے عذاب رقم کرنے والو۔۔۔ ہمیں زمہریری فطرت کے طعنے دینے والو۔۔۔ اگر عورت صدیوں تک درد کے بھاری گٹھڑ اپنے کندھوں پر اٹھائے اپنا سفر جاری نہ رکھتی تو آج تمہاری بقا خطر ے میں پڑ جاتی’’

    میری آواز گونگی بہری دیواروں سے ٹکراکر پلٹ رہی تھی۔

    ’’یہ تم نے اتنی بڑی بڑی باتیں کہاں سے سیکھ لیں؟’’

    عبرون مجھ پر برس پڑا’’ آج کے بعد تم اس گوری ملنے نہیں جاؤ گی دماغ خراب ہو گیا ہے’’

    میں نے اپنی ماں کو اس گوری سے ملتے دیکھا تھا دن کے اجالے کی سی رنگت، آنکھوں میں پورا سمندربسائے ہمارے درد پر کڑھتی ہوئی۔ سوئٹزرلینڈ جیسی جنت ارضی چھوڑ کر ہمارے ساتھ موسموں کے قہر سہتی ہوئی۔ میں نے اسی سے لکھنا پڑھنا سیکھا تھا۔ اس کے پاس جتنی کتابیں تھیں میں نے سب کی سب چاٹ ڈالیں اور تو کچھ نہ ہوا بس میرے اندر اتری کڑواہٹ مزید گہری ہوتی گئی۔

    ’’تمہاری دیدی کو قبر میں اتارتے ہو ئے میں نے قسم کھائی تھی میں لڑوں گی اس ظلم کے خلاف لڑوں گی‘’

    ماں کے آبنوسی چہرے پر درد رقم تھا۔

    ’’لیکن میں ہار گئی میں تمہیں نہیں بچا سکی’’

    اس نے میرا سر اپنی گود میں رکھ لیا نچلے دھڑ میں لگی آگ کی تپش کم ہونے لگی لیکن ماں کے آنسو کہیں اندر چھید کر رہے تھے۔

    ’’تمہاری قسم میں پوری کرونگی’’

    دس سالہ بدن میں روح جانے کہاں سے طاقت کشید کر رہی تھی۔ میں صورتحال کو اچھی طرح تو نہیں سمجھ پا رہی تھی لیکن مجھے اپنا اور ماں کا درد کاٹ رہا تھا۔۔۔ ماں نے مجھے دیکھا میرا جسم بخار میں پھنک رہا تھا لیکن روح میں اتری کڑواہٹ مجھے آسرا دیئے ہوئے تھی۔

    ’’ضرور کرنا لیڈی کیتھرین کے پاس جانا’’

    مجھے اجڑتے گاؤں اور بستے قبرستانوں سے خوف آتا تھا اس لئے میں بارہا لیڈی کیتھرین سے ملی۔

    ’’اندر آگ بھری ہو تو سمجھو تم زندہ ہو۔۔۔ سینہ جلنا بند ہو جائے تو زندگی مر جاتی ہے۔ بہاؤ آگ کو گیان اور پھر فیضان کی منزل تک لے آتا ہے اس آگ کو الفاظ میں ڈھالو باقی میں دیکھ لوں گی’’

    لیڈی کیتھرین کو نبضوں پر ہاتھ رکھنا آتا تھا۔ میں نے اپنی آگ کو الفاظ کے پیراہن کیا دئیے سیاہ آندھیوں نے میرے بدن کی دیواروں کو چاٹنا شروع کر دیا۔ لیڈی کیتھرین نے وہ الفاظ پورے صومالیہ میں پھیلا دیئے۔ میری روح اور بدن پر چرکے بڑھنے لگے اور ساتھ ہی ساتھ میرا حوصلہ بھی۔۔۔ دیئے میں صدیوں سے لہو بھرا جا رہا تھا لیکن آگ باغی تھی سو میں نے خود کو آگ لگالی۔

    ’’تین ملین لڑکیاں ہر سال اس آگ میں جھونک دی جاتی ہیں’’

    لیڈی کیتھرین کو صومالین نہیں آتی تھی لیکن اسے پتہ ہوتا تھا اسے کیا کہنا ہے اور یہی بات مجھے اس کی طر ف کھینچتی تھی۔ وہ کوئی نہیں تھی اپنے گھر سے ہزاروں میل دور اس جھلسے ہوئے تاریک براعظم میں ہماری زندگیوں سے اندھیرے چننے کی کوشش میں مصروف۔

    ’’کتنی ہیں جو خاموشی سے موت کا اندھیرا اوڑھ لیتی ہیں’’

    لیڈی کیتھرین کی آواز لرز رہی تھی۔

    ’’جو بچ جاتی ہیں ایک عمر کا جہنم ان کا مقدر ہوتا ہے’’

    مقدر ریت پر لکھی ہوئی تحریروں کی مانند ہوتا ہے ایک بار تحریر کر دیا جائے تو تیز ہوا پل بھر میں ذروں کو بکھیر ڈالتی ہے۔ اس ا ندیکھی تحریر کو بدلنا ناممکن ہوتا ہے مگرمیں نے اسے بدلنے کی ٹھان لی تھی۔ خواہ وہ ایک ہی نصیب کیوں نہ ہو۔

    لیڈی کیتھرین مہینے میں ایک بار آتی تھی۔ اب کی بار آئی تو صرف زِینا کے شوہر سے ملنے۔ زینا کی کوکھ اس کے پہلے بچے کی قبر بنا دی گئی محض سولہ سال کی عمر میں۔ اس کے شوہر نے ظلم کی سوزن سے جسم میں اترے دھاگے کاٹنے کی اجازت نہ دی۔ وہ تین دن تڑپتی رہی لیکن بند دروازے کے پیچھے سے ابھرنے والی چیخیں سننے کے لئے کسی کے پاس وقت نہ تھا یا پھر ایسی چیخیں سنتے سنتے کان پک گئے تھے۔ وہ اپنے بچے کو لئے قبر میں اتر گئی۔ رواج اور مرد ایک بار پھر جیت گیا زندگی ایک بار پھر ہار گئی۔ میرادل چاہا زینا کے شوہر کو زندہ جلا ڈالوں ماں نے بہت منتیں کی تھیں اس کی۔

    ’’وہ مر جائےگی دھاگے پھر جڑ سکتے ہیں زندگی نہیں’’

    لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

    ’’وہ بہت کم عمر ہے میں نہیں چاہتا وہ کسی بےروہ روی کا شکار ہو جائے’’

    جب دھاگے خودبخود ٹوٹے تو اس کی زندگی کی ڈور بھی ٹوٹتی چلی گئی۔

    دروازے پر ہلکی سی آہٹ ہوئی تھی۔

    ’’آیان؟’’ صومیمہ کی سر گوشی جیسی آواز ابھری۔

    ’’تم ٹھیک ہو؟میں کچھ کھانے کو لائی ہوں’’ وہ میری چھوٹی بہن تھی۔

    ’’وانیا کہاں ہے؟’’

    میری آواز میں نقاہت تھی۔ میں بمشکل کھڑکی تک پہنچی صومیمہ کھانا اور پانی اندر رکھ چکی تھی۔

    ’’فکر نہ کرو وہ ٹھیک ہے عبرون نجیر کے ساتھ موگا دیشو گیا ہوا ہے کل آئےگا’’

    ’’اچانک موگا دیشو؟ کیوں؟’’

    ’’میں صرف یہی کر سکتی تھی دیدی’’ میمی آہستہ سے بولی۔

    میری ساری حسّیں بیدار ہو گئیں لیڈی کیتھرین آج چناری میں ہو گی۔ یہ گاؤں ہمارے گاؤں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔

    ’’پتھریلی زمین میں اگے زہریلے پودوں کے ساتھ زور زبردستی نہیں کی جا سکتی جڑیں اندر رہ جاتی ہیں پھر سے پنپنے لگتی ہیں’’

    لیڈی کیتھرین کا وہی پھوار جیسا نرم لہجہ سماعتوں کو سہلا رہا تھا۔

    ’’صدیوں سے خون میں بہتے رواجوں کو یک دم اکھاڑ پھینکنا آسان نہیں ہوتا اس کے لئے حوصلہ اور صبر ضروری ہے’’

    ’’پریشان مت ہونا وانیا اچھے ہاتھوں میں ہے’’

    لیڈی کیتھرین کا نرم سفید ہاتھ روشنی کے استعارے کی طرح میرے ہاتھ پر دھرا تھا۔ ماں کے بعد میں، میمی، فظیرہ، میر سعد، نادفان اور پھر وانیا لیڈی کیتھرین کے ساتھ کھڑے ہوتے چلے گئے چراغ جلنا شروع ہو چکے تھے۔ میرے اندر سلگتے انگارے الفاظ میں ڈھلتے رہے روشنی بڑھنے لگی۔ عبرون مجھے دھمکاتے دھمکاتے تھک گیا۔ پھر ایک وقت آیا جب میں اس سے بہت آگے نکل آئی۔ بر ف کی عورت نے آتش فشاں بجھا ڈالا تھا۔

    موگا دیشو میں شام ڈھل رہی تھی میں پلٹ کر دیکھا میمی اور وانیا آفس سے نکل رہی تھیں ان کے آبنوسی چہروں پر طمانیت تھی۔ یہاں تک آنے کے لئے مجھے آگ کا دریا عبور کرنا پڑا تھا پہاڑوں سے ٹکرانا کب آسان ہوتا ہے۔

    ’’لیکن کسی نہ کسی کو تو تیشہ اٹھانا ہی ہوتا ہے’’

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے