Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

برسو رام دھڑاکے سے

معین الدین جینابڑے

برسو رام دھڑاکے سے

معین الدین جینابڑے

MORE BYمعین الدین جینابڑے

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ کہانی مسلم معاشرے کے مختلف فرقوں، طبقوں اور گروہوں کے درمیان پھیلے حسد، نفرت اور بغض کی داستان کو بیان کرتی ہے۔ وہ اپنے مسلم دوست سے مدتوں بعد ملا تھا۔ اس دوست سے جو تقسیم کے وقت پاکستان چلا گیا تھا۔ شروع میں انہوں نے آپس میں بیتے دنوں کی باتیں کی تھیں اور پھر رام بابو نے اسے بتایا تھا کہ دس عاشورے کو جب اسے گھر میں درود شریف پڑھوانے کے لیے مسلمان کی ضرورت پڑی تو اسے سارے شہر میں ایک بھی مسلمان نہیں ملا۔‘‘

    پچھلے دنوں ہندوستان میں میرے مختصر سے قیام کے دوران اچانک ٹھنڈی رام سے ملاقات ہوئی۔ برسوں بعد غیر متوقع جب وہ مجھے ملا تو میں اس سے لپٹ گیا۔ اس نے بھی مجھے بھینچ لیا، بڑی دیر تک ہم ایک دوسرے سے گتھے رہے، ویسے اگر آپ اس وقت ہم دونوں کو دیکھتے تو یہی کہتے کہ یہ بھرت ملاپ چند لمحوں کا تھا اور آپ کی بات کچھ غلط بھی نہ ہوتی کیونکہ گھڑی کی سوئیوں کے حساب سے ہم چند سیکنڈ ہی آپس میں لپٹے رہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم دونوں اس وقت ایک دوسرے سے ملنے کی خوشی میں کچھ ایسے پاگل ہو گئے تھے کہ وقت کو ناپنے والے اس آلے کی ٹک ٹک ہمارے لیے بے معنی ہوگئی تھی۔ جب ہم الگ ہوئے توذرا فاصلے سے ہم نے ایک دوسرے کو نظر بھر کر دیکھا۔ اب اس عمر میں دیکھنے جیسا کیا رہ گیا ہے، پھر بھی میرے بالوں کی سفیدی اس کے بالوں سے جھانک رہی تھی اور اس کی آنکھوں کی نمی میری آنکھوں میں تیر رہی تھی۔ میں نے پہلی بار جانا کہ وقت واقعی بڑا سفاک ہوتا ہے اور پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ ہم ایک دوسرے کی سننے اور اپنی سنانے کے لیے اندر ہی اندر چھٹپٹاتے رہے۔ لیکن پہل دونوں میں کوئی نہیں کرپا رہا تھا۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ ہمارا رواں رواں بول رہا تھا اور لفظ گونگے ہوگئے تھے۔۔۔ اور جب لفظ گونگے ہو جاتے ہیں تو ہر چیز کو زبان مل جاتی ہے، مسکراہٹ کو بھی۔۔۔ میری مسکراہٹ کے جواب میں ٹھنڈی نے گردن ہلائی اور کہا،

    ’’ہم لوگ تو سچ مچ ہی بوڑھے گئے، رام کا نام لے کے‘‘ مجھے شرارت سوجھی۔ یہ بھلا کیسے ہو جائے کہ ٹھنڈی مل جائے اور میں اس کے چٹکی نہ لوں چاہے وہ پچاس برس بعد ہی کیوں نہ ملا ہو۔ میں نے کہا۔

    ’’اپنے ساتھ مجھے کیوں بڈھا کہہ رہے ہو بڑھؤ؟ اور تو کوئی آج بوڑھا تھوڑے ہی ہوا ہے! تو تو پیدائشی بوڑھا ہے۔‘‘

    ’’تو میں پیدائشی بوڑھا ہوں رام کا نام لے کے اور تو؟‘‘

    ’’اور میں سدا کا جوان ہوں رام کا نام لے کے۔‘‘

    میرے اس طرح رام کا نام لینے سے وہ بڑا محظوظ ہوا۔ قہقہے مار کر ہنسنے لگا اور مجھ سے لپٹ گیا۔ میں نے بھی اسے بھینچ لیا۔ اب ہم دونوں مل کر ہنس رہے تھے اور راستہ چلتی بھیڑ میں سے کچھ راہگیر ہماری طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔۔۔ رام کا نام لے کے!

    ’’رام کا نام لے کے‘‘ بچپن ہی سے ٹھنڈی کا تکیہ کلام رہا ہے۔ کبھی جملہ اس فقرے سے شروع ہوتا تو کبھی اس پر ختم اور بعض اوقات جملے کے بیچ ہی میں کہیں جب وہ اٹکنے لگتا تو رام کا نام لے کے اسے پورا کر دیتا۔ اس کی یہ عادت پورے گاؤں کے لیے مستقل تفریح کا باعث تھی۔ ہم اسے رام کا نام لے لے کر چڑاتے تھے اور چھیڑ کا مزہ اس وقت دوبالا ہو جاتا جب وہ ہمیں رام ہی کا نام لے کر صلواتیں سناتا۔ اس پر ہم اسے بڑے سخت لہجے میں ٹوکتے کہ ابے رام جی کا نام لے کر گالیاں بکتا ہے اور اس کا جواب اس سے نہ بن پڑتا۔ وہ جھلا جاتا اور خفت مٹانے کے لیے اور اونچی آواز میں اپنے تکیہ کلام کے سہارے ہمیں بے نقط سنانے لگتا۔

    بعض اوقات چھیڑ چھاڑ میں ہاتھاپائی کی نوبت آجاتی اور کبھی کبھار بات اس سے بھی آگے بڑھ جاتی جیسے اس شام ہوا تھا جب ٹھنڈی نے رام کا نام لے کے ایک نوکدار پتھر اٹھایا تھا اور نشانہ باندھ کر مجھے لہو لہان کردیا تھا۔ وہ برسات کے دن تھے شام کا وقت تھا، خوب گھنے بادل چھائے ہوئے تھے لیکن برس نہیں رہے تھے اور ہم سب کورس میں رام جی کی دہائی دے رہے تھے۔

    برسو رام دھڑاکے سے

    بڑھیا مر گئی فاقے سے

    مجھے یہ سوال ہر بار پریشان کرتا تھا کہ ہم دہائی تو بڑھیا کے مرنے کی دیتے ہیں لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ رام جی کی دہائی دے رہے ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ پتہ نہیں کہ کیوں مجھے ایسا لگا کہ اس سوال کا جواب ٹھنڈی کے پاس ہوگا۔ اپنے ساتھیوں سے ذرا الگ ہوکر میں نے ٹھنڈی کو اپنے پاس بلایا تھا اور واقعی بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس کے سامنے اپنا سوال رکھا تھا۔ یہ تو میرے وہم و وگمان میں بھی نہ تھا کہ اس سوال سے ٹھنڈی چڑ جائے گا۔ میرا سوال سنتے ہی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔ اس وقت میں ٹھنڈی کو چھیڑنے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھا، لیکن اب ٹھنڈی گرمی کھا چکا تھا۔

    ’’دہائی چاہے جس کی دیتے ہوں، تم رام کا نام نہ لیا کرو۔‘‘

    ’’کیوں نہ لیں۔‘‘

    ٹھنڈی کے پاس کوئی معقول وجہ نہیں تھی، ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ لیکن چپ رہنے میں بڑی سبکی ہوتی اس لیے اس نے جو منہ میں آیا سو کہہ دیا۔

    ’’تو مسلمنٹا جو ہے‘‘

    ’’مسلمان ہیں تو کیا رام جی کا نام نہ لیں!‘‘

    ’’ہاں نہ لیں۔‘‘

    ’’اور تو جو محرم کی دسویں کے روز نشان کے ساتھ سب سے آگے آگے چلتا ہے؟‘‘

    ’’وو تو ہم اپنے باپو کے ساتھ چلتے ہیں۔‘‘

    ’’چلتے تو ہو‘‘

    ’’ہم کوئی آج سے تھوڑے ہی چل رہے ہیں‘‘

    ’’ہم بھی کوئی آج سے تھوڑے ہی رام کا نام لے رہے ہیں‘‘

    ’’جو بھی ہو تم رام کا نام نہ لیا کرو‘‘

    ’’کیوں‘‘

    ’’کہہ جو دیا‘‘

    ’’یہ کیوں نہیں کہتا کہ تجھے مرچیں لگتی ہیں، رام کا نام لے کے‘‘

    میرا ارادہ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، اس وقت ٹھنڈی سے لڑنے جھگڑنے کا ہرگز نہیں تھا لیکن میں خود کو روک نہیں سکا اور میں نے بھی وہی کہہ دیا جو منہ میں آیا۔ اگر یہ آخری جملہ میرے منہ سے نہ نکلتا تو وہ نوکدار پتھر وہیں سامنے زمین پر پڑا رہتا اور میری دائیں آنکھ کے اوپر بھوں کے بالوں سے جھانکتا ہوا زخم کا جو نشان آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ نہ ہوتا۔۔۔ ٹھنڈی کی نظریں اسی نشان پر جمی ہوئی تھیں۔ اس نے مجرم کی سی کانپتی آواز میں کہا۔ ’’میں سمجھا تھا، ان برسوں میں رام کا نام لے کے یہ دھندلا گیا ہوگا‘‘ میں نے ٹھنڈی کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ وہاں اب بھی نمی تیررہی تھی اور نمی کے پیچھے بہت دور تک اداسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ میں نے نشان پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا۔

    ’’ٹھنڈی تیرا دیا ہوا یہ نشان اب میری پہچان بن گیا ہے، میرے پاسپورٹ اور تمام سرکاری کاغذات میں اس کی وہی اہمیت اور حیثیت ہے جو میرے نام اور ولدیت کی ہے۔ اس کے بغیر نہ میں، میں ہوں نہ میری تصویر میری۔ سرکاری کاغذات سے قطع نظر اب تو خود میں بھی اس کے بغیر اپنے ہونے کا تصوربھی نہیں کر سکتا۔ شاید میرے ہونے میں کہیں کچھ کمی رہ گئی تھی جسے اس نشان نے پورا کر دیا ہے۔‘‘

    ٹھنڈی نے بجھی بجھی سی آواز میں بہت دھیرے سے کہا،

    ’’اپنے نشان کو تو سنبھال کے رکھے ہو بھیا پر کبھی ہمارے نشان کی بھی فکر کی ہوتی، رام کا نام لے کے‘‘

    میں ٹھنڈی سے کیا کہتا۔ اسے کیسے سمجھاتا کہ جب زمینداروں اور جاگیرداروں کی اولاد کو گاؤں کی زمین بے دخل کر دیتی ہے تو ان پر کیا گزرتی ہے، انہیں کیا کیا سہنا پڑتا ہے اور وہ ان باتوں اور ایسے طعنوں کو سہنے کے لیے کہاں سے جگر لاتے ہیں۔

    ٹھنڈی مجھے اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ بڑا شاندار فلیٹ تھا اس کا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ اس کی بیوی پر لوک سدھار چکی ہے۔ لڑکے نے شادی کرلی ہے۔ بہو سگھڑ اور خوش اخلاق ہے لیکن ساس سے اس کی نبھ نہ کسی۔ ٹھنڈی نے بیوی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ یہاں تک کہہ دیا کہ یہ غریب صرف مسلمان کے گھر پیدا ہونے کی گنہگار ہے ورنہ تو اسے رام کا نام لے کے نہ کلمے یاد ہیں نہ قرآن کی آیتیں۔

    اس کی بیوی گنوار تھی لیکن اس نے دنیا دیکھی تھی۔ وہ بس ایک ہی بات کہتی رہی کہ اس لڑکی کے پہننے اوڑھنے اور اٹھنے بیٹھنے سے ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ کس مذہب اور کیسے گھر کی ہے۔ ٹھنڈی نے لاکھ اس سے کہا کہ آج کل کا ڈھنگ ہی یہ ہے۔ ان باتوں کو اب برا نہیں سمجھا جاتا لیکن اس کی بیوی ٹس سے مس نہ ہوئی، دوسرے چاہے ان باتوں کو برا نہ سمجھتے ہوں۔ اس کے نزدیک یہی باتیں ادھرمی ہونے کے لکشن تھے۔۔۔ ورنہ اتنی بات تو وہ بھی سمجھتی تھی کہ مسلمان ہونا کوئی پاپ نہیں۔ من مار کر لڑکے کی پسند کو وہ بھی پسند کر لیتی پر مشکل یہ تھی کہ لڑکی ڈھنگ کی مسلمان بھی نہیں تھی اور بڑھاپے میں ادھرمیوں کی سنگت کے خیال ہی سے اس کی روح کانپنے لگتی۔

    ٹھنڈی نے چائے کے لیے بہو کو آواز دی اور مجھ سے کہا،

    ’’مسلمان تو خیر بڑی چیز ہوتا ہے۔ رام کا نام لے کے ہم نے مسلمان دیکھے ہیں۔ اب تو ڈھنگ کا آدمی ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

    ٹھنڈی کی بہو نے آکر مجھے ہلو کہا اور ذرا توقف کے بعد انکل کا اضافہ بھی کردیا۔ پھر اس نے خبردی کہ ڈرائیور ہوٹل گیا ہے۔ ذرا سی دیر میں میرا سامان لے کر آ جائے گا۔ اس نے مجھ سے میرے خوردونوش کے معمولات دریافت کیے۔ یہ بھی پوچھا کہ گڈ فار بڈ ذیابطیس یا دل کے مرض جیسے کسی عارضے کی وجہ سے پرہیزی کھانا تو نہیں کھاتا۔ میں نے جب اس کی طرف دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کے لب و لہجے اور ناک نقشے نے مجھے میری بیٹی کی یاد دلادی تھی۔ اب یہ کہنا تو مشکل ہے کہ میری بیٹی اور ٹھنڈی کی بہو میں واقعی بڑی مشابہت تھی یا میرے اندر کے کسی جذبے نے اپنے طور پر دونوں کو ایک روپ میں ڈھال دیا تھا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ڈھونڈنے سے مجھے دونوں کے چہرے مہرے اور رنگ ڈھنگ میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آ رہا تھا، سوائے اس کے کہ میری بیٹی نے جس بوائے فرینڈ سے شادی کی وہ اتفاق سے مسلمان ہے۔

    میں نے ٹھنڈی کی بہو سے کہا کہ وہ میرے لیے کوئی خاص زحمت نہ اٹھائے بس اس بات کا خیال رکھے کہ میں ذیابطیس کا مریض ہوں۔ اس پر اس نے اطمینان کا سانس لیا اور یہ کہتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی کہ ہمارے یہاں ویسے بھی شکر استعمال نہیں کی جاتی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ٹھنڈی کی طرف دیکھا۔ اس نے اپنے ڈائبٹک ہونے یا نہ ہونے کے تعلق سے کچھ کہنا ضروری نہیں سمجھا اور مجھے یہ مناسب نہیں معلوم ہوا کہ میں اسے اس تعلق سے کچھ کہنے پر مجبور کروں۔ دراصل اپنی بیوی کو یاد کرکے ٹھنڈی بہت جذباتی ہو گیا تھا۔

    ’’آج جیسے تو اتفاق سے مجھے مل گیا ویسے ہی چار چھ مہینے پہلے مل جاتا تو کتنا اچھا ہوتا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’میں تجھے ارون کی ماں سے ملواتا۔ وہ بے چاری کسی ڈھنگ کے مسلمان سے ملنے کی حسرت اپنے ساتھ لے گئی۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر اس کی یہ حسرت پوری ہو جاتی تو رام کا نام لے کے وہ کچھ برس اور جی لیتی۔‘‘

    میں نے خوش طبعی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا،

    ’’مجھ سے مل کر کسی کی حسرت کیا پوری ہوتی۔ میں تو بے ڈھب آدمی ہوں۔ تو یہ بتا تجھے بڑے شہر میں ایک مسلمان نہیں ملا؟‘‘

    ’’مل جاتا تو بات ہی کیا تھی‘‘

    ’’اور جو یہ تیرے پڑوس کے محلے میں مسجد ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’مسجد تو ہے، میں وہاں گیا بھی تھا۔ مسجد کے دروازے پر ہی ’’بحکم اراکین مسجد ھٰذا‘‘ رام کا نام لے کے ایک ’’اہم اعلان‘‘ ٹنگا ہوا دیکھا۔

    ’’نمازی حضرات کو معلوم ہو اس کے مسجد کے اراکین، امام، موذن اہلسنت، جماعت ہیں اور حنفی مسلک پر ہی نماز ادا کی جاتی ہے جو عین قرآن اور احادیث کے مطابق ہے۔ لہٰذا ان حضرات سے ادب کے ساتھ عرض ہے جو لوگ آمین بلند آواز سے کہتے ہیں اور تکبیر سے پہلے یا شروع ہوتے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں، وہ مسلک حنفی کی خلاف ورزی کر کے فتنہ پیدا نہ کریں ورنہ اس کی ذمہ داری انہی کے سر ہوگی۔‘‘

    ٹھنڈی نے مجھے بتایا کہ یہ اعلان پڑھنے کے بعد اندر جانے یا باہر ہی کسی سے بات کرنے کی ہمت وہ نہیں جٹا پایا۔ جہاں مسلک کے فرق سے فتنے اٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں وہاں مذہب کا فرق جو نہ کرے وہ کم ہے! اور پھر ٹھنڈی ڈرا ہوا بھی تھا۔ دسمبر اور اس کے بعد جنوری کے فساد کی ہولناکیاں اس کے حواس پر چھائی ہوئی تھیں۔۔۔ پولس کی مدد بلکہ اس کی سرپرستی میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا اور فساد کے بعد ٹھنڈی جیسے بے قصور اور معصوم ہندو مسلمانوں کے محلوں سے گزرنے سے کتراتے تھے۔ بہ حالت مجبوری اگر ان کا وہاں سے گزر ہوتا تو ندامت کے بوجھ سے ان کی گردنیں جھکی ہوئی ہوتی تھیں اور دل میں یہ دھڑکا بھی لگا رہتا تھا کہ کہیں کوئی شہدا گلی میں کھینچ کر کام ہی تمام نہ کر دے۔

    ٹھنڈی وہاں سے الٹے پیروں لوٹ آیا۔ اس علاقے میں ذرا فاصلے پر ایک مسجد اور ہے۔ ناکے سے بائیں مڑکر بیس قدم چلیں تو مارکیٹ کے سامنے کی گلی میں پڑتی ہے۔ عصر اور مغرب کے بیچ کا وقت تھا۔ عصر کے نمازی جا چکے تھے۔ مغرب کے نمازی ابھی آئے نہیں تھے۔ ٹھنڈی نے باہر ہی سے بغور جائزہ لیا۔ اراکین مسجد کے حق میں دل سے دعا نکلی کہ انھوں نے دروازے پر کوئی بورڈ نہیں ٹانگ رکھا تھا۔ ٹھنڈی نے سر پر رومال باندھا اور رام کا نام لے کر مسجد میں قدم رکھا۔

    اندر دائیں جانب کونے میں ایک باریش شخص چند نوجوانوں کو دین کے ارکان یاد کروا رہا تھا۔ لڑکوں سے فارغ ہوکر وہ ٹھنڈی کی طرف متوجہ ہوا۔ ٹھنڈی کے سلام کا جواب دے کر اس نے مصافحے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے ٹھنڈی نے اپنا تعارف پیش کیا۔ نام سن کر باریش شخص اس کے ساتھ بڑی گرم جوشی سے پیش آیا۔ وہیں مسجد کے دائیں کونے میں پنکھے کے نیچے بیٹھ کر دونوں باتیں کرنے لگے۔ انھوں نے بابری مسجد کی شہادت پر ایک دوسرے کو پرسہ دیا۔ سماج میں پھیل رہی لامذہبیت پر تنقید کی۔ جب یہ سب ہو چکا تو ٹھنڈی نے بڑی امید کے ساتھ اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔

    ٹھنڈی نے اس سے کہا کہ بھائی ہم نہ مسلمان ہیں نہ حسینی، نہ برہمن، لیکن ہم لوگ حضرت امام حسین ے پشتینی عقیدت مند ہیں۔ آج عاشورے کا دن ہے۔ میرے گھر میں میٹھا پکا ہے۔ میں کسی دیندار مسلمان کی تلاش میں ہوں کہ اس سے فاتحہ پڑھواؤں۔ اگر آپ میری مدد کریں تو بڑی مہربانی ہوگی۔

    اس شخص نے ٹھنڈی کی مدد نہیں کی۔ فاتحہ کا نام سن کر اس کی گرمجوشی کی جگہ سرد مہری نے لے لی۔ ٹھنڈی تاڑ گیا کہ یہ مسجد ان مسلمانوں کی ہے جن کی وجہ سے اب گاؤں میں تعزیے نہیں رکھے جاتے اور نہ محرم کا جلوس نکلتا ہے۔ نشان کی مسجد اب صرف نام ہی کی نشان کی مسجد رہ گئی ہے۔ مسجد کے جس کمرے میں ضریح اور علم رکھے جاتے تھے پچھلے دس برسوں سے اس کے دروازے پر ایک بڑا سا تالا جھول رہا ہے۔ ٹھنڈی کے اس انکشاف نے میرا کلیجہ چھلنی کردیا کہ چا چا بلائیتی رام پر دل کا دورہ اور اس دروازے پر تالا دونوں ایک ساتھ پڑے تھے۔

    ٹھنڈی کے والد بلائیتی رام ولد سالگرام کی گاؤں میں نون مرچ کی دکان تھی۔ دکانداری کے ساتھ تھوڑی بہت ساہوکاری بھی کر لیا کرتے تھے۔ کاروباری حس بہت تیز تھی اور خوش مزاج بھی بہت تھے۔ بدیسی مال کے بائیکاٹ کے دنوں میں وہ اپنے نام کی وجہ سے اچھا خاصہ مذاق بن کر رہ گئے تھے۔ یار دوست تو یار دوست گاؤں کے بچوں تک نے انہیں نہ بخشا تھا۔ پہلے کوئی انہیں چاچا جی بلاتا تو کوئی چاچا بلائیتی رام۔ لیکن اب وہ ہر ایک کے لیے بلائیتی چاچا ہو گئے تھے۔ جب کوئی لونڈا انہیں بلائیتی چاچا بلاتا تو وہ چمک کر جواب دیتے بول دیسی بھتیجے!

    اس خیال سے کہ کہیں اس ہنسی مذاق کا اثر ان کی دکانداری پر نہ پڑے چاچا بلائیتی رام نے اپنی دکان پر جس پر پہلے کبھی کسی نے کوئی سائن بورڈ نہیں دیکھا تھا، ایک تختہ ٹانگ دیا۔ اس تختے پر جلی حرفوں میں لکھا تھا۔ ’’خالص اور صرف دیسی مال کی دکان۔ مالک فرزند سالگرام مرحوم‘‘

    اب تو فرزند سالگرام مرحوم خود مرحوم ہو چکے ہیں۔ ہوا یہ کہ سریو کے کنارے مسجد کی شہادت کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان کی املاک لوٹنے یا جلانے کا ایک سلسلہ سا چل پڑا۔ بعض جگہوں پر ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ ایسی کچھ کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور کچھ کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے پائیں۔۔۔ نشان کی مسجد کے مینار ایک ایسی ہی ناکام کوشش کے گواہ ہیں۔

    ہجوم نے چاچا بلائیتی رام سے بہت کہا کہ وہ ایک بے گناہ ہندو کی ہتیا کا پاپ اپنے سر لینا نہیں چاہتا لہٰذا وہ اس کے راستے سے ہٹ جائیں لیکن چاچا بلائیتی رام بس یہی کہتے رہے کہ میرے جیتے جی آپ لوگ نشان کی مسجد تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس تکرار میں خاصہ وقت نکل گیا۔ آخر کار مجبور ہوکر ان لوگوں نے چاچا بلائیتی رام کو روندتے ہوئے اپنی راہ بنائی۔

    اس دوران مسلمانوں کو اتنا وقت ضرور مل گیا کہ وہ مسجد کے دفاع کے لیے صف آرا ہو سکیں۔ ان کے مقابلے پر اتر آنے کی دیر تھی کہ ہجوم تتر بتر ہو گیا۔ اب ہجوم کی جگہ پولس نے لے لی۔ تربیت یافتہ پولس جوانوں نے لاٹھی اور بلم بردار مسلمانوں پر وہ اندھا دھند گولیاں برسائیں کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ نمازیوں کا حوض خون سے بھر گیا اور شام کی شفق مسجد کے در و دیوار سے لپٹ کر رونے لگی!

    بچے کھچے مسلمانوں کو پولس نے بلوہ کرنے اور بلائیتی رام ولد سالگرام کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا اور فائل قانونی کارروائی کے لیے آگے بڑھا دی۔ وہ تو کہیے کہ چاچا بلائیتی رام نے دس برس قبل ہی جب ان پر دل کا دورہ پڑا تھا بمبئی سے ٹھنڈی کو بلواکر وصیت کردی تھی ورنہ ان کی زندگی کے ساتھ ہی سب کچھ ختم ہو گیا ہوتا۔ ٹھنڈی کو ان کا ایک ایک لفظ آج بھی یاد ہے۔ انھوں نے کہا تھا،

    ’’بیٹا! ہم امام حسین کے غم کے امین ہیں۔ یہ ہمارے پرکھوں کی وراثت ہے۔ حضرت امام حسین کی عظمت پر مٹھی بھر لوگوں کا اجارہ نہیں ہو سکتا۔ اس غم کو سہارنے کے لیے پہاڑ جتنا بڑا کلیجہ چاہیے۔ ہر کسی کے بس کی یہ بات ہے بھی نہیں۔ ایسے لوگوں کی حرکت کا کیا برا ماننا جو اس غم کی عظمت کو نہ سمجھ سکے۔ میں آخری سانس تک اپنے دھرم کا پالن کروں گا۔ میرے بعد مجھے یقین ہے تم اپنا پتر دھرم نبھاؤگے لیکن ایک بات کی تاکید ضرور کرنا چاہوں گا۔ فاتحہ کے لیے کسی دین دار مسلمان کو ہی بلانا۔‘‘ ذرا سا وقفہ دے کر انھوں نے کہا تھا، ’’پریشان کیوں ہوتا ہے، ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔

    اس سال بمبئی میں عاشورہ جون کی آخری تاریخ یا جولائی کی پہلی کو پڑا تھا اور اس سے پہلے آٹھ دسمبر کے روز ٹھنڈی گاؤں کے شمشان سے پھول چوم کر لوٹا تھا۔ وہ یہ سوچ کر حیران رہ گیا کہ ان چھ مہینوں کے عرصے میں اتنا وقت گزر گیا تھا کہ دین دار مسلمان کی تلاش میں اسے خدا یاد آ گیا!

    ٹھنڈی کی بیوی بڑی مذہبی عورت تھی۔ اس نے زندگی میں کبھی ٹھاکر جی کو بھوگ لگائے بغیر ایک دانہ منہ میں نہیں رکھا تھا۔ اسے اپنی سیوا اور شردھا پر بڑا وشواس تھا۔ وہ نیاز کا برتن لیے تمام رات بیٹھی یہی مناتی رہی کہ ایشور چاہے اس کے پران لے لیں پر ایسا کچھ کریں کہ ہم اپنے اجداد کی روحوں کے سامنے شرمسار اور گنہگار ہونے سے بچ جائیں۔ رات آنکھوں میں ہی کٹ گئی۔ برتن رکھا رہ گیا اور پڑوس کے محلے سے موذن نے اذان دی!

    چاچا بلایتی رام نے کہا تھا ’’ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔‘‘ تو پھر ٹھنڈی کو مسلمان کیوں نہیں ملا؟ اب ٹھنڈی کس سے کہے کہ خدا کسی بھی جگہ مل سکتا ہے کیونکہ وہ ہر جگہ ہے لیکن دیندار مسلمان کا ہر جگہ پایا جانا شرط نہیں، وہ تو وہیں ملے گا جہاں ہوگا۔ پتہ نہیں اتنی بڑی دنیا میں وہ کہاں ہے؟

    ٹھنڈی کے نزدیک بمبئی کچھ ایسا برا شہر نہیں ہے مگر وہاں کے مسلمان کو آسمان پر ڈھونڈنے سے چاند نہیں ملتا اور قمری مہینے کی تاریخیں رام کا نام لے کر بڑھتی جاتی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسے شہر سے کوئی کیا امید رکھے جو گزشتہ کئی برسوں سے ایک شرعی گواہ فراہم نہ کر سکا۔ کیا شہر میں ایک بھی ایسا شرع کا پابند مسلمان نہیں رہا، جس کی بینائی سلامت ہو اور اگر ہے تو کیا وجہ ہے کہ بمبئی کے مسلمانوں کے نزدیک اس کی شہادت قابل قبول نہیں!

    یہ نہیں کہ ٹھنڈی کے دوستوں میں کوئی مسلمان نہیں ہے۔ بہت ہیں۔ سب کے سب بڑی خوبیوں کے مالک ہیں اور تقریباً ہر ایک کے بارے میں وہ یقین کامل کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ انھوں نے کبھی زندگی میں عیدین کی نماز ناغہ نہیں کی لیکن مسلمان اور دیندار مسلمان میں بڑا فرق ہوتا ہے وہی فرق جو زمین اور آسمان میں ہے۔۔۔ یا پھر۔۔۔ وہ فرق جو بصارت اور بصیرت میں ہے!

    قصہ مختصر یہ کہ اس عاشورے کے دن بمبئی میں وہ سب کچھ ہوا جو ہر سال ہوتا آیا ہے لیکن ٹھنڈی کے یہاں فاتحہ نہ ہوسکی۔ ٹھنڈی کی بیوی اس صدمے کو جھیل نہیں پائی اور دو چار مہینوں میں وہ غریب پر لوک سدھار گئی۔ ٹھنڈی بھی بجھ سا گیا۔ اس دن کے بعد ٹھنڈی کے گھر میں میٹھا نہیں پکا۔ میں نے ٹھنڈی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ یہاں کے شکر میں اب مٹھاس باقی نہیں رہی۔ ٹھنڈی نے کہا تھا،

    ’’اب ہماری زندگی میں نہ رس ہے نہ جس، بس جیے جا رہے ہیں۔ جی بھی کیا رہے ہیں بیٹھے تھوک نگل رہے ہیں۔ جب شکر ہی سے مٹھاس نکل جائے تو زندگی میں کیا رہ جاتا ہے۔ تو میرا ایک کام کر، وہاں مملکت خداداد میں اگر شکر جیسی شکر ملتی ہے تو میرے لیے بھیج دینا۔ مرنے کے بعد مجھے اپنی پرکھوں کی روحوں کا سامنا کرنا ہے!‘‘

    ٹھنڈی اپنی پرکھوں کی روحوں کا جب سامنا کرے گا تب کرے گا میں اس زندگی میں دوبارہ ٹھنڈی کا سامنا کرنے کا حوصلہ اپنے اندر نہیں پاتا۔ میں پاکستان کا شہری اور کراچی کا باشندہ ضرور ہوں لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں ذیابطیس کا پرانا مریض ہوں مجھے شکر کا ذائقہ تک یاد نہیں رہا اور دوسرے جس چیز کو شکر قرار دیتے ہیں اسے شکر قبول کرنے میں مجھے تامل ہے یہ شہر جو روزانہ ٹنوں کے حساب سے شکر کھا جاتا ہے اگر واقعی شکر کھاتا رہا ہے تو یوں دن رات زہر نہ اگلتا۔

    کچھ دن ہوئے ناشتے کی میز پر سب جمع تھے۔ مسجد میں نمازیوں کو گولیوں سے بھون ڈالنے کے واقعے پر بحث ہورہی تھی۔ میری بیوی، بیٹے، بہو حتیٰ کہ پوتے اور پوتی کے پاس بھی اس واقعے پر کہنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ رات میں نے دو ایک پیگ زیادہ ہی پی لیے تھے، کسل مندی سی چھائی ہوئی تھی اس لیے بڑی دیر تک خاموش بیٹھا سب کی سنتا رہا، یہاں تک کہ خود مجھے اپنا سکوت اکھرنے لگا۔ ابھی میں بحث میں حصہ لینے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ پتہ نہیں کیسے میرے منہ سے نکل گیا۔ ’’آپ لوگ نمازیوں کی شہادت کو رو رہے ہیں اب تو بمبئی میں جو ہو سو کم ہے۔‘‘ گھر والوں نے مجھے تقریباً پچکارتے ہوئے سمجھایا کہ یہ واقعہ کراچی کا ہے بمبئی کا نہیں اور پھر میں نے اپنے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’کیا فرق پڑتا ہے، بمبئی میں نہ ہوا کراچی میں ہو گیا۔ یہاں کے بھی تو کئی واقعے یہاں نہ ہو کر وہاں ہو چکے ہیں۔‘‘

    میری اس قسم کی بہکی بہکی باتوں کے گھر والے عادی ہو چکے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح بمبئی والے بمبئی کے اور کراچی والے کراچی کے عادی ہو گئے ہیں!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے