Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بٹائی کے دنوں میں

دیوندر ستیارتھی

بٹائی کے دنوں میں

دیوندر ستیارتھی

MORE BYدیوندر ستیارتھی

    کہانی کی کہانی

    ظالم تبھی تک حملہ آور رہتا ہے جب تک آپ خاموش ظلم سہتے رہتے ہیں۔ سنتو دیوان صاحب کو فصل میں سے اس کا حصہ دینے سے منع کر دیتا ہے۔ سنتو جب حصہ نہ دینے کی بات کرتا ہے تو کچھ لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہتا ہے۔ دھیرے دھیرے اور لوگ بھی اس مہم میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پورا گاؤں بنٹائی نہ دینے کے لیے متحد ہو جاتا ہے۔ گاؤں میں پولیس آتی ہے اور سنتو کو گرفتار کر کے لے جاتی ہے۔ پولس کی بے تحاشہ مار کے بعد بھی وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور کہتا رہتا ہے کہ بنٹائی کے دن گیے۔

    پچھم کی طرف سے آنے والی ہوا کے نیچے گیہوں کے پودے سر ہلا رہے تھے۔ کنکوت کے لیے ریاست کا سرپنچ کھیت کی مینڈ پر کھڑا تھا۔ دیوان صاحب کا آدمی مونچھوں کو تاو دے رہا تھا۔ فصل کا جائزہ لیتے ہوئے سر پنچ نے فیصلہ کیا کہ کوئی ساٹھ ایک من دانے ہوں گے۔ جو کام پہلے آدھ گھنٹہ مانگتا تھا۔ اب چند ہی منٹوں میں ختم ہوجاتا تھا۔ کسان نمائندہ موجود رہتا تو اب کے یہ بے نظیر ہمواری کنکوت کی خصوصیت ہرگز نہ ہونے پاتی۔

    کنکوتیے بہت دور نکل گئے تھے۔ سنتو اپنے دل میں حساب لگانے لگا۔ اس کا مطلب ہوا بیس من دیوان کے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں مہینوں محنت کرتا رہا ہوں، میں نے خون پسینہ ایک کیا ہے۔

    اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا تو سنتو چھ فٹ کا جوان دکھائی دینے لگا۔ کھلے ہاتھ پاؤں گلے میں پڑا ہوا تعویذ ٹوٹے ہوئے کان، وہ پہلوان دِکھائی دیتا تھا۔ تہمد کو اوپر اٹھا کولھوں پر رکھتے ہوئے وہ سوچنے لگا۔۔۔بیس من۔۔۔ہم آج تک دیوان کو اپنی زمینوں سے کھلاتے رہے ہیں۔ سارا سال زمین میں ہل جوتیں ہم، بیلوں کے ساتھ بیل بنیں ہم اور پھر جب ہماری محنت کے نتیجے میں دھرتی کی آشائیں آنکھیں کھول دیتی ہیں، اناج ہی اناج ہو جاتا ہے تو دیوان کہتا ہے کہ میرا حق پہلے مجھے مل جائے زمین اصل میں میری ہے۔

    اجاگر نے آکر بتایا کہ اس کے کھیت کی کنکوت بھی ہو گئی۔ کنکوتیے پچاس من دانے لکھ کر لے گئے ہیں۔ اجاگر نے اپنے چادرے کو گلے سے اتارا اور ہاتھ پھیلا دیئے وہ ایک بڑاسا پرندہ دکھائی دینے لگا، جو اڑ کر آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرنے والا ہو۔سنتو کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ بولا، ’’میں کہتا ہوں دیوان ریاست کے سرپنچ سے ملا ہوا ہے۔ یہ کنکوت کا طریقہ بھی کتنا برا ہے۔ بیکار ہی ہم کنکوت کے لیے لڑتے رہے تھے۔ اب بھلا میرے کھیت میں پچاس من دانے کہاں ہوں گے؟ اس سے تو یہی اچھا تھا پہلے کی طرح کہ کٹائی ہو چکنے پر ہماری جنس تول لی جاتی اور دیوان کے حصے کا ایک تہائی اناج دیوان کے گھر پہنچا دیا جاتا۔‘‘

    بڈھا رحیمو اس اثنا میں رہٹ کی گادھی پر آبیٹھا تھا۔ اجاگر کی بات پر وہ خاموش رہا۔ سنتو نے اپنی نوخیز مونچھوں پر ہاتھ پھیرا اور سامنے پیپل کے نیچے سمادھ کی طرف دیکھتا ہوا بولا، ’’سوگند ہے مجھے بابا ٹہل سنگھ کی اگر میں دیوان کو ایک دانہ بھی دے جاؤں۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ زمین ہماری ہے۔ شہر سے آنے والا بابو بھی اس دن ہمیں یہی بتا رہا تھا۔‘‘

    بڈھا رحیمو ایک ڈرپوک آدمی تھا اور ریاست کے ہر معاملے میں مصلحت کے طور پر جبر کے آگے سر جھکا دیا کرتا تھا۔ اس میں مصیبت اور ظلم سے جنگ کرنے کی صلاحیت مر چکی تھی۔ حقے کا ایک لمبا کش لگاتے ہوئے وہ کھانس کر بولا، ’’ارے سنتو! جانے بھی دو۔ دس بیس سیر دانے زیادہ بھی دینے پڑ گئے تو کیا ہو گیا؟ ایسا نہ ہوکہ تجھے پیاز بھی کھانے پڑیں اور جوتے بھی۔ یہ پیاز اور جوتوں کا وہ قصّہ بھی سنا ہے نا؟‘‘ اور جواب کا انتظار کیے بغیر ہی وہ سنانے لگا،

    ’’ایک تھا جولاہا۔ پتہ نہیں سالا کیا قصور کر بیٹھا کہ پنچایت میں ایک دن یہ طے پایا کہ وہ چاہے تو سو جُوتے کھالے، چاہے تو ایک سو پیاز کھا لے۔ اس نے کہا۔ پیاز منگوا لو۔ اس نے دس بارہ پیاز بھی نہ کھائے ہوں گے کہ سالا تنگ آگیا۔ بولا۔۔۔پیاز کھانا کٹھن کام ہے، جوتے ہی کھا لیتا ہوں۔ پھر اس کے سر پر تڑا تڑ جوتے پڑنے لگے۔ اُس کی چیخیں نکل گئیں۔ بولا۔۔۔جوتے نہیں۔۔۔پیاز۔۔۔پیاز، سر پنچ بادشاہ! لیکن وہ لگاتار اتنے پیاز بھی نہ کھا سکتا تھا۔ پھر جوتے، پھر پیاز، پھر جوتے، پھر پیاز آخر حساب کرنے پر پتہ چلا کہ سالا سوکے سو جوتے بھی کھا گیا اور کوئی ایک کم سو پیاز بھی۔‘‘

    سنتو اپنے ڈھیلے تہمد کو درست کرنے لگا۔ اجاگر بھی کچھ نہ بولا، رحیمو گادھی پر بیٹھا حقے کے کش لگاتا رہا۔ بیچ بیچ میں اس کی آنکھیں مِچ جاتیں شاید اس کے دماغ میں بھولے بسرے دھندلے دھندلے خیالات تیر رہے تھے۔ کوئی اور سماں ہوتا تو سنتو کو رحیمو کے جھریوں والے جتے ہوئے کھیت جیسے چہرے پر ان آنکھوں کی یہ کیفیت دیکھ کر کسی مندر کے پٹ بند ہونے اور کھلنے کا گمان ہونے لگتا۔ اس نے سوچا کہ رحیمو اس پرانے رہٹ کی طرح ہے جو ہمیشہ ایک ہی سر میں اپنا الاپ جاری رکھتا ہے۔ سر سے پاؤں تک اس کے بدن میں ایک کپکپی سی دوڑ گئی، ’’کھیتوں کے دیوان تو ہم کسان خود ہیں۔۔۔خود کسان، رحیمو چچا۔‘‘ وہ بولا، ’’میں اب کے ایک دانہ بھی دیوان کو دے جاؤں تو مجھے سنتو مت کہنا۔ کچھ پروا نہیں اگر مجھے پیاز بھی کھانے پڑیں اور جوتے بھی کھانے پڑیں۔‘‘

    اجاگر نے قہقہہ لگایا اور رحیمو کی داغی بیروں جیسی آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، ’’بابا! میں تو باز آیا پیاز اور جوتے کھانے سے۔‘‘

    گیہوں کی بالیاں سائیں سائیں کی آواز کے ساتھ ہوا کی تیز رفتاری کا قصہ بیان کرنے لگیں۔ بادلوں کے ہلکے، گہرے سائے دور تک پھیل گئے تھے۔ قریب ہی ایک پگڈنڈی تنی ہوئی تھی جس پر ایک دلہن قطار سے بچھڑی ہوئی کونج کی طرح اپنی دُھن میں چلی جارہی تھی۔ اس کی پازیب کی جھنکار آہستہ آہستہ خاموش ہو گئی۔ رحیمو چچا نے حقے کا ایک پرزور کش لگایا۔

    اجاگر رحیمو چچا کی باتوں میں الجھ کر رہ گیا۔ لیکن سنتو اپنی تیل پلائی ہوئی لوہے کے مٹھے والی لاٹھی اٹھاکر گاؤں کی طرف چل پڑا۔ ڈوبتے ہوئے سورج کی آخری کرنیں مٹھے کی ہموار سطح پر پھیل گئیں۔ دور کہیں سے گیت کی آواز آرہی تھی۔۔۔ ’’کوئی لے گیا بھگت چراکے، برہمے دیاں دیداں نوں۔۔۔!‘‘ نغمے کے زیر وبم نے سنتو کو بیقرار کر دیا۔ ایک لمحے کے لیے اسے دنیا بھر کی بے انصافی کا راز معلوم ہو گیا۔ برہما کے پاس وید ہی نہیں رہے۔ نہ جانے کون بھگت انھیں چرا لے گیا۔

    اوپر آسمان پر رات کا دولھا سنجیدہ نظر آتا تھا۔ گیہوں کے کھیت چاندنی میں اونگھ رہے تھے۔ سرپنچ کے الفاظ سنتو کے ذہن میں سوئیوں کی طرح چبھنے لگے۔۔۔کوئی ساٹھ ایک من دانے ہوں گے۔ فصل میں ایک تہائی حصہ دیوان کا نہ ہوتا تو وہ کسی کے منہ سے یہ الفاظ سن کر اس کا مرید بن جاتا اور کہتا، واہگورو کا پرتاپ چاہیے، ساٹھ کے بھی اسّی من دانے نکلیں گے۔ کل ساٹھ من دانے۔۔۔! یعنی بیس من دیوان کے اور میرے پاس رہ جائیں گے کل چالیس من! اس کے منہ کا مزہ پل بھر میں ناخوشگوار ہو گیا۔ جیسے اس کی زبان کچے پیلو کو اگل کر باہر پھینک دینا چاہتی ہو۔ وہ کوئی شاعر ہوتا۔ تو سرپنچ کی ہجو میں ایک لمبی نظم لکھ ڈالتا۔ جس کے ایک ایک لفظ میں دنیا بھر کی نفرت پرو دیتا اور اس وقت سرپنچ کہیں مل جاتا، تو لوہے کی مٹھے والی لاٹھی اس کے سر پر اتنے زور سے برستی کہ وہ دیکھتے دیکھتے زمین پر گر پڑتا۔ اس کی رگیں مونج کی بوسیدہ رسیوں کی طرح ایک بھرپور ہاتھ کا زور بھی نہ سہہ سکتیں اور وہ دیوان کا آدمی، جسے ہمیشہ مونچھوں پر تاؤ دینے سے کام رہتا ہے، ایک پچکے ہوئے لہسوڑے کی طرح نظر آتا۔ ایک ہی وار کے بعد۔ اس کی آنکھیں چاند کی طرف اٹھ گئیں، چاند اسے گھور رہاتھا۔ جیسے کہہ رہا ہو، یوں نہیں بند ہونے کی یہ برسوں سے چلی آنے والی بٹائی، مورکھ! ایک سرپنچ کو مار ڈالوگے، دوسرا کوئی اس کی جگہ کھڑا نظر آئےگا۔ دیوان کو تو ایک چھوڑ بیس ملازم مل سکتے ہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ چِلاّکر چاند کو بتا دےگی کہ جاگی ہوئی بغاوت اب سوئے گئی نہیں۔ وہ چاہتا تھا۔ کہ کوئی بھوت اس کے بس میں آ جائے اور رات گذرنے سے پہلے پہلے اس کا اشارہ سمجھ کر سب کے سب کھیت جلا ڈالے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کسان برباد ہو جائیں گے اور مجبوراً اپنی ماتر بھومی کو چھوڑ کر دور کسی شہر کی طرف چل پڑیں گے۔ مگر کم ازکم اس چاٹ کو پیاس بجھانے کی نوبت نہ آئےگی۔ کھیتوں میں کھڑی ہوئی فصلیں جل کر راکھ ہو جانے پر دیوان کو بھی نانی یاد آ جائےگی۔ پھر کس سے بٹائی لےگا؟

    اس کی آنکھیں ایک بار پھر چاند کی طرف اٹھ گئیں۔ چاند اسے گھور رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو، ارے کل کے چھوکرے! تیری عقل کو کوئی بھینس تو نہیں چر گئی؟ یہ بھی کوئی طریقہ ہے دیوان سے دشمنی مول لینے کا؟ تم چلے جاؤگے تو اور لوگ آئیں گے۔ یہاں تو تمھاری ہی طرح بیلوں کے ساتھ بیل بن کر کھیتی کریں گے اور اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی کا ایک تہائی اپنے دیوان کو دیتے رہیں گے۔ اب یہ بٹائی بند نہیں ہونے کی۔ اس پر قانون کی مہر لگ چکی ہے۔

    اس کے قدم اٹھائے نہ اٹھتے تھے۔ دماغ میں چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں۔ جیسے یہ اندر ہی اندر جسم کے مختلف حصوں تک سرنگیں کھودنے کی فکر میں سرگرداں ہوں۔ یہ تذبذب اس کے لیے ایک نئی چیز تھا۔ جیسے اس کے دل و دماغ میں یہ ڈگڈگی کی طرح مسلسل حرکت کبھی ختم نہ ہوگی۔ چاند پر ایک سرکش بادل چھا گیا اور اب یہ ایک اندھا لیمپ معلوم ہو رہا تھا، تاروں میں بھی ایک مری ہوئی روشنی باقی تھی۔ راستے کے کنارے کنارے کھڑے ہوئے درخت بیحد بھیانک اور پراسرار نظر آتے تھے۔

    اب وہ وہاں پہنچ گیا تھا، جہاں راستہ نیچے کو اترتا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ کسی زمانہ میں یہاں سے ایک دریا گزرتا تھا۔ اس نے سوچا کہ دریا بھی راستہ بدل لیتے ہیں۔ مگر ہم نے انسان ہوکر پرانے راستوں سے لو لگا رکھی ہے۔ دور کہیں سے بیلوں کے گلے کی گھنٹیوں کی آواز آ رہی تھی، جِسے راہگیروں کی خوش گپیاں بیچ بیچ میں چیر جاتی تھیں۔ دریا کا خشک پاٹ ختم ہونے پر راستہ اوپر کو چڑھنے لگا۔ جونہی وہ اونچی سطح پر پہنچا اس کے دماغ میں ایک گیت کے سر گھومنے لگے۔ جس میں گیہوں سے یہ التجا کی گئی تھی کہ وہ اب کے مہنگے بھاؤ بک کر دکھائے۔ گیہوں کا بھاؤ بھی بدلتا رہتا ہے۔ انسان کو بھی بدلنا چاہیے وقت کے ساتھ ساتھ۔ اب کسانوں کو چاہیے کہ سر جوڑکر بیٹھیں اور اپنے بھلے کی کوئی راہ نکالیں، بٹائی بند کرا دیں۔

    گھر پہنچتے ہی وہ کھا، پی کر کھردری کھاٹ پر لیٹ گیا۔ وہ چپ چاپ پڑا رہا۔ بٹائی کے خلاف شور مچانے کا خیال اس کے ذہن میں زور پکڑتا گیا۔ کسان آخر کسان ہیں۔ نرے ریشم کے کیڑے نہیں ہیں جو دھیرے دھیرے اپنے کو سنہری کویوں میں لپیٹتے چلے جاتے ہیں اور اپنے گرد شہتوت کے سبز پتّے دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ان کا ننھا سا سورگ ہمیشہ کے لیے آباد رہےگا۔ جب تک یہ بٹائی قائم ہے۔ ہمارا گاؤں سکھ کی سانس نہیں لے سکتا۔ کوئی ساٹھ ایک من دانے ہوں گے۔ یعنی بیس من دیوان کے پر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ سوگند ہے مجھے بابا ٹہل سنگھ کی اگر گیہوں کا ایک بھی دانہ کسی کے کھیت سے بھی دیوان کے گھر جانے دوں۔

    گاؤں کی تاریخ، جو وہ چچا رحیمو سے مزے لے لے کر سنا کرتا تھا، اس کے ذہن میں منڈلانے لگی۔ پُرانے وقتوں میں جب ریاست کی بنیاد بھی نہ رکھی گئی تھی، اس کے گرد و نواح میں بڑی بدعملی پھیلی ہوئی تھی۔ کہیں نہ کہیں سے ڈاکو آنکلتے اور لوگوں کو لوٹ کر چلتے بنتے، پھر ایک گھڑسوار بہادروں کا ایک گروہ آیا۔ یہ سب ایک ہی کنبے کے آدمی تھے۔ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ ان کی حفاظت کے لیے یہیں رہا کریں گے۔ لوگوں نے انھیں بخوشی اپنی اپنی فصل کا ایک چھوتھائی حصہ بطور شکرگزاری دینا شروع کر دیا۔ اس اثنا میں ریاست کی بنیاد رکھی جاچکی تھی اور اس کی حدود دور دور تک پھیل گئی تھیں۔ مگر ہمارے گاؤں پر ریاست کا قبضہ نہ ہوا۔ گھڑسوار بہادروں نے یہاں اپنی چھوٹی سی خود مختار حکومت قائم کر رکھی تھی۔ پھر جب سکھوں کا راج ختم ہو گیا اور ہمارا گاؤں عملداری میں آ گیا۔ تو سرکار نے اپنے بندوبست میں بٹائی منسوخ کر دی اور اس کی بجائے دیوان کے لیے نقد رقم کی صورت میں لگان مقرر کر دیا۔ بعد ازاں یہ گاؤں ریاست کو دے دیا گیا۔

    دیوان چاہتا تھا کہ مہاراج اپنے خاص حکم سے نقد لگان کی بجائے پھر سے بٹائی رائج کر دیں۔ لیکن مہاراج نے کہا۔’’میں زبردستی نہ کروں گا۔ اگر خود کسانوں کو رضامند کر لو تو میں منظوری دے سکتا ہوں۔‘‘ دیوان نے ہمارے باپ داداؤں کو نشہ پلا کر اپنے کاغذ پر ان کے انگھوٹھے لگوا لیے، مہاراج نے بھی منظوری دے دی۔ دیوان نے سرکردہ کنبوں کو اپنی طرف سے رشوت دے رکھی تھی وہ کچھ نہ بول سکتے تھے۔ پھر بٹائی شروع ہو گئی۔ ایک چوتھائی کے بجائے ایک تہائی۔ چچا رحیمو کا خیال تھا کہ یہ سب خدا کی باتیں ہیں۔ اُسی کے حکم سے پرانے راج جاتے ہیں۔ اس کے حکم کے بغیر تو پتہ تک نہیں ہل سکتا۔ آدمی کو چاہیے کہ چپ چاپ اس کا حکم مانتا چلا جائے۔ کوئی باغی خدا کی لاٹھی سے بچ نہیں سکتا۔ بٹائی نہیں ٹوٹنے کی۔ راجہ کا حکم اس کے ساتھ ہے، خدا کا حکم بھی اس کے ساتھ ہے۔

    لیکن یہاں پہنچ کر سنتو کا انداز فکر چچا رحیمو کا ساتھ نہ دے سکتا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ یہ صرف ان کے اجداد کی مصلحت پسندی کی ایک دلیل ہے کہ انھوں نے حالات کے ماتحت ڈاکوؤں سے بچنے کے لیے چند بہادر گھڑسواروں کو اپنا سرپرست منظور کر لیا اور اب تک ہم ان کے خاندان کو بٹائی دے رہے ہیں۔ اب اگر مہاراج ایک تہائی کی بجائے ایک چوتھائی بٹائی کا حکم دیں تو بھی ہماری تسلی نہیں ہو سکتی۔ ہم چاہتے ہیں ہماری گردنوں پر ظلم کی اس تلوار کا چلنا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔ ہمیں نہ نقد لگان دینا منظور ہے نہ یہ بٹائی۔۔۔یہ سسری بٹائی!

    انگڑائی لے کر اس نے کروٹ بدل لی اور سوچ میں ڈوب گیا۔ اپنے ذہن میں اسے وہ تھرتھر کانپتا ہوا بکرا صاف نظر آ رہا تھا، جس نے دو کسانوں کو اس بات پر الجھتے دیکھ کر کہ بکرے کو ذبح کرنے کا اصل طریقہ جھٹکا ہے یا حلال، تڑپ کر کہا تھا۔۔۔کاش کوئی میری رائے بھی پوچھے۔۔۔

    اسے یاد آیا کہ شہر سے آنے والے اس بابو نے ایک بار اسے بتایا تھا کہ شروع تاریخ سے ہمیشہ سے سرکار کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ کسانوں کو اتنی ہی روٹی ملے جس سے وہ زندہ رہ سکیں اور اپنا کام کرتے چلے جائیں۔ یہی کوشش رہی ہے کہ کسان کو دبا کر رکھا جائے۔ ذرا کوئی کسان زور پکڑنے لگا کہ ایک بہت زبردست طعنہ گاؤں کی فضا میں گونج اٹھا، ’’بھکھے جٹ کٹورا لبھا پانی پی پی آ پھر یا۔‘‘ یعنی کمزور کسان کو کٹوری مل گئی اور وہ پانی پی پی کر پھر گیا۔ لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ روس میں کسان مزدور کا راج قائم ہو چکا ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ کسان مزدور کا راج یہاں قائم ہونا چاہیے، بٹائی ضرور مٹ کر رہےگی۔۔۔یہ سسری بٹائی!

    اوپر آسمان پر ٹھیک اس کی کھاٹ کے اوپر، کہکشاں نے پکے ہوئے کھیت کا روپ دھار رکھا تھا۔ وہاں کون کھیتی کرتا ہے۔ وہ سوچنے لگا، اس کی کنکوت کون کرتا ہے؟ بٹائی کون لیتا ہے؟

    گیہوں کی کٹائی زوروں پر تھی۔ ہنسیے کہتے تھے ہمارے دانت تیز ہیں۔ ہمارے دانت ہمیشہ تیز رہیں گے۔ لوک گیتوں کی شعریت کی طرح دھرتی کی آبرو اجاگر ہو اٹھی تھی۔ کسان سوچتے کہ بٹائی کے دانے دے کر بھی ان کے گھروں میں اتنا اناج پہنچےگا کہ وہ پرانے قرضوں سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ چار دن زندگی کو گدھا ناچ کے تال پر تھرکتے پائیں گے۔

    کھلیان ہی کھلیان۔ مٹی کتنا سونا اگلتی آئی تھی۔ کسان خوش تھے۔ ان کے قہقہے دھرتی کی زندہ شکتی کے ترجمان تھے۔ کونجوں کی آخری قطاریں جو دور ہمالہ کے اس پار اپنی ماتربھومی کو لوٹ رہی تھیں۔ کسانوں کا دھیان کھینچ لیتیں۔

    چچا رحیمو نے اجاگر کا کندھا جھنجھوڑکر کہا، ’’کنکیں، کونجیں منیہا، جے رہن بیساکھیں‘‘ شروع دنیا سے گیہوں ٹھیک موسم میں پکتا آیا ہے اور ہمالہ پار کی کونجیں میدانوں میں جاڑے کے دن گزار کر گرمیاں شروع ہوتے ہی اپنے وطن کے لمبے سفر پر تیار ہوتی آتی ہیں۔ اگر گیہوں وقت پر نہ پکے اور کونجیں بیساکھ شروع ہوتے ہی اپنے سفر کی تیاری سے چوک جائیں، تو یہ دونوں کے لیے طعنے کی بات ہوگی۔

    اجاگر بولا، ’’آدمی ہونے کی بجائے ہم بھی ہمالہ پار کے پنچھی ہوتے، تو نہ کوئی ہمارے کھیتوں کی کنکوت کرتا۔ نہ ہمیں بٹائی کی مصیبت جھیلنی پڑتی۔‘‘

    چچا رحیمو حقے کے لمبے لمبے کش لگاتا رہا۔ وہ اُجاگر کی بات پر ہنس دیا، ’’ناشکرا۔۔۔خدا کا شکر نہیں کرتا۔ اتنی اچھی فصل میں سے دیوان کو تھوڑا اناج دیتے ہوئے موت تو نہیں آ جائےگی۔ خدا تو سب کا رازق ہے۔ وہ دیوان کا بھی رازق ہے۔‘‘

    اس وقت سنتو وہاں آنکلا اور بولا،’’لو چچا رحیمو! پنچایت میں آج یہ طے ہو گیا ہے کہ بٹائی نہیں دی جائےگی۔‘‘

    چچا رحیمو نے ہنس کر کہا، ’’سب سے بڑے ناشکرے تو تم ہو۔ بٹائی لینے والا اپنی بٹائی کیسے چھوڑ دےگا؟ چھوکروں کی پنچایت کی اس وقت کوئی پیش نہ جائےگی۔ جب پولیس کے سپاہی تمھیں پکڑ لے جائیں گے۔‘‘

    ’’پنچایت نرے چھوکروں کی تھوڑی ہے چچا رحیمو۔ تم نہ شامل ہوئے تو پنچایت کیسے رک جاتی؟ گاؤں کے دوسرے بڈھے تو شامل تھے۔ اب پولیس کا ڈر بھی پنچایت کے فیصلے کو روک نہیں سکتا اور میں دیکھوں گا کہ چچا رحیمو کب تک پنچایت سے باہر رہ سکتا ہے؟‘‘

    چچا رحیمو نے اپنے پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے حقے کا کش لگایا۔ پہلے وہ چپ رہا۔ سنتو کو اپنے ارادے پر اٹل دیکھ کر اس نے جھٹ اپنی بات کو پلٹتے ہوئے کہا، ’’میں اکیلا کیسے الگ رہ سکتا ہوں۔ اجاگر بھی تو تمھارا ساتھی معلوم ہوتا ہے۔ تمھارے ساتھ میں بھی پیاز اور جوتے کھانے کو تیار ہوں۔‘‘

    پنچایت کا حکم تھا کہ کوئی بٹائی نہ دے۔ سب گیہوں کھلیانوں ہی میں پڑا رہے۔ پولیس آئےگی اور زبردستی بٹائی کے دانے دلانے کی کوشش کرےگی۔ ہو سکتا ہے کہ دیوان ہمارے کچھ لوگوں کو رشوت دے کر اپنی طرف کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن بابا ٹہل سنگھ کی سمادھ پر کیا فیصلہ سارے گاؤں کو منظور تھا۔ واضح طور پر پنچایت نے لوگوں کی اس جدوجہد کے مختلف پہلو سمجھا دیے تھے۔ کوئی پروا نہیں اگر ان کے کھلیان لہو سے لال ہو جائیں۔ بٹائی سے ضرور خلاصی مل جائےگی۔

    نمبردار نے بہت کوشش کی کہ چچا رحیمو پنچایت میں شامل ہونے سے انکار کر دے۔ دیوان کی طرفداری کرنے پر اسے بہت کچھ مل سکتا تھا۔ لیکن اس نے کسی طرح کی رشوت لینے سے انکار کر دیا اور کہا، ’’پنچایت کا فیصلہ اللہ پاک کا فیصلہ ہے۔ ہم بزرگوں سے سنتے چلے آئے ہیں کہ آواز خلق کو اللہ پاک کا نقارہ سمجھو۔‘‘

    کھلیانوں میں ہمیشہ ایک ہی گیت گونجتا رہتا،

    ’’دینا نہیں کنک دا دانہ

    بچہ بچہ قید ہو جائے!‘‘

    ہم گیہوں کا ایک بھی دانہ نہ دیں گے، بھلے ہی بچہ بچہ قید ہو جائے۔

    مردوں سے کہیں زیادہ جوش عورتوں میں نظر آ رہا تھا۔ عورتوں کا جلوس مائی امرتی کے کنوئیں سے شروع ہوتا اور سیدھا دیوان کے دروازے پر جا پہنچتا۔ اس جلوس میں ہر عمر کی عورتیں اور لڑکیاں شامل ہوتیں۔ ’’دینا نہیں کنک دا دانہ، بچہ بچہ کید ہو جائے۔‘‘ یہ گیت فضا میں گونج اٹھتا۔ بٹائی کے خلاف طرح طرح کے نعرے لگائے جاتے۔ پہلے دیوان نے اسے چند روز کا تماشا سمجھ کر بے توجہی دکھائی۔ لیکن عورتوں کے جوش میں کسی طرح کی کمی کا امکان نظر نہ آتا تھا۔ اب تو عورتیں دیوان کے دروازے پر چھاتیاں پیٹنے کا مظاہرہ شروع کر دیتیں۔ہائے ہائے کے نعرے اس احتجاجی ماتم کی جان معلوم ہوتے تھے۔ دیوان حیران تھا، پولیس حیران تھی۔ اوپر سے حکم آئے بغیر عورتوں پر کسی طرح کی سختی نہ کی جا سکتی تھی۔

    رات کو دو دو تین تین فرلانگ سے مگھّر کے نعرے سنائی دیتے۔ جن سے وہ گاؤں کے لوگوں کو بٹائی کے خلاف ڈٹے رہنے کے لیے برابر اکساتا رہتا۔ دس سال کلکتے میں رہ کر وہ اگلے ہی مہینے گاؤں میں آیا تھا۔ منہ پر گراموفون کا بھونپو لگاکر وہ اپنی آواز کو دور دور تک پہنچا دیتا۔ عورتیں سوچتیں کہ ضرور اس نے بھوت بس میں کر رکھے ہیں اور وہ اپنا نیا گیت اجتماعی لَے میں گاتیں۔ جو کچھ اس طرح شروع ہوتا کہ گھر گھر بیٹوں کا جنم ہوتا ہے۔ مگر مگھّر جیسا بہادر کبھی کبھار ہی پیدا ہوتا ہے۔ پولیس بھی سانپ کی طرح پھن مار کے رہ جاتی۔ مگھر کو پکڑنا آسان نہ تھا۔

    کھلیانوں کو عورتوں کی نگرانی میں چھوڑکر، سب کسان ایک دن بابا ٹہل سنگھ کی سمادھ پر اکٹھے ہوئے۔ پولیس کے سپاہی موقعہ پر موجود تھے۔ گھڑسوار سپاہیوں کا ایک دستہ جو حال ہی میں ریاست کی راجدھانی سے چل کر یہاں آیا تھا۔ ہر طرح کی سختی پر آمادہ نظر آتا تھا۔ چچا رحیمو نے قہر آلود نگاہوں سے گھڑسواروں کی طرف دیکھا اور اپنی جگہ پر کھڑے ہوکر کہنا شروع کیا،

    ’’جب میں بچہ تھا تو ہمیشہ اپنی بہن سے کہا کرتا تھا کہ اپنی کوہنی یا ناف کو زبان سے چھونے میں کامیاب ہو جاؤ تو تم لڑکی سے لڑکا بن سکتی ہو۔ وہ لاکھ کوشش کرتی پر ناکام رہتی۔ سیانی ہونے پر وہ بیاہی گئی، تین بچّوں کی ماں بنی، بڑی نیک عورت تھی۔ میرا مذاق ہمیشہ قائم رہا۔۔۔کیوں بہن عورت سے مرد بنوگی؟ وہ گھور کر میری طرف دیکھتی۔۔۔اور اب اس گاؤں کی عورتوں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ کسی طرح بھی اپنے مردوں سے پیچھے نہیں۔ مردوں کو چاہیے کہ پنچایت کی آواز سن لیں اور جو فیصلہ ایک بار وہ کر چکے ہیں اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔‘‘

    اس کے بعد اجاگر نے ہاتھ جوڑکر ساری پنچایت کی فتح بلائی۔۔۔ ’’بولو جی گرج کر شری واہگورو سادھ سنگت جی! میں نے سنا ہے کہ پہلے وقتوں میں ہر کسی کی ناف پر گوشت کی ایک ڈھکنی سی لگی رہتی تھی، جسے اُٹھا کر جب بھی کوئی چاہتا یہ دیکھ سکتا تھا کہ اس نے اس دن کیا کھایا ہے؟ ایک بار ایک لڑکی اپنے خاوند کے ساتھ میکے میں آئی۔ اس نے اپنے خاوند کو اچھی اچھی چیزیں کھلائیں اور اسے خود صرف روٹی اور ساگ ہی ملا۔ خاوند نے پوچھا تم نے کیا کھایا بولی وہی جو تم نے کھایا۔ جب وہ سو گئی خاوند نے اس کی ناف پر سے ڈھکنی اٹھاکر دیکھ لیا اور سب بات سمجھ گیا لڑکی کو معلوم ہوا تو اس نے دعا مانگی، ہے سچے واہگورو ناف پر کی ڈھکنی کو اب ہر مرد اور عورت کے جسم کے ساتھ ہی جوڑ دو تاکہ کوئی کسی کے بھوجن کے راز سے واقف نہ ہو سکے اور ایسا ہی ہو گیا۔ ناف پر کی ڈھکنی کو جسم کے ساتھ جوڑکر واہگورو نے کیا اچھا کیا۔ میں نہیں سمجھتا کاش! واہگورو اس ڈھکنی کو پھر سے پہلی صورت دے دے۔ تاکہ ہمارے حاکم ہمارے بھوجن کے راز سے واقف ہو جایا کریں۔ سچ تو یہ ہے کہ بہتوں کو روٹی اور ساگ بھی نصیب نہیں ہوتا۔ حالانکہ ہمارے گاڑھے پسینے کی کمائی کچھ اتنی کم بھی نہیں۔ ایک تہائی دانے بٹائی کے نکل جاتے ہیں۔ نہر کا لگان الگ۔ شاہوکار کا بیاج الگ۔ سادھ سنگت جی! اب بٹائی بند کرانے کا وقت آ پہنچا ہے۔‘‘

    اتنے میں دور کہیں سے مگھر کا بگل بنکار اٹھا۔۔۔بٹائی کے دن بیت گئے۔ زمین ہماری ہے۔ دیوان کی مہر ختم۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔گرج کر بو لوجی۔۔۔بٹائی کے دن۔‘‘

    جدھر سے آواز آ رہی تھی، ادھر ہی کو سب گھڑسوار سپاہی بھاگ نکلے۔ ان کے پیچھے پیچھے پیدل سپاہی لاٹھیاں اٹھائے بھاگے جاتے تھے۔

    پھر ایک دن ریاست کی راجدھانی سے ٹھاکر صاحب باغی کسانوں سے بات چیت کرنے کے لیے چلے آئے۔ تھانے کی بغل میں سبز رنگ کے شاہی خیمے کے سامنے سب کسان حاضر ہو جائیں۔ بچے، بوڑھے اور جوان سبھی۔ کھلیانوں پر ایک ایک مرد یا عورت رہ جائے۔ رات کو گاؤں میں اور کھلیانوں میں یہ ڈھنڈورا پٹوا دیا گیا۔

    عورتیں اور مرد ایک جلوس کی شکل میں چلے آ رہے تھے۔ خیمے کے سامنے بہت سی سبز دریاں بچھا دی گئی تھیں۔ ایک طرف عورتیں بیٹھ گئیں۔ دوسری طرف مرد، ٹھاکر صاحب کی جے کا نعرہ گونج اٹھا۔ پیشتر اس کے کہ وہ مہاراج کے روبرو پہنچ کر فریاد کرتے مہاراج نے اپنا وزیر ان کا انصاف کرنے کو بھیج دیا تھا۔

    ریاستی روایت کے مطابق سبز خیمے پر سبز جھنڈا لہرا رہا تھا۔ گھڑ سوار پولیس نے بھی آج اپنے خاکی لباس پر سبز پھندنے لگا رکھے تھے۔

    کرسیوں پر بیچ میں ٹھاکر صاحب بیٹھے تھے۔ دائیں طرف تھانے دار اور بائیں طرف گاؤں کے جاگیردار۔ دیوان صاحب اور ٹھاکر صاحب کا اشارہ سمجھ کر تھانے دار نے کھڑے ہوکر کہا۔

    ’’جو جس کی شکایت ہو بیان کر سکتا ہے۔‘‘

    دیوان صاحب نے کھڑے ہوکر بڑے ادب سے ٹھاکر صاحب کی طرف دیکھا اور پھر کسانوں کی طرف دیکھا اور پھر پرشکایت لہجے میں کہا، ’’میرے کسان میری بٹائی دینے سے انکار کر رہے ہیں حضور!‘‘

    کسانوں کو چپ دیکھ تھانیدار نے کہا، ’’کیا تم لوگ بھی کچھ کہنا چاہتے ہو؟‘‘

    چچا رحیمو جسے سب لوگوں نے اپنا سرپنچ تسلیم کرلیا تھا کھڑا ہو گیا اور اس نے بلند آواز سے نعرہ لگایا۔ جواب میں سب کسان یک زبان ہوکر بولے۔۔۔ ’’اللہ اکبر!‘‘

    چچا رحیمو کے چہرے پر خوشی کی لہریں مچل رہی تھیں۔ جیسے وہ کسی چھوٹے سے دیس کا حکمران ہو اور ضرورت آن پڑنے پر اپنے پڑوسی حکمران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے چل کر آیا ہو۔ بولا، ’’ہم بٹائی نہیں دیں گے۔‘‘

    ’’کوئی وجہ بھی ہو آخر؟ ٹھاکر صاحب نے بظاہر خلوص سے پوچھا۔‘‘

    ’’یہ پنچایت کی آواز ہے۔‘‘

    ’’پنچایت کی آواز؟ مگر ریاستی مہر کی آواز بھی تو کوئی چیز ہے۔‘‘

    چچا رحیمو نے مسکرا کر ٹھاکر صاحب کی طرف دیکھا۔ پھر اس کی نگاہیں اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے کسانوں کی طرف اٹھ گئیں۔ پہلے عورتوں نے اور پھر مردوں نے وہ نعرے لگائے جو انھوں نے پہلے پہل مگھر کی زبان سے سنے تھے اور جو شروع شروع میں ان کی سمجھ میں نہ آتے تھے۔۔۔پنچایت کی آواز، کھیتوں کی آواز۔۔۔پنچایت کی آواز، گیہوں کی آواز۔

    دیوان کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ ٹھاکرصاحب نے حالات پر قابو پاتے ہوئے کہا، ’’بٹائی توڑ سکنا میری طاقت سے باہر ہے۔ اس کے لیے تم لوگوں کو مہاراج سے عرض کرنا ہوگی۔‘‘

    چچا رحیمو بولا، ’’تو ہماری آواز ان تک پہنچا دی جائے۔‘‘

    ’’بٹائی مہاراج بھی نہ توڑیں گے۔۔۔میں کہتا ہوں بٹائی ضرور دے دی جائے قانون یہی کہتا ہے۔۔۔ہاں ایک بات ہو سکتی ہے اور وہ بھی فریقین کی رضامندی سے دیوان صاحب حاضر ہیں۔ میں اتنا کر سکتا ہوں کہ بٹائی گھٹاکر ایک تہائی کی بجائے ایک چوتھائی ٹھہرا دی جائے!‘‘

    چچا رحیمو بولا، ’’پنچایت کی آواز ہے بٹائی مت دو۔ بٹائی کے دن بیت گئے۔ ایک چوتھائی ہی تو تھی پہلے یہ بٹائی، پھر نہ جانے کون سا نشہ پلاکر ہمارے باپ دادا سے ایک تہائی بٹائی پر انگوٹھے لگوا لیے گئے تھے۔ اب ہم جاگ چکے ہیں۔‘‘

    اجاگر نے نعرہ لگایا، ’’گرج کر بولو جی شری واہگورو۔‘‘

    سب کسان یک زبان ہوکر بولے، ’’شری واہگورو۔‘‘

    چچا رحیمو ایک زندہ بُت کی طرح خاموش کھڑا تھا۔ پیچھے سے سنتو نے نعرہ لگایا۔۔۔پنچایت کی آواز! سب کسان یک زبان ہوکر بولے گیہوں کی آواز!

    ٹھاکر صاحب کے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑنے لگیں۔ لیکن جھٹ سے سنبھلتے ہوئے وہ بولے، ’’ایک سنہری موقع گنوایا جا رہا ہے۔ ایسے موقعے روز روز نہیں آیا کرتے۔ بٹائی مہاراج بھی نہیں توڑ سکیں گے۔ ریاست کی مہر یہی کہتی ہے۔ دیوان صاحب کی جدی جائیداد کا بھی یہی تقاضا ہے۔ پھر شاید ایک تہائی سے ایک چوتھائی کی سطح پر ہرگز ہرگز نہ اتر سکے یہ بٹائی۔‘‘

    ’’ایک چوتھائی۔۔۔؟ ہم بٹائی نہیں دے سکتے۔‘‘

    گھڑسوار پولیس کے گھوڑے تیار نظر آتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا وہ ابھی چچا رحیمو کو اپنے قدموں کے نیچے کچل کر رکھ دیں گے۔ سپاہیوں کے چہرے اور بھی خونخوار ہو اٹھے تھے۔

    ٹھاکر صاحب نے ایک بار پھر بڑے اطمینان سے کہنا شروع کیا، ’’اچھا میں آخری بات کہے دیتا ہوں اور وہ بھی دیوان صاحب کو پوچھے بغیر ہی۔۔۔فصل کا پانچواں حصہ بٹائی منظور ہے سب کو؟ اور تم کہوگے تو کنکوت کا طریقہ بھی ترک کر دیا جائےگا۔ کٹائی ہوچکنے پر جنس کو تول کر پانچویں حصے کے دانے دیوان صاحب کو دے دیے جایا کریں گے۔‘‘

    چچا رحیمو چپ کھڑا تھا۔ پیاز اور جُوتے کھانے کا ڈر جیسے اسے چُھو تک نہ گیا ہو۔

    دیوان صاحب نے آداب بجاکر کہا، ’’ٹھاکر صاحب آپ کے انصاف کے سامنے میرا سر ہمیشہ جھکا رہےگا۔‘‘

    موقعہ پاکر سنتو نے پھر نعرہ لگایا۔۔۔پنچایت کی آواز!

    سب کسان یک زبان ہوکر بولے۔۔۔گیہوں کی آواز!

    اجاگر نے نعرہ لگایا۔۔۔بٹائی کے دن!

    سب کسان یک زبان ہوکر بولے۔۔۔ختم ہو گئے!

    چچا رحیمو نے کہا، ’’میں اکیلا کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں پنچایت سے پوچھ دیکھوں۔ دوپہر تک ہمارا فیصلہ آپ کو پہنچ جائےگا۔‘‘

    سب کسان جلوس کی شکل میں جا رہے تھے۔ ان کا گیت فضا میں گونج اٹھا۔۔۔

    ’’دینا نہیں کنک دا دانہ، بچہ بچہ کید ہو جائے۔‘‘

    بابا ٹہل سنگھ کی سمادھ پر پنچایت اپنے آخری فیصلہ پر غور کر رہی تھی۔ سنتو کا خیال تھا کہ ابھی پانچواں حصہ بٹائی منظور کر لی جائے۔ مگر چچا رحیمو نے بڑے جوشیلے انداز میں جنتا کے روبرو اپنے خیالات پیش کر دیے اور کہا، ’’آؤ ہم آج ہمیشہ کے لیے بٹائی سے آزاد ہو جائیں۔‘‘ سب لوگ چچا رحیمو کے ساتھ تھے۔ سنتو نے نعرہ لگایا۔۔۔پنچایت کی آواز چچا رحیمو کی آواز!‘‘

    اجاگر جھٹ پنچایت کا فیصلہ ٹھاکر صاحب کے خیمے میں پہنچا آیا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ آج ٹھاکر صاحب مہاراج کا آخری حکم سنادیں گے اور ہمیشہ کے لیے اپنے کسانوں کو بٹائی کے جوئے سے آزاد کر دیں گے۔ دیوان صاحب کو ریاست کے خزانے سے پنشن جا سکتی تھی۔

    لیکن دوپہر ڈھلنے سے پیشتر ہی پتہ چل گیا کہ ٹھاکر صاحب پولیس سمیت کھلیانوں کی طرف آ رہے ہیں۔ تاکہ زبردستی بٹائی کے دانے دیوان صاحب کو دلا دیں۔ چچا رحیمو نے حکم دیا کہ سب عورتیں تیار رہیں۔ جس جس کھلیان میں پولیس کے سپاہی یہ زبردستی شروع کرنے والے ہوں اسی کے گرد گھیرا ڈال کر، دھرنا مار کر مقابلہ کریں۔ نوجوانوں کی ایک ٹولی کو یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ وہ پانی پلانے کا فرض ادا کریں۔

    گھڑسوار پولیس کو دیوان صاحب کے دروازے پر پہرا دینے کا حکم ملا۔ کیونکہ یہ ڈر پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں بے قابو ہجوم کسی طرح کی زیادتی پر نہ اتر آئے۔

    پیدل پولس سمیت تھانیدار اور دیوان صاحب بابا ٹہل سنگھ کی سمادھ کے قریب ایک کھلیان میں پہنچے۔ لیکن عورتیں اس کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھی تھیں۔ کہ بٹائی کے دانے تلوانے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ تھوڑی دیر میں ٹھاکر صاحب کی کار بھی پہنچ گئی۔

    ’’میری ماؤں بیٹیو، ایک طرف ہٹ جاؤ، سپاہیوں کو سرکاری کام کرنے دو۔‘‘ ٹھاکر صاحب نے بظاہر خلوص سے کہا۔

    عورتیں اپنے دھرنے پر بضد تھیں۔ ٹھاکر صاحب نے ایک بار پھر اپنا حکم دہرایا۔ تیسری بار گرم ہوکر انھوں نے اپنا حکم دیا، ’’یوں نہیں مانتیں تو ہٹا دو ان کو بازوؤں سے پکڑ کر۔‘‘

    سپاہی ابھی آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ پانی پلانے والے نوجوانوں کو جوش آ گیا۔ ان میں سنتو بھی شامل تھا۔ ان نوجوانوں نے سپاہیوں کی لاٹھیاں چھین لین اور سنتو کا اشارہ سمجھ کر بری طرح ان سپاہیوں پر ٹوٹ پڑے۔ خود سنتُو نے اپنی تیل پلائی ہوئی لوہے کی مٹھے والی لاٹھی، جو اس نے کھلیان میں چھپا رکھی تھی، اٹھا کر تابڑتوڑ اتنے وار کیے کہ کھلیان کی خشک زمین پر لہو کے چھینٹے نمایاں ہو اٹھے۔ پیشتر اس کے کہ ٹھاکر صاحب کو گولی چلانے کی ضرورت محسوس ہوتی، دیوان صاحب نے ہوا میں اپنی بندوق چلا دی۔ سب نوجوان بھاگ گئے۔ سنتُو ذرا دیر سے بھاگا۔ لیکن ایسا بھاگا، کہ دو فرلانگ تک گھڑسوار تھانیدار بھی اِسے پکڑ نہ سکا۔

    عورتیں بالکل نہ گھبرائیں۔ اپنے دھرنے پر ڈٹ کر کھڑی رہیں۔ چچا رحیمو کا حکم ان کے لیے سب سے بڑا حکم بن چکا تھا۔ لیکن ان کے دیکھتے دیکھتے چچا رحیمو کو گرفتار کر لیا گیا۔ بیویوں کے خاوند، بہنوں کے بھائی، بیٹیوں کے باپ اور ماؤں کے بیٹے سب گرفتار کر لیے گئے۔ سنتو کو بھی ہتھکڑی پہنائی جا چکی تھی۔ لیکن عورتیں بالکل نہ گھبرائیں۔

    ٹھاکر صاحب نے حکم دیا۔ کہ سنتو کے پاؤں میں پورے من بھر لوہے کی بیڑی ڈالی جائے۔ دو سپاہی بھاگے بھاگے تھانے سے وہ بھیانک بیڑی لے آئے۔ عورتوں کے روبرو سنتو کے پاؤں میں وہ بیڑی ڈال دی گئی۔ وہ ذرا نہ گھبرایا۔ ’’پنچایت کی آواز، گیہوں کی آواز۔‘‘ اس نے بلند آواز سے نعرہ لگایا اس سے بہت پوچھا گیا، کہ وہ باقی پانی پلانے والے نوجوانوں کے نام بتا دے۔ لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ وہ نوجوان نہ جانے کہاں جا چھپے تھے۔

    ’’بدمعاش کی پیٹھ ننگی کرکے خوب کوڑے لگاؤ جب مانےگا۔‘‘ ٹھاکر صاحب نے سنتو کی طرف خونی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

    سنتو کی پیٹھ دھوبی کا تختہ بن چکی تھی۔ جگہ بہ جگہ اس پر نیل پڑچکے تھے۔ لیکن وہ برابر کہے جا رہا تھا۔۔۔بٹائی کے دن بیت گئے۔

    ایک طرف ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے دھرتی کے بیٹے کھڑے تھے۔ جن کی آنکھوں میں بغاوت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ دوسری طرف کھلیان کے گرد دھرتی کی بیٹیوں نے دھرنا مار رکھا تھا۔ انھیں اپنی جگہ سے ہٹنا منظور نہ تھا۔ چچا رحیمو اب قیدی بن چکا تھا۔ لیکن اس کا حکم اب بھی پنچایت کا حکم تھا اور انھیں یقین تھا کہ بٹائی کے دن کبھی کے بیت چکے ہیں۔

    ’’تو نے کیا کھاکر جنا تھا سنتو کو، نہالو؟‘‘ پیلی شلوار قمیص والی ایک عورت پوچھ رہی تھی۔

    سنتو کی منگیتر اپنے ہونے والے دولھے کی طرف چور نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ خود تھانیدار اور ٹھاکر صاحب اپنے ہاتھوں سے سنتو کے بال نوچ رہے تھے۔ دیوان صاحب چلا رہے تھے، ’’یہی حرامی ساری بغاوت کا بانی مبانی ہے۔ ہم اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے