aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بازیافت

ابرار مجیب

بازیافت

ابرار مجیب

MORE BYابرار مجیب

    اسے بار بار یہ احساس ہو تا کہ کچھ کھو گیا ہے، گم ہو گیا یا چھوٹ گیا ہے، جو بہت ہی اہم تھا۔ وہ کیا شے ہے، وہ کیا ہو سکتا ہے؟ اسے دھندلے دھندلے سے نقوش نظر آتے جو واضح ہو نے سے قبل ہی غائب ہو جاتے۔ مانو رات ایک خواب دیکھا اور جب صبح بیدار ہوکر یاد کرنے کی کوشش کی تو کچھ یاد آیا، دھندلا دھند لا، غیرواضح!

    جن باتوں کو وہ فراموش کر دینا چاہتا ہے وہی باتیں اس کے ذہن کے دروازے پر دستکیں دیتی ہیں۔ جن منظروں کو وہ نہیں دیکھنا چاہتا وہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس طرح آ جاتے ہیں جیسے سنیما کے پردے پر متحرک تصویریں۔

    آج بھی جب وہ بستر پر دراز ہوا تو وہی نا خوشگوار اور دہشت زدہ کر دینے والا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ابھر آیا۔۔۔ ایک عجیب و غریب گھر جس میں بیشمار انسان، زیادہ تر ننگے، سب کے سب اس طرح اچھل کود مچا رہے ہیں جیسے ان کے بدن میں شدید کھجلی ہو رہی ہو۔ ہر طرف انتشار، بدنظمی اور خوف و ہراس کا سایہ!

    وہ گھبراکر اٹھ بیٹھا، اپنے سر کو زور زور سے جھٹکا دیا۔ ایک ٹھنڈی سانس بھری اور دوبارہ لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔

    وہ خواب دیکھنے لگا۔۔۔

    شہر کے سارے کتے آسمان کی جانب منہ اٹھایے رو رہے ہیں۔ پھر اس نے دیکھا خوفناک عفریت پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اب کیا ہوگا، اس نے خواب میں سوچا؟

    کتے پورے جوش و خروش سے روئے جا رہے ہیں، اچا نک گرم ہواؤں کے جھکڑ چلنے لگے۔ لوگ خوف کے مارے گھروں سے باہر نکل آئے۔ ہر کان جہنم بن گیا، چہرے انگاروں کی مانند دہکنے لگے۔ ہر آنکھ شعلہ بن گئی اور سبھوں کے لبوں پر ایک پر اسرار چپ اٹک گئی۔ بےپناہ خاموشی ہر سو بھٹکنے لگی اور دھیرے دھیرے ہر ایک شئے پر منجمد ہوکر مسکرانے لگی۔ گرم ہوائیں بگولوں کی صورت نا چنے لگیں۔ تیز اور تیز اور تیز۔۔۔ آسمان پر ان گنت گدھ منڈلانے لگے۔ گرم ہوئیں وحشیانہ انداز میں رقص کرنے لگیں اور طوفان کی صورت اختیار کر گئیں۔

    کتنے ہی درخت جڑوں سے اکھڑ گئے۔ کتنے ہی مکان منہدم ہو گئے۔ بلندیوں پر پرواز کرتے ہوئے گدھ دھرتی پر اتر آئے۔ اسے محسوس ہوا کہ کچھ گدھوں نے اسے بھی گھیر رکھا ہے اور اپنی نوکیلی چونچوں اور خطرناک پنجوں سے اس پر وار کر رہے ہیں۔ وہ چیخ پڑا اور اس کی آنکھیں کھل گئیں۔

    کیوں؟ کیا بات ہے،کیا ہوا ہے آپ کو؟ بیوی جو چیخ سن کر بیدار ہو گئی تھی گھبرائے ہوئے لہجہ میں بولی۔

    کک۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ ایک ڈراونا خواب!

    اس کی بیوی ہو لے سے مسکرائی ما نو کہہ رہی ہو، بچوں سے بھی بدتر ہیں ورنہ آج کل کے بچے بھی۔۔۔

    رات بھر وہ خارش زدہ کتے کی طرح بے چین رہا۔ جب صبح کی آذان ہوئی اور مندر کی گھنٹیاں بجنے لگیں تو اس پر غنودگی طاری ہو گئی۔

    آفس میں اس کا من کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ اس کی نگاہیں بار بار دیوارگیر گھڑی پر جا ٹکتیں۔ دن بھر وہ اپنی سیٹ پر پہلو بدلتا رہا۔ شام کے پا نچ بجے جب وہ آفس سے با ہر نکلا تو راحت کی سا نس لی۔ مگر آخر کب تک؟

    اندھیرا پھیلنے لگا اور رات پھیل گئی۔ وہ بستر پر لیٹا تو وہی بےچینی طاری ہونے لگی۔ وہی نا خوشگوار اور دہشت زدہ کر دینے والا منظر، وہی جان لیوا اور ڈراؤنا خواب۔

    ’’یا خدایا، یہ کس عذاب میں مبتلا کر دیا تونے؟‘‘ وہ دھیرے سے بدبدایا۔ پھر کروٹ بدلی، کچھ دیر تک یوں ہی پڑا رہا، اس کے بعد اوندھا ہو گیا اور تکیہ میں منہ کو گھسیڑ لیا۔ چند ثانیوں کے بعد اچانک اٹھ بیٹھا اور اپنے ٹھیک سامنے موجود سپاٹ دیوار کو گھورنے لگا۔ پھر میز سے پانی بھرے گلاس کو اٹھا کر ایک ہی سا نس میں پی گیا۔ بستر پر لیٹ کر دوبارہ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

    نہ جانے کتنا وقت گزر گیا مگر وہ ضبط کیے پڑا رہا، حالانکہ کئی دفعہ اس کی خواہش ہوئی کہ کروٹ بدل لے، یا ایک دو بار ذرا زور سے کھانس لے اور نہیں تو اپنی آنکھ میں انگلی ڈال کر گھما ئے جو کافی دیر سے سر سرا رہی تھی۔ مگر نہیں اس نے اس طرح کی اٹھنے والی ہر ایک خواہش کو دبایا۔ لیکن کب تک؟

    اندھیرا اور گہرا ہوتا گیا۔ رات کا سنا ٹا شور مچانیلگا۔ اس بار بیچینی کا اتنا شدید دورہ پڑا کہ وہ لاکھ کو شش کے باوجود خود کو نہیں روک سکا۔ اس نے ناک میں انگلی گھمائی، اس قدر گہری سانس لی کہ اس کی آنکھوں میں پانی اتر آیا۔ پھر وہ زور زور سے اپنے ما تھے کو دبانے لگا۔ پھر اٹھ کر دو چار گھونٹ پا نی حلق سے اتارا اور لیٹ کر ہو نٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔

    رات بھر وہ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا رہا۔کبھی اپنے سر کو کھجاتا، کبھی اپنی جانگھوں کو۔۔۔ کبھی زور زور سے کھانس کر گلا صاف کرنے لگتا، جیسے گلے میں کچھ اٹکا ہوا ہو۔ پھر اٹھ کر دو چار گھونٹ پانی پی لیتا اور یہ اٹل فیصلہ کرکے لیٹ جا تا کہ اب صرف اور صرف سونے کی کو شش کرےگا۔ لیکن تھو ڑی ہی دیر بعد اسے محسوس ہوتا کہ چہرہ پر کوئی کیڑا رینگ رہا ہے۔ رات بھر بےچینی کا ناگ اسے ڈستا رہا لیکن جب صبح کی اذان اور مندر کی گھنٹیاں بجنے لگیں تو اس کے پپوٹے بو جھل ہونے لگے۔

    اٹھیے دفتر نہیں جانا ہے کیا ؟بیوی نے جھنجھوڑکر اسے جگایا۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ بیوی نے جب اس کی آنکھوں کو دیکھا تو سہم گئی۔ با لکل سرخ، خون میں ڈوبی ہو ئی آنکھیں۔

    یہ آپ کی آنکھوں کو کیا ہو گیا ہے؟ بیوی نے گھبرائے ہو ئے لہجہ میں پوچھا۔

    پتہ نہیں۔

    کہیں آپ رات بھر جاگتے تو نہیں رہ گئے؟

    شاید!

    وہ گھر سے دفتر جا نے کے لیے نکلا تو سڑکوں پر لوگوں کی بجائے اسے باؤلے کتے نظر آئے۔ ہر طرف افرا تفری، شور ہنگامہ، بیچینی، ہر شخص وحشت زدہ اور اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا ہوا نظر آیا۔

    تھوڑی ہی دوری پر اسے ایک جم غفیر نظر آیا۔ قریب پہنچ کر اس نے دیکھا سڑک پر ایک مسخ شدہ لاش پڑی ہے اور چاروں طرف خون پھیلا ہو ا ہے۔

    ایکسیڈنٹ!

    اس کے ذہن میں یہ لفظ گونجا۔ کچھ دیر تک وہ خالی الذہن سا وہیں کھڑا رہ گیا پھر بس میں سوار ہو گیا، اس نے سوچا کہ ڈرائیور کے ہاتھ میں کھجلی اٹھی ہوگی جب ہی وہ شخص سامنے آ گیا ہوگا۔

    آفس کا ما حول بھی اسے باہر سے الگ نہیں لگا، کوئی پیپرویٹ سے کھیل رہا ہے، کوئی چھت پر گھومتے سیلنگ فین کو گھو رہا ہے۔ اس کے ٹھیک سامنے والا کلرک اس تیزی سے رجسٹر کے صفحے پلٹنے لگا کہ اسے غصہ آ گیا لیکن اس نے ضبط کیا اور خاموش ہی رہا۔

    ہیڈ کلرک بار بار میزوں کے پاس آکر ٹھہر جاتا، اپنے گلے پر ہاتھ پھیرکر ایک ٹھنڈی سانس بھرتا اور آگے بڑھ جاتا۔ اس کو معمولی معمولی باتیں بھی عجیب لگنے لگیں۔ وہ محسوس کرنے لگا ہر کوئی ایک بے چینی اور عذاب کے زیر اثر ہے۔ ہر سمت بیسکونی، انتشار ہی انتشار۔

    وہ سوچنے لگا آخر کیوں، آخر کیوں ہر جہت بےاطمینا نی اور بےسکونی کا راج ہے؟

    اور پھر بڑی شدت سے اسے احساس ہوا کہ کہیں کچھ کھو گیا ہے، گم ہو گیا ہے یا چھوٹ گیا ہے،جو بہت ہی اہم ہے۔ اس نے ذہن پر زور ڈالا تو کچھ دھندلے دھندلے سے نقوش اور بس!

    لنچ کے وقفہ میں وہ گھر چلا آیا، برآمدے میں اس کا آٹھ سالہ معصوم بچہ کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔

    گوتم بدھ کو گیا میں ایک پیپل کے درخت کے سائے تلے نروان ملا تھا۔ وہ ٹھٹھک گیا۔

    پیپل نہیں برگد کا پیڑ ہوگا۔ اس نے یونہی کہہ دیا۔

    نہیں تو، یہاں پیپل، ہاں پیپل ہی لکھا ہے۔ بیٹے نے کتاب میں غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔

    تو پھر پیپل ہی ہوگا۔ بچپن میں پڑھا تھا، اب تو کچھ بھی یا نہیں۔ اسے اپنے رقت آمیز لہجہ پر خود حیرت ہوئی۔

    تو پھر سے پڑھ لیجیے نا پاپا ۔ بچہ بڑی معصومیت سے بولا۔

    اور وہ اس طرح چونک پڑا جیسے گہری نیند سے کسی نے جھنجھوڑکر جگا دیا ہو۔ اسے لگا دھندلے نظر آنے والے نقوش واضح ہونے لگے ہیں۔

    بچہ سے کتاب لےکر وہ اس کے مطالعہ میں منہمک ہو گیا۔ اس قدر کہ دنیا وما فیہا سے بےخبر۔

    صبح کی اذان اور مندر کی گھنٹیاں بجنے سے پہلے ہی اس نے بستر چھو ڑ دیا۔ غسل کیا، صاف ستھرا لباس ریب تن کیا، پھر خوشبو سے لباس کو معطر کیا اور جب اذان ہونے لگی اور مندر کی نقرئی گھنٹیاں بجنے لگیں تو وہ گھر سے با ہر نکل آیا۔

    واپسی پر اس نے دیکھا۔۔۔ دور پورب سے نور کی کرنیں پھوٹ کر فضا میں پھیلتیجا رہی ہیں اور اندھیرے یو ں سمٹ رہے ہیں جیسے بدھ کے سامنے انگلی مال دو زانو ہوکر سر جھکا رہا ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے