aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بیدل صاحب

عوض سعید

بیدل صاحب

عوض سعید

MORE BYعوض سعید

    میرے مکان کے برابر بیدل صاحب کا مکان تھا، بڑا خوبصورت کشادہ سا مکان جس کی چھتیں طوفانی بارش میں بھی ٹپکتی نہ تھیں۔ باہر دروازے کی چوڑی پیشانی پر ایک سیاہ تختی جھومر ی طرح لٹک رہی تھی جس پر جلی حروف میں ’’بیدل‘‘ لکھا تھا۔

    شام ہوتے ہی وہ ہاتھ میں پانوں سے بھرا ہوا بٹوہ لیے باہر آرام کرسی پر آ بیٹھتے اور ہر دو منٹ بعد بٹوے سے ایک گلوری نکالتے اور منہ میں رکھ کر بڑے اطمینان سے باتوں میں مشغول ہو جاتے، ان کے منہ سے الائچی کی تیز خوشبو بڑی بھلی لگتی۔ حقے سے انھیں بڑی نفرت تھی۔ کہتے تھے ’’بھئی! حقہ بھی کوئی پینے کی چیز ہے‘‘ حالانکہ ان کے باپ دادا حقے ہی سے شغل کیا کرتے تھے۔

    بیدل صاحب یوپی کے باشندے تھے لیکن ان کے باپ دادا نے دکن ہی میں آکر ملازمت اختیار کر لی تھی، اب وہ اس خاندان کے آخری چشم و چراغ تھے۔ ملازمت سے انھیں نفرت تھی، جوانی میں ایک جگہ نوکری کی تھی جو مہینے بھر ہی میں چھوڑ دی تھی۔ پتہ نہیں کتنی دولت جمع کر رکھی تھی کہ برسوں سے انھیں کسی سے کچھ مانگنے کی نوبت نہ آئی، منگنے کی تو بات رہی ایک طرف، کوئی ایسا ہفتہ نہ گزرتا جب ان کے گھر ادیبوں کی دعوتیں نہ ہوتیں۔

    انھیں ادیبوں اور شاعروں سے بڑی عقیدت و محبت تھی۔ جب بھی باہر سے کوئی فن کار آتا تو خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے، جاتے وقت اسٹیشن تک اس کے ساتھ جاتے، جب مہمانوں کو ان کی کوئی چیز لینی ہوتی تو وہ تعریفوں کے پل باندھ دیتے اور بیدل صاحب کھلے دل سے ان کی پسند کی ہوئی چیزیں تحفتہً دے دیتے۔ اس طرح اب تک بہت ساری بیش قیمت چیزیں انھوں نے دے دی تھیں۔ حالانکہ میں بھی ان کا پڑوسی تھا لیکن کسی وقت بھی طبیعت اس شریفانہ حرکت کی طرف مائل نہ ہوئی تھی۔

    وہ مجھے بہت چاہتے تھے گو ابتدا میں انھوں نے میری پرواہ نہیں کی تھی مگر جب انھیں علم ہوا کہ مجھے بھی ادب و شاعری سے گہری دلچسپی ہے تو وہ بہت جلد میرے قریب آ گئے۔ انھیں اساتذہ کا بہت سا کلام ازبر تھا، اگرچہ شاعر نہیں تھے لیکن شعر فہمی کا مادہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ فانی سے انھیں چڑسی تھی، کہتے تھے ’’اس کا نام نہ لو، کم بخت نے زندگی کے خوبصورت چہرے پر غم کی سیاہی یوں پھیر دی ہے کہ چہرہ ڈراؤنا ہو کر رہ گیا ہے۔‘‘

    وہ فارسی شاعری میں عرفیؔ اور نظیریؔ کو بہت پسند کرتے تھے، غالبؔ سے انھیں اتنا لگاؤ نہ تھا جتنا وہ مومنؔ کو پسند کرتے تھے۔

    ایک دن کی بات ہے۔ و ہ مومنؔ کی شان میں قصیدہ خوانی کر رہے تھے اور ایک ایک شعر کے ساتھ پھڑک کر کہتے تھے ’’بتاؤ کسی شاعر کے ہاں اس پائے کا شعر ہے؟‘‘

    تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

    جب کوئی دوسری نہیں ہوتا

    ’’یہ بھی کوئی شعر ہے؟‘‘ میں بزرگی کے سارے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی کبھی کبھار جذبات میں بہہ جاتا۔

    ’’میاں! تم نے جھک ماری ہے۔ شعر تم کیا جانو۔‘‘

    وہ برہم ہو جاتے اور ایسی نوبت مہینے دو مہینے میں ایک بار ضرور آ جاتی تھی۔

    وہ ہٹ دھرم نہیں تھے لیکن انھیں اپنی بات کا پاس ہوتا تھا، کسی دن الجھ بھی جاتے تو دوسرے دن اس واقعے کو بالکل بھول جاتے، وہ جسے بے حد پسند کرتے تھے اسے میاں ہی کے نام سے پکارتے تھے۔

    یہ بات مجھے ان کے بوڑھے نوکر عباس نے بتائی تھی۔ پچھلے چند دنوں سے وہ باہر آنے جانے والے شخص کو میاں ہی کے نام سے پکارا کرتے تھے جس سے مجھے عباس کے بیان میں مبالغے کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔

    انھیں ایک بات سے سخت نفر ت تھی، اگر اتفاق سے کوئی بیٹھے بیٹھے یا گزرتے گزرتے زور کی آواز کے ساتھ تھوک دے تو وہ گھبرا جاتے تھے اور خفا ہو کر منہ ہی منہ میں بڑبڑایا کرتے تھے۔ انھوں نے ایک دن مجھ سے کہا تھا ’’میں نے مغل پورے کا باڑے والا مکان محض اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ میرا پڑوسی خواہ مخواہ دن رات راستہ چلتے ہوئے تھوکنے کا عادی تھا، لیکن لطف کی بات یہ تھی وہ بھی بکثرت تھوکنے کے عادی تھے شاید یہ پان کی زیادتی کا نتیجہ ہو۔‘‘

    وہ اپنے بوڑھے نوکر عباس سے بہت کم کام لینے کے عادی تھے، شام کو چھڑکاؤ کے بعد بید کی کرسیاں رکھ کر وہ چائے کی کشتی لیے آ دھمکتا تھا پھر اس کا چہرہ کم دکھائی دیتا تھا۔ پہلی پیالی بجائے وہ میری طرف بڑھانے کے مسکراتے ہوئے اپنی طرف کھینچ لیتے اور دوسری پیالی اسی انداز میں میری طرف بڑھا دیا کرتے۔

    ایک دفعہ جب میں نے ان سے کہا ’’بیدل صاحب! میں آپ کے ہاں روز چائے پیا کرتا ہوں،کبھی آپ بھی ہمارے ہاں تشریف لائیے، دو قدم ہی کا تو فاصلہ ہے۔‘‘

    اس پر ہنس دئیے اور کہا۔ ’’میاں! میں غیر تھوڑا ہی ہوں، میرے اور تمھارے گھر میں فرق ہی کیا ہے‘‘ اور پھر بات آئی گئی ہو گئی۔

    ان کے بک شیلف میں دنیا بھر کے فنکاروں کی نایاب کتابیں بھری پڑی تھیں لیکن انھیں چھونے کی بہت کم نوبت آتی تھی۔

    مہینے دو مہینے میں ان کے گھر دو چار مشاعرے ضرور ہوا کرتے تھے، رات ہوتے ہی قرب و جوار سے شاعر جمع ہو جاتے، چائے کے دور چلتے اور غزلیں مرصع بنتی جاتیں۔

    پھر جب رات گئے محفل برخواست ہوتی تو بوڑھا عباس مندی مندی آنکھوں سے پیالیوں کو ایک ایک کر کے اٹھاتا اور وہ آہستہ عباس عباس آہستہ کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلے جاتے۔ دیر تک سونے کے بعد دوپہر کو اٹھ کر کھانا کھاتے، پھر قیلولہ کرتے۔ یوں بھی وہ روز ہی قیلولہ کے عادی تھے، ایسے میں کوئی آ بھی جاتا تو انھیں اس کی پروا نہ ہوتی۔

    وہ گرما میں ململ کے مہین کپڑے پہنا کرتے تھے، بلا کے دبلے تھے، ململ کے کرتے سے ان کی آگے کو نکلی ہوئی ہڈیاں صاف دکھائی دیتی تھیں۔

    ایک دفعہ کسی نے اس کے دبلے پن پر ترس کھا کر ورزش کا مشورہ دیا تو کئی دن تک اس سے ناراض رہے اور اسے خوب برا بھلا کہا۔ بہر حال بیدل صاحب کی صحبت میں مجھے بڑا مزہ آتا تھا۔ ایک تو فضا کچھ ایسی پیدا ہو جاتی تھی کہ جی اٹھنے کو نہ چاہتا تھا دوسرے ان کے کردار کی بوقلمونی میں بڑی کشش تھی۔

    وہ ایک دفعہ اداس کرسی پر منہ سکیڑے بیٹھے تھے، میں آکر بیٹھ گیا لیکن وہ چپ سادھے ہی رہے۔ پھر کئی منٹ بعد جب محویت کا طلسم ٹوٹا تو یوں گویا ہوئے۔

    ’’کب آئے میاں؟‘‘

    اور میں یعنی ’’میاں‘‘ جھنجھلا کر رہ گیا۔

    ’’دیکھی تم نے عباس کی جسارت؟ میں اس کی کھال ادھیڑ دوں گا، ساٹھا ہونے کو آیا ہے لیکن عقل نہیں آئی۔‘‘

    ’’کچھ کہیے بھی تو‘‘

    ’’کیا کہیں خاک؟‘‘ اور وہ کچھ کہنے سے کترا گئے۔

    دوسرے دن میں نے عباس سے مل کر ساری باتیں دریافت کر لیں، بات صرف اتنی تھی کہ عباس نے نکڑ والے پنواڑی کے ہاں سے چند روپے لیے تھے اور کئی دن گزر جانے پر وہ بیدل صاحب سے کہنے کو آ گیا تھا۔ میں نے دیکھا انھوں نے کئی دن تک عباس سے سیدھے منہ بات نہیں کی۔

    عباس شام ہوتے ہی چپکے سے چائے کی پیالی ان کے سامنے رکھ جاتا اور وہ آہستہ آہستہ سپ کرتے ہوئے پی جاتے۔

    سر شام میری ان کے ہاں بیٹھک ہوتی تھی، کبھی کبھار کرانہ کی دوکان والے لاڈلے صاحب بھی آ دھمکتے تھے ان سے بھی بیدل صاحب خلوص سے پیش آتے تھے۔

    لیکن میرا خیال ہے خلوص کی اس تہ میں دبی دبی سی بیزاری اور ہلکی ہلکی سی نفرت بھی تھی۔ لاڈلے صاحب تاجر تھے، آتے ہی بازار کے سارے بھاؤ سنا جاتے۔ اس وقت بیدل صاحب کی حالت دیدنی ہوتی تھی، ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے بھلا بیدل صاحب کو کیا لگاؤ ہو سکتا تھا، کئی دفعہ تو میں نے لاڈلے صاحب پر بر ملا چوٹیں بھی کیں لیکن وہ بتیسی نکالے اپنے بہر صورت دانتوں کی نمائش کرتے ہی رہے۔

    جب لاڈلے صاحب بازار کے سارے بھاؤ سنا کر رخصت ہوتے تو بیدل صاحب ایک لمبی سانس کھینچ کر دل ہی دل میں لاڈلے صاحب کی درازی عمر کی دعا مانگتے۔

    مجھے بیدل صاحب کی ذات سے بڑی عقیدت تھی۔ گو میری ان سے راہ و رسم کوئی زیادہ پرانی نہ تھی لیکن ان کے اخلاق و خلوص نے مجھے ان کا گرویدہ بنا لیا تھا۔ ان کی باتوں میں تشنگی بڑھانے کی ساری خوبیاں تھیں لیکن بوریت پیدا کرنے والا کوئی عنصر نہ تھا۔ ہاں ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کبھی کبھار میرے گلے میں مچھلی کے کانٹے کی طرح چبھنے لگتا۔

    ایک سلونی شام کو وہ بڑے شگفتہ موڈ میں آپ ہی آپ مسکرا رہے تھے، میں دبے پاؤں ان کے قریب جب آیا تو فرمانے لگے ’’آ گئے میاں؟ آؤ آؤ! مجھے تمھارا ہی انتظار تھا۔ کل میں نے بریلی سے آفاق صاحب کو بلوایا ہے، بڑے پائے کے شاعر ہیں وہ، دو چار دن ہی میں وہ شاندار مشاعرہ ہوگا کہ تم مسرت سے ناچ اٹھو گے۔’’ آفاق صاحب؟‘‘میں نے اپنی یادداشت کے سارے خانے کھولتے ہوئے کہا۔‘‘

    ’’ارے تم آفاق صاحب کو نہیں جانتے، بریلی کی ناک ان ہی سے تو ہے۔‘‘

    اس قسم کے عجیب و غریب شاعروں کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکال لانے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ ان کا کلام بھی لائق ستائش ہوتا، اس سے زیادہ تعجب خیز بات تو یہ تھی کہ وہ اردو انگریزی کے پرانے اور جدید شاعروں سے کماحقہ واقف تھے۔

    میں جب ان کی گفتگو میں ڈوب جاتا تو وہ پر وقار انداز میں کہتے۔ ’’میاں تم نے ابھی پڑھا ہی کیا ہے ؟‘‘

    چند دن گھریلو مصروفیتوں نے مجھے ایسا گھیرا کہ میں بیدل صاحب کے گھر کا رخ نہ کر سکا۔ پھر ایک شام کے وقت جب ان کے ہاں پہنچا تو وہ ایک کالے بھجنگ ادھیڑ عمر کے شخص سے باتیں کر رہے تھے، انھوں نے جب مجھے دیکھا تو ان کا چہرہ قدرے فق ہو کر رہ گیا، پتہ نہیں کیوں۔

    ’’آؤ میاں بیٹھ جاؤ۔‘‘ ایک ہلکی سی آواز فضا میں گونجی، وہ آج کھوئے کھوئے سے تھے اس کا ثبوت ان کے چہرے سے عیاں تھا۔ وہ کالے بھجنگ شخص سے رک رک کر، سوچ سوچ کر بہت نرم انداز میں گفتگو کر رہے تھے جیسے وہ اشاروں کنایوں کی لطیف چادر اس کے جسم پر پھینک کر اسے ٹرخانا چاہتے ہوں۔

    لیکن اِس کالے دیو نے جاتے جاتے بیدل صاحب سے صرف اتنا کہا۔ ’’بیدل صاحب! اب تو میں جا رہا ہوں لیکن آئندہ ماہ کچھ لے کر ٹلوں گا‘‘۔

    ’’ہاں بھئی! ہاں ضرور لے جانا، ہر چیز تمھاری ہی تو ہے‘‘ بیدل صاحب نے ایک ہوشیار آدمی کی طرح معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے بے تکلفانہ انداز میں کہا۔

    ’’میاں عجیب و غریب مصیبت ہے، جناب کو مومن، غالب اور اقبال کا پورا سیٹ چاہیے، تم ہی بتاؤ کیا میں اپنی اس متاعِ عزیز کو اس طرح تباہ کر سکتا ہوں، پھر بھی میں نے دل رکھنے کو کہہ دیا ہے کہ دے دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ عجیب بےبسی کے انداز میں مسکرانے لگے۔

    ان کے کردار کی دو رنگی نے مجھے ہمیشہ اچنبھے میں رکھا، وضع داری کی جو آنچ بیدل صاحب کے سینے میں سلگ رہی تھی وہ میں نے کسی میں نہیں دیکھی۔ آج تک انھوں نے اپنی کسی بھی پریشانی کا ذکر مجھ سے نہ کیا۔ وضع قطع، رکھ رکھاؤ سے وہ پریشان حال معلوم نہیں ہوتے تھے لیکن پریشانیوں کے شعلے لپک رہے تھے۔

    مجھے آج سے چند سال پہلے کے وہ دن بھی اچھی طرح یاد تھے جب بیدل صاحب نے دو غریب لڑکیوں کی شادی کے لیے اپنی گرہ سے پانچ سو روپے دئیے تھے۔ یہ تو میری آنکھوں دیکھی بات تھی، نہیں معلوم کتنے ایسے لوگ ہوں گے جن کی ذات کو بیدل صاحب نے سنوارا ہو گا۔

    بیدل صاحب کی شخصیت اس نیم کے پیڑ کی سی تھی جس کی ٹھنڈی چھاؤں کے گمبھیر سائے میں کوئی بھی تھکا ہارا شخص کچھ دیر کے لیے ہی سہی آرام کر سکتا تھا۔

    ایک دن وہ حسب عادت باہر کرسی پر چپ چاپ بیٹھے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی اندرونی صدمے سے نڈھال ہوں۔

    پھر ایک دن عباس نے مجھ سے کہا ’’میاں! کسی طرح حضور کو بچا لیجیے، ان کی زندگی کی ناؤ ڈانوا ڈول ہو رہی ہے۔‘‘

    اور آج مجھے بھی یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے قریب ہی میں بیدل صاحب کی زندگی کا غبارہ پھٹ پڑےگا۔

    ایک رات جب میں نے باہر خالی کرسی دیکھی تو تعجب ہوا، دروازے کے قریب جا کر میں نے بیدل صاحب کو آواز دی۔

    ایک نحیف و نزار آواز میرے کانوں تک آئی۔

    ’’اندر ہی آ جاؤ میاں!‘‘

    میں نے دیکھا وہ پلنگ پر پڑے تھے، آنکھیں سرخ تھیں۔

    ’’ارے آپ کا جسم تو جل رہا ہے۔‘‘

    ’’ابھی باہر کرسی رکھی ہی تھی کہ یکایک بخار محسوس ہوا، اس لیے مجبوراً اندر چلا آیا۔‘‘

    ’’عباس کہاں ہے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’میں نے کل اسے نکال دیا ہے۔‘‘ انھوں نے خفگی اور رنج کے ملے جلے جذبات میں ڈوب کر کہا۔

    ’’کیوں کچھ بد تمیزی کی عباس نے؟‘‘

    ’’ہاں اس بوڑھے حرامی کا دماغ خراب ہو گیا تھا، چند دنوں سے خواہ مخواہ میرے معاملات میں دخل انداز ہو رہا تھا، اس لیے میں نے اسے دودھ کی مکھی کی طرح باہر نکال پھینکا ہے۔‘‘

    اُن کے لب خفگی سے ہولے ہولے کانپ رہے تھے۔ یکبارگی میری نگاہوں کے سامنے عباس کا مرجھایا ہوا چہرہ گھوم گیا جیسے وہ سسکیاں بھرتا ہوا مجھ سے کہہ رہا ہو۔ ’’میرے حضور کو کسی طرح بچا لیجیے میاں، میں آپ کا ممنون رہوں گا۔‘‘

    کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد میں نے چورا ہے والے کیمسٹ کے ہاں جا کر انھیں دوا لا دی۔ میرے شدید اصرار پر انھوں نے نصف خوراک دوا دل پہ جبر کر کے پی لی۔ جب انھیں ہولے ہولے نیند آنے لگی تو میں اجازت لے کر چلا آیا۔ ویسے بھی میں روز شام ان کے ہاں جانے کا عادی تھا لیکن ان کے مزاج کی ناسازگی کے باعث ذرا وقت سے پہلے ہی جانے لگا۔ گو ان کا مزاج بڑی حد تک ٹھیک ہو گیا تھا لیکن عباس کو نکالنے کا انھیں بڑا دکھ تھا، گو وہ زبان سے اس کا اظہار کر نہیں پاتے تھے۔ عباس کے چلے جانے کے بعد ان کی ساری شوخیاں مرجھا کر رہ گئی تھیں۔ اب وہ بات کرتے بھی تھے تو آہستہ آہستہ۔ اکثر تو وہ میری باتیں سن کر صرف ’’ہوں، ہاں‘‘ ہی کرتے تھے جیسے اندر ہی اندر انھیں گھن لگ گیا ہو۔

    جب میں نے بیدل صاحب کی یہ حالت دیکھی تو مجھے بے اختیار عباس یاد آ گیا، اسے اپنے مالک سے کتنا پیار تھا شاید وہ دل برداشتہ ہو کر کہیں چلا گیا ہو۔

    میں نے اس کی بہتیرے تلاش کی، چھوٹے ہوٹلوں اور بھٹیار خانوں میں بھی جھانکا لیکن بےسود۔

    پھر چند دن میں اپنے کاروبار میں الجھا رہا کہ ان کے ہاں جانے کی فرصت ہی نہ ملی۔ ایک ہفتہ یوں ہی گزر گیا، ہر روز جانے کا ارادہ کرتا لیکن کوئی نہ کوئی ایسا کام نکل آتا کہ جا نہ سکتا۔

    پھر ایک دن شام ان کے گھر گیا تو خلاف توقع علی گڈھ کا موٹا سا سفید منہ بھنچے ہوئے مجھے گھور رہا تھا، دوسرے دن بھی تالے کا منھ کھل نہ سکا۔

    لیکن ایک صبح دروازہ بالکل کھلا تھا، صحن میں سرو قد چیچک رو ’’بیلف‘‘ کھڑا تھا۔ اس کے پاس کالا بھجنگ ڈگری دار لاڈلے صاحب سے کھسر پھسر باتیں کر رہا تھا، نوجوان ہاتھ میں بڑا سا خوبصورت رجسٹر تھامے رک رک کر کچھ لکھتا جا رہا تھا۔

    سرکاری جوان بیدل صاحب کے گھر کی ایک ایک چیز کو باہر کھینچ کھینچ کر جمع کر رہے تھے۔ جس وقت خوبصورت کتابوں سے بھرا ہوا بک شیلف باہر آیا تو میرا دل ڈوب گیا، میں نے مشکل سے اندر قدم رکھا، میری حالت کی انتہا نہ رہی جب میں نے بیدل صاحب کو مسکراتے ہوئے اپنے سامان کی ایک ایک چیز کو جوانوں کے حوالے کرتے دیکھا۔

    ’’ہاں وہ کتابیں اٹھا لی ہیں نا۔‘‘ اندر کمرے میں دو ایرانی قالین بھی ہیں انھیں نہ بھولنا۔ یہ دیوان خانہ ہے، یہ مومنؔ اور یہ میرؔ سب لے جاؤ مگر ذرا آہستہ آہستہ۔

    یکبارگی جب انھوں نے مجھے دیکھا تو بےساختہ پکار اٹھے۔ ’’ تم آ گئے میاں! آؤ آؤ دیکھو میں مکان خالی کر رہا ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ کچھ اس طرح مسکرائے کہ ان کے پتلے ہونٹ سکڑکر رہ گئے اور میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے بیدل صاحب کے چہرے کو دیکھنے لگا جس پر ایک اذیت ناک تڑپ تھی!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے