aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھائی

شوکت حیات

بھائی

شوکت حیات

MORE BYشوکت حیات

    کہانی کی کہانی

    ایسے شخص کی کہانی جو فسادزدہ شہر میں ایک سڑک کے کنارے کھڑا سواری گاڑی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ تبھی اس کی بغل میں ہی ایک دوسرا شخص بھی آ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ باربار اس کی طرف دیکھتا ہے اور اس سے دفاع کے لیے اپنی جیب میں اینٹ کا ایک ٹکڑا اٹھاکر رکھ لیتا ہے۔ تبھی ایک سواری گاڑی رکتی ہے اور وہ دونوں اس میں سوار ہو جاتے ہیں۔ آگے جانے پر اس گاڑی کو بلوائی گھیر لیتے ہیں۔ بلوائی جب اسے مارنے کے لیے ہتھیار اٹھاتے ہیں تو دوسرا شخص اسے بچاتا ہوا کہتا ہے کہ وہ اس کا بھائی ہے۔

    اس روز گہما گہمی اوربھیڑ بھاڑ والے شہر میں اچانک انہوں نے محسوس کیا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ لوگوں کی رفتار غیر معمولی ہوگئی ہے۔ لوگ کہنے اور کچھ چھپانے کے انداز میں مختلف ٹولیوں میں بٹ کر سرگوشیاں کر رہے ہیں۔

    سورج روبہ زوال تھا۔ تازہ لہو کی مہک، سراسیمگی اور وحشت کا سناٹا اس اندیشے کو تقویت پہنچا رہے تھے کہ شہر کے کسی علاقے میں کوئی واردات ہوگئی ہے۔

    دونوں بہت دیر سے سڑک پر کھڑے ہوئے کسی سواری کے منتظر تھے۔ایک دبلا پتلا۔۔۔ دوسرا تندرست و توانا۔۔۔ دونوں سڑک پر گزرتی ہوئی مختلف سواریوں کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دونوں کو دور دراز کے کسی علاقے میں جانا تھا۔

    سڑک پر ٹہلتے ہوئے وہ دھیرے دھیرے قریب آرہے تھے۔ قریب آکر دور جارہے تھے۔ عجیب پس و پیش میں تھے دونوں۔ ایک دوسرے سے ربط پیدا کیا جائے یا نہیں۔۔۔ کہیں وہ دوسرے فرقے کا ہوا تو ۔۔۔ وہ خواہ مخواہ ایکسپوز تو نہیں ہوجائیں گے۔۔۔ کیا ایک دوسرے کے تعلق سے گومگو کے عالم میں مبتلا رہنا ان کے حق میں مفید ہے۔۔۔؟

    دونوں جائے پناہ کی تلاش میں اور اپنی منزلوں تک پہنچنے کی ادھیڑ بن میں ایک دوسرے کی طرف محتاط نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اسی طرح کی باتیں سوچ رہے تھے۔

    چاروں طرف تناؤ اور خوف کا ماحول چھایا ہوا تھا لوگ بچتے بچاتے اپنے اپنے محفوظ ٹھکانوں پر پہنچنے کی جلدی میں تھے۔ جو لوگ غیر محفوظ مقامات پر قلیل تعداد میں تھے، سکتے کے عالم میں سہمے ہوئے تھے، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔۔۔ اپنے تحفظ کے لئے کون سی راہ اختیار کریں۔

    جو لوگ محفوظ علاقوں میں تھے، وہ تو ایک تھرل سا محسوس کر رہے تھے۔۔۔ اب بموں کے دھماکے سنائی دیں گے۔۔۔ آسمان کی طرف شعلے اٹھیں گے۔۔۔ جھماکے کے ساتھ چاروں طرف روشنی پھیل جائے گی۔۔۔ کیا مزہ آئے گا۔۔۔

    کچھ مقابلے کی تیاری میں تھے۔۔۔ چھپائے ہوئے ہتھیاروں کو کونوں کھدروں اور تہہ خانوں سے نکال لیا گیا تھا۔۔۔ متعدد انگلیاں آنے والے خونی لمحوں سے پنجہ آزمائی کے لئے تیار تھیں۔

    یہ سب اب روز کا قصہ تھا۔ کہیں کوئی ناہنجار کوئی شوشہ چھوڑ دیتا۔ دیکھتے دیکھتے پوری فضا پر ایک سناٹا چھا جاتا۔ بے کار اور خوشحال لوگوں کو کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ لیکن کام دھندا والوں کو مصیبتیں اٹھانی پڑتیں۔ ان کے دفتر اور روزگار کا معاملہ ہوتا۔ خوانچے اور ٹھیلے والے تو روز کنواں کھودتے تھے اور پانی پیتے تھے۔ناہنجاروں کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے اگر کرفیو نافذ ہوجاتا تو ان بے چاروں کو دووقت کی روٹی کے لالے پڑجاتے۔

    سواریاں رکے بغیر تیزی سے گزرتی جارہی تھیں۔ شائیں شائیں آگے بڑھتی جارہی تھیں۔سب کے سب بے حد عجلت میں تھے۔ اپنے اپنے گھروں یا کم از کم محفوظ علاقوں کی سرحدوں میں پہنچ جانا چاہتے تھے۔

    سورج غروب ہونے والا تھا۔

    ہلکے ہلکے جاڑے کے آغاز کے ساتھ ہی دن چھوٹے ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ جلد دوپہر ہوجاتی ہے۔۔۔ شتاب ِشام ہوجاتی ہے۔۔۔ اندھیرا پھیل جاتا ہے۔۔۔ دیر تک رات رہتی ہے۔۔۔ جاڑا لمبی راتوں اور چھوٹے دنوں کے لئے لوک کتھاؤں کی طرح شہرت رکھتا ہے۔

    دبلے آدمی نے غور کیا کہ اس کے علاوہ وہی ایک آدمی۔۔۔ موٹا آدمی سڑک پر موجود تھا جو اس سے تھوڑا فاصلے پر کھڑا تھا۔ اسے ڈرلگا۔۔۔ کہیں یہی آدمی اس پر حملہ آور ہوجائے تو۔۔۔؟

    اس نے اندازہ لگانا چاہا کہ مقابلہ ہونے کی صورت میں وہ اس پر قابو پاسکے گا یا نہیں۔۔۔اپنے قدو قامت کے چلتے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اس نے اس آدمی سے اپنا فاصلہ بڑھا دیا۔ دور سے کن انکھیوں سے اس گھٹیلے جسم کے تنو مند انسان کو لگاتار دیکھتا رہا۔ اس تندرست آدمی سے محتاط رہنا ضروری ہے۔۔۔ اس نے سوچا۔

    اسے بے حد افسوس ہوا کہ آج اس کی جیب میں وہ کی رنگ بھی نہیں تھی، جس میں پھل کاٹے والا ایک ننھا سا چاقو ہوتا تھا اس کے حملہ آور ہونے کی صورت میں کچھ تو اپنا بچاؤ کر سکتا تھا۔ لیکن وہ تو نہتا تھا۔ اس تنومند آدمی کی جیب میں نہ جانے کون سا ہتھیار ہوگا۔ نہ بھی ہوا تو کیا اس کا مضبوط جسم ہی اسے زیر کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس نے غور کیا کہ تنومند آدمی مستقل اپنا ہاتھ جیب میں ڈالے ہوئے تھا۔

    اسے یقین ہوگیا کہ ضرور اس کے پاس کوئی نہ کوئی مہلک ہتھیار تھا اور کسی لمحے یہ بھید کھل جانے پر کہ وہ اس کے فرقے کا بندہ نہیں ہے، اس پر حملہ آور ہوجائے گا۔

    لیکن یہ اندازہ لگانا آسان نہیں تھا کہ آخر وہ کس فرقے کا بندہ تھا۔ وہ بھی اسی کی طرح پینٹ شرٹ میں تھا۔ اس نے بھی انگریزی کٹ کے بال بنارکھے تھے.... نہ ڈاڑھی اور نہ ٹکّی۔۔۔

    تھوڑی دیر کے لئے اسے بڑی راحت اور سکون کا احساس ہوا۔۔۔ ہم کم از کم اتنے مہذب تو ہوگئے ہیں کہ دیکھنے میں کسی مخصوص فرقے کے اسیر نظر نہیں آتے۔۔۔ اس نے سوچا، مہذب ہونے کا عمل جاری رہا تو ایک دن ہم اندر اورباہر تمام طرف سے۔۔۔

    تخیل کے پرندے نے آسمان کی گہرائیوں میں اڑان بھرنا شروع کیا۔۔۔

    نگاہوں کے سامنے تارکول کی سڑک سبزہ زاروں میں تبدیل ہوگئی۔۔۔ ہرنوں اور خرگوشوں نے قلانچیں بھرنا شروع کردیا۔۔۔ چاروں طرف سبک رو ہواؤں کے نازک لمس نے اس کے تن بدن میں ایک تازگی بھر دی۔۔۔ ہری بھری مخملی گھاس پر لیٹے ہوئے اس نے خود کو نیلگوں آسمان میں تحلیل ہونے کی لذت اور سرشاری سے ہم کنار ہوتے دیکھا۔۔۔

    ’’آپ لوگ سڑک پر کیا کرتے ہیں۔۔۔ اپنے اپنے گھروں کو جائیے۔۔۔‘‘

    ’’ہم لوگ سواری کے انتظار میں ہیں۔۔۔‘‘

    پولیس کے آدمیوں نے غالباً ان کے حلیے اور چہرے کے تاثرات سے اندازہ کرلیا تھا کہ وہ شرپسند اور غنڈہ عناصر نہیں ہیں۔ مطمئن ہوکر انہیں فوراً اپنے گھروں کو روانہ ہونے کی ہدایت کر کے جیپ میں بیٹھ گئے۔ پولیس کی مداخلت اور غیر متوقع استفسار نے ان دونوں کے درمیان کے فاصلے کو تھوڑا کم کردیا تھا۔ حالانکہ ایک دوسرے کے لئے شک و شبہ اور بے یقینی کی کیفیت ابھی بھی کم و بیش دونوں کی آنکھوں سے عیاں ہورہی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی رسمی سا جملہ دونوں کے منھ سے ادا ہوا۔

    ’’آپ کو کہاں جانا ہے۔۔۔؟‘‘

    دبلے آدمی کے ذہن میں یہ بات اچانک آئی کہ شاید اس سوال سے تنومند آدمی کی شناخت اجاگر ہوجائے۔ لیکن سوال سے اس حقیقت کا پتا لگانا آسان نہ تھا۔ چلتے پھرتے ہندوستانی الفاظ تھے جن پر کسی زبان اور مذہب کے سکہ بند مہر نہیں تھی۔ دونوں نے جواب دیا، اس سے بھی کوئی اندازہ نہیں ملتا تھا۔ دونوں نے جو نام لیے وہ دونوں ہی ملی جلی آبادیوں والے علاقے تھے۔ جواب دینے کے بعد دونوں پھر اپنے آپ میں گم ہوگئے ۔ جیسے اس طویل شاہراہ پر وہ تنہا ہوں۔

    دبلے پتلے آدمی کے چہرے اور آنکھوں سے صاف جھلک رہا تھا کہ وہ دوسرے آدمی سے بے حد ڈرا ہوا ہے۔

    اس پر ایک عجیب غیر معمولی خو ف مسلط تھا۔۔۔ ہر آن شدت سے وہ خطرہ محسوس کر رہا تھا۔۔۔ یقینا وہ دوسرے فرقے کا ہے۔۔۔ اور اس کے فرقے کا راز عیاں ہوتے ہی ظالم بن کر اس پر ٹوٹ پڑے گا۔۔۔ کہ حالیہ واقعات و قرائن اسی شک کی توثیق کرتے تھے۔۔۔

    سڑک کی دونوں جانب کے کئی مکانوں کی بالکنی، چھت اور کھڑکیوں پر کئی ساری آنکھیں اور کئی سارے کان ان دونوں پر ٹکے ہوئے تھے۔ اگر کسی چھت، کسی بالکنی، کسی کھڑکی سے گولی چل جائے تو۔۔۔ ٹھنڈک کے باوجود اس کے بدن میں حرارت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ کاٹو تو لہو نہیں ۔ پیشانی پر خوف کے مارے پسینے کی بوندیں جھلملانے لگیں۔

    اس نے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ذرا دور جاکر احتیاط کے طور پر سڑک کے کنارے سے ٹوٹی ہوئی اینٹ کا ایک بڑا سا ٹکڑا اٹھاکر اپنی پاکٹ میں رکھ لیا۔ اس بات کا اس نے خاص خیال رکھا کہ دوسرے موجود کو اس کی حرکت کا پتا نہ چلے۔ جیب میں ہاتھ ڈالے ہوئے مضبوطی سے اپنی ہتھیلیوں کی گرفت اس نے اینٹ کے ٹکڑے پر بنائے رکھی۔

    اس کے چہرے سے اب کچھ اطمینان اور بشاشت کی لکیریں عیاں ہورہی تھیں۔ اتنا بھر اسے سہارا مل گیا تھا کہ وہ تنومند آدمی کے حملے کا مقابلہ کئے بغیر جاں بحق نہ ہوگا۔

    اینٹ کے ہتھیار سے مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کا درجہ حاصل کرے گا۔۔۔

    بغیر جدوجہد اور مسابقت کی موت کو وہ حرام سمجھتا تھا۔۔۔ لڑتے ہوئے مرے گا تو یہ ملال تو نہ ہوگا ۔۔۔ اور کیا پتا ادھواڑ کے ایک وار سے وہ اپنے دشمن کا کام ۔۔۔غازی کا۔۔۔

    دراصل بچپن میں اس کے باپ نے سناٹی سڑک پر اسکول جاتے ہوئے اگر کتے پیچھا کریں تو ان سے بچنے کی یہ ترکیب بتائی تھی۔۔۔ کسی بھی حالت میں کتوں کو دیکھ کر دوڑنا نہیں ہے ورنہ وہ پیروں میں اپنے دانت گڑا دیں گے۔

    دھیرے دھیرے آگے بڑھتے ہوئے سڑک پر کسی بڑے ڈھیلے یا اینبٹ کے ٹکڑے کی تلاش کرنی ہے۔ ڈھیلے کے قریب پہنتے ہی اسے ہاتھ میں اٹھالینا ہے اور تب کتوں کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ اگر اس نے حملہ کرنے کی حماقت کی تو وہ اسے چھوڑے گا نہیں، اینٹ کے ٹکڑے یا پتھر سے وہ اس کا سر پھوڑ دے گا۔۔۔ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گا۔ کتوں کے ٹلنے سے پہلے بھولے سے بھی اس ہتھیار سے کنارہ کشی خود کشی کے مترادف ہے۔۔۔

    اس نکتے پر باپ کا خاص زور تھا۔

    نعمت ِغیر مترقبہ کی طرح ایک خالی ٹمپو ان کے پاس رکا۔ دونوں تیزی سے لپکے۔

    ٹمپو میں بیٹھنے کے بعدبھی دبلا آدمی تنومند سے ڈر رہا تھا۔ راستے میں کئی طرح کی آبادیاں ملتی ہیں پتا نہیں کب اس ہم سفر کی نیت خراب ہوجائے۔۔۔ کب اس کے ارادے اس کے خلاف ہوجائیں اور خطرناک صورت اختیار کرلیں۔

    اس نے سوچا کہ ہم سفر کی شناخت کا اندازہ ضروری ہے۔۔۔ اسی حساب سے آگے کی کارروائی طے کرے۔۔۔ اگر مخالف فرقے کا ہو تو ٹمپو روک کر اتر جائے۔۔۔ زندگی میں احتیاط ضرور ہے۔۔۔ لیکن جب پوری زندگی ہی قدم قدم پر خطروں میں گھری ہو تو۔۔۔

    ہر آن یہ ڈر ہو کہ کب کون۔۔۔

    بے یقینی اور تذبذب۔۔۔

    سب کچھ داؤں پر۔۔۔

    اس نے ڈرتے ڈرتے لیکن بظاہر بے خوفی کا اندازہ دکھاتے ہوئے پر تکلف لہجے میں اپنے ہم سفر سے پوچھا، ’’یور گڈ نیم پلیز۔۔۔‘‘

    ’’منا۔۔۔‘‘

    یہ وار بھی خالی گیا۔ اس نے سوچا۔ منا نام تو کسی کا بھی ہوسکتا ہے۔ تلفظ اور الفاظ توپڑھے لکھے لوگوں کے درمیان ایسے کامن ہوگئے ہیں کہ اس سے کسی کی جڑوں کا کوئی اندازہ نہیں ملتا۔۔۔

    دراصل پڑھائی لکھائی اور تہذیب و تمدن کہتے ہی اس کو ہیں کہ انسان اپنی حد بندیوں سے بالاتر ہوجائے۔۔۔ ان خصوصیتوں کو حاصل کرلے جو اسے اوصافِ عالیہ سے متصف کردیں۔۔۔ فرقوں کے غول سے نکال کر۔۔۔

    دوسرا آدمی نام بتاکر اپنے خیالوں میں گم ہوگیا۔

    پہلے کو اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جواباً وہ بھی اس سے نام دریافت کرے گا۔۔۔ وہ کیا نام بتائے گا یہ اس کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ مبادا اس کی شناخت اجاگر ہوجائے۔۔۔

    راجہ۔۔۔ آزاد۔۔۔ کئی نام اس کے ذہن میں جلدی جلدی آرہے تھے۔۔۔ اس طرح کے ناموں سے وہ اپنی مذہبی پہچان پر پردہ ڈال سکے گا۔۔۔

    لیکن دوسرے نے اس کا نام پوچھنے کی روایت نہیں اپنائی۔۔۔ اسے یک گو نہ راحت کا احساس ہوا۔

    عجیب آدمی تھا وہ۔۔۔

    شک و شبہ ، تذبذب اور خوف و ہراس کے اس ماحول میں بھی اب وہ قدرے مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔ اسے اس بات کی فکر لاحق نہیں تھی کہ اس کے بغل میں بیٹھے ہوئے آدمی کی کیا پہچان ہے۔ کس مذہب، فرقے اور ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ تو بڑی بے فکری سے سگریٹ پینے میں مصروف تھا۔ لیکن اس کا دوسرا ہاتھ مستقل پاکٹ میں تھا۔ ٹمپو کے ہچکولے کھانے پر یا ٹریفک کی وجہ سے اس کے دھیمے ہونے پر چوکنا ہوکر چاروں طرف دیکھنے لگتا تھا۔ اور پھر مطمئن ہوکر سگریٹ کے گہرے کش لینے لگتا تھا۔

    پہلا دزدیدہ نظروں سے دوسرے کی جانب دیکھتا رہا۔۔۔ سب سے بڑا خطرہ اسے اپنے ہم سفر کی پراسرار بے التفاتی اور لاپروائی کے برتاؤ سے محسوس ہورہا تھا۔۔۔

    سب اس کی مکاری ہے۔۔۔ موقع ملے گا اور۔۔۔ وہ ذرا سی بھی غفلت کرے گا اور اس کا چاقو اس کے جگر کے پار ہوجائے گا۔ اس نے گہری سانسیں لیتے ہوئے خود کو مسلسل چاق و چوبند رکھنے کی کوشش کی۔

    ناگاہ اس نے سوچا۔ پتا نہیں یہ ٹمپو والا کس فرقے سے تعلق رکھتا تھا جو سواریوں کی شاخت سے بے پروا اپنی منزل کی جانب اڑا جارہا تھا۔ اس کے فرقے سے یا اس کے ہم سفر کے فرقے سے۔۔۔

    ان دو مسافروں کو دیکھ کر ایک لحظہ کے لئے وہ ٹھٹکا تھا۔ ان کے ہاتھوں کے اشارے پر تھوڑی دیر کے لئے وہ سوچ میں پڑ گیا تھا۔۔۔ ٹمپو روکے یا نہ روکے۔۔۔

    کشیدگی اور تناؤ بھرے حالات سے متاثر ہوکر ٹمپو والا گھر پہنچنے کی جلدی میں تھا۔ مزید پھیرے لگاکر کمائی کرنے کا خیال ترک کرچکا تھا۔۔۔ زندہ رہا تو بہت کمائی ہوجائے گی۔۔۔۔

    ایک پل کے لئے اس نے سوچا تھا کہ ان دو مسافروں کے اشاروں کو نظر انداز کر کے تیز رفتاری کے ساتھ گرد اڑاتا ہوا آگے بڑھ جائے۔۔۔

    ایسے ایسے موقعوں پر کبھی کبھی سواریاں بہت زحمت بن جاتی تھیں۔۔۔ کیا پتا دونوں شرپسند عناصر ہوں اور ان کے پیٹ ملے ہوئے ہوں۔۔۔ الگ الگ ہونے کا دکھاوا کرتے ہوں۔۔۔ ٹمپو رکتے ہی دونوں ایک ساتھ اس پر حملہ آور ہوجائیں۔۔۔

    لیکن نہ معلوم کس انسانی جذبے کے تحت خطرے کے خیال کو جھٹکتے ہوئے اس نے ٹمپو روک دیا تھا۔۔۔شاید دونوں سچ مچ مصیبت کے مارے ہوں۔۔۔ پناہ گاہ کی تلاش میں ہوں۔۔۔ مدد کے مستحق ہوں۔۔۔

    اس نے سوچا کہ اسے ٹمپو والے سے سبق لینا چاہیے جو سواری کی شناخت کیے بغیر اپنے سفر پر بے محابا گامزن تھا۔۔۔ شاید دونوں سچ مچ مصیبت کے مارے ہوں۔۔۔ پناہ گاہ کی تلاش میں ہوں۔۔۔ مدد کے مستحق ہوں۔۔۔

    اس نے سوچا کہ اسے ٹمپو والے سے سبق لینا چاہئے جو سواری کی شناخت کئے بغیر اپنے سفر بے محابا گامزن تھا۔۔۔ اس کی سیاسی بیداری اور سیکولر شعور کے مقابلے میں اس اناڑی ٹمپو والے کے بے فکری کا اندازہ زیادہ قابلِ قدر اور دانشورانہ تھا۔

    اسے شرمساری ہوئی۔ لگا کہ خواہ مخواہ وہ اندیشے میں مبتلا تھا۔ ہم سفر سے خوف کھانے کے بجائے اس سے رفاقت کی تقویت حاصل کرنے کی ضرورت تھی۔

    رات ہوچکی تھی۔ سناٹی سڑک پر الکٹرک پولیس کی اسٹریٹ لائٹ عجیب طلسماتی ملگجی روشنی بکھیر رہی تھی۔ سڑک کی دونوں جانب گھنی آبادیوں والے محلوں میں خوفناک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تنہا اس ٹمپو کی تیز آواز ایسی لگ رہی تھی جیسے کوئی بلڈوزر ملبوں کو روندتا ہوا، آبادیوں کو تہس نہس کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہو۔ کہیں کہیں گلیوں اور چوراہوں پر سرگوشیوں میں مصروف لوگوں کی بھیڑ دکھائی دے جاتی تھی جو تیز رفتار ٹمپو میں فوراً نظروں سے اوجھل ہوجاتی۔

    سڑک کی دونوں جانب کی آبادیوں سے وہ دونوں واقف تھے۔ آبادیوں کی مناسبت سے ان کے چہروں پر الگ الگ رنگ آرہے تھے اور جارہے تھے۔

    کسی علاقے میں دبلا پتلا پرسکون نظر آتا تو تندرست و توانا آدمی چوکنا ہوجاتا۔ کہیں تندرست آدمی مطمئن ہوتا تو دبلے آدمی کے چہرے کی بے بسی دیکھنے کے قابل ہوتی۔ محلوں کی آبادی کے خدو خال کے حساب سے ان کے چہروں کی رنگ میں تبدیلی ہورہی تھی۔

    تندرست آدمی نے سگریٹ کا پیکٹ اس کی طرف بڑھایا، ’’سگریٹ پلیز۔۔۔‘‘

    ’’نو تھینک یو۔۔۔‘‘

    اس نے جان بوجھ کر سگریٹ قبول کرنے سے گریز کیا۔۔۔ کیا پتا اس میں نشہ آور چیز ملی ہو جو اس کو ٹھکانے لگانے کے لئے چارے کے طور پر ۔۔۔ اس نے طے کرلیا۔۔۔ کسی بھی قیمت پر سگریم نہیں پینا ہے۔۔۔

    تندرست آدمی نے اس کے انکار پر کسی تاثر یا رد ِعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اپنے خیالوں میں گم ہوگیا۔ جانے اس کا ذہن کہاں بھٹک رہا تھا۔

    آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

    نیم تاریکی میں اگلے موڑ پر ہتھیاروں سے لیس کچھ سائے دکھائی دے رہے تھے۔ جان بوجھ کر الکٹرک پول کی مرکری توڑ دی گئی تھی۔

    ’’پوری تیزی سے آگے بڑھتے جاؤ۔۔۔‘‘ دونوں نے ایک ساتھ ڈرائیور سے کہا۔

    ڈرائیور بھی لاٹھی ڈنڈوں اور دیگر ہتھیاروں سے لیس سایوں کو دیکھ چکا تھا۔ اس نے ٹمپو کی رفتار بے تحاشا بڑھادی۔

    تبھی ایک آواز ہوئی اور لڑھکتا ہوا ایک پیپا سڑک کے بیچوں بیچ آکر یوں ہلنے لگا جیسے کسی پہاڑ کے نیچے دب کر پس جانے کے خوف سے پناہ مانگ رہا ہو۔

    ٹمپو ڈرائیور نے کمال ہوشیاری سے اگر بریک نہ لیا ہوتا تو سب کے سب حادثے دوچار ہوجاتے۔

    کئی چہرے آگے آئے اور چاروں طرف سے انہوں نے ٹمپو کو گھیر لیا۔ غالباً تندرست آدمی کی شناخت سے ان میں سے کئی لوگ واقف تھے۔ دبلے آدمی کی طرف وہ لپکے۔

    ’’تم اپنا نام بتاؤ۔۔۔؟‘‘

    ’’ راجہ۔۔۔‘‘

    ’’پورا نام۔۔۔‘‘

    تندرست ہم سفر نے فوراً اپنے ہونے کا احساس کرایا، ’’نام کیا پوچھنا ہے۔۔۔ یہ میرا بھائی ہے۔۔۔‘‘

    ’’جھوٹ ۔۔۔ پینٹ اتارو۔۔۔‘‘ کسی کینہ پرور اور شرپسند نے زمین پر اپنی لاٹھی پٹکتے ہوئے کہا۔

    ان میں سے کئی ہنسنے لگے۔ کئی واقعی پینٹ کھول کر دبلے آدمی کی بے حرمتی کرنے کے لئے آگے بڑھے۔

    اسی وقت اس تندرست آدمی نے بل کھاتے ہوئے زور دار آواز میں چیخ لگائی، ’’خبردار۔۔۔ میری لاش سے گزر کر ہی یہ کام کرسکتے ہو۔۔۔‘‘

    وہ اچھل کر کھڑا ہوچکا تھا اور پوزیشن لیتے ہوئے ریوالور نکال چکا تھا۔ سب کے سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ ریوالور کی نلی اس وقت تک مشتعل ہجوم کی طرف کئے رہا جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگئے۔ اس نے ہلتے ہوئے پیپے کو کنارے کیا۔

    ٹمپو کے اسٹارٹ ہونے اور کچھ آگے بڑھ جانے کے باوجود دبلا آدمی زندگی سے ناامید اب تک سکتے کے عالم میں تھا۔ جو کچھ گزر چکا تھا اس پر اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ دہشت اور وہم و گمان کی عجیب کیفیت تھی جس نے اس کے سارے سوچ کو مفلوج کردیا تھا۔

    تندرست آدمی کے ذریعہ ٹہوکا دینے پر وہ چونکا اور اسے احساس ہوا کہ فی الحال وہ خطرے سے باہر ہے۔ کچھ لمحوں تک وہ اس کا منھ تکتا رہا۔۔۔ خالی خالی سا۔ دفعتاً اسے اپنے پنجے میں دبے ہوئے اینٹ کے ٹکڑے کا خیال آیا۔

    دو مناظر روشنی کے جھماکے کی طرح نگاہوں میں کوند گئے۔

    پہلے کی آمنے سامنے کی لڑائی میں قاسم چچا تلوار کے دستے پر لگاتار مضبوطی سے ہاتھ جمائے کچھ اس شجاعت سے لڑتے کہ دشمن کے پاؤں اکھڑ جاتے۔۔۔ لوٹ کر آتے تو تلوار کے دستے جنگ کرتے کرتے ہتھیلی اور انگلیوں میں اس طرح گتھ جاتے کہ اسے الگ کرنا مشکل ہوجاتا۔۔۔ داہنے ہاتھ کی انگلیاں ہفتوں اپنا کام ٹھیک سے انجام دینے کے لائق نہ بن پاتیں۔

    نوجوانی کی بلند چوٹی کی طرف بڑھتا ہوا اس کا بیٹا اپنے ساتھیوں سے کوئز کے طور پر آر ڈی ایکس کا فل فارم دریافت کرتا رہتا۔

    اس کے پنجے میں اینٹ کا ٹکڑا مستقل دبا ہوا تھا۔۔۔ کسی مرے ہوئے چوہے کی طرح۔۔۔ اور اس کی انگلیاں بے حس و حرکت ہوگئی تھیں۔ بے اختیار اسے اپنی حالت زار پر ہنسی آگئی۔

    ’’بھائی صاحب! آپ رو کیوں رہے ہیں۔۔۔؟‘‘ ہم سفر کے سوال پر وہ گڑبڑا گیا۔۔۔ سچ مچ وہ ہنس رہا تھا یا رو رہا تھا۔ وہ آبدیدہ ہوگیا۔ جذبات سے بے قابو ہوکر اس نے ہم سفرکا ہاتھ چوما۔ اس کی آنکھوں سے زارو قطار خوشی کے آنسو رواں تھے۔ اسے یہ مقولہ یاد آیا، ’’دوست ا ٓں باشد کہ گیر دوست دوست در پریشاں حالی و درماندگی۔‘‘

    رندھی ہوئی آواز میں دبلا آدمی گویا ہوا، ’’آپ کا بہت بہت شکریہ جناب۔۔۔میں یہ احسان عمر بھر نہیں بھول سکتا۔۔۔ آپ نے میری جان بچا کر میرے بڑے بھائی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ تنومند ہم سفر نے زور دے کر کہا۔

    ’’میں نے صرف بھائی ہونے کا فرض ادا کیا ہے۔۔۔‘‘

    اس نے ریوالور جیب میں رکھا اور سگریٹ کا پیکٹ اس کی طرف پیار سے بڑھاتے ہوئے بولا، ’’اب تو پئیں گے سگریٹ آپ۔۔۔‘‘

    نیم تاریکی میں اس کی مسکراتی ہوئی آنکھیں اپنائیت اور دوست داری کی لازوال چمک سے منور تھیں۔

    مأخذ:

    گنبد کے کبوتر (Pg. 158)

    • مصنف: شوکت حیات
      • ناشر: شوکت حیات
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے