Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بی بی

ترنم ریاض

بی بی

ترنم ریاض

MORE BYترنم ریاض

    بی بی ڈائینگ ٹیبل کے کونے سے پیٹھ ٹکائے اور ایک ہتھیلی کرسی کی پشت کے اونچے حصے پر دھر کر اپنے بدن کو سہارا دیے کھڑی اپنے پیروں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا سر وقفے وقفے سے ہلکے سے جھٹکے کھا کر ہل جاتا۔ ناک سکیڑنے کی آواز بھی رہ رہ کر سماعت سے ٹکراتی اور وہ اپنا خمیدہ سا تھرتھراتا ہوا ہاتھ ماتھے کے قریب لے جا کر بار بار اپنے خشک بالوں کو سمیٹ کر سر پر دھرے ململ کے دوپٹے کے نیچے اڑستی جو لمحہ بھر بعد ہی پھسل کر واپس ماتھے پر بکھر جاتے۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور بدن لرز رہا تھا مگر وہ اپنے مسوڑھوں کو سختی سے بھینچ کر اپنی اس کیفیت کو قابو میں رکھنے کی مسلسل کوشش کیے جا رہی تھی۔ کمرے میں موجود سبھی لوگوں کی نگاہیں اُس پر جمی تھیں۔

    آخر اس عمر میں آپ کو یہ باتیں زیب دیتی ہیں؟باسط نے بیزاری سے منھ پھیر کر کہا اور ہاتھ سے بال سنوارنے لگا۔

    جو بھی ہوتا ہے، آپ کو پتہ تو چلتا ہی ہے۔۔۔ پھر اس طرح اندر گھس کر۔۔۔ شیبا نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

    جھانک کر دیکھنے کی کیا۔ضرورت کیا ہوتی ہے آپ کو؟ بہو جملہ مکمل کرتے ہوئے باورچی خانے کی طرف پلٹی تو جھرّیوں میں جنبش سی ہوئی اور پوپلے منھ پر کھسیانی سی مسکراہٹ چھا گئی۔ اس نے سر کچھ اور جھکا لیا اور ہاتھ ماتھے تک لے جا کر بالوں کو آنچل میں سمیٹنے لگی۔

    بتائیے نا بی بی۔ اس بار پوتے کی آواز ذرا اونچی تھی۔

    سارا موڈ خراب کر دیا آپ نے۔۔۔ آج سوچا تھا کہ Exam ختم ہوئے ہیں دوستوں کے ساتھ کہیں گھوم آؤں۔ خوامخواہ مماں نے روک لیا کہ Lunchکر کے جاؤں۔۔۔ اور۔۔۔ اب لنچ ہے۔۔۔ کہ۔۔۔ باسط کی آواز کی جھنجھلاہٹ میں گِلے کی آمیزش صاف عیاں تھی۔

    مجھے تو ٹیوشن جانا ہے بھیّا۔ سکول میں سوچا تھا کہ فوراً کھانا کھا کر سو جاؤں گی تو شام تک Fresh ہو جاؤں گی۔۔۔ مگر۔ پوتی نے ناک کو انگلی سے سہلاتے ہوئے دادی کی طرف دیکھا تو دادی نے سر ذرا سا اٹھا کر دھندلی نظروں سے دونوں کی طرف باری باری دیکھا۔ پھر دروازے کی طرف نظر اٹھائی جہاں سے اس کی بہو کے سینڈل کی ایڑیاں فرش سے ٹکرا کر اونچی آواز پیدا کر رہی تھیں۔

    اب آپ یہاں کھڑی کیا کر رہی ہیں۔۔۔ جائیے اپنے کمرے میں۔۔۔ آرام کیجئے۔۔۔ آپ نے تو کھا پی لیا ہے۔۔۔ میری آج شام کی ڈیوٹی ہے۔۔۔ اور اس Maid کو آج ہی جلدی جانا تھا۔۔۔ مگر آپ سے یہ سب کہنے سے کیا حاصل۔ بہو اندر داخل ہوتے ہوئے بولی اور باہر نکل گئی۔

    بیٹا تمہارے پاپا آتے ہوں گے۔۔۔ وہ پھر اندر آئی اور بچوّں کی طرف دیکھنے لگی۔

    تھرماس میں چائے رکھی ہے۔۔۔ پتہ نہیں آج دیر کیوں ہو گئی ان کو۔۔۔ ورنہ اب تک تو۔۔۔ بہو نے بات ادھوری چھوڑ کر پھر بی بی کی طرف دیکھا۔ بی بی نے دو ایک بار پلکیں جھپکیں اور بہو کی طرف دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھیں ایسی لگ رہی تھیں جیسے ان میں دودھیا رنگ کا کوئی گھول ڈالا گیا ہو اور چشمے میں لگے دو شیشوں میں سے ایک کا لینس زیادہ محدّب ہونے کی وجہ سے ایک آنکھ دوسری کی نسبت کوئی چار گنا بڑی نظر آ رہی تھی۔ اُس ایک آنکھ میں ڈر اور التجا بھرا کوئی ملا جلا جذبہ تڑپتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ پُتلی بےقرار سی ادھر ادھر تھرک رہی تھی۔ شاید دوسری آنکھ کی پُتلی بھی اس کا ساتھ دے رہی ہو مگر اس کا کانچ دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ نچلا حصہ آدھے چاند کی شکل میں تراشا گیا تھا۔اور دونوں کو ملانے والا جوڑ پُتلی کی سیدھ میں ہونے کی وجہ سے آنکھ کچھ واضح نہیں تھی۔ اس نے منحنی سا ہاتھ اٹھا کر جلدی جلدی بال سمیٹ کر پلّو کے نیچے کرنے کی کوشش کی۔

    اس سے۔۔۔ نہ۔۔۔ نہ کہنا بیٹا۔۔۔ بی بی نے دوسرے ہاتھ سے جو گٹھیا کے عارضے کی وجہ سے پرندے کے پنجے کی طرح سکڑا اور مُڑا ہوا تھا، ٹھہر جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    اب۔۔۔ اب میں۔۔۔ کیا کروں۔۔۔ بی بی نے سر جھکا لیا۔

    مجھ سے۔۔۔ کچھ۔۔۔ کچھ ہوتا تو۔۔۔ ہے نہیں۔۔۔ میں۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے کرسی کی پشت کو دھکا دیا۔ کرسی میز کے اندر سے ذرا سا باہر کو سرکی تو وہ اس پر ٹک گئی۔زیادہ دیر کھڑا رہنے سے اُس کی سوکھی لکڑی سی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ اس کی نظریں بہو کی ہی طرف تھیں۔ ابھی۔۔۔ جاتی ہوں۔۔۔ اندر۔۔۔ میں۔۔۔ تم۔۔۔ تم کچھ نہ کہنا اس سے۔۔۔ وہ آئےگا تو۔۔۔ ورنہ۔۔۔ وہ تو۔۔۔ بچپن میں بھی اگر۔۔۔ کبھی ایسا ہو جاتا۔۔۔ تو پورا دن۔۔۔ کھانا چھوڑ دیتا تھا وہ۔۔۔ اب۔۔۔ میں کیا کروں۔۔۔ مجھ سے۔۔۔ تو ہوتا نہیں۔۔۔ کچھ۔۔۔بالوں میں۔۔۔ تیل ڈالے۔۔۔ کنگھا کئے۔۔۔ زمانہ ہو گیا۔ بی بی کی آنکھ کے دودھیا گھول میں کوئی سیماب سی شے تیرنے لگی تو اُس نے بار بار پلکیں جھپکیں اور دھیرے سے ناک پونچھی۔

    تو یہاں کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ آپ کے بال سنوارے بار بار۔ سب اتنے مصروف ہیں کہ۔۔۔ خیر وہ تو دوسری بات ہے۔ آپ پہلے ایسا کرتی ہی کیوں ہیں۔۔۔؟

    بہو نے بی بی کو ایسے دیکھا کہ آنکھوں میں لائے گئے حقارت کے تاثرات بی بی کو صاف نظر آئیں۔

    دانت بھی۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہیں میرے۔۔۔ اب۔۔۔ میں تو۔۔۔

    اب اس عمر میں دانت لگوا کر آپ کو کرنا بھی کیا ہے؟ دودھ، ڈبل روٹی، کیلا۔۔۔ اس میں ہے تو ساری غذائیت۔۔۔ آپ کو اور کسی چیز سے کیا مطلب۔۔۔؟ بہو بحث کرنے کے انداز میں بولی اور ساری کے فالز درست کرنے لگی۔

    اب۔۔۔ ایسا کبھی نہ ہوگا بیٹا۔۔۔ میں ادھر کا رخ بھی نہ کروں گی۔۔۔ میں تو صرف۔۔۔ خوشبو کے لیے۔

    خوشبو کے لیے۔۔۔ خوشبو پھیل تو جاتی ہے سارے گھر میں۔۔۔ آپ کے کمرے میں بھی۔۔۔ پھر۔۔۔ ! بہو نے تحکمانہ انداز میں سر جھٹکے سے نیچے سے اوپر کر کے کہا اور کانوں میں پڑتی ہوئی کال بیل کی آواز پر دروازہ کھولنے باہر آئی۔

    بند مت کرنا دروازہ۔۔۔ چابی دینے آ رہا ہے ڈرائیور۔

    سیف خوشدلی سے بیوی سے مخاطب ہوا۔

    نہیں مجھے بھی گاڑی میں ہی جانا ہوگا۔۔۔ آفس کی گاڑی ہارن کر کے چلی گئی۔۔۔ میں تو عجیب مصیبت میں گھری ہوں۔۔۔ کیسے جاتی۔۔۔ چائے تھرمس میں ہے۔۔۔

    وہ چہرے پر بےچارگی سی طاری کرتے ہوئے بولی۔

    کیوں کیا ہوا۔۔۔؟سیف نے دروازے پر آئے ڈرائیور سے بیگ لے لیا اور اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ میں تھمی چابی کی طرف دیکھا۔

    تم گاڑی میں بیٹھو۔۔۔ میم صاحب کو جانا ہے۔ڈرائیور کے چہرے پر مایوسی کی ہلکی سی تہہ چھانے لگی تو وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔

    ٹھیک ہے صاحب۔۔۔وہ باہر کی طرف لپکا۔

    بہو نشست گاہ میں داخل ہوئی تو سیف بھی اس کے ساتھ ہی اندر داخل ہوا۔

    کیا ہوا۔۔۔ اس نے بیوی کی طرف رخ کر کے ماں کی طرف دیکھا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔

    میری تو قسمت میں ہی پریشانیاں ہیں۔۔۔ آج۔۔۔ معلوم ہے سالن میں سے بال نکل آیا۔۔۔ بچوں نے دیکھا۔۔۔

    اف۔۔۔سیف نے نہایت ناگواری سے آنکھیں بھینچ کر منھ دوسری طرف موڑا۔

    میں Maid پر بگڑی کہ سکارف باندھ کر کام نہیں کرتی۔ وہ بھی چپ سی ہو گئی۔۔۔ ڈر ہے کام نہ چھوڑ دے۔۔۔ اب دوسری ڈھونڈنا۔۔۔ او گاڈ۔۔۔

    مگر بال آیا کیسے۔۔۔ سالن میں۔۔۔؟ سیف نے برا سا منھ بنا کر تھوک نگلا۔

    بی بی نے چشمے کے پیچھے سے سہمی ہوئی نظروں سے بیٹے اور بہو کو باری باری دیکھا۔۔۔اور انہیں ایک دوسرے سے مخاطب دیکھ آہستہ سے کرسی سے اٹھی۔

    ارے آنا کہاں سے تھا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد Maid مجھے بالکنی میں لے گئی۔ سورج کی روشنی میں دیکھا تو سفید رنگ کا تھا بال۔۔۔

    سفید بال۔۔۔؟۔۔۔ سفید بال تو۔۔۔

    بی بی دیوار کے سہارے کمرے کے دروازے تک پہنچ گئی تھی۔

    اور کیا۔۔۔ اب آپ کی ماں آ آ کر ہر وقت ہانڈیوں میں جھانکے گی تو۔۔۔

    بی بی نے اس کے بعد کچھ نہ سنا۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں پہنچ چکی تھی۔ عجلت سے مسہری پر لیٹ کر اس نے جلدی سے دروازے کی طرف ایک نظر دیکھا اور آنکھیں میچ لیں۔ چشمہ اتارنا اسے یاد ہی نہ رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے