Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بگڑی گھڑی

انتظار حسین

بگڑی گھڑی

انتظار حسین

MORE BYانتظار حسین

    کہانی کی کہانی

    ماسٹر نیاز کی دوکان کے پاس ابو نجومی کی دوکان ہے۔ ماسٹر نیاز کے پاس لوگ گھڑی درست کرانے اور ابو نجومی کے پاس اپنی قسمت کا حال پوچھنے آتے ہیں۔ ماسٹر نیاز روشن خیال آدمی ہے، کہتا ہے کہ، اب ستارے انسان کی قسمت کے مختار نہیں رہے، انسان ستاروں کی قسمت کا مختار ہوگا۔ لیکن ابونجومی تردید کرتا ہے۔ آخر میں جب ماسٹر نیاز اپنی گھڑی درست کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو سوچتا ہے کہ واقعی انسان مجبور ہے۔ خود ابو نجومی کا بھی یہی المیہ ہے کہ وہ دوسروں کی قسمت سنوارنے کی تراکیب نکالتا ہے لیکن خود اپنی حالت بہتر کرنے سے قاصر ہے۔

    سامنے والی دوکان سے رحیم جو اس بحث پر مستقل کان لگائے ہوئے تھا موتی چور کے لڈو گوندھتے گوندھتے اونچی آواز میں بولا، ’’ابو نجومی تیرا علم کیا کہوے ہے۔‘‘

    گم متھان سینک سلائی ابو نجومی نے کہ دیر سے اکڑوں بیٹھا سلیٹ پر خانے بنائے اور مٹائے جا رہا تھا ہاتھ کو روکا، آنکھیں بند کر لیں، پھر آنکھیں کھولیں، اور اسی طرح گھٹنوں میں سردیے سلیٹ پر نظریں جمائے بولا، ’’عطارد و مشتری وو قمر و زہرہ سعد جن کو شبھ گرہ کہتے ہیں اور آفتاب و مریخ ذنب جن کو پاپ گرہ کہتے ہیں، اور اس زحل کہ بعض حالت میں سعد یعنی نیک اور بعض حالت میں نحس یعنی مکروہ ہوتے ہیں اور جب خانہ میزان میں آفتاب اور خانہ جدی میں مشتری، اور خانہ سنبلہ میں زہرہ اور خانہ حمل میں زحل اور خانہ قوس میں راس ہو تو منحوس ہے۔ پاکستان کا ستارہ مریخ ہے کہ بلند اقبال ہے، پر شبھ گرہ نہیں، جاننا چاہئے کہ اس ساعت وہ خانہ سرطان میں ہے، پس اگر خانہ سرطان سے ساعت ختم ہونے سے پہلے نکل آیا تو بھلا ہے، اور اگر دوسری ساعت لگ گئی تو اندوہنا کی بے گماں ہے، جان کا زیاں ہے۔‘‘

    ابو نجومی چپ ہوگیا، آنکھیں بند کر لیں، حاجی تراب علی گم سم ہوگئے تھے اور ماسٹر نیاز سیاہ رنگ میگینفا ئر آنکھ سے چپکائے ڈھکن کھلی گھڑی کے بند پرزوں کو یکسوئی سے دیکھے جا رہے تھے۔ میں نے میز پر پڑی ہوئی کتاب کھول لی تھی اور بلاوجہ ایک صفحہ پر نظریں جمالی تھیں۔ سامنے کی دیوار گھڑی جو تین دن سے شام کو دوپہر کا اور دوپہر کو صبح کا وقت بتا رہی تھی، یکایک حرکت میں آئی اور ٹن ٹن نو بجا ڈالے۔ رحیم اونچی آواز میں بولا، ’’حاجی صاحب، ابو نجومی کا تو اپنا علم ہے، میں تو کوئی علم والا نہیں پر میں نے جوتی اچھال کے بتا دیا تھا کہ ہندوستان پاکستان لڑائی ہوگی۔ اور یہ تو ابھی کی بات ہے، پوچھ لو ابو نجومی سے، اس کے سامنے میں نے جوتی اچھالی تھی، جوتی چت گری، میں نے صاف کہہ دیا کہ لو بھیاّ لیگ چِت ہوگئی۔‘‘

    حاجی تراب علی ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے افسردگی کے لہجہ میں بولے، ’’میاں کوئی چِت نہیں ہوا، چِت تو پاکستان ہوا ہے۔‘‘ چپ ہوئے، کچھ سوچنے لگے، پھر بولے، ’’مولوی اکبر علی اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے، نجومی وجومی تو تھے نہیں، نہ عامل تھے، ہاں عبادت گزار بہت تھے، ان کی کہی ہوئی ایک ایک بات پوری ہو رہی ہے، میں نے ایک مرتبہ سوال کیا کہ مولوی صاحب مجھے حج بھی نصیب ہوگا۔ فرمایا کہ جو قدم جہاں سے اٹھیں گے وہاں واپس نہیں آئیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا حج سے ہمارے واپس ہوتے ہوتے سارا قبیلہ یاں پہنچ چکا تھا، پاکستان کے بارے میں میں نے ان سے سوال کیا تو چپ سے ہوگئے، پھر فرمانے لگے کہ جو چیز بہت ہے، تھوڑی رہ جائے گی۔ جو چیز تھوڑی ہے بہت ہو جائے گی، اس وقت تو نہیں مگر اب یہ بات سمجھ میں آرہی ہے، گیہوں یہاں کتنا ہوتا تھا۔ مگر اب۔۔۔ اب دیکھ لو، اور رہی تھوڑی کے بہت ہونے کی بات تو بھائی ایک بے پر دگی کو ہی لے لو۔ ہمارے زمانے میں بس خان صاحب والے تھے جن کی لڑکی نے پردہ چھوڑ دیا تھا، اب جسے دیکھو بے پردہ۔‘‘

    ماسٹر نیاز نے خاموشی سے پیچھے والی شیشے کی الماری کھول دوسری گھڑی نکالی۔ ڈھکن کھولا کہ اس کے کھلتے ہی ننھے نازک پرزوں کا تیز باریک شور ہونے لگا، پھر اسے بند کیا، چابی گھمائی، کان سے لگایا، پھر اسے حاجی تراب علی کو دکھاتے ہوئے کہنے لگے، ’’حاجی صاحب میں تو یہ جانتا ہوں کہ یہ گھڑی ہے، میرے پاس درستی کے لئے آئی ہے، اگر میں یہ کام جانتا ہوں اور ایماندار ہوں تو گھڑی درست کر دوں گا، اگر نہیں۔۔۔ تو پھر میرے ہاتھ میں آکر یہ گھڑی اور بگڑ جائے گی، یہ ہے موٹی بات۔ رہا آپ کا نجوم، آپ کے عالموں کی باتیں تو میں مانتا نہیں۔‘‘

    رحیم چلاّ کر بولا، ’’ابو نجومی سنتا ہے، ماسٹر صاحب تیرے علم کو نہیں مانتے۔‘‘ ابو نجومی نے اک وقار سے گھٹنوں سے سر اٹھایا اور ویران آنکھوں سے ماسٹر نیاز کو گھورتے ہوئے بولا، ’’ماشٹر ہم اندھے خدا ہیں، بس ہم نے کہہ دیا۔‘‘ ماسٹر نیاز نے جواب میں پھر میگنیفائر آنکھ سے چپکا لیا اور گھڑی کا ڈھکن کھول پرزے دیکھنے لگے۔ ابو نجومی ماسٹر نیاز کو بدستور گھورے جا رہا تھا، ماسٹر یہ اندھا علم ہے، ہم اندھے خدا ہیں، اب سوچو چاندیاں سے کتنی دور ہے۔ ماسٹر نیاز نے گھڑی کے پرزوں کو اسی طرح دیکھتے دیکھتے بات کاٹی، ’’اب زیادہ دور نہیں رہا۔‘‘

    ابو نجومی نے ماسٹر نیاز کی بات سنی ان سنی کی اور پھر کہنا شروع کیا، ’’چاندیاں سے کوسوں دور ہے، مگر ہم یاں بیٹھے بیٹھے بتا سکتےہیں کہ چاند گرہن کب پڑے گا، تو جب چاند گرہن کا وقت بتایا جا سکتا ہے تو آدمی کہ زمین پہ چلتا پھرتا ہے اور خاک کا پتلا ہے اور بھول چوک سے بنا ہے، اس کی باتوں کا کیا پتہ نہیں چلایا جا سکتا۔ اور جانتے ہو ماشٹر ہمارے پاس حضرت آدم کی جنم پتری بنی رکھی ہے، تو جب حضرت آدم کی جنم پتری بن سکتی ہے تو پھر کون سا آدم ہے کہ اس کی جنم پتری تیار نہیں ہوسکتی۔‘‘ حاجی تراب علی نے ڈاڑھی پہ ہاتھ پھیرا، پھریری لی، ’’اللہ اکبر‘‘ اور چپ ہوگئے۔

    ماسٹر نیاز نے آنکھ سے میگنیفائر ہٹایا اور گھڑی کو میز کی دراز میں احتیاط سے رکھتے ہوئے بولے، ’’ابو نجومی تمہارا علم عہدِ قدیم کی یادگار ہے، سائنس بہت آگے بڑھ گئی ہے، اب ستارے انسان کی قسمت کے مختار نہیں رہے، انسان ستاروں کی قسمت کا مختار ہوگا۔‘‘

    سینک سلائی ابونجومی کی گھورتی ہوتی ویران آنکھوں میں جو غصّہ کی کیفیت پیدا ہوئی تھی، غائب ہوگئی اور کسی گہری سوچ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی کہ اس نے ان ویران آنکھوں کو اور ویران بنا دیا، اس نے بڑی سنجیدگی سے انکار میں سر ہلایا، اور کسی قدر افسردہ لہجہ میں بولا، ’’ماشٹر، ستاروں کی اپنی چال ہوتی ہے، اس میں آدمی کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔ آدمی بہت مجبور ہے، کچھ نہیں کر سکتا وہ۔‘‘ ابو نجومی نے آنکھیں بند کر لیں اور پھر گھٹنوں میں سرد ےساری گفتگو سے بے تعلق اور بے نیاز ہوگیا۔

    حاجی تراب علی اپنی کھچڑی داڑھی پہ ہاتھ پھیرتے پھیرتے خیالات میں کھوسے گئے، پھر جھر جھری کے ساتھ اللہ اکبرکہا، تامل کیا، پھر ماسٹر نیاز سے مخاطب ہوئے، ’’نیاز صاحب آپ کی سائنس نے آپ کہتے ہیں کہ بہت ترقی کرلی ہے، مگر کیا کسی سائنسداں نے آج تک چاند کو دو ٹکڑے کرکے دکھایا ہے؟‘‘ ماسٹرنیاز نے حاجی تراب علی کو دیکھا اور جواب میں سامنے رکھی ہوئی ٹائم پیس کو اٹھایا اور چابی گھمانی شروع کر دی۔ حاجی تراب علی نے جھرجھری لی۔ ’’اللہ اکبر کیا شان ہے، قمر کی طرف انگلی اٹھائی شق ہوگیا، سورج کی طرف اشارہ کیا، ٹھٹک گیا، کنکریوں کو اٹھایا، کلمہ پڑھنے لگیں اور وحوش و طیور۔۔۔‘‘ حاجی تراب علی کی آنکھوں میں ایک خواب سا تیرنے لگا۔ چہرے کے خطوط میں نرمی آگئی اور لہجہ دھیما ہوگیا۔

    ’’صاحب، کیا منظر ہوتا ہے روضہ پاک پر، ٹکڑیوں پہ ٹکڑیاں چلتی ہیں جیسے بادل گھرکے آئے ہوں، مدینہ پاک کی چھتوں پہ چھاؤں پھیل جاتی ہے اور گلیوں میں پروا چلنے لگتی ہے، دن بھر گنبد پاک پر بیٹھے رہتے ہیں، کیا مجال کہ ایک بیٹ بھی کہیں نظر آجائے۔۔۔ اللہ اللہ پرندے تو احترام کریں اور ہم انسان کلمہ گو کہیں کہ معاذ اللہ۔۔۔‘‘ حاجی تراب علی کی زبان رک گئی، جسم میں ایک تھر تھری دوڑی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

    ماسٹر نیاز نے آہستہ سے ٹائم پیس کا ڈھکن کھولا اور پہلے آنکھوں کے قریب لاکر دیکھا، پھر کان کے برابر کر لیا، کیسا ہی سنجیدہ مسئلہ ہو، ماسٹر نیاز اپنے کام کے تسلسل میں فرق نہیں پڑنے دیتے، ان کی دوکان میں چاروں طرف گھڑیاں دکھائی دیتی ہیں، پھر بھی یہاں بیٹھ کر وقت سے آگاہ رہنا سخت مشکل ہے کہ چھوٹی بڑی گھڑیوں میں ہر گھڑی ایک سے بارہ تک سب بجتے نظر آتے ہیں، ماسٹر نیاز کی دوکان میں ہر وقت اوقات کا بلوہ رہتا ہے۔

    برابر میں سڑک کے کنارے ابو نجومی اپنی میلی دری بچھائے، ٹوٹی سی ایک صندوقچی سامنے دھرے، صندوقچی کے آس پاس گتّے کے ٹکڑے سجائے کہ کسی پہ پنجہ بنا ہے، کسی پہ نقشِ روحانی، کسی پہ ہدایات و عملیات، سرنیوڑھائے، پیلے کاغذوں والی کسی پرانی دھرانی کتاب پہ نظریں جمائے بیٹھا رہتا ہے، آسمان کے ستاروں کو گھڑی کی سوئیاں سمجھتا ہے اور سلیٹ پہ چاک سے نقش بنا کر بتاتا ہے کہ کسی شخص کی قسمت کی گھڑی کیا بجائے گی۔

    دوسرے دن میں گھر سے سویرے نکلا، حاجی تراب علی ابھی تشریف نہیں لائے تھے، ماسٹر نیاز دوکان اکیلی چھوڑ کر جانے کہاں چلے گئے تھے، ماسٹر نیاز دوکان سے نہ ہلیں تو سارا دن نہ ہلیں، اٹھتے ہیں تو گھنٹوں خالی پڑی رہتی ہے۔ میں نے کرسی دروازے کے قریب گھسیٹی اوربیٹھ گیا، ابو نجومی اپنے ایک دیہاتی گاہک سے لگا ہوا تھا، دوکاندار اور گاہک دونوں گم تھے، ایک مراقبہ میں دوسرا امیدو بیم کے دھندلکے میں، پھر ابو نجومی نے اچانک بولنا شروع کر دیا۔ ’’عطارد و مشتری و زہرہ سعد کیفیت عطارد کی یہ ہے کہ جب باہم سعد کے ایک خانے میں ہو، تب ثمرہ نیک اور جب باہم ستارہ نحس کے ہو تب ثمرہ بد ظہور میں آتا ہے۔ تیرا ستارہ مشتری ہے کہ شبھ گرہ ہے، پر ان دنوں وہ خانہ جدی میں ہے کہ نتیجہ اس کا اندوہناک ہوگا۔‘‘

    دیہاتی بہت گھبرایا، تب ابو نجومی نے بڑی بے نیازی سے ہدایت کی، ’’جا بابا، اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا، جمعہ کی صبح کو سولہ گز لٹھا اور آدھ پاؤ لوبان اور ڈیڑھ چھٹانک زعفران لے کے آئیو، نقش روحانی لکھیں گے اور تیرا ستارہ کہ شبھ ہے پر اس وقت خانہ جدی میں ہے، خانہ جدی سے نکل آئے گا۔‘‘ جب دیہاتی چلا گیا تو میں نے یونہی پوچھ لیا، ’’ابو نجومی تم ہر گاہک سے جو سولہ گز لٹھا لیتے ہو اس کا کیا کرتے ہو؟‘‘ ابو نجومی نے بڑے وقار سے گھٹنوں سے سر اٹھایا، مجھے گھورتے ہوئے بولا، ’’بابو تیری سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی۔‘‘ اور پھر سلیٹ پر نقش بنانے میں مصروف ہوگیا۔

    ابو نجومی جو نقش بناتا ہے میری سمجھ میں وہ کبھی نہ آئے، میری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آتی کہ آخر سلیٹ پر بار بار کیوں نقش بنائے جائیں اور مٹائے جائیں۔ ابو نجومی جب کئی نقش چاک سے بنا اور بگاڑ چکا تو اس نے غور سے میری طرف دیکھا بولا، ’’بابو! یہ دنیا ڈھول ہے، خالی ڈھول، ہر شخص بساط کے مطابق اس ڈھول کو پیٹتا ہے۔‘‘ میں اسے بھی سلیٹ پر بنا ہوا ایک نقش سمجھا اور چپ ہو رہا۔

    نیاز صاحب کی میز پر ایک کتاب پڑی تھی، ٹھالی سے بیگار بھلی، میں نے یہ کتاب اٹھائی اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا، لیکن اس کی خشک عبارت نے جلد ہی بیزار کر دیا اور آنکھوں میں تر مرے آگئے، میں نے کتاب بند کی اور ایک لمبی سی جماہی لی۔ ابو نجومی کے سامنے ایک عورت بیٹھی زارو قطار رو رہی تھی اور ابو نجومی کہہ رہا تھا، ’’عورت تیرا ستارہ تیسرے آسمان پہ ہے، اس کا ستارہ پانچویں آسمان پہ ہے، دونوں کا ملاپ ابھی نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’بابا جی کچھ کرو۔‘‘ وہ سسکیاں لے لے کے رونے لگی۔ ابو نجومی نے خاموشی سے کاغذ پہ نقش بنایا، انگلی پہ ہندسے گنے، آنکھیں بند کیں، پھر کھولیں اور بڑبڑانے لگا، ’’دو ستارے کہ مقابل ایک دوسرے کے ہیں، سرطان نرثور مادہ، نور صورتِ گاؤ، سرطان صورت کیکڑا، ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور ہٹ جاتے ہیں کہ بیچ میں ایک تیسرا ستارہ صورت حُوت مچھلی کے موجود ہے، جوان میں تفرقہ ڈالتا ہے، جاننا چاہئے کہ نقشِ روحانی عورت گلے میں ڈالے تو یہ تیسرا ستارہ بیچ میں سے ہٹ جائے اور دونوں ستاروں کا ایک بُرج میں میل ہو۔‘‘ پھر اس نے عورت سے خطاب کیا، ’’اے عورت! اس وقت تو چلی جا، جمعہ کی صبح کو سولہ گز لٹھا اور آدھ پاؤ لوبان اور ڈیڑھ چھٹانک زعفران لے کے آئیو۔ نقشِ روحانی لکھیں گے اور انشاء اللہ تیری مراد بر آئے گی۔‘‘

    عورت چلی گئی، میں پھر بول پڑا، ’’یہ بچاری عورت تو بہت روتی تھی۔‘‘

    ’’یاں جو آتا ہے روتا ہوا آتا ہے۔‘‘ اس نے گھٹنے پہ ٹھوڑی ٹکائی اور چاک ہاتھ میں لے سلیٹ پہ نقش بنا ناشروع کردیا، ٹھوڑی کو اسی طرح گھٹنے پر ٹکائے، سلیٹ پہ نظریں جمائے نقش بناتے بناتے بولا، ’’ایک لونڈیا تھی، وہ تو بات ہی نہیں کرتی تھی، بس روتی تھی۔‘‘ اس نے نقش کو ادھورا چھوڑ دیا۔ ہاتھ کو روک کر میری طرف دیکھا، میں سمجھا کہ آگے کوئی بات کرے گا، مگر اس نے اور ہی سوال کر ڈالا، ’’بابو، یہ تمہارا ماشٹر ستاروں کی چال کو نہیں مانتا؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’اور سائنس بھی ستاروں کی چال کو نہیں مانتی؟‘‘

    ’’مانتی بھی ہے اور نہیں بھی مانتی۔‘‘

    ’’کیا مطبل۔‘‘

    ’’مطلب یہ کہ اس طرح نہیں مانتی جس طرح علم نجوم مانتا ہے، سائنس کی کوشش تو یہ ہے کہ آدمی خود ستاروں میں پہنچ جائے۔‘‘

    ابو نجومی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پھر اس کے ساکت جسم کو جنبش ہوئی اور ویران آنکھوں سے تحیر کا رنگ غائب ہوکر افسردگی کی کیفیت پیدا ہونے لگی۔ ’’بابو ستاروں کی اپنی چال ہے، آدمی مجبور ہے، وہ اس میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘ اس نے بائیں گھٹنے پہ مٹھی رکھی، مٹھی پہ ٹھوڑی ٹکائی، سیدھے ہاتھ سے سلیٹ سرکائی اور پھر نقش بنانا شروع کر دیا۔

    ’’روز وہ آجاتی، اور آکر چپ چاپ بیٹھ جاتی اور بیٹھی رہتی۔‘‘ اس نے بغیر نوٹس دیے بولنا شروع کر دیا تھا اور میں نےبھی درمیان کی ساری گفتگو کو بھول کر سرے سے سرا ملایا، وہ گھٹنے پہ مٹھی رکھے مٹھی پہ ٹھوڑی ٹکائے نظریں سلیٹ پہ جمائے بول رہا تھا، ’’پہلے تو میں نے دھیان نہیں دیا، پر اس کی بھولی بھولی صورت دیکھ کے میرا جی ڈوبنے لگا، پوچھا کہ بی بی کیا چاہتی ہے تو وہ رو پڑی۔ بہت روئی، پر کچھ نہ بتایا، کیا بتاتی، بذّات دغا دے گیا۔ دوسری سے بیاہ رچا لیا، بس اس روز سے آبیٹھنا، بولنا نہ چالنا، بس روتے رہنا، گورے گال سارے بھیگ جاتے، جگنو آنکھیں سرخ بوٹی ہوجاتیں، پھر خود ہی آنچل سے بھیگےگال تر بتر آنکھیں پونچھتی اور بے کہے سنے اٹھ کر چلی جاتی، جب وہ چلی جاتی تو پھر میں۔۔۔‘‘ وہ بولتے بولتے چپ ہوگیا۔

    ’’نقشِ روحانی نہیں بنایا اس کے لیے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    وہ چپ سا ہوگیا، پھر بولا، ’’دنیا ڈھول ہے، خالی ڈھول، ہر شخص اسے اپنی بساط کے مطابق پیٹتا ہے، ستاروں کا علم ہے، ستاروں کی اپنی چال ہے، اس میں ہم کچھ نہیں کر سکتے، کسی پہ بپتا پڑتی ہے اور دکھ لے کر ہمارے پاس آتا ہے، تو ہم اسے تسلی دے دیتے ہیں، کچھ دیتے ہیں، کچھ لیتے ہیں۔۔۔ اس سے ہم نے کچھ نہیں لیا۔۔۔ اور کچھ دیا بھی نہیں، بہت خرابی ہونے لگی تو صاف کہہ دیا کہ سرطان نرثورمادہ۔ تیسرا ستارہ حُوت مچھلی کی صورت درمیان میں آگیا۔ تفرقہ ڈال دیا، تیرا اس کامیل نہیں، کیوں خراب ہوتی ہے، اور کیوں خراب کرتی ہے، ہمارے عمل میں خلل آتا ہے۔۔۔‘‘ اس کی آواز آہستہ سے آہستہ تر ہوگئی، ’’وہ چلی گئی، پھر نہیں آئی۔‘‘

    اس نے چاک اٹھایا اور جو نقش ادھورا چھوڑ دیا تھا، اسے مٹاکر نئے سرے سے نقش بنانا شروع کر دیا۔

    ’’حاجی صاحب نہیں آئے ابھی؟‘‘ ماسٹر نیاز اچانک سائکل سے اتردوکان میں داخل ہوئے۔

    ’’نہیں۔‘‘ اور ساتھ ہی میں اٹھ کھڑا ہوا، انگڑائی لی اور چلنے لگا۔

    ’’کہاں چلے؟‘‘

    ابھی آیا۔‘‘ اور میں دوکان سے باہر نکل بے سوچے سمجھے چل پڑا۔ ابھی تھوڑی دیر ہوئی تو میں گھر سے نکلا ہی تھا، پھر بھی مجھے ایسا لگ رہا تھاکہ تھک گیا ہوں، اور میں تھکا تھکا افسردہ دیر تک بازار میں بے مقصد بے مطلب گھومتا رہا ہوں کیونکہ ہر گھڑی الگ وقت بتا رہی تھی اورماسٹر نیاز کی کرسی کے عین اوپر ٹنگی گرد آلود دیوار گھڑی آج بھی پچھلے تین دنوں کی طرح نوبجا رہی تھی تھی مگر بحث کی گرمی سے یہ ضرور اندازہ ہوتا تھا کہ خاصی دیر سے محفل گرم ہے۔

    حاجی تراب علی بہت گرمی میں تھے اور کہہ رہے تھے، ’’تم کہتے ہو کہ آدمی چاند میں پہنچ جائے گا۔ چلو مان لیا، مریخ میں پہنچ جائے گا، یہ بھی مان لیا، یعنی تمہاری سائنس کی معراج مریخ ہے، اب اگر میں یہ کہوں کہ اب سے سینکڑوں برس پہلے جب تمہاری سائنس مسخری پیدا بھی نہیں ہوئی تھی، انسان چاند اور مریخ سے بہت بلند یعنی عرش تک۔۔۔‘‘

    ’’ابو نجومی، آج دوکان سویرے بڑھا دی ہے۔‘‘ رحیم ابو نجومی کو دوکان بڑھاتے دیکھ کر حاجی تراب علی کی بات سے توجہ ہٹا کر ابو نجومی کی طرف متوجہ ہوگیا، ابو نجومی اپنا پھٹا ٹوٹا سامان سمیٹنے میں مصروف رہا، اور رحیم کی بات کا کوئی جواب نہ دیا، البتہ ماسٹر نیاز کی گرد آلود گھڑی یکایک حرکت میں آئی اور ٹن ٹن بارہ بجا ڈالے۔

    ’’لوجی آپ کی گھڑی نے شام پڑے بارہ بجا دئے۔‘‘ رحیم ماسٹر نیاز سے اپنی اسی بلند آواز کے ساتھ مخاطب ہوا، ’’اجی میں کہوں ہوں کہ آپ سب کی گھڑیوں کی مرمت کریں ہیں، اپنی گھڑی کی مرمت کیوں نہیں کر لیتے، اس کھٹ بگڑی گھڑی کی سوئییں ہمیشہ غلط و خت بتاویں ہیں۔‘‘

    ماسٹرنیاز نے آنکھ پر میگنیفائر لگایا اور کلائی کی ایک گھڑی کا ڈھکن کھول کر اس کے پرزوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ ابو نجومی نے دری لپیٹ کر ماسٹر نیاز کی دوکان کے تختے کے نیچے رکھی، صندوقچہ بغل میں دابا، پھر چلتے چلتے ماسٹر نیاز کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوا اور غصّہ سے بولا، ’’ماشٹر تمہاری سائنس کا علم اندھا ہے، ستاروں کی اپنی چال ہے، اس میں آدمی کچھ نہیں کر سکتا، آدمی مجبور ہے۔‘‘

    ابو نجومی آگے بڑھ لیا اور چار قدم چل کر اپنی گلی میں مڑ گیا۔ ماسٹر نیاز کی آنکھ سے میگنیفائر بدستور چپکا رہا اور ہاتھ میں تھامی ہوئی کلائی کی گھڑی کے پرزوں میں اوزار سے حرکت کرتا رہا۔ حاجی تراب علی کے پورے جسم میں تھر تھری دوڑ گئی۔ ’’بے شک آدمی بہت مجبور ہے۔‘‘ اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔

    مأخذ:

    انتظار حسین کے سترہ افسانے (Pg. 157)

    • مصنف: انتظار حسین
      • ناشر: موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دریا گنج، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1980

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے