Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بلیک آؤٹ

MORE BYفیروز ناطق خسرو

    محلے کے بڑے بوڑھے بتاتے تھے کہ جس رات وہ پیدا ہوا تھا توبڑا طوفان آیا ہوا تھا، مسلسل ایک ہفتہ تک بارش ہوتی رہی۔ گلیوں میں کمر کمر پانی کھڑا ہو گیا۔ بڑے بڑے تناور درخت اپنی جگہ چھوڑ بیٹھے۔ بجلی کے کھمبے زمین بوس ہو گئے تھے۔ گہرے سیاہ بادلوں کی وجہ سے دن اور رات کی تمیز تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ ہر طرف گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ ایسی تاریکی کہ چور بھی خوفزدہ ہو کر چوری چکاری بھول چکے تھے۔ لیکن قدرت کے قانون اٹل ہوتے ہیں۔ خدا کے فیصلے بدلا نہیں کرتے چنانچہ اس کی تخلیق کا وقت معین تھا سو اس آندھی اور طوفان میں اس نے آنکھ کھولی۔ خدا جانے کیسی تاریکی تھی کہ جس نے اس کے دل و دماغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وقت گزرتا گیا، بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی آ گئی مگر اس کے طور طریقے نہ تبدیل ہوئے۔ باپ مارتے پیٹتے تھک گیا۔ ماں دکھیاری نے کوئی جتن اٹھا نہ رکھا۔ گنڈے تعویز، نذر نیاز، پیروں فقیروں کی چوکھٹ کی خاک لے ڈالی مگر رحیم، جو اب رحیمو دادا کہلانے لگا تھا نہ بدلا۔ ماں باپ سوچتے تھے کہ اس سے تو بے اولاد ہی رہتے تو اچھا تھا۔ یہ جیتے جی روگ نہ لگتا۔

    پولیس تھانہ تو رحیمو دادا کے لئے کوئی بات ہی نہ تھی، باہر کے شور و غل سے دل اوبھ گیا تو آرام کی خاطر اندر چلے گئے، جب چاہا نکل آئے، ہر طرف اپنا راج تھا۔ قانون بھی اپنا تھا اور قانون کو نافذ کرنے والے بھی اپنے تھے۔ سچ بات تو یہ تھی کہ ماں بہنوں کی عزت کس کو پیاری نہیں ہوتی، ایک مرتبہ غلطی سے کسی نے رحیمو دادا کے خلاف گواہی دے دی تھی، دادا تو چھ ماہ کے لئے اندر آرام کی غرض سے تشریف لے گئے مگر اسی رات گواہی دینے والے کی جوان بہن اٹھا لی گئی آج تک پتہ نہ چل سکا زمین کھا گئی یا آسمان، اب کس کی مجال تھی کہ دادا کے خلاف اشارہ بھی کرتا۔ ماں باپ اسی کے غم میں گھل گھل کر ختم ہو گئے، جو تھوڑی بہت روک ٹوک تھی وہ بھی نہ رہی۔ رحیمو دادا ہی اب سب کچھ تھا چوری سے لے کر قتل تک کے تمام واقعات اسی کی مرضی و منشا سے طے پاتے تھے۔ جب دیکھو دادا اڈے پر موجود ہے۔ مٹھی چابی ہو رہی ہے، ٹھندانی گھٹ رہی ہے، لچے لفنگے جمع ہیں۔ پولیس کبھی کبھار دو چار کو پکڑ کر لے جاتی، چند روز بند رکھ کر ناکافی ثبوت کی بنا پر پھر من مانی کرنے کو چھوڑ دیتی، ایک دن محلے کی مسجد کے پیش امام اپنا فرض سمجھتے ہوئے کچھ نصیحتیں کر نے دادا کے اڈے پر تشریف لے گئے۔ مگر واپسی رحیمو دادا کے گرگوں کے کاندھوں پر ہوئی، اس دن کے بعد مولوی صاحب اٹھتے بیٹھتے استغفار پڑھنے لگے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ اللہ نے اس کے دل پر مہر لگا دی ہے، جرم کی سیاہی نے اس کے ظاہر و باطن دونوں کو سیاہ کر ڈالا ہے۔

    رحیمو دادا کو خود بھی اس سیاہی کا احساس تھا، کبھی کبھی وہ سوچتا تھا کہ نیکی کیا ہوتی ہے، اچھا کسے کہا جاتا یہ، کیا بزدلی اور کمزوری کا نام نیکی اور اچھا ئی ہے اس کے ساتھ ہی اس کی سوچ کے سوتے خشک ہونے لگتے اور وہ جھنجھلا کر پھر سے اپنے مشاغل میں مشغول ہو جاتا۔

    آج وہ کچھ زیادہ ہی پریشان تھا، پھر اسی قسم کی سوچوں نے اس کے ذہن پر یلغار کر دی تھی، سنا تھا کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے اس لفظ سے تو وہ خود بھی آشنا تھا۔ ہر وہ شخص اسے دشمن لگتا تھا جو اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا، ہر سرمایہ دار اس کا دشمن تھا۔ پولیس والے دشمن تھے اور تو اور مولوی صاحب کو بھی اس نے اپنے دشمنوں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔ مگر یہ دشمن کچھ زیادہ ہی طاقتور معلوم ہوتا تھا۔ لوگ جگہ جگہ ٹولیوں میں بٹے ہوئے یہی باتیں کر رہے تھے۔ مگر ایک عجیب بات تھی، ڈر اور خوف کی جگہ جوش اور ولولے نے لے لی تھی۔ ریڈیو اور ٹی وی سے قومی نغمے نشر ہو رہے تھے، وقفے وقفے سے بلیک آؤٹ کے بارے میں ہدایات دی جا رہی تھیں۔ سڑکوں پر فوجی گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ اور فضا میں جہازوں کی گھن گرج یہی راگ الاپ رہی تھی لیکن رحیمو دادا کے اڈے پر وہی چہل پہل تھی۔ رحیمو دادا تخت پر دراز تھا اور ٹیپو پہلوانپاؤں دبا رہا تھا، پاس رکھے ہوئے ریڈیو سے قومی نغمے نشر ہو رہے تھے۔ یکایک سائرن کی کڑک دار آواز سے فضا گونج اٹھی اور ہر جگہ اندھیرا چھا گیا۔ ٹیپو اچھل کر بھاگا اور جلدی جلدی اڈے کی بتیاں بند کرنے لگا۔‘‘ اوئے یہ کیا کر رہا ہے۔’’رحیمو دادا دھاڑا۔‘‘ ’’دادا‘‘ دشمن کے جہازوں نے حملہ کر یا ہے، بلیک آؤٹ ہو گیا، کوئی بھی بتی نہیں جل رہی۔‘‘

    ’’واہ وا، دشمن کے جہازوں نے حملہ کر دیا، بلیک آؤٹ ہو گیا ہے، اندھیرا ہی اندھیرا، خوب مزا آئے گا لوٹ مار کا، چلو بے چلو لوٹ مار کریں۔‘‘ ابھی یہ الفاظ رحیمو دادا نے ادا کئے ہی تھے کہ زبردست دھماکوں سے در و دیوار لرزنے لگے۔ دشمن کے جہاز وں نے گولہ باری شروع کر دی تھی۔ مکار دشمن نے شہری آبادی کو نشانہ بنایا تھا۔ یکایک ایک زبردست دھماکے کے ساتھ قریب ہی ہسپتال کی عمارت سے شعلے اٹھنے لگے۔

    دادا! ٹیپو کی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی۔ ’’دادا، بزدل دشمن نے بچوں کے ہسپتال کو نشانہ بنایا ہے۔‘‘ ہسپتال کی جلتی ہوئی عمارت نے بلیک آؤٹ کی ساری تاریکی ختم کر دی تھی۔ دشمن کے جہاز اپنی جان بچا کر فرار ہو چکے تھے۔ آگ لگی ہوئی عمارت سے شور و غل اور بچوں کے رونے کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔

    تھوڑی ہی دیر میں روشنی بحال ہو گئی اور لوگوں کی حیر ت زدہ آنکھوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ علاقے کا نامی گرامی بدمعاش جو بلیک آؤٹ کی تاریکی سے فائدہ اٹھانے، لوٹ مار کی غرض سے اپنے اڈے سے باہر نکلا تھا، اپنے ہی خون میں نہایا ہوا اسپتال کی جلتی ہوئی عمارت سے زخمی بچوں کو نکال نکال کر باہر لا رہا تھا۔ غالباً رحیمو دادا کے دل و دماغ کا بلیک آؤٹ ۶ ستمبر کے اس بلیک آؤٹ نے ختم کر دیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے