Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چاندی کا کمربند

کرشن چندر

چاندی کا کمربند

کرشن چندر

MORE BYکرشن چندر

    چورنگھی کے سپر میں رہنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہاں شکار مل جاتا ہے۔ کلکتہ کے کسی ہوٹل میں اتنا اچھا شکار نہیں ملتا جتنا سپر میں۔ اور جتنا اچھا شکار کرسمس کے دنوں میں ملتا ہے اتنا کسی دوسرے سیزن میں نہیں ملتا۔ میں اب تک سات بار کلکتے آچکا ہوں صرف دو بار خالی ہاتھ لوٹا ورنہ ہمیشہ مزے کئے اور بینک بیلنس الگ بنایا۔

    میں صرف چالیس برس سے اوپر کی عورتوں پر نظر رکھتا ہوں جو صاحبِ جائداد ہوں اگر بیوہ ہوں تو اور بھی اچھّا ہے۔ مزید یہ کہ مجھے ہیروں کے ہار بہت پسند ہیں۔

    میرا قائدہ یہ ہے کہ میں کرسمس سے ماہ ڈیڑھ ماہ پہلے ہی کلکتہ آجاتا ہوں اور سپر میں قیام کرتا ہوں، ہر سال نہیں آتا تیسرے چوتھے سال آتا ہوں اور صرف بڑا شکار کھیلتا ہوں۔ لومڑی اور خرگوش مارنا میرا کام نہیں ہے، میں صرف شیرنی کا شکار کرتا ہوں۔

    اس سال مجھے سپر میں ٹھہرے ہوئے بیس روز ہو چکے تھے مگر اب تک شکار کا دوردور تک کوئی پتہ نہ تھا۔ نیپال کی ایک امیر زادی آئی تھی۔ مگر صرف پانچ دن ہوٹل میں رہ کر چلی گئی۔

    ابھی جال بچھایا ہی تھا کہ پنچھی اڑ گیاایسے معاملات میں بڑے صبر سے کام لینا چاہیے۔ دھیرج سے۔ اور اندر سے عجلت کرتے ہوئے بھی یوں ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ کسی طرح کی عجلت نہیں ہے ورنہ پنچھی بِدک جائے گا۔

    پھر بَیرونیس روبی ہو فن سے کچھ امید پیدا ہوئی تھی۔ روبی امریکی شہری تھی اس کامرحوم خاوند جرمن تھا۔ مگر اس نے بہت سا روپیہ اور بہت سی جائداد اپنی بیوہ کے لئے چھوڑی تھی۔

    بَیرونیس ہو فن میں ایک عمدہ شکار کی ساری خصوصیات تھیں۔ عمر پچاس سے اوپر، ڈھلتی ہوئی خوب صورتی اور بڑھتی ہوئی خواہشیں۔ مشرقی فلسفے اور آرٹ کی دلدادہ مہاتما بدھ سے اسے عشق تھا۔

    میں نے جلدی جلدی بدھ ازم پر بہت سی کتابیں پڑھ ڈالیں مگر ابھی صرف دو ملاقاتیں ہوئی تھیں کہ وہ جاپان چلی گئی، زین فلسفے کا مطالعہ کرنے کے لئے۔ وہاں کی کسی بودھی سوسائٹی نے اسے دعوت دی تھی، اس نے مجھے اپنا ایڈریس بھی دیا، اور دوبارہ کلکتے آنے کا خیال بھی ظاہر کیا تھامگر امیدنہیں دوبارہ وہ آئے۔ زین فلسفے کا شکنجہ بڑا مضبوط معلوم ہوتا ہے ساری جائداد دھروا لیتا ہے۔

    کرسمس کو صرف تیرہ دن رہ گئے تھے۔ ایسا لگا اب کے خالی ہاتھ لوٹ جانا ہوگا اورچھ سات ہزار کی چپت الگ پڑے گی ہوٹل کے بل کی صورت میں۔ مگربڑے کھیل میں ایسا تو ہوتا ہی ہے خطرہ تو مول لینا ہی پڑتا ہے۔

    پھر ارچنا مل گئی۔

    میں پارک اسٹریٹ کے نیلو فرریستوران میں لنچ کھانے کے لئے جا رہا تھا کہ باہر ایک تازہ ترین ماڈل کی کیڈیلاک آکے رکی اور اس میں سے ستّر ہ، اٹھارہ برس کی لڑکی نکلی۔

    سیاہ بال کٹے ہوئے اور شانوں تک آراستہ، بیضوی چہرہ، زیتونی رنگت، اس نے فیروزی رنگ کی ایک بیش قیمت ساڑھی پہن رکھی تھی اورکمر میں چاندی کی ایک پتلی سی پیٹی پہن رکھی تھی جو اس کی کمر کی نازکی اور کولھوں کے ابھار بڑی دلکشی سے واضح کرتی تھی، اس نے میری طرف اک اڑتی ہوئی نگاہ سے دیکھا پھرمنھ پھیر کر اندر چلی گئی اورمیں اس کی ڈولتی ہوئی چال کو دیکھتا ہی رہ گیا۔

    بلا مبالغہ میں نے ایسی حسین لڑکی آج تک نہیں دیکھی تھی، چند لمحوں کے لئے میں بھول گیا میں کس مقصد سے کلکتے آیا تھا۔ عورتوں سے اس قدر واسطہ رکھنے کا عادی ہو چکا ہوں کہ میرا دل اب ان کے جسم کے لئے نہیں دھڑکتا۔ دھڑکتا ہے تو ان کے گلے کے زیور کے لئے، ان کے ہاتھ کی انگوٹھیوں کے لئے، ان کی پاس بک کے لئے۔ عشق کی باتیں، میں بہت اچھی طرح سے کر لیتا ہوں مگرعشق کی باتیں میرے حلق سے یوں نکلتی ہیں جیسے مچھلی کھینچنے والی ڈور گراری سے نکلتی ہے میری باتوں میں کوئی ایسا جزبہ نہیں ہوتا جو خود میرے دل کو دھڑکا دے اسی لئے چند لمحے مبہوت رہنے کے بعد مجھے اپنی کمزوری پر افسوس ہوا میں نے اپنے آپ پرلعنت بھیجی اور پھر جی کڑا کرکے ریستوران میں داخل ہو گیا۔

    اتفاق سے مجھے ایک ایسی میز مل گئی، جہاں سے میں اسے اچھی طرح سے دیکھ سکتا تھالیکن وہ مجھے اچھی طرح سے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی کو دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی حالانکہ ادھر کی کئی عورتیں مجھے دیکھ کر چونکتی تھیں کیونکہ میری صرف شکل و شباہت ہی اچھی نہیں میں اپنی صحت کا بھی بہت خیال رکھتا ہوں، روزصبح چار میل کی دوڑ لگاتا ہوں، اور پیٹ کی ورزش بھی کرتا ہوں، اوربہترین کپڑے پہنتا ہوں، اورچیتے کی طرح چلتا ہوں، اس لئے جب میں کسی نئی جگہ پہ داخل ہوتا ہوں تو لوگ ایک لمحے کے لئے ضرور چونک کر مجھے دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی نہ ہو تو آدمی بڑا شکاری نہیں بن سکتا۔

    میں نے بڑے اطمینان سے اپنا لنچ کھایا، دھیمی دھیمی موسیقی کے ساتھ چکن ریشمی کباب بے حد لذیذتھے اور تیتر کے بُھنے ہوئے مصالحے دار تکےّ بھی عمدہ تھے، علاوہ ازیں، ادھرادھرکوئی دوسری شے قابلِ توجہ نا تھی، چند سیٹھ لوگ اپنی بدصورت بیویوں یا خوب صورت داشتاؤں کے ساتھ بیٹھے تھے، دو امریکی بدھے جوڑے تھے، چند درمیانے طبقے کے ٹیڈی لڑکے اور لڑکیاں، چندبزنس ایگزکئوٹو، اور دواعلی درجے کی طوائفیں بیٹھی تھیں، غرض یہ کہ اس لڑکی کے سوا کہیں نگاہ نہ ٹکتی تھی۔

    مگر کس قدر اداس اور مغموم وہ بیٹھی تھی جیسے کسی ویرانے میں کسی ندی کے کنارے پاؤں لٹکائے بیٹھی ہو۔ دو ایک بار اس نے بڑی عجیب ادا سے اپنے شانے جھٹک دئیے، اپنے بالوں پر انگلیاں پھیر کر انہیں سنوارا اورمیں اس کی انگلی میں پڑی انگوٹھی کے سالم ہیرے کو دیکھتا رہ گیا۔

    انگلیاں بے حد متناسب تھیں، ہیرابہت بڑا تھا ابھی تک اس کی چمک میری آنکھوں کو خیرہ کئے دیتی تھی۔ مگر لڑکی کی عمر کسی طرح سترہ، اٹھارہ، انیس برس سے زیادہ نہ تھی اورمیں چالیس برس سے اِدھر دیکھتا بھی نہیں کیونکہ تجربے نے بتایا ہے کہ ایسا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا الٹی مصیبت گلے پڑ جاتی ہے۔ اسی لئے میں نے تمام تر توجہ اپنے لنچ پر مرکوز کردی ہاں کبھی کبھی اسے دیکھ لیتا تھا، کیونکہ ایسا نہ کرنا نا ممکن تھا۔

    وہ کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی اپنی بے پناہ خوب صورتی سے غافل تھی۔ کبھی چھوٹی چھوٹی آہیں بھرتی، کبھی ایک نوٹ بُک پر پینسل سے کچھ لکھنے لگتی، بیچ بیچ میں سیب کا شربت پیتی، دودفعہ وہ اپنے لنچ کا آرڈر بدلواکر نیا آرڈر دے چکی تھی۔

    معلوم ہوتا ہے بہت پریشان ہے اپنے عاشق کی منتظر معلوم ہوتی ہے جو ابھی تک نہیں آیا ہے۔ بلاوزکے کنارے سے لے کر نیچے ساڑھی کے کنارے تک اس کاکسا ہوا جسم کسی خوب صورت صراحی کی طرح خمدار معلوم ہوتا ہے اوراس کے نیچے کو لھے کی نیم گولائی۔۔۔ میں نے جلدی سے نظر ہٹالی کمبخت اس دل کی حرکت پھر تیز ہوئی جاتی ہے اوروہ شکاری ہی کیا جو اپنے اوسان بجا نہ رکھے۔

    لنچ کھا کر میں نے چاندی کے بَول میں ہاتھ دھوئے، بل ادا کیا، اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ایک لخطہ کے لئے پلٹ کر اس نے میری طرف دیکھا، اور ہم دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔

    ایک لخطہ کے لئے مجھے ان نگاہوں میں ایک گہری التجا نظر آئی۔ ممکن ہے یہ میرا وہم ہو اوراس کا رخ لچکدار پلاسٹک کی مینو بُک میں چُھپ گیا تھاکیسی غَزال آنکھیں تھیں بڑی بڑی، پھیلی پھیلی، گہری سیاہ سال پتلیاں، مچھلیوں کی طرح تیرتی ہوئیں۔

    مجھے جھٹکا سا لگامگرمیں نے فورا ہی اپنے آپ پر قابو پا لیا۔ اور بڑی تمکنت سے بیرے کوٹپ دیتا ہوا، اپنے مراکو چمڑے کے بٹوے کو اندر کی جیب میں رکھتا ہوا نیلوفر سے باہر نکل گیا۔

    دوسرے دن ایک بڈھی اسپینی خاتون کو شیشے میں اتارنے میں مصروف رہا مگر زیادہ کچھ کامیابی نہیں ہوئی۔ بڈھی بے حد امیرتھی مگرعمر پینسٹھ برس سے اوپر تھی، میں نے اس کے خون کو گرمانے کی بہت کوشش کی مگر اس باوقار خاتون پر اگلی دنیا کا ہول کچھ ایسا طاری تھا کہ اس دنیا میں وہ زیادہ دلچسپی لینے پر تیار نہ تھی۔ ہم لوگ دیر تک بائبل کی خوبیوں پر سردھنتے رہے اور مسئلہ ثلیث پر بحث کرتے رہے۔

    آخر میں جب اس بڈھی نے مجھ سے اسپین کی ایک راہبہ گھر کے لئے چندہ مانگ لیا تو میں نے پسپائی اختیار کی۔ میں با لعموم اس عمر کی بڈھیوں کو منھ نہیں لگاتا مگر کیا کیجے کلکتہ آئے ہوئے ایک ماہ ہو چکا تھا اور کرسمس قریب آرہا تھا۔ اسی لئے مجھے اس روز لنچ پر جانے میں اس قدر دیر ہو گئی۔ جب میں نیلوفر کے باہر پہنچا تو وہی حسینہ ایک سانولے رنگ کے نوجوان کے ساتھ باہر نکل رہی تھی ہلکے گلابی رنگ کی سادہ سی ریشمی ساڑھی پہنے ہوئے تھی، کانوں اور کلائی پر کوئی زیو رنہ تھا، صرف گلے میں پکھراج کا ایک بیش قیمت گلوبند تھا جو اس کی زیتونی رنگت پر اس طرح جھم جھماتا تھا جیسے ایک شفاف ہیرے پر دوسرا شفاف ہیرا رکھا ہو۔

    مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں دلچسپی اور شناسائی کی ایک جھلک پیدا ہوئی، پھر اس سانولے نوجوان نے کھلی گاڑی کے پٹ کی طرف اشارہ کیا اور وہ نیلے رنگ کی مرسیڈیز میں بیٹھ گئی جسے وہی کل والا ڈرائیور چلا رہا تھا۔ تو اس کے پاس یا اس سانولے رنگ کے نوجوان کے پاس دو گاڑیاں ہیں ایک کیڈیلاک، دوسری مرسیڈیز، جا نے کون لوگ ہیں یہ؟ معلوم ہوتا ہے مجھے اپنا دستور توڑنا پڑے گا اور چالیس برس سے نیچے اترنا پڑے گا، شیر بھوکا ہو تو کیسے صبر کرے؟ نیلوفر سے لنچ کھا کر میں سُپر میں آگیا اور اپنی بیوی کو محبت بھرے خط لکھنے لگا۔

    نرملا ایک لکھ پتی باپ کی بیٹی ہے اور خود بھی ایک مشہور و معروف ایڈورٹائزنگ فرم میں پندرہ سو روپئے ماہانہ پر ملازم ہے۔ اسے کام کرنے کا شوق ہے اور مجھے کام نہ کرنے کا۔ دراصل مجھے کوئی کام آتا ہی نہیں، سوائے عورتوں کے شکار کے۔ اور میری شادی بھی دراصل اسی عادت کا نتیجہ ہے۔

    نرملا کے باپ نے ہماری ازدواجی زندگی کو مالی الجھنوں سے نکال کر اسے بے حد خو شگوار بنادیا ہے۔ شادی میں اس نے مجھے ایک عالی شان فلیٹ دیا ایک گاڑی دی، بمبئی کے سب سے مہنگے کلب کی ممبر شپ دی، اورمنجملہ ہر طرح کے سامان ِ تَعیش اور لباسِ فاخرہ کے ساتھ ایک خوبصورت بیوی بھی دی، اور کیا چاہیئے میرے ایسے آدمی کو؟

    مگر عادتیں بگڑی ہوئی ہیں، پورا نہیں پڑتا اور کام کوئی آتا نہیں، جہیز کب تک ساتھ چلتا ہے، وہ تو اچھا ہوا س شادی سے پہلے ہی میں نے نرملا سے کہہ دیا تھا کہ میرا دھندہ غیر ملکی سیاحوں کو ہندوستان کے جنگلوں میں شکارکھلانے کا ہے۔ باہرسے غیر ملکی شکاریوں یا شکار کے خواہش مندوں کی جو ٹولیاں ہمارے دیس میں آتی رہتی ہیں میں انہیں ڈیڑھ دو ماہ کے لئے کبھی زیادہ عرصہ کے لئے، کماؤں، کورگ، وندھیاچل کے جنگلوں میں شکار کھلانے لے جاتا ہوں، اور ان سے دو تین ماہ میں پچیس پچاس ہزار نپٹ لیتا ہوں۔ نرملا بے چاری کو اس طرح کیا کسی طرح کے شکار سے دلچسپی نہیں ہے اس لئے وہ میرے ساتھ میرے لمبے سفروں پر کہیں نہیں جاتی ہے۔ البتہ اسے میری بات کا سو فیصدی یقین ہے کہ میں واقعی غیر ملکی سیاحوں کو کھلانے کا دلچسپ دھندا کرتا ہوں۔ اور پھر روپئے بھی تو گھر لا کے دیتا ہوں پچیس ہزار۔ پچاس ہزار، لاکھ، ڈیرھ لاکھ، دولاکھ۔ پھرہم لوگ مزے سے بیٹھ کر کھاتے ہیں سال دو سال پھر میں اپنے شکار کو نکلتا ہوں۔

    ویسے نرملا کو کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ایک ہی ہلّے میں اتنا لے آتا ہوں مگر کام کرنے والی بیوی کے بہت سے فائدے ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بے چاری اپنے کام میں لگی رہتی ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ سوکھے موسم میں ہریالی کا کام دیتی ہے اور بہترین سے بہترین شکاری کو اپنی زندگی میں سوکھے موسم سے واسطہ پڑتا ہے۔

    میں نے نرملا کو ایک محبت بھرا خط لکھا۔ اور اس سے دس ہزار روپئے منگا لئے کیونکہ میں سیّاحوں کی ایک بڑی ٹیم کو لے کر آسام کے جنگلوں میں شکار کھیلنے جا رہا تھا تین چار ماہ کے بعد آؤں گا۔ خط لکھ کر اور ڈاک سے بھجواکر میں قیلولہ کرنے کی نیّت سے کمرے میں لیٹ گیا اور سونے سے پہلے بہت دیر تک اپنا پروگرام بناتا رہااور اس میں خود ہی ترمیم پیش کرتا رہا اور دل ہی میں بحث کرتا رہا۔ کیونکہ اب میرے شکار کی نوعیت دوسری تھی اس لئے دوسری طرح سے کام کرنا ہوگا۔

    رات کو ڈنر کھانے کے لئے پھر نیلوفر پہنچ گیا۔ میرا خیال صحیح نکلا میری طرح ارچنا کا پسندیدہ ریستوران بھی نیلوفر معلوم ہوتا تھا۔

    اس نے سنہرے اور فالسئی رنگوں والی بنارسی بائک ساڑھی پہن رکھی تھی، کانوں میں کبوتر کی آنکھ کی طرح سرخ یاقوت کے جھم جھماتے ہوئے آویزے تھے، اور گلے میں لعلِ بدخشاں کا ایک ہی پرانا اور کلاسیکی طرز کا گلوبند، جس کی قیمت کم سے کم پانچ لاکھ ضرور ہوگی۔ آج ارچنا کا سلگتا ہوا حسن اور اس کی نگاہوں کا خشمگیں لہجہ اور اور اس کے جسم کے چنچل خم بے حد خطرناک معلوم ہوتے تھے۔ صرف میں ہی اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، ریستوران میں بیٹھے ہوئے ہر خوش ذوق مردکی نگاہ اس پر تھی یہ نگاہ جو بظاہر اپنی بغل میں بیٹھی ہوئی بیوی کو ہر طرح سے اپنی توجہ کا یقین دلا کے ادھر ادھر پلٹ جاتی تھی اور ارچنا پر مرکوز ہو جاتی تھی اور ارچنا سب سے بے نیاز بیٹھی تھی۔

    کئی مردوں نے اس سے ڈانس کے لئے کہا مگر اس نے سر ہلا کر انکار کر دیا۔ اس کی آنکھیں۔۔۔ ایسا لگتا جیسے ابھی رو دیں گی یا کسی کو کھا جائیں گی۔

    جب فلور پر ناچنے والے جوڑوں کی بھیڑ بہت بڑھ گئی اور ایک بہت ہی سلوفاکس ٹراٹ، چلنے لگا اور جب مجھے محسوس ہوا کہ ارچنا کا انکار کسی کو میری طرف متوجہ نہیں کریگاتو میں اپنی میز سے اٹھ کر ارچنا کی میز پر گیا، جھکا، اور اپنی بہترین اور دلکش مسکراہٹ سے مسکرایا اور اسے ناچنے کی دعوت دی۔

    ارچنا نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ ایسا لگا جیسے ایک لمحے کے لئے وہ میرے مردانہ حسن کی مقناطیسی کشش سے مسحور ہو گئی ہے۔ ایک لمحے کے لئے اس کی آنکھوں میں گہری قربت اور شناسائی کی وہی پرانی چمک نمودار ہوئی، یہ چمک آدم اور حوا کے زمانے کی طرح پرانی ہے۔ پھر جیسے اس کا چہرہ اک دم اداس اور غمزدہ ہو گیا، اس نے مجبور نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور سرانکار میں ہلادیا۔ میں نے ہار نہ مان کر اپنی مسکراہٹ کی لو کو اور تیزکردیا، بولا، ’’کیا آپ نے قسم کھائی ہے کہ اپنے اس سانولے بوائے فرینڈ کے علاوہ اور کسی کے ساتھ نہ ناچیں گی؟‘‘

    یکایک وہ میری غلطی پر مسکرا پڑی، ’’وہ میرا بھائی ہے بوائے فرینڈ نہیں ہے۔‘‘ میں نے فورًا کہا، ’’یہی تو میں سوچتا تھا کہ ایسی دل ربا صورت کے ساتھ وہ اکھڑی اکھڑی سانولی صورت میچ نہیں کرتی ہے اچھا ہے، وہ آپ کا بھائی ہے۔۔۔ ورنہ میرا ارادہ آج اسے جان سے مار دینے کا تھا۔‘‘

    وہ کھلکھلاکے ہنس پڑی اور اٹھ کر میری بانہوں میں آ گئی، اور مجھے ایسا لگا جیسے وہ بنی ہی میری بانہوں کے لئے تھی، سر سے پاؤں تک مجھے مکمل کرتی ہوئی۔ ناچتے ناچتے میری انگلیوں کے لمس کے زیرِاثر اسکی کمر کے نیچے کولھے کسی متناسب لےَ پر دھیرے دھیرے ڈولتے تھے۔ جیسے جھیل کی ہمکتی لہروں پر کنول کے پھول ڈولتے ہیں۔

    اگر میں نوجوان، ناتجربہ کار، اور احمق ہوتا تو ضرور اس سے عشق کر بیٹھتا مگر میری آنکھ اس کے یاقوتی گلوبند پرتھی۔ میری تیسری آنکھ۔۔۔ ورنہ چہرے کی دونوں آنکھیں تو اس کے چہرے پر ہی گڑی ہوئی تھی۔ وہ مجھ سے نظر چرا کر گھبراکر اِدھر ادھر دیکھ لیتی تھی، میں نے پوچھا،

    ’’کس کاانتظار ہے؟‘‘

    ’’بھائی کا‘‘ وہ ایک اضطراری سرگوشی میں بولی، ’’میرا بھائی مجھے کسی کے سنگ ناچنے نہیں دیتا۔‘‘

    ’’بہت قدامت پرست ہے۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ یہ بات نہیں ہے‘‘ کہتے کہتے وہ رک گئی۔

    ’’پھر کیابات ہے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔‘‘ وہ یکایک چپ ہو گئی۔ پھر نظریں جھکا کر بولی’’تم بہت اچھا ناچتے ہو۔‘‘

    ’’اپنے بھائی سے اس قدر ڈرتی کیوں ہو؟‘‘ گھبراؤ نہیں، اطمینان سے ناچتی جاؤ، میں تمہارے بھائی پر نگاہ رکھوں گا، اس کے آتے ہی میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔‘‘

    میری بات سن کر اس نے اطمینان کا ایک لمباسانس لیا۔ پھر اس نے اپنے جسم کو میرے جسم کے سپرد کر دیا۔ چند لمحوں کے لئے اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ اس کا سر میرے شانے سے لگ گیااور چند لمحوں کے لئے ہاتھ اس کی کمر پر رکھے رکھے میں نے محسوس کیا جیسے میرا ہاتھ اس کی کمر پر نہ ہو، گل کے چاک پر ہو، جہاں پر میں ایک خوابناک اور آرزومند مٹی کے بطن سے خیّام کی ایک صراحی کی تخلیق کر رہا ہوں۔ ویسے ان کانوں کے آویزے بھی ایک لاکھ سے کم نہ ہونگے۔

    پہلا ناچ ختم ہو گیامگر اس کا بھائی نہیں آیا۔ اور ہم دونوں وہیں کھڑے کھڑے دوسرے رقص میں شامل ہو گئے۔

    یہ ایک امریکی لوک نِرت تھا جس میں جوڑے ایک دوسرے کو چھوتے ہوئے الگ ہو جاتے تھے اور رقص کرتے ہوئے بار بار تالی بجاتے تھے۔ اس رقص کے دوران میں مجھے بہت سی باتیں معلوم ہوئیں،

    ارچنا کے ماں باپ مر چکے تھے۔

    تالی۔۔۔

    ان کی منگیتر کی کانیں تھیں آسام میں۔

    تالی۔۔۔

    اور کلکتے میں بہت سی جائداد تھی!

    تالی۔۔۔

    اس جائداد کے صرف دو وارث تھے۔ بھائی اور بہن۔

    تالی۔۔۔

    بھائی شادی شدہ تھا اور بہن کنواری تھی۔

    پر زور تالی۔

    ارچنا نے مجھ سے وعدہ کر لیا کہ وہ دو روز کے بعد مجھ سے پھر مل سکے گی۔ کارنیشن ریستوران میں، دوپہر کو لنچ سے ایک گھنٹہ پہلے، اس کے بعد لنچ کے ٹائم پر نیلوفر چلی جائے گی اپنے بھائی کے ساتھ لنچ کھانے۔۔۔

    (سب سے اونچی تالی۔۔۔)

    کارنیشن میں کیبن کا بھی انتظام ہے۔ کارنیشن میں ارچنا نے پہلی بار میرے ہاتھ سے شراب پی، ایک ہلکی سی مارٹینی لعلِ بدخشان کی طرح درخشندہ۔ بے حد جھجھک جھجھک کر اور بے حد اصرار کے بعد اس نے دو گھونٹ لئے پھر ہولے ہولے اس کے رخسار تمتمانے لگے اور ہونٹ کسی اندورونی شہد سے بوجھل ہوکر بار بار کاپنے لگے۔ دوسری مارٹینی میں وہ بہت کچھ بک گئی۔

    اس کا بھائی اس سے پیار نہیں کرتا تھا اس سے نفرت کرتا تھا۔ کیونکہ وہ اس کی آدھی جائداد کی مالک تھی اگر آج جائداد کے حصّے الگ الگ ہو جائیں تو ارچنا کو ڈیڑھ کروڑ روپے ملیں گے۔ مگر ارچنا پر بڑی پابندیاں تھیں ہر لخطہ اس کی نگرانی کی جاتی تھی کیونکہ اس کا بھائی اس کا بھی حصّہ ہڑپ کر لینا چاہتا تھا۔ اور اس سے کاغذات پر دستخط کرالینا چاہتا تھا وہ ابھی تک انکار کئے جا رہی تھی۔

    ’’میں اکیلی ہوں۔ نہتّی ہوں۔ کوئی نہیں ہے میرا اس دنیا میں۔‘‘

    ’’اگر میں نے زیادہ دیر تک انکار کیا تو ممکن ہے وہ لوگ مجھے زہر دے دیں یا کسی سے مروا ڈالیں۔۔۔ تم نہیں جانتے کسُم کو، کسُم میرے بھائی کی بیوی ہے۔ کبھی کبھی وہ ایسی عجیب نگاہوں سے مجھے دیکھتی ہے جیسے میری گردن پر چھری رکھ دی ہوتم بتاؤ، میں کیا کروں؟‘‘ ارچنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

    تیسری سے چوتھی ملاقات میں وہ اور بھی بجھ گئی۔ ہر وقت متوحش اور دہشت زدہ دکھائی دیتی تھی۔ ذرا سی آہٹ پر چونک جاتی اپنے بھائی کی آمد کا شبہ ظاہر کرتی کوئی اجنبی اگر اسے غور سے دیکھتا تو اسے فورًا اپنے بھائی کا مخبر سمجھ لیتی۔

    مگر اس پر بھی ہم ملتے رہے۔ ملتے رہے۔ اورمیں نے اسے صلاح دی کہ وہ کورٹ میں درخواست دے کر اپنی جائداد کا حصّہ الگ کرالے مگر وہ بے حد گھبرائی ہوئی تھی اس کے بھائی اور بھاوج کو غالباً اس پر شُبہ ہو گیا تھاکیونکہ بھاوج نے بہن کے سارے زیور اپنی تحویل میں لے لئے تھے صرف ہاتھ کا ایک کنگن بچا تھا۔ جواہرات سے مرصّع۔ اس نے اپنے بیش قیمت پرس میں سے کانپتے ہوئے وہ کنگن نکالا اور میرے ہاتھ پر رکھ کر بولی،

    ’’اسے تم اپنے پاس رکھ لو۔ اگر زندہ رہی تو تم سے لے لوں گی۔‘‘

    میں نے اصرار کرکرکے اسے کنگن واپس کردینا چاہا مگر اس نے واپس نہیں لیا کنگن واپس کرنے کی کوشش میں بار بار انگلیاں اس کی انگلیوں سے چھو گئیں اور پھر دیر تک ایک دوسرے کی گرفت میں تڑپتی رہیں۔ پھر اس کی انگلیاں بالائی کی طرح نرم پڑ گئیں اور اس نے اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں بالکل ڈھیلا چھوڑ دیا اور میرے سینے سے لگ کر دھیرے دھیرے سسکنے لگی۔ مجھے ایسا لگا جیسے ڈیڑھ کروڑ روپیہ میرے سینے سے لگ کر مجھے دھیرے دھیرے تھپک رہا ہو۔

    ایک لخطہ کے لئے میرے دل میں نرملا کا خیال آیا۔

    ’’اونہہ۔ کیسا فاترالعقل ہوں جو ایسے موقعے پر نرملا پر غور کر رہا ہوں۔ نرملابھی کوئی غور کرنے کی شے ہے؟‘‘

    اس لئے میں نے سب سوچ سوچ کر ارچنا کے اداس کانپتے ہوئے رس سے بوجھل ہونٹ چوم لئے۔ کسی تیز شراب کے پہلے گھونٹ کی طرح اس بوسے نے میرے دل و دماغ پر نشہ طاری کر دیا۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں ارچنا سے شادی کرلوں گا اسے اپنی بناکر اس کی جائداد کا حصّہ الگ کرواکے کہیں دارجلنگ، شیلانگ کی طرف نکل جاؤں گا۔ میں ساری زندگی اس کے ساتھ گزار دوں گا۔ ڈیڑھ کروڑ روپیہ بہت ہوتا ہے چھوٹے چھوٹے شکار کرنے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ آدمی ایک ہی ہلّے میں بڑے شکار پر ہاتھ صاف کرجائے۔

    ’’ڈارلنگ۔ اپنی ہر تکلیف بھول جاؤ۔‘‘ میں نے اسے اپنی بانہوں میں لیتے ہوئے کہا، ’’اب تم اکیلی اوربے یارو مدد گار نہیں ہو میں تم سے محبت کرتا ہوں دل و جان سے میں تمھاری مدد کروں گا۔‘‘

    ’’مگر کیسے؟ کس رشتے سے؟‘‘ وہ آزردہ ہوکر بولی، ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘

    ’’لوگ یہی کہیں گے کہ میں تمھارا خاوند ہوں۔‘‘

    ’’کیا؟ کیا؟‘‘ اس کی زبان رک گئی اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگی۔

    ’’ہاں پیاری۔‘‘ میں نے اپنی دونوں آنکھوں کی مکمل کشش سے اسے مسحور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’میں تمہیں چاہتا ہوں میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’نہیں۔ نہیں۔‘‘ وہ دونوں ہاتھ زور سے ہلاتے ہوئے بولی، ’’یہ جھوٹ ہے۔ تمہیں محض مجھ سے ہمدردی ہے۔ اسی ہمدردی کی خاطر تم مجھ سے شادی کرنے کے لئے آمادہ ہو لیکن میں تمہیں تباہ نہ کروں گی۔ مقدمہ جانے کتنے سال تک لڑنا پڑے۔ نہیں، نہیں۔ مجھے کوئی حق نہیں ہے اپنی تکلیفیں تم پر لادنے کا۔‘‘

    وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی میں نے اسے دم دلاسہ دیا، بار بار اپنی محبت کا ثبوت پیش کیا۔ بڑی مشکل سے کئی دن متواتر سمجھانے کے بعد وہ مجھ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہو گئی۔

    ’’مگر تین دن ٹھہر جاؤ۔‘‘

    ’’تین دن کیوں؟ آج میرا بھائی شلانگ جانے والا ہے۔ ایک ہفتے کے لئے۔ پھرمجھ پر سے پہرہ بھی کم ہو جائے گا۔‘‘

    یکایک اس کی روتی ہوئی آنکھوں سے مسکراہٹ چھلک پڑی۔ اس نے میرے بازو کو زور سے پکڑ لیا اور اپنا گال اس سے لگا کر اس نے ایک میٹھی اور طویل سانس لی اور دھیرے سے بولی، ’’تین دن کے بعد میں تمہاری ہو جاؤں گی۔‘‘

    اس بیچ میں ہم دونوں فیملی کے پرانے سالسٹر سے ملے۔ راکھال مکرجی۔ ایک بے حدخشک اور بے حد باقاعدہ مگربے حد آزمودہ اور تجربہ کار سالسٹر مجھے معلوم ہوئے، وہ بھی ارچنا سے بے حد ہمدردی رکھتے تھے۔ مگر اس کے بھائی کے سالسٹر ہونے کی وجہ سے در پردہ ہی ارچنا کی مدد کر سکتے تھے۔

    ہائی کورٹ میں لڑنے کے لئے یوں تو اتنے بڑے مقدمے کے لئے کئی لاکھ کی ضرورت تھی مگر وہ ارچنا کو اپنا ایک دوست سالسٹر دے دیں گے جو صرف پچیس ہزار میں ہمارا کیس لڑے گا۔ مگرپچیس ہزار نقد اور پہلے اسے دے دینا ہوں گے۔ ہم دونوں بے حد پریشان ہوئے۔ اب پچیس ہزار کہاں سے آئیں گے؟

    ’’وہ میرا کنگن بیچ دو۔‘‘ ارچنا نے صلاح دی۔

    مگر میں کنگن ایک جوہری کو پہلے ہی سے دکھا کر اس کے دام پوچھ چکا تھا وہ بارہ ہزار لگا رہا تھااورہمیں پچیس ہزار چاہئیں اور میں کنگن بیچنا نہیں چاہتا تھا۔ بڑی سبکی ہوتی زندگی بھر کے لئے ارچنا کی نگاہ میں ذلیل ہو جاتا۔

    ’’نہیں۔ نہیں۔‘‘ میں نے فیصلہ کن لہجہ میں کہا، ’’کنگن کبھی نہیں بکے گا میں کہیں نہ کہیں سے پچیس ہزار کا بندوبست کردوں گا۔‘‘

    اسی دن میں نے نرملاکو تار دے کر پندرہ ہزار روپیہ اور منگا لیا۔ اورسالسٹر کو پچیس ہزار روپئے ادا کر دئیے گئے۔ تین دن کے بعد میں نے اور ارچنا نے ایک خفیہ شادی کرلی۔ مگر پّکی اور باقاعدہ پھیروں سے۔

    یہ میری بارھویں شادی تھی اس سے پہلے ہمیشہ دل ہی میں ہنسا۔ اب میں نے اپنی باقی زندگی ارچنا کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

    جب ہم شادی کرکے ہوٹل کو لوٹ رہے تھے تو میرے دل میں ایک خیال آیا، میں نے ارچنا سے کہا، ’’تمہارا بھائی تو ایک ہفتے کے بعد آئے گا؟‘‘

    ’’ہاں۔ مگر کیوں؟‘‘

    ’’اور وہ تمہارے زیورات کا ڈبّہ تمہاری بھاوج کے پاس ہے۔‘‘

    ’’ہاں مگر کیوں پوچھتے ہو؟‘‘

    ’’کیا تم کسی طرح اپنے زیورات کا ڈبّہ نہیں نکال سکتیں؟ آخر وہ تمہارا ہے ڈارلنگ۔‘‘

    ’’ہاں ہے تو سہی۔‘‘ وہ سوچ سوچ کر بولی، ’’مگر کیسے نکالوں گی؟‘‘

    ’’کسی پارٹی میں جانے کا بہانہ کرو، بھاوج کوساتھ لے جاؤ اور پھر اسے جل دے کر اور سارا زیور پہنے ہوئے سیدھے میرے پاس ہوٹل میں آجاؤ‘‘

    ’’مگر۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔ نہیں۔ کوئی اگر مگر نہیں۔‘‘ میں نے ذرا سختی سے کہا، ’’لاکھوں کا زیور یوں چھوڑ دیں گے ہم۔ باؤلی ہوئی ہو۔‘‘

    میں نے گاڑی اس کے گھر کی طرف موڑ دی۔

    ’’میں نہیں جاؤں گی۔‘‘ وہ مجھ سے چمٹ کر بولی، ایک لمحے کے لئے تم سے الگ نہیں رہ سکتی وہ تیز تیز سانسوں والی سرگوشی میں بولی۔

    ’’ہوش میں آؤ۔ جیسا میں کہتا ہوں ویسا کرو پارٹی میں جانے کے لئے بھاوج زیور ضرور دے دے گی۔ خصوصاً جبکہ وہ خود تمہارے ساتھ جا رہی ہوگی اسے شبہ تک نہ ہوگا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ بس ذرا سی چالاکی سے ہمارا کام بنتا ہے ہمارا کیا جاتا ہے؟‘‘

    میں نے اس کے گد گدی کی وہ بچوں کی طرح کھلکھلاکر ہنس پڑی۔ میں نے اسے اس کے گھر سے ذرا دور فاصلے پر اتار دیا۔

    تین دن تک وہ نہیں آئی مگر مجھے برابر فون کرتی رہی۔ موقع ہی نہیں ملتا تھا بھاوج کسی طرح راضی نہ ہوتی تھی میرا خیال ہے میں نے اسے ٹیلی فون پر ذرا سخت لہجے میں ڈانٹا ہوگا کیونکہ وہ ٹیلی فون ہی پر رونے لگی تھی۔ چوتھے دن اس نے ٹیلی فون پر مجھے مژدہ سنایا، کہ آج دوپہر میں وہ اپنی بھاوج کے ساتھ ایک سہیلی کے گھر اپنے سارے زیور پہن کر جا رہی ہے اور وہاں سے تیسرے پہر کے قریب میرے کمرے میں آئے گی۔

    میں نے وقت تیسرے پہر کے بعد دارجلنگ جانے کے لئے دو سیٹیں بک کرا لیں اور ہوٹل والے کو بل تیار کرنے کے لئے کہہ دیا۔ تیسرے پہر کو وہ سارے زیورات پہنے ہوئے ایک دلہن کی طرح سجی سنوری میرے کمرے میں داخل ہوئی۔ میں اسے گلے سے لگا لینے کے لئے آگے بڑھا کہ ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا اس کے پیچھے پیچھے اس کا بھائی بھی داخل ہو رہا تھا۔

    ’’اپنے بھائی کو کیوں ساتھ لائیں؟‘‘ میں نے حیران ہو کر کہا، ’’کیا صلح ہو گئی؟‘‘

    وہ محبوب نگاہوں سے اپنے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی، ’’ہاں صلح ہو گئی ہے۔‘‘

    پھر میری طرف دیکھ کر بڑی معصومیت سے بولی، ’’یہ میرے بھائی نہیں ہیں۔‘‘

    ’’بھائی نہیں ہیں؟‘‘ میں نے چیخ کر کہا۔

    ’’میں ارچنا کا شوہر ہوں۔‘‘ وہ سانولا نوجوان بڑے میٹھے لہجے میں بولا۔

    ’’فراڈ تو آپ نے مجھ سے کیا ہے۔‘‘ ارچنا اپنی ساڑی کے پلو سے کھیلتے ہوئے بولی، ’’پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی مجھ سے کر لی۔

    ’’یہ جھوٹ ہے۔‘‘

    ’’آپ کی بیوی نیچے میری گاڑی میں بیٹھی ہے۔‘‘ ارچنا بولی۔

    ’’میں نے تار دے کے اسے یہاں بلوالیا تھا آپ یقناً اپنی بیوی سے ملنا چاہتے ہو گے۔‘‘

    ’’میرے پچیس ہزار روپئے؟‘‘ میں نے چیخ کر سوال کیا۔ وہ زور سے ہنسی۔

    ’’میں تم دونوں کو اندر کرا دوں گا اور اس بے ایمان سالسٹر کو بھی۔‘‘ میں نے غّصے سے لرزتے ہوئے کہا۔

    وہ سانولا نوجوان بولا، ’’اگر آپ اس سالسٹر کے دفتر جائیں گے تو وہ سالسٹر آپ کونہیں ملے گا۔ بلکہ اس کا دفتر بھی آپ کو وہاں نہیں ملے گا۔‘‘

    ’’اور جہاں تک ہمیں جیل میں ڈالنے کا تعلق ہے میرا خیال ہے اس کا فیصلہ آپ کی بیوی کے سامنے ہو جائے تو اچھا ہے۔‘‘ ارچنا نے جواب دیا۔

    ’’گیٹ آؤٹ۔‘‘ میں نے غم و غّصے سے دھاڑتے ہوئے کہا۔

    ’’پہلے وہ میرا کنگن واپس کر دیجئے ہم نے ایک ماہ کے لئے ایک جوہری سے ادھار لیا تھا، احتیاطً ہم اس جوہری کوبھی اپنے ساتھ لیتے آئے ہیں۔ نیچے لاونج میں بیٹھا ہے آپ نہ دیں گے تو بڑا فساد ہو گا۔ آپ کی بیوی۔۔۔

    ’’گیٹ آؤٹ۔ گیٹ آؤٹ۔‘‘ میں نے جلدی سے وہ کنگن بھی ارچنا کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔

    ارچنا مسکراکر وہ کنگن اپنی کلائی میں پہننے لگی۔

    ’’مگر میں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا؟‘‘ میں نے غّصے سے تقریباًً رونکھا ہو کر کہا، ’’تم نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا ارچنا؟‘‘

    ’’بات یہ ہے۔‘‘ وہ کنگن پہن کر اسے نچاتے ہوئے بولی، ’’کہ اپنا بھی وہی دھندا ہے۔۔۔ جو آپ کا ہے۔‘‘

    میں حیرت سے اس بیس سالہ چھوکری کی طرف پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

    ’’اچھا میں جاتی ہوں۔‘‘ وہ کنگن بجاتے بجاتے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔‘‘ آپ کی بیوی کو آپ کے پاس بھیجے دیتی ہوں۔ بڑی پیاری صورت پائی ہے نرملا نے۔۔۔ مگر میں نے اسے کچھ بتایا نہیں ہے بیچاری کا دل برا ہوتا۔‘‘

    چلتے چلتے وہ میری طرف دیکھ کر رکی اور ہاتھ ہلا کر بے حد شیرین لہجے میں بولی، ’’اچھا، میں چلتی ہوں، گڈ بائی۔‘‘

    کنگن بجاتے بجاتے وہ کمرے سے باہر نکل گئی، وہ چاندی کا کمربند ابھی تک اس کی نازک کمر سے جھول رہا تھا۔

    مأخذ:

    آدھے گھنٹے کا خدا (Pg. 128)

    • مصنف: کرشن چندر
      • ناشر: اسٹار پبلیکبشنز، دہلی
      • سن اشاعت: 1969

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے