Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چائے کی پیالی

مہندر ناتھ

چائے کی پیالی

مہندر ناتھ

MORE BYمہندر ناتھ

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے فرد کی کہانی ہے، جو ایک عورت کے ساتھ لو ان ریلیشن میں رہتا ہے۔ اس رشتہ میں رہتے ہوئے انہیں 12 سال ہو گئے ہیں۔ اس درمیان ان کے یہاں تین بچے بھی ہو گئے ۔ اتنے عرصے میں اس کی ساتھی نے اسے کبھی بھی شکایت کا کوئی موقع نہیں دیا۔ مگر گھر والوں کی نصیحتوں، رشتہ داروں کے طعنوں اور پڑوسیوں کی لنترانیوں سے پریشان ہوکر وہ دونوں شادی کر لیتے ہیں۔ شادی ہوتے ہی اس کی بیوی کے رویے میں ایسی تبدیلی آتی ہے کہ اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔

    کامنی میری بیوی ہے۔ اس کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے تقریباً بارہ سال ہو گئے ہیں اور آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ ان بارہ سالوں میں میری اور کامنی کی کبھی لڑائی نہیں ہوئی، گو یہ عرصہ اتنا لمبا ہے کہ لڑائی تو ہونی چاہئے تھی، اگر اس عرصے میں طلاق کی نوبت آ جاتی تو بھی اچنبھے کی بات نہ تھی، لیکن میری بیوی کی بات اور ہے۔ اس قسم کی بیویاں ذرا مشکل سے ملتی ہیں، کامنی سے میری ملاقات آج سے بارہ سال پہلے ایک خوبصورت دوپہر کو ہوئی تھی، ایک ایسی دوپہر، جب سورج ٹھیک سر پر تھا اور اس نے ہم دونوں کو اتنا قریب کر دیا کہ آخر میں ہم دونوں کو ہمیشہ کے لئے ایک ہونا پڑا۔

    اگر آپ میری بیوی کو دیکھیں گے تو آپ اسے قبول صورت ضرور کہیں گے، جب میں نے اسے دیکھا تو وہ مجھے بےحد حسین اور خوبصورت نظر آئی تھی، میں نے سوچا کہ ایسی لڑکی دنیا کے کسی کونے میں نظر نہیں آئےگی۔ اس کی نیلی نیلی آنکھیں، جو اب پیلی پیلی ہوگئی ہیں، لیکن اب بھی مجھے نیلی ہی نظر آتی ہیں، اس وقت بڑی پرکشش اور دل آویز دکھائی دیں اور جب میں نے اسے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا تو ایسا محسوس ہوا جیسے سر سے لے کر پاؤں تک قیامت دیکھ لی، میرے سارے بدن میں ایک کپکپی دور گئی تھی، ایسا سندر اور سڈول جسم میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا، ہو سکتا ہے کہ میرے ان لفظوں کو ناپسند کریں جو میں نے اپنی بیوی کے بارے میں اس استعمال کئے ہیں اور مجھے میری بیوی کے بارے میں استعمال نہیں کرنے چاہئیں، لیکن میں آپ سے عرض یہ کر دوں کہ میری بیوی میری محبوبہ بھی ہے اور محبوبہ کے بارے میں اس قسم کے جملے لکھنا کوئی بےادبی نہیں ہے۔

    جہاں تک میری بیوی کی سیرت کا تعلق ہے وہ بےمثال ہے، صورت اور سیرت کی وجہ سےمیں اس کے اتنا قریب آ گیا کہ پھر پیچھے نہ ہٹ سکا۔ جب ہم پہلی بار اس چلچلاتی دھوپ میں ملے تو نہ جانے کامنی نے اس طرح میری طرف دیکھا جیسے وہ مجھے سب کچھ سونپنے کے لئے تیار ہے، بغیر کسی جھجھک کے اتنا بھروسہ کسی انسان پر نہیں کرنا چاہئے۔۔۔ خاص کر پہلی ملاقات میں، لیکن یہی ادا مجھے پسند آئی۔ اس ادا نے مجھے ہمیشہ کے لئے اس کا گرویدہ بنا لیا، شاید اسی کو محبت کہتے ہیں، کامنی کو جتنی محبت مجھ سے تھی، یا ہے یا جتنی محبت مجھے اس سے ہے یا ہونی چاہیے، اس کا ذکر بےکار ہے، لیکن ایک بات صاف ظاہر ہے کہ اس محبت کا انجام بہت خوشگوار ہوا، یعنی کچھ عرصے کے بعد ہم دونوں اکھٹے اکھٹے رہنے لگے اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو خاوند بیوی تسلیم کر لیا۔

    اس میں کوئی شبہ کی بات نہیں کہ سب سے پہلے مجھے اس کی صورت پسند آئی اور پھر سیرت۔۔۔ اور دس سال گزرنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ میری بیوی کی صورت اور سیرت تو گوارا تھی، دراصل پس پردہ جنسی بھوک کار فرما تھی، جس نے مجھے اس کی سیرت اور صورت دونوں کا عاشق بنا دیا تھا۔

    میں شروع ہی سے خودسر واقع ہوا ہوں جو جی میں آتا ہے کرتا ہوں، میں نہیں چاہتا کہ کوئی آدمی میرے معاملات میں دخل دے، لیکن دوسروں کے معاملات میں ضرور دخل دیتا ہوں، میں کسی کی نصیحت سننا نہیں چاہتا، لیکن دوسروں کو نصیحت ضرور کرتا ہوں۔ در اصل یہ بات اتنی اہم تھی کہ مجھے اپنے والدین سے مشورہ کر لینا چاہئے تھا اور اگر صلاح نہ لے سکا تھا تو کم سے کم خبر تو ضرور کرنی چاہئے اور اگر میں اپنے ماتا پتا سے صلاح نہ لے سکا تھا تو کم سے کم بڑے بھائی سے مشورہ کرنا چاہئے تھا یا ان بزرگوں سے بات کرنی ضروری تھی جن کے کندھوں پر دھرم اور اخلاق کا بوجھ ہمیشہ پڑا رہتا ہے اور جو نوجوانوں کو نصیحت کرنے کے لئے ہمیشہ بیتاب نظر آتے ہیں، تاکہ ان کا یہ اخلاقی بوجھ کسی طرح کم ہو سکے، لیکن میں نے کسی کی پرواہ نہ کی۔

    میں نے سوچا کہ کامنی سےمیں محبت کرتا ہوں اور کامنی مجھ سے محبت کرتی ہے اب بھلا کسی کو بتانے کی کیا ضرورت ہے؟ بے چاری کامنی اتنی بھلی مانس کہ میرے والدین کے بارے میں کچھ نہ پوچھا، میں نے سوچا کہ میری بیوی اگر اتنی ترقی پسند ہے تو مجھے رجعت پسند بننے کی کوئی ضرورت نہیں (بعد میں معلوم ہوا کہ کامنی کے ماتا پتا ایک زمانہ ہوا مر کھپ گئے تھے اور بے چاری اس دنیا میں بالکل اکیلی اور شاید تنہا تھی، شاید اسی لئے اس نے میرے والدین کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا تھا۔) بہرحال ہم دونوں کو ایک دوسرے پر اتنا بھروسہ تھا کہ ہم کسی تیسرے کو بیچ میں لانے کے لئے تیار نہ تھے۔

    جب ہم دونوں اکٹھے رہنے لگے تو اس اکٹھے رہنے کو ہم نے شادی کا نام دے دیا۔۔۔ جی۔۔۔ شادی اور کس بلا کا نام ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ ہم دونوں کسی پنڈت کے پاس نہیں گئے اور نہ ہی ہم نے سول میرج کی، میں نے سوچا، دو دلوں کا میل ہے اور ہم ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں، اس سے زیادہ اور کیا چاہئے؟ اس دوران میں کامنی نے کبھی اس قسم کی خواہش نہ کی جس سے مجھے یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ قانونی طور پر شادی کرنا چاہتی ہے۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے دل میں کبھی سوچا ہو لیکن اس نے مجھ سے کبھی نہیں کہا، نہ ہی اس نے اس بارے میں کبھی کوئی شکایت کی۔

    میں اپنی بیوی سے بے حد خوش ہوں، گو قانونی نکتہ نگاہ سے وہ میری بیوی نہیں ہے بلکہ میری محبوبہ ہے یا آپ اسے میری داشتہ کہہ سکتے ہیں، سب سے اچھی بات اس میں یہ ہے کہ جس کی وجہ سے میں اس کا پرستار ہوں وہ صبح چائے کی ایک گرم گرم پیالی مجھے بنا کر دیتی ہے، جب آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتا ہوں اور پلنگ پر لیٹ کر اور بیٹھ کر، اس چائے کو آہستہ آہستہ پیتا ہوں تو دنیا کی باقی تمام لطافتیں بھول جاتا ہوں، صرف چائے کا مزا میری زبان پر رہ جاتا ہے۔ تقریباً بارہ برسوں سے ہر صبح کامنی چائے بناکر مجھے دیتی ہے، ہر صبح آسمان نیلا ہو یا آسمان پر نیلے بھورے بادل چھائے ہوں، بارش برس رہی ہو یا کسی طوفان کی آمد ہو، وہ صبح اٹھتے ہی اسٹو سلگاکر، چائے بناکر پیالی میرے ہاتھوں میں دے کر پھر سو جائےگی۔

    ان بارہ برسوں میں کئی انقلاب آئے، ہندوستان کا بٹوارا ہوا اور ہمارے تین بچے بھی ہو گئے، بڑے پیارے اور خوبصورت بچے ہیں، مجھے اپنے بچوں پر بڑا ناز ہے، میرے بچوں کو مجھ پر فخر ہے یا نہیں، اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بڑے خوبصورت بچے ہیں میرے، آپ کی کیا رائے ہوگی، اگر آپ انھیں دیکھ لیں، اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔

    کامنی اتنی پڑھی لکھی بھی نہیں۔۔۔ لیکن اتنی ان پڑھ بھی نہیں کہ آپ کی باتیں نہ سمجھ سکے۔ یہ اور بات ہے کہ کسی وجہ سے وہ آپ کی باتوں کا جواب نہ دے، ہماری ازدواجی زندگی مزے سے گزر رہی تھی، دراصل ایک عام انسان کو اور کیا چاہئے؟ ایک اچھی بیوی، تین بچے، تین کمروں کا فلیٹ، کماؤ خاوند، ہر ماہ ایک پکچر دیکھ لینا، میاں بیوی کا آپس میں خوش و خرم رہنا، بس یہی کچھ زندگی ہوتی ہے اور کیا چاہئے؟ جھگڑا ہم دونوں کا آپس میں کبھی نہیں ہوا، لیکن ایک دو سال کے بعد جب کبھی میری اماں ادھر آتیں تو گھر میں ذرا بدمزگی سی پیدا ہوا جاتی، میری اماں ذرا پرانے خیالات کی ہیں، شروع میں پروٹسٹ کے طور پر دو تین سال وہ میرے فلیٹ میں نہیں آئیں، پھر وہ غصے کو پی گئیں، ماں کی ممتا بیٹے کی خود سری پر غالب آ گئی اور وہ میرے گھر بہو کو دیکھنے چلی آئیں، لیکن انھوں نے اس بہو کو اپنی اصلی بہو کبھی نہیں مانا اور وہ اکثر اس بات کا چرچہ کرتیں۔ اس بار کہنے لگیں، ’’بیٹا اب بھی سمے ہے شادی کر لو۔‘‘

    ’’ماں تم بھی کیسی عجیب باتیں کرتی ہو؟ ہم دونوں کو اکٹھے رہتے ہوئے بارہ برس ہو گئے ہیں، تین بچّے ہیں جنھیں ہر روز تم دیکھتی ہو۔۔ اور پھر کہتی ہو کہ شادی کر لو۔۔۔‘‘

    ’’ارے، یہ کوئی شادی ہوئی؟ نہ برات آئی، نہ پنڈت بلایا، نہ باجے بجے، نہ پھیرے پڑے، کچھ بھی تو نہیں ہوا، اسے شادی نہیں کہتے، ابھی سمے ہے شادی کر لو، تین بچوں کے باپ ہو۔‘‘

    میں کامنی کی طرف دیکھتا، وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا دیتی اور میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا۔ کتنی سمجھ دارتھی میری کامنی، کتنا بھروسہ تھا اسے مجھ پر، کبھی کبھار میری ماں کامنی کی طرف داری کرتی اور کہتی، ’’اگر تم نے کامنی کو چھوڑ دیا تو کہاں جائےگی؟ اس کا خرچا پانی کون دےگا؟ کورٹ جاکر دعویٰ نہیں کر سکتی؟ اس کے پاس کیا ثبوت ہے کہ واقعی تم نے اس سے شادی کی ہے؟‘‘

    ’’ماں ہم دونوں ایک مکان میں رہتے ہیں، ایک ہی چھت تلے زندگی کے بارہ برس گزار دیے ہیں، پر ماتما کی کرپا سے تین بچّے ہیں اور کیا ثبوت چاہئے؟‘‘

    ’’بچے تو کسی داشتہ کے بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘ وہ جھنجلاکر کہتیں۔

    ’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ کیا میں اس طرح کا آدمی ہوں؟ کیا میں اتنا گر سکتا ہوں کہ کامنی کو چھوڑ دوں گا۔‘‘

    ’’گرے ہوئے نہیں ہو، لیکن گر سکتے ہو۔‘‘ وہ بحث کو آگے بڑھاتیں۔ ایسے موقعوں پر کامنی بیچ میں ٹوک دیتی، ’’ماں جی! مجھے ان بھروسہ ہے۔‘‘

    ’’اری مرد کی ذات پر اتنا بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔۔۔ تم دونوں شادی کر لو، دیکھو کتنا مزا آئےگا؟‘‘ وہ کامنی کو بھی میری طرف دیکھ کر اس عمر میں لالچ دیتیں۔

    اس طرح چھوٹی موٹی لڑائیاں اکثر ہوتی رہتیں، کچھ دنوں تک بدمزگی سی رہتی اور جب اماں گھر واپس چلی جاتیں تو ہم ان باتوں کو بھول جاتے۔ دراصل یہ بات چند قریبی رشتہ داروں کو ہی معلوم تھی اور بہت کم لوگوں نے میری اس خود سری کو سراہا تھا۔ میں نے بیاہ شادی کی تمام رسومات کے پرخچے اڑا دیے تھے اور انسان کی شرافت پر زیادہ بھروسہ کیا تھا۔ اگر میری بیوی زیادہ سمجھ دار نہ ہوتی تو اچھا خاصہ خون خرابہ ہو جاتا، شامت اعمال سے ان ہی دنوں میرے چچازاد بھائی اسی شہر میں وارد ہوئے، بدقسمتی سے وہ وکالت کرتے تھے، جب اس نئے شہر میں ان کی وکالت کہیں اور نہ چلی تو وہ گھر میں میری بیوی کی وکالت کرنے لگے، ہم دونوں ایک ہی اسکول، ایک ہی کالج اور ایک ہی ہوسٹل میں اکٹھے رہتے تھے، بھلا میں انہیں کیا کہتا، اگر میں کچھ کہتا بھی تو کیا وہ میری بات سنتے۔

    ایک دن وہ کامنی سے کہنے لگے، ’’اگر تمھارا پتی اس دنیا سے اچانک چل بسے تو قانونی طور پر تم اپنے خاوند کی جائداد کی مالکن نہیں بن سکتیں اور نہ ہی تمھارے بچے قانونی طور پر اپنے باپ کی جائداد کے وارث بن سکتے ہیں۔‘‘

    ’’میں نے یہ بات سن لی اور فوراً بولا، ارے بھئی کوئی جائداد ہو تو اس کا کوئی وارث بنےگا۔‘‘

    ’’اچھا نہ سہی جائداد، ان تین کمروں میں جو سامان رکھا ہے اس کا وارث کون ہوگا؟‘‘

    ’’میری بیوی۔‘‘

    ’’یہ تمھاری بیوی نہیں ہے۔‘‘

    ’’تو کس کی ہے؟‘‘ میں نے جل کر کہا۔

    ’’میں قانونی نقطہ نگاہ سے کہہ رہا ہوں، پیارے۔‘‘

    ’’تمھارے قانون سے کیا ہوتا ہے، کیا تمھاری وکالت کہیں اور نہیں چلتی؟ دنیا بھر کے قانون یہیں چھانٹتے پھرتے ہو۔‘‘ میں نے غصے میں آکر کہا۔

    ’’کسی اور وکیل سے پوچھ لو، اگر مجھ پر یقین نہ ہو تو۔‘‘

    ’’میں مرنے سے پہلے وصیت کر جاؤں گا۔‘‘

    ’’اگر اچانک ہارٹ فیل ہو گیا؟ جیسا کہ آج کل لوگوں کا ہو رہا ہے، تو؟‘‘

    ’’تو پھر کیا ہوا؟ یہ سب کچھ انہی کا ہے۔‘‘ میں نے کامنی کو یقین دلایا۔

    ’’تمھارے آفس کے فنڈ کا کیا ہوگا؟‘‘ انھوں نے نیا سوال کھڑا کر دیا۔

    ’’وہ میری بیوی کو ملےگا؟‘‘

    ’’کیسے ملےگا؟‘‘

    ’’آفس والوں کو کیا معلوم کہ میں نے قانونی طور پر کامنی سے شادی نہیں کی ہے۔‘‘

    ’’اگر معلوم ہو جائے تو۔۔۔؟‘‘ انھوں نے’’تو‘‘ کو اس طرح کھینچا جیسے جیتنے کے ہاتھ میں کھلاڑی زور سے ترپ کا پتہ پھینکتا ہوا۔

    ’’میں جاکر خبر دوں، یا تمھارا بھائی۔‘‘

    ’’میں تم سے اس بات کی امید نہیں کرتا۔۔۔ اور میرے بھائی اتنے اوچھے نہیں ہیں۔‘‘

    ’’اگر ہو جائیں گے تو ان کا کیا کر لوگے؟ تم اپنے بچوں کا مستقبل خراب کرنا چاہتے ہو۔‘‘

    ’’فی الحال میرے بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے، ویسے میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہر بچّہ اپنا مستقبل ہوتا ہے۔‘‘

    ’’کمیونزم کا پرچار مت کرو۔ ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرو اور سوچو!‘‘

    یہ صاحب تو لڑ جھگڑ کے چلے جاتے، لیکن فضا میں زہر گھول جاتے اور اس کا اثر اب اڑوس پڑوس میں پھیلتا تھا۔ اس واقعہ کے بعد میری بیوی نے اپنی سہیلی کملا سے یہ بات کہہ دی۔ یہ سنتے ہی وہ ہکا بکا رہ گئی، بے چاری میری بہت عزت کرتی تھی، یہ سنتے ہی اس نے کچھ ایسے تیور بدلے کہ وہ مجھے چور اور بدمعاش سمجھنے لگی، ایک دن وہ میری بیوی سے بولی، ’’ہائے رام آپ دونوں نے ابھی تک شادی نہیں کی؟ کئی برسوں سے آپ دونوں اکٹھے رہتے ہیں اور پھر آپ دونوں نے بچے بھی پیدا کر لئے۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ تو۔۔۔ حرامی بچے ہیں۔‘‘ آخر اس کے دل میں آئی ہوئی گالی زبان پر آ ہی گئی۔ یہ سن کر کامنی کو بہت غصہ آیا، اس نے اپنی سہیلی کو ڈانٹ کر کہا، ’’خبر دار! اگر دوبارہ ایسی بات کہی، نہیں تو زبان کھینچ لوں گی۔‘‘

    ’’زبان تم کھینچ لو، لیکن سچی بات کہنے سے نہیں ڈروں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف چل دی۔

    یہ بات محلے میں ایسی پھیلی کہ لوگوں نے نگاہیں پھیر لیں مجھے ایسا معلوم ہوا کہ رام اور سیتا اجودھیا نگری میں بارہ برس کے بعد لوٹے ہیں، دھوبیوں کو سیتا پر بھروسہ نہ رہا تھا، راون کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے، جیسے ہم دونوں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا تھا۔ چونکہ ہم دونوں کا من صاف تھا، ہم نے لوگوں کی کانا پھوسی کی پرواہ نہ کی، بدقسمتی سے انہی دنوں میرے ماتا پتا تشریف لے آئے اور پھر محلے کےدھوبیوں کی ایک سمٹ کانفرنس ہوئی کہ میں لاجواب سا ہو گیا۔ سب نے بچوں کے مستقبل کے بارے میں ایسی خطرناک باتیں کہیں کہ مجھے ان کی ہاں میں ہاں ملانا پڑی، لیکن اس دوران میں کامنی نے اس خیال کی پر زور تائید نہ کی، میں جانتا تھا کہ کامنی کو مجھ پر بھروسہ ہے۔

    اب بات خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی۔ والدین نے زور دے کر مجھے اس بات پر راضی کر لیا کہ قانونی طور پر اب شادی کر لینی چاہئے، یعنی ایک پنڈت کے سامنے۔ یہ کچھ عجیب سی بات لگ رہی تھی کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ شادی کروں اور وہ بھی بارہ برس کے بعد۔۔ اور جب کہ ہم تین بچوں کے ماں باپ بن چکے ہوں۔ میری ماں کہنے لگی، ’’میں بینڈ بجواؤں گی، لڈو باٹوں گی، سارے محلّے کی عورتیں بلوا کر گیت گواؤں گی۔‘‘

    ’’یہ بکواس نہیں ہوگی ماں۔‘‘

    ’’اور یہ تیری بکواس چلے گی؟ رہنے دے اپنے گھر کے قانون، تمھارا کیا ہے، جب جی آئے گا بےچاری کو چھوڑ دوگے، میں اس طرح نہیں ہونے دوں گی۔‘‘

    خیر بڑی مشکل سے شادی پر راضی ہوا، شادی ہوگی، لیکن بینڈ نہیں بجےگا، لڈو نہیں بانٹیں جائیں گے، صرف پانچ چھ ہی رشتہ داروں کو بلایا جائےگا، پنڈت آئےگا اور میری ماں میری بیوی کو دلہن بناکر گھر لائےگی، پھر میں اپنی دلہن کا چہرہ دیکھوں گا۔ اس لڑائی جھگڑے میں کامنی کچھ نہ بولی، شادی کا دن آ گیا، ایک ہال میں منڈپ بھی بن گیا، سات آٹھ براتیوں کے سامنے کامنی دلہن بن کر آئی، اس دن کامنی مجھے بہت اچھی لگی، وہ لال رنگ کی ساڑھی پہنے ہوئے تھی، بانہوں میں لال رنگ کی چوڑیاں جو میری ماں خریدکر لائی تھی، آنکھوں میں حیا کے ڈورے، کچھ شرمائی ہوئی، لجائی ہوئی، سر کو ڈھانپتی ہوئی، بدن چراتی ہوئی، ماتھے پر بندیا، کچھ نئے گہنوں سے لدی ہوئی میرے پاس بیٹھ گئی۔ جی میں آیا کہ ایک زور کا قہقہہ لگاؤں، لیکن چپ ہوگیا، کامنی کا چہرہ دمک اٹھا تھا، اس کے رخسار حیا سے تمتما اٹھے تھے، اتنی کمسن اور معصوم وہ مجھے کبھی نہ لگی تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابھی کنواری ہے اور مجھے پھر سے تین بچے پیدا کرنے ہوں گے۔

    پھر باقاعدہ شادی ہو گئی۔ پنڈت کے سامنے میری ماں میری بیوی کو بہو بناکر لے آئی۔ محلے کی عورتیں بھی آئیں، اچھا خاصا ہنگامہ ہو گیا۔ دوسرے دن میرے ماتا پتا چلے گئے۔ شادی کے تیسرے دن کی بات ہے۔ صبح کا وقت تھا، میری آنکھ ابھی تک کھلی نہ تھی، اد ھ کچی نیند تھی اور چائے کی پیالی کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے اپنی دولہن بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ بڑے مزے سے سو رہی تھی۔ میں نے باورچی خانہ کی طرف نگاہ ڈالی۔ اسٹو ٹھنڈا پڑا تھا۔ میں اپنی چارپائی سے اٹھا، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بارہ برسوں میں پہلی بار سوئی ہو۔ اتنی پر سکون نیند شاید اسے کبھی نہ آئی تھی، خاوند کے حق کو آزمانے کی خاطر میں نے نئی نویلی دلہن کی چادر کھینچ کر کہا، ’’ارے اٹھو۔۔۔ چائے بنا کر لاؤ، کیا تماشہ ہے؟ ابھی تک سو رہی ہو؟‘‘

    کامنی نے چادر کو جسم پر تانتے ہوئے کہا، ’’جی میں بارہ برس سے ہر صبح آپ کے لئے چائے بناتی رہی ہوں بارہ برس تک میں آپ کی محبوبہ رہی، آج سے میں آپ کی بیوی ہوں، ذرا چائے بنا کر مجھے پلاؤ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بڑے مزے سے کروٹ بدل کر چادر سے اپنے جسم کو ڈھک کر سو گئی۔ میں سفید چادر کی طرف تکتا رہ گیا۔

    مأخذ:

    مہندر ناتھ کے بہترین افسانے (Pg. 148)

    • مصنف: مہندر ناتھ
      • ناشر: اوپندر ناتھ
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے