aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چور

MORE BYفیروز ناطق خسرو

    رات کا وقت، حد نظر تک چھائی تاریکی اور اپنی تنہائی کا احساس کچھ زیادہ ہی خوفزدہ کر رہا تھا۔ چولہے میں جلتی ہوئی آگ اور چائے کے پانی کی ہلکی ہلکی سنسناہٹ ماحول بھی کو آسیب زدہ بنا رہی تھی۔

    امتحان میں چند ہی روز رہ گئے تھے اس وجہ سے ہم آدھی آدھی رات تک پڑھنے میں مصروف رہتے تھے۔ اس وقت بھی جب کہ تمام لوگ سردی کے موسم میں لحافوں اور رضائیوں میں دبکے بےخبر سو رہے تھے ہم ٓدھی رات کو اپنی نیند دور کرنے کے لیے کمرے سے نکل کر باورچی خانے میں چائے کی تیاری میں مصروف تھے۔ یہ ہمارا روز کا معمول تھے مگر نجانے کیوں ہم اس رات کچھ زیادہ ہی خوفزدہ تھے۔ کبھی کسی کی سرگوشیاں سنائی دیتیں تو کبھی قدموں کی چاپ۔ ہم اب اتنے بھی ڈرپوک نہیں تھے کہ بلی کی میاؤں سن کر بھاگ کھڑے ہوتے سو ہم نے ان سب غیرمعمولی باتوں کو اپنا واہمہ سمجھ کر ذہن سے جھٹک دیا اور جلدی جلدی چائے تیار کر کے اپنے کمرے کا رخ کیا ابھی ہم بیچ صحن ہی میں پہنچے تھے کہ کسی کھٹکے پر ہماری نظر برابر کے زیر تعمیر مکان کی درمیانی دیوار پر پڑیں۔ خوف کی ایک تیز لہر ہماری ریڑھ کی ہڈی سے گزرتی ہوئی پیروں کو منجمد کر گئی۔ لرزتے ہاتھوں سے ہم نے چائے کی ٹرے زمین پر رکھی اور ڈرتے ڈرتے نظر اٹھائی۔ دو عدد اسپنج کی چپلیں اس وقت بھی دیوار پر رکھی ہوئیں تھیں۔ ابھی ہم چور چور کا نعرہ لگانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ دو ہاتھوں کی دسوں انگلیاں دیوار کو اپنی گرفت میں لیے دکھائی دیں اور ان کے بیچ کسی کا ابھرتا ہوا سر۔ یہ سب دیکھ کر ہماری گھگی بندھ گئی اور ہم نے گھر کے اندرونی کمرے کی طرف دوڑ لگا دی جہاں ہمارے اباحضور استراحت فرما رہے تھے۔ ویسے تو کبھی ہم ان کے کمرے میں بغیر اجازت نہیں جاتے تھے۔ کمرے میں پہنچ کر بڑی مشکل سے ہم نے حلق پھاڑ کر ابا جان ابا جان کا فلک شگاف نعرہ لگایا لیکن یہ ہماری خام خیالی تھی ہمارے منہ سے بہت باریک، لرزتی کانپتی آواز نکل رہی تھی۔۔۔ ابا جان، ابا جان۔ جب اس صدائے بے اثر نے رنگ نہ دکھایا تو ہم نے لحاف کا کونہ کھینچنا شروع کر دیا۔ ابا جان ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ رات کے اس وقت مجھے دیکھ کرپریشان ہوکر زور سے بولے کیا بات ہے (ویسے ہن نے انہیں اس سے پہلے پریشان ہوتے نہیں دیکھا تھا، ہمارے اپنے بارے میں۔۔۔ جواباً میں نے نہایت نحیف آواز میں کہا۔ ’’چور چور، وہ ادھر چپلیں دکھا رہا ہے‘‘۔ اب ابا جان کو بھی معاملے کی سنگینی کا احساس ہو چلا تھا۔ جلدی بستر چھوڑ، سیرکرنے کی چھڑی اٹھا، ننگے پاؤں باہر کی طرف دوڑے۔ہم بھی ایک ہاتھ میں ان کی چپلیں لیے پیچھے پیچھے تھے۔ صحن میں جاکر شاید ایک لمحے کے لیے وہ بھی کانپ گئے ہوں گے۔ چور کا سر دیوار سے طلوع ہو رہا تھا۔ اچانک ابا کو اپنے ابا ہونے کا احساس ہو گیا۔ زور زور سے اپنی پتلی چھڑی سے دیوار پر ضربیں لگاتے ہوئے چور چور کی صدائیں بلند کرنا شروع کر دیں۔ چور صاحب اس فوری حملے کے لیے تیار نہ تھے۔ دوسری طرف دھپ کی زور دار آواز عالیجناب چور کے خلا سے واپس زمین کی طرف تشریف لانے کا اعلان کر رہی تھی۔ جیسے ہی دوسری طرف کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی ابا جان نے بھی اپنے دروازے کی طرف دوڑ لگائی۔ میں اتنے میں ماسی کی جھاڑو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھا م کر اپنے دفاع اور چور کی سرکوبی کے لیے تیار ہو چکا تھا۔

    اباجان نے اپنی چھڑی سنبھال کر دروازہ کھولا تو چور ٹھیک ان کے سامنے تھا جس کا چہرہ اباجان کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ اباجان نے۔ بدتمیز، نالائق کہتے ہوئے ایک زوردار چھڑی چور کے رسید کی۔ ہم بھلا کیوں پیچھے رہتے، جھاڑو دونوں ہاتھوں میں کسی پہلوان کے گرز کی طرح تھام کر اباجان کے پیچھے سے یاعلی کا نعرہ لگایا ہی تھا کہ اباجان کے ایک زوردار تھپڑ نے ساری ترکی تمام کر دی۔

    اباجان یہ کہتے ہوئے ‘’کمبخت رات کو بھی چین لینے نہیں دیتے اپنے کمرے کی طرف چل پڑے۔ ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ تھپڑ چور نے مارا تھا یا اباجان نے اور یہ کیسا چور ہے جسے اباجان چھوڑ کر چل دیے کہ ایک اور زور دار لپڑ ہمارے منہ پر پڑا۔ ہمارے منجھلے بھائی جان نہایت خشمگیں نگاہوں سے ہمیں گھور رہے تھے بس نہ تھا جو کچا ہی چبا جائیں۔

    اب ساری بات ہماری سمجھ میں آ گئی تھی۔ بھائی جان کمبائینڈ اسٹیڈی کی غرض سے دوست کے گئے تھے، زیادہ دیر ہوگئی توڈانٹ کے ڈر سے دروازے کی گھنٹی بجانے کی بجائے برابر کے زیر تعمیر گھر کی دیوار سے گھر کے صحن میں کودنے کو منصوبہ بنایا۔۔۔ منصوبہ تو بڑا شاندار تھا مگر برا ہو میری آدھی رات کو اٹھ کر پڑھنے کی عادت کا۔۔۔ ویسے ایک راز کی بات آپ کو بتاؤں، چند ماہ پہلے تک سب میں بڑے بھائی اور میں ایک ہی کمرے میں سوتے تھے، لیکن اس آدھی رات کو اٹھنے کی عادت نے دوسرے دن ہی کمرے سے نکلوا دیا۔ لیکن بڑے بھائی کے دوسرے شہر تبادلے نے بلا شرکت غیرے ہمیں کمرے کا مالک بنا دیا یہ اور بات بڑے بھیا بھی دوسرے شہر جاتے جاتے ایک عدد زور دار چانٹے سے نواز گئے۔۔۔ اب آپ خود بتایے ان دونوں معاملات میں میرا بھلا کیا قصور۔‘‘

    جی کیا کہا، آدھی رات کو اٹھنے کی عادت؟ ہاں جی وہ ابھی بھی برقرار ہے، افسوس کوئی ڈانٹنے ڈپٹنے والا نہیں۔ بیوی بچے تو وہ بیجارے برداشت کرتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے