aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سائیبر اسپیس

غضنفر

سائیبر اسپیس

غضنفر

MORE BYغضنفر

    شتابدی اکسپریس، سوپرفاسٹ میل، پسنجرٹرین، بس،بدئبیت، بےہنگم، بدبودار دھواں چھوڑتی اور پھٹپھٹ کرتی میٹاڈور، ہچکولے کھاتی رکشا اور تنگ وپرخارپیدل کا سفر طے کرکے وہ اس بستی میں داخل ہوا۔

    دھند اور دھول سے اٹی بے جان اور سنسان بستی کو دیکھتے ہی جیتی جاگتی جگمگاتی شہری آبادی کا ایک پرُنور منظر اس کی آنکھوں میں جھلملا اٹھا۔

    کچھ دیرتک آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے دونوں منظروں میں سے روشن منظر کہیں چھپ گیا اور سیاہ منظر اپنی آنکھیں کھول کر سامنے کھڑا ہو گیا ۔اسے محسوس ہوا جیسے وہ کسی جزیرے میں پہنچ گیا ہے۔ اس کے اردگرد بہت سارے لوگ جمع ہو چکے تھے اور اسے وہ اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے ان کی نگری میں کسی نئی دنیاکی کوئی مخلوق آ گئی ہو۔

    وہ وہاں کی ایک ایک چیز کوحیرت واستعجاب سے دیکھتا اور پوچھ تا چھ کرتا ہوا اس بستی کے اس آدمی کے پاس پہنچ گیا جس سے اس کے مشن میں رہنمائی ملنے والی تھی۔

    ’’تمہارا ہی نام چورسیا ہے؟‘‘ اس نے اس آدمی کو سر سے پاتک گھورتے ہوئے پوچھا۔

    ’’جی صاحب!‘‘

    ’’تم پڑھے لکھے ہو؟‘‘

    ’’تھوڑا تھوڑا۔‘‘

    ’’کہاں پڑھا؟‘‘

    ’’آپ ہی جیسا ایک صاحب گھرکے کام کاج کے لیے مجھے اپنے ساتھ لے گیا تھا، وہیں۔‘‘

    ’’کتنے دنوں تک رہے؟‘‘

    ’’کافی دنوں تک ‘‘

    ’’چلے کیوں آئے؟‘‘

    ’’صاحب کہیں دور چلا گیا اور گھر والوں کی یاد بھی آنے لگی۔ اس لیے۔‘‘

    ’’یہاں کیا کرتے ہو؟‘‘

    ’’کام۔‘‘

    ’’کیسا کام؟‘‘

    ’’محنت مزدوری کا کام۔‘‘

    ’’میں تمہارے پاس ایک ضروری کام سے آیا ہوں۔‘‘

    ’’مجھ سے کیا کام ہے صاحب؟‘‘چورسیا نے چونکتے ہوئے پوچھا۔

    ’’مجھے تمہاری مدد چاہیے۔‘‘

    ’’میری مدد!‘‘ اس کی حیرت اور بڑھ گئی۔‘‘

    ’’ہاں تمہاری مدد۔‘‘

    ’’کیسی مدد صاحب؟‘‘

    ’’میں یہاں کے لوگوں کے جیون پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

    یہ سنتے ہی چورسیا کے ذہن میں کسی کتاب کا ایک صفحہ کھل گیا۔’’ گائے ایک چوپایا جانور ہے۔ اس کی دو آنکھیں ہوتی ہیں۔ دوکان اور دوسینگ ہوتے ہیں۔ ایک ناک اور ایک پونچھ ہوتی ہے۔ وہ اجلے، کالے بھورے اور چتکبرے رنگ کی ہوتی ہے۔ گائے دودھ دیتی ہے۔ اس کے دودھ سے دہی جمتاہے۔ مکھن نکلتا ہے۔ گھی ملتا ہے۔ وہ سال میں ایک بار بچھڑا دیتی ہے۔ اس کا بچھڑا بڑا ہوکر بیل بنتا ہے۔ بیل بوجھ ڈھوتا ہے۔گائے کی کھال سے جوتے اور بیگ بنتے ہیں۔ اس کی چربی اور ہڈی سے طرح طرح کی وستوئیں بنائی جاتی ہیں۔‘‘

    ’’صاحب !میں جانتا ہوں آپ کیا لکھیں گے؟‘‘

    ’’کیا کہا؟ تم جانتے ہو کہ میں کیال کھوں گا؟‘‘وہ چونک کرچورسیا کی طرف دیکھنے لگا۔

    ’’جی صاحب۔‘‘

    ’’اچھّا تو بتاؤ کہ میں کیا لکھوں گا؟‘‘

    ’’آپ لکھیں گے کہ چندن باڑی کے لوگ ناٹے اور کالے ہوتے ہیں۔ ان کا شریر گندا ہوتا ہے۔ دانت پیلے ہوتے ہیں۔ آنکھوں میں کیچڑ بھرا رہتا ہے۔ ان کے گال پچکے ہوئے ہوتے ہیں اور چھاتی کی ہڈیاں باہر نکلی ہوتی ہیں۔ وہ باجرے کی روٹی، اول کا بھرتا، موٹے چاول کا بھات اور کھساری کی دال کھاتے ہیں...‘‘

    ’’میں لیکھ لکھنے نہیں آیا ہوں۔‘‘

    ’’توکیا لکھنے آئے ہیں صاحب؟‘‘

    ’’رچنا۔‘‘

    ’’رچنا معنی؟‘‘

    رچنا معنی کویتا اور...

    ’’کویتا! سمجھا؟‘‘

    سچی باتیں کہنا سیکھ

    سب سے ہِل مل رہنا سیکھ

    سیدھی راہ پہ چلنا سیکھ

    سب کا آدر کرنا سیکھ

    طوفاں سے ٹکرا کر بھی

    ہرپل آگے بڑھنا سیکھ

    ’’یہی ناصاحب۔‘‘

    ’’ایسی رچنا نہیں۔‘‘

    ’’تو کیسی رچنا صاحب؟‘‘

    ’’ایسی رچنا جس میں یہاں کے لوگوں کا اصلی جیون سما جائے۔ یہاں کی آتما اس میں پوری طرح رچ بس جائے۔‘‘چورسیاکی آنکھوں میں سارا گاؤں سمٹ آیا۔ ایک ایک گھر، ایک ایک آنگن ابھر گیا۔ ایک ایک چہرہ اپنے دردوکرب کے ساتھ اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔

    چورسیا کی آنکھیں جوبرسوں سے سوکھی پڑی تھیں ایک دم گیلی ہو گئیں۔

    ’’یہاں کی آتما آپ کو دکھائی دے گی صاحب؟‘‘اس کی آواز بھی بھیگی ہوئی نکلی۔ ’’کیوں نہیں ،تم مدد کروگے توضرور دکھائی دےگی۔‘‘

    ’’ہم سے کیا مدد چاہیے صاحب؟‘‘

    ’’یہی کہ تم اپنے بھیتر کا حال بتاؤ۔ اپنے لوگوں سے بات کراؤ۔ اپنی عورتوں سے ملواؤ۔

    ’’عورتوں سے !‘‘چورسیا کی آواز کا بھیگاپن یکایک غاب ہو گیا۔ جیسے بھاپ بن کر اڑ گیا ہو، وہ معنی خیز نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

    ’’چورسیا، تم غلط سمجھے۔ دراصل میں یہاں کی عورتوں سے اس لیے ملنا چاہتا ہوں کہ ان کا حال میں ان کی زبان سے سن سکوں۔ یہ جان سکوں کہ وہ کس طرح رہتی ہیں؟‘‘

    ’’معاف کرنا صاحب! میں نے سمجھا شاید... پرصاحب! وہ اپنے بھیتر کا حال آپ کو کیسے بتائیں گی جواپنے مردوں تک کو نہیں بتا پاتیں۔‘‘

    ’’کیوں نہیں بتا پاتیں؟‘‘

    ’’یہ تو وہی جانیں صاحب‘‘

    ’’تم لوگ کبھی پوچھتے نہیں؟‘‘

    ’’پوچھا تو تب جائے ناصاحب جب کوئی جاننا چاہے۔‘‘

    تو کیا سچ مچ تم لوگ جاننا نہیں چاہتے؟‘‘اس کی حیرت بڑھ گئی۔

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’ہمارا اپنا دکھ کیا کم ہے کہ ہم ان کا دکھ جاننے کا پریاس کریں۔‘‘

    ’’سناہے تم لوگ اپنی عورتوں کو مارتے بھی ہو؟‘‘

    آپ نے ٹھیک سنا ہے صاحب۔‘‘

    ’’کیوں مارتے ہو؟‘‘

    ’’سچی بات بولوں صاحب۔‘‘

    ’’ہاں،بولو۔‘‘

    ’’وہ کمزور ہیں اس لیے۔‘‘

    ’’مطلب؟‘‘

    ’’مطلب صاف ہے صاحب! مار تو کمزور ہی پر پڑتی ہے نا۔ چاہے بھگوان کی مار ہو چاہے شیطان کی۔ دکھ اور مصیبت میں جب ہمارا کوئی بس نہیں چلتا تو ہم اپنا غصہ اپنی عورت پر نکالتے ہیں۔ آپ ہی بتائیے صاحب ہم ا پنے بھیتر کی بھڑاس کس پر نکالیں۔ ان پیڑوں پر یا اس دھرتی پر؟‘‘

    چورسیا کی بات سن کر اس کی نظریں دھرتی پر مرکوز ہو گئیں۔ اسے محسوس ہوا جیسے چورسیا نے کسی گہرے فلسفے کی طرف اشارہ کر دیا ہو۔ زمین سے انسان کے رشتے کی بہت ساری گتھیاں ابھرتی چلی گئیں۔ اس کاذہن دیرتک گتھیوں میں الجھا رہا۔ کافی دیر تک خاموش رہنے کے بعد اس نے چورسیا کو پھر مخاطب کیا۔

    ’’اچھا یہ بتاؤ تم لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہو؟‘‘

    چورسیا اس سوال پر کچھ دیر سوچتا رہا۔ بیچ بیچ میں ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ پھر ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

    ’’اس طرح۔‘‘

    اس کی نظریں اشارے کی طرف مڑ گئیں۔

    کچھ فاصلے پر کنکریلی زمین کے اوپر ایک مریل بچہ جس کا پیٹ ڈھول کی طرح پھولا ہوا تھا۔ چھاتی کی ہڈیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ بےسدھ پڑا تھا اور اس کے پاس ہی ایک خارش زدہ پلا لیٹا تھا۔ دونوں کے اوپر مکھیاں بھن بھنا رہی تھیں۔

    اس کی نگاہیں بچے اور پلے کے پاس سے لوٹ کر دوبارہ چورسیا کے چہرے پر کوز ہو گئیں۔

    چورسیا کی آنکھیں دیالو نگاہوں کی گرمی سے پگھل کرموم کی طرح ٹپکنے لگیں۔ ایک کی آنکھیں خاموشی سے اپنا درد بیان کرتی رہیں اور دوسری کی آنکھیں اسے دیرتک تکتی رہیں۔

    ’’تمہاری اِچھائیں کیا ہیں؟‘‘ اس نے کافی دیربعد چورسیا سے دوسرا سوال کیا۔

    ’’وقت پر دو جون کی روٹی۔ صاف پانی۔ موسم سے بچانے والا کپڑا اور بچھاون والا بستر۔‘‘

    ’’بس۔‘‘

    صاحب آپ نے’’بس‘‘کیوں کہا؟

    ’’بس نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟‘‘ تم نے جو گنوائی ہیں یہ اِچھائیں تھوڑی ہی ہیں۔

    ’’یہِ اچھائیں نہیں تو اور کیاہیں؟‘‘

    ’’یہ تو آوشیکتائیں ہیں۔‘‘

    ’’اور اِچھائیں کیا ہوتی ہیں صاحب؟‘‘

    ’’اِچھائیں آوشیکتاؤں سے اوپر ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا تھا تمہاری اِچھائیں بھی ہماری طرح ہوں گی۔ یعنی تمہیں بھی گاڑی، بنگلہ، نوکرچاکر کرسی عیش وآرام وغیرہ کی اِچھا ہوگی۔‘‘

    ’’صاحب آپ ہم پر کچھ لکھنے آئے ہیں نا؟‘‘

    ’’ہاں، کیوں؟‘‘

    ’’آپ ہم پر نہیں لکھ سکتے؟‘‘

    ’’کیوں نہیں لکھ سکتے؟‘‘وہ چونک پڑا۔

    ’’اس لیے کہ ہم آپ کی سمجھ میں نہیں آ سکتے۔‘‘

    ’’کیوں بھائی! سمجھ میں کیوں نہیں آ سکتے۔‘‘

    ’’ہم آپ سے بالکل الگ ہیں صاحب۔ بالکل الگ۔‘‘

    ’’تو کیا ہوا؟‘‘

    ’’ہم کو قریب سے دیکھے بنا آپ ہمیں نہیں سمجھ سکتے۔‘‘

    ’’ہم تواسی لیے آئے ہیں کہ قریب سے دیکھیں۔‘‘

    ’’تو ہماری ایک رائے مانیے صاحب۔‘‘

    ’’بولو۔‘‘

    ’’کچھ دنوں تک آپ ہم میں رہے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے کچھ روز ہم تمہارے ساتھ رہیں گے۔‘‘

    ’’صرف ساتھ رہنے سے کام نہیں چلےگا۔‘‘

    ’’تو؟‘‘

    ’’آپ کو ہمارا رہن سہن ا پنانا ہوگا۔ ہمارا پہناوا پہننا ہوگا۔‘‘

    ’’تمہارا پہناوا پہننا ہوگا؟‘‘ اس کی نگاہیں چورسیا کی میلی کچیلی دھوتی پر مرکوز ہو گئیں۔ دھوتی کا میل اس کی پتلیوں میں چبھنے لگا۔

    اس رنگ کو اپنے ذہن سے جھٹک دو اور جی کڑا کرکے یہاں رہنے اور ان لوگوں میں بسنے کا من بناؤ‘‘اس کے اندرکی آواز نے اسے جوش دلایا۔

    ’’پہن لیں گے۔‘‘ اس نے مضبوط لہجے میں اسے جواب دیا۔

    ’’ہمارا کھانا کھانا ہوگا۔‘‘

    ’’تمہارا کھانا بھی کھائیں گے۔‘‘

    ’’ہماری طرح سونا ہوگا۔‘‘

    ’’سوئیں گے۔‘‘

    ’’ہم جو کام کرتے ہیں، کرنا پڑےگا۔‘‘

    ’’کام بھی کرنا پڑےگا؟‘‘

    ’’اور کیا، کام بھی کرنا پڑےگا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، کام بھی کریں گے۔‘‘

    ’’تو آپ ہماری طرح بن جائیے۔‘‘

    ’’لو، بن جاتے ہیں۔‘‘

    ’’آپ اپنے یہ کپڑے اتار ئیے۔‘‘

    ’’اتار دیں گے، پہلے تم اپنا کوئی کپڑا تو لا دو۔‘‘

    ’’سوکھیا! ارے او سوکھیا! تنک گھر سے ایک دھوتی تو لانا۔‘‘

    ’’ابھی لایا کاکا۔‘‘ ایک میلی کچیلی دھوتی آ گئی۔‘‘

    ’’لیجیے صاحب! اسے پہن لیجیے۔‘‘

    دھوتی ہاتھ میں لیتے ہی بدبو کا ایک بھبکا اس کے نتھنوں میں سما گیا۔ اس کا چہرہ یک بارگی بگڑ گیا۔

    ’’برج موہن! بدبو جھیلنے کی عادت ڈالو۔ ٹھیک کرو چہرے کو۔‘‘

    اندر سے آواز اٹھی اور اس نے بدبو برداشت کرنے کی کوشش شروع کر دی۔

    ’’کپڑے کہاں بدلیں؟‘‘

    ’’یہیں اور کہاں۔‘‘

    ’’لیکن یہاں سب کے سامنے شرم نہیں آئےگی؟‘‘

    ’’صاحب اسے بھی اتارنا پڑےگا۔ ٹھیک ہے، فی الحال ادھر آڑ میں جاکر بدل لیجیے۔‘‘

    ’’وہ دھوتی لے کر آڑ میں چلا گیا۔ کپڑے بدل کر وہ چورسیا کے پاس آیا تواسے دیکھ کر بچے کھِلکھِلا پڑے۔

    ’’میلی دھوتی اور اجلے بنیائن میں وہ سرکس کا جوکر دکھائی دے رہا تھا۔ بچوں کے ہنسنے پر اسے غصّہ تو بہت آیا مگر اس نے اپنے غصے پر قابو پا لیا۔‘‘

    ’’لو، تمہارے کپڑے تو ہم نے پہن لیے، بولو، اب اور کیا کرنا ہے؟‘‘

    ’’اب چلیے کام پر چلتے ہیں۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’جنگل میں۔‘‘

    ’’کس لیے؟‘‘

    ’’لکڑیاں توڑنے۔‘‘

    ’’لکڑیاں توڑنے؟‘‘ پہلے وہ چونکا، کچھ دیر تک خاموش رہا، پھر دھیرے سے بولا۔

    ’’اچھا چلو۔‘‘

    بےراستے کے راستے پرچلتا ہوا تقریباً تیس چالیس منٹ بعد وہ چورسیا کے ساتھ جنگل پہنچا۔ جنگل پہنچتے پہنچتے وہ پسینے میں شرابور ہو گیا۔ دھوتی سے اس نے اپنے منھ کا پسینہ پونچھا اور ایک جگہ بیٹھ کرجنگل میں ادھر ادھر نگاہ دوڑانے لگا۔

    ’’صاحب! میں تواس پیڑ پر چڑھ رہا ہوں۔ آپ بھی کسی پیڑ پر چڑھ جائیے۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ اس نے اچھا تو کہہ دیا مگر پیڑ پر چڑھنا اس کے لیے آسان نہیں تھا۔

    پوری ہمت جٹاکر وہ آگے بڑھا۔ ایک پیڑ پر چڑھنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ ایک اور پیڑ پر ہمت آزمائی مگر جلد ہی پھسل کر نیچے آ گرا۔

    لگاتار وہ کئی پیڑوں کے پاس گیا، چڑھا، پھسلا، گرا۔ آخرکار تیمورلنگ کی چیونٹی کی طرح ایک پیڑ پر چڑھنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔

    کافی احتیاط سے اس نے کچھ سوکھی لکڑیاں توڑیں اور اپنے کوگرنے سے بچاتا ہوا نیچے اتار لیا۔

    احتیاط کے باوجود اس کے ہاتھ پاؤں میں خراشیں آ گئی تھیں۔ ایک ہاتھ لہولہان ہو گیا تھا۔

    ’’صاحب! آپ تو گھائل ہو گئے ہیں۔ لائیے آپ کے گھاؤ پر مٹّی لگا دوں۔‘‘اپنا گٹھّر زمین پر رکھتے ہوئے چورسیا بولا۔

    ’’مٹّی! کیاکوئی دوا نہیں مل سکتی؟‘‘ خوف آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا۔

    ’’صاحب! دوا آس پاس میں کہاں ملےگی۔ اس کے لیے بہت دور جانا پڑےگا۔ تب تک آپ کے شریر کا آدھا خون بہہ جائےگا۔ ڈرئیے نہیں، میں مٹی کا لیپ لگا دیتا ہوں۔ اسی سے ٹھیک ہو جائےگا۔ ہم تو یہی لگاتے ہیں۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘مجبوراً اس نے حامی بھری۔

    اس کے زخم پر مٹی لگ گئی مگر وہ اندر ہی اندر ڈرتا رہا کہ کہیں ٹٹنس نہ ہو جائے۔ اس موقعے کے اسے جتنے منتر یاد تھے، سب پڑھ ڈالے اور دل ہی دل میں بھگوان سے پرارتھنا کرتا رہا کہ وہ اُسے ٹٹنس سے بچالے۔

    ’’صاحب! آج بس اِتنا ہی۔ باقی کل۔ اب گھر چلتے ہیں۔:‘‘

    گھر کا نام سنتے ہی ایک کوٹھی اس کی نگاہوں میں کھڑی ہو گئی، لان کے پھول اور دیواروں کے رنگ وروغن لہرانے لگے۔

    چورسیا کے منع کرنے کے باوجود اپنی لکڑیوں کا گٹھر اس نے خود اٹھایا اور راستے میں گرتا پڑتا جنگل سے بستی میں آ گیا۔

    دونوں کے آگے دوپہر کا کھانا رکھ دیا گیا۔

    دھبےدار اور جگہ جگہ سے بچکی ہوئی المونیم کی تھالی میں ایک عجیب طرح کا بھرتا اور موٹی، مٹ میلی ٹھیکرے جیسی سخت روٹی کو دیکھتے ہی اس کی ناک بھؤں سکڑ گئی۔مگر پیٹ کی آگ اس کے ہاتھ کو روک نہ سکی۔

    پہلے ہی لقمے میں اس کا منھ بگڑ گیا۔ حلق تک پہنچتے ہی اول نے گلا پکڑ لیا۔ پانی کی طلب محسوس ہوئی لیکن پانی نے گلا اور دبا دیا۔ اس نے صرف سوکھی روٹی سے پیٹ بھرا۔ روٹی سے اس کا تالو بھی چھل گیا۔

    ’’کیا روز یہی بھوجن ملےگا؟‘‘سختی سے روکنے کے باوجود یہ سوال اس کے لبوں سے باہر آ گیا۔

    ’’نہیں، دوسرے پرکار کا کھانا بھی ملےگا‘‘چورسیا نے ہمدردانہ لہجے میں جواب دیا۔

    کھانا کھاکر وہ ایک ڈھیلی ڈھالی چارپائی پر لیٹ گیا۔ اول کی جلن تو کچھ کم ہو گئی تھی مگر تالو کی تکلیف اب بھی برقرار تھی۔

    باجرے کی روٹی کسی دھاردار ناخن اور نکیلے دانتوں والے راکشش کی طرح اس کے سامنے منڈلانے لگی۔

    روٹی میں چھپے نیش ونشتر سے تنگ آکر اس کی نگاہیں اپنے گھر کی ڈائننگ ٹیبل پر پہنچ گئیں۔

    پراٹھے،ٹوسٹ مکھن، میٹ مچھلی،دودھ دہی ،پھل سبزی،جام جیلی اس کا استقبال کرنے لگے۔

    ایک وقت کے کھانے میں گھر یاد آ گیا۔ انھیں دیکھو! یہ کھانا نہ جانے کب سے یہ چپ چاپ کھاتے چلے آ رہے ہیں۔ان کے حلق اور تالوؤں کی تکلیف کا اندازہ لگاؤ! کب سے وہ جل رہے ہیں؟کب سے وہ چھل رہے ہیں؟

    اس کے اندرون کی آواز نے اسے اپنے گھر کی ڈائننگ ٹیبل سے واپس کھینچ لیا اور اس کا ذہن اپنے جسم سے نکل کربستی والوں کے حلق میں پہنچ گیا۔

    رات کا کھانا آیا تو چورسیا بولا۔

    ’’صاحب! اس وقت اچھا سالن پکا ہے۔‘‘

    ’’کیا پکا ہے؟‘‘

    ’’مانس پکا ہے۔‘‘

    ’’مانس کہاں سے لائے ہو؟‘‘

    ’’ایک ڈانگر مرا تھا۔ اس کا مانس لائے ہیں۔‘‘

    ’’مرے ہوئے ڈانگر کا مانس؟‘‘

    ’’جی صاحب۔‘‘

    ’’کیا تم لوگ مردار بھی کھاتے ہو؟‘‘

    ’’ہاں صاحب! اور آپ لوگ؟‘‘

    ’’نہیں، ہم نہیں کھاتے۔‘‘

    ’’کیوں صاحب؟‘‘

    ’’مردار کھانا منع ہے۔‘‘

    ’’ہمیں توکسی نے بتایا ہی نہیں صاحب۔ ٹھیک ہے، ہم آپ کے لیے رگڑا پسوا دیتے ہیں۔‘‘

    ’’رگڑا کیا؟‘‘

    ’’مرچ اور لہسن کی چٹنی۔‘‘

    ’’او۔ ٹھیک ہے چلےگا۔‘‘

    اس کے لیے مانس کی جگہ رگڑا آ گیا۔ رگڑے کے ساتھ اس نے بڑی مشکل سے ایک روٹی کھائی اور ڈھیر سار اپانی پی کراس کوٹھری میں چلا گیا، جہاں اس کے سونے کا بندوبست کیا گیا تھا۔

    کوٹھری میں گھستے ہی سیلن اور مٹی کے تیل کی بدبونے اسے بےچین کردیا۔بستر کے نام پر وہاں مونج کے بانوں والی ایک چارپائی پڑی تھی، وہ اسی ننگی چارپائی پر لیٹ گیا۔

    کچھ دیر بعد مچھروں کی فوج نے اس پر یلغار کر دیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے فوج برسوں کی بھوکی پیاسی ہو۔ زہر میں بجھے تیروتبر اس کے جسم میں چبھ چبھ کر ٹوٹنے لگے۔ ایک طرف سے جنگ کی وہ ہولناکیاں جھیل ہی رہا تھا کہ دوسری طرف سے بھی حملہ شروع ہو گیا۔ اس کی پیٹھ جلنے لگی۔ جیسے کسی نے اس میں آگ کے گولے داغ دیے ہوں۔

    ٹارچ جلاکر دیکھا تو بےشمار موٹے موٹے کھٹمل اس کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ اس نے بھی جوابی کارروائی شروع کر دی۔ اس کے دونوں ہاتھ خون کے دھبوں سے بھر گئے۔

    کھٹمل کو مسل کر وہ پھر سے لیٹ گیا۔ مگر جلد ہی چارپائی کی خفیہ چھاونیوں سے فوج کی ٹکڑیاں نکل کر پھر سے میدان میں آ گئیں۔

    مچھروں اور کھٹملوں کے ڈنک نے اسے چارپائی سے زمین پر اتار دیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے؟ کہاں جائے؟ کس طرح رات بتائے۔ وہ کوٹھری سے باہر آکر ٹہلنے لگا۔

    اچانک اس کی آنکھوں میں اس کا بیڈروم کھل گیا۔ ڈنلپ کے گدے، پھولدار ریشمی چادر، نرم ملائم تکیے، پرفیوم کی خوشبو اور خوبصورت شریک سفر کا لمس اس کی تکلیف میں اور اضافہ کرنے لگے۔

    دفعتاً ایک گاؤن اس کی آنکھوں میں لہرا گیا۔

    کم سے کم گاؤن ہی پہن لیا جائے کچھ تو بچاؤ ہو سکےگا۔ یہ سوچ کر وہ کوٹھری کی طرف لوٹنے لگا۔

    کسی نے دیکھ لیاتو؟

    اِس وقت کون دیکھےگا؟صبح لوگوں کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ اِسے سوٹ کیس میں رکھ دےگا۔

    وہ سوٹ کیس کے پاس پہنچ کر اسے کھولنے لگا کہ اس کے اندر کی آواز پھر گونج پڑی۔

    ’’یہ کیا کر رہے ہو؟ مانا کہ دوسرے نہیں دیکھ رہے ہیں مگر تم تو دیکھ رہے ہو؟ کیا اتنی جلد ہار گئے؟ تم تو یہاں کی زندگی جاننے چلے تھے۔ ان کے دکھ درد کو قریب سے دیکھنے اور انہیں محسوس کرنے کے لیے رکے تھے؟ چورسیا صحیح کہہ رہا تھا کہ تم اس کے جیون پرنہیں لکھ سکتے۔ تم کشٹ نہیں جھیل سکتے۔جاؤ! چلے جاؤ! بھاگ جاؤ!‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ سناٹے میں نہیں کی آواز دور تک گونج پڑی۔ اس کا ہاتھ ٹھٹھک گیا۔ چابی تالے میں گھومنے کے بجائے باہر نکل آئی۔

    وہ سیلن اور تیل کی بدبو سے بھری کوٹھری میں ننگی چارپائی پر پھر سے لیٹ گیا۔ رات بھر مچھر اور کھٹمل اس پر جارحانہ وار کرتے رہے اور وہ اپنے تخلیقی جوش وخروش کے بل بوتے پر ان کے ڈنک اور ٹیس کو سہتا رہا۔

    صبح جب چورسیا اس سے ملنے آیا تو وہ اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے بولا۔

    ’’صاحب، آپ کے شریر پر تو مچھروں نے بری طرح گودنا گود دیا ہے۔‘‘

    چورسیا کے بتانے پر جب اس نے اپنے آپ کو دیکھا تو اسے محسوس ہوا جیسے راتوں رات اس کے جسم پر چیچک نکل آئی ہو۔

    ’’صاحب آپ بےکار میں اپنا جیون خراب کر رہے ہیں۔ آپ واپس چلے جائیے ورنہ ہمارے ساتھ رہ کر آپ کا بھی ———‘‘

    ’’نہیں نہیں، میں واپس نہیں جاؤں گا۔ میں یہاں رکوں گا۔ حالات کا مقابلہ کروں گا اور جس مقصد کے لیے آیا ہوں، اسے ضرور پورا کروں گا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ آپ کی مرضی، نہانا چاہیں تو وہاں جاکر نہا لیجیے۔‘‘ چورسیان ے ایک چھوٹے سے پوکھر کی طرف اشارہ کیا۔

    اس نے ادھر دیکھا تو اس کی نظریں شرم سے جھک گئیں۔ وہاں بہت سی عورتیں بھی ننگی نہا رہی تھیں۔

    ’’صاحب! آنکھ جھکانے سے کام نہیں چلےگا۔ یہاں رہنا ہے تووہیں نہانا پڑےگا۔ انھیں کے ساتھ جس طرح و دوسرے مرد نہا رہے ہیں اور ہاں، اور بھی بہت کچھ دیکھنا پڑےگا۔‘‘

    اس نے آہستہ آہستہ نظریں اوپر اُٹھاکر پھر سے تالاب کی جانب مبذول کر دیں۔

    اس کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔

    اس کی طرف کچھ عورتوں نے بھی دیکھا مگر ان کے چہروں پراس قسم کا کوئی تاثر نہیں تھا۔

    اس کے پاؤں دھیرے دھیرے تالاب کی طرف بڑھنے لگے۔ قریب پہنچ کر دیکھا تو اس چھچھلے تالاب میں بہت سارے جانوربھی لوٹ لگا رہے تھے۔

    پانی کے رنگ اور بدبو کے بھپکے نے اسے پیچھے ڈھکیل دیا مگر کچھ دیر بعد اس کے پاؤں پھر آگے بڑھ گئے اور بڑھتے چلے گئے۔

    رفتہ رفتہ اس نے خود کو اس ماحول میں ڈھال لیا۔ صرف گندے پانی ہی میں نہیں بلکہ اس نے اپنے آپ کو وہاں کی گھناؤنی زندگی کی گہرائی میں بھی اتار لیا۔

    کچھ ہی دنوں میں اس کے گورے رنگ پر سیاہی کی پرت چڑھ گئی۔ اس کے گال پچک گئے۔ آنکھیں اندر کو دھنس گئیں۔ چہرہ دھوپ میں جل کر کالا پڑ گیا۔ ہاتھ پاؤں میں جگہ جگہ زخم کے نشان بن گئے۔

    اس کا حلیہ اس حد تک بدل گیا کہ اسے خود کو پہچاننا مشکل ہو گیا مگر اسے خوشی تھی کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہا۔ اس نے وہاں وہ سب کچھ دیکھ لیا جو دیکھنا چاہتا تھا۔

    وہاں سے لوٹ کر وہ تخلیقی عمل میں مصروف ہو گیا اور ایک دن اس نے اپنے مشاہدات، تجربات اور محسوسات کو تخلیق کے قالب میں ڈھال کر اسے چھپنے کے لیے سب سے اہم رسالے کو بھیج دیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی یہ تخلیق شاہکار ثابت ہوگی اور چاروں طرف دھوم مچادےگی مگر اس کی وہ تخلیق شائع نہ ہو سکی۔ رسالے کے مدیر نے یہ لکھ کر لوٹا دی کہ:

    ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رچنا کافی محنت سے رچی گئی ہے۔ رچناکار نے فنکاری بھی خوب دکھائی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ رچنا ہماری میگزین کے معیار پر پوری نہیں اتری۔ اس لیے کہ یہ آج کے زمانے کا ساتھ نہیں دیتی۔ یہ سائبر اسپیس میں فٹ نہیں ہوتی۔‘‘

    مدیر کا خط پڑھ کر اس کی آنکھیں پھیل گئیں اور اس کے ذہن میں چورسیا کا ایک جملہ گونجنے لگا۔’’ یہاں کی آتما آپ کو دکھائی دےگی صاحب؟‘‘

    (مجموعہ پارکنگ ایریا از غضنفر، ص 193)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے