Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دفتر میں ایک دن

فہمیدہ ریاض

دفتر میں ایک دن

فہمیدہ ریاض

MORE BYفہمیدہ ریاض

    کہانی کی کہانی

    دفتر میں ایک دن، دفتری نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کو بیان کرنے کے ساتھ زبان کے معاملے میں کٹر پنتھی کو پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی کام کی تکمیل کے لیے تحفے، اقربا پروری اور یکساں فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی کیا حیثیت ہوتی ہے اسے واضح کرتی ہے۔

    فدوی کی گذارش ہے کہ بوجوہ رمضان المبارک از بتاریخ رمضان بمطابق 12 فروری تا 27 رمضان المبارک قمری ہجری بمطابق تاریخ فلاں عیسوی فدوی کو رخصت مکسوبہ عطا فرما دی جائے۔

    احقر العباد

    فلاں

    اس مضمون کا ایک نامہ عورت کی میز پر پڑا تھا۔ اس نے حسب عادت پہلے تو اس میں جو کچھ لکھا تھا، اس کو ایک نظر میں سمجھنے کی کوشش کی لیکن سچ یہی ہے کہ اسے دوبارہ پڑھنا پڑا۔

    ‘’یہ رخصت مکسوبہ کیا ہے؟’’ اس نے پوچھا۔

    ‘’جی Earned Leave’’ ملازم لغت بورڈ نے انکسار سے کہا۔

    ‘’یہ چھٹی کی درخواست ہے کہ نکاح نامہ؟’’ عورت نے کاغذ پر ‘’منظور’’ لکھ کر دستخط جماتے ہوئے کہا۔ ‘’بس مہر معجل کی کسر ہے۔’’ پھر ہنس کر اضافہ کیا، ‘’ایک لمحے کو تو میں یہ بھی سمجھی تھی کہ گورنر سندھ جناب عشرت العباد نے کسی شادی کا دعوت نامہ بھیجا ہے۔’’ پھر اس نے حسرت سے پوچھا، ‘’یہاں اسی زبان میں خط لکھے جاتے ہیں؟’’

    ‘’جی! مدت سے’’، جواب ملا۔ پھر مسکراتے ہوئے، ‘’دراصل ہم دفتر میں انگریزی کا استعمال پسند نہیں کرتے۔ جیسا کہ آپ واقف ہی ہوں گی، یہ ادارہ پاکستان میں نفاذ اردو کے لیے قائم کیا گیا تھا اور گو سر سید رحمت اللہ علیہ و حالی مدظلہ کی یہ آرزو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچی لیکن اب۔۔۔(معنی خیز وقفے کے بعد) آپ کے یہاں تقرر کے بعد تو امید از سر نو بیدار ہو گئی ہے۔’’

    حالی اور سرسید سے فوری طور پر منسوب اس آرزو پر کہ پاکستان میں اردو نافذ کر دی جائے، عورت نے بمشکل ہنسی ضبط کرتے ہوئے اور آخری فرمائشی خوشامدانہ جملے کے جواب میں درخواست پر منظور کے ساتھ ‘’بخوشی’’ کا اضافہ کر کے بدبداتے ہوئے کہا۔

    ‘’اس امید کو آپ محو خواب ہی رہنے دیں تو بہتر رہےگا۔’’

    ‘’کیا فرمایا؟’’

    ‘’کچھ نہیں۔’’

    ‘’پھر بھی۔۔۔’’

    ‘’میں کہہ رہی تھی کہ ماشاء اللہ آپ کی اردو کتنی اچھی ہے۔’’

    وہ کانوں تک مسکرائے اور میز پر سے کاغذ اٹھاتے ہوئے بولے۔

    ‘’اجی صاحب میں کیا اور میری بساط کیا؟’’ پھر انھوں نے اوپر دیکھ کر چھت میں لگے ہوئے پنکھے کی طرف انگشت شہادت سے اشارہ کر کے کہا۔

    ‘’یہ سب تمھارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔’’

    اتنا کہہ کر وہ غائب غلا ہوئے۔ پنکھا بہرحال فوراً بند ہو گیا، کیوں کہ بجلی چلی گئی تھی۔ ایک نائب قاصد کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے تمام کھڑکیاں کھول دیں۔ گرم ہوا کے تیز جھونکوں نے میز پر رکھے کاغذ تتر بتر کر دیے۔ عورت نے دونوں ہاتھ باندھ کر گود میں رکھے، ٹوٹی ہوئی صدارتی کرسی پر احتیاط سے ٹیک لگائی اور پھر خیالوں میں اداسی سے غرق ہو گئی اور کھڑکی سے در آتی روشنی کی چوڑی پٹی میں ناچتے گرد و غبار کے ذروں پر نظریں جما دیں۔

    ‘’نفاذ اردو!’’ وہ سوچ رہی تھی۔ ‘’بر وزن نفاذ مارشل لا یا نفاذ ختم نبوت۔’’ اس پر پھر ہنسی کا دورہ پڑا۔ گذشتہ ہفتے وہ لاہور میں ایک قدیم مسجد، مسجد وزیر خان دیکھ کر آئی تھی جس کے شکستہ حال Entrance پر جس کے با رعب نیلے اور زمردیں نقش و نگار بتاتے تھے کہ کبھی وہ کتنی جمیل و جلیل رہی ہو گی، بڑا سا بینر دیکھا تھا۔ ‘’اجتماع برائے نفاذ ختم نبوت۔’’ بالکل یوں معلوم ہو رہا تھا کہ شہر کے کونوں کھدروں سے لاتعداد نبوت کے داعی نکل پڑے ہیں۔ ایک وبا سی پھیل گئی ہے جس کا فوری انسداد بےحد ضروری ہے۔

    ‘’یہ سب قادیانیوں کی منڈیا رگڑنے کے لیے۔۔۔’’ تب اس نے افسوس سے سوچا تھا اور بچارے قادیانی کیا کہتے ہیں۔۔۔ایسا سننے کی کسی کو فرصت نہیں۔ کبھی اسکول کے زمانے میں ایک قادیانی لڑکی اس کی ہم جماعت تھی۔ وہ خوش بخت اس قدر روزہ نماز کی پابند تھی کہ اس سے کبھی دوستی نہیں ہوسکی تھی۔ وہ روزہ نماز سب بیکار۔ افسوس!

    بہرحال اسے نفاذ اردو کا ذرہ برابر شوق نہ تھا۔ اس موضوع پر وہ اکثر خاموش ہی رہتی تھی یا کبھی کہہ بھی دیتی تھی، انگریزی میں کیا ہرج ہے؟ کیوں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالتے ہیں؟ پاکستان کی اپنی زبانیں بھی ہیں اور ویسے تعلیم کے لیے اعلیٰ درجے کی کتابیں نہ اردو نہ سندھی، نہ پنجابی، پشتو، سرائیکی یا بلوچی میں ہیں۔ ایک میڈیکل ہی کو لیجیے۔ انگریزی کے سوا کون سی زبان میں ایم۔ بی۔ بی۔ ایس۔ ہی کے درجے کی کتابیں پڑھائیں گے ہم؟ اس سے آگے اسپیشلائزیشن کی تو دور کی بات ہے۔ علم اچھا اور ضروری ہے ہمارے بچوں کے لیے، خواہ کسی بھی زبان میں ملے۔ خواہ مخواہ کی بغیر سوچے سمجھے نعرہ بازی۔ خوشامد اور حد درجہ مبالغہ۔ یہ سب بھی اردو کا حصہ سمجھا گیا ہے یہاں، جب کہ یہ سچ نہ تھا۔ اردو میں تو فیض احمد فیض تھے اور عصمت چغتائی۔۔۔راشد اور میراجی۔۔۔منٹو۔۔۔اس زبان کا ادب باغیوں سے بھرا پڑا تھا۔ کم از کم عورت تو اسی کو اردو جانتی تھی۔ اردو میں ‘’انقلاب زندہ باد’’ برصغیر کی بیش تر زبانوں میں رچ بس گیا تھا یا شاید خوشامد صرف اردو کا حصہ نہیں، قومی مزاج بن چکا ہو۔ اسے یاد آیا تھا، اسلام آباد میں فنانشل ایڈوائزر سے ملنے اس کے ساتھ سندھ مدرسہ کی پرنسپل بھی گئی تھیں۔ دونوں کی درخواست ایک ہی تھی کہ اداروں کے وجود کو تسلیم کرایا جائے جو 1986 سے مرکزی کھاتوں سے غائب ہیں۔ سندھ مدرسہ کی پرنسپل لیاری کی ایک مہذب اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں جنھوں نے زندگی کے پچیس تیس برس اسی مدرسے میں تدریس کرتے ہوئے بتائے تھے لیکن فنانشل ایڈوائزر سے وہ کس طرح بات کر رہی تھیں! جب انھوں نے کہا، ‘’جناب ہم آپ کے بال بچوں کو دعائیں دیں گے۔ اللہ سائیں آپ کا اقبال ہمیشہ بلند رکھے۔’’ تو عورت غم و غصے سے مبہوت ہو کر رہ گئی تھی۔ اپنے ادارے کے لیے اس کے منھ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا تھا۔ افسوس اور شرمندگی کی طاقتور رو نے اس کے دل کو جکڑ لیا تھا۔ بار بار ایک ہی خیال ذہن میں گردش کر رہا تھا، ‘’بھکاری بنا کر رکھ دیا ان کو۔’’

    ‘’بھکاری!’’ کیا فنانشل مشیر کو یہ سن کر شرمندگی ہو رہی تھی؟ ایسا ان کے چہرے سے ظاہر نہ تھا۔ شاید انھیں یہ سب سننے کی عادت پڑ چکی تھی۔

    عورت نے کرسی پر پہلو بدلا تو کرسی ٹیڑھی ہو کر گرنے لگی۔ عورت نے سنبھل کر کرسی کا توازن ٹھیک کیا۔ یہ ٹوٹی ہوئی تھی، اسے بدل دیا جانا چاہیے تھا یا اس کی مرمت کی جانی چاہیے تھی۔ لیکن ایک تو عورت کو اس کی فرصت نہیں مل سکی تھی اور دوئم یہ کہ مرمت اور فرنیچر کی مد میں جو رقم تھی، اسے دوسری مدوں میں منتقل کرنی کی درخواست دے دی گئی تھی تاکہ ادارہ بجلی اور ٹیلی فون کا بل ادا کر سکے۔

    ری ایپرو پری ایشن یعنی منتقلی رقوم کی فائل مہینے بھر پہلے فنانس کے ڈپٹی ایڈوائزر کو بھیجی جا چکی تھی لیکن ہنوز جواب نہیں آیا تھا۔ دفتر کے اسٹاف نے اس سے کہا تھا کہ یہ تو روٹین کا معاملہ ہے۔ گذشتہ برس اس میں دو ایک دن سے زیادہ نہیں لگے تھے۔ پچھلی بار جب وہ اسلام آباد گئی تھیں تو سیکشن افسر کے کہنے پر وہ ڈی ایف اے سے ملنے بھی گئی تھی۔

    ‘’ان سے ملنا بہت ضروری ہے۔ رقوم کی تمام فائلیں ان کے دستخطوں ہی سے چلتی ہیں۔’’

    ‘’لیکن ادھر آپ مجھ سے کہتے رہتے ہیں کہ میں اپنے سے ایک نمبر بھی نچلی گریڈ کے آفیسر کو خط تک نہ لکھوں۔ دفتر کے کسی دوسرے افسر سے لکھواؤں ورنہ میں وزارت کے پروٹوکول خراب کر رہی ہوں۔ اب آپ کہتے ہیں کہ ان سے ملوں۔’’

    ‘’اوہو بھئی ان سے تو سب ملتے ہیں۔’’ خوش مزاج ہنس مکھ سیکشن افسر نے کہا۔’’ خزانے کی چابی ان کے ہاتھ جو ہوئی اور میڈم، انھیں کوئی تحفہ بھی دینا چاہیے۔ کوئی ڈائری، مٹھائی شٹھائی۔۔۔’’

    سو وہ وزارت کی راہداریوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتی ان کے دفتر تک جا پہنچی تھی۔ اتفاق سے افسر کمرے میں موجود مل گئے تھے۔ کسی ‘’میٹنگ’’ میں نہیں گئے ہوئے تھے۔ (چائے پینا، گپ مارنا، کسی ذاتی کام سے باہر چلے جانا، ان سب کو وزارت کی اصطلاح میں ‘’میٹنگ’’ ہی کہا جاتا ہے۔) تو افسر صاحب وہاں تھے۔ سانولے رنگ میں زردی کھنڈی تھی۔ پتہ مار کر برسوں کام کیا تھا تو پتے نے احتجاجاً سبز رنگ اختیار کر لیا تھا۔ اپنی اہمیت سے نہایت واقف، وہ تمکنت سے کرسی پر فروکش رہے اور دوسری فائلیں دیکھنے میں منہمک۔ دس منٹ گذرے۔۔۔پھر بیس منٹ۔

    ‘’ج ن ا ب۔۔۔’’ عورت نے گھبراہٹ میں خود کو ‘’جناب والا’’ کہنے سے باز رکھا، مبادا وہ اس نازک پروٹو کال کا ناس ہی نہ پیٹ دے جس کے بغیر یہ دفتری نظام نہیں چل سکتا، حالاں کہ صورت حال بالکل ایسی ہی تھی کہ ڈی ایف اے کے در پر وہ کسی سائل کی شکل میں ہی پہنچی تھی۔

    ‘’مسٹر فلاں’’، اس نے پھر بھی ممکنہ حد تک متانت مجتمع کر کے کہا، ‘’ہماری فائلیں۔۔۔’’

    ‘’ہوں ہوں!’’ ڈی ایف نے اس کی بات کاٹی۔ ‘’بڑا ارجنٹ میٹر ہے اس وقت میرے سامنے۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی کا ٹیلی فون آیا ہے۔ پرسوں انھوں نے کانفرنس کے لیے لاہور جانا ہے تو سارا انتظام تو مجھی کو کرنا ہوا ناں۔’’

    پھر وہ پے در پے متعدد فون کرنے لگا جن میں وہ مختلف شعبوں کو کچھ اور شعبوں سے رابطہ کر کے معلومات حاصل کرنے اور پھر اسے اطلاع دینے کی ہدایات دے رہا تھا۔

    اس کے بعد وہ کسی دوسری فائل کی ورق گردانی کرنے لگا۔

    اب تک اس دفتر میں آئے عورت کو تقریباً ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔ اس نے کہا۔

    ‘’میں کافی دیر سے یہاں بیٹھی ہوں اور کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ میں اب چلی جاؤں گی۔’’

    افسر ہذا نے پورے اطمینان سے فائل سے سر اٹھا کر کہا۔

    ‘’محترمہ! آپ جب چاہیں یہاں تشریف لا سکتی ہیں، یو آر موسٹ ویلکم۔’’

    ‘’ہماری فائلیں۔۔۔’’ عورت نے کہنا شروع کیا۔

    ‘’ایک نئی افسر آئی ہیں۔ سنا ہے بڑی سخت ہیں۔ آپ ان سے بھی مل لیجیے۔’’

    اب عورت کے صبر کا پیمانہ بالآخر لبریز ہو ہی گیا، اس نے کہا۔

    ‘’میں یہاں مختلف کمروں میں بھٹکنے کے لیے نہیں آئی ہوں۔ آپ نے مجھے فائلوں کے بارے میں ایک بات بھی نہیں کی ہے جو میں کوئی وضاحت کر سکتی۔’’

    ڈی ایف اے نے گھڑی دیکھی اور کھڑا ہو گیا۔

    ‘’اب مجھے ایک میٹنگ میں جانا ہے۔’’ اس نے کہا اور اسے کرسی پر بیٹھا چھوڑ کر اپنے دفتر سے باہر جانے لگا۔ عورت ہونقوں کی طرح اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اسے مٹھائی کا ڈبہ لے کر آنا چاہیے تھا۔ لیکن وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ ‘’مٹھائی کا مطلب واقعی مٹھائی ہی تھا یا کچھ اور۔۔۔’’

    ‘’وزارت تعلیم کے لوگ خود تو کچھ کام کرتے نہیں’’، ڈی ایف نے جاتے جاتے کہا ‘’ادھوری فائلیں بھیجتے ہیں، چاہتے ہیں کہ ان کا کام بھی ہم کریں۔ کچھ آتا جاتا تو انھیں ہے نہیں۔’’ اتنا کہہ کر وہ چلا گیا۔

    راستہ ڈھونڈتی عورت اس عمارت سے باہر نکلی تھی۔ اس ساری کد و کاوش کا نتیجہ یہی نکلا تھا کہ رقوم کی منتقلی کی فائل ہنوز ڈی ایف اے کے قبضۂ قدرت میں تھی۔ رقم ادارے کے پاس موجود تھی لیکن صحیح مد میں نہ ہونے کے باعث نکالی نہیں جا سکتی تھی۔

    ‘’میں ڈی ایف اے کو خوش نہیں کر سکی۔’’ عورت نے پچھتاوے سے سوچا۔ ‘’میری وجہ سے ادارے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بل ادا نہ کرنے کے باعث ٹیلی فون کٹ چکا ہے۔ گاڑی کے لیے پیٹرول کی بوند نہیں۔۔۔بجلی بھی کٹ سکتی ہے۔ یہ سب۔۔۔میرا قصور ہے۔’’ عورت جانتی تھی کہ گو اس نے کہا کچھ بھی نہ ہو لیکن ڈی ایف اے کے دفتر میں اس کے چہرے پر لکھا ہوگا، ‘’مجھے پریشان نہ کیجیے۔ اپنا فرض وقت پر انجام دیجیے۔’’ یہ بات ڈی ایف اے کو کیسے پسند آ سکتی تھی۔

    دفتر کے کچھ لوگ اس کے پاس پہنچے۔

    ‘’میڈم، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کہیں یوں تو نہیں کہ۔۔۔’’

    ‘’کیا؟’’ اس نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔

    ‘’کہ سازش اسی دفتر سے شروع ہوئی ہو۔’’

    عورت غور سے سننے لگی۔

    ‘’آپ سے پہلے جو صاحبہ قائم مقام تھیں، وہ اکثر اسلام آباد فون کرتی رہتی ہیں۔’’

    ‘’ہوں۔’’ عورت نے کہا۔ اس کی تقرری سے ظاہر ہے کہ قائم مقام کو نقصان پہنچا تھا۔ اگر وہ کچھ نہ کرتی تو تعجب کی بات تھی۔ جو بات اس سے کہی جا رہی تھی، وہ ناممکن نہیں تھی۔

    ‘’کیا یہ اتنے اثر و رسوخ رکھتی ہے؟’’ عورت نے کہا۔

    ‘’خیر اثر و رسوخ تو کوئی کیا رکھےگا اسلام آباد میں۔۔۔’’ ایک نے کہا، ‘’لیکن ایک رشتہ تو ان میں اور ڈی ایف اے میں ہے نا۔۔۔وہی۔۔۔بھئی دونوں اہل تشیع ہیں۔’’

    عورت کے دماغ میں گھنٹی سی بجی۔ اس کی آنکھیں اور بھی پھٹ گئیں۔

    ‘’یہ لوگ ایک دوسرے سے ہمدردی رکھتے ہیں، مدد کرتے ہیں ایک دوسرے کی۔’’ دوسرے نے خاموشی سے کہا۔

    عورت سن سی بیٹھی رہی۔ کیا یہ ممکن تھا؟

    اس کا پہلا خیال یہی تھا کہ یہ ناممکن نہیں تھا۔

    ‘’پھر کیا کیا جا سکتا ہے؟’’ اس نے بالآخر کہا۔

    اس کے ذہن میں آیا، وہ شکایتی خط جو وہ اس نازیبا تاخیر پر لکھنے والی تھی، اس میں ایک پیراگراف کا اضافہ۔

    ‘’دیگر یہ کہ یہاں کی پرانی قائم مقام خاتون نے ڈی ایف اے کے ساتھ مل کر سازش کی ہے، ان کے کہنے پر ڈی ایف اے میرے تقرر کو ناکام بنا نا چاہتے ہیں۔ وہ سابق قائم مقام کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ دونوں شیعہ ہیں۔ اس طرح اہل تشیع نے ہم سنیوں کے خلاف محاذ بنا لیا ہے۔

    دہائی ہے دہائی۔۔۔یا اہل سنت! آئیے مدد کو آئیے۔ ایک سنی عورت مصیبت میں مبتلا ہے۔’’

    یہ سوچتے سوچتے عورت دائیں ہاتھ کی چار انگلیوں کو بےخیالی میں اپنے منھ میں ٹھونس چکی تھی اور انھیں چبا رہی تھی۔ اس کی چشم تصور نے دیکھا کہ اس کی پکار سن کر سمندروں پر جہازوں نے بادبان کھول دیے ہیں اور ایک فوج اس کی مدد کو روانہ ہو گئی ہے۔ جہازوں سے غلغلہ بلند ہو رہا ہے۔ ‘’لبیک، لبیک، اللھم لبیک۔۔۔ہم پہنچے کہ پہنچے۔۔۔اے امت کی دختر نیک اختر!’’

    بجلی پھر چلی گئی۔ اس کے ہمدرد رخصت ہوئے۔ نائب قاصد نے پھر دروازے اور کھڑکیاں کھول دیں۔ کھلے دروازے سے ایک اور ہمدرد کارکن اندر آیا اور میز کے پاس کھڑا ہو گیا۔

    ‘’جی؟’’ عورت نے منھ سے انگلیاں نکال کر پوچھا۔

    ‘’تو ڈکشنری بالآخر ختم ہو گئی ہے۔’’ ہمدرد نے پریشان حالی سے کہا۔

    ‘’ہاں۔ یہ تو اتنی خوشی کی بات ہے۔ پانچ چھ عشروں کی محنت سوارتھ ہوئی۔’’

    ‘’تو اس کی اطلاع اخباروں میں بھیجیں؟’’

    ‘’کیوں نہیں!’’ عورت نے کہا۔ ‘’گڈ آئیڈیا۔ آپ پریس ریلیز بنائیے۔’’

    ‘’وہ تو میں بنا کر ہی لایا ہوں۔’’ کارکن نے کہا، ‘’بس آپ دستخط کر دیں، لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ کل کے اخباروں میں دھماکہ ہو جائے گا۔ سب دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے۔ آپ ان سب کو روند کر پھینک دیجیے۔’’

    عورت نے کچھ مسکرانا شروع کیا۔ ‘’کن کو روند کر پھینک دوں؟’’ اس نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔

    ‘’اپنے سب مخالفین کو۔’’ کارکن نے کچھ چکراکر کہا۔

    ‘’وہ کون ہیں؟’’ عورت نے پوچھا۔

    ہمدرد کارکن کافی مایوس ہوا۔ پھر بھی اس نے کہا۔

    ‘’یہیں۔۔۔اسی دفتر میں۔۔۔اور باہر بھی۔ لوگ بےحد جل رہے ہیں۔ ان کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔’’

    ‘’ہوں!’’ عورت نے خود کو کچھ محفوظ ہوتا ہوا پایا۔ بےخیالی میں وہ میز سے اپنا ہینڈ بیگ اٹھا کر کمرے سے نکلی اور سیڑھیاں اترتی چلی گئی۔ وہ سانپ لوٹنے پر غور کر رہی تھی۔ کیا سانپ لوٹنے سے بھی کچھ نقصان ہوتا ہے؟ زہر تو سانپ کے پھن میں ہوتا ہے۔ جب سانپ ڈس لے، نقصان درد یا جلن تو تب ہی ہوتی ہے۔ اس نے خود ایک مصرعے میں کبھی باندھا تھا۔

    ‘’ایک سیاہ سانپ سا، دل پہ تمام شب پھرا’’

    پھر یہ سانپ والا محاورہ کیسے بنا؟ سانپ لوٹ رہا ہے، سانپ پھر رہا ہے، دل پر سانپ سا پھرنا۔ شاید یہ محاورہ نہیں، محض ایک محاورے کی شاعرانہ ترمیم ہے۔ مگر سانپ لوٹنے سے جو ڈر، جو گھبراہٹ پیدا ہو سکتی ہے کہ اب یہ ڈس لےگا، غالباً محاورہ کا جواز یہ خوف ہی ہو لیکن یہ وضاحت اسے کچھ جچی نہیں۔ اس نے سوچا کہ محاورے کی وضاحت غالباً کچھ بھی نہیں ہے، لیکن یہ نہایت پر تاثیر محاورہ ہے اور بس اسی لیے وجود میں آیا اور باقی ہے۔

    دفتر کی کار اسے گھر کی طرف لے جا رہی تھی۔ اس نے ہینڈ بیگ کے اندر جھانکا۔ ہمیشہ کی طرح وہ کئی چیزیں دفتر کی میز پر ہی بھول آئی تھی۔ اس کا سیل فون، ٹیلیفون ڈائریکٹری، چشمہ۔۔۔

    ایک لمبی سانس کھینچ کر اس نے سوچا، ‘’خیر، کل صبح یہ سب کچھ وہیں رکھا مل جائےگا۔’’ پھر اپنی دور اندیشی کی داد دی کہ گھر پر اس نے ایک اور چشمہ رکھ چھوڑا ہے۔

    گاڑی میں بیٹھے بیٹھے عورت کو خیال آیا کہ شیعہ گردی، سنی گردی، مہاجر گردی، سندھی گردی اور جانے کتنی ہی گردیوں کے اجزائے ترکیبی کو اس نے غالباً تھوڑا بہت سمجھنا شروع کیا ہے۔ اسے ان کی حیرت خیز طاقت اور ترغیب پر شرمندگی بھرا تعجب ہوا۔ اسے سانولے ڈی ایف کا خیال آیا جو غالباً اس ادارے کی فائلوں پر بقول محاورۂ وزارت ‘’انگریزی لکھ لکھ کر’’ وزارت تعلیم کے افسران کے بادشاہوں پر اکے مار رہا ہے، ان کی ایسی کی تیسی کر رہا ہے، انھیں روند کر پھینک رہا اور شاید سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس تفریح سے دور کہیں کراچی میں ایک ادھورا سدھورا ادارہ کتنی مصیبت میں مبتلا ہو گیا ہے۔ یا شاید ایسا نہ ہو، وہ سچ مچ صرف عورت کو ہی دق کر رہا ہوں کیوں نے عورت نے اس کی انا کی تسکین کی اور نہ ہی مٹھائی پیش کی۔

    حقیقت کیا تھی؟ عورت کا دل چاہا کہ فٹ پاتھ پھر بیٹھے عامل منجم کے طوطے سے کارڈ منتخب کرا کے معلوم کر لے۔ اس وقت سچ تو یہ تھا کہ وہ اس ادارے سے کہیں بہت دور چلی جانا چاہتی تھی۔ دور۔۔۔بہت دور مگر اسے ایک موہوم سا شبہ تھا کہ کوئی بھی جگہ ادارے یا وزارت سے بہت دور نہیں ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے