Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دائرے میں گھرا آدمی

خورشید عالم

دائرے میں گھرا آدمی

خورشید عالم

MORE BYخورشید عالم

    بھیڑ کے دائرے میں ڈمرو لیے چکر کاٹتے ہوئے اسے آج بھی لگتا ہے کہ تنے ہوئے رسے پر اپنے چندن جیسے جسم کا توازن برقرار کیے مالتی دونوں ہاتھوں میں ربن کی رنگینیاں بکھیرتی اس کی طرف آرہی ہے۔

    حالانکہ وقت کا تھپیڑا اس کی عمر کا ایک بڑا حصہ کتر کر لے گیا ہے لیکن وہ کسی بھی شو میں مالتی کی غیر حاضری بھول نہیں پاتا۔اب وہ جب کہ بوڑھا ہے کنارے پہ اٹکے ایک درخت کی طرح جانے کب ہوا پانی کا زور دار تھپیڑا پڑے اور کالی ندی میں اس کا وجود غرق ہو جائے۔

    اپنے بارے میں وہ بڑی بے رحمی سے سوچتا ہے۔ نہیں، سکھایا کسی نے نہیں، خود بخود آگیا ہے۔

    ستیاناس ہو سکھ دیو کا جو اس کی زندگی میں ولن بن کرآیا اور اسے غلط دھندے میں ڈال کر عمر بھر کے لیے تماشہ بنا کر چھوڑ گیا۔ اگر اس بڈھے نے مالتی کا ہاتھ دے دیا ہوتا تو شاید حالات کچھ اور ہوتے۔ وہ غلط راستے میں تو نہ پڑتا۔ اس عمر میں خود کو یوں نیلامی پر تو نہ چڑھانا پڑتا۔

    وہ مجمع باز ہے، لوگوں کو تماشا دکھاتا ہے۔

    اس نے ایک بار پھر ڈمرو بجایا اور بھیڑ کی طرف دیکھتے ہوئے گلے کی نسیں پھلاتا ہوا بولا،’’صاحبان! اب دلوں پر ہاتھ رکھ لیں۔ پاؤں جما کر اپنی اپنی جگہ کھڑے ہوجائیں۔ میں سب سے خاص آئٹم پیش کر رہا ہوں۔۔۔۔‘‘ وہ تھوڑی دیر رکا۔ لوگوں کے چہروں کا نفسیاتی جائزہ لان۔ پیچھے کھڑے کچھ تماشائیوں کی آنکھوں میں اوب کی اترتی پرچھائیاں اس سے چھپی نہیں رہیں۔ اگر ذرا بھی دیر ہوئی تو لوگ پیسے دیئے بغیر کھسک جائیں گے۔

    وہ اپنی آواز کو بلندی پر لے جاتے ہوئے بولا، ’’مہربان، قدر دان، آپ لوگ اپنی جگہ سے مت ہٹیے گا۔ آپ کو اپنے اپنے بھگوان کی قسم صاحبان! آپ چاہیں تو پیسے مت دیں لیکن کھیل پورا دیکھ کر جائیں۔‘‘ اس نے زور زور سے ڈمرو بجایا۔

    وہ من ہی من میں خوش ہوا۔ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے۔ جانے والے تماشائی رک گئے ہیں۔ تو اب کھیل شروع کیا جائے۔ لیکن آج تو گھٹنے میں پہلے سے زیادہ درد ہے۔ اونچی آواز میں بولتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے ساری آنتیں باہر نکل آئیں گی۔ اگر صبح کھانے کو کچھ مل جاتا تو اتنی کمزوری محسوس نہ ہوتی۔

    کمزوری کو اندر ہی اندر دبا کر وہ ٹوٹے جلو ں کو ’مہربان‘ کی گوند سے جوڑتے ہوئے بولا،’’مہربان، آپ دیکھ رہے ہیں سامنے دو بانس گڑے ہیں۔ ان کے اوپری سرے ایک دوسرے سے رسے سے بندھے ہیں اور رسے سے لٹک رہے ہیں کاٹھ کے تین چوکور ٹکڑے ، آپ کو دور سے نظر نہیں آ رہا ہوگا لیکن یہ ٹکڑے مختلف رنگ کے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سمے نے انہیں بے رنگ کر دیا ہے۔‘‘

    اسے پھر یاد کی چابک پڑی— سکھ دیو نے اس کے ہاتھوں میں چاقو تھماتے ہوئے کہا تھا—’’مجمع میں کھڑے ہو کر اس بات کو کبھی نہ بھولنا کہ تمہارا مقصد تماشائیوں کا تفریح کر کے ان سے پیسے اینٹھنا ہے۔‘‘ ٹھیک ہی تو کہا تھا استاد نے لوگ یہاں دل بہلانے آئے ہیں اس کی بکواس سننے نہیں۔

    وہ یہ پیشہ چھوڑناچاہتا ہے لیکن اپنی زندگی کے کالے صفحات پھاڑ بھی تو نہیں سکتا کیونکہ اس کے ساتھ ایک بہت بڑا سوال جڑا ہوا ہے۔ یہ نہیں تو اورکیا؟

    ایسے موقعوں پر اسے اپنی مجبور زندگی پر بڑا افسوس ہوتا ہے۔ واقعی وہ کتنا نیچے آگیا ہے۔ اس کے کمال کی قیمت صرف دو روپے ہے اور وہ بھی مانگے ہوئے۔ یاد آیا کل بھی اتنا ہی ملا تھا۔

    اس نے ڈمرو نیچے رکھا اور پہلے والی جگہ پر کھڑا ہو کر چاقو کی دھار پر انگلی پھیرنے لگا۔۔۔۔ ’’صاحبان، پہلے یہ کھیل بڑا خطرناک ہوتا تھا۔ نشانے کے پیچھے میں اپنی بیٹی کو کھڑا کرتا تھا۔ میری لڑکی جوان تھی اور دیکھنے میں سندر بھی۔ لیکن وہ ایک روز کسی مرد کے ساتھ بھاگ گئی۔ بعد میں میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی دوسری لڑکی یا لڑکا مل جائے۔۔۔۔ لیکن آپ کو پتہ ہی ہے کہ اس پیشے میں بہت جان کھپانی پڑتی ہے۔۔۔ کون آتا؟ جب اپنا ہی خون دھوکہ دے گیا تو دوسروں پر کیا بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔ اور نہ ہی اب لڑکی پیدا کرنے کی مجھ میں ہمت ہے۔۔۔۔ گھر والی نے بھی ساتھ نہیں دیا۔۔۔‘‘

    بھیڑ نے ایک قہقہہ لگایا۔ بھیڑ ایسی گندی باتوں سے خوش ہوتی ہے اسے معلوم ہے۔

    ’’۔۔۔لیکن اگر آپ چاہیں تو یہ سوچ سکتے ہیں کہ میری جوان لڑکی نشانے کے پیچھے کھڑی ہے۔ وہ بہت ہی کم کپڑے پہنے ہوئے ہے۔۔۔۔ میں اس نوجوان سے کہوں گا کہ اس نشانے کے پیچھے کھڑا ہوجائے اور نشانے بازی کا کمال دیکھے۔۔۔۔‘‘

    لڑکوں کی ٹولی میں کھلبلی مچ گئی۔ دوستوں نے ایک لڑکے کو آگے دھکیلا لیکن وہ پیچھے بھاگ گیا۔

    تماشائیوں کے صبر کے گھڑے بھرگئے ہیں، اس نے نوٹ کیا اور نشانے کی طرف پیٹھ پھیری۔ گھٹنے زمین پر رکھے کندھے کو دبایا۔ چاقو کو ہاتھ میں تولا، بانہہ کو پورے زور سے جھٹکادے کر کندھے تک لایا اور ہاتھ کھول دیا۔ چاقو باز کی طرح نشانے کی طرف لپکا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی سے ایک سرسراتی لہر سی اٹھی اور پل بھر میں پورے جسم میں پھیل گئ۔ یہ کیا ہو گیا؟ چاقو نشانے سے کچھ فٹ آگے مٹی میں سرگاڑے پڑا تھا، شرمسار سا۔

    اگر وہ نوجوان اس کے کہنے کے مطابق نشانے کے پیچھے کھڑا ہوتا تو۔۔۔؟ اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

    اس نے لوگوں کی طرف خوف زدہ نگاہوں سے دیکھا۔ ایک ترکیب بجلی کی طرح اس کے دماغ میں کوند گئی۔ چاقو کو اس نے شان سے اٹھایا اور مسکراتے ہوئے بولا، ’’مہربان، آپ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ میرا وار خالی گیا۔۔۔ نہیں صاحبان، یہ میں نے جان بوجھ کر صرف اس لیے کیا ہے کہ آپ کو یہ احساس ہوجائے کہ یہ کھیل کتنا خطرناک ہے۔ سوچیے، اگر پیچھے میری لڑکی یا یہ بابو صاحب کھڑے ہوتے تو کیا ہوتا۔۔۔‘‘

    بھیڑ کے اکھڑے پاؤں اس کی بات سن کر پھر جم گئے۔ اپنی پہلی جگہ پر آکر اس نے چاقو کو آگے سے پکڑا۔ پوری طاقت لگائی اور بانہہ کو گھمایا۔ اسے معلوم ہے جب کبھی چاقو نشانے پر لگتا ہے تو تالیاں بجتی ہیں یا شور ہوتا ہے۔ اب بھی شور ہی اٹھا ہے۔ ’’اوئے۔۔۔ اوئے۔۔۔‘‘ کا ایک لمبا سلسلہ۔ آوازیں اس کے کانوں میں سلاخوں کی طرح چبھیں۔ لوگ گالیاں دے رہے تھے۔

    وہ زمین پر پڑے چاقو کے پاس گیا۔ اسے حقارت بھری نظروں سے دیکھا۔ آج اس نے مالتی کی طرح دھوکا دیا ہے۔

    اسے خود پر ترس آتا ہے۔ اندر سے وہ گونگا ہے لیکن باہر اسے کتنا بولنا پڑتا ہے۔ وہ کمائی باتوں کی ہی کھاتا ہے۔ ذرا بھی بولتا ہے تو اندر کا گونگا اس کا منہ بند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    خود کو اس گونگے کی گرفت سے چھڑا کر بولا، ’’تو مہربان، قدردان، لکڑی کے ان ٹکڑوں کو میں دس گز کی دوری سے ایک چاقو سے نشانہ لگاؤں گا۔ آپ کہیں گے اس میں خاص بات کیا ہے؟ یہ تو کوئی بھی تھوڑی سی ریاضت کے بعد کر سکتا ہے۔ لیکن نہیں میرے کھیل میں خاص بات یہ ہے کہ میں آنکھیں بند کر کے نشانہ لگاؤں گا۔‘‘

    اس نے تماشائیوں کو دیکھا اور اونچی آواز میں بولا، ’’آنکھیں بند کر کے یعنی نشانے کی طرف میری پیٹھ ہوگی۔‘‘

    اس کے اس اعلان پر آگے بیٹھے لڑکوں نے تالیاں بجائیں۔ مالتی بھی اسی طرح اس کے کرتب دیکھ کر تالی بجاتی تھی۔ اسے خوش دیکھ کر اسے اپنی محنت کامیاب معلوم ہوتی تھی لیکن یہ سب ریت پر بنے نقشے کی طرح تھا۔ سکھ دیو کے اوپر غصے کی ایک لہرآئی اور سب کچھ دھل پونچھ گیا۔

    ’’استاد کی عزت پر ہاتھ ڈالتے تجھے موت نہیں آئی۔ اتنا گن سکھانے کا یہی گورو دکشنا دیا تو نے۔۔۔۔‘‘ سکھ دیو گنڈا سالے کر اس کے پیچھے دوڑا تھا۔ ہاتھ اٹھا کر وار بچاتے بچاتے بھی اس کے داہنے ہاتھ کی انگلی کٹ کر پکے بیر کی طرح نیچے گر پڑی تھی۔ لاکھ لاکھ شکر ہے پرماتما کا، سکھ دیو نے گورو دکشنا میں اس کا انگوٹھا کاٹ کا ایکلبیہ کی طرح اس نے اپنی ودیا واپس نہیں لی، ورنہ وہ تو بے موت مر گیا ہوتا۔

    وہ دو گنے حوصلے سے بولا، ’’اب آپ وہ چاقو بھی دیکھنا چاہیں گے جس سے یہ بہترین کھیل دکھاتا آرہا ہوں۔‘‘

    تماشائیوں کو بولنے کا موقع دیئے بغیر اس نے درمیان میں رکھے ٹن کے بکس سے ایک چاقو نکالا اور اسے ہوا میں اچھال کر دستے سے لپک لیا۔ چاقو دیکھ کر کئی تماشائیوں کے چہرے چمک اٹھے۔

    آخری بار ڈمرو بجا کر اس نے نشانے کی طرف پیٹھ پھیری۔ چاقو کی نوک سے دائیں ہاتھ میں پکڑا اور بازو کو تیزی سے ہوا میں گھمایا۔ اس کے منہ سے ایک سسکی سی نکل گئی۔ یہ آج بانہہ کو کیا ہوگیا ہے۔ نسیں جیسے پتھرا گئی ہیں۔ بازو مل نہیں رہا، مانو کندھے کے جوڑ جم گئے ہوں۔ وہ دھوپ کی مہاندی میں کسی پیڑ کی چھاؤں کے ٹاپوں تک پہنچنے کے لیے کتنا بھٹکا تھا۔ بکس داہنے ہی ہاتھ میں تو اٹھا رکھا تھا۔ پہلے ہلکے کھیل دکھاتے وقت اس نے اس جانب خاص دھیان نہیں دیا تھا۔ لیکن اب تو جیسے کسی نے پکے پھوڑے میں جلتی ہوئی سرخ سلاخ داغ دی ہو۔ اب کیا کیا جائے؟ تماشائی چلے گئے تو ۔۔۔۔؟

    ایک فیصلہ کر کے اس نے تیزی سے لوگوں کی طرف چہرہ گھمایا۔ چاقو کو ہوا میں اچھال کرلپکا اور بولا، ’’مہربان، آپ میں سے کوئی ایک سجن سامنے آجائیں اور بتائیں کہ سب سے پہلے کس ٹکڑے کو نشانہ بنایا جائے؟‘‘

    اسے تجربہ ہے کہ لوگ ایسے موقعوں پر ایک دوسرے کو آگے دھکیلتے ہیں خود نہیں آتے۔ اسے کچھ اور وقت مل گیا۔ وہ دائرے میں مسکراتے ہوئے چکر لگانے لگا اور بانہہ کو دبانے لگا۔

    ’’ہے کوئی ایسا بابو جو آگے آکر بتائے کہ سب سے پہلے کس ٹکڑے کو نشانہ بنایا جائے؟ میں اس سے کوئی ہیرے موتی نہیں مانگوں گا۔ اپنی مرضی کا نشانہ لگوانے کے لیے صرف دو روپے۔۔۔‘‘ اس نے ہوا میں دو انگلی کھڑی کی اور اسے چاروں طرف گھمایا۔ ’’دو روپے کا صرف ایک نوٹ۔ پہلے میں پانچ روپے لیتا تھا لیکن اب مہنگائی کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنا ریٹ گھٹا دیا ہے۔۔۔سامنے آئیے اور ان ہاتھوں کا کمال دیکھئے۔‘‘

    وہ بے پروائی سے چکر لگانے لگا۔ کوئی آگے نہیں آیا۔

    کوئی ایسا شاہ دل مہربان بابو نہیں جو دو روپے نکال سکے؟‘‘ پھر بھی کوئی آگے نہیں آیا۔ اس کے اندر اداسی کا ناگ پھن اٹھانے لگا۔ اب اکثر اےسا ہوتا ہے۔

    تماشائیوں کی پہلی صف کھسکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

    اچھا دو روپے نہ سہی، ایک روپیہ ہی ، بچہ لوگ تالی بجاؤ۔‘‘ لیکن کسی تماشائی کی جیب سے ایک روپیہ بھی نہ نکلا۔

    ’’کوئی ایسا شوقین بابو نہیں جو ایک روپیہ دے سکے؟‘‘ تھوڑی دیر انتظار کر کے اس نے زور سے ڈمرو بجایا اور جیسے ایک اہم اعلان کرتے ہوئے زور سے بولا، ’’اچھا آپ کے لیے اسپیشل چھوٹ صرف پچاس پیے۔ ۔۔۔ پہلا نشانہ لگوانے کی قیمت صرف پچاس پیسے۔۔۔ مہربان ، قدردان ذرا سوچئے۔۔۔۔ آج جب دنیا کی ہر چیز ہماری پہنچ سے دو انگلی اوپر ہوتی جارہی ہے میں کتنا نیچے آگیا ہوں؟‘‘

    مالتی چپ چاپ چلی گئی تھی۔ کسی سرکس کے مالک کی اس پر آنکھ گڑ گئی تھی۔ وہ چلی گئی سرکس کے بڑے شامیانے کے نیچے، روشنیوں کے سیلاب میں، جس کا ان دونوں نے کبھی سپنا دیکھا تھا۔۔۔۔ اور وہ خود کسی سڑک کے کنارے گاؤں کی بھیڑ کے ٹاپو میں قید ہوگیا۔ عمر کی ریل گاڑی جوانی کے اسٹیشن کو پیچھے چھوڑ گئی۔ وہ تنہا مسافر کی طرح بڑھاپے کے ٹرمینس پر کھڑا ڈمرو بجاتا رہا۔

    ’’۔۔۔۔مہربان۔۔۔ قدردان، ‘‘ اس نے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔ ’’اگر یہ چاقو ذرا تیز ہوتا تو ضرور لکڑی میں کھب جاتا۔ میں نے کتنی بار اپنی مورکھ پتنی کو ڈانٹا پھٹکارا ہے کہ اس سے پتنگوں کے کمانچے نہ تراشا کرے، اس سے چاقو کند ہوجاتا ہے لیکن لڑکی کی طرح اس نے بھی میری بات کبھی نہیں مانی۔‘‘

    لوگوں کی آنکھوں کے اثرات دیکھ کر وہ اندر ہی اندر کانپ اٹھا۔ اس کے التجا کرنے پر بھی کافی لوگ اسے پیسوں کی جگہ گالیاں دیتے چلے گئے۔ سکھ دیو نے بھی ان مواقع کو سنبھالنے کے لیے کوئی ترکیب نہیں بتائی تھی۔

    اسے اب پیسوں کی کم اپنی عزت کی زیادہ فکر تھی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے، تماشائیوں کو کس طرح سنبھالے؟ ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ماتھے سے پسینہ پونچھ اس نے ڈمرو بجایا۔۔۔ ’’بچہ لوگ تالی بجاؤ۔۔۔۔‘‘ جواب میں صرف ایک دو ہاتھوں کے پیٹنے کی آواز آئی۔ پھر خاموشی چھا گئی۔

    اس نے دوڑ کر چاقو اٹھایا، تیزی سے اپنے داہنے ہاتھ کو دو تین جھٹکے دیئے۔ کندھے ابھی تک درد کر رہے تھے۔ نشانے کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہونے اور ہاتھ میں چاقو پکڑنے کے بعد بھی وہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ کھیل آگے دکھائے یا بند کر دے۔ لوگوں سے معافی مانگ لے۔

    لیکن نہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ بات اب اس کے آن کی ہے۔ بغیر نشانہ لگائے اس کی کیا قیمت ہے۔ وہ ہے ہی کیا، ایک کند چاقو جو اور کسی کام نہیں آسکتا۔ اس نے محسوس کر لیا۔ پیسوں کی قیمت وصول کرنے کے لیے لوگ سانس روکے اس کی بانہہ کی حرکت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب تو تماشہ دکھانا ہی پڑے گا۔ اس نے سوکھتے منہ، کانپتے ہاتھوں اور کڑکڑاتے گھٹنے کی پروا کےک بغیر استاد کو یاد کیا، کان چھوئے اور داہنے ہاتھ کو بجلی کے جھٹکے کی طرح کندھے کی طرف گھمایا۔ چاقو کمان سے نکلے تیر کی طرح ساں۔۔۔ کرتا ہوا نشانے کی طرف جھپٹا۔

    بھیڑ کا سمندر ہلچل مچانے لگا۔ لوگ سیٹیاں بجانے لگے۔ چاقو نے نشانے میں سر گڑایا ہوتا تو تالیاں بچ اٹھتیں۔ اسے لگا اس کی پیٹھ پیچھے ہاتھوں میں بندوقیں تانے فائرنگ اسکوائڈ کھڑا ہے۔ اس نے نا امیدی میں گھٹنے پر ایک بار زور سے دو ہتھڑ مارا اور مڑا۔۔۔ چاقو دونوں بانسوں کے درمیان بندھے رسے کو کاٹ کر دھول میں پڑا تھا۔ لکڑی کے تینوں ٹکڑے زمین پر گرے ہوئے تھے۔ لگا جیسے اس کی کھال کھینچ لی گئی ہو اور لوگ اس پر مٹھیاں بھر بھر نمک پھینک رہے ہیں۔ کتنے ہی لوگ دائرے توڑ کر بیچ میں آگئے تھے۔ کچھ اسے چاروں طرف سے گھیر کر کھڑے ہوگئے تھے۔

    ’’کیوں بے کھوسٹ، ہمارا جو اتنا وقت برباد ہوا ہے اس کی بھرپائی تمہارا باپ کرے گا؟‘‘

    ’’کچھ آتا جاتا نہیں تواپنے دامادوں کو ضرور بلانا تھا۔۔۔‘‘

    ’’کیوں بے کھوسٹ، ہمارا جو اتنا وقت برباد ہوا ہے اس کی بھرپائی تمہارا باپ کرے گا؟‘‘

    ’’کچھ آتا جاتا نہیں تو اپنے دامادوں کو ضرور بلانا تھا۔۔۔۔‘‘

    لوگ اسے کمزور دیکھ کر دبانے لگے۔

    ’’۔۔۔مائی باپ۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن کسی نے کوئی موقع نہیں دیا۔ کچھ شرارتی لڑکوں نے اس کے بانس اکھاڑ کر پھینک دیئے۔ وہ ادھر لپکا تو کسی نے راستہ نہیں دیا۔ ایک تماشائی نے اس کا ڈمرو چھین لیا اور بھاگ گیا۔

    لوگوں کو اب اس تماشے میں مزہ آنے لگا تھا۔ ان کے پیسے کی قیمت وصول ہو رہی تھی۔ وہ کبھی ادھر بھاگتا تو کبھی ادھر بھاگتا۔ کسی نے اس کے ٹن کے بکس کو ٹھوکر ماری۔ بکس کا ڈھکن کھنکتاہوا ایک طرف جاگرا۔ کچھ بچے بڑوں کے شہ پر ڈھکن روندنے لگے۔

    اس کی چیزیں بکھر گئیں، مالتی کی تصویر اڑ کر دھول میں کھو گئی۔ اس کا تن بدن سلگ اٹھا، وہ اس طرف جھپٹا۔ کسی نے پیچھے سے لنگڑی ماری۔ وہ سنبھل نہیں سکا۔ ٹھوکر کھا کر کندھے کے بل گر پڑا۔ منہ سے ایک، ہائے، نکلی، غصے میں اس کے دانت کٹکٹائے۔ مٹھیاں کس گئیں۔ اتنی بڑی بے عزتی وہ بھی اس عمر میں۔

    کسی کے بوٹ کی ٹھوکر کھا کر چاقو پنکھ کی طرح اڑتا اس کی کہنی کے پاس آکر گرا۔ اس کا ہاتھ چاقو کی طرف جھپٹا۔ اٹھنے کی کوشش میں اس کے گھٹنوں میں کڑ کڑاہٹ ہوئی اور ہاتھوں کی انگلیوں کی ہڈیوں نے ایسی آواز کی جیسے کسی سوکھے درخت کی پرانی ٹہنیاں ٹوٹی ہوں۔

    اس کا ہاتھ آسمان کی طرف لپکا۔ چاقو نے مچھلی کے پیٹ کی طرح دھوپ میں ایک لشکارا مارا۔ لگا رسہ کٹ گیا ہے اور مالتی نیچے پتھروں پر آگری ہے۔ اٹھنے کی کوشش میں وہ اپنے ہی خون کی دھار میں ہاتھ پیر مار رہی ہے۔۔۔۔۔دوسرے لمحے بوڑھا مجمع باز بھی پیٹھ کے بل پڑے ادھ کچلے تل چٹے کی طرح سیدھا ہونے کی کوشش میں ہاتھ پیر ماررہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے