Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیوندر ستیارتھی کے ساتھ ایک دن

بلراج مینرا

دیوندر ستیارتھی کے ساتھ ایک دن

بلراج مینرا

MORE BYبلراج مینرا

    کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ آپ گھر سے نکلتے ہیں اور ستیارتھی آپ کو گلی کے نکڑ پر نظر آتا ہے۔ آپ شام کو کافی ہاؤس پہنچتے ہیں اور ستیارتھی آپ کو کاؤنٹر کے قریب نظر آتا ہے۔ آپ بہت رات گئے گھر کا راستہ پکڑتے ہیں اور ستیارتھی آپ کو کسی اسٹال کے باہر نظر آتا ہے اور پھر یوں ہوتا ہے کہ آپ لحاف میں گھستے ہیں، آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ستیارتھی آپ کے ساتھ ہے۔

    کبھی آپ ستیارتھی کے ساتھ ایسا آدمی دیکھتے ہیں جو آپ کے لئے حد درجہ کا احمق ہے اور جس کا ایک منٹ کا ساتھ بھی آپ کو گوارہ نہیں۔ لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ ستیارتھی اس احمق شخص سے گھل مل کر باتیں کر رہا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ ستیارتھی کو اپنی حیثیت تک کا احساس نہیں۔ کبھی آپ ستیارتھی کے ساتھ کسی ایسے VIP کو بےتکلفی سے باتیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جس کے پاس دو گھڑی بیٹھنے کو آپ کا من ترستا ہے اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ ستیارتھی نظر نہیں آتا، مہینوں نظر نہیں آتا۔ آپ کہہ نہیں سکتے کہ ستیارتھی شہر میں ہے یا شہر میں نہیں ہے؛ شہر سے باہر ہے، تو کہاں ہے؟

    ستیارتھی کو پانا جتنا آسان ہے، اتنا ہی مشکل بھی ہے۔

    اردو ادب کے قاری نے ستیارتھی کو آسانی سے پایا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اردو ادب کے قاری نے بھی ستیارتھی کو اب تک نہیں پایا ہے۔ ایک لچر، گھسی پٹی کہانی کو پایا ہے جو ستیارتھی کو پہنا دی گئی ہے۔ ایک گھٹیا کہانی میں نے بھی ستیارتھی کو پہنائی تھی۔۔۔ پرشارتھی، جو کراچی کے ’سات رنگ‘ میں چھپی تھی۔ اس لچر، گھسی پٹی کہانی کو گڑھنے والے اردو کے بہت سے کہانی کار اور بہت سے شاعر ہیں اور ستیارتھی ہے کہ ایک بے پناہ بے نیازی سے اب تک لچر، گھسی پٹی کہانی کو پہنے ہوئے ہے۔

    جب ’ادب لطیف‘ کو نیا رنگ روپ دینے کی تیاریاں شروع ہوئیں، اس وقت ستیارتھی میرے من میں تھا۔

    ستیارتھی نے پچھلے دو تین برسوں میں کئی کہانیاں لکھی ہیں۔۔۔ چند بے پناہ کہانیاں سننے کا مجھے اتفاق بھی ہوا ہے۔ ’یہ قربتیں یہ دوریاں‘، گومتی کی پاس، اور ’منٹو‘ (’منٹو اتنی تیز کہانی ہے کہ سننے والا اندر باہر سے ہل جاتا ہے۔) ستیارتھی کو لکھنے کا جنون ہے لیکن چھپنے کی رتی بھر خواہش نہیں۔

    ستیارتھی سے ملاقات ہوئی اور میں نے نئے ’ادب لطیف‘ کے بارے میں کہا۔ ستیارتھی نے تعاون کا وعدہ تو کر لیا، لیکن پھر یوں ہوا کہ آپ ایسے غائب ہوئے کہ جس سے پوچھوں، یہی کہے، دیکھا نہیں۔

    اور پھر سریندر پرکاش، جو دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے قبر میں سے مردہ باہر نکال لاتا ہے، میری مدد کو آیا، ’’ستیارتھی یہ اتوار ہمارے ساتھ گزاریں گے!‘‘

    ستیارتھی کے کھچڑی بال چپڑے ہوئے تھے، سنورے ہوئے تھے اور کندھوں سے ذرا اوپر تک جھول رہے تھے۔ پیشانی دمک رہی تھی اور پرانی اور میلی عینک سے ڈھنکی ہوئی آنکھیں ہمیشہ کی طرح اداس تھیں۔ قریب قریب سفید گھنی مونچھوں اور گھنی داڑھی میں چھپی ہوئی گلابی ہونٹوں کی ہلکی سی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ ستیارتھی نے اچکن کی طرز کا گھٹنوں تک لمبا راسلک کا کریم کا کوٹ پہنا ہوا تھا جس کے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ کوٹ کے نیچے کھدر کا سفید کرتا تھا جس کے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ کرتے کے نیچے بنیان نہ تھی؛ گورا بدن تھا، جو نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے کھدر کا پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ کوٹ، کرتا اور پاجامہ۔۔۔ کوئی چیز آئرن نہیں ہوئی تھی اور اتفاق سے اجلی تھی۔ موزوں سے بےنیاز پیروں میں براؤن جوتا تھا جس کے تسمے کھلے ہوئے تھے۔ (غالباً ستیارتھی انڈر ویر قسم کی چیزوں کے عادی نہیں ہیں۔۔۔ ایک زمانہ ہوا، ستیارتھی نے مجھ سے کہا تھا، ’’میں انڈر ہینڈ گیمس کھیلنا نہیں جانتا!‘‘

    سریندر کے گھر سے مدراس کیفے کی طرف بڑھتے ہوئے میں نے ایک بات نوٹ کی کہ ستیارتھی قدم اٹھاتے نہیں، ان کے قدم سڑک کی چھاتی پر گھسٹتے ہیں۔

    مدراس کیفے اجمل خاں روڈ پر ہے [اجمل خاں روڈ کو ہم پنجابی لوگ انار کلی کہتے ہیں۔۔۔ لاہور سے ہمارا عشق جیوں کا تیوں ہے!]

    ہم دائیں بائیں پھیلی ہوئی تین منزلہ عمارتوں کے بیچ مدراس کیفے کے لان میں بیٹھ گئے۔۔۔ ٹین کی فولڈنگ کرسیاں اور سفید وزنی پتھر کی چکنی اور ٹھنڈی سطح والی میزیں۔ سر پر مدھو مالتی اور انگور کی بیلیں اور ادھر ادھر بیٹھے ہوئے مدراسی۔

    ہم نے ناشتے کے لئے اڈلی سانبھر منگوانا چاہا لیکن ہم دیر سے پہنچے تھے اور اڈلی ختم ہو چکی تھی۔ ہم نے سانبھر منگوایا۔۔۔ ارہر کی دال کا تیز و تند سانبھر، ارد کی دال کا ہری مرچ اور ادرک ملاوڑا اور ناریل کی چٹنی۔

    اور پھر سریندر نے اپنا خاص جملہ پھینکا، ’’ہو جائے پھر گفتگو!‘‘

    سریندر کے اس جملے پر مجھے ہمیشہ عزیز الحق (پاکستان کا نوجوان ناقد) یاد آ جاتا ہے جو آج کل لاہور کی محفلوں سے دور کناڈا میں بیٹھا ہوا ہے وہ بھی بات شروع کرنے سے پہلے کہا کرتا تھا، ’’ہو جائے کچھ!‘‘

    یوں ہم نے ستیارتھی کو گھیرے میں لیا۔

    میں نے کہا، ’’ستیارتھی صاحب، قصہ یہ ہے کہ آپ کی شخصیت پر ایک لفظ کا پہرا ہے۔۔۔ فراڈ! ہر وہ شخص جسے اردو افسانے سے ذرا بھی دلچسپی ہے، آپ کو فراڈ کی حیثیت سے جانتا ہے۔ مجھے یاد ہے، چند سال پہلے اردن روڈ پر پنجابی ادب کی محفل میں کرشن چندرنے آپ کو فراڈ کہا تھا۔ جب میں نے پڑھنا شروع کیا تھا، یہ بات میرے ذہن میں پہلے سے موجود تھی۔۔۔ لیکن ادھر چند برسوں میں ڈھنگ سے پڑھنے کے بعد اور اچھی طرح جاننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ فراڈ والا قصہ بکواس ہے۔ ان چند برسوں میں میری بہت سے ادیبوں سے ملاقات ہوئی ہے، میں نے بہت سے ادیبوں کی تخلیق پڑھی ہیں اور ان کی زندگی کے بارے میں پڑھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بہت سے فراڈ اردو ادب میں موجود ہیں، لیکن آپ کے بارے میں اب مجھے ایسا محسوس نہیں ہوتا۔۔۔ میں چاہتا ہوں، آج آپ اس سلسلے میں تفصیل سے بات کریں۔‘‘

    میں نے ستیارتھی کی طرف دیکھا۔۔۔ پرانی اور میلی عینک کے پیچھے ان کی اداس آنکھیں کچھ اور اداس ہوگئیں تھیں۔ وہ کافی سنجیدہ نظر آ رہے تھے۔ لیکن وہ حیران نہیں تھے، شاید اس لیے کہ وہ ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ لوگ Unpredecatable ہیں اور ویسے بھی ان کے لئے ایسی بات کا جواب دینے کا یہ پہلا موقع تھا۔ انہوں نے دھیمے دھیمے اپنی باریک آواز میں کہنا شروع کیا، [منٹو نے گھنی داڑھی اور گھنی مونچھوں کے جال میں سے نکلتی ہوئی اس آواز کے بارے میں کہا تھا۔۔۔ جیسے گھونسلے میں چڑیا چہچہا رہی ہو۔]

    ’’پہلی بات یہ ہے کہ کرشن چندر نے مجھے پنجابی ادب کی محفل میں فراڈ نہیں کہا تھا، ’مہابور‘ کہا تھا اور اس کا تحریری ثبوت موجود ہے۔ یہ کرشن چندر کا ایک فراڈ تھا جس کے بارے میں آگے چل کر کہوں گا۔۔۔ فراڈ مجھے پہلی بار منٹو نے کہا تھا اور بڑی محبت سے کہا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں بیدی کے یہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ ان دنوں ’ساقی‘ میں میرا افسانہ ’’کنگ پوش‘‘ چھپا تھا اور انہیں دنوں منٹوکا ’’خوشیا۔‘‘ میں نے منٹو کو پہلا خط لکھا تھا اور اسے مبارکباد پیش کیا تھا۔ میں نے لکھا تھا، کاش میں ’’خوشیا‘‘ ہوتا! پھر مجھے منٹو کا خط ملا تھا، پہلا اور آخری خط منٹو نے لکھا تھا کہ وہ ’’ہمایوں‘‘ میں میرے مضمون [لوک گیتوں کے بارے میں] پڑھتا رہا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ وہ میری نظم بن کر میرے ساتھ نگری نگری یاترا کرے۔۔۔!

    میرے حیثیت ایک مسافر کی رہی ہے۔ میں اسی لباس میں نگری نگری گھوما ہوں، ان گنت لوگوں سے ملا ہوں۔۔۔ ان لوگوں سے بھی جو دنیاوی تعلیم سے کوسوں دور ہیں اور ان سے بھی جو پڑھ لکھ کر بہت بڑی سماجی حیثیت حاصل کر چکے ہیں، لیکن میری یاترا میں کسی کی حیثیت کے کوئی معنی نہیں ہیں۔۔۔ جب میں دلی پہنچا، میں منٹو سے ملنے انڈر ہل روڈ پر آل انڈیا ریڈیو کے دفتر میں چلا گیا۔ میں اور منٹو باتیں کر رہے تھے کہ ایک صاحب، اڈوانی، جو منٹو کے باس تھے آ دھمکے۔ اڈوانی نے مجھے دیکھتے ہی انگریزی میں کہا، ’’ستیارتھی! تم مجھ سے ملنے آئے ہو؟‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں، میں منٹو سے ملنے آیا ہوں۔‘‘ اڈوانی نے پھر ذرا زور دے کر اور منٹو کو گھورتے ہوئے مجھ سے کہا، ’’نہیں، تم مجھ سے ملنے آئے ہو‘‘ اب میں نے کہا، ’’ویسے آپ کون صاحب ہیں!‘‘ اڈوانی نے کہا، ’’اڈوانی‘‘ میں نے کہا، ’’اچھا مسٹر اڈوانی، میں منٹو سے فارغ ہوکر آپ سے ملنے آؤں گا۔‘‘

    مسٹر اڈوانی ایک بیورو کریٹ تھے اور منٹو ان کا ماتحت۔ حالانکہ میں اڈوانی کو پہلے سے جانتا تھا لیکن میری فقیرانہ زندگی میں ایک بیورو کریٹ کا کہاں گزر؟ میرے سامنے تو منٹو بیٹھا تھا، ایک کہانی کار۔ لیکن منٹو کی ٹریجڈی یہ تھی کہ وہ کہانی کار کے علاوہ ایک بیورو کریٹ کا ماتحت تھا۔۔۔ یہاں ایک بات اور سنئے، ان دنوں میرے لوک گیتوں کے مجموعے کے بارے میں بات چیت ہورہی تھی اور اس کے کاپی رائٹ کے لئے مجھے بارہ سو روپے پیش کیے جا رہے تھے۔ یہ سب باتیں منٹو کے سامنے ہو رہی تھیں۔ میں کاپی رائٹ دینے کے خلاف تھا، یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ ان دنوں بارہ سو روپے ایک معنی رکھتے تھے۔ میں کہتا تھا کہ کاپی رائٹ دینے کا مجھے کوئی حق نہیں ہے، کاپی رائٹ تو بھارت ماتا کے ہیں، گیت میرے نہیں ہیں۔ ہاں میں نے گھوم گھوم کر اکٹھے کئے ہیں اور انہیں معنی دیے ہیں۔ منٹو کے گھر میں نے یہ بات کہی تھی۔ اس وقت منٹو نے کہا تھا کہ ستیارتھی تم بہت بڑے فراڈ ہو۔

    در اصل میرا رویہ ان سب لوگوں کی سمجھ سے پرے تھا۔ کاپی رائٹ دینے کے میرے انکار پر یہ سالے سب چڑھ گئے تھے ایک طرح سے۔ ہو سکتا ہے، مجھے منٹو سے اس کے ہینتا بودھ نے فراڈ کہلوایا ہو، لیکن میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ منٹو نے پیار سے ہی کہا تھا۔ میں منٹو کو ہمیشہ پیار کرتا رہا ہوں اور اب بھی منٹو مجھے بہت یاد آتا ہے۔ لیکن اب اسے کیا کہا جائے، اس زمانے میں جملے چل جایا کرتے تھے۔ منٹو کا جملہ چل گیا اور اسے کاندھا دینے والے ہینتا کے مارے سارے ادیب تھے جو چھوٹی چھوٹی نوکریوں کے چکر میں چھوٹی موٹی شہرتوں کے چکر میں قدم قدم پر سمجھوتوں کے شکار ہو جاتے ہیں۔۔۔

    ایک اور واقعہ سنئے۔ چند سال بعد میری کتاب ’’میں ہوں خانہ بدوش‘‘ چھپی اور میں پہلی بار پطرس سے ملنے گیا۔ یہ ملاقات راشد نے ایرینج کی تھی۔ اس سے پہلے پطرس سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی کیونکہ میں ریڈیو کی نوکری کے چکر سے باہر تھا۔ پطرس سے ملاقات ہوئی۔ پطرس اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، بیچ میں میز تھی اور پطرس کے سامنے میں بیٹھا ہوا تھا اور راشد۔۔۔ مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ نوکریوں کے آداب اس بری طرح آدمیوں کو مجروح کرتے ہیں۔

    اس کمرے میں اس وقت راشد کی حیثیت بالکل معمولی تھی۔ میں نے پطرس کو اپنی کتاب ’’میں ہوں خانہ بدوش‘‘ دی جس کے شروع میں ٹیگور کے ساتھ میری تصویر چھپی ہوئی تھی۔ یہ بات اپنے آپ میں بہت متاثر کرنے والی تھی۔ چاہے متاثر ہونے والا ریڈیو کا سب سے بڑا افسر ہی کیوں نہ ہو۔ میں نے راشد کو دیکھا اور پطرس سے کہا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ریڈیو کا ڈائریکٹر جنرل ہوں اور آپ ہیں دیویندر ستیارتھی۔

    اب میرا یہ جملہ نہ چل سکا کیوں کہ میں نوکریاں نہیں دلوا سکتا تھا۔ لیکن پطرس کا یہ جملہ چل گیا جو انہوں نے اس ملاقات میں ٹیگور کے ساتھ میری تصویردیکھ کر کہا تھا، ’’خضاب سے پہلے اور خضاب کے بعد۔‘‘ میری کہانی ’’نئے دیوتا‘‘ میں منٹو پر یہ چوٹ ہے کہ منٹو جو بہ ظاہر بہت بڑا انقلابی ذہن ہے ریڈیو کی نوکری حاصل کرنے پر بہت خوش ہے، نہ صرف خوش ہے بلکہ اس خوشی میں شراب کی دعوت بھی دیتا ہے۔۔۔ ریڈیو کی نوکری اس زمانے کی سب سے بڑی لعنت تھی۔۔۔ اس نوکری نے بہت سے ادیبوں کے کردار کو ڈانوا ڈول کیا تھا۔۔۔ فراڈ اس لیے چل گیا کہ غم روزگار اور غم شہرت کے مارے ادیب میرا نگری نگری گھومنا، لوک گیت اکٹھے کرنا اور میرا پہناوا اور ہر بڑے چھوٹے سے میری بات چیت کا ڈھنگ۔ سب باتوں کو اپنی تسلی کے لئے ڈھونگ سمجھ بیٹھے۔ ٹیگور کے ساتھ میری تصویر انہیں میری شرارت لگی۔۔۔ اور ٹیگور اور گاندھی جی کے میرے نام خط اور امرتا شیرگل سے میری ملاقات۔۔۔ یہ لوگ بہت چھوٹے تھے، کردار کے بہت چھوٹے تھے اور جن لوگوں کے ساتھ مجھے چلنا تھا وہ ابھی نہیں آئے تھے۔

    ستیارتھی کی مدھر آواز کی ندی کبھی سکون سے، کبھی تیزی سے بہہ رہی تھی اور اس ندی میں ’’ہمایوں‘‘ کے کاتب عبد الجلیل سے لے کر ’’ہمایوں‘‘ کے مدیر حامد علی خاں اور اس زمانے کے اور بہت سے لوگوں کو بہتے دیکھا، ندی کے پار اترتے دیکھا اور ندی میں ڈوبتے دیکھا۔ وہ لوگ بھی ڈوبے جو اناڑی تھے اور وہ لوگ بھی ڈوبے جو تیرنا جانتے تھے۔

    محمود ہاشمی نے کہا، ’’ستیارتھی صاحب، اس زمانے کے تمام ادیبوں کی تخلیقات ہمارے سامنے ہیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس زمانے کے ادیبوں میں ذہانت تھی، جیسے منٹو۔ کچھ لوگ اوسط ذہانت کے تھے لیکن ایک بڑی تعداد ایسے ادیبوں کی تھی جو احمق تو نہیں تھے لیکن ذہین بھی نہیں تھے۔ پھر بھی اس زمانے میں ہر شخص کا نام چمکا۔ یہ عجیب و غریب بات ہے۔ میرا خیال ہے، اس زمانے میں لوگ افسانہ نگاری کے علاوہ ’’انڈر ہینڈ گیمس‘‘ بھی کھیلتے تھے، لکھتے کم تھے یا لکھتے گھٹیا تھے لیکن شہرت پانے کے لئے ان کی چالاکی کا کوئی جواب نہیں۔۔۔ اس سلسلے میں آپ کچھ کہئے۔‘‘

    ستیارتھی نے کہا، ’’آپ کا خیال صحیح ہے۔ اس زمانے میں ہر شخص چالاک بننے کے چکر میں تھا، راجندر سنگھ بیدی کو چھوڑ کر۔‘‘ محمود نے پھر کہا، ’’ستیارتھی صاحب، آپ نے اردو کہانی کا ہر دور دیکھا ہے، ہر شخص کو سمجھا ہے۔۔۔ آپ کو کسی ایک نام سے دل چسپی نہیں رکھنی چاہئے۔‘‘

    ستیارتھی چند لمحے خاموش رہے اور پھر انہوں نے کہا، اب آپ کہلوانا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے۔۔۔ اس زمانے میں بہت اچھے افسانے لکھے گئے اور اچھے خاصے لوگ پیدا ہوئے لیکن یہ بات سچی ہے کہ وہ دور چالاکیوں کا دور تھا۔۔۔ انھیں دنوں ایشیا میگزین میں میرا ایک مضمون چھپا۔ ایشیا میگزین بہت بڑی چیز تھی۔ آپ کو تعجب ہوگا اور مجھے اس وقت تعجب ہوا تھا، ان دنوں کرشن چندر نے مجھے خط لکھا تھا کہ ایشیا میگزین کے ساتھ کچھ ان کا سلسلہ بھی ہو جائے۔ اگیے نے بھی ان دنوں مجھ سے اس سلسلے کے بارے میں کہا تھا اور میں نے اگیے اور ایشیا میگزین کی مدیرہ شری متی امرسین کی ملاقات ایرینج کی تھی۔ اب اگیے بین الاقوامی شخصیت بن بیٹھا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ پروہت کی حیثیت تو پروہت کی سی ہی رہتی ہے۔۔۔ راجندر سنگھ بیدی کے پہلے مجموعہ ’’دانہ و دام‘‘ کا پیش لفظ ہنس راج رام نگری نے لکھا ہے، لیکن یہ پیش لفظ حقیقت میں بیدی نے خود لکھا تھا۔ بیدی کی زبان کے بارے میں ایک دلچسپ بات سنئے۔

    بیدی کے افسانے ’’ادب لطیف‘‘، ’’ساقی‘‘ اور ’’ادبی دنیا‘‘ میں چھپا کرتے تھے لیکن ’’ہمایوں‘‘ میں نہیں چھپتے تھے۔ ایک بار میں نے حامد علی خاں سے بیدی کے افسانوں کے بارے میں کہا تو انہو ں نے کہا کہ بیدی کی زبان بہت گھٹیا ہے۔ میں نے کہا کہ زبان درست کی جا سکتی ہے۔ حامد علی خاں، ہمایوں کے مدیر نے کہا کہ بیدی کا اظہار بھی گھٹیا ہے۔۔۔ بیدی کو ڈاک خانہ کی نوکری چھوڑنے پر میں نے بھی مجبور کیا تھا۔۔۔ بیدی نے نوکری چھوڑ دی اور اب بہت کام کرنے تھے۔ ایک کام فیض کی دعوت کرنا تھا جس کے لیے بیدی نے تین سو روپیہ کا بجٹ بنایا تھا۔ کمرے کو سجانا، کباڑی بازار سے بینت کی کرسیاں خرید کر ان پر رنگ کروانا۔ ان دنوں ایسے کام کرنا بہت ضروری ہو گیا تھا۔۔۔

    کافی عرصہ بعد ’’ساقی‘‘ کے مدیر شاہد احمد دہلوی نے میری ایک کتاب چھاپنی چاہی اور کہا کہ بیدی نے ’کوکھ جلی‘ کے چار سو روپے لیے ہیں اور کرشن نے ’’شکست‘‘ کے چھ سو روپے۔ میں نے کہا کہ شاہد صاحب، سات سمندر ہوتے ہیں اور ہفتے کے سات ہی دن، اس طرح کا معاملہ ہو جائے۔ شاہد صاحب نے اسی وقت سات سو روپے کا بیئرر چیک کاٹ دیا اور ہم نے پہلی بار ریڈیو خریدا، کمرے کی شکل کا قالین خریدا اور بینت کی کرسیاں۔ اور بیدی سے کہا کہ یہ کرسیاں اس بازار سے نہیں خریدی گئی ہیں۔۔۔ کئی سال بعد شاہد صاحب سے کراچی میں ملاقات ہوئی تو میں نے کہا کہ شاہد صاحب، آپ کا سات سو روپے کا رینی ہوں۔ میری کتاب اب تک نہیں چھپی ہے۔ بیدی نے اپنی کتاب ’’کوکھ جلی‘‘ اور کرشن چندر نے ’’شکست‘‘ کہیں اور سے چھپوا لی۔‘‘

    دیویندر ستیارتھی ماضی، ماضی قریب اور حال تینوں زمانوں میں بے تکلفی سے گھوم رہے تھے۔

    ساحر لدھیانوی سے میرے بے تکلفی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مجھے اس کی شاعری پسند تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم دونوں امریتا پریتم پر مرتے تھے۔ چودھری نظیر نے اختر اورینوی کے کہانی کے مجموعے ’’منظر اور پس منظر‘‘ کے کاپی رائٹ پانچ سو روپے میں خرید لیے تھے اور میں نے غصے میں ایک کہانی ’’اگلے طوفان نوح تک‘‘ لکھی تھی اور چودھری نظیر کو، بہت رات گئے سڑک کے کنارے لیمپ پوسٹ کی مدھم روشنی میں سنائی تھی، اس خوف کے ساتھ کہ ابھی چودھری نظیر مجھے گھونسا جڑ دےگا۔

    منٹو نے مجھے کہا تھا کہ کس طرح اس نے کرشن چندر کی محبوبہ کے کپڑے اتروا کر اسے واپس بھیج دیا تھا۔ (اس واقعہ کا پورا ذکر نظیر چودھری کی ادارت میں لاہور سے نکلنے والا جریدہ ’’سویرا‘‘ میں شائع نصیر انور کے مضمون موج سراب میں موجود ہے)

    محمود ہاشمی نے پوچھا، ’’کیا اس زمانے میں کرشن چندر نے کوئی لڑکی بھگائی تھی؟‘‘

    ’’میں نے سنا تھا، لیکن میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ ستیارتھی نے جواب دیا۔

    میں نے کہا، ’’ثمینہ خاتون سے لے کر سلمہ صدیقی تک کرشن چندر کا کردار ڈانوا ڈول رہا ہے۔‘‘

    ستیارتھی بولے، ’’دراصل کرشن چندر شروع سے اب تک افسانہ نگاری ہو یا زندگی، ایک کاروباری آدمی رہا ہے۔ کرشن Little talent کا آدمی ہے۔ زندگی اور ادب کے ہر محاذ پر کرشن کو کامیابی اس لئے ملی ہے کہ کرشن نے ہر جگہ سمجھوتا کیا ہے۔ جنگ ہو یا بنگال کا قحط، فسادات ہوں یا آزاد ہندوستان، اس شخص کا رویہ ہمیشہ کاروباری رہا ہے کرشن چندر کے بارے میں اتنا سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ کرشن چندر نے مجھے کہا تھا۔ ایک مہابور! اپنے سکھ مجھے دے دو! میرے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ عملی زندگی گزارنے کے باوجود کرشن چندر کو اب تک سکھ نہیں ملا اور ایک مسافر کے سکھوں کی اسے خواہش ہے۔۔۔‘‘

    محمود ہاشمی نے پوچھا، ’’ستیارتھی صاحب، میرا خیال ہے، کرشن چندر کئی افسانوں میں آپ سے متاثر ہیں۔‘‘

    ستیارتھی نے ذرا دم لے کر کہا، ’’یہ بات میں کرتے ہوئے جھجکتا ہوں لیکن جب کہ آپ نے ایسا محسوس کیا ہے میں بھی کہہ سکتا ہوں، ’’زندگی کے موڑ پر‘‘، ’’گرجن کی ایک شام‘‘ اور ’’پانی کا درخت‘‘ نام کی کہانیوں میں کرشن چندر میری تحریر سے متاثر ہیں۔۔۔ یہاں سے اس بات سے ہٹ کر ایک اور بات، ’’گرہن‘‘ کہانی میں جو لوگ گیت شامل ہے، وہ میں نے بیدی کو دیا تھا۔۔۔

    میں نے پوچھا، ’’کیا آپ کسی دور کی اپنی کسی تحریر پر شرمندہ ہیں۔۔۔ عصمت چغتائی تو شرمندہ ہیں‘‘ (بھوپال کانفرنس میں عصمت چغتائی اپنی کئی کہانیوں پر شرمندہ ہوئی تھیں اور انہوں نے ان کہانیوں کو رد کیا تھا)

    ’’نہیں!‘‘

    میں نے پوچھا، ’’اپندر ناتھ اشک کا کیا رول رہا ہے؟‘‘

    ’’اپندر ناتھ اشک بھی کاروباری ہیں اور کرشن چندر کی کاربن کاپی۔‘‘

    ’’اشک ہندی میں کہتے اور کہلواتے ہیں کہ اردو میں ان کا درجہ منٹو اور بیدی کے برابر ہے۔ یہ کہاں تک صحیح ہے؟‘‘

    ’’یہ غلط ہے۔ اشک کو اردو میں اس طرح سے کوئی نہیں جانتا۔‘‘

    ’’اشک کہتے اور کہلواتے ہیں کہ ایک ہی تھیم پر لکھی گئی ان کی کہانی ’’ابال‘‘ منٹو کی کہانی ’’بلاؤز‘‘ سے بہتر ہے۔‘‘

    ’’ابال‘‘ بہت معمولی کہانی ہے اور ’’بلاؤز‘‘ کے ساتھ اس کا ذکر محض پروپیگنڈہ ہے۔‘‘

    میں نے پوچھا سن چھتیس سے پچپن تک کے ان افسانوں کے نام لیجئے جو آپ کے نزدیک بڑے افسانے ہیں۔ (میں نے پچپن کی قید اس لیے لگائی تھی کہ منٹو کی موت کے ساتھ ایک دور ختم ہو گیا)

    ستیارتھی نے کہا، ’’نیا قانون‘‘ اور ”ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ یہ افسانے ایک بڑے ادیب کے بڑے سفر کی کہانی ہیں اور ابتدا اور انتہا۔ ’’ہماری گلی‘‘، ’’دو فرلانگ لمبی سڑک‘‘، ’’دس منٹ بارش‘‘، ’’تل‘‘، (اس کہانی پر عصمت شرمندہ ہیں اور اسے رد کر چکی ہیں) ’’آخری کوشش‘‘ اور ’’گڑریہ۔۔۔ ‘‘ گڑریہ اردو کے چند بڑے افسانوں میں ایک ہے اور چند سال پہلے میں نے اس افسانے کے بارے میں کرشن سے کہا تھا تو وہ خاموش رہے تھے کہ انہوں نے یہ افسانہ نہیں پڑھا ہے۔‘‘

    بانی نے پوچھا، ’’نئے لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

    ستیارتھی نے کہا، ’’میں نئے لوگوں کا قائل ہوں۔ نئے لوگوں نے موسیقی، تصویر کشی اور ادب کی سبھی حدیں توڑ دی ہیں۔۔۔ نئے لوگوں کے یہاں بڑی وسعت ہے۔۔۔ میں خود اپنے آپ کو ایک ملک کا شہری نہیں سمجھتا، یہ صرف اتفاق ہے کہ میں ہندوستان کا شہری ہوں اور یہاں سے میری وفاداری وابستہ ہے، لیکن میں نئے لوگوں کی طرح یہ محسوس کرتا ہوں کہ میرا کام بڑا ہے، ملک کی سرحدوں سے بڑا We Don’t write in a particular language, we write in gesture۔۔۔ نئے لوگوں کے یہاں کامرشیل چکر نہیں ہے اور اس کی مجھے خوشی ہے اور میری یہ دعا ہے کہ نئے لوگوں میں کوئی کرشن چندر پیدا نہ ہو۔۔۔‘‘

    تھوڑی دیر بعد، نریندر سے وداع لے کر جب ہم سریندر کے گھر کی طرف بڑھ رہے تھے، ستیارتھی ہمیں گرودوارہ روڈ کے ایک کباڑی کی دکان پر نظر آئے۔

    مأخذ:

    سرخ و سیاہ (Pg. 398)

    • مصنف: بلراج مینرا
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے