Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دولے شاہ کے چوہے

ارمان یوسف

دولے شاہ کے چوہے

ارمان یوسف

MORE BYارمان یوسف

    جوں جوں مقررہ تاریخ قریب سے قریب تر آتی جا رہی تھی، توں توں اس کے دل کی دھڑکنیں تیز تر ہو تی جا رہی تھیں۔ بےیقینی کے بادل خوابوں کے افق پر چھائے تعبیر کی چاندنی کو کوگہنائے جا رہے تھے۔ تفکرات کی شکنیں اور رت جگے اس کے چہرے پرعیاں تھے۔

    ’’اگر تیسری اسائنمنٹ بھی منظور نہ ہوئی تو میرا کیا بنےگا؟‘‘ سامنے رکھے کاغذوں کے پلندے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے سوال کیا:

    ’’ممکن ہے ایک سال اورلگانا پڑ جائے‘‘ اس نے پینسل کو کان میں اڑسا اور آخری صفحے پر نظریں جما دیں۔ وہ ایک نجی یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات کے آخری سال میں تھا۔ اس کی کوشش یہی تھی کہ کسی طرح ڈگری مکمل کر لے تا کہ عملی زندگی کا آغاز کر سکے۔ مگر یہ خدشات بھی اپنی جگہ کہ کہیں اب کے بار بھی اس کی اسائنمنٹ رَد نہ کر دی جائے۔ ایسا نہیں کہ وہ کام چور یا سست مزاج تھا بلکہ اسے ایسے موضوعات ملے تھے کہ انتھک محنت اور تحقیق کے باوجود پذیرائی نہیں ہوئی تھی۔ بڑی مشکلوں اور منت سماجت بعد کے اسے نیا موضوع ملا تھا ’’دولے شاہ کے چوہے‘‘ اب تو اس سلسلے میں اس نے دو ہفتے دربار پر بھی گزارے تھے۔ تاریخ کی اس صحرا نووردی میں اس نے صرف چند سوکھی ٹہنیاں ہی چنی تھیں مگر اتنی ثمر آور بھی کہاں کہ اس کی محنت شاقہ کے بدلے ڈگری کا پھل جھولی میں آن گرے۔ اتنا تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ سبز رنگ کا چغہ پہنے چھوٹے چھوٹے سروں والے مختلف عمر کے جوبچے اپنے نگرانوں کے نادیدہ سائے میں چوراہوں پر بھیک مانگتے پائے جاتے ہیں، انھیں دولے شاہ کے چوہے کہتے ہیں۔

    ’’کیا واقعی ان کے سر وں پر بچپن میں لوہے کے کنٹوپ رکھے جاتے ہیں تاکہ ذہنی طور پر پرورش نہ پا سکیں اور عمربھر اپنے مالک کی لگام میں مقید دن رات کام کرتے ر ہیں۔ ان کی اپنی کوئی سوچ، کوئی منزل، کوئی زندگی ہی نہیں ہوتی۔ شب و روز اپنے مالک کے مال و دولت اور وقار میں اضافہ کرتے کرتے بالآخر زندگی کی بازی ہار کے گمنامیاں اوڑھ ے سو جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے چوہے سنبھال لیتے ہیں، یا زیادہ شہرت ہوئی اور مالک کو کمائی کا ایک اور ذریعہ درکار ہو توان میں سے کسی کا مزار بنا کے سبز چادر چڑھا دی اور مر کے بھی دولتِ دنیا میں اضافہ کرتے رہے۔‘‘

    ’’مگروہاں ایسا توکچھ بھی نہیں تھا، کوئی آثار بھی نہیں‘‘ اس نے مزار کے ماحول کے متعلق اپنے آپ سے ہمکلامی کی ‘‘ممکن ہے چوری چھپے اب بھی ایسا ہوتا ہو مگر۔۔۔ نہیں۔۔۔ میرا نہیں خیال‘‘ انھیں خیالوں میں غلطاں وہ آخری صفحے پر پہنچا۔ کمرے کی چھت کو کچھ دیر گھورتا رہا اور قلم سنبھالے آخری صفحے پرنئے جملوں کا اضافہ کیا: ’’یہ اکیسویں صدی ہے۔ نسل انسانی اپنے ارتقا ئی عروج پر ہے۔ نت نئے علوم، دریافتوں اور تجربات نے شعورِ انسانی کو وہ جلا بخشی ہے کہ ماضی میں جن کا تصور تک کرنے والے مصلوب کیے جاتے رہے۔ چاند پہلے ہی اس خاکی کی قدم بوسی کا شرف حاصل کر چکا ہے۔ اب تو دور دراز کی کہکہشاؤں میں واقع ستارے اور سیارے بھی انسان کو اپنے ہاں خوش آمدید کہنے کو بےتابی سے منتظر ہیں۔ یہ ٹوٹا ہوا تارا خود ماہِ کامل بن چکا ہے۔۔۔ ایسے میں کہاں ممکن ہے کہ۔۔۔‘‘ یہ جملے سپرد قرطاس کرتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اسے یقین ہو گیا کہ اس کی اسائنمنٹ منظور کر لی جائےگی اور یوں اس کے ایک عظیم خواب کی تکمیل ہو جائےگی۔۔۔ اتنے میں اس کا ایک ہم جماعت کمرے میں داخل ہوا اور آتے ہی دولے شاہ کے چوہے کے بارے اس کی تحقیق کے متعلق پوچھنے لگا۔ ’’میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دولے شاہ کے چوہوں کا اب وجود نہیں رہا ، لوگ مزار پر اب بھی آتے تو ہیں مگر کوئی ایسا نہیں جو اپنے پہلے یا آخری بچے کو یہاں چھوڑ کے جاتا ہو۔۔۔ نہیں نہیں ایسا اب نہیں ہوتا۔ کم از کم اب تو لوگ سمجھدار ہو گئے ہیں۔۔۔ اور یہ کتنی خوش آئند بات ہے۔۔۔‘‘

    ’’یہ تم کیا کہہ رہے جمال؟تم ہوش میں تو ہو‘‘ اس کے ساتھی نے چلاتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’یعنی تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ خدانخواستہ لوگوں کا اعتماد حضرت دولے شاہ سرکار سے اٹھ چکا ہے اور نہ اب وہ منتیں مانتے ہیں نہ قربانیاں دیتے ہیں اور نہ نئے دولے شاہ کے چوہے وجود میں آتے ہیں‘‘ اس نے لمحہ بھر کو سانس لیا اور دوبارہ گویا ہوا:

    ’’سرکار کا رنگ تا قیامت رہے گا اور عقیدت مند اس رنگ میں رنگتے رہیں گے۔ تم پہلے ہی گستاخیاں کرتے رہے ہو۔ اب مزید برداشت نہیں ہوگا اور یاد رکھو تم کبھی کامیاب نہیں ہوگے۔۔۔‘‘ جمال نے محسوس کیا کہ اس کے ہم جماعت کا چہرہ غصے سے بگڑ چکا ہے۔ اس کا رنگ سرخ ہو چکا ہے اور غصے سے چلائے جا رہا ہے۔ جوں جوں اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا توں توں اس کی شباہت میں تبدیلی آتی جا رہی تھی۔ ایک ایسا لمحہ بھی آیا کہ جس نے جمال کو غیر یقینی کیفیت میں پہنچا دیا۔ اس کے ساتھی کا سر چھوٹا اور منہ بڑا ہوتا جا رہا تھا۔ اسے اس کے الفاظ بالکل نہیں سنائی دے رہے تھے۔ سنائی دے رہے بھی تھے تو سمجھ میں نہیں آ رہے تھے۔ وہ مسلسل ہاتھ ہلائے اور زبان چلائے جا رہا تھا۔ اس کے کان اب پہلے سے بڑے اور لٹکے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ اگلے لمحے ایک جھماکا سا ہوا اوراس کی آنکھوں نے جو منظر دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔ لیکن اپنی جگہ ایک حقیقت تھی۔ اس کا دوست ہو بہو دولے شاہ کا چوہا لگ رہا تھا۔ جو اس کے ساتھ ہاتھا پائی پر اتر آیا تھا اور یہاں تک کہ اسے زخمی بھی کر ڈالاتھا۔ اس کے ہونٹوں سے خون رسنے لگا لیکن وہ پھر بھی مسکرائے جا رہا تھا۔ اسے بیک وقت دکھ بھی تھا اور اس بات کی خوشی بھی کہ کم از کم دولے شاہ کا ایک چوہا تو مل گیا۔

    ’’مگر مجھے پھر سے اسائنمنٹ لکھنا ہوگی، نئے سرے سے۔۔۔ علامتوں، ثبوتوں اور ردِ عمل کے ساتھ‘‘ اتنے میں باہر شور بلند ہوا اور اس کا کلاس فیلو اسے اسی حال میں چھوڑ کر باہر کو لپکا۔ وہ کافی دیر تک فرش پر درد کی شدت سے پڑا تڑپتا مگر برابر مسکراتا رہا اور جو کچھ اس نے ابھی ابھی دیکھا تھا، اسے اسائنمنٹ میں لکھنے کے لیے مناسب الفاظ کا انتخاب کرنے لگا۔ نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ اگلی صبح اس نے ایک ڈائری ہاتھ میں اٹھائی اور کیمپس کی طرف چل پڑا۔ کینٹین سے چائے پیتے ہوئے اس نے اخبار کی ورق گردانی کی تو اس کی نظر اپنے ہی لکھے ہوئے مقالے پر پڑی جو بڑے اہتمام سے چھاپا گیا تھا، مگر کسی اور کے نام سے اور یہ نام بھی تو اس کا جانا پہچانا ہی تو تھا۔ یہ اس کا وہی نگران تھا جس نے مقالہ نہ صرف رد کر دیا تھا بلکہ کچھ رد و قدح کے بعد نیا موضوع بھی دے دیا تھا۔

    ’’یہ نگران پروفیسر بھی دولے شاہ کا چوہا ہے‘‘ اس نے ڈائری میں ایک اور نمبر کا اضافہ کیا اور چائے کی چسکیاں لینے لگا۔ بہت سے طلبا کو ایک طرف جاتے دیکھا تو وہ بھی ادھر ہی چل دیا۔ سب کانفرنس ہال میں داخل ہو رہے تھے۔ آج کیمپس میں مذہبی جماعتوں اور سیکولر طبقے کے درمیان ایک مباحثہ ہونے والا تھا۔ ہال میں نہ صرف کثیر تعداد میں طلبا جمع تھے بلکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگ بھی موجود تھے۔ درمیان میں ایک منصف بیٹھا تھا جو پہلے سے تحریرکردہ سوالات میں سے ایک ایک سوال دونوں سے کرتا اور جواب کے لیے دونوں کو صرف دودو منٹ دیے جاتے۔ دونوں مقرر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے اور وقت پورا ہوتے ہی مختصر سی ایک گھنٹی بجتی اور لمحہ بھر کو خاموشی چھا جاتی۔

    ’’سیکولر کا مطلب ہمہ دینیت تو ہے لا دینیت نہیں۔ یعنی ایک ایسا نظامِ حکومت اور معاشرہ جہاں ہر طبقہ اپنی اپنی پسند اور اختیار کے مطابق، کسی دوسرے شخص کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کیے بغیر، بلا روک ٹوک اور آزادی سے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزار سکے اور ریاست اس کے حقوق کا بلا امتیاز رنگ، نسل اور مذہب حفاظت کرے۔۔۔‘‘ ایک ہلکی سی گھنٹی کی آواز آئی اور خاموشی چھا گئی۔ اب دوسرے مقرر کی باری تھی۔

    ’’ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ اپنی بنیادی مذہبی اقدار، قومی تفاخر اور اپنی پہچان کو بھولے بغیر اپنی اپنی پسند کے شعبے میں پورے وقار، افتخار اور عزمِ مصمم کے ساتھ جاؤ۔ پاکیزگی اور طہارت یہ نہیں ملک کی آدھی سے زائد آبادی کو برقع اوڑھا کے چار دیواری میں چن دواور نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بے راہ روی نہ صرف عام ہو بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔۔۔ ہم تو یہ کہتے ہیں زمانے کے ساتھ ساتھ مت چلو۔۔۔ بلکہ دو قدم آگے چلو، آنے والوں کی رہنمائی کرو نہ کہ خود چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھ کے صدیوں پیچھے رہ جاؤ۔۔۔‘‘

    ’’تو پھر جھگڑا کس بات کا؟‘‘ ہجوم میں سے کسی نے بھبتی کَسی۔ ’’یہ کیا چوہے بلی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے‘‘ ایک اور بول اٹھا۔

    ’’نہ جوش و خروش نہ جذبہ، نہ ہنگامہ آرائی۔۔۔ یہ کیسا مقابلہ ہے‘‘ لوگوں میں اب چہ مگوئیاں بڑھنے لگی تھیں۔ بلکہ چند لوگوں نے آگے بڑھ کر نئے اورجوشیلے مقررین کو بلانے پراصرار کیا۔ اکثریت خاموش رہی، نہ مخالفت میں بولی اورنہ حمایت میں۔

    اب دو نئے مقررمیدان میں اتارے گئے۔ دونوں نے آستینیں چڑھا لیں اور دونوں نے ہی بیک و قت ایسا بولنا شروع کیا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ہجوم کے ہاتھ بھی ایک نیا شغل آ گیا۔ وہ اسی انداز میں اپنی اپنی پسند کے مقررین کو سیٹیوں اور تالیوں سے حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ ہال جلد ہی میدانِ کارزار کا منظر پیش کرنے لگا۔ جمال نے وہاں موجود سبھی لوگوں کی محتاط اندازے سے گنتی کرکے ڈائری میں نوٹ کر لیا، وہاں سے نکلا اور بےمقصد ایک طرف کو قدم اٹھاتا چلا گیا۔ چلتے چلتے وہ کیمپس سے کوسوں دور ایک مصروف شاہراہ پر نکل آیا تھا۔ ایک طرف اس نے دیکھا کہ اشاروں پر سبز چغہ پہنے چھوٹے سے پچکے ہوئے سر پر سفید ٹوپی اور گلے میں مالاؤں کے ساتھ ساتھ دھنک رنگ کا صافہ پہنے، ہاتھ میں کشکول اٹھائے ایک بچہ بھیک مانگ رہا تھا۔

    ’’وہ دیکھو شاہ دَولے کا چوہا‘‘ کسی نے اپنے ساتھ چلتے دوست کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا۔

    ’’نہیں نہیں، یہ وہ نہیں‘‘ جمال نے دل ہی دل میں سوچا: ’’یہ تو ایک معذور ہے۔ دولے شاہ کے چوہے تو وہ ہیں جو اسے معذور بناکے اب اس کی اسی معذوری اور بےبسی کو اپنے فوائد کے لیے استعال کر رہے ہیں‘‘

    وہ بدستور چلتے چلتے کچھ اور آگے آن پہنچا۔ یہاں اس نے دیکھا کہ میلوں تک ٹریفک جام تھا۔ لوگ پسینے، گرد و غبار اور دھوئیں میں اٹے ہوئے ایک دوسرے کو کوسے جا رہے تھے۔ ان کے مطابق آگے راستہ بند ہونے کی وجہ سے ٹریفک جام ہو گیا تھا اور ہلنے کا نام تک نہیں لے رہا تھا۔ رستہ کیوں بند تھا، یہ کسی کو معلوم نہ تھا، بعض کے نزدیک وی وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے، کچھ کہہ رہے تھے نئی سڑک بن رہی تھی اور کچھ کا خیال تھا کہ آگے حادثہ ہوا ہے اس لیے سڑک بند تھی۔ البتہ وہ سب صرف ایک بات پر متفق تھے وہ یہ کہ کسی کو علم نہ تھا راستہ کب کھلےگا؟ اتنے میں دو رکشہ ڈرائیوروں کے درمیان کسی بات پر ہاتھا پائی شروع ہوئی، جس نے بڑھ کے جھگڑے کی شکل اختیار کر لی۔ دونوں ایک دوسرے کے دست وگریباں تھے اورکئی لوگ انھیں چھڑانے کی کوشش بھی کر چکے تھے۔ مگر ایک بار جدا ہو کر وہ دوبارہ گتھم گتھا ہو جاتے۔ وہاں پر موجود لوگ بھی پہلے تو بڑی بوریت سے شاہراہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے مگر اب اس جھگڑے کی بدولت کچھ دیکھنے کو مل گیا تھا، لہذا نہیں چاہتے تھے کہ ان کی آپس میں صلح صفائی ہو۔ دونوں لڑنے والے ایک بار پھر ایک دوسرے الگ ہو کر اپنی اپنی منزل کو جا رہے تھے کہ اتنے میں کسی نے ایک سے کہا:

    ’’ابے پہلوانوں کے ساتھ پنگا مت لیا کر۔ کیو ں اپنی جان کا دشمن بنا پھرتا ہے‘‘

    دوسرے لڑکے نے ، جو قدرے جثے میں بڑا تھا، مڑ کر مونچھوں کو تاؤ دیا۔ پہلے والے لڑکے کو غصہ آیا اور مڑتے ہوئے جیب سے چاقو نکالا اور اس پر وار کر دیا۔ اس نے بہتیرا بچاؤ کی کوشش کی مگر پھر بھی اس کا بازو زخمی ہو گیا۔ ردعمل کے طورپر اس نے لوہے کا ڈنڈا اٹھا یا اور پہلے والے پر اس زور سے مارا کہ وہ ٹانگ پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ہڈی کے ٹوٹنے اور اس کے گرنے کی آواز آئی۔ زخمی لڑکا اپنے بازو کو سہلاتا چل دیا جبکہ گرنے والے میں دوبارہ اٹھنے کی سکت ہی نہ رہی۔

    اتنے میں سائرن بجنے لگے۔ موومنٹ شروع ہو چکی تھی۔ ہوا کے گھوڑے پر سوار گاڑیوں اور موٹر سا ئیکلوں کا ایک قافلہ سائرین بجاتا، مختلف رنگوں کی بتیاں جلاتا دوڑا چلا جا رہا تھا۔ اس کے پیچھے کئی رنگ اور ماڈل کی جدید گاڑیوں میں اسلحہ بردار مستعد کھڑے تھے۔

    ’’بڑا لمبا قافلہ معلوم ہو تا ہے‘‘ ایک نے دوسرے سے کہا۔

    ’’لگتا ہے کوئی غیر ملکی حکمران بھی ساتھ ہے‘‘

    اس بچارے کا کیا ہوگا۔ اس نے سڑک کے درمیان میں پڑے کراہتے زخمی کی طرف اشارہ کیا:

    ’’ایمبولنس توآنے سے رہی۔ آدھے گھنٹے تک راستہ نہیں کھلے گا۔ ایسا کرو اسے سڑک کے اس کنارے لگے پودوں کے پیچھے لٹا دو۔ سڑک کھلے گی تو رکشے پر ہی لے جائیں گے۔۔۔ اور ہاں غیر ملکی مہمان بھی کیا سوچیگا بھلا ہم نے ایک زخمی کراہتے ہوئے شخص کو بیچ سڑک کیوں لٹا رکھا ہے، کیاکہے گا کیسی قوم ہیں ہم‘‘

    دونوں ہمدردوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے پودوں اور پھولوں کی آڑ اور سائے میں لٹا دیا اور خود تیزی سے گزرتے قافلے کے نظارے میں کھو گئے۔

    جمال سرشام تھکا ہارا کمرے میں واپس آیا۔ آج وہ مایوس بھی تھا اور مطمئن بھی۔ اسے یقین تھا کہ اب کے اس کو ڈگری مل جائےگی۔ اس نے لیٹے لیٹے ٹی وی چلایا اور مختلف چینل بدلنے لگا۔ اس کی خواہش تھی کہ کسی ماڑ دھاڑ اور گرما گرم بحث والے پروگرام سے اجتناب کرتے ہوئے کوئی ہلکا پھلکا یا ادبی پروگرام دیکھے۔ وہ چینل بدلتے بدلتے ایک پر رک گیا جہاں ایک ادبی پروگرام پیش کیا جا رہا تھا۔ میزبان ملک کے مایہ ناز اور نمائندہ ادیبوں اور صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ دورۂ یورپ کے موقع پر ولیم شیکسپئیر کے مرقد پر موجود تھے اور شیکسپئیرکی حیات و تخلیقات کے بارے میں سوالات کر رہے تھے، جس کے جواب میں ملک کے ایک نامور ادیب یو ں گویا ہوئے:

    ’’دیکھیں جی! بات یہ ہے کہ تاریخی طور پر شیکسپئیر ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔ بعض اوقات ہوتا یہ ہے کہ قومیں اپنے ورثے اور عقلمندی کے اثاثے کو محفوظ کرنے کے لیے فرضی کردار تراش لیتی ہیں تاکہ ان کا مورال بلند رہے۔ مؤرخین کے نزدیک شیکسپئیر بھی ایک ایسے ہی فرضی اور متنازعہ کردار ہیں جن کے بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آیا یہ مقبرہ واقعی شیکسپئر کا ہے بھی کہ نہیں۔ کوئی اصل شیکسپئیر دنیا میں تھا بھی کہ نہیں۔ ان کی شخصیت پر تو صدیوں کی گرد اٹی ہے جسے جھاڑنا اتنا آسان بھی نہیں۔۔۔‘‘

    جمال نے جو کچھ ابھی ابھی ٹی وی سکرین پر دیکھا تھا اسے نہ تو اپنی آنکھوں پر یقین آرہا تھا نہ کانوں پر۔۔۔ یعنی شیکسپئیر کے وجود سے ہی انکاری۔۔۔ اس کا جی چاہا کہ چاک چاک گریبان کے ساتھ ماتم کرتا صحرا کو نکل کھڑا ہو اور وہیں پر اپنی جان دے دے۔ مگر اس نے مسکراتے ہوئے ڈائری میں کچھ نمبروں کا اضافہ کیا اور خود کلامی کے انداز میں کہنے لگا:

    ’’یہ صحافی اورادیب بھی دولے شاہ کے چوہے ہیں‘‘

    جمال نے کیلنڈر پر نظر دوڑائی تو اسے پتا چلا کہ اس کی اسائنمنٹ جمع کرانے میں دس روز باقی ہیں۔ اس نے فیصلہ کیا جتنے دن باقی ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور وقت پر اپنا کام مکمل کرنے میں صرف کرےگا۔ وہ زیادہ سے زیادہ عوامی مقامات اور اجتماعات میں شرکت کر کے اعداد و شمار اکٹھے کرےگا اور آخری پانچ دن بیٹھ کر دن رات لگاکر تحقیق مکمل کرےگا۔

    وہ گلیوں محلوں میں پھرتا رہا، مصروف بازاروں اور شاہراہوں کی خاک چھانتا رہا۔ اس نے دھوپ میں جھلستے پِنڈے بھی دیکھے اور ٹھنڈی چھاؤں میں مہکتے نازک بدن بھی۔ اس نے بھوک سے بلکتے لوگ بھی دیکھے جو کوڑا کرکٹ سے خوارک حاصل کر رہے تھے اور وہ بھی جواضافی کھانا کوڑے دانوں میں پھینک رہے تھے۔ اس نے عدالتوں کے چکر کاٹتے مظلوم بھی دیکھے اور ظالموں کا طواف کرتی عدالتیں بھی۔ اس نے بھرے بازاروں کا رخ بھی کیا اور ہسپتالوں کا بھی۔ وہ سکولوں کالجوں میں گیا اور مندروں مسجدوں میں بھی۔ وہ جھونپڑیوں کی خاک بھی چھانتا رہا اور ایلیٹ کلاس کی رہائش گاہوں کے ارد گرد بھی منڈلاتا رہا۔ اس نے مخدوم کا ہنستا مسکراتا چہرہ بھی دیکھا اور خادم کا جُھریوں زادہ تبسم سے خالی اداس چہرہ بھی۔ اس نے کھیتوں میں جتے دہقانوں پر بھی نظر ڈالی اورانھیں کی محنت گندم انھیں کو دوگنے داموں میں بیچتے سیٹھ بھی۔

    وہ سوچ رہا تھا کیا یہ دولے شاہ کے چوہے ہیں جو اپنے جیسے قائدین کو منتخب کرتے اور انھیں خود پر حکومت کرنے کی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں یا منتخب حکمران ہی عوام کو دولے شاہ کے چوہوں کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں۔ وہ رات کی تنہائی میں اکیلا جا رہا تھا۔ اکیلا کہاں تھا چاند بھی تو اس کے ہمراہ تھا۔ وہ ایک اونچی چٹان پر بیٹھ گیا۔ اس کے دائیں طرف وسیع جنگل تھا اور دور شہر کی روشنیاں بھی نظر آ رہی تھی۔

    ’’آخر کیا وجہ ہے؟ اتنا تضاد کیوں ہے؟‘‘ اس نے چاند کی طرف ایک نظر کی جو اپنی منزل پوری کرنے کے قریب تھا۔ رات اس پر اپنے راز عیاں کر رہی تھی۔ وقفے وقفے سے دور کہیں سے الوؤں کے بولنے کی آوازیں بھی رہ رہ کر تنہائی کی خاموش چادر میں شگاف کر جاتی تھیں۔ رات کا بدن چاندنی میں چٹکنے لگتا تو بادل فوراً نیچے اتر کے رات کے کورے بدن پر تاریکی کی ایک نئی چادر اوڑھ دیتے۔ پھر خاموشی چھا جاتی۔ چاند، بادلوں اور الوؤں میں یہ کشمکش جاری تھی۔ اس کا اپنا ذہن کہیں اور الجھا ہوا تھا۔

    ’’یہ تضاد کیوں ہے؟‘‘ اس نے رات، چاند، بادلوں اور الوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنے آپ سے یہ سوال دہرایا۔ مگر اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔ وہ اٹھ کر ٹھنڈی ٹھنڈی ریت پر چلنے لگا۔ اس کا جی گھبرانے لگا تھا۔ وہ شہر کو واپس جانا چاہتا تھا مگر ریت اس کے قدموں سے لپٹ گئی اور وہ وہیں ریت پر ہی بیٹھ گیا۔ چاندنی آیات کی طرح ریت کے ذرے ذرے پر اتر رہی تھی۔ ذرہ چمک کے آفتاب بن رہا تھا۔ اس کی سوچ کے دھارے ایک رنگ اختیار کرنے لگے تھے۔

    وہ معاشرے جو آباؤ اجداد سے حاصل کردہ نظریات، علوم اور تجربات کو وقت کی بھٹی میں ڈالتے ہیں، کھوٹا کھرا الگ کرتے ہیں، نئی روایات اور خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ افراد کے ضمیروں پر قدغن لگانے کی بجائے آزادئ اظہار کو مقدم جانتے ہیں۔ علم و ادب اور کتاب دوستی میں جن کا ثانی نہیں ہوتا اور جن معاشروں میں آدمیت کا معیار قابلیت پر پرکھا جاتا ہو، جہاں ظلم اور ظالم قانون کے آہنی شکنجے سے بس ایک ہاتھ پرے ہوں ان معاشروں کی مثال ایک ایسے پھوٹتے چشمے کی ہے جس کا شفا بخش پانی جہاں جہاں جاتا ہے، پھول کھلاتا جاتا ہے۔ ہر رنگ کے پھول، جن پر خواہشوں کی تتلیاں خوابوں کے رنگ بھرتی رہتی ہیں۔ ایک گلشن آباد ہو جاتا ہے۔ اگرچہ جھاڑ جھنکار بھی اگتا رہتا ہے اور پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی، جن کی تراش خراش باغباں کے لیے ہرگز مسئلہ نہیں ہوتا اور یہ کانٹے بھی اس مہکتے لالا زار کا حصہ بنے اتنے برے بھی معلوم نہیں ہوتے۔ جبکہ وہ معاشرے جن کی ذہنی سطح وقت کے سمندر میں صدیوں پہلے کی بندر گاہ پر رکی ہو وہ اس جوہڑ کی مانند ہو جاتے ہیں جو بذات خود بیماریوں اور آفتوں کا سبب بن جاتے ہیں۔ جہاں دور دور تک ان کے تعفن سے ماحول میں گھٹن ہوجاتی ہے۔۔۔ ہمارا معاشرہ ایک ایسا ہی حبس زادہ معاشرہ ہے۔ ہم آج بھی ماضی کے اس حسین قلعے میں محبوس ہیں جہاں سے ہماری ہی عظمتوں کے مینار ہر طرف بلند ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔

    اگلے روز وہ ایک شہر میں موجود تھا۔ آج اس کا آخری دن تھا کہ اپنی تحقیق مکمل کر کے کل سے اسے لکھنا شروع کر دےگا۔ اس نے دیکھا کہ ایک سمت لوگوں کے غول کے غول جا رہے تھے۔ وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ یہ سب لوگ ایک بڑے جلسے میں شریک ہونے جا رہے تھے۔ ملک کے نامور مولانا کی آمد آمد تھی۔ اس نے دیکھا کہ عقیدت و احترام میں ڈوبے ہزاروں افرادپنڈال میں موجود تھے اور ہزاروں ابھی راستے میں تھے۔ وہ پھر بھی صحیح تعداد معلوم کرنے کے لیے ایک محتاط اندازہ لگا ناچاہتا تھا۔ اسے کوئی غرض نہ تھی کہ مولانا کیا فرما رہے ہیں اور ان پنڈال میں موجود ان کا ردعمل کیا تھا۔ اپنی رپورٹ کو شفاف بنانے کے لیے اس نے لوگوں کی گنتی کرنا شروع کر دی۔ اس نے صفوں میں موجود لوگوں کو گنا، دو صفیں چھوڑ کے پھر گنتی کی۔ یہی عمل کئی بار دہرایا اور اوسط نکال کے صفوں کی تعداد سے ضرب دی۔ ابھی وہ جواب نکالنے میں مصروف تھا کہ یکایک لوگوں کے کا جوش و جذبے اور نعرے بازی نے اس کی توجہ ہٹا دی۔ سبھی شرکا یک زبان ہو کر سٹیج پر آنے والے نئے مولانا کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ اس کی شان میں آواز بلند کر رہے تھے۔ مولانا نے اپنا وعظ شروع کیا۔ رسمی آداب سلام اور تلاوت کے بعد اس نے فریق مخالف کے ایک مولانا کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔

    ’’وہ خنزیر کی اولاد ہے۔۔۔ اس دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے، اس صدی کا ابو جہل اور ابو دجال ہے۔۔۔ گستاخ ہے۔۔۔ننگِ دین و ملت ہے۔۔۔ حرام کا پلا۔۔۔‘‘

    مولانا کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔ وہ جو بھی زبان میں آرہا تھا بکے جا رہے تھے۔

    اسے توقع تھی کہ مجمع ضرور ان کو ان کی اس حرکت پر ٹوکےگا، کوئی تو اٹھےگا جو یہ کہے گا کہ مولانا اختلاف اپنی جگہ، مسلک کا ہو یا مذہب کا، کیا فرق پڑتا ہے۔ اختلاف 8 رائے ہی سے تو دنیا کی رنگارنگی قائم ہے اور روز قیامت خدا نے فیصلہ کرنا ہے جو تم آپس میں اختلاف کرتے ہو۔ کچھ کام تو روزقیامت خدا کے کرنے جوگا بھی رکھ چھوڑو کہ اسے بھی فیصلہ کرنے کا موقع ملے کہ اسی نے ہی تو تمھیں الگ الگ مزاج اور شخصیت کے ساتھ پیدا کیا۔۔۔ مگر لوگ اب بھی ہمہ تن گوش زبان سے زہر اگلتے مولانا کو سنے جا رہے تھے۔ اچانک مجمع بپھر اٹھا اور باآواز بلند مولانا کی شان میں نعرے لگانے لگا۔ اس نے مجمع کا جوش و خروش دیکھتے ہوئے وہاں پرموجود لوگوں کی دوبارہ گنتی کرنا شروع کر دی۔ اس نے صفوں کی تعداد اور اوسط نفوس کو ضرب دی تو جواب آیا: نو ہزار آٹھ سو ستر اور ہاں کچھ لوگ سٹیج پر بھی تو براجمان ہیں۔ اس نے سٹیج پر موجود لوگوں کو، جن میں بڑے بڑے نامی گرامی ہستیاں بھی موجود تھیں ایک ایک کر کے گنتی کی تو کل انتیس لوگ ملے۔ اس نے مسکراتے ہوئے چاروں طرف نظر دوڑائی اور ڈائری پر لکھی کل تعداد کو قدرے بلند آواز میں دہرایا:

    ’’اٹھارہ کروڑ انیس لاکھ دس ہزار چار سو ننانوے‘‘

    اس کے پا س بیٹھا ایک شخص بول اٹھا: ’’تمھیں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں۔ تم نہ تو نعروں کا جواب دے۔

    رہے اور نہ مولانا صاحب کو سن رہے ہو۔ تم کوئی جاسوس ہو، کرائے کے صحافی ہو، دشمن کے ایجنٹ ہو، کیا بلا ہو آخر؟‘‘

    ’’میں شرکا کی تعداد گن رہا تھا‘‘ اس نے مختصر جواب دیا۔

    ’’مگر یہ اٹھارہ کروڑ تو ہر گز نہیں۔ بمشکل دس ہزار ہوں گے۔۔۔ ہاں سمجھتا ہوں۔ تم بھی مولانا کے مداح ہو۔ خدا قسم اٹھارہ کروڑ تو کیا مولانا کا فیضان اٹھارہ ارب پر جاری ہے‘‘

    ’’نہیں نہیں‘‘ جمال نے وضاحت کی: ’’میرا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا۔ میں نے دولے شاہ کے چوہوں کی کل تعداد گنی ہے۔ یہاں تو نو ہزار آٹھ سو ننانوے موجود ہیں۔۔۔ نوہزار آٹھ سو ننانوے دولے شاہ کے چوہے‘‘

    اس نے جمال پر نظریں گاڑدیں اور غصے سے چلا اٹھا:

    ’’ کیا۔۔۔کیا۔۔۔ یہ تم نے کیا کہا۔۔۔ دولے شاہ کے چوہے؟‘‘

    ’’ہاں‘‘ جمال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’یہ سب دولے شاہ کے چو ہے ہیں۔ دکھنے میں عام لوگ ہی لگتے ہیں مگر ان کے سر بھی دماغ سے خالی اور چھوٹے رہ گئے ہیں۔ یہ نہ اپنی کوئی رائے رکھتے ہیں نہ حق سچ کی پہچان۔۔۔ جیسا منظر دکھایا جائے ویسا ہی مان لیتے ہیں‘‘

    وہ اب بھی کھا جانے والی نظروں سے جمال کو تکے جا رہا تھا۔ جمال نے سٹیج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’اور کچھ وہاں بھی بیٹھے ہیں۔۔۔ مولاناسمیت تیس چوہے۔۔۔ دولے شاہ کے چوہے؟ اتنے چوہے کبھی ایک ساتھ پہلے بھی دیکھے تم نے؟‘‘

    یہ کہتے ہی جمال اپنی ڈائری پر جھک گیا۔ ساتھ بیٹھے آدمی کی آنکھوں میں خون میں اتر آیا۔ اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی۔ وہ یک دم اٹھا، کمر میں اڑسے خنجر کو نکالا اور جمال کے سینے میں گھونپ دیا۔ خون کا ایک لمبا فوارہ نکلا جو واپس اسی کے بدن پر گرتے ہوئے مٹی میں جذب ہونے لگا۔ مگر اس پر بھی اس نے بس نہ کی اور دیوانہ وار مسلسل خنجر چلانے لگا۔ ایک مردہ جسم پر اس نے پے در پے گیارہ وار کیے اور آخر میں کھڑا ہو کے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ مگر مجمع خاموش رہا، کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے لہو میں لت پت خنجر کو بوسہ دیا اور دوبارہ چیخنے لگا: ’’یہ گستاخ ہے۔ مذہب کو گالیاں دے رہا تھا۔ مولانا سمیت ہم سب کو دو لے شاہ کے چوہے کہہ رہا تھا۔ یہ اس نے اپنی ڈائری میں بھی لکھ رکھا ہے۔ یہ ملک دشمن اور کفارو مشرکین کا ایجنٹ تھا۔ میں نے دولت ایمانی کے جذبے میں آکر اس ملعون کا کام تمام کر دیا ہے‘‘

    اس نے خنجرکو زمین پر پھینکا اور دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر کے کہنے لگا: ’’اب جو بھی میری سزاہو مجھے دیجیے۔ میں ہر سزا بھگتنے کو تیار ہوں‘‘

    تمام لوگوں کی نگاہیں مولانا کی طرف اٹھ گئیں کہ وہ کیا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ مولانا کھڑے ہو ئے اور آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے بانہیں پھیلا کرکہنے لگے: ’’اے مرد حق! اے مردِ مجاہ! اے غازی! آجا اور آکے مجھ گنہگار کے سینے سے لگ جا تاکہ تیرے نور سے مجھ کو بھی کچھ روشنی اور راحت و سکون ملے۔۔۔ تم نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ بڑے بڑوں کا پتا پانی ہو جاتا ہے۔۔۔ یہ سچ ہے کہ یہ عطا کسی کسی کو ملتی ہے اور جسے ملتی ہے وہ یقیناًخدا کی برگزیدہ اور چنیدہ ہستیاں ہوتی ہیں۔۔۔ یہاں سامنے آکہ مخلوق خداتیری زیارت سے اپنے قلب و روح کو منور کر سکے‘‘

    لوگوں نے اسے پلک جھپکنے میں سٹیج پر پہنچا دیا۔ مولانا نے اس کے خون میں رنگے ہاتھوں کا بوسہ لیااور اپنی کرسی پر بٹھا دیا۔ مولانا کو کھڑا دیکھ کرا سٹیج کے لوگ بھی کھڑے ہو گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی میں پنڈال میں موجود سب لوگ بھی احتراماً کھڑے ہو گئے۔ جمال کی لاش کے قریب ہی موجود ایک شخص نے صف کی اگلی جانب پڑے جوتے کو اٹھا یا اور اپنے سر پر لگاتار مارنے لگا۔ لوگوں نے اسے روکا اور وجہ دریافت کی تو وہ کہنے لگا: ’’یہ جو ہستی ہمارے سامنے سٹیج پر جلوہ نما ہے، یہی تو میرا ہمسایہ دینا قصائی ہے اور میں ہی زبردستی آج اسے اپنے ساتھ لایا تھا۔ دیکھو کیسے اس کی قسمت چمک اٹھی اور کتنابلند مرتبہ پا لیا۔۔۔ ہائے مجھ بد نصیب نے یہ کارِ خیر کیوں ناں انجام دیا۔ بولو اب بھی میں اپنے آپ کو جوتے نہ ماروں تو اور کیا کروں؟‘‘

    ساتھ کھڑے ایک شخص نے جواب دیا:

    ’’تم صرف اکیلے نہیں بلکہ میں بھی تمھارے ساتھ ہی جوتے کھانے کا مستحق ہوں۔ میں بھی تو یہیں پاس ہی بیٹھا رہا میری آنکھوں پر بھی تو غفلت کا اندھیرا چھایا رہا۔۔۔ مگر سنو!‘‘ اس نے پہلے شخص کے کان میں سر گوشی کرتے ہوئے کہا:

    ’’دینا قصائی اب مت کہنا، ورنہ تیرا بھی یہی حشر ہو گا جو اس لڑکے کا ہوا۔۔۔ غازی کہو، غازی۔۔۔ غازی حضرت شمس الدین سرکار‘‘

    اچانک مولانا نے محفل کے اختتام کا اعلا ن کرتے ہوئے کہا: ’’آج کی روحانی اور نورانی محفل میں موجود سبھی شرکا خوش نصیب اور جنتی ہیں کہ جنھوں نے ایک گستاخ کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اپنے درجات مزید بلند کرنے کے لیے میں تم سب سے کہتا ہوں کہ باہر نکلتے ہوئے اس ملعون کی لاش کو اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے جاؤ تاکہ اس عظیم اور تاریخی واقعے میں اس خوش بخت چمکتے چہرے والے جیسانہ سہی ، کچھ نہ کچھ حصہ تو مل جائے‘‘

    ’’کیا میں مر چکا ہوں یا زندہ ہوں‘‘ جمال نے ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے اپنے آپ سے سوال کیا:

    ’’اگر میں زندہ ہوں تو حرکت کیوں نہیں کر رہا اور اگر مر چکا ہوں تو اپنے آس پاس موجود سبھی لوگوں کوابھی تک کیوں دیکھ رہا ہوں؟‘‘

    ’’میرا جسم مردہ ہو چکا ہے اور ضمیر زندہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے مر کے بھی زندہ ہوں۔ اور دولے شاہ کے چوہوں کی طرح زندہ لاش نہیں بلکہ مردہ لاش کے باوجود زندہ ضمیر ہوں‘‘

    اس کی ڈائری کے اوراق ہوا میں اڑے اور چار سو بکھر گئے۔ اس نے دیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں پتلی پتلی ٹانگوں اور چھوٹی چھوٹی دم والے اس کے بدن پر رینگ رہے ہیں ان کی ٹانگیں مزید چھوٹی اور پتلی ہوتی چلی گئیں اور وہ سچ مچ کے چوہے بن گئے۔ جمال نے انھیں اپنے جسم پر رینگتا ہوا محسوس کیا تو اسے گدگدی سی ہوئی اور اس نے کروٹ بدل لی۔ ایک مسکراہٹ اب بھی اس کے چہرے پر کھیل رہی تھی!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے