aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

احساس محرومی

ارم زہرا

احساس محرومی

ارم زہرا

MORE BYارم زہرا

    آج پھر شبنم سے دھلی ہوئی صبح، سورج کا منہ تک رہی ہے۔ باہر باغیچے کی لمبی لمبی کیاریوں میں نوزائیدہ کلیاں زندگی کا پہلا سانس لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ گلابوں کی خشک ٹہنیاں بھی سرخ کنگن سے سج رہی ہیں۔ مارچ کا دبیز آنچل سب پر یکساں طاری ہوتا جا رہا ہے۔ بہاروں کے جھونکے کھڑکی کے راستے میری سماعت کو جھنجھوڑنے میں مگن ہیں۔

    وہ دن بھی تو کچھ ایسے ہی تھے جب انہی بہاروں نے، مجھے ایک خوبصورت سا تحفہ دیا تھا۔ ایک خوبصورت سی کلی میری آغوش میں زندگی کا پہلا سانس لینے میں مگن تھی۔

    آج میں اپنے کمرے میں اداس بیٹھی ہوں۔ میری نظریں کھڑکی سے باہر ننھی ننھی کلیوں کی مسکراہٹ کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ آج مجھے شدت سے اپنے آنگن کی اس بےچین کلی کا خیال آ رہا ہے جسے وقت سے پہلے ہی خزاں چاٹ گئی۔ میں نے دکھی دل سے قدموں میں بکھرے ہوئے خشک پتوں کو دیکھا اور بند ہوتی آنکھوں میں رمیا کا تصور سجا لیا۔

    وہ دن کتنے حسین تھے۔ جب اس کی آمد سے قبل میرا کمرا ننھے منے گول مٹول بچوں کی تصویروں سے سجا تھا۔ پھر جب رمیا میری گود میں آئی تو دن اور بھی حسین ہوتے چلے گئے۔ آخر میری اتنی منتیں، نیازیں، مرادیں بر آئی تھیں۔

    رمیا کی پیدائش نے میرے اور رضا کے ٹوٹتے رشتے کو ایک پل میں ہی اٹوٹ کر دیا۔ گوکہ رمیا میری امیدوں کے برعکس تھی۔ ان تصویروں کے بچوں کی طرح نہ خوب صورت تھی اور نہ صحت مند، بہت کمزور سی تھی مگر بہرحال میرے وجود کا حصہ اور میری جان تھی۔

    رمیا کی آمد نے رضا کے آنسو ضرور پونچھ دیے مگر انہیں وہ خوشی نہیں تھی جس کا تصور وہدل میں سجائے رکھتے۔ ان کی آنکھیں ان کی بیزاری عیاں کر دیتیں مگر میرا اختیار ان پر کب تھا۔

    شاید یہ پہلا خزاں کا جھونکا تھا جو میری آغوش میں رمیا کو جھنجھوڑ گیا۔

    میری جان رمیا۔۔۔! اگر مجھے اس وقت ذرا بھی علم ہوتا کہ یہ پہلا جھونکا تمہاری ننھی سی جان کو آہستہ آہستہ چاٹ جائےگا تو میں۔۔۔ مگر میں۔۔۔ آخر میں پھر بھی کیا کر سکتی تھی؟

    جان مجھے وہ وقت یاد ہے جب ایک نکھری نکھری سی صبح کو تم۔۔۔ کسی سوچ میں گم میرے پاس آئی تھیں۔ میں نے گھبرائے ہوئے انداز میں تم سے پوچھا تھا۔

    ’’رمیا کیا ہوا؟‘‘ تب تم نے آنسوؤں بھری آنکھیں جھکا کر کہا تھا۔ ’’امی کیا میں پاپا کی بیٹی نہیں ہوں؟‘‘

    چھناک سے میرے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا تھا۔

    ’’نہیں رمیا۔۔۔ یہ تم کیا کہہ رہی ہو، بیٹا کیا تم سے کسی نے کچھ کہا ہے؟‘‘

    ’’امی میں نے خود محسوس کیا ہے۔‘‘ اس نے بھیگے لہجے میں کہا تھا۔

    اور کتنی عجیب سی بات ہے کہ اس دن، رات کی تاریکی نے تمہارے چہرے کی رونق چھین کر تمہیں تاریک کر دیا۔ تم بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔ تمہاری آنکھیں بندتھیں مگر تمہارے لب مسلسل ہل رہے تھے۔ تم جانے کسے پکار رہی تھیں؟ یہ تو میں بھی سمجھ نہیں سکی۔

    اس رات۔۔۔ میں نے رضا کی بڑی منتیں کی، مگر وہ سخت سردی میں گھر سے نکلنے پر تیار نہ ہوئے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ رضا نے تمہارے وجود کو ابھی تک دل سے قبول ہی نہیں کیا تھا مگر میرے لیے تو تم انمول تھیں۔ میں نے جلدی سے خود کو چادر میں لپیٹا اور دروازے کی طرف قدم بڑھا دئیے۔ تب رضا غصے میں بڑبڑاتے ہوئے تیزی سے آئے۔ ’’تم کہاں جا رہی ہو۔۔۔ میں لاتا ہوں ڈاکٹر کو۔۔۔‘‘

    تمہارے چہرے کی سرخی مجھے پریشان کر رہی تھی۔ میں بہت گھبرا رہی تھی۔ تمہارا بدن مسلسل جل رہا تھا۔

    کچھ ہی دیر میں رضا ڈاکٹر کو لے آئے۔ تمہیں ایک سو تین بخار تھا۔ کچھ دوائیں کھلانیاور ایک انجکشن لگانے کے بعد تمہیں کافی آرام آ گیا تھا۔

    اس رات نیند میری آنکھوں کی راہ بھول گئی تھی۔ رضا برابر میں آرام سے سو رہے تھے۔ تم بھی دوا کھا کرکچھ پرسکون نظر آ رہی تھیں اور میں اکیلی، رات کا دامن آنسوؤں سے تر کرتی رہی تھی جانے کب تک۔۔۔

    اگلی صبح جب میں تمہارے کمرے میں آئی تو تم مسکرا رہی تھیں۔

    ’’یہ کیا امی۔۔۔ آپ اتنی اداس کیوں نظر آ رہی ہیں؟ آپ کی آنکھیں بتا رہی ہیں کہ آپ بہت روئی تھیں۔ امی میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی۔ دیکھا آپ نے اس نے مجھے کتنی جلدی ٹھیک کر دیا۔ اب آپ اداس مت ہو جائیے گا۔ آپ کی بیٹی بالکل ٹھیک ہے۔‘‘

    میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے گال چوم لیے۔ ’’میری رمیا۔۔۔! میری جان۔۔۔!‘‘

    دوسرے دن تمہارے اسکول جانے کے بعد میں تمہارے پاپا سے بہت لڑی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ انہیں تمہارا خیال رکھنا چاہیے، تمہارے ساتھ باتیں کرنی چاہیے مگر وہ میری باتوں کو نظر انداز کر گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایک خوب صورت سا ہنستا مسکراتا بیٹا چاہیے تھا۔

    مگر رمیا جان۔۔۔! یہ میرے بس میں کہاں۔۔۔ میں ان کی یہ خواہش پوری نہیں کر سکی اور نہ ہی تمہاری احساس محرومی کو دور کر سکی۔

    شاید میں مکمل ماں ہونے اور مکمل بیوی، دونوں کے فرائض نبھا نہ سکی۔ تمہارے گود میں آنے کے بعد میں رضا سے غافل ہو چکی تھی۔ مجھے تمہارا ساتھ اچھا لگنے لگا تھا۔ شاید اسی لیے رضا مجھ سے کھنچے رہنے لگے۔ ہر وقت شکوے شکایتیں کرتے، تم سے تو وہ مسلسل بے اعتنائی برتتے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ میں ان پر تمہیں ترجیح دیتی ہوں۔ حالاں کہ ایسا نہیں تھا۔ ان کے لیے میرے دل میں ہمیشہ محبت رہی اور تم، تم تو میرا ہی جزو تھیں۔

    یہ انہی دنوں کی بات ہے جب سخت گرمیوں کے دن تھے۔ اسکول کی چھٹیاں تھیں، تم اور میں تاریک سی رات کو لان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

    ’’امی۔۔۔ میری مس کہتی ہیں کہ چاند کی روشنی میں ستاروں کی چمک ماند پڑتی جاتی ہے۔‘‘

    ’’ہاں جان۔۔۔! چاند کی روشنی ستاروں سے تیز ہوتی ہے نا، بس اسی لیے۔‘‘

    ’’جیسے چاند کی روشنی سورج سے کم ہوتی ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔!‘‘ میں نے بڑے رسان سے جواب دیا۔

    ’’امی مجھے تو چاند بننا تھا، اب تو میں صرف ستارہ بن کر رہ جاؤں گی۔‘‘ اس نے فکر مندی کے عالم میں کہا۔

    ’’یہ کیا بات ہوئی رمیا۔۔۔؟‘‘ میں نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔

    ’’امی میں سمجھی تھی کہ آپ اور پاپا دونوں سورج کی طرح ہیں، آپ دونوں الگ الگ ہو کر بھی ایک ہیں مگر میں غلط تھی۔ اب میں سوچتی ہوں کہ پاپا سورج ہیں، ان کی دن پر حکمرانی ہے، وہ دن بھر چمکتے رہتے ہیں، آپ کو ڈانٹتے بھی ہیں۔۔۔ اور آپ بالکل چاند جیسی ہیں۔ آپ رات ہوتے ہی رونے لگتی ہیں، دن بھر کی باتیں آنسوؤں سے شیئر کرتی ہیں۔ اب ایسی صورت میں۔۔۔ میں تو صرف ایک ستارہ ہی بن سکتی ہوں۔ جو کبھی چمکتے ہیں اور کبھی ماند پڑ جاتے ہیں۔‘‘

    میں ششدر بیٹھی تمہاری باتیں سن رہی تھیں۔

    ’’رمیا۔۔۔! تم کیوں ایسا سوچتی ہو؟‘‘ میں نے چونک کر حیران نظروں سے تمہاری طرف دیکھا تھا اور تم میرے اس سوال پر بے اختیار رونے لگی تھیں۔

    ’’رمیا کیا بات ہے؟ تم اندر ہی اندر کیا سوچتی رہتی ہو۔ مجھے بتاؤ نا بیٹا؟‘‘

    مگر تم خاموشی سے کمرے میں چلی گئی۔ آج تک میرے لیے اس رات کے آنسو معمہ بنے رہے۔ تم ذہین تو تھیں مگر اتنی ذہانت۔۔۔ اتنی سی عمر میں تم کیسی باتیں کرنے لگی تھیں۔

    اسی دن آدھی رات کو میں تمہارے کمرے میں گئی تھی۔ تم قلم اور کاغذ لیے بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی تم چونک گئی تھیں۔

    ’’کیا ہو رہا ہے؟‘‘ میں نے تمہارے نزدیک بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔’’امی میں نظم لکھ رہی تھی۔ مجھے Poets بہت اچھے لگتے ہیں۔ میری ٹیچر کہتی ہیں کہ تمہاری باتیں پوئٹری کی طرح ہوتی ہیں۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔! تو میری بیٹی نے کیا لکھا ہے؟‘‘ میں نے اس کے ہاتھ سے کاغذ لے لیا۔ لکھا تھا۔۔۔

    پاپا سورج ہیں

    میں پیار سے ان کی طرف نہیں دیکھ سکتی

    کیوں کہ سورج کی روشنی تیز ہوتی ہے ناں!

    امی چاند ہیں

    ان کی طرف جب دیکھو

    سکون کا احساس ہوتا ہے

    سورج جب رات کے دل میں آگ لگاتا ہے

    تو ستارے گھبرا کر

    رات کے آنچل میں بکھر جاتے ہیں

    پھر

    سہما سہما چاند آجاتا ہے

    اور

    سارے ستارے اس کی آغوش میں

    پناہ لے لیتے ہیں

    میں نے چونک کر رمیا کو دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے اچانک ہی وہ بہت بڑی ہو گئی ہے۔

    ’’امی نظم اچھی ہے ناں؟‘‘

    میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کیا کہوں۔

    ’’امی مجھے پاپا سے بہت ڈر لگتا ہے۔ وہ میری دوستوں کے پاپا جیسے کیوں نہیں ہیں؟ وہ مجھ سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ کیا میں اتنی بری ہوں؟‘‘

    ’’نہیں بیٹا تم تو بہت پیاری ہو۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے تمہیں پیار کیا تھا۔

    ابھی بھی تمہاری نظم میرے ہاتھوں میں ہے اور میں سوچتی ہوں کہ تمہارے پاپا کتنے بدنصیب ہیں جو اتنی پیاری سی بیٹی کے پیار سے محروم رہے۔ کاش انہوں نے کبھی تو تمہیں جاننے کی کوشش کی ہوتی۔ کبھی تو تمہارے سر پر ہاتھ رکھ کر باپ کی اہمیت کا احساس دلایا ہوتا۔ تم تو اتنی پیاری تھیں کہ تمہارے پاپا کی ساری محرومیاں دور ہو جاتیں۔ انہیں یقیناً تم پر فخر ہوتا کہ تم ان کی بیٹی ہو۔ کاش ایسا ہو جاتا۔۔۔ کاش۔۔۔

    میں نے مٹھی بھینچ کر اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا لیا۔

    مجھے اس بات کا بڑی شدت سے احساس تھا کہ تم خود کو بہت تنہا محسوس کرتی ہو۔ تمہارے اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا جو تم اکثر دہرایا کرتیں۔

    ’’امی میری اور بہنیں اور بھائی کیوں نہیں ہیں؟‘‘

    میں اب تمہیں کیسے سمجھاتی کہ اللہ کی مرضی کے بغیر یہ ممکن نہیں۔

    تم ان دنوں پہلے سے زیادہ الجھی الجھی نظر آتی تھیں۔ میں تمہیں دیکھ کر پریشان سی ہو جاتی مگر تم جلدی سے مسکرا کر مجھے مایوسی کے بھنور سے نکال لیتیں۔

    ان دنوں تمہاری سہیلی پمی اکثر تمہارے ساتھ ہوتی۔ پمی کے ذکر سے یاد آیا، وہ تمہارا دسواں برتھ ڈے تھا۔ تم اس دن بہت خوش نظر آ رہی تھیں۔ ایسی خوشی میں نے تمہارے چہرے پر بہت کم دیکھی تھی۔ تم نے، پمی نے اور میں نے مل کر پورے گھر کو سجایا تھا۔ اس دن ڈھیر سارے غبارے، تم نے پمی کو دیتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’یہ غبارے تم اپنے چھوٹے بھائی کو دے دینا۔‘‘

    ’’مگر وہ تو بہت چھوٹا ہے۔‘‘ پمی نے معصومیت سے جواب دیا۔

    ’’تو کیا ہوا۔۔۔ کیا چھوٹے بھائی غباروں سے خوش نہیں ہوتے؟‘‘

    ’’ہاں کیوں نہیں۔۔۔ پمی لے جاؤ نا۔‘‘ میں نے جلدی سے پمی کو دروازے کی طرف بڑھا دیا۔

    تمہارا دل شاید تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ شاید اسی لیے تم سینے پر ہاتھ رکھے ٹیبل کیکونے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ مجھے تمہاری حساس طبیعت کا اندازہ تھا۔

    ’’آؤ رمیا۔۔۔ چل کر کیک کی ڈیکوریشن کر لیں۔‘‘

    ’’نہیں امی۔۔۔میرا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘ تم اچانک ہی افسردہ ہو گئی تھیں۔

    پھر شام کو مہمانوں کی آمد تک تمہیں تیز بخار ہو گیا۔ تم بار بار اپنا ہاتھ گلے تک لے جا رہی تھیں۔ میں سب کچھ بھول کر تمہیں اسپیشلسٹ کے پاس لے کر بھاگی۔ پورے ہفتے اسپیشلسٹ نے فیس وصول کیں، مختلف چیک اپ کیے، مختلف میڈیسن بھی دیں مگر تمہاری تکلیف کم نہیں ہوئی۔

    تمہاری حالت بہت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ تمہارے لیے بیڈ ریسٹ ضروری تھا۔ گلے کی تکلیف کی وجہ سے تم کچھ کھا بھی نہیں سکتی تھی۔ ان دنوں لیٹے لیٹے تم نے کتنی ساری نظمیں لکھی تھیں۔ تتلیوں، پھولوں، کلیوں، کھلونوں، پمی کے بارے میں، پمی کے بھائی اور میرے بارے میں۔ تم کہا کرتی تھیں کہ تم اپنے پاپا کے بارے میں بہت کچھ لکھنا چاہتی ہو مگر ان کے لیے سوائے تلخی کے، تمہارے ذہن میں کچھ نہیں آتا۔ پھر تم گھبرا کر قلم چھوڑ دیا کرتیں اور رونے بیٹھ جاتیں۔ میں آگے بڑھ کر تمہیں سینے سے لگا لیا کرتی۔ ’’رمیا ایسے نہیں روتے، تم جلد ٹھیک ہو جاؤگی اور پھر تمہارا ذہن پاپا کے بارے میں خود بخود ہی نظم کہنے لگےگا۔‘‘

    ’’جی امی۔۔۔!‘‘ تم اچانک ہی چپ ہو جاتیں اور آنسو پونچھ لیا کرتیں اور پھر مزے مزے سے اپنی نظمیں سنانی شروع کر دیتیں۔

    پھر یک دم ہی تمہیں بولنے میں تکلیف محسوس ہونے لگی۔ ان دنوں میں نے رضا کی خوب منتیں کیں، تب وہ بڑی مشکل سے تمہارے پاس آئے مگر شاید دیر ہو چکی تھی۔

    تمہاری حالت کافی خراب تھی۔ تم اپنے پاپا کے وجود سے گھبرانے لگی تھیں۔ پھر تمہاری حالت دیکھ کر رضا بھی متفکر ہو گئے۔ وہ بڑے ہی غصے میں ڈاکٹر کے پاس گئے اور جب لوٹے تو وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ان کا یہ حال دیکھ کر میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

    ’’کیا کہتے ہیں ڈاکٹر۔۔۔؟‘‘ میں نے گھبرا کر سوال کیا۔

    ’’رمیا کی رپورٹس دیکھنے کے بعد ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس کا مرض لاعلاج ہے۔ ڈاکٹر ناامیدی ظاہر کر رہے تھے۔ کیس کافی بگڑ چکا ہے۔‘‘

    یہ خبر سنتے ہی میرا سانس اکھڑنے لگا۔ میرا دل چاہا کہ میں آگے بڑھ کر ان ڈاکٹروں کے گلے دبا دوں۔ میری بیٹی کے گلے کی معمولی تکلیف اور اس کا یہاں کوئی علاج نہیں؟

    میں گھبرا کر تمہارے کمرے میں آئی۔ تم گہری نیند میں تھیں۔ میں کتنی دیر تک تمہارے سرہانے بیٹھی رہی۔ تمہاری زندگی کے لیے بھیک مانگتی رہی۔ رو رو کر اللہ سے دعائیں کرتی رہی۔ شاید میرے رونے کی وجہ سے تمہاری آنکھیں کھل گئی تھی۔ تم نے مجھ سے کہا تھا۔

    ’’امی جان۔۔۔! آپ وعدہ کریں کہ آیندہ نہیں روئیں گی۔‘‘

    ’’ہاں جان۔۔۔ بس جلدی سے تم ٹھیک ہو جاؤ۔‘‘

    ’’نہیں مما۔۔۔ میں تو پرانی ہو گئی ہوں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں ناں کہ وہ آپ کو پمی کے بھائی جیسا ایک منا دے دیں۔ میں نے آج رو رو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی ہے کہ آپ مجھے بلالیں لیکن میری امی کو پمی کے بھائی جیسا ایک منا دے دیں۔ پھر پاپا بھی خوش ہو جائیں گے، مجھے پاپا بہت اچھے لگتے ہیں، میں انہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘

    میری آنکھوں سے آنسو خشک ہو چکے تھے۔ تمہاری باتیں مجھے رلاتی نہیں، بلکہ میرا جگر کاٹتی تھیں۔

    ’’اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘ میں نے پیار سے اور ضبط کے عالم میں تمہارے سر پر ہاتھ پھیرا۔

    ’’امی میں اس تکلیف سے تنگ آ گئی ہوں۔ مجھے اب آرام چاہیے۔‘‘ اس کے الفاظ کی ادائیگی آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی تھی۔

    اس رات ہم دونوں ایک دوسرے کو تسلیاں دے رہے تھے۔ تمہیں درد کی شدت نڈھال کر رہی تھی اور مجھے تمہارا درد اور جدائی کا احساس نڈھال کر رہا تھا۔

    اے میرے اللہ تو نے میرے قدموں تلے جنت بنا دی ہے تو کیوں اس جنت کے مکین کو اپنے پاس بلانا چاہتا ہے، آخر کیوں مجھ سے میری کائنات جدا کرنا چاہتا ہے۔ ابھی تو یہ کتنیچھوٹی ہے، اسے ایسا درد، ایسا کرب کیوں دیا؟ کیوں اسے اتنا حساس بنا دیا؟ یا پھر میری دعاؤں اور منتوں میں کہیں کوئی کمی رہ گئی تھی۔۔۔

    اچانک ہی تمہاری درد بھری آواز میرے کانوں میں گونجی۔ میں نے گھبرا کر تمہاری نبض پر ہاتھ رکھا، نبض چل رہی تھی۔ پھر اچانک ہی تمہارے درد میں کمی آ گئی۔ تم نے بڑی مشکل سے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا تھا۔ ’’آپ میری فکر نہ کریں۔ پاپا کے پاس جائیں۔ انہیں کافی کی طلب ہو رہی ہوگی۔‘‘

    ’’نہیں جان۔۔۔! میں یہاں تمہارے پاس ہوں۔‘‘ میں نے تمہارا سر اپنے زانو پر رکھ لیا اور آہستہ آہستہ سر سہلانے لگی۔

    تم تھوڑی ہی دیر میں سو گئی تھیں۔ میں نے تمہیں آرام سے لٹایا۔ مبادا کہیں تمہاری آنکھ نہ کھل جائے اور پھر لان میں ٹہل کر، کبھی مصلے پر بیٹھ کر تمہاری صحت کی دعائیں مانگنے لگی۔

    معجزے بھی تو اس دنیا میں ہوتے ہیں، ایسے ہی معجزے کی امید لگاتے لگاتے صبح ہو گئی اور کتنی عجیب سی بات ہے کہ صبح پمی ڈھیر سارے پھول لیے دروازے پر کھڑی تھی۔ میں نے مسکرا کر اس کا استقبال کیا تو وہ بھاگتے ہوئے تمہارے کمرے میں چلی گئی۔ پھر اس کے چلانے کی آوازیں آئیں۔

    ’’آنٹی دیکھیے۔۔۔ رمیا کو کیا ہوا ہے، وہ بولتی نہیں ہے۔‘‘

    میں گھبرا کر تمہارے کمرے میں آئی تھی۔ پھر جانے کیا ہوا۔۔۔ مجھے یاد نہیں۔۔۔

    جانے اتنے سارے لوگ کہاں سے آ گئے تھے۔۔۔ سب رو رہے تھے۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تھا، بہت سے لوگ، تمہیں چارپائی پر سفید چادر میں چھپائے لیے جا رہے تھے۔ سب خاموش تھے، اداس تھے، چپ چاپ۔۔۔ آہستہ آہستہ۔۔۔

    میں اتنا طویل خواب دیکھ رہی تھی جو ختم ہی نہیں ہونا چاہتا تھا۔ شاید منے کے رونے کی آواز نے میرا تسلسل توڑ دیا۔ آج تم سے جدا ہوئے تیسرا سال ہے۔ میری اداس نظریں کھڑکی سے باہر نوزائیدہ کلیوں میں اٹکی ہوئی تھیں۔ جو ہواؤں کے جھکڑ سے ٹہنی پر لرز رہی ہیں۔

    میں آگے بڑھ کر انہیں گرنے سے روکنا چاہتی ہوں مگر مجھے پتا ہے کہ میں ا یسا نہیں کر سکتی۔۔۔ تمہیں بھی تو روک نہیں سکی تھی۔

    میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں، احساس محرومی تمہیں لے ڈوبا اور میں احساس ندامت کے شکنجے میں اب تک جکڑی ہوئی ہوں۔

    اور یہ شکنجہ تو اب اور بھی مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ جان۔۔۔ تمہاری دعائیں قبول ہو گئی ہیں، پمی کے بھائی جیسا ایک چھوٹا سا، پیارا سا تمہارا بھائی میری گود میں رو رہا ہے۔ جانے تمہیں جانے کی اتنی جلدی کیوں تھی۔

    اگلے ہفتے تمہارا جنم دن ہے، تمہارے جنم دن کو یاد کر کے تمہارے پاپا بھی بہت افسردہ ہیں۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے، وہ اب تمہاری نظمیں، تمہاری باتیں، تمہارے خیال، میرے ساتھ شیئر کرنے لگے ہیں۔ میں تمہاری نظمیں تمہارے بھائی کو جب سناتی ہوں تو وہ مسکراتے ہوئے آں غوں کرتا ہے۔

    اگلے ہفتے تمہارا جنم دن ہے۔ تم یوں کرو، تھوڑی سی دیر کے لیے آ جاؤ۔۔۔ پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی تمہاری دوست پمی ڈھیر سارے پھول لیے آئےگی۔ تمہارے پاپا نے تو کیک کا آرڈر بھی دے دیا ہے۔

    ابھی مجھے گھر بھی تو سجانا ہے۔ اب مجھے کیا معلوم اتنے سارے غبارے کہاں لٹکانے ہیں اور کس کس کو دینے ہیں۔ تم آ کر میری مدد کروگی ناں۔۔۔!

    دیکھو میں تمہیں زیادہ دیر نہیں روکوں گی۔ بس تھوڑی سی دیر کے لیے ہی۔۔۔

    میں۔۔۔ تمہارے پاپا اور چھوٹا سا تمہارا بھائی، ہم سب اگلے ہفتے تمہارے برتھ ڈے پر تمہارا انتظار کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ تم ضرور آؤگی۔۔۔ آؤگی نا۔۔۔؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے