Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک تھکی ہوئی عورت

ذکیہ مشہدی

ایک تھکی ہوئی عورت

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    یہ محبت کی شادی کی کہانی ہے۔ اجے وسوندھرا کے بھائی کا دوست ہے اور وسوندھرا اس سے محبت کرنے لگتی ہے، اجے بھی اس سے محبت کرتا ہے اور دونوں شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ ایک سال بعد ہی وسوندھرا کو احساس ہوتا ہے کہ اس نے اجے سے شادی کر کے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔

    حسب معمول اس رات بھی وسندھرا نے اپنی سہاگ رات کا تصور کیا اور اجے کی طرف کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔ کانچ کی سرخ چوڑیوں کے جگر جگر کرتے ننھے ننھے ٹکڑے تصور کی آنکھوں کے سامنے ناچ اٹھے جیسے ستارے ٹوٹ کر شرارے چھوڑ رہے ہوں۔ اس نے ننداسی آنکھوں کو ایک مرتبہ پھر کھول کر اس اجنبی کو چھوا جو اس کے قریب سو رہا تھا اور بڑے دکھ سے سوچا کہ کیا یہی شخص تھا جو اس انوکھی، اچھوتی، کبھی دوبارہ واپس نہ آنے والی رات کو اس کے ساتھ تھا اور جس کو اس نے انتہائی محبت اور دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اپنا جسم سپرد کیا تھا۔

    وسندھرا کا مطلب ہوتا ہے دھرتی۔۔۔ اکثر اس کے کانوں میں سنجیدہ، بوڑھے سفید پوش برہمن ماسٹر جی کی آواز گونج جاتی۔ جب وہ کوئی دس برس کی تھی تو اس کی دوست مدھو نے بتایا تھا کہ اس کے نام کا مطلب ہے شہد۔ تب ہی اس کو بھی سوجھا تھا کہ ماسٹر جی سے اپنے نام کے معنی پوچھے لیکن معنی سن کر وہ کچھ اداس سی ہو گئی۔ دھرتی تو بہت دکھ جھیلتی ہے۔ نہ جانے کتنی بار اس کی چھاتی پھٹتی ہے، نہ جانے کتنے قدم اس کو روندتے ہیں اور اس کے یہ کنے ر پر پاپا بولے تھے، ’’بھئی بڑی قنوطی مزاج ہے یہ لڑکی۔ کچھ شاعر و اعر بنےگی کیا؟‘‘ وسندھرا شاعر تو نہیں بنی لیکن اس کے مزاج میں جو اداسی رچی تھی وہ ہمیشہ یوں ہی رہی۔ اجے سے بیاہ ہو جانے کے بعد بھی اکثر وہ سوچتی کہ میں جویوں دکھی رہتی ہوں تو اس میں لوگوں کا ہاتھ ہے، حالات کا ہاتھ ہے یا صرف میرے اپنے مزاج کا۔ اس کی زندگی میں جب بھی کوئی سکھ کا لمحہ آتا (اور سکھ کے لمحے چند برس پہلے تو اکثر آتے رہتے تھے۔) تو وہ اسے پی جانا چاہتی۔ ان لمحوں میں جو صورتیں سامنے ہوتیں، انہیں آنکھوں میں اتار لینا چاہتی۔ اس کا ذہن ایک ایک گھڑی کا رس نچوڑ لینا چاہتا لیکن کوئی کان میں پکارتا رہتا، ’’یہ سب بیت جائےگا۔ یہ سب بیت جائےگا اور تب تو سوچےگی کہ کیسا تھا وہ وقت۔ کہاں گئے وہ لمحے۔ کیا کبھی وہ وقت آیا بھی تھا؟‘‘ اور وہ کچھ ایسا گھبراتی کہ سکھ کے لمحے ہاتھ سے پھسل پھسل پڑتے۔ چکنی مچھلیوں کی طرح یہ لمحے ہات سے پھسلتے اور غڑاپ سے وقت کے دھارے میں غائب ہو جاتے۔ پھر ان کا پتہ نہ ملتا اور جب تصور کی آنکھیں انہیں سامنے لانا چاہتیں تو ان کے آگے دھند کی دبیز چادر پھیل جاتی، سر دکھتا سب کچھ مگر کچھ ایسے جیسے دکھائی دیگر بھی نہ دکھائی دے رہا ہو۔

    دھند کی اسی چادر کے پیچھے سے وہ اکثر اجے کو دیکھا کرتی تھی۔

    اجے اس کے بھائی بمل کا دوست تھا اور اکثر شام کو ان کے یہاں آجاتا۔ یہ وہ وقت تھا جب وسندھرا نے کالج جانا شروع کیا ہی تھا۔ ماں تربیت کے لئے اسے زبردستی کچن میں بھیجتیں۔ بمل کے دوست بیٹھے ہوتے تو بس ہر گھڑی چائے اور ناشتہ۔ وسندھرا چائے کی ٹرے رکھتے ہوئے اجے کو دیکھتی تو اس کا دل چاہتتا کہ وقت تھم جائے۔ آنکھیں اس موہنی مورت کو اتارلیں اور وہ وہاں ہمیشہ کے لئے یوں جم جائے جیسے چٹانوں میں Fossils۔ وسندھرانے بی۔ اے میں اینتھروپالوجی (Anthropology) کے ساتھ انگریزی ادب بھی لیا تھا لیکن اجے کو دیکھ کر ادب سو جاتا اور اینتھروپالوجی غالب آ جاتی۔ اسے بس یہ محسوس ہوتا تھا کہ ہزاروں سال سے اجے کا نام اور اس کی تصویر دل میں اتر چکے ہیں اور اس احساس کے وقت اسے اجے جیسا وجیہہ اور زندگی سے بھرپور لڑکا بس Fossil ہی معلوم ہوتا تھا۔ نہ جانے کب، کیوں اور کیسے ایسا ہوا کہ اجے نے اس کے جذبے کو پہچان لیا۔ جس وقت اس نے پہلی مرتبہ اظہار محبت کیا تھا وہ لمحہ بھی وسندھرا کو وقت کی چادر کے پیچھے سے دھندلا دھندلا سا دکھائی دیتا تھا۔ اس وقت وہ مسرت کی زیادتی سے خوف زدہ ہو گئی تھی۔ اجے کی آواز اسے کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔

    ’’تو سمجھتی ہے وسوکہ محبت صرف لٹریچروالے کر سکتے ہیں۔ کیا بایوکیمیسٹری پڑھنے والوں کے پاس دل نہیں ہوتا۔ ‘‘ اور اس نے اپنا ہاتھ وسندھرا کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس وقت کسی مضبوط درخت کے تناور تنے جیسے اس ہاتھ میں لرزش تھی اور وسندھرا کا پورا جود کسی نازک بیل کی طرح کبھی دائیں جھول رہا تھا اور کبھی بائیں۔ اس وقت بہت خوف زدہ ہو کر اس نے سوچا کہ یہ لمحہ بیت جائےگا۔ وہ اس ’آج‘ کو اس ’ابھی‘ کو ذہن میں محفوظ کرے ورنہ کل۔۔۔ یاکل کویں بس چند مزید لمحوں کے بعد یہ لمحہ گذر چکا ہوگا ٹھہرجا۔ اے وقت ٹھہر جا اور اس نے کانپ کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔

    شادی کی تمام رسموں اور ہنگاموں میں اس کے ذہن میں صرف ایک ہی بات تھی۔ اجے اس کا ہے۔ وہ اس کو چھو سکے گی، جی بھر کر دیکھ سکے گی۔ اس کی بیوی کہلائےگی۔ یہ ٹھوس حقیقت ہاتھ سے چکنی مچھلی کی طرح پھسل کر بھاگےگی نہیں مگر مسرت کے لمحات پھر بھی اس سے بھاگتے رہے۔ جل پریوں کی طرح ناچتے، پاس آتے مگر رکتے نہیں۔ بہتے ہوئے دور چلے جاتے اور ایسی ہی ایک جل پری اس کی سہاگ رات بھی تھی۔ چوڑیوں سے سہاگ رات کا تصور ہونا فطری بات ہے مگر وسندھرا کا تصور چوڑیوں کے ننھے ننھے ٹکڑوں سے وابستہ تھا۔ اجے کی پہلی دست درازی میں ہی چار چھ چوڑیاں اکٹھی کھن کھن کرتی نیچے آ رہیں اور وسندھرا بے اختیار مسکرا دی۔ یہ اس قدر شریف، اس قدر کم گو، اس قدر گہرا اجے بھی کیسا جانور جیسا بن گیا ہے لیکن اس وقت اسے وہ جانور ہی بہت پیارا لگا۔ اس کے گھنے بالوں میں منہہ چھپاتا ہوا اجے، اس کے لبوں کا بوسہ لیتا ہوا اجے، اس کے کانوں میں خوبصورت لیکن بے معنی باتین کرتا ہوا اجے اور پھر یہ جانور اجے۔ اسکی ساری تصویریں آنکھیں بند کر کے آنکھوں میں اتار لیں۔ سارے لمحوں کا رس نچوڑ کر دل کے پیالے میں بھر لیا۔ صبح منہہ اندھیرے اٹھ کر اس نے چوڑیوں کے ٹکڑوں کو اکٹھا کیا۔ ہتھیلی پر رکھ کر دیر تک انہیں دیکھا پھر چوم کر ونیٹی کیس میں رکھی انگوٹھی کی ڈبیہ میں مقید کر لیا۔ لمحے پھر بھی بھاگ گئے۔ ان کا سب سے پہلا جھگڑا اسی بات پر ہوا تھا اور آخر بھی اسی بات پر۔ نہ جانے کیوں سال پورا ہوتے ہی وسندھرا کو محسوس ہونے لگا تھا کہ اجے کی چاہت کا رنگ پھیکا پڑنے لگا ہے۔ وہ پہلے بھی بہت سنجیدہ تھا، جذباتی کبھی نہیں تھا لیکن ایسا بھی کیا۔ وسندھرا کو لگتا جیسے شاخ پر پھول تو موجود ہے لیکن دھوپ سے اس کا رنگ اڑنے لگا ہے اور خوشبو بکھر چکی ہے پھیکا پھیکا سا بےرنگ و بو پھول۔ اسے اجے سے واحد شکایت یہی تھی کہ اس کے پیار میں گرم جوشی نہیں رہی ہے۔ وہ جھگڑتی، روتی، طعنے دیتی اور وہ خاموشی سے سنتا رہتا۔ کبھی کبھی ایک آدھ جملہ بولتا بھی مگر بےحد مختصر اور چبھتا ہوا پھر بت بن کر یا تو اخبار میں غرق ہو جاتا یا بایوکمیسٹری کی کسی موٹی سی کتاب میں اور وسندھرا حیران حیران سی ہو کر سوچتی کہ اس سے غلطی کہاں ہوتی ہے۔ اجے کہتا ہے کہ میں توتجھے اتنا ہی پیار کرتا ہوں جتنا پہلے کرتا تھا اگر تجھے محسوس نہیں ہوتا تو یہ تیری کم عقلی ہے۔ ان الفاظ میں سچائی ہے تو پھر یہ محض الفاظ کیوں محسوس ہوتے ہیں۔ روح سے خالی اور بے جان الفاظ جیسے کسی کا دل رکھنے کو کہہ دیے گئے ہوں یا ہر بات کے جواب میں احمق، خبطی، کم عقل کہلائے جاتے ہونے سے اس کی عقل واقعی خط ہو گئی ہے اور اسے اجے کی محبت کا احساس نہیں ہوتا یا اس کی عقل اس وقت بھی خبط تھی جب اس نے اس زمین کی پوجا کی تھی؛ جہاں اجے چلا تھا۔

    بچوں کے آنے کے بعد سے جیسے اس کے اور اجے کے درمیان ایک واضح درار آ گئی تھی۔ وہ آفس سے آتا تو دونوں بچوں کو تھام لیتا۔ ٹور پر جاتا تو ننھی پنکی کے گالوں پر بوسہ دیتا۔ پاس کھڑی وسندھرا کے حصے میں آتی ایک نگاہ غلط انداز۔ اجے کا کہنا تھا کہ اسی نگاہ میں گہری محبت ہوتی ہے اور وسندھرا کو لگتا کہ بس وہ ایسی ہی نظر ہوتی ہے جیسی لوگ آس پاس کی چیزوں پر صرف اس لئے ڈال لیتے ہیں کہ وہ آس پاس موجود ہوتی ہیں۔ اسے لگتا جیسے ایک بے نام سی اداسی اس کے دل میں در آئی ہے، دبے پاؤں، بغیر دستک دیے، بغیر اجازت لئے۔ شام اداس ہوتی ہے، دھوپ اداس ہوتی ہے۔ ہوا کی سائیں سائیں دل میں کوئی چھپا ہوا درد جگاتی ہے۔ اسے لگتا وہ آنکھ مچولی کا کھیل کھیل کھیلتی ہوئی ایک ننھی سی بچی ہے جسے کونے میں چھپتے وقت کسی نے ’ہو‘ کر کے ڈرا دیا ہے۔ اس کا جی چاہتا اجے کی چھاتی میں منہہ چھپا لے اور کہے کہ اسے ڈر لگ رہا ہے اور اس کا جی اداس ہے لیکن پھر وہ سوچتی کہ کہیں اجے نے ’احمق ہو تم، کہہ کر اخبار میں منہہ چھپا لیا تو دھرتی کی چھاتی دو ٹکڑے ہو جائےگی۔ ہوسکتا ہے شادی کے بعد سب ہی مرد ایسے ہو جاتے ہوں۔ وہ کس سے پوچھے کہ شادی شدہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔ اجے بہت شریف ہے کبھی اونچی آواز سے نہیں بولتا، کوئی ایسی تکلیف نہیں پہونچاتا جس پر انگلی رکھی جا سکے۔ اب اگر کسی سے وسندھرا کہے کہ وہ چاہتی ہے کہ اجے اسے پکارے تو اس کی آواز میں وہی شہد ہو جو اظہار محبت کے پہلے کنوارے بولوں میں تھا، وہ اس کی طرف دیکھے تو آنکھوں میں دیپ جل اٹھیں، وقت بے وقت وہ اس کاندھوں پر ہاتھ رکھ دے، جسم کی طلب نہ ہو تو بھی اسے پیار کرے، تو پتہ نہیں فیصلہ وسندھرا کے حق میں ہو گا یا نہیں۔ اجے سے وہ یہ سب کہتی ہے تو جواب ملتا ہے تم فلم زدہ ہو۔ میں کیا فلمی گیت گاؤں تب ہی تم سمجھوگی کہ تم سے پیار کرتا ہوں۔ وسندھرا سن سے ہو جاتی ہے۔ دل کے اندر کچھ ٹوٹ ساجاتا ہے۔ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے تو گڈو سو جاتا ہے تو وہ اجے کی طرف مڑتی ہے۔ اجے حسب معمول دوسری طرف رخ کر کے سو چکا ہوتا ہے۔ ایک بازو آنکھوں پر رکھا ہوا ہوتا ہے۔ وسندھرا کو شدید جھنجھلاہٹ ہوتی ہے مگر آنسو پیتی وہ اجے کی پشت سے چمٹ کر سونے کی کوشش کرتی ہے۔ شادی کے بعد سے ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے کہ جب تک وہ اجے کے گرد اپنے بازو نہ ڈال لے اسے نیند نہیں آتی مگر کیسا پتھر ہے یہ شخص۔ اسے چھوئے بغیر ہی سو جاتا ہے یہ بھی نہیں کہتا کہ وسندھرا تو کب آ رہی ہے ادھر۔ جلدی سے آجا۔ مجھے تو نیند آ چلی ہے۔ ایسا ہو تو ساری شکایت دورنہ ہو جائے۔ دل کیسا پگھل اٹھے۔

    مگر وہ کس سے پوچھے کہ کیسے ہوتے ہیں شادی شدہ مرد؟ اس کی ایک ہی سہیلی ہے مدھو جو یہاں ہے مگر اسے شوہر کی پروا نہیں۔ اپنے ریسرچ پیپرز زیادہ عزیز ہیں۔ رہی ماں تو وہ آج پانچ برس ہو جانے پر بھی بھگوان کی آرتی اتارتے وقت ان کا شکر ضرور کرتی ہے کہ انھوں نے اس کی اکلوتی لاڈلی بیٹی کو کیسا اچھا دولہا دیا ہے۔ نیک، کماؤ، سوشیل۔ اگر وسندھرا ماں سے کہے کہ ماں میرے دل کو چین نہیں ہے تو ماں صرف یہی سوچیں گی کہ ان کی پیاری بیٹی کا دماغ چل گیا ہے۔

    اس سے تو اچھا تھا کہ اس کی شادی کہیں اور ہوتی۔ اجے کے دل میں سدا ہی اس کی چاہت برقرار رہتی۔ تب وہ بکھرے بال والی، ڈھلکے آنچل والی، بچے کو دودھ پلاتی وسندھرا کو نہ دیکھ پاتا۔ اس کے دل میں سدا اس لڑکی کی موہنی مورت رہتی جس کے سلونے چہرے پر کشش تھی اور آنکھوں میں چمک۔ تب شاید وہ اپنی بیاہتا بیوی کی طرف سے کروٹ بدل کر سوتا تو اس کے دل میں وسندھرا کی شبیہہ بجلی کی طرح کوندتی اور دل کو منور کر جاتی۔ ایسا ہوتا تب ہی اچھا تھا۔

    بھاری دل کے ساتھ وہ ایک بار پھر اپنی سہاگ رات کو یاد کرتی ہے۔ ہاتھ بڑھا کر ان لمحوں کو پکڑ لینا چاہتی ہے جو پانچ سال پہلے ایک مرتبہ اس کی زندگی میں آئے تھے مگر وہ تو چمکیلی مچھلیوں کی طرح آنکھوں کے آگے ناچتے ہیں اور غڑاپ سے وقت کے دھارے میں بہتے ہوئے دور چلے جاتے ہیں۔ آنسو پیتے ہوئے وہ کروٹ بدلتی ہے اور اجے کی پشت سے چمٹ کر سو جاتی ہے۔

    مأخذ:

    (Pg. 37)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے