aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گیت گھاٹ اور گرجا گھر

معین الدین جینابڑے

گیت گھاٹ اور گرجا گھر

معین الدین جینابڑے

MORE BYمعین الدین جینابڑے

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو اپنے گاؤں میں سب سے خوبصورت ہے۔ گاؤں ایک ندی کے کنارے آباد ہے۔ اس کا باپ نہیں چاہتا کہ وہ ندی کے اس گھاٹ پر جائے جہاں ہر سال روایت کے مطابق گیت گایا جاتا ہے۔ لیکن وہ وہاں جانے سے رکتی نہیں۔ لڑکی کا باپ گرجا گھر کے فادر سے صلاح مانگتا ہے۔ فادر انہیں ایک مشورہ دیتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اس مشورے پر عمل کرتا، لڑکی ندی میں ڈوب کر مر جاتی ہے۔

    اس نے سب سے سن رکھا تھا کہ وہ بڑی خوبصورت ہے۔ اس کی خوبصورتی بے مثال ہے۔ پوری بستی میں اس کے حسن کا جواب نہیں۔ لیکن وہ سمجھ نہیں پاتی تھی کہ سب کہہ کیا رہے ہیں۔ وہ سوچتی تھی میں حسین کو کیونکر ہو گئی؟ اور بھی تو لڑکیاں ہیں۔ ان کے بھی تو سب کچھ ویسا ہی ہے۔ جیسے میرا۔۔۔ آنکھ۔۔۔ ناک۔۔۔ کان۔۔۔ بال۔۔۔ سر سے پیر تک وہ خود کو اپنی ہم سنوں جیسی سمجھتی تھی۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ان میں سے بھی کبھی کوئی آکر چپکے سے اس کے کان میں کہہ جاتی ’’تو بڑی سندر ہے ری!‘‘ ابھی کل کی بات ہے دائیں طرف کی ٹیکڑی پر رہنے والی اس کی سہیلی نے کہا تھا۔ ’’ہائے! کیا آنکھیں پائی ہیں تو نے!‘‘ اور یہ غریب کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔۔۔ بس آنکھیں جھپکا کر رہ گئی تھی۔ ایک اور دن تھا جب اس بائیں طرف کی ٹیکڑی پر رہنے والی سہیلی نے بڑے پیار سے اس کے گال سہلاتے ہوئے کہا تھا۔ ’’ہونٹ تو ہمارے بھی ہیں۔۔۔ لیکن تیرے ہونٹ اور تیرا منہ، کچھ اور ہی بات ہے!‘‘ وہ ایک مرتبہ پھر کچھ سمجھ نہیں سکی تھی۔ بس منہ بنا کر رہ گئی تھی۔

    اور یہ تو ابھی کچھ دیر پہلے کی بات ہے۔ اس کی سب سے پیاری سہیلی نے کہا تھا۔ ’’کچھ ہے تیری آواز میں۔۔۔ ہائے! کیا آواز دی ہے دینے والے نے!‘‘ اس نے کہا تو کچھ نہیں بس کل کھلا کر ہنس پڑی تھی۔ اس کے ہونٹوں سے پھوٹ کر وہ ہنسی سا منے والی ٹیکڑی سے ٹکرا کر لوٹ آئی اور پھر سامنے والی ٹیکڑی کی طرف چلی گئی۔۔۔ وہاں سے ایک مرتبہ پھر لوٹ کر اس کی طرف آئی۔۔۔ اس نے اپنی انگلیوں پر گننا شروع کیا۔ پہلی انگلی۔۔۔ دوسری انگلی۔۔۔ تیسری انگلی۔۔۔ ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیاں ہو گئیں اور دوسرے ہاتھ کی دو اور اس نے ساتوں انگلیاں اپنی سہیلی کو دکھائیں اور وہ بس دیکھتی رہ گئی… ان مخروطی انگلیوں سے چھنتے ہوئے گلابی رنگ کو کچھ دیر نہارنے کے بعد اس نے اپنی آنکھیں ان پر رکھ دیں اور اس گلابی لمس کو آنکھوں میں موند کر وہاں سے چلی گئی۔

    مونا کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اسے تو اب ایسی باتیں معمول معلوم ہوتی تھیں۔ اس نے گردن کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا اور اس واقعہ کو بھی بھلا دیا اس کی آنکھیں اب ریوڑ کو تلاش کرنے لگیں۔ اس نے دیکھا کہ وہ ندی کی طرف جا رہا ہے۔ مونا نے اپنی لکڑی اٹھائی اور اسے ہوا میں گھماتی ہوئی اچھلتی کودتی ریوڑ ے جا ملی۔ اس کے ریوڑ میں کچھ بھیڑیں تھیں اور کچھ بکریاں۔ ریوڑ کے ساتھ اس نے بھی ندی کے پانی سے اپنی پیاس بجھائی اور وہیں گھاٹ پر پانی میں پیر لٹکائے بیٹھی رہی۔

    مونا کو یہ گھاٹ بہت بھاتا تھا۔ وہ بچپن سے یہاں آ کر پہروں بیٹھا کرتی۔ ندی کے مچلتے پانی اور شانت نیلے آسمان سے اس کی پرانی دوستی تھی۔ کبھی اسے محسوس ہوتا کہ ندی آسمان سے کچھ کہنا چاہتی ہے اور اس کا پانی اچھل اچھل کر آسمان تک وہ بات پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔ تو کبھی وہ سوچتی نہیں! آسمان ندی سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ اسی لیے تو اتنی اوپر سے ندی کی طرف جھکا ہوا ہے۔ بیٹھے بیٹھے اپنے اس خیال پر اسے خود ہی ہنسی آ جاتی۔ وہ سوچتی میں بھی کتنی بے وقوف ہوں۔ ندی اور آسمان تو آپس میں اشارے کر رہے ہیں۔ ان کی باتیں ایک دسرے تک پہنچانے کا کام تو ہوا کرتی ہے۔ ہوا کو جب معلوم ہوتا کہ ندی اور آسمان کے ساتھ وہ بھی مونا کو عزیز ہے تو وہ پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی اور پھر مونا کی زلفیں بکھر کر کچھ اور سنور جاتیں۔

    سال میں ایک مرتبہ جب ندی کے کنارے میلہ لگتا تھا تو سب سے زیادہ رونق اسی گھاٹ پر ہوتی تھی۔ گرجا گھر سے نکل کر پوری بستی کے لوگ اس گھاٹ پر آتے اور سب مل کر ایک گیت گاتے تھے۔ پانی کے دیوتا کو خوش کرنے کا یہ گیت وہ نہ جانے کتنی نسلوں سے گاتے چلے آئے تھے۔ انہوں نے صرف گیت کے بول ہی نہیں اس کی دھن بھی اپنی ہر نسل کو وراثت و امانت کے طور پر سونپی تھی۔ پوری بستی کے لوگ ایک ساتھ خاص دھن میں جب گیت گاتے تھے تو ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ عورت، مرد، جوان، بوڑھے اور بچے سب کی آواز ایک ہو کر جب بلندہوتی تو ہوا میں وہ ارتعاش پیدا ہوتا کہ پوری فضا گونجنے لگتی اور مونا کو اس گونج کی باز گشت کی ترنگیں اپنے اندر سے اٹھتی ہوئی محسوس ہوتیں۔ اسی کے ساتھ اس کی روح بھی مرتعش ہو جاتی اور وہ ایک ایسے عالم اضطراب سے دو چار ہوتی جس میں سکون اور طمانیت بھی شامل ہوتی تھی۔ پرکھوں کا صدیوں پر انا ورثہ ہوتا ہی کچھ ایسا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اس گیت کا مطلب نہیں جانتا تھا کہ گیت کی زبان ان کے لیے مردہ ہو چکی تھی۔ اب وہ ایک ایسی زبان بولتے تھے جسے ان کے پرکھوں نے کبھی سنا بھی نہیں تھا۔

    مونا جب بھی گھاٹ پر آتی، اسی سوچ میں ڈوب جاتی کہ آخر ہمارے پرکھوں نے اس گیت میں کیا بات کہی ہے۔ وہ جانتی تھی کہ پوری بستی میں صرف دو ہستیاں ایسی ہیں جو پرکھوں کی زبان جانتی ہیں۔ ایک تواس کے باپو اور دوسرے گر جا گھر کے پادری۔ باپو تو خیر بستی کے مکھیا تھے۔ چرچ کے پادری نے بڑی تحقیق اور جستجو کے بعد اس زبان کی تفہیم کے مرحلے طے کئے تھے۔ باپو نے سب بستی والوں کے سامنے یہ بات کہی تھی اور اعلان کیا تھا کہ فادر ہمارے پرکھوں کی زبان سے پوری طرح واقف ہیں۔ مونا کے لیے اتنی ہمت جٹا پانا ناممکن تھا کہ وہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے گیت کا مطلب پوچھے۔ ایسا نہیں کہ وہ ان دونوں سے خائف رہا کرتی تھی۔ بلکہ اندر ہی سے وہ خود کو آمادہ نہیں کر پاتی تھی۔ ادھر کچھ دنوں سے تو یہ اس کا مشغلہ ہی ہو گیا تھا کہ گھاٹ پر بیٹھی پانی سے کھیلتی رہے اور سوچتی رہے کہ گیت کے معنی کیا ہیں۔۔۔ شاید وہ الفاظ سے معنی تک کا سفر اکیلے ہی طے کرنا چاہتی تھی۔

    بیٹھے بیٹھے اس نے چلّو بھر پانی آسمان کی طرف اچھال دیا۔ آسمان پر شفق پھول رہی تھی۔ ریوڑ نے گھر کی راہ لی تھی۔ اس نے مڑ کر دیکھا وہ کچھ زیادہ دور نہیں گیا تھا۔ اس نے اپنی لکڑی اٹھائی اور ریوڑ کے پیچھے چل دی۔ لکڑی کو ہوا میں گھماتے ہوئے وہ گھر میں داخل ہوئی۔ اور آتے ہی باپو سے شکایت کی۔

    ’’باپو! آج پھر یہ سب ندی پر گئی تھیں۔ اسی گھاٹ پر۔‘‘

    باپو نے اس کی طرف دیکھا۔

    ’’اور تو!؟‘‘

    ’’میں تو ان کے ساتھ ساتھ تھی۔‘‘

    باپو کے پیشانی پر بل پڑگئے۔

    ’’تجھے کئی بار منع کیا ہے۔۔۔ ریوڑ کو کسی اور گھاٹ پر کیوں نہیں لے جاتی۔۔۔ لڑکی تو کسی دن۔۔۔‘‘

    اس نے بڑے پیار سے ’’باپو‘‘ کہا اور باپو خاموش ہو گئے۔

    باپو خاموش تو ہو گئے لیکن ان کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ ان کی مشکل یہ تھی کہ اس لڑکی پر ڈانٹ بے اثر ہے، تو اسے سمجھانا بے سود۔ ایسی لڑکی کو کون سمجھائے جو ریوڑ ہانکنے کے بجائے خود اس کے ساتھ ہو لیتی ہو۔ وہ تو کہئیے کہ یہ بے زبان جانور روز شام سیدھے گھر چلے آتے ہیں۔ ورنہ یہ لڑکی تو گھر بھی نہ لوٹے۔ بڑے بوڑھوں نے صحیح کہا ہے کہ لڑکی کو ڈانٹ ڈپٹ کر رکھنا چاہیے اور پھر یہ تو بستی کے مکھیا کی لڑکی ہے۔ انہیں مونا کی نافرمانی پر غصہ آ رہا تھا۔ اور اپنی بے بسی پر وہ جھلا رہے تھے۔ ان کے حواس پر غصہ اور جھلاہٹ حاوی ہونے لگے تو ان کے قدم خود بخود گرجا گھر کی طرف اٹھ گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے اعتراف کیا۔

    ’’اے مقدس باپ! میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکا، میں نے ضبط سے کام نہیں لیا اور غصہ میر ے حواس پر حاوی ہونے لگا۔ میں نے کچھ دیر کے لیے تیرے خیال کو دل سے نکال دیاور بے بسی مجھ پر چھانے لگی۔۔۔ لیکن اے مقدس باپ مونا میری اکلوتی بیٹی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ وہ کبھی اس گھاٹ پر جائے۔ اے ماضی، حال اور مستقبل کے جاننے والے میں تجھے ماضی کا واسطہ دیتا ہوں۔۔۔ میں تجھ سے مونا کی زندگی مانگتا ہوں۔‘‘

    اعتراف کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے اعصاب ہلکے ہو گئے ہیں۔ غصہ اور جھلاہٹ سے نجات پانے کے بعد انہوں نے طبیعت میں ایک انشراح محسوس کیا اور انہیں خود اپنے اس خیال پر ہنسی آ گئی کہ ندی کے اس گھاٹ پر کسی دن مونا کا پیر پھسلے گا اور وہ۔۔۔ انہوں نے دل ہی دل میں مقدس باپ کا شکر ادا کیا کہ ان کا وہم ماضی کی جس روایت پر ٹکا ہوا ہے وہ اب نہ صرف مردہ روایت بن گئی ہے بلکہ شاید ہی اب کوئی اس سے واقف بھی ہو۔

    بستی کا مکھیا ہونے کی وجہ سے باپو فادر سے خاصے قریب تھے۔ باپو کو ایک طرف بستی والوں کی سرداری نصیب تھی تو دوسری طرف فادر کا اعتماد حاصل تھا۔ جس کی وجہ سے ہے وہ چرچ اور بستی کے بیچ ایک اہم پل کی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ اپنی اس اہمیت اور حیثیت کو وہ خوب سمجھتے تھے اور اسے نبھاتے بھی بڑی خوبی کے ساتھ۔ باپو کے فادر سے دوستانہ مراسم قائم ہو گئے تھے۔ کبھی فادر باپو کے گھر آ جاتے تو کبھی آدمی بھیج کر باپو کو اپنے یہاں بلوا لیتے۔۔۔ اور پھر دونو ں میں کافی دیر تک باتیں ہوتیں۔ اب کے ملاقات میں دوران گفتگو فادر نے کہا۔

    ’’میرے ایک دوست برسوں سے ورجن میری کی شبیہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔ میرے خیال سے بیس ایک سال تو ہو ہی گئے ہوں گے۔۔۔ لیکن ابھی تک وہ کامیاب نہیں ہوئے۔‘‘

    ’’وجہ کیا ہے فادر؟ مدر میری کی تو کئی شبیہیں موجود ہیں۔‘‘

    ’’ہمارے دوست کا کہنا ہے کہ اس شبیہ کو دیکھ کر ہمارے دلوں میں وہ جذبات نہیں ابھرتے اور وہ عقیدت نہیں جاگتی جو ورجن میری کی ذات سے وابستہ ہے۔‘‘

    ’’یعنی؟‘‘

    ’’یعنی یہ کہ مروجہ شبیہ کو بار بار دیکھتے رہنے سے جو جذبات ہمارے اندر جڑ پکڑ چکے ہیں انہیں ہم نے ورجن میری، کی ذات سے وابستہ کر دیا ہے۔ اصلاً جس عقیدت اور جن جذبات کو جگا نا ہمارا مقصد ہے وہ تو الگ ہی رہے۔‘‘

    باپو گو مگو میں پڑ گئے۔ فادر نے ان کی مشکل آسان کر دی۔

    ’’مکھیا جی! اگر آپ میری رائے پوچھیں تو میں اس خیال سے متفق ہوں۔‘‘

    باپو نے کہا،

    ’’فادر تو پھر آپ کے دوست کو چاہئے کہ وہ مدر میری کی ایک نئی شبیہ ضرور بنائیں۔ چاہے بیس برس اور لگ جائیں۔‘‘

    فادر نے کہا،

    ’’وہ بات نہیں ہے مکھیا جی! میرے دوست کا کہنا ہے کہ بے پناہ نسوانی حسن اور معصومیت کے نورانی امتزاج کی حامل دوشیزہ کو دیکھے بغیر ورجن میری کی شبیہ نہیں بنائی جا سکتی‘‘

    باپو نے حیرت کے ساتھ سوال کیا،

    ’’تو کیا ان بیس برسوں میں ان کی یہ فنی شرط یا ضرورت پوری نہیں ہوئی؟‘‘

    فادر نے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور کہا،

    ’’مکھیا جی! یہ صرف ایک فنی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ روحانی تقاضا بھی ہے اور اس دوہری شرط کو ہماری مونا پورا کر سکتی ہے۔‘‘

    باپو نے عقیدتاً اپنا سر جھکا لیا۔ اور مسرت کی فراوانی سے ان کا چہرہ دمکنے لگا۔

    فادر نے آگے کہا،

    ’’میں نے انہیں خط لکھا ہے۔ آج کل میں وہ یہاں آ جائیں گے۔ مکھیا جی! مقدس باپ آپ پر بہت مہر بان ہے اور آپ کی بیٹی پر بھی۔‘‘

    باپو نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا

    ’’فادر وہ آپ ہی کی بیٹی ہے۔‘‘

    اس شام باپو بہت خوش تھے۔ دل ہی دل میں انہوں نے ہزاروں مرتبہ مقدس باپ کا شکر ادا کیا۔ وہ سوچ رہے تھے بستی میں ان کے لیے کتنے بڑے اعزاز کی بات ہو گی۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر تشکر آمیز نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان پر شفق پھول رہی تھی۔ ریوڑ کے گلے کی گھنٹیوں کی آواز سنائی دی۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا۔ ان کی مونا جھومتی جھامتی لکڑی کو ہوا میں گھماتی ہوئی ریوڑ کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی ہے۔ اس نے دور ہی سے آواز دی۔ ’’باپو!‘‘ اور وہ نہال ہو گئے۔ انہوں نے اونچی آواز میں بڑے پیار سے اسے پکارا،

    ’’میری‘‘ ! ’’میری!‘‘ انہوں نے آواز دی اور سوچا یہ میں کیا کہہ گیا؟ مقدس باپ شاید اسے غلطی یا گستاخی نہ سمجھیں۔ لیکن مونا کیا کہے گی۔۔۔ مونا نے کچھ نہیں کہا۔ اس نے سوچا شاید اور باتوں کی طرح یہ بھی معمول بن جائے۔

    اس رات کافی دیر تک باپو کو نیند نہیں آئی۔ انہوں نے سوئی ہوئی مونا کی طرف دیکھا۔ نیند میں اس کا معصوم چہرہ کچھ اور معصوم نظر آ رہا تھا۔ پورے چاند کی رات تھی۔ چاند بھی چھت میں سے جھانک کر اسے دیکھ رہا تھا۔ مونا کے چہرے کے گرد نور کا ایک ہالہ بن گیا تھا۔ رات بہت ڈھل چکی تھی۔ پوری بستی خاموشی کی چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور ندی کے پانی کا شور اس سکوت کو توڑ رہا تھا۔ باپو نے آنکھیں موند لیں اور کروٹ بدلی۔

    ان کی بند آنکھوں میں نور کا ہالہ تھا اور کانوں میں ندی کے پانی کا شور گونج رہا تھا۔۔۔ دھیرے دھرے ندی کا شور ایک گیت کی لے میں ڈھلنے لگا۔۔۔ یہ وہی گیت تھا۔ جسے وہ صدیوں سے ندی کے کنارے اس گھاٹ پر ٹھہر کر گاتے آئے تھے۔۔۔ لے تیز سے تیز تر ہونے لگی۔۔۔ اور پھر وہ دھن میں بدل گئی۔۔۔ باپو نے محسوس کیا کہ پوری بستی گھاٹ پر اکٹھی ہوئی ہے۔ سب ایک آواز ہو کر وہی گیت گارہے ہیں۔۔۔ گیت کی دھن پوری بستی میں لہرا رہی ہے۔۔۔ ندی کی موجوں کی طرح اور وہ بستی کے مکھیا پڑے سو رہے ہیں۔ وہ بہت خجل ہوئے۔۔۔ وہ دوڑنے لگے۔۔۔ اور ہانپتے کانپتے گھاٹ پر پہنچے۔

    گھاٹ خالی پڑا تھا۔ انہوں نے بستی کی طرف مڑ کر دیکھا سب سوئے پڑے تھے۔ گھاٹ کے پتھر پر بیٹھ کر انہوں نے اپنی سانسیں درست کیں۔۔۔ وہ سوچنے لگے۔۔۔ پر کھوں کے گیت نے انہیں اس طرح کیوں آواز دی اور کیوں انہیں یہاں گھاٹ پر لے آیا۔۔۔ اس گھاٹ پر جس کا خیال آتے ہی ان کی روح کانپ جاتی ہے۔۔۔ انہوں نے مقدس باپ کو یاد کیا اور سینے پر صلیب کا نشان بنایا۔۔۔ وہ سوچنے لگے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی انہیں پرکھوں کی یاد آتی ہے وہ مقدس باپ کو یاد کرتے ہیں اور جب بھی ان کے کانوں میں پرکھوں کے گیت کی دھن بجنے لگتی ہے وہ اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنا لیتے ہیں اور یہ گھاٹ۔۔۔ وہ جتنا اس سے بھاگنا چاہتے ہیں اتنا ہی یہ ان کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔۔۔ اور مونا۔۔۔ اس نے آج تک ان کی ہر بات مانی ہے۔ لیکن لاکھ منع کرنے پر بھی وہ اس گھاٹ پر آتی ضرور ہے۔

    باپو کو اپنے بزرگوں کی بیان کردہ سینہ بہ سینہ چلی آ رہی صدیوں پرانی وہ روایت یاد آئی۔ جس میں پہلی مرتبہ بستی میں پادریوں کی آمد کا ذکر ہے۔ پادریوں کو یہ بستی بہت بھائی تھی۔ لیکن پادری اس گیت اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی رسم کے سخت مخالف تھے۔ بستی والے اور سب کچھ تو چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ لیکن اس گیت اور اس رسم کو ترک کرنے پر وہ رضامند نہیں تھے۔ آخرکار وہ اس پر راضی ہوئے کہ رسم ترک کر دیں گے۔ لیکن ان سے ان کے پرکھوں کا گیت نہیں چھینا جائے گا۔ پادریوں نے اس پر رضا مندی ظاہر کی۔ اور یہ طے پایا کہ سال میں ایک مرتبہ پوری بستی صبح سویرے گرجا گھر میں جمع ہوگی۔ وہاں فادر کی رہنمائی میں مقدس باپ کی اجازت لی جائے گی۔ اور پھر سب گھاٹ پر جمع ہو کر ایک آواز میں پرکھوں کا گیت گائیں گے۔ اس موقع پر ندی کے کنارے چرچ کی جانب سے میلے کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ باپو اس سوچ میں گم، بت بنے، گھاٹ کے پتھر پر بیٹھے تھے کہ زور کی ہوا چلی ہوا کے جھکڑ نے ایک پتھر کو لڑھکا یا اور وہ گھاٹ سے پھسل کر پانی میں جا گرا۔ اس آواز نے دوبارہ باپو کو اس ماحول کا جزو بنا دیا۔ انہوں نے چاروں طرف دیکھا۔ آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں۔ پو پھٹنے والی تھی۔ پانی میں جھانکا۔ پتھر ڈوب چکا تھا اور روشنی نہ تھی کہ وہ ان دائروں کو دیکھتے جنہیں پتھر پانی کی سطح پر چھوڑ گیا تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر مقدس باپ کو یاد کیا اور گھر کی طرف چل پڑے۔

    بوڑھے فنکار نے فادر اور باپو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا،

    ’’میں جس انس پی ریشن کے لیے پچھلے بیس برسوں سے تڑپ رہا تھا، آج مجھے اس لڑکی کے روپ میں آپ دونوں نے عطا کیا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ مقدس باپ آپ کو اس نیک عمل کا صلہ ضرور دے گا۔‘‘

    بوڑھے فنکار نے دوسرے ہی دن سے کینوس پر کام شروع کر دیا۔ وہ پہروں آنکھیں موند کر مراقبے کی حالت میں کھڑا رہتا اور پھر آنکھیں کھول کر برش سے کینوس پر ایک خط لگاتا۔۔۔ اس کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر طویل عرصہ کے لیے حالت مراقبہ میں چلا جاتا۔ اس کے لیے اس کا فن عبادت کا درجہ رکھتا تھا۔ وہ ایک عجیب روحانی سرمستی کے عالم میں کھویا ہوا تھا اور وہ اس تسکین کی آہٹ بھی سن رہا تھا جو کسی فنکار کو اپنا شاہکار مکمل کرنے پر حاصل ہوتی ہے۔ مونا روز صبح دو ڈھائی گھنٹے اس کے سامنے بیٹھ کر آ جاتی۔ لیکن وہ اپنا تمام دن کینوس کے سامنے ٹھہر کر کاٹتا تھا۔

    ایک صبح مونا گرجا گھر سے لوٹ رہی تھی۔ بوڑھے فنکار کے سامنے بیٹھے بیٹھے اس کا بدن اکڑ گیا تھا۔ چلتے چلتے اس نے ایک انگڑائی لی اور چم سے بجلی چمکی۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان بالکل صاف تھا، دور دور تک بارش کے آثار نظر نہیں آتے تھے۔ اس نے سوچا مقدس باپ کی مرضی وہ چاہیں جس وقت بجلی چمکائیں۔ اس نے ایک انگڑائی اور لی اور ایک مرتبہ پھر بجلی چمکی۔۔۔ وہ حیران تھی۔۔۔ یہ بجلی اور میری انگڑائی۔۔۔ یہ میری انگڑائی اور بجلی۔۔۔ کیا کچھ رشتہ ہے دونوں میں۔ دل نے کہا یہ سب مقدس مریم کے سایہ کی برکت ہے۔ اس نے ایک انگڑائی اور لی۔۔۔ اور ایک مرتبہ پھر بجلی چمکی پھر تو یہ ہوا کہ وہ انگڑائیاں لیتی رہی اور بجلیاں چمکتی رہیں۔۔۔ ایک دو تین چار انگڑائیاں اور چار بجلیاں۔۔۔ پانچ چھ سات آٹھ انگڑائیاں اور آٹھ بجلیاں۔ نہ جانے اس نے کتنی انگڑائیاں لیں اور نہ معلوم کتنی بجلیاں چمکیں۔ اس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ وہ جھوم اٹھی۔ اس کے پیر تھرکنے لگے۔ اس کے پیر تھرکتے رہے اور وہ جھومتی رہی۔۔۔ جھوم جھوم کر وہ نڈھال ہو گئی۔ اس کا بدن ٹوٹنے لگا۔۔۔ اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور وہ چکرا کر گر پڑی!

    جب اسے ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ وہ ندی کے گھاٹ پر لیٹی ہوئی ہے اور ایک اجنبی اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارہا ہے۔ اس نے اجنبی کو غور سے دیکھا۔۔۔ اور وہ دیکھتی ہی رہی! اس کے جی نے چاہا کہ اس کی سہیلیاں اس کے بارے میں جو بھی کہتی آئی ہیں وہ سب کچھ۔۔۔ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ وہ اس اجنبی سے اس کے بارے میں کہے۔ اجنبی کے ہونٹ۔۔۔ اس کے گال۔۔۔ اس کے بال۔۔۔ اور۔۔۔ اس کی آنکھیں۔۔۔ اس کی آنکھوں میں چاند جیسی چمک تھی اور ندی جیسی گہرائی۔۔۔ اس نے چاہا کہ اس گہرائی میں ڈوب جائے۔۔۔ بس ڈوبتی چلی جائے اس گہرائی میں۔۔۔ ایسی ڈوبے کے پھر نہ ابھر سکے۔

    زندگی میں پہلی بار مونا کے دل کی دھڑکن کچھ دیر کے لیے رک گئی۔ پہلی بار اس کی پلکیں جھپکنا بھول گئیں اور پہلی مرتبہ اس نے چاہا کہ کوئی اسے ہولے سے اس کا نام لے کر پکارے۔ اسی پل اجنبی کے ہونٹ ہلے اور اس نے ہولے سے ’’مونا‘‘ کہا اور مونا تو جیسے مر ہی گئی! مونا نے خواب آلودہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،

    ’’اجنبی تم نے مجھے مونا کہا؟‘‘

    ’’میں نے غلط تو نہیں کہا؟‘‘

    ’’نہیں، تم نے بہت صحیح کہا۔ ان دنوں میں دھیرے دھیرے مونا سے میری بنتی جا رہی ہوں۔‘‘

    ’’میں تمہیں پھر سے مونا بنا سکتاہوں۔ دیکھو میں ایک فنکار ہوں۔۔۔‘‘

    وہ رہا میرا کینوس۔۔۔ اور یہ ہے میرا برش۔۔۔ تمہیں صرف۔‘‘

    ’’مجھے صرف اتنا کرنا ہو گا کہ یہاں گھاٹ کے پتھر پر تمہارے سامنے روز پہر بھر بیٹھی رہوں۔۔۔ یہی نا!‘‘

    ’’ہاں! ہاں! بالکل یہی!‘‘

    ’’روز شام، میرا ریوڑ یہاں آتا ہے۔ تم بھی آ جایا کرو۔‘‘

    نوجوان فنکار نے مونا کو بستی کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ دھیرے دھیرے وہ اس کی نظروں سے دور ہوتی چلی گئی۔۔۔ فاصلہ بڑھتا گیا اور وہ چھوٹی ہوتی گئی۔۔۔ جتنا فاصلہ بڑھتا تھا۔ اتنی ہی وہ چھوٹی ہوتی جاتی تھی۔۔۔ ہوتے ہوتے وہ ایک نقطہ کے برابر ہو کر رہ گئی۔ فنکار نے سوچا یہی وہ نقطہ ہے جس نے تخلیق کے رمز اور فن کی گہرائی کو اپنے اندر جذب کر لیا ہے۔ یہ نقطہ پھیلے تو ایک شاہکار ہے اور سمٹے تو اسرار۔

    نوجوان کو اس تسکین کے پیروں کی چاپ سنائی دی جو کسی فنکار کو اس کے شاہکار کی تکمیل کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ اس نے اپنے گلے میں لٹکے کیمرے اور فلیش کی طرف دیکھا۔ رول تو کیمرے میں تھا ہی نہیں۔ اس نے ایک آنکھ میچ کر بٹن دبائی۔ ایک مرتبہ پھر بجلی چمکی لیکن اب وہ نقطہ فضا میں تحلیل ہو چکا تھا۔ اس نے خالی کینوس پر اپنی نظریں گاڑ دیں اور دھیرے سے کہا،

    ’’مونا کا پورٹریٹ صرف مونا کا پورٹریٹ نہیں ہوگا۔۔۔ وہ مونا لیزا کا جواب ہوگا۔‘‘

    صبحیں شاموں سے بدلتی رہیں اور شامیں راتوں میں ڈھلتی رہیں۔ ادھر ورجن میری کی شبیہ تکمیل کی منزلیں طے کرتی رہی اور ادھر مونا لیزا کا جواب بھی مکمل ہوتا رہا اور ایک صبح وہ آئی جس نے دیکھا کہ دونوں فنکاروں نے اپنا اپنا شاہکار مکمل کر لیا ہے اور اس پر پردہ ڈال رکھا ہے۔

    فادر نے ایک نظر اس ڈھکے ہوئے کینوس پر ڈالی اور بوڑھے فنکار اور باپو سے مخاطب ہو کر کہا،

    ’’ہم مقدس باپ کے مشکور ہیں کہ یہ کینوس اب ایک شاہکار میں بدل گیا ہے۔‘‘

    احترام و عقیدت کے بوجھ سے بوڑھے فنکار کا سرجھک گیا۔ فادر نے باپو سے کہا،

    ’’مکھیاجی! اب ہمیں میری میرا مطلب ہے مونا کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے۔‘‘

    باپو نے پردے سے ڈھکے ہوئے شاہکار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،

    ’’ان دنوں میں اسی تعلق سے فکر مند ہوں۔ سوچتا ہوں کوئی اچھا سا لڑکا۔۔۔‘‘

    فادر نے بڑے ہی نرم لہجے میں کہا،

    ’’مکھیا جی! اب ہماری مونا صرف مونا نہیں رہی۔۔۔ ورجن میری کی یہ شبیہ ہمارے گرجا گھر میں لگے گی اور اس کی تصویریں دنیا کے تمام گرجا گھر وں میں لگیں گی۔ اب مونا۔۔۔ میرا مطلب ہے ورجن میری کی اس شبیہ کو سب دیکھیں گے۔ بستی والے بھی اور دنیا والے بھی۔ اسے دیکھ کر سب کے دلوں میں مقدس جذبات ابھریں گے اور عقیدت بیدار ہوگی۔۔۔ اور آپ چاہتے ہیں۔۔۔‘‘

    باپو کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ فادر نے انہیں دلاسا دیتے ہوئے کہا،

    ’’آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ کیا مونا میری بچی نہیں ہے۔ میں نے ایک حل سوچا ہے۔‘‘

    باپو نے پر امید آواز میں۔۔۔ پوچھا۔

    ’’کون ساحل فادر؟‘‘

    ’’ہم مونا کو تری بھیج دیں گے۔ وہاں وہ نن بنے گی اور مقدس باپ کی مہربانی سے مدر کے درجہ تک ترقی کرے گی‘‘

    باپو نے بڑے سخت لہجے میں کہا۔

    ’’فادر میں مونا کو نن نہیں بننے دوں گا۔‘‘

    فادر نے بڑے ہی دھیمے لہجہ میں کہا،

    ’’مکھیا جی! بیٹی کے معاملے میں باپ کا جذباتی ہو جانا عین فطری بات ہے۔ ذرا ان کے بارے میں سوچئے جو آپ سے پہلے بستی کے مکھیا تھے اور بستی ابھی مقدس باپ کے مہربان سائے سے محروم تھی۔۔۔ ذرا سوچئے مکھیا جی! ان باپوں کے دلوں پر کیا بیتی ہوگی جن کی بیٹی کے جوان ہونے پر ندی کے کنارے جشن منایا جاتا تھا۔ اس گھاٹ پر جل دیوتا کی پوچا ہوتی تھی اور اس جوان لڑکی کا بیاہ جل دیوتا کے ساتھ رچایا جاتا تھا۔۔۔ پھر پوری بستی کے لوگ، مرد، عورت جوان بوڑھے، بچے سب مل کر ایک گیت گاتے تھے۔ جس میں جل دیوتا کی مدح ہوتی تھی اور اس سے درخواست کی جاتی تھی کہ وہ بستی کے مکھیا کی لڑکی کو قبول کر لے اور بستی پر ہمیشہ کی طرح مہربان رہے اور گیت کے اختتام کے ساتھ ہی اس لڑکی کو جل دیوتا کے حوالے کر دیتے تھے۔۔۔ بہا دیتے تھے اسے ندی میں۔ مکھیا جی! مقدس باپ زندگی لیتا نہیں، دیتا ہے۔ شاید اس نے مونا کو ایک نئی زندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

    باپو کے کانوں میں پرکھوں کا گیت گونجنے لگا۔ انہوں نے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا۔ بجھی ہوئی آنکھوں سے فادر کی طرف دیکھا اور آنکھیں موند کر اپنی رضا مندی ظاہر کی۔

    فادر نے بوڑھے فن کار کو اشارہ کیا کہ وہ اپنے شاہکار کو بے نقاب کرے۔ بوڑھے فن کار کا ہاتھ کینوس کی طرف بڑ ھ رہا تھا کہ کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی اور اس نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ گرجا گھر کی دہلیز پر ایک نوجوان کھڑا تھا۔ نوجوان ایک کینوس کو سنبھالے ہوئے تھا۔ تینوں کو اپنی طرف متوجہ پاکر اس نے قدم آگے بڑھائے۔ ان کے درمیان سے گذرتا ہو وہ وہاں گیا جہاں بوڑھے فنکار کا ڈھکا ہوا شاہکار رکھا تھا۔ ڈھکے ہوئے کینوس کے مقابل اس نے اپنا کینواس ایستادہ کیا۔ اس کا کینوس بھی ڈھکا ہوا تھا اور وہ خود ایک سوالیہ نشان بن کر اپنے کینوس سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔

    گرجا گھر میں موت کا سناٹا چھا گیا۔ سوال یہ تھا کہ اس سکوت کو توڑے گا کون؟ باپو۔۔۔ فادر۔۔۔ یا بوڑھا فنکار۔ تینوں آپس میں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ خود نوجوان نے سکوت کو توڑتے ہوئے کہا،

    ’’آپ نے مونا کو میری بنایا ہے اور میں نے اسے مونا لیزا کا جواب بنایا ہے۔‘‘

    مونا لیزا کے نام پر بوڑھے فنکار کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ فادر نے تیوری چڑھائی اور باپو کچھ سمجھ نہیں سکے۔ نوجوان نے کہا،

    ’’مجھے دھن سوار تھی کہ میں دنیا کے سامنے مونا لیزا کا جواب پیش کروں۔ ایک ایسا شاہکار بناؤں جسے دیکھ کر دنیا والے مونا لیزا اور اس کی مسکراہٹ کو بھول جائیں۔ انس پی ریشن کی تلاش میں میں نے دنیا بھر کی خاک چھانی۔۔۔ اب یہ محض اتفاق ہے یا تخلیق کے اسرار میں سے ایک راز کہ مجھے اور اس بزرگ فنکار کو ایک ہی لڑکی نے انسپائر کیا۔‘‘

    فادر نے آگے بڑھ کر کہا،

    ’’نوجوان اب تم کیا چاہتے ہو؟‘‘

    نوجوان نے انتہائی احترام کے ساتھ کہا،

    ’’فادر میں انصاف چاہتا ہوں۔‘‘

    فادر نے شفقت آمیز لہجہ میں پوچھا،

    ’’کیسا انصاف میرے بچے۔‘‘

    نوجوان نے کہا،

    ’’مونا کی زندگی کو آپ نے بزرگ فنکار کے فن کے ساتھ جوڑا ہے۔۔۔ میرے فن کو بھی اس کا مستحق سمجھا جائے۔‘‘

    باپو کی بجھی ہوئی آنکھوں میں روشنی کی لکیر دوڑ گئی۔ بوڑھا فنکار اپنی جگہ سنبھل کر کھڑا ہو گیا اور فادر نے نوجوان کی فہمائش کرتے ہوئے کہا،

    ’’تم ایک معصوم مورت کو تنویر و تقدیس کے ماحول سے نکال کر زندگی کی آلائشوں سے ناپاک کرنا چاہتے ہو۔‘‘

    نوجوان نے کہا،

    ’’فادر! میں بحث میں پڑنا نہیں چاہتا۔ جسے آپ زندگی کہتے ہیں وہ کسی کے لیے موت ہو سکتی ہے۔ کسی کی موت کو آپ زندگی کا نام دے سکتے ہیں۔۔۔ میں تو بس انصاف چاہتا ہوں۔‘‘

    فادر نے بوڑھے فنکار کی طرف دیکھا۔ اس نے نظر کے اشارے سے نوجوان کو داد دی اور فادر اس پر راضی ہو گئے کہ دونوں فنکار اپنے اپنے شاہکار سے پردہ اٹھائیں۔

    بوڑھے فنکار نے اپنے کینوس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور نوجوان نے اپنے کینوس کی طرف۔ پردوں کے کونے دونوں کی انگلیوں میں تھے۔ ایک فادر کے اشارے کی دیر تھی۔ وہ دونوں ہلکا سا جھٹکا دے کر پردہ ہٹانے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ اس سے پہلے کہ فادر اشارہ کرتے اور ان دونوں کی انگلیوں کی جنبش اپنے اپنے کینوس کو بے نقاب کرتی، زور کی ہوا چلی اور پردے ان کی انگلیوں سے چھوٹ کر کھڑکی کے راستے باہر آسمان کی طرف اڑنے لگے۔ وہ چاروں کینوس کو بھول کر، مبہوت و متحیر ان اڑتے ہوئے پردوں کو دیکھنے لگے۔۔۔ دیکھتے دیکھتے ہوا کے جھکڑ آندھی میں بدل گئے اور وہ تیز آندھی چلنے لگی کہ گر جا گھر کا گھنٹہ بجنے لگا۔

    چاروں گرجا گھر کے باہر کھڑے اس انہونی کو دیکھ رہے تھے۔ اس سے پہلے ایسی آندھی کبھی نہیں چلی کہ گرجا گھر کا گھنٹہ مسلسل بجتا چلاجائے۔ گھنٹے کی ٹن ٹن آندھی کی رفتار کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔ پوری بستی گرجا گھر کے سامنے جمع ہو چکی تھی۔ بستی والوں کے نزدیک یہ کوئی اچھا شگون نہیں تھا۔ وہ کسی آسمانی آفت کے خیال سے سراسیمہ تھے۔ سبھوں نے اپنے اپنے سینے پر صلیب کے نشان بنائے۔ باپو نے بھی اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور ان کے کانوں میں پرکھوں کا گیت گونجنے لگا۔ ان کی نظریں خود بخود ندی کی طرف مڑ گئیں۔ انہوں نے دیکھا کہ دو لڑکیاں آندھی سے بچتی بچاتی گرجا گھر کی طرف آ رہی ہیں۔۔۔ ان میں سے ایک نے اپنی ہچکیوں کو روکتے ہوئے کہا کہ وہ سب لڑکیاں وہاں گھاٹ پر بیٹھیں چہلیں کر رہی تھیں کہ اچانک مونا کا پیر پھسلا اور وہ پتھر کی طرح لڑھکتی ہوئی۔۔۔!

    باپو روتے پیٹتے گھاٹ کی طرف دوڑے اور بستی والے بھی سب کے سب ان کے ساتھ ہو لیے۔۔۔ فادر گر جا گھر کے آنگن میں ایک بت کی صورت، کھڑے اس بجتے ہوئے گھنٹے کو دیکھتے رہے اور دونوں فنکار اندر کی طرف لپکے۔ بوڑھے نے نوجوان کے کینوس کی طرف دیکھا اور نوجوان نے بوڑھے کے کینوس کی طرف۔۔۔ دونوں، کینوس بالکل کورے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے