Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گڑیا

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    دس بارہ سال کی عمر کی ایک لڑکی کی کہانی جو اپنے گاؤں سے شہر آتی ہے۔ شہر میں ایک گھر میں اسے بچوں کی دیکھ بھال کی نوکری مل جاتی ہے۔ اس گھر میں نوکری کرتے ہوئے اس کے بچپن کے ادھورے خواہشات پھر سے پر پرزے نکالنے لگتے ہیں۔ ان خواہشات کو پورا کرنے کے لیے وہ جو قدم اٹھاتی ہے اس سے اس کی پوری زندگی ہی بدل جاتی ہے۔

    وہ گھر سے چلی تو جھٹپٹا ہو چلا تھا۔ ٹرین رات کے نو بجے تھی جیسا کہ ان لوگوں نے بتایا تھا۔ ٹرین کیا ہوتی ہے یہ وہ جانتی تھی۔ ایک دو ریل گاڑیاں اس کے گاؤں کے کنارے کنارے گنے اور ارہر کے کھیتوں کے پاس سے گزرا کرتی تھیں۔ وہ کہاں سے آتی ہیں اور کہاں جاتی ہیں اس پر اس نے کبھی غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی تھی۔ کبھی کسی ٹرین سے سفر کرنے کا موقعہ بھی نہیں ملا تھا۔ اللہ میاں کے پچھواڑے والے اس گاؤں میں اس کا کچا، پھوس کے چھپر والا گھر ایسی جگہ تھا جہاں سے بس اسٹینڈ تک جانے کے لئے بھی کوئی سواری نہیں تھی۔ کچھ دور پیدل چلنا تھا پھر بس پر چڑھ کر وہاں پہونچنا تھا جہاں سے ٹرین پکڑی جا سکتی تھی وہ بس پر چڑھی تھی اور بس اڈہ گھر سے اتنا قریب تھا کہ وہاں کئی مرتبہ یوں بھی جا نکلتی تھی وہاں ایک بڑا سا تالاب تھا جس میں لوگ بھینسوں کو نہلاتے اور پاس کھڑے تاڑ کے درختوں سے تاڑی اتارتے۔ بھینسیں اور بطخیں اور سور ادھر ادھر منہ مارتے رہتے۔ درمیان میں کٹ کٹ کٹاک کرتی مرغیاں گھس آتیں بکریاں دراندازی کرتیں۔ کوئی کسی کو کچھ نہ کہتا۔ اسے کبھی یہ نہیں محسوس ہوا تھا کہ اس کی زندگی میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت ہے۔ وہ تو بس وہاں تھیں، ہمیشہ سے تھیں جسیے کھیت کھلیان، اڑوس پڑوس، ہوا پانی، اماں ابا، بھائی بہن، نشیڑی ماموں۔ آج اچانک وہ سب کے سب بڑے اہم ہو گئے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بدصورت سور بھی جن کے بارے میں مولی ساب کا کہنا تھا کہ ان پر نظر پڑ جائے تو لاحول پڑھ لیا کرو۔ گھر سے باہر قدم نکالتے وقت سب سے پہلا خیال اسے یہ آیا تھا کہ یہ سب وہاں ہوں گے یا نہیں جہاں وہ جا رہی تھی یا یوں کہا جائے کہ لے جائی جا رہی تھی۔ تالاب تو تالاب اس وقت اماں بھی بڑی اہم ہو گئی تھی جس کے بارے میں اس نے کئی مرتبہ سوچا تھا کہ مر کیوں نہیں جاتی۔ ہر وقت ڈانٹتی رہتی ہے۔ کھانا کم ہو تو پہلے بیٹوں کو کھلا دیتی ہے۔ آج سے پہلے اس محبت کا کبھی احساس نہں ہوا تھا جو اسے اماں سے تھی۔ اماں اگر سارا کھانا بیٹوں کو کھلا دیتی تھی تو اس دن خود بھی تو نہیں کھاتی تھی اور جب اماں نے چلتے وقت اس کے سر پر ہاتھ رکھا اس میں وہ کون سی کیفیت تھی جس کی وجہ سے اسے اپنے ننھے سے دل میں اندر ہی اندر آنسو امنڈتے محسوس ہوئے اور ایسا لگا کہ اماں تو بہت ہی پیاری ہے۔

    دونوں چھوٹے بھائی اور ایک بہن آ کر اغل بغل کھڑے ہو گئے۔ شاید جھلنگے پلنگ پر پڑی چھ مہینے کی بہن نے بھی کروٹ بدلی اور کالا دھاگہ بندھی سوکھی ٹانگ سے ہوا میں لات چلائی۔ اماں کہتی تھی کالا دھاگہ باندھنے سے نظر نہیں لگتی۔ اس سوکھی کالی، زور سے رونے کی بھی طاقت نہ رکھنے والی بچی کو کس کی نظر لگنے والی تھی؟

    ویسے وہ دونوں جو اس کے ساتھ لمبے لمبے ڈگ بھرتے چل رہے تھے اسے بہت اچھے لگ رہے تھے۔ ان کے پاس سے خوشبو بھی آ رہی تھی۔ ایسی خوشبو مولسری کے درخت کے نیچے آیا کرتی تھی یا جب کچے احاطے میں لگی رات کی رانی مہکتی یا ہار سنگھارنے ہنس ہنس کے پھول جھاڑے ہوتے۔ انسانوں کے پاس سے ایسی خوشبوئیں کہاں آتی تھیں۔ کیا ان خوشبو دار لوگوں کے گھر رات کی رانی مہکتی ہوگی؟ کیا وہاں مولسری کا درخت ہوگا؟ کیا ہار سنگھار وہاں بھی ہنس ہنس کر اپنے ننھے ننھے ستاروں جیسے سفید پھول جھاڑتا ہوگا جن کی نازک ڈنڈیاں بطخ کی چونچ جیسے گہرے نارنجی رنگ کی ہوتی ہیں کیا۔

    وہاں بھی تالاب ہوگا اور اس کے کنارے وہ گندے بدہیئت سو رہوں گے جن کی وجہ سے ابا کے اپنے بچوں کو غصے میں سور کا بچہ کہنے پر اسے بےحد غصہ آتا۔ (گالیاں دیتے ابا اسے بہت برے لگا کرتے تھے لیکن ابھی خاموش، کنارے کھڑے ابا پر اسے بڑا ترس آیا) یہ چشم زدن میں زندگیاں یوں کیسے بدل جایا کرتی ہیں (ایسا سوچنے کے لئے اس کے پاس الفاظ نہیں تھے لیکن سوچ تو الفاظ کی پابند نہیں ہوتی ورنہ گونگے بہرے کبھی کچھ نہ سوچ پاتے) اس نے جاتے جاتے پلٹ کر ایک نظر اپنی محبوب بکری پر ڈالی جو کھونٹے سے بند ھی بیٹھی مزے سے جگالی کر رہی تھی۔ دونوں بچے پاس ہی پھدک رہے تھے اور بکری کے دودھ سے بھرے تھن زمین پر لوٹ رہے تھے۔ اس کا جی چاہا ایک بار پاس جا کر اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر اسے الوداع کہہ کر آئے۔

    بس چلی تو سارا کچھ پیچھے چھوٹنے لگا۔ تاڑی پی کر اماں کی اکلوتی چیز چاندی کی پائل، چرانے والے ماموں اور ہوا پی کر نشہ کرنے والے جھومتے تاڑ کے درخت، کھیت کھلیان، تالاب، ڈھٹائی سے راستے میں کھڑی گائیں، امرتی ساؤ کی دوکان پر جلتی ڈھبری اور بلاوجہ بھونکتے کتے اور جب ٹرین چلی تو جو پیچھے چھوٹ رہا تھا اس کے چھوٹنے کی رفتار اور تیز ہو گئی۔ ہاں چاند اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور وہ ستارہ بھی جو اس کے گھر کے ٹھکو اوپر سے جھانکا کرتا تھا۔ کیا یہ اس کے ساتھ ساتھ پٹنہ شہر تک جائیں گے؟ ان لوگوں کے گھر سے بھی دکھائی دیں گے؟

    اماں نے کہا تھا ان لوگوں کو بھیا، بھابھی کہنا۔ انہوں نے اسے کھانا کھلایا پھر اس کا بستر بچھا دیا۔ ٹرین الگ جھولا جھلا رہی تھی۔ پہلے اسے لگ رہا تھا آج کی رات بہت بھاری ہے لیکن ایسی نیند آئی کہ صبح جھنجھوڑ کر جگایا گیا۔

    اسٹیشن، گھر، گرد و پیش دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ تلاؤ کی مچھی کو کسی نے اچھال کر گنگا میں ڈال دیا تھا۔

    گھر میں ایک بڑی شفیق بزرگ عورت تھیں۔ جنہیں لوگ اماں کہتے تھے۔ یہ دونوں تھے جو اسے لائے تھے۔ اماں کے بیٹا، بہو، دو چھوٹے لڑکے تھے۔ ایک پانچ برس کا اور دوسرا کوئی ڈھائی تین سال کا۔ بچے ایسے خوبصورت، صحتمند اور خوش و خرم لیکن اس کے ذخیرۂ الفاظ میں صحتمند اور خوش و خرم جیسے الفاظ تھے ہی نہیں۔

    سب لوگ روز نہا دھو کر کپڑے بدلا کرتے تھے۔ اتنے کپڑے؟ اسے بھی تو ایک ساتھ دو جوڑے دیے گئے اور ایک جوڑ کپڑے بھابھی یہاں سے لے کر بھی گئی تھیں جو اسے پہنا کر لائی تھیں۔ اس کا کثیف، پرانا جوڑا وہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔ نئے چپل، بالوں کے لئے ربن۔ اسے ایک چھوٹا بکس دیا گیا۔ اس میں سارا سامان تھا۔ یہ ہمارا ہے؟ وہ ہکلائی تھی۔ بہت دیر لگا کر اسے یقین ہوا کہ یہ چیزیں اسی کی ہیں۔

    سب اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کر رہے تھے۔ بس موٹی ملازمہ جو صبح شام آ کر جھاڑو بہارو کرتی اور کھانا پکاتی، کچھ ٹیڑھی سی رہا کرتی تھی۔ پہلے دن بھی اس نے کہا تھا، ’’اے چھوکری، خالی بیل جیسی آنکھوں سے تاکے ہے کہ کچھ کام دھام بھی جانے ہے۔‘‘ اس پر ان بزرگ خاتون نے تنبیہ کی تھی۔

    ’’سیکھ لے گی سیکھ لےگی اور کام ہے بھی کیا۔ دونوں بچوں کو ہی تو سنبھالنا ہے۔‘‘

    کئی دن گزر جانے کے بعد بھی وہ اس سارے کارخانے کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے یوں دیکھتی رہتی تھی جیسے ان میں سارے جہاں کی حیرت سمٹ آئی ہو۔ ایک دن وہاں ان بچوں کے ماموں آئے۔ ان کو بھی وہ دیر تک گھورتی رہی۔

    ماموں کہیں ایسے بھی ہوتے ہیں عمدہ پینٹ شرٹ میں ملبوس، ہنس مکھ، بچوں کے لئے بہت سے چاکلیٹ لانے والے ماموں کیا اپنی بہن کا زیور چرائیں گے؟

    ’’ارے یہ کہاں سے مل گئی۔‘‘ انہوں نے بزرگ خاتون سے کہا۔ انہیں وہ اماں کہہ رہے تھے۔

    ’’کشن گنج والی غریب رشتہ داروں کی لڑکی ہے۔ ان کے یہاں ضرورت نہیں تھی۔ یہاں رکھوا دیا۔‘‘

    ’’ارے تو ایک ہمیں بھی دلوا دیں۔‘‘

    ’’لو بھلا۔ بازار میں بک رہی ہیں کیا۔‘‘

    ’’اس کی کوئی بہن نہیں ہے؟‘‘

    ’’ہے تو لیکن ماں باپ اب دیں گے نہیں۔ لڑکی کو باہر بھیجنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ کشن گنج والی پر انہیں پورا بھروسہ تھا اس لئے بھیج دیا۔‘‘

    ’’اماں، آپ ہمارا خیال نہیں کر رہیں۔‘‘

    ’’میاں پہلے اپنا خیال۔ اس عمر میں دو بچے تنہا ہم پال رہے تھے۔ دلہن بیگم دن بھر نوکری پہ۔ اپنے بچوں کو پال پوس کے بڑا کر دیا تھا۔ اب بڑھاپا خراب۔‘‘

    ’’ارے تم اپنی بہن کو بلا سکتی ہو؟‘‘ انہوں نے براہ راست اس سے سوال کیا۔

    وہ تکتی رہی۔

    ’’ایسے ہی تاکے ہے ٹکر ٹکر۔ کوئی کام تھوڑی کرے ہے۔ خالی کھائے کو آئی ہے۔ کھا ہے ڈبرا بھر کے۔‘‘ موٹی بوا مو نہ ہی مونہہ میں بڑبڑائیں۔

    ’’بوا ایسے مت کہئے۔‘‘ وہ جو اماں کہلاتی تھیں ان کے کان بڑے تیز تھے۔ ’’بچوں کو یہی دیکھے گی ابھی تو ہم اسے کام سکھا رہے ہیں۔ رہا کھانا تو ابھی بھوکی ہے جب نیت سیر ہو جائےگی تو ہم لوگوں جیسی ہو جائےگی۔‘‘ اس کی تربیت شروع ہو چکی تھی۔

    بڑا بچہ اسکول جاتا تھا۔ (وہ خود کبھی اسکول نہیں گئی تھی۔ اس کے بعد جو بھائی تھا وہ کبھی مسجد میں مولوی صاحب کے مدرسے جا نکلتا تھا۔ یہاں پانچ برس کا بچہ اسکول جاتا ہے وہ بھی روزانہ بلاناغہ۔۔۔) یا مظہر العجائب! (مگر اسے یا مظہرالعجائب کہنا نہیں آتا تھا۔) اس کو اسکول کے لئے تیار کرنا، بیگ میں ٹفن کا ڈبہ اور پانی کی بوتل ڈالنا، جوتے پالش کرنا اور اس کے جانے کے بعد چھوٹے کا خیال رکھنا اس کے ابتدائی سبق تھے۔ چھوٹے کو بوتل میں دودھ بھر کر دینا تھا جو وہ دن میں تین چار مرتبہ پیتا تھا۔جتنی مرتبہ وہ بوتل میں دودھ ڈالتی اتنی مرتبہ صابن سے ہاتھ دھونے پڑتے۔ گھر پر تو وہ اپلے پاتھ کر بھی صابن سے ہاتھ نہیں دھوتی تھی۔

    ان بچوں کے پاس ایک بڑی ٹوکری بھر کر کھلونے تھے۔ ان کے باوجود ہفتے میں ایک آدھ نیا کھلونا آہی جاتا۔ کبھی ماں باپ میں سے کوئی لے آتا، کبھی وہ ساتھ گھومنے نکلتے تو بچے خود فرمائش کر کے لے لیتے۔ وہ زیادہ تر گاڑیاں لے کر آتے۔ کار، ٹرک، بس، پولس کا بائیک، پھر بندوقیں، ریوالور، ان کی نقلی گولیاں، پٹری پر گول گول گھومتی ٹرین، بال گیندیں لڑکے تھے نا اس لئے ان کے کھلونوں میں کوئی گڑیا نہیں تھی۔ ایک بار اس نے میلے میں پلاسٹک کی ایک گڑیا خریدنے کی ضد کی تھی۔ ابا نے اسے بھدی سی مٹی کی گڑیا لے دی۔ پلاسٹک کی گڑیا بہت مہنگی تھی۔ مٹی کی گڑیا سے کھیلنے میں اتنا مزہ نہیں آیا اور بھیا سے لڑائی ہوئی تو تیسرے دن اس نے گڑیا توڑ بھی دی۔

    لیکن ایک دن لڑکوں کے اس گھر میں بھی اس کی حیران آنکھوں نے گڑیا ڈھونڈ نکالی۔ بہت بڑی تقریباً نوزائیدہ انسانی بچے کے سائز کی، موٹی، گدبدی، نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والی اس نے سچ مچ کی فراک پہن رکھی تھی اور اس کے جوتے بھی بالکل اصلی تھے، بالوں میں سرخ رنگ کار بن بندھا ہوا تھا۔ ابھی اس گھر میں اور کیا کیا دیکھنا باقی ہے۔ ایسی بھی گڑیاں ہوتی ہیں؟ اتنی حسین، ایسی کہ معلوم ہو زندہ ہیں، بس ابھی بول اٹھیں گی۔ اس کا دل اسے گود میں اٹھانے کو مچل گیا۔

    اب اسے بھابھی نے اپنے کمرے میں جھاڑ پونچھ کا کام بھی سونپ دیا تھا۔ کچھ دن سے موٹی ملازمہ کام بڑھ جانے کی شکایت کر رہی تھی۔ وہ پہلے دن کمرے میں داخل ہوئی تو سب سے پہلے نظر گڑیا پر ہی، پڑی شیشے کی الماری میں رکھی ہوئی تھی۔ وہ دیر تک اسے تکتی رہی تو بھابھی نے بتایا کہ یہ ان کی گڑیا تھی۔ شادی کے کچھ دن بعد وہ اسے اپنے گھر سے لے آئی تھیں۔ حیرت سے عموماً اس کی زبان گنگ رہتی تھی اور ویسے بھی وہ ایک خاموش طبیعت لڑکی تھی۔ حالانکہ بھابھی ابھی نوجوان تھیں۔ بالکل لڑکی جیسی لگتی تھیں لیکن شادی شدہ تھیں۔ ان کے دو بچے تھے۔ کیا ان کی عمر کی عورتیں گڑیا کھیلتی ہیں جو وہ اپنی گڑیا اٹھا لائی تھیں؟ ایسی گڑیا ملتی کہاں ہے اور کتنے پیسوں میں ملتی ہے؟ یہ سارے سوال اس کے ذہن کی تہوں سے اٹھ اٹھ کر واپس انہیں میں دفن ہوتے رہے۔ ہاں اس گڑیا کو چھونے، اس سے کھیلنے کی خواہش جنون کی حد تک سر پر سوار ہونے لگی۔

    انہیں دنوں ایک دوپہر میں اماں حسب معمول اپنے کمرے میں لیٹنے جا چکی تھیں۔ بھیا بھابھی اپنے اپنے دفتر میں تھے اور وہ دونوں بچوں کو لے ان کے کمرے میں انہیں سلانے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ دونوں میں سے کوئی سونے پر آمادہ نہیں تھا۔

    ’’اے، ہمارے ساتھ کھیلو نا۔‘‘

    ’’بابو گڑیا کھیلیں گے؟‘‘

    ’’ہم لڑکی نہیں ہیں۔ گڑیا سے تو لڑکیاں کھیلتی ہیں۔ چور سپاہی کھیلتے ہیں۔‘‘

    ’’ہمارے ساتھ کھیلئے نا۔ ہم تو لڑکی ہیں۔ لائیں؟‘‘ اسے بھابھی کے کمرے میں داخلہ مل چکا تھا۔

    اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھا ہوا اخروٹ کی لکڑی کا سبک اسٹول کھسکایا اور اس پر چڑھ کر گڑیا اتار لی۔ گود میں لیا تو محسوس ہوا جیسے جنم جنم کی پیاس مٹ گئی ہو۔ اس نے اس کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کی۔ ربن کھول کر پھر سے باندھا، فراک دوبارہ پہنائی۔ لڑکے نے کبھی گڑیا نہیں کھیلی تھی لیکن ابھی اسے بھی بڑا مزہ آیا۔ چھوٹا لڑکا اپنے لکڑی کے گھوڑے پر بیٹھا جھول رہا تھا۔ بڑے نے گڑیا اسے دی۔ ’’لو اسے اپنے گھوڑے پر بیٹھا لو۔ سیر کرا کے لے آتے ہیں۔‘‘

    تینوں کھلکھلاکر ہنسے۔ یہاں آنے کے بعد پہلی مرتبہ وہ اس طرح دل کی گہرائیوں سے کھلکھلا کر ہنسی تھی۔ ایسی ہنسی تو اس کے اپنے گھر میں بھی شاید ہی گونجتی ہو۔

    ’’اب رکھ دو۔ بڑے نے کہا۔ ممی دیکھیں گی تو ڈانٹیں گی۔‘‘

    لیکن اس دن اس کی زندگی میں ایک نیا ورق کھلا تھا۔ گڑیا اکثر دو پہر میں خاموشی سے اتر کر نیچے آ جاتی اور تینوں مل کر گڑیا سے کھیلتے۔ اس نے اسے دونوں بچوں کی چھوٹی بہن بنا دیا تھا۔ چھوٹے کے نہ سہی لیکن بڑے بچے کے ذہن میں بہن کا تصور تھا۔ گڑیا موٹر میں سوار ہوتی۔ گھوڑے پر ساتھ بیٹھ کر گھومنے نکلتی۔ ایک دن اس کی فراک اور ربن دھوکر سکھائے گئے۔ ادھر لڑکی کو بچوں کے کپڑوں پر استری کرنا سکھایا گیا تھا۔ اس نے استری لگائی اور دونوں چیزیں پریس کیں۔ انہیں نئے سرے سے پہنایا گیا۔ ربن کو دوسرے انداز میں باندھا گیا اور پھر واپس رکھنے سے پہلے، پہلے جیسا کر دیا گیا۔ یہ گڑیا ہم اپنی بہن کو دکھاتے۔ وہ بھی اس سے کھیلتی۔ میری بیچاری ننھی بہن۔ آٹھ سال کی ہو گئی اسے کوئی گڑیا نہیں ملی۔ اسے دیکھےگی تو وہ کیسی خوش ہوگی، اس نے سوچا۔ اب اس کی آنکھوں کی حیرانی کم ہونے لگی تھی لیکن دل میں خواہشات کا طوفان اٹھنے لگا تھا۔ آج ان لوگوں نے اسکول اسکول کھیلا تھا۔ یہ آئیڈیا بڑے لڑکے کا تھا۔ وہ ٹیچر بنا۔ لڑکی اور گڑیا اسٹوڈنٹ۔ تھوڑی دیر کو چھوٹا لڑکا بھی اپنا ہیلی کاپٹر اڑانا بھول کر ’کلاس‘ میں آ بیٹھا تھا۔ ان لڑکوں کے پاس سچ مچ کا بورڈ تھا۔ کافی بڑا۔ لیکن وہ سیاہ نہیں بلکہ سفید رنگ کا تھا۔ اس پر لکھنے کا خاص قلم تھا جو خوب موٹے حروف لکھتا۔ جب چاہو صاف کر دو اور دوسرا کچھ کھ لو یا تصویر بنالو۔ لڑکے کے پاس رنگین تصویروں والی بہت ہی خوبصورت کتابیں تھیں۔ اب تو ایک چمکیلی سی تصویروں والی کتاب چھوٹے بچے کے لئے بھی آ گئی تھی۔ وہ اب ساڑھے تین سال کا ہو رہا تھا اور اسے اسکول میں ڈالنے کی بات ہو رہی تھی۔ وہ کتاب بڑی لبھاؤنی تھی۔ اس کا بھائی مدرسے میں جو کتاب پڑھتا تھا وہ تو شکل سے ہی ایسی لگتی تھی کہ پڑھنے سے انسان بھاگے۔ بس کالے کالے حروف، ملگجا کاغذ۔ ہاتھ لگاؤ تو پھٹے۔ بابو جس کتاب سے ٹیچر بن کر اے بی سی ڈی پڑھا رہے تھے وہ اگر بھیا کو ملتی تو پڑھنے سے نہ بھاگتا۔

    یہاں اماں نے اس کے لئے یسرناالقرآن منگا دیا تھا۔ شام کو تھوڑی دیر بٹھا کر پڑھاتی تھیں۔ اس کا جی چاہتا ان تصویروں والی کتابوں سے بھی پڑھے اس لئے بابو نے جو اسکول والا کھیل شروع کیا تو اسے بہت ہی اچھا لگا۔

    ’’کہتے ہیں اچھا نوکر بھی قسمت سے ملتا ہے۔‘‘ ایک دن اماں کے پاس سے وہ پڑھ کر ہی تو وہ کسی سے کہہ رہی تھیں۔ شاید کوئی ملنے والی آ نکلی تھیں۔ ’’یہ لڑکی بس اللہ کی بھیجی آ گئی۔ دونوں بچوں کو سنبھال لیتی ہے۔ بڑا آرام ہو گیا ہے۔ اصل گھر میں سب سے بڑی تھی۔ کوئی نو، دس برس کی۔ اس کے بعد ان کی اماں کے چار چنے گی پوٹے۔ انہیں یہی سنبھالتی تھی۔ بس یہاں کے طور طریقے سیکھنے تھے۔ ہے ذ ہین۔ جلدی سیکھ لے۔‘‘

    اب کیا نوکروں کو بھی نظر لگتی ہے۔ لے بھلا ہو۔ کل ہی تو اماں نے یہ بات کہی تھی یا شاید پرسوں اور آج صبح وہ گھر سے غائب پائی گئی۔

    لوگ ایسے پریشان ہوئے کہ چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ پرائی لڑکی اور آج کل جو حال ہے نہ پانچ برس کی محفوظ نہ پچاس کی۔ گھر میں ہڑکمپ مچ گیا۔

    ’’اجی، لڑکی سے پہلے سامان تو دیکھئے۔ ہم پہلے ہی نہ کہتے تھے۔ بیل جیسے دیدوں سے ہر چیز تاکے تھی۔ رات دلہن شادی سے آکر زیور اتار کر باہر ہی رکھن ہیں۔‘‘ موٹی ملازمہ نے کہا۔ کوئی لگا رہا ہوگا ساتھ۔۔۔ بھابھی نے جلدی سے سنگار میز کی دراز کھولی۔ وہ جب جھمکے اتار رہی تھیں تو وہ پاس کھڑی ٹکر ٹکر مونہہ دیکھ رہی تھی۔

    جھمکے وہیں تھے۔ سونے کی چوڑیاں بھی۔

    ’’دلہن تم نے پرسوں بینک سے پیسہ نکالا تھا۔ لاپرواہ ہو۔ کہاں رکھا تھا؟‘‘ اماں بھی بول پڑیں۔

    بھابھی نے جلدی سے بیگ ٹٹولا۔ پانچ پانچ سو کے نوٹوں کی گڈیاں۔ روپے گنے۔ پورے تھے۔ اسے کپڑے رکھنے کے لئے جو اٹیچی دی گئی تھی وہ وہیں تھی۔ اس میں کپڑے بھی تھے۔ تب؟

    ’’تب کون چیز؟ کسی کے ساتھ نکل گئی ہے۔‘‘ ملازمہ نے کہا۔

    ’’اے ہے بوا! خدا سے ڈرو۔ دس ایک سال کی بچی۔‘‘ اماں نے کہا۔

    ’’اجی آج کل ٹی وی دیکھ دیکھ کے دس برس میں پوری عورت ہو جاں ہیں‘‘،

    بوا نے جواب دیا۔

    میاں بیوی دونوں نے چھٹی لی۔ پولیس میں رپورٹ کریں تو چائلڈ لیبر والے پکڑیں گے۔ خیر اس کی نوبت آئی تو کہہ دیا جائےگا کہ غریب رشتہ دار ہے۔ ماں باپ نے یہاں پڑھانے کے لئے بھیجا ہے۔ مصیبت کر دی لڑکی نے۔ اماں بہت لاڈ کرتی تھیں۔ سب سے زیادہ آرام انہیں کو تھا۔ ڈرتی تھیں اگر دل نہ لگا یا نا آسودہ رہی تو چل دےگی۔ اب بھگتیں بلکہ سب کو بھگتوائیں۔ گاڑی لے کر نکلے۔ کیا پتہ ٹرین یا بس سے کہیں نکل گئی وہ تو کیا حشر ہوگا۔ گھر پہنچ گئی تو خیر، نہ پہنچی تو اس کے ماں باپ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ غریب بےچارے۔ بھروسے پر لڑکی سونپی تھی۔ چلتے وقت رخصت کرنے کو کھڑی ماں نے میلے کچیلے آنچل سے نہ جانے کن خاموش آنسوؤں کو پونچھا تھا۔

    سارے دن کی تگ و دو کے بعد اسٹیشن پر بیٹھی ملی۔ پھٹی پھٹی حرھان آنکھوں کی حیرانی بکھیرتی، آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ کر یہ سمجھنے کی کوشش کر تی کہ کون سی گاڑی اس کے گاؤں جائےگی۔ ہونٹوں پر پڑآیاں بندھی ہوئی تھیں۔ گالوں پر آنسو خشک ہو چکے تھے۔ بغل میں گڑیا دبی ہوئی تھی اور اے بی سی ڈی والی پرائمری۔

    مأخذ:

    آنکھن دیکھی (Pg. 32)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے