Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گنبدِ بے در

عوض سعید

گنبدِ بے در

عوض سعید

MORE BYعوض سعید

    پروفیسر اکرام نے خودکشی کر لی!

    یہ ایک ہولناک خبر کسی بہت بڑے دھماکے کی طرح اس کے کانوں سے ٹکرائی، وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ڈرائینگ روم کی کھڑکی کے قریب آ کر ٹھہر گئی۔

    وہ گزرتے جاڑوں کی ایک طویل خوبصورت رات تھی، سرما کی برفیلی ہوائیں سائیں سائیں کر رہی تھیں، سامنے سرو کے لانبے درخت سردی میں ٹھٹھرے ہوئے چپ چاپ کھڑے تھے جیسے وہ بھی ایک سانحۂ عظیم پر اشکبار ہوں۔ ٹیبل لیمپ کی مری ہوئی مدھم روشنی میں اس کا آبنوسی چہرہ آئل پینٹ کی بنائی ہوئی کسی تصویر کی طرح چمک رہا تھا، اس کی نظروں کے سامنے پروفیسر اکرام کا باوقار چہرہ، ہونٹوں میں دبا ہو قیمتی سگار، پتلی خوبصورت لانبی لانبی آرٹسٹک انگلیاں، دبی دبی مسکراہٹ، پیار کے شہد میں ڈوبی ہوئی باتیں، طنز کے نکیلے نشتر، گھٹن اور مخصوص قسم کی انفرادیت جو تجربے کی بھٹی میں سلگ کر ان کے کردار کا جزو بن چکی تھیں ایک ایک کرکے سامنے آ رہی تھیں اور اسے احساس ہو رہا تھا جیسے اس کی زندگی ایک طویل رات ہے جس کی آنکھوں میں سوائے آنسوؤں کے کچھ نہیں۔

    یہ سرما کے ابتدائی دنوں کی بات تھی، اچانک ابا میاں نے اس سے آ کر کہا تھا۔

    ’’نیلو تو کہتی تھی نا کہ تجھے اس سال ٹیوشن لینی ضروری ہے ورنہ ڈویژن نہ لا سکے گی، میں نے اس سلسلے میں پروفیسر اکرام سے بات کی ہے، پہلے تو انھوں نے صاف نفی میں جواب دے دیا پھر پتہ نہیں کیا جی میں آئی کہ حامی بھر لی۔‘‘

    ’’تم اپنی بچی کو امتحان تک کے لیے میرے گھر چھوڑ جاؤ، نجو اس کی دیکھ بھا ل کر لیا کرےگی اور میں بھی بشرط فرصت اسے پڑھا دیا کروں گا۔‘‘

    ’’پچھلے دنوں خان بہادر کے لڑکے فیاض کی شادی میں میں نے انھیں پہلی بار دیکھا تھا، وہیں ان سے تفصیلی تعارف ہوا تھا، بہر حال ایسا آدمی یہاں چراغ لے کر ڈھونڈنے پر بھی نہ ملے‘‘ یہ کہہ کر وہ حسبِ معمول کلب چلے گئے او ر وہ چپ ہو کر رہ گئی۔

    دوسرے دن صبح جب وہ ابا میاں کی کار میں بیٹھی ہوئی پروفیسر اکرام کے گھر پہنچی تو صبح کے آٹھ بج چکے تھے لیکن آسمان پر اچانک کچھ ایسی دھند چھا گئی تھی کہ جیسے ابھی ابھی سویرا ہوا ہو۔

    چھوٹے خوش نما بنگلے کے اطراف سرو کے دو رویہ درخت سر اونچا کیے کھڑے تھے، انگور کی بیلیں پہاڑی نالوں کی طرح بل کھاتی ہوئی دیواروں کا احاطہ کیے ہوئے تھیں جن میں جا بجا خوشے پک آئے تھے۔

    جب ابا میاں نے گیٹ کے اندر داخل ہو کر دیوار سے لگی ہوئی کال بیل پر انگلی رکھی تو آواز کے ساتھ ہی ایک لمبا تڑنگا ادھیڑ عمر کا خوبصورت آدمی مسکراتا ہوا باہر آیا۔

    ’’اوہ تم آ گئے۔۔۔ آؤ آؤ۔۔۔ یہی ہے نا تمھاری نیلو لڑکی، صورت شکل سے بڑی غبی معلوم ہوتی ہے، میرا خیال ہے یہ لڑکی فرسٹ ڈویژن میں بی۔ اے۔ پاس نہ کر سکےگی، تاہم میں اپنی سی کوشش ضرور کروں گا۔‘‘

    اسی وقت اس کا چہرہ مارے کوفت کے لال بھبھوکا ہو کر رہ گیا تھا، ابا میاں بھی خفیف سے ہو کر رہ گئے تھے لیکن انھوں نے اپنے بشرے سے ظاہر ہونے نہیں دیا تھا کہ انھوں نے پروفیسر اکرام کے ریمارک کا برا مانا ہے۔ پھر بغلی کمرے میں داخل ہو کر پروفیسر اکرام نے نجو کو آواز دی جو سفید نائیلون کی ساری میں ملبوس موٹے شیشوں کا چشمہ چڑھائے دھیرے دھیرے قدم ناپتی ہوئی اس کے روبرو آ کھڑی ہو گئی، نجو کے چہرے کو دیکھ کر اسے یوں لگا تھا جیسے وہ کسی خیالی جزیرے کی اپسرا ہو، پتلی پتلی لانبی لانبی انگلیاں، کشمیری سیب کے سے سرخ سرخ گال، نشیلی آنکھیں، خوشبو میں لپٹی ہوئی ایک ہستی جسے تصورات ہی کی دنیا میں دیکھا جا سکتا تھا۔

    ’’تم ہی نیلو ہو نا‘‘ نجو نے اسے پیار سے گلے لگاتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’بڑی خوبصورت ہو۔‘‘

    نجو کی اس تعریف سے اس کے دل کی کلی کھل اٹھی تھی، اسی وقت بےاختیار نیلو کا دل چاہا تھا کہ پروفیسر اکرام کے بجائے نجو ہی اسے پڑھایا کرے۔ جب ابا میاں اسے چھوڑ کر چلے گئے تو اسے ایک لمحے کے لیے احساس ہوا تھا جیسے وہ ایک بہت بڑے سفر پر تنہا نکل کھڑی ہو، پھر پروفیسر اکرام نے ابا میاں کو گیٹ تک پہنچا کر خدا حافظ کہا تھا اور لوٹتے وقت انھوں نے نجو کو تاکید کی تھی کہ وہ اس کا ہر طرح خیال رکھے۔ نجو پیار سے اس کی بانہوں میں ہاتھ ڈالے اسے بغلی کمرے میں لے کر گئی تھی جو بطور خاص اس کی اسٹڈی کے لیے صاف کیا گیا تھا، پھر نجو نئے ڈیزائن کی ایک خوبصورت پلیٹ میں انگور کے خوشے رکھ لائی تھی، نجو سے مل کر اسے بڑے اپنے پن کا احساس ہو رہا تھا، اس کی محبت میں ڈوبی ہوئی باتیں اسے بڑی بھلی لگ رہی تھیں، وہ چند گھنٹوں ہی میں اس سے بےتکلف ہو گئی تھی جیسے وہ بچپن سے لے کر جوانی تک کی منزل میں قدم بہ قدم اس کے ساتھ رہی ہو، باتوں باتوں میں رات کے گیارہ بج گئے تھے۔ نجو نے پیار سے اس کے گالوں کو تھپتھپاتے ہوئے کہا، اب تمھیں آرام کرنا چاہیے، شاید اکرام تمھیں صبح ٹیوشن لیں۔ ‘‘یہ کہہ کراس نے کہا تھا’’ نیلو! تم ڈرتی نہیں ہونا؟ ورنہ میں بھی یہیں آکر سو جاؤں گی اس وقت اکرام کا خیال کرتے ہوئے اس نے تکلفاً کہا تھا کہ وہ تنہا ہی سونے کی عادی ہے۔ جب نجو چلی گئی تو اس نے مسہری پر پاؤں پھیلا دئیے تھے، اس وقت اس کی آنکھوں میں نیند کا دور دور تک پتہ نہ تھا، وہ سامنے بک شیلف سے کتابیں نکال کر دیکھ رہی تھی پھر اسی بک شیلف میں اسے ایک البم دکھائی دیا، پہلے تو اس نے سوچا کہ کسی اجازت کے بغیر البم دیکھنا اخلاقی گراوٹ ہے لیکن البم کا ڈسٹ کور کچھ اتنا حسین اور ماڈرن تھا کہ وہ دیکھے بغیر نہ رہ سکی تھی، اس نے جب پہلا ورق الٹا تو اس کی آنکھیں اچانک روشن ہو گئی تھیں، یہ تصویر ایک خوبصورت نوجوان کی تھی جو مسکراتا ہوا کھڑا تھا، اس کے ذہن میں کئی خوبصورت نوجوان آئے لیکن اس تصویر میں جو بات اور بیوٹی تھی وہ اسے کسی کے ہاں بھی نہ مل سکی تھی، اسے احساس ہوا تھا کہ وہ خوبصورت نوجوان اسی کی شخصیت کا ایک سایہ ہو جس کے ساتھ وہ مدت سے قدم بہ قدم چلتی آ رہی ہو۔ پھر اس نے البم کا دوسرا ورق الٹا تھا، سلک کی کالی ساری میں ملبوس، چہرے پر جا بجا بال بکھرائے ایک پرکشش لڑکی بالکونی میں کھڑی دور جانے کیا دیکھ رہی تھی، تصویر کے تیور صاف اس با ت کی گواہی دے رہے تھے کہ یہ نجو تھی۔

    وہ البم کے اوراق میں ڈوبی ہوئی تھی کہ کسی کے قدموں کی متوازن آہٹ نے اسے چونکا دیا، اس کی نگاہوں کے سامنے پروفیسر اکرام سگار پیتے کھڑے تھے، ان کی بڑی بڑی غلافی آنکھوں میں شعلے سے لپک رہے تھے، ان کے چہرے سے کرب اور بے چینی آشکار تھی، انھوں نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے البم جھپٹتے ہوئے تلخ لہجے میں کہا تھا۔

    ’’یہ البم تم کس کی اجازت سے دیکھ رہی ہو، تم یہاں پڑھنے آئی ہو یا میرے منہ پر تھوکنے۔‘‘

    اس وقت وہ خجالت، شرمندگی اور کوفت کے مارے چپ ہو کر رہ گئی تھی۔

    پھر ناشتے کے بعد جب نجو نے اس سے اداسی کا سبب پوچھا تھا تو اس نے بتایا تھا کہ کل رات جب وہ تصویروں کا البم دیکھ رہی تھی تو پروفیسر اکرام خواہ مخواہ غصے سے چراغ پا ہو گئے تھے، انھوں نے کہا تھا ’’وہ یہاں پڑھنے آئی ہے یا ان کے منہ پر تھوکنے۔‘‘

    اس پر نجو نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا تھا، ہاں البم ان کی دکھتی رگ ہے، اس سلسلے میں وہ کئی بار اس سے الجھ چکے ہیں، لیکن ان تمام خامیوں اور خوبیوں کے باوجود وہ پروفیسر اکرام کو ٹوٹ کر چاہتی ہے۔ نجو کے ان اشاروں میں ان کی زندگی کے کئی پوشیدہ رخ ابھر کر سامنے آ گئے تھے، پھر وہ اچانک اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔

    رات جب وہ کمرے میں پڑی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔

    ’’نیلو‘‘۔ کمرے میں سے پروفیسر اکرام کی ڈوبتی ہوئی آواز آئی، جیسے وہ دور کسی گھاٹی سے آواز دے رہے ہوں۔

    ’’وہ تمھیں بلا رہے ہیں۔‘‘ نجو نے شکستہ لہجے میں کہا تھا اور جب وہ ہاتھ میں کتابیں تھامے اکرام کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ شب خوابی کے لباس میں ملبوس منہ میں سگار دبائے مسہری پر لیٹے ہوئے تھے، ان کے سرہانے گلاب، چنبیلی اور موتیا کے پھول بکھرے ہوئے تھے، کمرہ پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا، گو ان کی عمر چالیس سے متجاوز ہو چکی تھی لیکن وہ اب بھی چہرے مہرے کے لحاظ سے بڑے بانکے ظاہر ہوتے تھے۔ اس کی نگاہ ایک لمحے کے لیے ان کے چہرے پر آ کر رک گئی تھی، اسے اچانک یوں لگا جیسے پروفیسر کے روپ میں البم والا نوجوان اس کے سامنے مسکراتا کھڑا ہے۔

    ’’یہ میرے چہرے کو کیا تک رہی ہو نیلو؟ اب اس چہرے میں کیا رکھا ہے، میں نے کسی کے انتظار میں اپنی زندگی کے کئی خوبصورت سال یوں ہی گزار دئیے لیکن دل کے تصوراتی البم میں کوئی تصویر ابھر نہ سکی، اب یوں لگ رہا ہے جیسے یہ اندھیرا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اجالے کا روپ دھار لےگا،‘‘ انھوں نے نحیف شکستہ آواز میں ڈوب کر کہا تھا۔

    ’’تم گھبرا رہی ہو، آؤ میرے قریب بیٹھو۔‘‘ انھوں نے پھر ایک بار پیار میں ڈوب کر کہا تھا۔

    اور وہ یکبارگی اٹھ کر ان کے قریب جا بیٹھی، مسہری پر بیٹھتے سمے اس کے ہاتھوں سے اچانک کتابیں گر گئی تھیں او ر اکرام نے انھیں احترام سے اٹھا کر ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔

    پھر وہ دھیرے دھیرے کہہ رہے تھے۔

    ’’نجو مجھے بہت چاہتی ہے، یوں سمجھو اس نے اپنی پوری زندگی میری پوجا ہی میں تج دی لیکن افسوس کہ بے چاری مجھے پا نہ سکی۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے بجھا ہوا سگار سلگایا اور ایک لمبا کش لےکر دھوئیں کو فضا میں بکھیر دیا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ کسی تھیٹر میں بیٹھی اپنی ہی زندگی کے ڈرامے کا سین دیکھ رہی ہو۔

    باہر ہوائیں سسکیاں بھر رہی تھیں، رفتہ رفتہ ہوا کے تیز جھکڑ چلنا شروع ہو گئے تھے۔

    ’’بہت دنوں بعد آج طوفان آیا ہے،پتہ نہیں کیا ہو کر رہےگا۔‘‘ بادل کی گرج اور ہواؤں کی سسکیوں کے درمیان پروفیسر اکرام نے لرزتے ہوئے کہا تھا، پھر جب ہواؤں کا زور کم ہوا تو مطلع نکھر آیا، باہر سرو کے درختوں کی گردنیں طوفانی ہواؤں کے دباؤ سے جھک گئی تھیں، جب وہ اکرام کے ساتھ نجو کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ بےسدھ سورہی تھی، اسے اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ ابھی ابھی ایک طوفان اس کمرے کی دیواروں کو منہدم کرتا ہوا گزر گیا تھا۔

    ’’دیکھا تم نے نجو کس اطمینان سے سورہی ہے، وہ طوفان سے کھیل چکی ہے نا شاید اس لیے۔‘‘

    انھوں نے معنی خیز انداز میں کہا تھا، پھر وہ اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلی گئی تھی۔

    اس کا دل دھڑک رہا تھا، سو سو جتن کرنے پر اسے نیند نہیں آ رہی تھی، وہ مضبوطی سے آنکھیں بند کیے چپ چاپ پڑی تھی، کمرے میں اندھیرا ڈول رہا تھا، اسے اچانک احساس ہوا جیسے کوئی دبے پاؤں ا س کے کمرے میں گھس آیا ہو، تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے رخساروں پر کسی کی لانبی لانبی انگلیوں کے لمس کو محسوس کیا، یہ اس کا واہمہ نہیں تھا، پروفیسر اکرام اس کے رخساروں پرآہستہ آہستہ انگلیاں پھیر رہے تھے، اس نے جب کروٹ بدلی تو انھوں نے جھک کر اپنے جلتے ہوئے ہونٹ اس کے لبوں پر رکھ دئیے تھے، اسی وقت اسے احساس ہوا تھا کہ جیسے اس نے بجلی کے تاروں کو چھو لیا ہو، اس کی پیشانی خوشی، کوفت، اہانت کے ملے جلے جذبات سے جل رہی تھی، اس کے دل میں ایک طوفان سا بپا تھا، اس کا جی چاہتا تھا کہ اکرام کے منہ پر ایک زور دار چانٹا لگائے کہ وہ اپنی حیثیت کو پہچان لے لیکن وہ ایسا نہ کر سکی تھی، اس کے ہونٹوں پر، اس کے گالوں پر اکرام نے محبت کی صلیبیں گاڑ دی تھیں، پھر وہ اس کے گالوں کو سہلاتے ہوئے دبے پاؤں باہر چلے گئے تھے۔

    دوسرے دن صبح جب وہ نیند سے بیدار ہو رہی تھی تو اس کا سارا بدن ٹوٹ رہا تھا، اس کی آنکھیں کچھ جھکی جھکی سی تھیں، ناشتے پر جب اکرام نے اسے دیکھا تو ہ اس موقع کی منتظر تھی جب وہ اکرام کو ان کی جسارت کا مزہ چکھائے لیکن نفرت کے اس جذبے میں محبت کی چنگاریاں دہک رہی تھیں، وہ یہاں پڑھنے آئی تھی لیکن پڑھنا تو ایک طرف رہا وہ ایک ایسی شاہ راہ پر چل نکلی تھی جہاں ہر قدم پر اسے ٹھوکریں کھانے کا احتمال تھا۔

    کئی بار اس نے سوچا تھا کہ وہ ایک دن چپکے سے اپنے گھر چلی جائےگی اور ابا میاں سے رو رو کر سارا حال سنائےگی لیکن ہر بار اس نے اپنے آپ کو مجبور پایا تھا۔

    وہ گھنٹوں سوچا کرتی تھی لیکن اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا، وہ اب تک ایک متوازن زندگی گزار رہی تھی، زندگی میں مسرتیں تھیں، آرام تھا لیکن کوئی طوفان، کوئی ہلچل، کوئی ولولہ نہ تھا، اسے زندگی میں پہلی بار وہ نوجوان پسند آیا تھا جسے اس نے تصویر کے روپ میں دیکھا تھا، تصویر کو دیکھنے کے بعد اس کے دل کے تار بج اٹھے تھے جیسے ساکن پانی میں کسی شریر بچے نے پتھر پھینک دئیے ہوں۔

    لیکن جب وہ اکرام کو دیکھتی ہے تو وہ نوجوان اس کی شخصیت میں کیوں ڈوب جاتا ہے؟ اکرام سے نفرت کے باوجود یہاں سے بھاگ کیوں نہیں جاتی، اس رات جب اکرام نے جھک کر اس کا بوسہ لیا تھا، اس وقت اس نے ان کے منہ پر چانٹا کیوں نہ لگایا تھا ؟

    آخر یہ سب کیا ہے؟۔۔۔ یہ الجھنیں۔۔۔ یہ بےچینی، یہ اضطراب کس کا پیدا کردہ ہے؟ وہ اگر یہاں نہ آتی تو سب کچھ نہ ہوتا لیکن جب اکرام نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ پیوست کیے تھے تو اسے یہ احساس کیوں ہوا تھا جیسے البم والا نوجوان اس کے ہونٹوں میں شہد ٹپکا رہا ہو، اس کے دل کے اندرونی حصے میں تہ در تہ کوئی چور چھپا بیٹھا تھا جو کبھی کبھار سر نکالے سرگوشی کے سے انداز میں کہتا۔۔۔ ’’نیلو پہلا پیار امرت رس سے زیادہ میٹھا ہوتا ہے، نفرت کی ایک ایک ادا میں محبت پنہاں ہوتی ہے، وقت تیرے دامن میں پھول بکھیرنے کے لیے چشم براہ ہے او ر تو محبت کے خوبصورت دیوتا کو دیکھ کر بھاگ رہی ہے۔‘‘

    اس کا دماغ پھٹا جا رہا تھا، اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا تھا، یکایک اس نے دیکھا، ایک خوبصورت نوجوان پائپ پیتا اس کے سامنے کھڑا ہے، وہ آنکھیں جھپک جھپک کر اسے دیکھ رہی تھی، وہ اسے دیکھ کر بڑے حسین انداز میں مسکرائے جا رہا تھا، وہ والہانہ انداز میں اس سے جا لپٹی تھی، لیکن اس کے آگے کوئی نہ تھا، وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی، باہر درخت کی ٹہنی پر ایک بیمار سی فاختہ اداس بیٹھی تھی۔ کمرے میں اکرام کی دلدوز چیخ سنائی دی: ’’نیلو تم کہاں ہو‘‘ اس وقت اسے احسا س ہوا تھا جیسے دور کسی ویرانے سے اس کے محبوب کی آواز آ رہی ہو لیکن یہ آواز اس کے محبوب کی نہ تھی، پروفیسر اکرام کی تھی جس سے وہ بیک وقت نفرت بھی کرتی آ رہی تھی اور محبت بھی۔

    کمرے میں سے اکرام کی مسلسل ڈوبتی ہوئی آواز ابھر رہی تھی اور اس کا ذہن جیسے کرچی کرچی سا ہو کر رہ گیا تھا، وہ بڑے اعتماد اور تحمل کے ساتھ زمین سے چمٹی رہی جیسے وہ عورت نہیں ایک چٹان ہو۔

    نیلو۔۔۔ نیلو۔۔۔ نیلو۔۔۔ نی۔۔۔ لو۔۔۔ کمرے میں آخری بار بڑی گمبھیر آواز آئی، اس بار اس نے محسوس کیا جیسے اس کے پاؤں تلے سے زمین آہستہ آہستہ سرک رہی ہو، اس کا جی بےاختیار چاہا کہ ایک چیخ مارے او ر اس بھیانک چیخ سے خود اس کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں تاکہ وہ اس آواز کو سن نہ سکے لیکن اب اس کے قدم لمحہ بہ لمحہ اکرام کے کمرے کی طرف بڑھنے لگے تھے۔ جب وہ آہستہ آہستہ قدم ناپتی کمرے میں داخل ہوئی تو اکرام کے سرہانے نجو بیٹھی ان کی پیشانی سہلا رہی تھی، ان کی آنکھیں بند تھیں او ر وہ نیند میں بڑبڑا رہے تھے، جونہی نجو نے اسے دیکھا اس کے چہرے پر ایک کرب کی سی کیفیت طاری ہو گئی جیسے وہ کہہ رہی ہو:

    ’’نیلو ہی نے اکرام کی یہ حالت بنا رکھی ہے۔‘‘ جب اکرام پر نیند کا غلبہ پوری طرح طاری ہو گیا تو نجو نے آہستہ سے کہا :

    ’’بڑی مشکل سے انھیں نیند لگی ہے۔‘‘ میں ڈاکٹر سلیم کے ہاں جا رہی ہوں وہ نیند میں بڑبڑاتے ہوئے تمھیں پکار رہے تھے، وہ ایک سائے کی طرح دھیرے دھیرے چلتی ہوئی ڈاکٹر کے ہاں چلی گئی۔

    وہ اکرام کی مسہری سے دور چپ چاپ کرسی پر بیٹھی تھی، ٹیبل پر ان کا بجھا ہوا سگار رکھا ہوا تھا، کمرے کے سارے ماحول پر اداسی چھا گئی تھی، گھڑی کی ٹک ٹک سے لمحہ بھر کے لیے احساس ہوتا تھا جیسے زندگی ابھی جاگ رہی ہے۔

    تھوڑی دیر کے بعد ایک ادھیڑ عمر کے آدمی کے ساتھ نجو کمرے میں داخل ہوئی، شاید یہ ڈاکٹر سلیم تھے، ڈاکٹر نے ان کی نبض دیکھی۔ ’’اس وقت کوئی زیادہ ٹمپریچر نہیں ہے تاہم میں یہ ٹیبلٹ چھوڑ جا رہا ہوں اگر یہ بیدار ہوں تو دوائی کے ساتھ کھلا دینا، کل تفصیلی معائنہ کے بعد ہی میں کسی نتیجے پر پہنچ سکوں گا، ویسے فکر کی کوئی بات نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر سلیم چلے گئے۔ نجو اکرام کے قریب بیٹھی جاگ رہی تھی۔

    ’’رات کافی جا چکی ہے نیلو اب تم سو جاؤ۔۔۔ تم یہاں پڑھنے کے لیے آئی تھیں لیکن یہاں آکر عجیب جھمیلوں میں پڑ گئیں۔‘‘

    اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ بھی اکرام کے قریب بیٹھی رہے لیکن وہ وہاں سے مجبوراً اٹھ آئی تھی۔

    جب بستر پر آکر دراز ہو گئی تو اسے محسوس ہوا جیسے اس کے سارے جسم میں چنگاریاں سی سلگ رہی ہوں۔۔۔ دبے دبے۔۔۔ دھیمے دھیمے۔۔۔

    ’’نیلو۔۔۔ نیلو۔۔۔‘‘ اس کے کانوں سے اکرام کی ڈوبتی ہوئی آواز ٹکرائی اور اس نے مضبوطی سے آنکھیں میچ لیں۔

    صبح وہ دیر تک سوتی رہی،دھوپ دریچوں سے پھلانگتی ہوئی اس کے بسترتک آ پہنچی تھی اس نے گھڑی دیکھی، دن کے بارہ بج رہے تھے، اس کے ٹیبل پر ناشتہ دھرا تھا، وہ روز نجو ہی کے ساتھ کھانے کی عادی تھی لیکن آج نجو نے اس سے پہلے ہی کھا لیا تھا۔

    نجو کی یہ حرکت اسے بڑی ناگوار گزری، اگر اسے جلد ناشتہ کرنا ہی تھا تو وہ اسے جگا لیتی۔۔۔ پھر اس نے سوچا شاید وہ خود بھی ابھی تک ناشتہ نہ کیا ہو مگر جب وہ منہ دھونے کے بعد نجو کے کمرے میں داخل ہوئی تو جھوٹی پلیٹیں بےترتیب انداز میں پڑی تھیں، پھر وہ پلٹ کر اکرام کے کمرے میں آئی، وہ مسہری پر بے سدھ پڑے ہوئے تھے، ان کی آنکھیں نیند کے بوجھ سے بند تھیں قریب ہی نجو بیٹھی ہوئی تھی۔

    نجو نے اسے دیکھ کر کہا۔ ’’ابھی ابھی ڈاکٹر سلیم آئے تھے، انجکشن بھی لگا گئے ہیں او ر دوا بھی دی ہے لیکن میرے اصرار کے باوجود اکرام نے دوا کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔‘‘

    باتوں کی آواز سے اکرام کی آنکھ کھل گئی۔۔۔

    ’’دوا پی لیجیے، بخار کافی چڑھ آیا ہے۔‘‘

    لیکن انھوں نے دوا کی شیشی کو دیکھ کر حقارت سے یوں منہ پھیر لیا جیسے وہ دوا نہیں زہر ہو۔

    پھر اس نے لجاجت سے کہا ’’پی لیجیے نا، یوں آپ دوا نہ پئیں گے تو بخار کس طرح ختم ہوگا۔‘‘

    نیلو کا یہ کہنا تھا کہ اکرام نے غٹاغٹ دوائی پی لی، جوں ہی اکرام نے دوائی پی نجو کا چہرہ یکایک زرد پڑ گیا اور وہ یک بارگی وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ نجو جب اچانک اٹھ کر چلی گئی تو اکرام کچھ عجیب انداز سے زیرِ لب مسکرائے۔ وہ اس وقت کا نن ڈائل کے کسی جاسوسی کردار کی طرح لگ رہے تھے۔

    ’’نیلو۔۔۔ نجو مجھے ٹوٹ کر چاہتی ہے۔۔۔ پتہ نہیں اسے آج ہو کیا گیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے لیٹے لیٹے سگار سلگایا۔

    ’’دیکھیے آپ کو ٹمپریچر ہے، آپ سگار نہ پیجئے۔‘‘

    ’’تم اگر کہو تو سگار پینا ہی چھوڑ دوں گا۔‘‘ انھوں نے محبت میں ڈوب کر کہا تھا لیکن وہ چپ ہو کر رہ گئی تھی، پھر نجو نے کمرے میں سے ہانک لگائی:

    ’’نیلو اب تم یہاں آ جاؤ، انھیں آرام کی سخت ضرورت ہے۔‘‘

    وہ نجو کی آواز پر بادل نا خواستہ اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔

    ادھر ڈاکٹر سلیم کے علاج سے اکرام کو بہت جلد افاقہ ہو گیا تھا، یوں بھی وہ ذرا کم کم ہی بات چیت کیا کرتے تھے لیکن صحت یابی کے بعد تو وہ حد درجہ کم بات کرنے لگے تھے۔

    نیلو کا امتحان سر پر آ چکا تھا، اس نے جی کڑا کر کہہ ہی دیا کہ اسے یہاں آئے کئی دن ہو چکے ہیں لیکن وہ اسے کچھ نہیں پڑھا سکے، اس پر اکرام نے کہا کہ ’’فکر نہ کرے چند ہی دنوں میں سب ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘

    یہ باتیں وہ مدت سے سنتی آ رہی تھی، اب وہ چاہتی تھی کہ اکرام اسے جی لگا کر پڑھایا کریں لیکن اس کا پڑھنے میں مطلق جی نہیں تھا، وہ یوں ہی اپنے آپ کو فریب دینے کے لیے پڑھائی کی خواہش کرتی رہی تھی۔

    ایک رات وہ اپنے کمرے میں بیٹھی کتابوں کی ورق گردانی کر رہی تھی، اس کا ذہن منتشر تھا اسے بار بار جماہیاں سی آ رہی تھیں، گو اس کی نظریں کتاب پر گڑی ہوئی تھیں لیکن حروف لمحہ بہ لمحہ مٹتے جا رہے تھے، رات کے کوئی دو بجے وہ لائٹ آف کر کے اپنے بستر پر جا گری، ابھی وہ سونے بھی نہ پائی تھی کہ اس کے کانوں سے پروفیسر اکرام کی تھرتھرائی ہوئی آواز ٹکرائی۔

    ’’کیا سو گئی ہو نیلو۔‘‘

    وہ یوں ہی آنکھیں بند کیے پڑی تھی جیسے سچ مچ سو رہی ہو، اکرام نے پھر ایک بار آہستگی سے پکارا ’’نیلو!‘‘ جوا ب نہ پا کر وہ اس کے رخساروں پر جھک گئے او ر اپنے جلتے ہوئے ہونٹ اس میں پیوست کر دئیے، وہ مسلسل اسے چومتے رہے، پھر اچانک اسے احساس ہوا جیسے اس کے گالوں میں کوئی سوئیاں چبھو رہا ہو، وہ ساکت و جامد یوں پڑی تھی جیسے کسی نے اسے کلورو فارم سنگھا دیا ہو۔ جب وہ بوسوں کی بارش برسا کر دبے پاؤں اپنے کمرے میں چلے گئے تو اس نے تڑپ کر اپنے رخساروں پر ہاتھ پھیرا، اسے اپنے گال گیلے سے لگے، ہونٹوں کے کناروں پر خون کی دو چار بوندیں پھیلی ہوئی تھیں، جب خون اس کے ہاتھوں کی انگلیوں پر جم آیا تو وہ کانپ کر رہ گئی، وہ یکبارگی اٹھ کر شیشے کے سامنے آ کھڑی ہوئی، اس نے دیکھا! اس کے رخساروں پر خون کی سرخ لہریں ابھر آئی تھیں۔ اس کا جی چاہا کہ ابھی جا کر تیز چاقو سے اکرام کا خاتمہ کر دے۔

    وحشی۔۔۔ بزدل۔۔۔ کمینہ۔۔۔ فراڈ، وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہی تھی، اس کا دماغ بھنا جا رہا تھا، اس نے ٹیبل پر سے پیڈ اٹھایا، اس کا قلم آج اپی ہوئی تلوار کی طرح کاغذ پر چل رہا تھا۔

    ’’کرام صاحب!‘‘

    ’’میں نے تمھیں رات میں آوارہ گھومنے والا جگنو سمجھا تھا جو خود اپنی آگ میں جل کر دوسروں کے لیے اپنی روشنی بکھیرتا ہے لیکن تم تاریک آسمان کے ایک ایسے حقیر ستارے ہو جس کی چمک دمک چاند کی روشنی کی محتاج ہے، تم محبت کی کوکھ سے جنم لینے والے ایک بزدل انسان ہو جسے آج روند کر اپنے گھر جا رہی ہوں، یوں سمجھ لو آج میں نے صحیح معنی میں تمھارے منہ پر طمانچہ لگایا ہے۔‘‘

    وہ ٹیبل پر چٹھی رکھ کر دبے پاؤں گھر سے باہر چلی گئی۔ وہ رات بڑی گمبھیر تھی، سڑک پر موت کا سا سناٹا تھا، بازار کی ساری دوکانیں بند ہو چکی تھیں، کبھی کبھار ایک آدھ موٹر سڑک سے گرد اڑاتی ہوئی زناٹے کے ساتھ گزرتی تو سڑک پر زندگی کے آثار ہویدا ہو جاتے، وہ پتلی لمبی گلی کو پار کر کے شاہراہ پر آئی تو اڈے پر ایک ٹیکسی ڈرائیور اسٹیرنگ پر سرجھکائے اونگھ رہا تھا۔

    ’’ٹیکسی‘‘ اس نے ہانک لگائی۔۔۔ ٹیکسی ڈرائیور نے مندی مندی آنکھوں سے اسے دیکھا۔

    ’’سندر نگر۔‘‘

    ’’جی میم صاحب‘‘

    اور پھر کار سیمنٹ روڈ کے سینے پر تیزی سے بھاگ رہی تھی، اس کی آنکھوں کے گرد اندھیرا منڈلا رہا تھا، جب ٹیکسی مختلف راستوں کو طے کرتی ہوئی اس کے گھر کے قریب پہنچی تو اس نے پانچ کا نوٹ ڈرائیور کے ہاتھ میں تھما دیا، حالانکہ کار کا میٹر کم ہی بتا رہا تھا۔

    نوجوان ڈرائیور نے اسے کنکھیوں سے دیکھا اور سلام کر کے رات کی ا تھاہ گہرائیوں میں کار دوڑاتا ہوا غائب ہو گیا۔

    وہ لان میں سے ہوتی ہوئی تیزی سے مکان میں داخل ہوئی، اس نے ابا میاں کے کمرے میں جھانک کر دیکھا، بستر خالی پڑا اسے گھور رہا تھا اور ابا میاں غائب تھے، وہ سرونٹ کوارٹر کی طرف دوڑتی ہوئی گئی۔۔۔ نوکر پاؤں پھیلائے آرام سے سو رہے تھے، نوکروں کو اس طرح آرام سے سوتا دیکھ کر اس کے غصے کا پارہ اچانک چڑھ گیا۔

    صمدو۔۔۔ رامو۔۔۔ حمید۔۔۔ اس نے مختلف ناموں سے نوکروں کو آواز دی، سارے نوکر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔

    ’’گھر کھلا پڑا ہے او ر تم سو رہے ہو کمینو! ابا میاں کہاں ہیں۔‘‘

    ’’دورے پر گئے ہیں مالکن۔‘‘ سب نے بیک وقت آواز نکالی۔

    ’’کب؟‘‘ اس نے غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا۔

    ’’کل صبح کو‘‘

    ’’انھوں نے جانے سے پہلے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی، بولو۔‘‘

    سارے نوکر سر جھکائے چپ چاپ کھڑے تھے، وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی اور مسہری پر گر کر سسکیاں بھرنے لگی، اس کی آنکھ کب لگی خود اسے پتہ نہ تھا۔

    دوسرے دن سہ پہر کو جب وہ بستر سے اٹھی تو اسے یوں لگا جیسے وہ مدت سے بیمار ہو، اس کا انگ انگ ٹوٹ رہا تھا، وہ نہانے کے بعد بغیر ناشتہ کیے برآمدے میں ٹہلتی رہی، اس کے لمبے لمبے خوبصورت بال بے ترتیب انداز میں بکھرے ہوئے تھے، اس نے اپنے بالوں کو سنوارا بھی نہیں تھا،اسے دیکھنے سے یوں لگتا تھا جیسے وہ بے چینی،کرب اور انتشار کی دہکتی ہوئی آگ میں جل رہی ہو۔

    صبح سے رات ہوئی لیکن اس نے کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا، سارے نوکر پریشان تھے کہ آخر مالکن پر کون سا عذاب ٹوٹا ہے لیکن کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ ا س سے سبب دریافت کرے۔

    سرما کی سست گام رات کسی لنگڑے مسافر کی طرح رینگ رہی تھی، لان میں برفیلی ہوائیں سائیں سائیں کر رہی تھیں، وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ڈرائینگ روم کی کھڑکی کے قریب آ کر ٹھہر گئی۔

    سامنے سرو کے لمبے لمبے درختوں پر اداسی کے گہرے سائے منڈلا رہے تھے او ر درخت کی ٹہنیوں پر جمی ہوئی اوس نیچے آہستہ آہستہ یوں گر رہی تھی جیسے اس کے دل کے دریچے سے لمحہ بہ لمحہ خون کی بوندیں ٹپک رہی ہوں، ٹیبل لیمپ کی مری ہوئی مدھم روشنی میں اس کا آبنوسی چہرہ آئل پینٹ کی بنائی کسی تصویر کی طرح چمک رہا تھا، اس کے ہونٹوں کے کونے لمحہ بہ لمحہ سکڑتے جا رہے تھے، پھر کھڑکی کی راہ سے ایک موہوم سے سایہ ابھرا، یہ سایہ اس خوبرو نوجوان کا تھا جس کی تصویر اس نے البم میں دیکھی تھی۔

    اس کے کانوں میں کسی نے سرگوشی کی ’’نیلو اکرام نے خودکشی کر لی۔۔۔!‘‘

    کالے وسیع آسمان پر ایک ستارہ چمکا اور ابھر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے