ہمجنس با ہمجنس
کہانی کی کہانی
یہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے جن کی شادیاں ادھیڑ عمر کے ساتھیوں کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔ اتفاق سے ایک سفر کے دوران ان دونوں کی ملاقات ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد ان کی زندگی پوری طرح سے بدل جاتی ہے۔
(۱)
میں اپنے کتب خانے میں برقی چراغ کے آگے اس لمبے چوڑے خط کو لیے حیران کھڑی تھی۔ خط بہت طویل تھا۔ ہر سطر مسرت و انبساط میں ڈوبی ہوئی تھی،
’’دیکھنا پیاری روحی! تم فوراً یہاں چلی آؤ۔ اس مسرت وشادمانی کے زمانے میں تمہاری غیرموجودگی نہایت نازیبا ہے۔ ہم لوگ کوہِ زیتون پر آج بارہ دن سے ایام عروسی بسر کر رہے ہیں۔ تم سے اتنی رازکی باتیں کرنی ہیں کہ کیا بتاؤں! روحاً اور قلباً میں تمہاری آمد کا انتظار کروں گی۔ تم کل صبح سویرے منہ اندھیرے پلین میں چل پڑو۔ غروبِ آفتاب سے پہلے یہاں پہنچ جاؤ گی۔ میں کل شام ایروڈروم پر تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘
’’تمہاری صوفی‘‘
میری حیرانی کی انتہانہ تھی۔ صوفی کے لیے یہ خوش ہونے کا موقع نہ تھا۔ وہ نہایت خوش مزاج اور چلبلی لڑکی تھی۔ خاندان کے ممبروں کے اصرار پر پچھلے سال جس دوپہر بوڑھے ڈاکٹر سے اس کی نسبت ہوئی وہ کھانے کی میز پر سے ایک چھری لے کر آہستہ سے اپنی خواب گاہ میں جاگھسی تھی کہ اپنے آپ کو ہلاک کردے مگر میں نے بچا لیا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی اس کی شادی ہوگئی تھی۔ اس کے بعد میں سیاحت کی غرض سے مشرق بعید کے جنگلوں کی طرف روانہ ہوگئی تھی۔ اور مجھے نہ معلوم ہوسکا کہ اس پر کیا گزری لیکن اب اس کا یہ پیام!اب تک ایام عروسی! اورپھر بہار کے پھول کی طرح کھل کر خط لکھنا اور مجھے مدعو کرنا۔۔۔ میرے لیے ایک معمہ تھا۔
کچھ دیر کے بعد اس کے اس فقرے پر مجھے بڑے زور کی ہنسی آگئی، ’’ایامِ عروسی بسر کررہے ہیں۔‘‘ میں نے ہنس کر اس کے فقرے کو دہرایا۔ ایام عروسی کا لفظ بوڑھے بلّے کے نام کے ساتھ ایسا ہی مضحکہ انگیز تھا جیسے کوئل کے ساتھ مینڈک کا۔ میں خود اس کی شادی میں شریک تھی۔ نکاح کی صبح دولہانے بندرٹوپی پہن رکھی تھی۔ یہ میں جانتی ہوں کہ اس روز سردی غیر معمولی تھی مگر خیال توکیجیے کہ شادی کے دن ایسا لباس!لباس سے خیالات کا اندازہ بھی کرلیجیے۔ یاس کن زگلستانِ من بہار مرا۔ کچھ دیر بعد مجھے صوفی کی حالت پر ترس آگیا۔ آہ کم نصیب لڑکی! کس طرح کوشش کرکے اپنے درد کو خوشی میں تبدیل کررہی ہے۔ بوڑھے ڈاکٹر بخش کے ساتھ زندگی کے دن کاٹنا ایسا ہی ہے جیسے سولی پر دن کٹیں، باہمت لڑکی! میں ہوتی تو اک خوراک آیوڈین کی پی کر اپنا خاتمہ نہ کرلیتی؟ مجھ میں اتنی ہمت کہاں!
میں نے خط میز پر رکھ دیا اور ایک لمبی سی دریچی کھول کر اس کے آگے کھڑی ہوگئی۔ باہر باغ کی روشوں پر چاندنی کا فرش بچھاہوا تھا۔ رات کس قدر گرم اور بے انتہا حسین تھی۔ ایشیاکی شب بیدار بلبل قریب ہی حنا کی جھکی ہوئی شاخ پر بیٹھی گا رہی تھی۔ اتنے میں سبزمخملی پردہ ہلا اور بڑی بوڑھی حبشن زوناش حسب معمول اپنی موٹی کمر سمیت اندر پھدک پڑی۔
’’بوڑھے جن کی بیوی!‘‘ میں نے اسے نازسے مخاطب کیا، ’’سنتی ہو؟کل صبح سویرے میرا صنوبری (ہوائی جہاز) کوہِ زیتون کی پروازکو جائے گا۔ تم ایک سوٹ کیس میں کوئی اسی نوے جوڑے بھر دو۔‘‘ میرے ساتھ سفر کی تلخیاں پے درپے چکھنے کے بعد زوناش اب سفر سے متوحش سی رہتی تھی۔ اس نے بگڑ کر کہا، ’’کیا پھر سفر؟خدا جلدی میری زندگی کا خاتمہ کردے۔‘‘
’’کم عقل چھپکلی!‘‘ میں نے مسکرا کر کہا، ’’کوہِ زیتون وہ جگہ ہے جہاں گلاب کے سرخ پھول سنہری دھوپ میں دن بھر قہقہے لگاتے رہتے ہیں او رجہاں سبز طوطوں کی خمیدہ چونچوں میں لال چیری نظر آتی ہے، بید مجنوں کی شاخوں پر سبز چشم فاختہ رات بھر آہیں بھرتی ہے، شمشاد کی ٹہنیوں پر سنہرے پروں والی ننھی بلبل دن بھر بیٹھی دردِدل سنایا کرتی ہے، وہ تو جنت ہے۔‘‘ مگر اس وحشی لومڑی نے میری شاعری کا ایک لفظ نہ سنا۔ نا اہل کے ساتھ گفتگو کرنے کا یہی نتیجہ ہوتاہے۔ آہ تو صوفی غریب کا کیا حال ہوگا؟دوسرے دن صبح کی لطیف ہواؤں میں میں اپنے چمکیلے پروں والے صنوبری میں کوہ ِ زیتون کی طرف اڑگئی۔
(۲)
دوسری شام غروب آفتا ب سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ پہلے میری ہوائی کشتی کوہِِ زیتون کے ایروڈروم کے قریب پہنچ گئی۔ میں نے نیچے نظر ڈالی تو صوفی ہینگرکے پاس کھڑی نظر آئی، بالکل چیونٹی معلوم ہوتی تھی۔ شاید ہوا میں جہاز کا شور قریب سنائی دینے لگا اس لیے وہ ٹکٹکی لگاکر آسمان کو دیکھ رہی اور مارے خوشی کے اچھلی پڑ رہی تھی۔
اب میرا جہاز نیچے اترنے اور اپنی پروازکی کی قوت کھونے لگا تھا۔ آہستہ آہستہ زمین سے آلگا اور آخر کچھ دیر بعد ٹھہر گیا۔ اس کے رکتے ہی جہاز کی دریچی کھول کر گلہری کی طرح میں باہر کود پڑی اور سوفی سے لپٹ گئی۔
’’میری جان روحی!‘‘
’’میری پیاری صوفی!‘‘
’’کیاہی خوشی کا دن ہے روحی۔‘‘
’’بلا شبہ صوفی۔‘‘
ہم دونو ں پانچ منٹ ایک دوسرے سے چمٹی رہیں پھر یکایک مجھے کچھ یاد آیا اور میں نے پوچھا، ’’مگر۔ مگر صوفی یہ تو کہوخلافِ امید تم ایسی خوش کیسے ہو؟ میرا تو خیال تھا۔۔۔ خیر۔ ہاں تمہارے دولھا (مسکر ا کر) کہاں ہیں؟‘‘
میں سمجھتی تھی ’’دولہا‘‘ کانام بیچ میں آتے ہی اس کی تمام شوخی و شادمانی یکلخت کافور ہوجائے گی اور اس کا چہرہ کیلے کے نوخیز پتے کی طرح پیلا پرجائے گا مگر اس نے مسکرا کر کہا، ’’وہ کھڑے ہیں وہ۔‘‘ میں نے مڑکر دیکھا تو دس دس گز کے فاصلے پر اک درازقد اور خوش رو نوجوان ایک دل پذیرشانِ استغنا سے کھڑا تھا۔ میں دو لمحے غور سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔ آنکھوں میں جادوتھا، مسکرا ہٹ میں بجلی۔ میں نے حیران ہوکر صوفی سے پوچھا، ’’میں نے تمہارے شوہر کے متعلق پوچھا تھا۔‘‘ وہ ہنس پڑی، ’’ادھرکھڑے ہیں اُدھر۔ درخت کے پیچھے؟‘‘
’’درخت کے پیچھے؟‘‘ میں نے حیران ہو کر کہا، ’’وہ اتنے شوخ کب سے ہوگیے کہ آنکھ مچولی کھیلنے لگے (درخت کے پیچھے دیکھ کر) شریر لڑکی!یہاں ڈاکٹر بخش کہاں؟ کیا کردیا انہیں؟ اور یہ نوجوان کون ہے؟ بہت ہی خوبصورت ہے۔‘‘
صوفی نے قہقہہ لگاکر کہا، ’’سچ مچ‘‘ واقعہ یہ ہے کہ ’’میں نے ڈاکٹر بخش کے انجکشن لگوائے تھے جس سے ان کے بڑھاپے کا خول اتر گیا اور اندر سے وہ ایسے نکل آئے۔‘‘ میں حیران ہو کر نوجوان کو دیکھنے لگی پھر یکلخت ہنسی آگئی، ’’صوفی تم ا ب تک ویسی ہی شریر ہو؟‘‘
’’یہ تمہاری ہمت ہے۔ اچھا ان حضرت سے کم از کم میرا تعارف توکراؤ۔‘‘
’’تمہیں ایسا ہی اضطراب ہے تو آؤ روحی، اس شخص سے ملاؤں۔ یہ ہیں رمزی صاحب اور یہ خاتون روحی۔‘‘ ہم نے ایک دوسرے کو اشتیاق سے سلام کیا۔
’’رمزی صاحب! ڈاکٹر بخش کہاں ہیں؟‘‘
’’ڈاکٹر بخش؟‘‘ رمزی نے دلفریب تبسم کے ساتھ کہا، ’’ہم نے انہیں ایام عروسی بسر کرنے کے لئے ساحلِ نور پر چھوڑ رکھا ہے۔‘‘
’’ایں؟‘‘ میرا منہ کھلے کا کھلا رہاگیا۔
’’آپ نے کہاں چھوڑ رکھا ہے اور کس کام کے لیے؟‘‘
صوفی ہنس پڑی، ’’ایام عروسی بسرکرنے کے لئے ایام عروسی۔‘‘ میں نے اپنی شمسی (چھتری) کو آفتاب کی طرف کردیا۔ حیران ہو کر دونوں کو تکنے لگی پھربولی، ’’تمہاری باتیں ذرا بھی میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ یہ معمہ کیاہے؟کیاڈاکٹر بخش نے کوئی او رشادی کرلی ہے؟ اور صوفی تم یہاں کیوں آئی ہوئی ہو؟‘‘
’’ایام عروسی بسر کرنے۔‘‘
میں بڑی حیران ہوئی، ’’ایام عروسی!معلوم ہوتا ہے کہ آج کل یہ لفظ تمہاری زبان پر بہت ہی چڑھا ہواہے۔ ڈاکٹر بخش ساحل نور پر ایام عروسی بسر کر رہے ہیں اور تم کوہ نور پرایام عروسی بسر کرنے آئی ہو؟‘‘
’’ہاں ہاں بالکل درست! کیاکوئی بری بات ہے؟‘‘
’’کیا واہیات ہے صوفی۔‘‘ میں نے جھنجھلاکرکہا، ’’بتاتی کیوں نہیں کہ معاملہ کیا ہے؟‘‘
اتنے میں ہم گھر پہنچ گیے۔ چنبیلی کی خوشبو دار بل کھاتی ہوئی بیلوں میں پوشیدہ اک نہایت خوبصورت سا چھوٹا بنگلہ تھا جس کے تمام کمرے حسین اور دریچے نہایت سہانے تھے۔ تمام وقت میں حیران ہوتی رہی کہ یہ کیا رمزہے۔ نہانے گئی تواسی خیال میں۔ واپس آکر آئینے کے آگے کنگھی کرنے لگی تواسی دُھن میں! کیاواقعی بوڑھے بخش کے صوفی نے انجکشن لگوائے؟ جس سے اس کی ضعیفی نوجوانی میں تبدیل ہوگئی؟مگر عقل کہتی تھی کہاں وہ بوڑھی مکروہ روح اورکہاں یہ شوخ نوجوان! چہ نسبت خاک راباعالم پاک؟ تبدیل لباس کے بعد میں کھانے کے لئے کمرہ طعام میں چلی گئی۔
(۳)
رات کافی گرم تھی اس لیے کھانے کی میز کھڑکی کے باہر سنگِ مرمر کی چھوٹی سی چبوتری پر لگی تھی۔ زرد موم بتیوں کی مدھم خوابناک روشنی میں اعلی پالش کی ہوئی سیاہ میز بلور کے ٹکڑے کی طرح جگمگارہی تھی۔ ذرافاصلے پربیدمجنوں اور ناشپاتی کے درخت دم بخود کھڑے تھے۔ دور کہیں پہاڑوں میں ماہ مارچ کا حسین چاند طلوع ہورہاتھا۔ ہم تینوں میز کے گرد بیٹھ گیے۔ میں نے اک آلو کاٹ کر کھاتے کھاتے پوچھا، ’’آخر بچارے بخش کو تم نے غائب کہاں کردیا؟ اس معمے کو حل کرو۔‘‘
’’یہ معمہ تم رمزی صاحب سے حل کراؤ۔‘‘ صوفی نے گوشت پر نمبو نچوڑتے ہوئے کنکھیوں سے رمزی کو دیکھا۔ رمزی مسکراکر پنیر کو روٹی پر رکھنے لگے۔
’’نہ نہ۔ یہ معمہ آپ خاتون صوفی سے ہی حل کرایئے۔‘‘
اسی وقت زوناش ہاتھ میں ستارلے کر آگئی کیوں کہ میں کھانے کے دوران میں ہمیشہ اس کی ستار سنا کرتی ہوں۔ ’’اچھا۔ کیازوناش بھی ساتھ ہے؟ سلام بوڑھی بھینس!‘‘
’’سلام خاتون صوفی۔ سلام ڈاکٹر بخش۔ ایں؟‘‘
یکایک اس کی نظر بجائے بخش کے رمزی پر پڑی اور وہ چپ ہوگئی پھر ذرا توقف کرکے پوچھا، ’’خاتون صوفی کیا ڈاکٹر بخش باہر گیے ہوئے ہیں؟ اس کی حیرانی کی انتہانہ رہی، جب اس نے سنا کہ بوڑھے ڈاکٹر بخش ساحل نور پر ایام عروسی بسر کر رہے ہیں۔
وہ وحشت ناک نظروں سے صوفی کو دیکھنے لگی۔ ’’آہ‘‘ زوناش کی زبان سے نکلا۔ ’’مرد برے ہوتے ہیں۔ بھلا اس عمر میں یہ شوق؟ تومیری خاتون انہوں نے دوسری شادی کرلی؟ مرد زہریلے سانپ ہوتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے آنکھیں جھپکا جھپکا کر رمزی کوبھی دیکھتی جاتی تھی جوموم بتی کی روشنی میں سیاہ الپا کے کوٹ میں بالکل غلمان معلوم ہوتا تھا۔
صوفی ہنس پڑی، ’’نہیں نہیں زوناش، صرف مردوں کو موردِ الزام نہ ٹھہراؤ۔ یہ بے انصافی ہے۔ بہت سے مرد برے ہوتے ہیں۔ بہت عورتیں بری ہوتی ہیں بہت سی عورتیں اچھی ہوتی ہیں۔ بہت سے مرد اچھے ہوتے ہیں۔‘‘
’’صوفی!‘‘ کھانے کے بعد میں نے بیزارہوکر کہا، ’’اس طرح مجھے کب تک پاگل بنائے رکھوگی؟‘‘
’’اچھا چلو روحی! میں اس فوارے کے قریب بید مجنوں کے تلے تمہیں اپنا قصہ سناؤں گی۔‘‘
’’قصہ؟‘‘ میں نے حیران ہوکر کہا، ’’قصہ کیسا؟ کیابہت سے حالات ہیں؟‘‘
’’بہت سے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑکر وہ مجھے بید مجنوں کے تلے لے گئی جہاں یاسمین کے پھول کھلے تھے۔ اب چاند اوپر کو نکل آیا تھا۔ صوفح یکلخت کچھ افسردہ سی ہوگئی اورپھر کہنے لگی۔
(۴)
’’تم میری شادی کے فوراًبعدواپس چلی گئی تھیں۔ شادی کی تیسری شام تھی۔ نیلے آسمان پر شفق کا رنگین سیلاب دیکھ کر مردہ دل میں ہوک سی اٹھنے لگی۔ میں نے اشتیاق سے اپنے شوہر سے کہا، ’’شام کیسی حسین ہے! چہل قدمی کو چلیں؟‘‘
’’مگر میری کمر میں درد ہے۔‘‘ انہوں نے عینک کے اوپر سے مجھے دیکھ کر جواب دیا، ’’تب تو شاید چہل قدمی سے نقصان پہنچے۔ چلیے پھر کسی سنیما ہال ہی میں بیٹھ کر شام کاٹ دیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’بند سنیماہال میں بیٹھنا طبی نقطہ نظر سے بہت مضر ہے۔‘‘ اپنے روغنی سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دولھا نے جواب دیا۔ صوفی سے اتنا سن کر میں اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکی مگر صوفی بچاری دردناک پیرائے میں اپنا قصہ سنائے جارہی تھی۔
’’روحی!شادی کے ایک ہفتہ بعد میرے شوہر کو (مریض کے دیکھنے کے لیے ) شوراک جانا پڑا۔ میں اس واقعہ کو کبھی نہ بھولوں گی۔ کبھی نہیں! میں نے کہانیوں میں پڑھا تھا کہ محب و محبوب کے خط فردوسی لہجوں میں لکھے ہوئے خمارانگیز ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کے جانے کے تیسرے ہی دن سے میں خط کے انتظار اور اشتیاق میں بیتاب ہورہی تھی کہ ایک خط آئے گا اور کب میں اسے پڑھوں گی!آخر پانچویں دن وہ جاں نواز لفافہ آیا۔ فرط مسرت سے میرا چہرہ گلابی ہوگیا۔ ہاتھ پاؤں میں کپکپی تھی۔ اس اضطراری کیفیت میں لفافہ چاک کیا۔ لرزاں انگلیوں سے کاغذ نکالا مگر اندر سے کیا نکلا؟ اُف میری تقدیر! کمر کے درد کا نسخہ! اسی نسخہ کی پشت پر دوترچھی سطریں پنسل سے لکھی گئی ہیں، ’’کیمسٹ سے یہ نسخہ بنوارکھنا، میں کل پہنچ جاؤں گا۔‘‘ پہلی جدائی کو لوگ ایسے ہی محسوس کرتے ہیں؟
میرے خرمن آرزو پر بجلی سی گری۔ میں نے اس وقت تو اپنے نامراددل کو تسلی دے لی کہ ایسا بھی ہوجاتاہے مگر خبرنہ تھی کہ یہ کمر کا درد۔ دردِدل کی طرح ساری زندگی میں شریک اور مخل رہے گا۔
میری شادی ہوئے پورا سال ہونے آگیا۔ اس دوران میں اس کمر کے درد کی شکایت میں برابر سنتی رہی اور روحی اس پر بس نہیں باؤٹا اور رعشہ پر مستزاد۔ اس سے تم یہ نہ سمجھنا کہ میں اپنے بزرگ شوہر کے دکھ بیماری کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی۔ کبھی نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہواکہ بخش کی کسی تکلیف کوسن کر میری آنکھوں میں دواک آنسونہ آگیے ہوں۔ میرے ہونٹوں سے اک آہ نہ نکل گئی ہو مگر اس کا کیا علاج کہ جب بھی ان سے کوئی بات کی، ان کے ساتھ جب کوئی پروگرام بنایااس کے جواب میں کمر درد کا دخل ضرور ہوگیا۔ جب دردنہ ہوتا تھا تو درد کا اندیشہ دامن گیرہوتا تھا۔ عادت ہی کچھ اس طرح کی ہوگئی تھی۔
آخر ایک دن میں نے تنگ آکر کہا، ’’قبلہ! آپ اپنی کمر کا علاج باقاعدہ کیوں نہیں کراتے؟فوراکسی دوسرے معالج سے علاج کرائیں ورنہ خدانخواستہ آپ بستر ہی کے نہ ہورہیں۔‘‘ نسوار کی ڈبیہ پر چٹکی بجاتے ہوئے عینک ناک کی انی پررکھ کر انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا، ’’تم سمجھتی ہو کہ میں صرف اک کمر درد میں مبتلا ہوں؟‘‘ میں حیران ہوکر انہیں دیکھنے لگی ’’ایں؟اس کے علاوہ کوئی اور شکایت بھی ہے؟ ہاں میں بھولی باؤٹا؟‘‘
اس کے ساتھ ہی مجھے اپنے دل میں بھی باؤٹے کی سی تکلیف