Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حسرت

ہما فلک

حسرت

ہما فلک

MORE BYہما فلک

    اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی ہوا کی ایک سرد لہر نے ان کا استقبال کیا۔ اکا دکا لوگ آ جا رہے تھے اس لئے ستیشن والی تنہائی کا احساس وہاں نہیں تھا،ایک طرف چائے کا کھوکھا تھا، لڑکے نے دو کپ چائے لی اور ذرا پرے سٹریٹ لائٹ کے نیچے پڑے بینچ پر دونوں بیٹھ گئے۔ بینچ کے ساتھ ہی بجلی کا کھمبا تھا جس پر زرد روشنی کابلب اندھیرے کو دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

    وہ اس پر بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لینے لگے جو ان کی اس وقت کی سب سے بڑی عیاشی تھی۔

    سرد چاندنی رات خاموشی اور تنہائی ایسے میں کمرے کے گرم اور پرسکون ماحول میں ابھرتی ہوئی سرگوشیاں اس پر فسوں فضا کا سحر اس پر پوری طرح طاری تھا اور کھڑکی سے چھن کر آنے والی چاندنی جذبات میں عجیب سی ہلچل مچا رہی تھی۔

    سرد راتیں اور چاند محبت کرنے والوں کے لئے ہمیشہ سے ہی بہت سحر انگیز رہے ہیں۔ ان دونوں کے لئے بھی یہ لمحات زندگی کے خوبصورت ترین لمحات ہوتے تھے جب وہ دنیا و ما فیہا سے بےخبر ایک اور ہی دنیا میں ملتے اور سرگوشیوں میں راز و نیاز کرتے تھے۔

    سیمی اور فیضی اتفاق سے نیٹ پر ایک دوسر ے سے ملے تھے۔ ان کے درمیان فاصلہ حائل تو تھا لیکن انہوں نے محبت کی تمام سرحدیں اس طرح عبور کی تھیں کہ اب انہیں دن رات ایک دوسرے کے ایک ایک پل کی خبر ہوتی تھی۔ خاص طور سے رات کو جب سب سو جاتے کبھی سرگوشیاں تو کبھی لکھ کر دو سے تین گھنٹے کی بات ان کا روز کا معمول تھا اور اگر کبھی کوئی مجبوری آڑے آ جاتی تو وہ وقت کاٹنا دونوں کے لئے ہی بہت مشکل ہو جاتا تھا۔

    ’’اس وقت چاند اتنا خوبصورت لگ رہا ہے سیمی جیسے ساری دنیا چاندنی کا غسل لے رہی ہو اور ان لمحوں میں تمہارا ساتھ میرے لئے ہر ایک احساس سے زیادہ خوبصورت ہے۔

    میں تو دیوانی ہوں چاند کی اور چودھویں کا چاند تو سب سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے۔

    یہ جتنا بھی خوبصورت ہو میرا چاند اس سے زیادہ خوبصورت ہے۔

    تم بھی نا سیمی جھینپ کر ہنس دی۔

    تم جانتی ہو چاند کی کرنیں اس وقت میرے بازوؤں پر پڑ رہی ہیں اور۔۔۔’’

    وہ کہتے کہتے رکا۔

    اور؟ سیمی نے سرگوشی کی۔

    ’'اور یہ کہ بس ایک حسرت ہے کہ یہ میری چاندنی ہوتی جو میرے بازو پر سر رکھے مجھ سے باتیں کر رہی ہوتی اور پھر اسی طرح آنکھیں موند کر سکون سے سو جاتی۔

    فیضان! اٹھ کے پردے کھینچ دو۔

    اری وہ کیوں؟

    بس کہا نا پردے کھینچ دو۔

    لیکن بتاؤ تو سہی ہوا کیا؟

    تم کر رہے ہو یا نہیں؟

    اچھا بابا اٹھ رہا ہوں، لیکن وجہ تو بتا دو۔ فیضی اٹھ کر کھڑکی کے قریب چلا آیا۔

    ’’تمہیں یاد ہے ایک بار تم نے کہا تھا کہ کوئی مجھے دیکھے تمہیں برا لگتا ہے اور پھر جب میں نے کہا تھا دیکھو چاند مجھے دیکھ رہا ہے۔ تو تم نے کھڑکی بند کروا دی تھی۔ کہ چاند بھی مجھے دیکھے تو تمہیں برا لگتا ہے۔ فیضی بمشکل اپنا قہقہہ روک کر بولا۔

    اوہ تو یہ بات ہے۔

    ہاں یہی بات ہے چاندنی بھی تمہارے بازو پر سر رکھے تو مجھے برا لگتا ہے۔

    افوہ۔۔۔اس چاند کی کیا حیثیت اور اس چاندنی کا میری چاندنی سے کیا مقابلہ ۔

    تم تو مجھے میرا چاند کہہ کر میری تعریف کر دیتے ہو مگر میں کیسے بتاؤں کہ ان دو برسوں میں میں نے وہ پایا ہے جو بعض دفعہ کسی کو اس کی پوری زندگی میں نہیں مل پاتا۔ ‘‘

    ‘‘سیمی، تم نے مجھے دیا ہے اتنا پیار اتنی محبت کہ اب یوں لگتا ہے، زندگی میں کوئی کمی ہی نہیں ہے۔اس طرح مجھے تمہارے پیار نے سیراب کر دیا ہے۔‘‘

    ‘‘فیضی ہم کبھی زندگی میں مل تو پائیں گے۔ یہ لمحے یہ بہت خوبصورت لمحے جن میں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ہونا چاہئے تھا یہ یونہی تو نہیں گزر جائیں گے؟۔

    ‘‘ہاں سیمی ہم ملیں گے، ہم اپنی منزل ضرور پائیں گے،اگر ہم منزل پر نہ بھی پہنچ سکے تو کم از کم ہم ساتھ سفر تو کر ہی رہے ہیں، اب بے شک اس سفر میں ہی زندگی تمام ہو جائے۔‘‘

    ‘‘نہیں فیضی مجھے اس بات کا تو یقین ہے کہ اگر ہم ملے ہیں تو اس ملاقات کا کوئی مقصد ضرور ہے۔ کوئی وجہ تو ہوگی کہ ہمارے درمیان وقت، عمر فاصلہ، کسی بات کے کوئی معنی نہیں رہ گئے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم یونہی ہمیشہ ساتھ تھے، نہ کبھی ایک دوسرے سے جدا تھے نہ ہونگے۔‘‘

    ‘‘ہاں سیمی، اگر کبھی ہم نہ بھی مل سکے تو، ہمارا ساتھ، اس رابطے کی صورت برقرار ہے اور رہےگا۔‘‘

    ‘‘فیضی تم ہمیشہ ہی ایسے مایوسی کی باتیں کیوں کرتے ہو؟ مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘

    ‘‘نہیں میری جان مایوسی کی بات نہیں، بس میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہارے اتنے پختہ یقین پر ہلکی سی بھی دراڑ آئے۔‘‘

    ‘‘یقین۔۔۔‘‘سیمی نے زیرِلب دہرایا۔

    ‘‘کہو کیا سوچ رہی ہو؟ جو بھی سوچ رہی ہو بس کہہ دوَ۔‘‘

    ‘‘فیضی یقین کیا ہوتا ہے؟ حقیقت کیا ہے؟ فیضی میرے اندر اتنے سوال کیوں ہیں؟۔۔۔ ان کے جواب کس کے پاس ہیں؟۔۔۔ جب سے تم ملے ہو یوں لگتا ہے میرے ہر سوال کا جواب تمہارے پاس ہے۔ تم مجھے اپنا حصہ کہتے ہو، جبکہ مجھے لگتا ہے تم میری تکمیل ہو، تم سے مل کر یوں لگتا ہے جیسے میں مکمل ہو گئی ہوں۔ کوئی ادھورے پن کا احساس نہیں۔ بتاؤ یقین کیا ہے؟ حقیقت کیا ہے؟ تم ہو۔۔۔ میں ہوں۔۔۔ ہم ملے ہیں، ایک دوسرے سے میلوں کے فاصلے پر لیکن ایسے کیوں لگتا ہے کہ تم میری ہر سوچ پڑھ رہے ہو، کیوں ہر بات جو تم کہنا چاہ رہے ہوتے ہو میں کہہ دیتی ہوں؟۔۔۔ ہم اتنے دور ہو کہ بھی ایک دوسرے سے اتنے قریب ہیں۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ کیسے؟۔۔۔ بتاؤ یہ کیا ہے؟‘‘

    ‘‘سیمی حقیقت، سچائی، یقین، وہ سامنے بجلی کے کھمبے کے عین نیچے والا بینچ ہے۔‘‘

    ‘‘کیا؟۔۔۔ کیا مطلب ؟ میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں تم یہ کیا بات کرنے لگے؟‘‘

    ‘‘ہاں سیمی حقیقت وہ سامنے بینچ ہے جس پر ابھی ابھی ایک جوڑا آکر بیٹھا ہے ان کے ہاتھوں میں چائے کے کپ ہیں اور وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اس بینچ پر بیٹھے ہیں۔بہت پیارے لگ رہے ہیں دونوں۔۔۔ اور بس یہ کہ۔۔۔‘‘

    ‘‘کیا؟‘‘ سیمی نے پر تجسس لہجے سے پوچھا۔

    ‘‘بس یہ کہ۔۔۔کاش یہ میں اور تم ہوتے ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ، اس سردی میں ایک دوسرے کے ہاتھوں کی گرمی کو محسوس کرتے ہوئے۔‘‘ فیضی نے جس طرح رک رک کر جملہ مکمل کیا، سیمی جیسے پل میں میلوں کا سفر طے کر کے اس کے پاس پہنچ گئی۔ اسے اپنی ہتھیلی پر فیضی کے ہاتھوں کی حرارت محسوس ہونے لگی۔

    ‘‘ہم ملیں گے سیمی، ضرور ملیں گے۔‘‘فیضی نے اسے یقین دلایا یا خود کو۔

    ‘‘ہاں انشااللہ۔‘‘

    ‘‘وہ دیکھو اب وہ لڑکی اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی ہے۔‘‘ تھوڑی دیر کے وقفے کے بعد فیضی بولا۔

    ‘‘سیمی! یہ پیار دینے اور لینے کا کتنا حسین احساس ہے۔

    ‘‘ہاؤ سویٹ۔۔۔‘‘ سیمی بس اتنا ہی کہہ سکی۔

    ‘‘سیمی ابھی تم نے پوچھا تھا، یقین کیا ہے سچ کیا ہے ؟یہ سچ ہے کہ میری آنکھیں اس وقت ان دونوں کو دیکھ رہی ہیں اور اس لڑکی نے اس کی گود میں سر رکھا ہو ہے، اس یقین کے ساتھ،کہ یہ دنیا میں اس کی سب سے محفوظ پناہ گاہ ہے اور جیسے اس لڑکے نے اسکے سر کے نیہچے ہاتھ رکھ کے اس کو سہارا دیا ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس لڑکی نے اسے کتنا پیار دیا ہوگا۔‘‘

    ‘‘فیضی یہ کسی ایک کا نہیں، یہ پیار دونوں نے ہی ایک دوسرے کو دیا اس لئے پا رہے ہیں۔‘‘

    ‘‘نہیں اس لڑکی نے اسے دیا ہوگا۔۔۔ جیسے تم نے مجھے دیا۔ بےانتہا پیار۔‘‘

    ‘‘فیضی تم جانتے ہو کہ اس پر ہم ساری رات بھی ایک دوسرے سے بحث کر سکتے ہیں کہ کس نے کس کو کتنا دیا اور کتنا پایا تو یہ بحث ہی بیکار ہے۔ نہ تم ہار مانوگے نہ ہی میں۔۔۔ویسے یہ کون لوگ ہونگے؟ رات کے اس وقت وہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ تھوڑا رک کے سیمی نے پوچھا۔

    لگتا ہے ان کی ٹرین مس ہوگئی اب اگلی ٹرین ہی پکڑ سکیں گے۔ صبح ساڑھے چار بجے پہلی ٹرین چلتی ہے۔

    ‘‘تو بھلا ٹیکسی کروا لیں۔۔۔‘‘ سیمی نے اپنی

    دانست میں سیدھا حل بتایا۔

    ‘‘ارے میری شونا۔۔۔ یہاں ٹیکسی اتنی سستی تو نہیں ان کے لباس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ مہینے کے آخر میں بس کا کرایہ بھی مشکل سے بھرتے ہونگے۔‘‘

    ‘‘انہیں پتہ بھی نہیں ہوگا کہ اس وقت ہم ان کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔‘‘

    ‘‘ہاں نہ ہی وہ کبھی ہمارئے بارے میں جان پائیں گے نہ ہی ہم کبھی ان کے بارے میں کہ وہ کون تھے کہاں سے آئے تھے کہاں جا رہے تھے۔‘‘

    ‘’اور یہ بھی نہین کہ کسی نے ان کو میلوں دور بیٹھے تمہاری آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘‘

    ‘‘سیمی!۔۔۔‘‘

    ‘‘ہاں کہو؟۔۔۔‘‘

    ‘‘ اس وقت۔۔۔ بس ایک ہی حسرت ہے کہ کاش ان دونوں کی جگہہ تم اور میں ہوتے، تم اسی طرح میری گود میں سر رکھے لیٹی ہوتیں، میں نرمی سے تمہارے بالوں میں انگلیاں پھیرتا۔ تم یونہی آنکھیں موند کے پرسکون انداز میں لیٹی رہتیں، اس وقت نہ ہمیں اس سردی کی پرواہ ہوتی نہ، بےگھری کی تھکن، اس وقت یہ جوڑا مجھے دنیا کا خوش قسمت ترین جوڑ ا لگ رہا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا ساتھ میسر ہے۔‘‘

    ‘‘ہاں اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہوگی کہ جسے ہم چاہتے ہیں اس کے اس قدر قریب ہوں کہ پھر موسم کی سختی رات کی تاریکی یا سفر کی صعوبت کے کوئی معنی نہ رہ

    جاتے۔ سچ ہے فیضی ایک محبت کرنے والے کے ساتھ سے زیادہ سکون بھری پناہ گاہ اور کون سی ہوگی۔‘‘ سیمی بھی اس وقت وہی محسوس کر رہی تھی جو فیضی کہہ رہا تھا۔

    *

    مندی مندی آنکھوں سے بینچ پر لیٹی لڑکی نے لڑکے کی گود سے سر اٹھایا۔ تو اسکی نظر سامنے کھڑکی میں کھڑے ہیولے پر پڑی جس نے سگریٹ کا آخری کش لے کر کھڑکی سے باہر اچھالا تھا اور اب کھڑکی بند کر رہا تھا۔

    ‘‘شام! کتنے خوش قسمت ہیں نا وہ لوگ جو اس وقت اپنے گھروں میں نرم گرم بستروں میں سکون کی نیند سو رہے ہیں اور ہم یہاں اتنی سردی میں اس بینچ پر رات گزارنے پر مجبور ہیں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے