Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم تو ڈوبے ہیں صنم۔۔۔

ترنم ریاض

ہم تو ڈوبے ہیں صنم۔۔۔

ترنم ریاض

MORE BYترنم ریاض

    ہو سکتا ہے یہ میری آخری خواہش ہو۔۔۔ تم سے۔۔۔ کچھ۔۔۔ میں آخری بار مانگ رہا ہوں شاید۔ شاہد نے نادیہ کی طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھ کر ٹھہر ٹھہر کر کہا۔

    مجھے۔۔۔ ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ ایسا مت کہو۔۔۔ نادیہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔

    کس بات سے۔۔۔؟ میری خواہش سے۔۔۔ یا میرے اندیشے سے۔

    شاہد مسلسل اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔نادیہ نے پلٹ کر اس کے چہرے پر نظر دوڑائیں۔ شاہد کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے۔ جیسے شک، طلب، التجا اور نہ جانے کیا کیا ایک ہی جگہ جمع ہوں۔

    نادیہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور گلوکوز کی نلی میں سے شاہد کے جسم میں داخل ہونے والے پانی کی رفتار دھیمی کر دی۔

    سردی لگ رہی تھی نا۔۔۔؟ اس نے آہستہ سے پوچھا۔

    ہاں۔۔۔ تمھیں کیسے۔۔۔؟ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ نرس اندر داخل ہوئی۔

    وقت ختم ہو گیا ہے۔۔۔ اب مریض کو آرام کرنے دیجئے۔

    آج شاہد کیسی باتیں کر رہا ہے۔۔۔ گھر پر ثمرین بھی اکیلی ہے۔ نادیہ سوچنے لگی۔

    بابا کیسے ہیں امی؟ کل نادیہ کے ہسپتال سے لوٹنے پر اس کی گیارہ سالہ بچی ثمرین نے پوچھا تھا۔

    اب شاہد بہتر ہیں کچھ۔

    نادیہ نے پرس مسہری کی طرف اچھال دیا تھا اور کرسی پر نیم دراز ہو گئی تھی۔

    پانی لاؤں امی؟ ثمرین ماں کے قریب چلی گئی تو اس نے ثمرین کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔

    نہیں بِٹیا۔تم بس میرے سینے سے لگ جاؤ۔

    نادیہ نے اس کا سر اپنی چھاتی سے لگا لیا۔ تو اس نے اپنی دبلی پتلی باہیں اپنی امی کی کمر کے گرد ڈال دیں۔

    بابا اچھے ہو جائیں گے تو۔۔۔ تو۔۔۔ پھر پہلے کی طرح۔ ۔ ۔ آپ سے لڑیں گے۔۔۔ آپ کو ماریں گے۔۔۔

    ثمرین فرش پر بیٹھ گئی اور اپنا سر ماں کے زانو پر رکھ دیا۔

    نہیں بیٹا۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔۔۔

    بابا بچیں گے نا۔۔۔؟

    ہاں۔۔۔ اللہ میاں سے دعا کرو۔۔۔ وہ رحیم ہے۔ کارساز ہے۔ نادیہ کی آنکھیں بھر آئیں۔

    نادیہ نے شاہد کو چاہا تھا۔ عیش و آرام ٹھکرا کر اس کی متوسط زندگی اپنائی تھی۔۔۔ اُسے محبت کے علاوہ اور کچھ نہ چاہئے تھا۔۔۔ مگر اسے جلد ہی علم ہو گیا کہ شاہد گھر گرہستی کا کچھ ایسا شوقین نہیں ہے۔ جانے کتنی دوست تھیں اس کی۔ راتوں کو تک غائب رہا کرتا وہ۔

    گھر میں تناؤ تھا۔

    نادیہ نے اس سے بات کرنا چھوڑ دی تھی۔ وہ بات کرتا تو جواب دے دیتی۔

    شاہد اکثر غصے میں نظر آتا۔

    کوئی چار ایک برس پہلے کی بات ہے۔

    ان دنوں نادیہ دوسری بار امید سے تھی۔

    ثمرین اپنی ماں کے پیٹ پر کان دھرے ماں کے قریب لیٹی تھی۔

    بھیا کی شکل کیسی ہوگی امی؟ وہ ماں کے ابھرے ہوئے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔

    تمہارے جیسی۔۔۔ پیاری پیاری سی۔

    بابا جیسی تو نہیں ہو گی نا۔اس کے لہجے میں ہلکی سی تشویش تھی۔

    ہو سکتا ہے۔۔۔ تمہارے بابا کی شکل بھی تو اچھی ہے۔نادیہ سیلنگ کی طرف دیکھتی رہی۔

    مگر اگر وہ بابا کی طرح غصہ کرےگا۔۔۔ تو۔۔۔ تو؟

    ثمرین پریشان سی ہو کر بولی۔

    نہیں بیٹا۔۔۔ وہ تو چھوٹا سا مُنا ہوگا۔۔۔ وہ کیوں غصہ کرےگا۔۔۔ اپنی ننھی سی باجی کو بہت پیار کرے۔۔۔ بہت عزت کرے گا تمہاری۔

    نادیہ نے انگلی کے پوروں سے ثمرین کا رخسار چھوا۔

    امی؟

    جی!

    صرف بھائی ہی بہن کی عزت کرتا ہے۔۔۔ یا۔۔۔ اور کوئی۔۔۔ بھی؟۔۔۔ کیا بابا آپ کی عزت کرتے ہیں؟

    ہاں۔۔۔ شاید۔۔۔

    پھر آپ کو بری بری باتیں کیوں کہتے ہیں۔۔۔؟

    وہ۔۔۔ شاید۔۔۔ ان کی عادت۔۔۔ ہے۔

    یہ تو گندی عادت ہے۔۔۔ ان کو دادی جان نے بتایا نہیں؟

    کیا معلوم۔۔۔ وہ تو بہت پہلے اللہ میاں کے پاس چلی گئی تھیں۔‘‘

    ہم بھیا کو بہت اچھی باتیں سکھائیں گے۔

    انشاء اللہ۔‘‘

    اُسے بابا جیسا نہیں بننے دیں گے۔ ثمرین نے آنکھیں موندی ہی تھیں کہ اس کی سماعت کے قریب ہی ایک دھماکہ ہوا۔

    کیا پٹی پڑھا رہی ہو بیٹی کو؟ یہ آواز شاہد کی تھی۔

    وہ دونوں مارے گھبراہٹ کے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں۔

    ثمرین سہم کر ماں سے لگ گئی۔ نادیہ متعجب سی شاہد کو دیکھنے لگی۔

    کیا سکھا رہی ہو اسے؟ شاہد پاس جا کر آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھتے ہوئے بولا۔ نادیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    میں پوچھتا ہوں کیا سکھا رہی تھیں اسے تم۔ اس نے نادیہ کے دونوں شانے پکڑ کر جھنجھوڑے تو ثمرین جلدی سے مسہری سے اتر کر دیوار سے لگ گئی اور سہمی سی دونوں کو دیکھنے لگی۔

    امی۔ شاید کانپتی ہوئی آواز میں اس نے پکارا بھی تھا۔

    نادیہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کے ایک جھٹکے سے شاہد کے ہاتھوں کو اپنے شانوں سے ہٹایا اور مسہری سے اتری۔ ابھی اس نے پاؤں فرش پر رکھے ہی تھے کہ شاہد نے پوری طاقت سے ایک زور کا تھپڑ اس کے منھ پر جڑ دیا۔ وہ چیخ مارکر منھ کے بل مسہری پر گر پڑی۔ اُس کے گھٹنے مسہری کے بان سے ہوتے ہوئے زمین سے لگ گئے۔ ثمرین ہچکیاں لے کر روتی ہوئی، باپ کی جانب خوفزدہ نظروں سے دیکھتی ماں کی طرف بڑھی تو شاہد کمرے سے باہر نکل گیا۔

    امی۔۔۔ امی۔۔۔ اس نے ماں کا چہرہ اپنی طرف موڑا تو دیکھا کہ امی کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ لپک کر غسل خانے سے تولیہ لے آئی اور ماں کی ناک اور چہرہ صاف کرنے لگی۔ماں کے گال پر انگلیوں کے سرخ نشان آبلوں کی مانند ابھر آئے تھے۔

    ثمرین۔ نادیہ نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا اور زور سے کراہ کر دونوں ہاتھوں سے اپنا پیٹ تھام لیا اور بلک بلک کر روتی ہوئی فرش پر آ گئی۔ ثمرین بے بسی سے روتی ہوئی ماں کو دیکھتی رہی اور اپنے ہاتھوں سے اُس کے آنسو پونچھتی رہی۔ ماں کی ناک سے خون بہنا بند ہو گیا تھا۔۔۔ مگر یہ کیا؟۔۔۔ ماں کے پیروں کے پاس اتنا خون۔۔۔؟

    امی، کیا ہوا۔۔۔ پیر میں بھی چوٹ۔۔۔ کیسے لگی ہے۔۔۔ دکھائیے۔۔۔ میں پٹی کرتی ہوں۔

    ثمرین ماں کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر اس کی اشکبار آنکھوں میں دیکھتی ہوئی اپنے جواب کا انتظار کرتی رہی مگر امی درد سے کراہتی رہی اور ہچکیاں لیتی رہی۔

    ثمرین کچھ نہیں سمجھی تھی۔۔۔ حیرت سے امّی کے پچکے ہوئے پیٹ کو دیکھ کر چپ چاپ سوچوں میں گم ہو جاتی۔۔۔ ایک بار امی سے پوچھا تھا تو امّی بہت غمزدہ ہو گئی تھی۔۔۔ دوبارہ اس نے امی سے کبھی نہیں پوچھا۔

    چھ ماہ کا حمل ضایع ہونے سے نادیہ کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ دوبارہ ماں ہو جانے کی امید بھی جاتی رہی۔ پیٹ کے اندر Infection بھی ہو گیا تھا جس کے لیے اسے مہینوں Antibiotics کھانا پڑے تھے۔ کوئی سال بعد وہ پوری طرح صحت یاب ہو گئی مگر پھر بھی جسم میں خون کی کمی قائم رہی۔

    گھر کا ماحول آسیب زدہ سا ہو گیا تھا۔

    وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔

    نادیہ کے اس درجہ تکلیف اٹھانے کے باوجود بھی شاہد کا برتاؤ نہیں بدلا تھا۔ برسوں سے وہ مستقل طور پر ثمرین کے کمرے میں ہی رہ رہی تھی۔ ادھر ہمیشہ سے اپنی صحت پر فخر کرنے والے شاہد کو اچانک بخار نے آ لیا۔ بخار بھی ایسا کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں، پیٹ میں رہ رہ کر درد اُٹھتا تھا۔ گولیاں وغیرہ آزمائی گئیں۔ فیملی ڈاکٹر کا نسخہ بھی کارگر نہ ہوا تو اس نے خون کی جانچ کا مشورہ دیا۔ ان دنوں شاہد نسبتاً کم غصہ کرتا تھا۔ گھر میں تناؤ کچھ کم تو ہو گیا تھا مگر نادیہ کو ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ خاموشی کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہو۔ جیسے وہ جان بوجھ کر چپ رہتا ہو۔ وہ کبھی کبھی نادیہ کو بغور دیکھتا اور دیکھتا چلا جاتا۔

    نادیہ کسی فرض سے نہیں چوکتی، اس کی خدمت میں لگی رہتی۔ کبھی شوربہ تیار کر رہی ہے، کبھی پھلوں کا رس نکال رہی ہے۔ بار بار ثمرین کو شاہد کے پاس روانہ کرتی کہ اسے کچھ ضرورت تو نہیں ہے۔ اس کے کمرے میں مسلسل Room Freshener چھڑکتی رہتی۔

    اصل میں شاہد کو برسوں سے پائیریا کا عارضہ تھا۔ اس کے مسوڑھوں سے خون رستا تھا۔ کبھی زیادہ کبھی کم۔ اسے بار بار کلی کرنا پڑتی تھی ورنہ اس کے سانس سے کچھ زیادہ بدبو آنے لگتی۔ بستر پر پڑے رہنے سے سارے کمرے میں تعفن پھیلا رہتا تھا۔ جس سے نادیہ کو ابکائیاں سی آتیں مگر وہ چپ چاپ سب برداشت کرتی۔ حالانکہ وہ اس تعفن کا خود کو کبھی بھی عادی نہیں کر پائی تھی اور اسے برداشت کرنے کا وہ مجبور مرحلہ جس سے بچنا اُس کے لیے ناممکن ہو جاتا تھا، ہمیشہ سوہانِ رُوح ثابت ہوا تھا کہ رِشتے کا یہ تقاضا نادیہ کے احساسِ مظلومیت کو پاتال کی قید جیسا بے دست و پا معلوم ہوتا تھا۔ ادھر کچھ برسوں سے الگ کمرے میں رہنے سے اسے اس بدبو سے نجات حاصل ہوئی تھی مگر شاہد کی بیماری کے دنوں میں وہ نہایت مستعدی سے اس کی تیمار داری میں منہمک تھی۔ اسے اور کچھ نہیں سوجھتا تھا۔

    خون کی جانچ کے نتیجے کے روز ڈاکٹر نے نادیہ کو فون کر کے تجربہ گاہ بلایا تھا۔ اور اکیلے آنے کی تاکید کی تھی۔

    شاہد HIV Positive تھا۔ مگر وہ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوا اور دوسری جگہ سے خون کی جانچ کروائی گئی۔ نتیجہ وہی تھا۔

    پھر اس کا باقاعدہ علاج شروع ہو گیا۔ انجکشن، دوائیں ، ہمدردی، خدمت، سب کچھ میسر تھا اسے۔مگر ان چیزوں سے اسے سکون ملنا ناممکن تھا۔ وہ اب چڑچڑا بھی ہو گیا تھا۔

    جب سے نادیہ کے خون کی جانچ صحیح نکلی تھی، شاہد کا رویہ ایسا ہو گیا تھا جیسے اس کی بیماری کے لیے نادیہ ہی ذمہ دار ہو۔

    ملنے والوں کو معلوم ہوا تو کنارہ کش ہو گئے۔ شاہد اب کبھی گھر میں ہوا کرتا کبھی ہسپتال میں۔ نادیہ ہر وقت اس کی دیکھ بھال میں لگی رہتی۔

    کئی مہینوں سے لگاتار ہسپتال میں رہنے کے بعد آج مدّت بعد ڈاکٹر نے اسے گھر لوٹنے کی اجازت دی تھی۔

    تم کیا تیمار داری کا ڈھونگ رچاتی ہو۔۔۔ انتظار میں ہوگی کہ میں مروں اور تم جلد سے جلد دوسری شادی کروں۔ ایک دن نادیہ کے ہاتھ سے جوس کا گلاس لیتے ہوئے شاہد نے کہا۔

    مگر یاد رکھنا۔۔۔ تم سے کوئی شادی نہیں کرےگا۔ سب جانتے ہیں کہ تم دوبارہ ماں نہیں بن سکتی۔ بانجھ ہو تم بانجھ۔۔۔ سمجھیں؟۔۔۔ اس نے نفرت سے منھ پھیر لیا اور نادیہ اسے پل بھر دیکھتے رہنے کے بعد کسی کام میں مشغول ہو گئی۔

    ہاں کوئی بوڑھا، لنگڑا لولا ہو تو بات دوسری ہے۔۔۔ کب کر رہی ہو شادی۔۔۔؟ وہ حلقوں میں دھنسی آنکھوں کو پھیلا کر بولا۔۔۔ نادیہ نے کوئی جواب نہ دیا۔

    بولو۔۔۔وہ غصے سے چیخا۔

    کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ اپنے حواس کھو چکے ہو کیا۔ اس نے تڑپ کر کہا۔

    سبھی عورتیں ایسا ہی کہتی ہیں۔۔۔ مگر ادھر شوہر کی آنکھ بند ہوئی، ادھر وہ نیا خاوند تلاش کرنے نکل کھڑی ہوئیں۔

    نادیہ منھ پھیر کر چپکے چپکے رو دی۔

    اس روز وہ شاہد کو معائنے کے لیے ہسپتال لے گئی تو ڈاکٹروں نے اسے دوبارہ داخل کر لیا۔

    جانے اس روز ڈاکٹر نے نادیہ سے کیا کہا کہ دوپہر میں کچھ دیر کے لیے جب وہ گھر آئی تو ثمرین کو گلے سے لپٹائے کتنی ہی دیر وہ گم سم بیٹھی رہی۔

    ہسپتال پہنچی تو ڈاکٹر، شاہد کو درد سے نجات کے لیے انجکشن لگا چکا تھا۔ شاہد بے ہوشی کے عالم میں تھا۔ نادیہ نے اس کا چہرہ گیلے تولیے سے صاف کیا۔ ہمیشہ کی طرح اس کے بالوں میں کنگھا کیا۔ آج سے پہلے نادیہ کا چہرہ کبھی اتنا بجھا ہوا نہیں تھا۔ آج وہ پتھر کا متحرک بت معلوم ہو رہی تھی۔

    شاہد ہوش میں آیا تو نادیہ نے اسے جوس کے گلاس کے ساتھ دوا کی ٹکی بھی دی۔

    زہر تو نہیں دے رہی ہو کہ تمہاری جان کا عذاب ختم ہو۔شاہد دوا کی طرف دیکھ کر طنزیہ بولا۔ نادیہ نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ ہی منھ پھیرا۔۔۔ چپ چپ سی اسے دیکھتی رہی۔ شاہد کا چہرہ آج سفید پڑ گیا تھا، چہرے کی تقریباً تمام ہڈّیاں ابھری ہوئی تھیں۔

    اس طرح گھور کیا رہی ہو؟۔۔۔کیا میں بدصورت لگ رہا ہوں۔۔۔ یا نیم مردہ نظر آ رہا ہوں۔ وہ غصے سے بولا۔

    نہیں۔۔۔ ایسا کچھ نہیں۔۔۔ ایک گلاس اور دوں۔وہ دھیرے سے بولی۔

    نہیں۔وہ برجستہ بولا اور بغور اُسے دیکھتا رہا۔

    دوسری صبح جب نادیہ آئی تو وہ خاموش اسے دیکھتا رہا۔

    میرے قریب آؤ۔۔۔ اس نے آہستہ سے کہا۔

    نادیہ اسے چونک کر دیکھنے لگی۔

    گھبراؤ نہیں۔۔۔ میں کچھ نہیں کہہ رہا۔۔۔وہ کچھ نرمی سے بولا۔نادیہ اسے حیرت سے دیکھتی رہی۔

    میں تمھارا چہرہ چھونا چاہتا ہوں۔۔۔ چھونے سے انفکشن نہیں ہوتا۔ نقاہت کے مارے اس نے سر پلنگ سے ٹکا دیا۔ اس کا سانس بے ترتیب ہو رہا تھا آنکھیں مند رہی تھیں۔

    ہو سکتا ہے یہ میری آخری خواہش ہو۔۔۔ تم سے میں۔۔۔ آخری مرتبہ کچھ مانگ رہا ہوں شاید۔ شاہد نے آنکھیں کھول کر نادیہ کی طرف ملتجیانہ دیکھ کر کہا۔

    مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ ایسا مت کہو۔۔۔ نادیہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔

    کس بات سے۔۔۔؟میری خواہش سے یا میرے اندیشے سے۔ وہ مسلسل اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ نادیہ نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ شاہد کے چہرے پر کچھ طلب، کچھ التجا، کچھ حسرت، کچھ محرومی اور جانے کون کون سے جذبات ایک ساتھ نظر آ رہے تھے۔

    نرس نے وقت ختم ہونے کا اعلان کیا تو وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی اور شاہد کو دیکھتی رہی۔وہ اب ادھ کھلی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ نادیہ نے ایک قدم اس کی طرف بڑھایا تو شاہد کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کی بائیں طرف کی پہلی داڑھ پر خون لگا ہوا تھا۔ نادیہ کے چہرے پر عجب محرومی بھری یاسیت چھائی ہوئی تھی۔

    وہ آگے بڑھ کر پلنگ کے کنارے پر بیٹھ گئی تو شاہد دھیرے دھیرے اس کی طرف جھکا اور اپنے دونوں کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے اس کے رخسار تھام کر اس کے چہرے پر جھک گیا۔ نادیہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔۔۔ شاہد نے اپنی پوری طاقت صرف کر کے اپنے ہاتھوں کی گرفت اس کے چہرے پر مضبوط کر دی۔ وہ اس کے لب کو دانت سے کاٹنے کی کوشش میں جب زور سے دباتا چلا گیا تو نادیہ نے چیخ کر ایک جھٹکے سے خود کو اُس کی گرفت سے آزاد کرا لیا۔

    اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اگر اس کا ہونٹ ایک ذرا سا بھی زخمی ہو جاتا تو۔۔۔ تو شاہد کے مسوڑھوں کا۔۔۔ خون۔۔۔

    اس نے زندگی میں پہلی بار شاہد کی طرف حقارت سے دیکھ کر زمین پر تھوک دیا اور بھاگ کھڑی ہوئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے