aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یکہ

MORE BYمرزا عظیم بیگ چغتائی

    ’’دس بجے ہیں۔‘‘ لیڈی ہمت قدر نے اپنی موٹی سی نازک کلائی پر نظر ڈالتے ہوئے جماہی لی۔ نواب ہمت قدر نے اپنی خطرناک مونچھوں سے دانت چمکا کر کہا، ’’گیارہ، ساڑھے گیا بجے تک تو ہم ضرور پھو۔۔۔ ہونچ۔۔۔ بغ۔۔۔‘‘

    موٹر کو ایک جھٹکا لگا اور تیوری پر بل ڈال کر نواب صاحب نے ایک چھوکرے کے ساتھ موڑ کا پہئے گڑھے سے نکالا اور عجیب لہجہ میں کہا، ’’لاحول ولا قوۃ کچی سڑک۔۔۔‘‘

    گرد و غبار کا ایک طوفانِ عظیم پہئے کے نیچے سے اٹھا کہ جو ہم نے اپنے موٹر کے پیچھے چھوڑا۔ ’’کتنے میل اور ہوں گے؟‘‘ لیڈی ہمت قدر نے مسکرا تے ہوئے پوچھا۔ میں نے کچھ سنجیدگی سے جواب دیا، ’’ابھی اٹھائیس میل اور ہیں۔‘‘ نواب صاحب نے موٹر کی رفتار اور تیز کر دی۔

    ’’حضور آہستہ آہستہ، حضور راستہ خراب ہے۔‘‘ پیچھے سے مودبانہ طریقے سے شوفر نے نواب صاحب کی خدمت میں عرض کی۔ مگر نواب صاحب کو تیز موٹر چلانے کی پرانی عادت تھی اور انہوں نے کہا، ’’ہش‘‘ اور شاید موٹر کو اور تیز کر دیا کیونکہ کچی سڑک سے جی گھبرا گیا تھا۔

    (۱)

    موٹر پوری رفتار سے ہچکولے کھاتا چلا جا رہا تھا اور ہم لوگ موٹر کی عمدہ کمانیوں اور ملائم گدوں پر بجائے ہچکولوں سے تکلیف اٹھانے کے مزے سے جھولتے جا رہے تھے۔ سامنے ایک نالائق یکہ جا رہا تھا۔ دور ہی سے نواب صاحب نے ہارن دینے شروع کر دیے تاکہ یکہ پیشتر ہی سڑک کے ایک طرف ہو جائے اور موٹر کی رفتار کم نہ کرنی پڑے۔ مگر یکے کی تیزی ملاحظہ ہو کہ جب تک وہ ایک طرف ہو موٹر سر پر پہنچا اور مجبوراً رفتار کم کرنا پڑی۔ نواب صاحب نے لال پیلے ہو کر یکے کی طرف منہ کر کے گویا حقارت سے ’’ہاؤ‘‘ کر دیا۔ واللہ عالم یکے والے نے سن بھی لیا اور نہیں۔ چشم زدن میں وہ نالائق یکہ مع اپنے یکہ والے کے گرد و غبار کے طوفان میں غلطاں و پیچاں ہو کر نہ معلوم کتنی دور رہ گیا۔

    لیڈی ہمت قدر نے یکہ کو مڑکر دیکھنے کی ناکام کوشش کی اور پھر مسکرا کر اپنے قدرتی لہجے میں کہا، ’’آپ نے اس کو دیکھا؟ اس کو، یکہ کو! بخدا کیا سواری ہے۔ قیامت تک منزل مقصور پر پہنچ ہی جائےگا۔ کیا آپ کبھی۔۔۔ معاف کیجئےگا۔۔۔ کبھی یکے پر آپ بیٹھے ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ ’’بیٹھا ہوں اور اکثر بیٹھا ہوں۔‘‘

    نواب ہمت قدر نے موٹر کی رفتار اور تیز کرتے ہوئے کہا، ’’قیں! ہیں اچھا یکے پر! آپ یکے پر بیٹھے ہیں! خوب! بھئی معاف کرنا بڑی ذلیل اور واہیات سواری ہے۔ ہمارے عالی خاندان کا کوئی فرد کبھی یکے پر نہیں بیٹھا۔ ’’پھر کچھ لا پرواہی سے نواب صاحب بولے، ’’واللہ اعلم اس پر کیسے سفر کرتے ہیں۔ بڑی واہیات سواری ہے۔‘‘ نواب صاحب نے کچھ غرور و تمکنت کے لہجہ میں جملہ ختم کیا۔

    ’’پھر لطف یہ!‘‘ لیڈی ہمت بولیں، ’’لطف یہ کہ تین تین آدمی ایک ساتھ بیٹھتے ہیں۔‘‘ مجھ سے پوچھا، ’’کیوں صاحب آپ تنہا بیٹھے ہیں یا کئی آدمیوں کے ساتھ؟‘‘

    ’’میں تنہا بھی بیٹھا ہوں اور ہم کل چار آدمی بھی بیٹھے ہیں اور پانچواں یکہ والا۔‘‘

    ’’پانچ آدمی!‘‘ لیڈی ہمت قدر چیخ کر بولیں، ’’ایں پانچ آدمی! چر۔۔۔ پانچ آدمی۔۔۔ آؤ!‘‘

    موٹر کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ پشت پر سے شوفر لڑھک کر لیڈی ہمت قدر کی گودمیں آ گرا۔ نواب صاحب نے اسٹیرنگ وہیل چھوڑ کر کرنٹ کا تماشا کیا۔ یعنی بیٹھے بیٹھے الٹی قلابازی ایسی کھائی کہ گدے پر میرے اوپر گرے اور ساتھ ہی اس گڑبڑ میں ایک بم کا سا گولہ پھٹا۔ لیڈی ہمت قدر کی فلک شگاف چیخ اور موٹر کے ٹائر کی بم باری اور نواب صاحب کا میرے اوپر گرنا اور پھر تمام باتوں کا نتیجہ یعنی بدحواسی۔ موٹر کے اندر ہی اندر قیامت بپا ہو گئی۔ ہوش بجا ہوئے تو معلوم ہوا کہ خیریت گزری۔ محض پھاندا پھوندی رہی۔ میں نے اپنے اوپر نواب صاحب کے گرنے کی خود الٹی ان سے معذرت چاہی۔ شریف آدمی ہیں۔ انہوں نے کچھ خیال نہیں کیا بلکہ مجھ سے پوچھا کہ لگی تو نہیں۔ میرے سینہ میں نواب صاحب کا سر گولے کی طرح آ کر لگا تھا۔ مگر میں نے کہا بالکل نہیں لگی۔ یہ طے کر لیا گیا کہ سب سے زیادہ لیڈی ہمت قدر کے لگی ہے اور سب سے کم شوفر کے۔ اسی مناسبت سے دراصل ہم نے ایک دوسرے کی مزاج پرسی بھی کی تھی۔

    بہت جلد دوسرا پہیہ چڑھا لیا گیا۔ لیکن اب جو چلاتے ہیں تو موٹر نہیں چلتا۔ بہت جلد وجہ معلوم ہو گئی۔ پٹرول کی ٹنکی میں ایک سوراخ تھا جس کو کاگ لگا کر بند کیا گیا تھا وہ دھچکے سے اپنی جگہ سے ہٹ گیا۔ واللہ اعلم کچھ دیر پہلے یا اب، کچھ بھی ہو، پٹرول بہہ چکا تھا۔ اب جو غور سے دیکھتے ہیں تو زمین تر تھی۔ اب کیا ہو، اسٹیشن یہاں سے اٹھائیس میل ہوگا اور پھر کچی سڑک اور جانا اس قدر ضروری۔ سڑک بالکل سنسان تھی۔ عین اس گھبراہٹ اور یاس کے عالم میں کیا دیکھتے ہیں کہ عین سڑک کی سیدھ میں گویا افق سڑک پر نیر امید طلوع ہوا۔ یعنی اس ٹوٹے پھوٹے یکے کی چھتری چمکی۔ پھر اس کے بعد یکے کا ہیولا نظر آیا۔ جس نے برق رفتاری کے ساتھ یکہ مجسم کی صورت اختیار کرلی۔

    ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور کبھی یکے کو حتی کہ قریب پہنچا، برابر آیا، کچھ ہلکا پڑا اور قریب قریب رک سا گیا۔ بلکہ یکے والے کے گرد آلود چہرے پر کچھ خوشی کی جھلک کے ساتھ لبوں کو حرکت بھی ہوئی۔ مگر یہاں سب خاموش۔ لیڈی ہمت قدر نے عین اس موقع پر ایک عجیب نظر ڈال کر آنکھوں ہی آنکھوں میں خجالت سے شاید مجھ سے کچھ کہا۔ میں نے معاً لیڈی ہمت قدر کی طرف دیکھا جنہوں نے کنکھیوں سے یکے کے پہئے کی طرف دیکھ کر اپنی نازک سی چھتری سے زمین کریدنا شروع کی۔ یکہ آگے نکل چکا تھا۔ دراصل مصیبت تو یہ تھی کہ سوائے میرے یہاں کسی کو یکے والے کو پکارنا تک نہیں آتا۔ میں البتہ ماہر تھا۔ مجبوری بری بلا ہے۔ میں نے نواب صاحب اور لیڈی ہمت قدر کی خفت دیکھ کر دل ہی دل میں کہا۔ ؏

    مہربان آپ کی خفت مرے سر آنکھوں پر

    اور پھر حلق پھاڑ کی آواز دی، ’’ابے او یکے والے۔‘‘

    (۲)

    اب سوال یہ تھا کہ لیڈی ہمت قدر اس پر کیسے بٹھائی جائیں۔ نواب صاحب نے مجھ سے کہا، ’’آپ ہی کوئی ترکیب نکالیے۔‘‘ کیونکہ سوائے میرے اور کون یہاں یکے کا ماہر تھا۔ لیڈی ہمت قدر کا ایک طرف سے میں نے بازو پکڑا اور دوسری طرف سے نواب صاحب نے۔ بیگم صاحبہ نے ایک پیر دھرے پر رکھا اور دوسرا پہیہ کے ہال پر اور اس کے بعد شاید اڑنے کی کوشش کی۔ ہال پر سے پیر سرک گیا اور وہ پرکٹی مینا کی طرح میری طرف پھڑ پھڑائیں، کیا کرتا مجبوراً میں نے ان کو لحاظ کے مارے چھوڑ دیا ورنہ وہ میری گود میں ہوتیں۔ انہوں نے ہاتھ پیر بھی آزاد پا کر چلا دیے اور ان کے بوٹ کی اونچی اور نوکیلی ایڑی قابل احترام شوہر کی ناک پر لگی۔ نتیجہ یہ کہ نواب صاحب پہیہ کے پاس دراز۔ میں نے کہا یا علی! نواب صاحب مونچھیں جھاڑتے ہوئے مجھ سے شکایت کرتے ہوئے اٹھے اور بیگم صاحبہ کو سنبھالا۔ اب یہ طے پایا کہ یکے کو موٹر کے پاس کھڑا کیا جائے۔ برابر نواب صاحب بیٹھے اور آگے میں بیٹھا۔ یکے والے نے ٹخ ٹخ کی صدا بلند کی، ’’چوں چرغ چوں۔‘‘ اور یکہ چل دیا۔

    نواب صاحب اور لیڈی صاحبہ کو معلوم ہوا کہ خود اپنے جوتوں سے اپنے کپڑے میلے ہو رہے ہیں۔ فوراً معاملہ میرے سامنے پیش کر کے اس کا علاج مجھ سے پوچھا۔ یکہ والے نے فوراً کہا، ’’آپ دونوں اپنے اپنے جوتے اتار کر ہاتھ میں لے لیجئے۔ تاکہ میں آگے والے گھاس کے ڈبہ میں رکھ دوں۔‘‘ اور گھاس کا ڈبہ کھولا تو اس میں دو تین رسیاں، ایک چلم، ایک ہتھوڑی، چند کیلیں وغیرہ تھیں۔ نواب صاحب اب تک خاموش تھے، یکے والے پر سخت خفا ہوئے۔ میں نے نواب صاحب کو سمجھا دیا کہ کپڑے تو جوتے سے میلے ہونا لازمی ہی ہیں۔ پھر اس یکے کی خوبیوں کا تذکرہ کیا کہ جس میں پیر رکھنے کا پائیدان بھی ہوتا ہے۔ وہ ہوتا تو غالباً لیڈی ہمت قدر کو چڑھنے میں یہ دقتیں پیش نہ آتیں۔

    یکہ والے نے اپنی پوزیشن اس طرح صاف کی کہ ’’صاحب پائیدان کمانی دار یکے میں ہوتا ہے اور میں کچی سڑک پر چلاتا ہوں، لہٰذا کمانی دار یکے نہیں رکھتا، ورنہ دو دن میں کمانیاں چور چور ہو جائیں۔‘‘ یکہ والا کچھ فلسفیانہ رنگ میں آکر بولا، ’’حضور یہاں تو ’’کھڑیا‘‘ یکہ چلتا ہے۔ کچی سڑک کا یہ بادشاہ ہے۔ نہ لوٹے اور نہ یہ ٹوٹے اور مسافر بھی آرام سے چین کی بنسی بجاتا ہے۔‘‘

    ’’چپ‘‘ نواب صاحب نے بھنا کر یکے والے سے کہا۔

    (۳)

    تھوڑی دیر بعد نواب صاحب نے پینترے بدلنا شروع کیے۔ ان کاگھٹنا میری پیٹھ میں بری طرح گڑ رہا تھا۔ لیڈی ہمت قدر ایک ہاتھ سے اپنی نازک چھتری لگائے تھیں اور دوسرے ہاتھ سے یکے کا ڈنڈا پکڑے تھیں۔ ان کے دونوں ہاتھ کبھی کے دکھ چکے تھے۔ ہر جھٹکے پر وہ اس طرح چیختی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا کہ گر گئیں۔ نواب صاحب کے موذی گھٹنے کے گڑنے کی وجہ سے میں دھیرے دھیرے آگے سرکتا جاتا تھا۔ مگر جتنا میں ہٹتا اتنا شاید نواب صاحب کا گھٹنا اور بڑھ جاتا تھا۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ کیا کروں جو اس گھٹنے سے پناہ ملے۔

    اتنے میں ایک جھٹکا لگا اور نواب صاحب کی ناک یکہ کے آگے والے ڈنڈے میں لگی۔ عین اس جگہ جہاں میں اس کو ہاتھ سے پکڑے تھا۔ میری چھنگلی کچل گئی۔ ’’لگی تو نہیں۔‘‘ نواب صاحب نے مجھ سے پوچھا۔ ’’آپ کے تو نہیں لگی۔‘‘ میں نے ان کی لال ناک دیکھتے ہوئے کہا۔ دونوں کو زور سے لگی تھی۔ میری چھنگلی میں، ان کی ناک میں مگر دونوں جھوٹ بولے اور جواب واحد تھا۔ ’’جی نہیں، بالکل نہیں۔‘‘ واقعی جھٹکا ایسا لگا کہ اگر کہیں میری انگلی اس جگہ پر نہ ہوتی تو نواب صاحب کی ناک پچی ہو جاتی۔

    ’’ذرا ادھر ہٹئے۔‘‘ لیڈی ہمت قدر نے نواب صاحب سے روکھے لہجے میں کہا۔ نواب صاحب نے اپنی پیاری بیگم کے کہنے سے کروٹ سی بدل کر کوئی آدھ انچ گھٹنا اور میری پیٹھ میں گھسیڑ دیا۔ میں نے گھٹنے کی نوک کو! ہاں صاحب، نوک کو! جو بری طرح تکلیف دے رہی تھی۔ ذرا سرک کر دوسرے حصہ جسم پر لیا۔

    ’’تیز نہیں چلاتا۔‘‘ یکے والے سے نواب صاحب نے حلق پھاڑ کر کہا۔ اس نے سوت کی رسی کی لگام کو جھٹکا دے کر گھوڑے کو ٹٹخارہ دیا اور لگام کے زائد حصہ کو گھما کر دوطرفہ گھوڑے کو جھاڑ دیا اور پھر دوبارہ جو گھما کر سڑاکا دیا تو میری عینک لگام کے ساتھ اڑ چلی اور قبل اس کے کہ میں اپنی ناک پر ہاتھ لے جاؤں کہ کہیں عینک مع ناک کے تو نہیں چلی گئی، عینک مع رسی کے لیڈی ہمت قدر کے بالوں میں جا الجھی۔ لیڈی ہمت قدر نے چیخ نکالی۔ رسی میری ناک کے نیچے سے ہوتی ہوئی گئی تھی۔ گویا ایک دم سے میرے منہ میں لگام دے دی گئی۔ قدرتی امر کہ میرا ہاتھ ساتھ ساتھ اس پر پہنچا اور لیڈی صاحبہ کے میری عینک نے بال کھینچ لیے! وہ بولیں، ’’چیخ۔۔۔ چر۔۔۔ چیں۔‘‘

    عینک بااحتیاط تمام لیڈی موصوفہ کے بالوں کو سلجھا کر نکالی گئی۔ یکے والا مارے ڈر کے کانپ رہا تھا۔ خوب ڈانٹا گیا بلکہ پٹتے پٹتے بچا۔ پھر سنبھل کر بیٹھے اور اس سلسلہ میں نواب صاحب کا گھٹنا ایک آدھ انچ اور میری کمر میں در آیا، مجبوراً میں کچھ اور آگے سرکا۔ مگر وہاں جگہ کہاں؟ میں پیشتر ہی کگر پر آ گیا تھا۔

    لیڈی ہمت قدر پر تین طرح کا سایہ تھا۔ ایک تو خود نواب صاحب کا، دوسرے یکے کی چھتری کا اور تیسرے خود ان کی نازک چھتری کا۔ مگر دھوپ تیز تھی۔ یکہ کی چھتری ظاہر ہے کہ اگر کچھ پناہ دھوپ سے دیتی ہے تو وہ بھی ٹھیک بارہ بجے اور بارہ بجنے میں ابھی دیر تھی۔

    باوجود ہر طرح کے سایہ کے لیڈی ہمت قدر گرمی سے حیران تھیں۔ سڑک ذرا بہتر آ گئی تھی۔ اور یکہ اب روانی کے ساتھ چلا جا رہا تھا اور ظاہراً اور کوئی تکلیف نہ تھی۔ اب ایسے موقع پر گرمی کی تکلیف لامحالہ محسوس ہوئی اور لیڈی ہمت قدر نے کچھ بے چین ہو کر کہا، ’’خدا کی پناہ مری جا رہی ہوں گرمی سے۔۔۔‘‘ جملہ پورا نہ ہوا تھا کہ یکہ والے نے اپنی سریلی آواز میں مصرعہ کھنچا۔ ’’ہم مرے جاتے ہیں۔ تم کہتے ہو حال اچھا ہے۔۔۔‘‘

    ’’ابے نالائق۔‘‘ یہ کہہ کر ایک طرف سے نواب صاحب گرجے اور دوسری طرف ایک کہنی اس کی بغل میں مار کر میں برس پڑا، ’’بے ہودہ، نالائق، بدتمیز۔‘‘ پھر نواب صاحب اس طرح گڑگڑائے اور بڑبڑائے جیسے کوئی بڑا خالی برتن پانی میں غرق ہوتا ہے۔ اور اس بری طرح ڈپٹا اور ساتھ ساتھ اس ڈپٹ کے کوئی آدھ انچ اور نواب صاحب نے اپنا ’’باریک‘‘ گھٹنا (موٹے تازے تھے) میری کمر میں بھونک دیا۔

    دراصل اس وقت یکے والے کی خطا نہ تھی۔ اگر لمبے راستے کا ایک سست یکے پر آپ کو سفر کرنے کا موقع ملا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یکہ گھوڑے کی طاقت کے مطابق ایک پرسکون اور مستقل رفتار اختیار کر لیتا ہے، جھٹکے منظم ہو جاتے ہیں۔ جھکولوں کا ایک سائیکلک آرڈر (ترجمہ غالباً نظام تسلسل) قائم ہو جاتا ہے۔ پہیہ کی چرخ چوں ایک ٹائمنگ (ترجمہ۔ غالباً تعین وقت) کی پابند ہو جاتی ہے۔ گھوڑے کے قدم نپے تلے پڑتے ہیں۔ مسافروں کے سر مقررہ حدود میں ایک تنظیم کے ماتحت ہلتے ہیں۔ آپس میں سر ٹکرانے کا امکان جاتا رہتا ہے۔ غرض جب ہر چیز منظم ہو کر یکے کو مجسم پوئٹری آف موشن (ترجمہ غالباً نظم الحرکات) بنا دیتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یکہ چل نہیں رہا ہے بلکہ بہہ رہا ہے اور پھر یکے والے کی طبیعت ایک عجیب پر کیف ہو جاتی ہے۔ خصوصاً جب کہ کرایہ معقول ملا ہو۔ وہ کچھ سینے کے بل جھک کر آنکھیں نیم باز کئے ہوئے نہ معلوم کہاں پہنچتا ہے۔ اس کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ یکے پر کون ہے کون نہیں اور نتیجہ یہ کہ وہ الاپ اٹھتا ہے۔ لہٰذا اگر غور سے دیکھا جائے تو یہاں یکے والے کی کوئی خطا نہ تھی۔

    میں نے اس فلسفے کو نواب صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ بیگم صاحبہ آدھے سے زیادہ اس فلسفے کو سمجھ چکی تھیں کہ انہوں نے ایک دم سے چہرہ وحشت زدہ بنا کر ریل کی سی سیٹی دینے کی کوشش کی اور چھتری دو ر پھینکی۔ ’’ارے روک روک۔‘‘ ایک طرف سے نواب صاحب چیخے اور دوسری طرف سے میں چلایا، ’’کمبخت روک۔‘‘

    بیگم صاحبہ کی ریشمی ساڑھی پہیہ میں الجھ کر رہ گئی اور اگر یکہ نہ رکتا تو چونکہ ریشم مضبوط ہوتا ہے، ضرور نیچے آتیں۔ یہاں سے مہارانی دروپدی کا سا قصہ شروع ہوتا ہے۔ ساڑھی کا زریں کام سب خراب ہو گیا تھا۔ نواب صاحب بہادر یکہ بان پر بےحد برافروختہ تھے نہ اس وجہ سے کہ ساڑی قیمتی تھی، بلکہ اس وجہ سے کہ پہیہ نے بیگم صاحبہ کی لا پرواہی سے فائدہ ناجائز اٹھاتے ہوئے گستاخی کی تھی اور قصور یکہ کا تھا اور یکہ خود یکہ والے کا۔

    میں چونکہ یکے پر بیٹھنے کا ماہر تھا، لہٰذا میری طرف نواب صاحب نے سوالیہ صورت بنا کر دیکھا کیونکہ میں نے یکے والے کو ایک لفظ نہ کہا تھا۔ چنانچہ میں نے تصدیق کی بےشک ایسا بھی ہوتا ہے اور اس میں یکے والے کی کوئی خطا نہ تھی۔ بشرطیکہ وہ یکے کو روکنے میں خواہ مخواہ دیر نہ کرے۔ لیڈی ہمت قدر نے مجھ سے پوچھا، ’’کیوں صاحب، کیا آپ کی بیوی کے ساتھ بھی کبھی ایسا ہوا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’میری تو خدا کے فضل سے بچی ر ہی ہیں مگر خود میرے ساتھ کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے اور اچکن کا دامن اکثر خراب ہو گیا ہے۔‘‘

    (۴)

    ’’یہ کیل تو مارے ڈالتی ہے۔‘‘ نواب صاحب نے کچھ بیکل ہو کر پینترا بدلا اور کیل کی جگہ کو ٹٹول کر میری کمر میں آدھ انچ اور اپنا گھٹنا پیوست کر دیا۔ نواب صاحب بھاری بھرکم آدمی تھے۔ آپ کہیں گے کہ ان کا گھٹنا اور ’’باریک‘‘ تو عرض ہے کہ ایک موٹی چیز بھی جس وقت مستقل طور پر جسم میں پیوست ہونے کی کوشش کرتی ہے اور وہ بھی پھر یکے پر تو اس کی چبھن کسی طرح نوک دار چیز کی چبھن سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتی۔ میں خوش تھا کہ نواب صاحب کی ران میں کیل چبھ رہی ہے اور میرا بدلا لے رہی ہے۔ حالانکہ یکے پر گدی تھی اور اس پر دوہری چادر مگر یکہ نواب صاحب کو بےکل کیے دیتی تھی۔

    تھوڑی دیر بعد نواب صاحب اس کیل سے پریشان ہوکر اکڑوں کی قسم کی کروٹ سے بیٹھ گیے۔ ان کا سر عجیب طرح یکے کے جھکولوں کے ساتھ گردش کر رہا تھا یعنی اس طرح کہ اگر ان کی ناک پر پینسل باندھ دی جاتی اور اس کے سامنے کاغذ ہوتا تو ایک گول حلقہ بن جاتا۔ لیڈی ہمت قدر کو ایسے جھٹکے لگ رہے تھے کہ اگر ان کی ناک پر پینسل ہوتی تو آدھا حلقہ تو ٹھیک بنتا مگر پھر پینسل کاغذ میں چبھ جاتی۔ میری ناک شاید لہریا بناتی اور یکے والا چونکہ جھکا ہوا تھا لہٰذا اس کی ناک سطریں کھینچ رہی تھی۔ غرض اس طرح ہم سب اقلیدس کی شکلیں حل کرتے چلے جا رہے تھے۔

    ماہرین فلکیات کا ایک عجیب نظریہ ہے اور وہ یہ کہ نظام شمسی کے تمام اجسام مقررہ حدود کے اندر اپنے اپنے قواعد کے مطابق اصطلاح میں کشش رکھتے ہیں اس نظریہ کی رو سے قیامت جب آئےگی جب اس کشش میں فرق پڑے گا۔ نتیجہ یہ نکلےگا کہ تمام اجسام بے قابو ہو کر آپس میں لڑ جائیں گے۔ حسن اتفاق کہ اس نظریہ کی تفسیر یکہ پہ پیش آنا تھی۔ ایک معمولی سے گڑھے پر نہایت ہی معمولی سا جھٹکا لگا۔ مگر یہ جھٹکا تھا جس نے گویا نظام شمسی کو درہم برہم کر دیا۔ آپس میں ہم سب کے سر لڑ گیے اور پھر علیحدہ ہو کر ڈنڈوں میں جا لگے اور کچھ تو اس وقتی ابتری سے ہوا نہیں مگر اس سلسلہ میں نواب صاحب کا گھٹنا میری کمر میں پھر در آیا، میں بالکل کگر پر تھا اور وہ اب قصہ ماضی کی بات تھی جب ان کا گھٹنا آدھ آدھ انچ سرکتا تھا اب تو جگہ ہی نہ تھی اور میں طوطے کی طرح اڈے پر بیٹھا ہوا تھا۔

    یکہ کا دباؤ ویسے ہی تھا، یعنی آگے کو مائل تھا۔ قسمت کی خوبی نواب صاحب نے اس نامعقول سی وجہ سے ایک معمولی سے جھٹکے سے بیکل ہو کر ایک دم سے اچھل کر بوجھ آگے ڈال دیا۔ یکے کا ساز کیا تھا۔ بس رسیوں کی جکڑ بندی تھی۔ واللہ عالم جھٹکے سے مگر میں کہتا ہوں کہ شاید قصداً لیڈی ہمت قدر نے ایک چیخ کے ساتھ اپنی چھوٹی سی چھتری میرے سر پر رکھ کر اپنی طرف زور سے گھسیٹی۔ ادھر میں پر کٹے طوطے کی طرح نواب صاحب کے گھٹنے کی بدعتوں کی وجہ سے گویا اڈے پر بیٹھا ہی تھا۔ وہاں سوائے کگر کے رہ ہی کیا گیا تھا۔ ہم جو ایک دم سے زمین پر آ لگے تو میں آگے کو گرا چھتری منہ پر چڑھی تھی، دکھائی کیا دیتا خاک اور پھر دکھائی بھی دیتا تو بےکار۔ جھٹکے سے چھتری تو بعد میں الگ ہو گئی۔ مگر میں عجیب طرح گرا اور دور تک اپنی ناک زمین سے صرف بالشت بھر اونچی کیے دوڑا ہی چلا گیا اور پھر ہر قدم پر یہ امید تھی کہ بدن قابو میں آ جائےگا اور کھڑا ہو جاؤں گا۔ مگر حضرت یہ امید موہوم نکلی اور اس طرح منقطع ہوئی کہ دس بارہ قدم کی مسافت اسی طرح ناک زمین سے کوئی بالشت بھر اونچی کیے طے کرنے کے بعد میں اپنی ناک سے سڑک کی زمین پر ہل چلا دینے پر مجبور ہو ہی گیا۔

    اٹھا اور اپنی ناک ٹٹولی۔ سارا منہ گرد سے سفید ہو گیا تھا۔ آنکھوں نے جب دیکھا کہ ناک کا ارادہ قطعی ہے تو وہ بند ہو گئی تھیں۔ ورنہ دھول میں پھوٹ ہی جاتیں۔ مگر پھر بھی آنکھوں نے بہت کام کیا تھا اور آخر وقت تک کھلی رہنے کی وجہ سے ان کی مٹی گھس گئی تھی۔ ہاتھوں نے بڑی خدمت کی اور چھل گیے۔ ورنہ شاید میری ناک گھس کر غبار راہ ہو جاتی۔ کیونکہ بلا مبالغہ فٹ بھر کے قریب ناک نے زمین پر ایک گہری سی لکیر کھینچی۔ کچھ بھی ہو یہ سب چشم زدن میں ہو چکا تھا۔ میں نے اٹھ کر دیکھا تو بیگم صاحبہ دونوں ہاتھوں سے ڈنڈے پکڑے مسلسل چیخیں مار رہی تھیں۔ حالانکہ وہ خطرے سے باہر تھیں اور بندریا کی طرح ڈنڈے پر چپکی ہوئی تھیں۔ نواب صاحب یکہ کے بم پر کچھ اس طرح آکر رکھے تھے کہ شبہ ہوتا تھا کہ وہ بچوں والاگیم گھوڑا گھوڑا بم کے ڈنڈے سے کھیل رہے تھے۔ یکے والا غریب البتہ پہیہ کی سیدھ میں چت گرا تھا۔ گھوڑا اس وقتی سبکدوشی کو غنیمت تصور کر کے ایک انداز بے خودی کے ساتھ سڑک کے کنارے کچھ ٹفن اڑا رہا تھا۔

    بہت جلد ایک دوسرے کی خیریت اور مزاج پرسی سے فراغت پائی، یکے والے نے یکے کے ساز کی گانٹھا گونٹھی اور باندھا بوندھی کی مگر کچھ ٹھیک نہ بندھا تو نواب صاحب سے اس نے کہا، ’’آپ کے پاس رسی کا کوئی ٹکڑا تو نہیں ہوگا؟‘‘ نواب صاحب نے اس کا جواب دیا، ’’الو کے پٹھے۔۔۔ ام۔۔۔ بہم۔۔۔‘‘ (بھنا رہے تھے ) میں نے ڈانٹ کر کہا، ’’ابے تو بالکل ہی گدھا ہے۔‘‘ یکہ والا گنگنا کر بولا، ’’میاں میں نے کہا شاید کوئی ٹکڑا وکڑا نکل آئے، پھر اب بتائیے کیا ہو، بغیر رسی کے کام نہیں چلےگا۔‘‘

    میرا سوتی رومال اور بیگم صاحبہ اور نواب صاحب کا ریشمی رومال ان تینوں کو ملا کر مضبوطی سے ساز کی بندش کو یکے والے نے سنبھالا۔ جھٹکے دے کر خوب اچھی طرح آزمانے کے بعد اس نے کہا، ’’اب بیٹھ جائیے۔‘‘ نواب صاحب چونکہ سب سے زیادہ بھاری تھے، لہٰذا یکے والے نے کہا کہ ذرا پیچھے کو دبے رہیں۔ ہم سب اچھی طرح بیٹھ گیے۔ نواب صاحب پیچھے کو دب کر بیٹھے، ایسے کہ جیسے کہ گاؤ تکیہ لگائے ہوں اور جو کچھ تھا، سو تھا، میں خوش تھا کہ نواب صاحب کے گھٹنے سے میری جان چھوٹی۔

    مگر تھوڑی ہی دیر بعد نواب صاحب کی پیٹھ میں یکے کی آرائش چبھنے لگی۔ کیونکہ یہ یکہ ضرورت سے زیادہ موٹے موٹے نیلے پیلے موتیوں سے آراستہ تھا جو مضبوط تار میں پرو کر ڈنڈوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا نواب صاحب کچھ آگے کو مائل ہوئے اور انہوں نے گھٹنا اڑانے کی تمہید اٹھائی۔ اب میں تنگ تھا لہٰذا میں نے نواب صاحب سے کہا کہ ذرا پیچھے ہی رہیئے۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ یکہ دباؤ ہو جائےگا۔ لیڈی ہمت قدر اب دباؤ کے نام سے کانپتی تھی۔ انہوں نے بھی نواب صاحب سے کہا کہ پیچھے ہی رہیئے۔ اب یکے کا توازن بہت اچھی طرح قائم تھا۔ ذرا بھی دباؤ ہوتا تو میں نواب صاحب کی توجہ رومالوں کی کمزور بندش کی طرف دلاتا اور نواب صاحب پھر ٹھیک طرح بیٹھ جاتے، ورنہ بیگم صاحبہ غل مچاتیں۔

    کوئی قابل ذکر بات نہ تھی کہ ایک معمولی سے جھٹکے پر لیڈی ہمت قدر چیخیں اور ساتھ ہی سڑک پر سے باسی گوبر کا ایک ٹکڑا پہیہ کے ساتھ اڑکر ان کی آنکھ میں لگا۔ وہ چیخیں تو دراصل اس وجہ سے تھیں کہ ہاتھ میں ڈنڈے کی پھانس لگ گئی تھی کہ یک نہ شد دو شد اور ان کی آنکھ میں گوبر پڑ گیا۔ یکہ روکا گیا۔ پھانس نکالی گئی اور آنکھ صاف کی گئی۔ لیڈی ہمت قدر کے ہاتھ ڈنڈا پکڑے پکڑے سرخ ہو گیے تھے اور وہ کہہ رہی تھیں کہ ’’میرا شانہ اکھڑا جا رہا ہے۔‘‘ مگر کیا کرتیں لاچار و مجبور تھیں، کوئی چارہ ہی نہ تھا۔

    (۵)

    اسی حالت میں ہم چلے جا رہے تھے۔ سڑک رفتہ رفتہ خراب آتی جا رہی تھی اور پھر تھوڑی دیر بعد ایسی آئی کہ ہوشیاری سے بیٹھنا پڑا۔ لیڈی ہمت قدر ’’دباؤ‘‘ یکہ کا خیال کر کرکے کانپ اٹھتی تھیں اور نواب صاحب کو تاکید پر تاکید تھی کہ پیچھے ہٹے رہو۔ یکے والا بھی خوش تھا کہ گھوڑا ہلکا چل رہا ہے۔ مگر یہ شاید لیڈی ہمت قدر کو معلوم نہ تھا کہ یکے پر بیٹھنا دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو ’’دباؤ‘‘ جب آگے کو بوجھ ہو گا اور پھر ’’الار‘‘ جب پیچھے کو بوجھ ہو گا۔ میں چونکہ آگے کو بیٹھا تھا اور دباؤ یکے کا لطف اٹھا چکا تھا کہ یکہ بان سے لے کر نواب صاحب تک ہر کس و نا کس کی یہ کوشش تھی کہ یکہ ’’الار‘‘ رہے۔

    رومالوں کی بندش پر ’’الار‘‘ یکے کا زور بے طرح پڑ رہا تھا اور چونکہ آگے بیٹھنے والے کو ’’الار‘‘ یکہ میں خطرہ ہوتا ہے لہٰذا میں چپ تھا۔ لیڈی ہمت قدر جانتی ہی نہ تھیں کہ ’’الار‘‘ کیا چیز ہوتی ہے۔ نواب صاحب بیگم صاحبہ کی خوشنودی میں منہمک تھے اور یکے والے کے لیے ’’الار‘‘ اور ’’دباؤ‘‘ روزانہ کا مد و جزر ٹھہرا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ایک غیر معمولی گڑھے پر جھٹکا لگا۔ رومالوں نے تڑاخا بھرا۔ لیڈی ہمت قدر جو اصولاً چیخیں حق بجانب تھیں۔ کیونکہ یکے کے دونوں بم اینٹی ایئر کرافٹ گن (ہوائی جہاز کو گرانے کی توپ) کی نالوں کی طرح اٹھ گیے۔ یکہ اگر آدمی ہوتا تو قطعی چت گرتا۔ عقلمند یکہ بان نے یکے کی پشت پر نیچے ایک طرف یکے کا داہنا بم قصداً آدھ گز بنوایا تھا۔ جس کو ظاہراً بیکار طور پر نکلا ہوا چھوڑ دیا تھا۔ یہ دراصل اگر سچ پوچھئے تو تھیوری آف بیلنس یعنی نظریہ توازن کی تفسیر تھا۔ جس کو اصطلاحاً پورپ کی طرف ’’الریٹھا‘‘ کہتے ہیں۔ یا بالفاظ دیگر ’’اینٹی الار اپریٹس (آلہ مائع الار) واقعی اگر یہ کہیں نہ ہوتا، یکہ مع اپنے اسباب جہالت یعنی ہم لوگوں کے سر کے بل (یعنی چھتری کے بل) چت گرتا۔

    مگر پھر بھی باوجود یکہ ’’آلہ نما مائع الار‘‘ نے یکہ ایک جھٹکے کے ساتھ روک لیا۔ لیکن دونوں بمیں ہوا میں معلق ہو گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یکے والا لڑھک کر لیڈی ہمت قدر کی گود میں گرا اور اپنی اس عزت افزائی سے اس قدر گھبرایا کہ میری گردن پر سے ہوتا ہوا نکل کر پہئے کے پاس گرا۔ میں لمبا لمبا یکہ میں لیٹنے پر مجبور ہوا۔ اور یکے بان کے بیٹھنے کی جگہ جو ایک خانہ ہوتا ہے اس کا ڈھکنا کھل جانے کی وجہ سے تمباکو ملی ہوئی ریت پھانکنے کے علاوہ میرے منہ پر ہتھوڑی اور چلم اور دوسری مکروہات گریں مع لگام کے جو یکے بان چھوڑ گیا تھا۔

    نواب صاحب نے عجیب حرکت کی تو وہ گڑ گڑا کر پھاندے اور چھپکلی کی طرح پٹ سے پہیہ کے برابر دھول میں گرے اور اس برجستگی کے ساتھ اٹھے کہ بیان سے باہر ہے۔ یکے والے کے پاس کافی عذر موجود تھا۔ مثلاً صاحب یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ (کوئی غیرمعمولی بات نہیں ) ساز پرانا ہو گیا ہے۔۔۔ کہیں رومالوں سے کام چلتا ہے۔۔۔ نیا ساز اب کے میلے کی مزدوری سے خریدوں گا۔۔۔ گھوڑا چھ سیر دانہ کھاتا ہے، دام ہی بچتے نہیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

    یکہ میں بھی جگہ جگہ خزانے ہوتے ہیں، نہ معلوم کن کن مقامات کو یکہ والے نے کریدا اور کہاں سے رسی کے متعدد ٹکڑے نکال کر ساز کو پھر گوندھا اور کسا اور خدا خدا کر کے ہم پھر چلے۔ لیڈی ہمت قدر اب سہمی ہوئی تھیں۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اب کس طرف زور دیں۔ آگے کو جھکیں تو دباؤ کا ڈر اور پیچھے رہیں تو الار کا خطرہ۔ عجیب لہجہ میں انہوں نے کہا۔ ’’یکہ بڑی خطرناک سواری ہے۔ کبھی کوئی مر تو نہیں جاتا؟‘‘ یکہ والا بول اٹھا، ’’صاحب جس کی آتی ہے وہ اس بہانے بھی جاتا ہے۔‘‘ نواب صاحب نے زور سے ڈپٹ کر کہا، ’’چپ بے۔۔۔ ٹراپ۔۔۔‘‘ (بڑبڑانے لگے )

    (۶)

    پکی سڑک! پکی سڑک! یہ نعرہ ہم لوگوں نے پکی سڑک کو دور ہی سے دیکھ کر اس طرح بلند کیا جس طرح کرسٹوفر کولمبس کے ساتھیوں نے زمین کو دیکھ کر زمین! زمین! کا غلغلہ بلند کیا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہم زور سے پکی سڑک پر کھڑ کھڑاتے جا رہے تھے۔ اب ہمیں معلوم ہوا کہ یکے پر ہم گویا سر کے بل بیٹھے ہیں۔ بے کمانی کے یکے کی کھڑکھڑاہٹ بھی عجیب چیز ہے۔ کچی سڑک کی مٹی اور غبار چشم زدن میں کپڑوں پر سے جھڑ گئی۔ نواب صاحب کی کیل بجائے ان کے ایک جگہ گڑتی ساری ران کے طول و عرض میں چبھ رہی تھی۔ یکے والے کو موقع ملا۔ ’’آؤ بیٹا‘‘ کر کے اس نے گھوڑے کی رسی کی لگام اچھی طرح جھاڑ دیا اور گھوڑا بھی کچی سڑک کی صعوبت سے خلاصی پا کر اپنے جوہر دکھانے لگا، وہ تیز چلا اور پٹا۔ خوب تیز چلا اور خوب پٹا۔ یکے والے کو اس سے بحث نہیں کہ تیز چل رہا ہے، گھوڑے کو نہ مارنا چاہیے۔ وہاں تو اصول ہے کہ مارے جاؤ گھوڑا بھی کہتا ہوگا کہ الٰہی یہ کیا غضب ہے، جتنا جتنا تیز دوڑتا ہوں، مارا جاتا ہوں۔ قدم ہلکا کرتا ہوں تو مارا جاتا ہوں۔ آخر کو جانور پھر جانور ہے، لے کر بے تحاشہ دوڑا اور اسی مناسبت سے مار کھائی۔ ’’ہائیں ہائیں‘‘ میں کرتا ہی رہا اور لیڈی ہمت قدر کی چیخیں الگ کہ اتنے میں خیر سے داہنے پہیہ کی عین اس برق رفتاری کے عالم میں کیل نکل گئی اور پہیہ نکل کر یہ جا وہ جا۔

    خدا کی پناہ، موٹر کا حادثہ تو کوئی چیز نہیں، گھوڑا بھاگتے میں کروٹ کے بل گرا اور یکے والا آدھا اس کے نیچے۔ میں اڑ کر دور گرا۔ نواب صاحب یکے کے پیچھے گرے اور بیگم صاحبہ خود یکہ کے داہنی طرف، یکے والا چوٹ کی وجہ سے اور لیڈی ہمت قدر صدمہ کی وجہ سے بے ہوش ہو گئیں اور نواب صاحب کا کولہا اتر گیا اور میری دو پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ سب اپنی اپنی جگہ پڑے تھے۔ گھوڑا بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے آنکھیں جھپکا کر دیکھا۔ نواب صاحب لنگڑاتے ہوئے اٹھے اور اپنی بیگم صاحبہ کو سنبھالا۔ ایک عجیب پسپائیت کا عالم تھا۔

    خدا رحیم و کریم ہے اس نے دس پندرہ منٹ بعد ہی ایک موٹر بھیج دیا۔ ایک انگریز اس طرف جا رہا تھا، جدھر سے ہم آ رہے تھے۔ اس نے سب کو بین بٹور کر سیدھا ہسپتال پہنچایا۔ یکے والے کا یکہ اور گھوڑا وہیں رہ گیا تھا۔ بعد میں وہ کھو گیا۔ نواب صاحب نے اس کو اپنے موٹر پر جب سے رکھ لیا ہے۔ کبھی کبھی ملتا ہے تو اس کی صورت دیکھ کر نواب صاحب اور میں اور لیڈی ہمت قدر سب کو ہنسی آتی ہے۔

    نواب صاحب اور ان کی لیڈی صاحبہ تو پھر کبھی یکے پر نہیں بیٹھیں اور نہ بیٹھیں گی، لیکن میں اب بھی بیٹھتا ہوں۔ سواری ماشاء اللہ خوب ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے