Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

الٰہی یہ جلسہ کہاں ہورہا ہے

عذرا نقوی

الٰہی یہ جلسہ کہاں ہورہا ہے

عذرا نقوی

MORE BYعذرا نقوی

    مجھے امام باڑے تک پہنچنے میں کافی دیر ہو گئی تھی آج سیٹرڈے نائٹ تھی اور وہ بھی گرمی کے موسم میں، لہٰذا ٹریفک بہت تھا اور مزید مصیبت یہ ہوئی کہ جس راستہ سے مجھے آنا تھا وہ (Forum) فورم اسٹیڈیم کے سامنے سے ہوکر گذرتا تھا، آج فورم میں شاید کسی مشہور سنگر کا کانسرٹ تھا ٹریفک اور بھیڑ کی انتہا ہو گئی تھی۔ پون گھنٹے کا راستہ پورے ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا اور پھر بھلا ہو میرے بھلکڑ پن کا۔۔۔ جس سڑک پر امام باڑہ تھا اس کا نام بھول گئی۔۔۔ ایک تو مانٹریال کی ساری سڑکوں کے نام مشہور فرانسیسی جرنلس اور دیگر شخصیات سے منسوب ہیں خدا خدا کرکے نام یاد آیا۔۔۔ lionel-Groux۔۔۔ نہ جانے کیسے کیسے ٹیڑھے نام ہیں۔۔۔ ارے ہوگا کوئی ان کا فرانسیسی ہیرو مجھے کیا۔۔۔ بہر حال تھوڑ ادھر ادھر بھٹک کر مجھے امام باڑہ مل ہی گیا۔

    اب میرے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ کار کہاں پارک کی جائے۔ آج محرّم کی آٹھ تاریخ تھی، بہت سے لوگ مجلس میں آئے ہونگے۔ ہر طرف کاریں پارک تھیں۔ بمشکل کافی دور پارکنگ کی اک جگہ ملی وہیں میں نے کار لگا دی۔ یہ ورکنک کلاس اٹالین لوگوں کا محلہ تھا۔ تین سال ہوئے یہاں امام باڑے کے لئے ایک عمارت خریدی گئی تھی، اک پرانا Ware House تھا جس کی مرمت کروائی گئی تھی۔ کمیونٹی کے لوگوں نے خوب دل کھول کر چندہ دیا تھا۔

    امام باڑے کے اندر گھستے ہی حلیم کی خوشبو اور مرثیئے کی آواز نے میرا استقبال کیا۔ اپنے بیٹے علی کو میں نے مردانے ہال کا راستہ دکھایا اور خود زنانے ہال میں آ گئی، ہال پورا بھرا ہوا تھا۔ دورازے کے قریب ہی مسز جعفری اور زہرہ آپا بیٹھی تھیں ان کے نزدیک ایک ایرانی بڑی بی سر جھکائے تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ میں نے وہیں اپنے لئے جگہ بنالی۔ جان پہچان والیوں سے اشارہ میں سلام ودعا کے بعد جب ذرا سکون سے بیٹھی تب تک مرثیہ ختم ہو چکا تھا۔ آج کوئی بڑی اچھی سوز خوانی کر رہا تھا۔

    ہال میں دو ۔T ۔V ۔ Monitor لگے ہوئے تھے جس پر مردانے ہال سے ویڈیو کیمرے کے ذریعے مجلس نشر کی جاتی تھی ٹی۔ وی۔ اسکرین پر اب مرثیے خوان تخت پر سے اترتے نظر آ رہے تھے اور کیمرہ مولانا پر فوکس کیا جا رہا تھا۔ کالی عبا اور سبز عمامہ پہنے مولانا نے منبر پر بیٹھنے کے بعد جب مجلس شروع کی تو میں فوراً سمجھ گئی کہ کوئی گجراتی بولنے والے خوجہ مولانا ہیں۔ حالانکہ وہ بیچ بیچ میں اردو کے بہت ثقیل الفاظ بھی استعمال کر رہے تھے۔

    زہرہ آپا نے اپنے خیال میں سرگوشی کی جو خاصی بلند آواز میں تھی۔

    ’’اے ہے! یہ آٹھ تاریخ کس’’ سوچھے، سوچھے ‘‘کرنے والے کو منبر پر بیٹھا دیا۔ اچھے بھلے ہر سال حسنین رضوی عشرہ پڑھتے تھے‘‘۔

    مسز جعفری نے انہیں ٹہو کا دیا۔

    ’’خدا کے لئے زہرہ آپا! ذرا آہستہ بولئیے۔ مولانا اس سال لندن سے آئے ہیں مجلس پڑھنے۔ مسز فقیرانی نے خاص طورپر بلوایا ہے‘‘۔ پھر انھو ں نے میرے کان میں کہا۔

    ’’امام باڑہ کمیٹی کی میٹنگ میں طے ہوا تھا کہ دودن تو کچھی زبان میں مجلس پڑھی جائے گی اور باقی دن اردو میں۔ بلکہ ان مولانا نے تو کل شروع میں تھوڑی دیر مجلس انگریزی میں بھی پڑھی تھی تاکہ ہمارے بچے بھی اپنے مذہب کے بارے میں کچھ جانیں‘‘۔

    زہرہ آپا باز آنے والوں میں سے نہیں تھیں، بولیں۔

    ’’توبہ ہے! اب کم سے کم انگریزی میں نوحے تو نہ پڑھوانا۔ سال بھر اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ ذرا محرم میں اردو سننے کو ملےگی‘‘۔

    نزدیک ہی بیٹھی زینت پیرانی نے ہمیں گھور کر دیکھا۔ ہم سہم کر بیٹھ گئے۔ میں نے مجلس کی طرف دھیان دینے کی کوشش کی۔

    مولانا کہہ رہے تھے۔

    ’’یہ ننگے سر، نیم عریاں لباسوں میں کیا جناب فاطمہ زہرا کی کنیزیں ہیں؟ مومنوں قیامت کے روزخدا نہیں پوچھے گا کہ کتنے ڈالر کمائے۔۔۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ دنیا کی وقعت میری نظر میں بکری کی اک چھینک سے زیادہ نہیں۔۔۔‘‘

    میری توجہ پھر بھٹک کر ہال میں بیٹھی خواتین کی طرف آ گئی۔ تقریباً سارے چہرے مانوس تھے۔ عورتیں کالے دوپٹوں اور ساڑھیوں کے آنچل سے سر ڈھکے بیٹھی تھیں۔ سامنے اک صاحبہ جارجٹ کے کالے دوپٹے سے سر ڈھکے، دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔ ان کا چہرہ تو دیکھا بھالا لگتا تھا مگر نام مجھے نہیں معلوم تھا۔ میں نے مسز جعفری سے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو انھوں نے آہستہ سے بتایا ’’یہ زیبا ہیں، ابھی اسی سال ٹورنٹور سے یہاں آئی ہیں۔ یہاں بینک میں کام کرتی ہیں‘‘۔

    مجھے یاد آ گیا کہ کہاں دیکھی تھی یہ شکل۔ انھیں تو میں نے اکثر رائل بینک میں دیکھا تھا۔ وہاں سکرٹ اور بلاوزمیں ملبوس یہ کسی حد تک spanish نظر آئی تھیں مگر آج شلوار قمیص اور کالے دوپٹے میں کتنی مختلف لگ رہی تھیں۔ تھوڑی ہی دور پر اک نیلی آنکھوں والی فرنچ کنیڈین لڑکی بیٹھی تھی، کالے اسکارف سے سر ڈھکے بڑی عقیدت سے سر جھکائے مجلس سن رہی تھی۔ زہرا آپا جوشہر خبروتھیں انھوں نے ہی بتایا کہ ایک پاکستانی طالب علم کی بیوی ہے۔ چند مہینے پہلے شادی ہوئی ہے۔ پہلے یہ کیتھرین تھی اب فرحانہ نام رکھا گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر اپنی تعلیم ختم کرکے اگر یہ لڑکا اسے چھوڑ کر پاکستان بھاگ گیا اپنی کسی کزن سے شادی کرنے تو کیا فرحانہ پھرسے کیتھرین بن جائےگی۔

    میں نے پھر مجلس کی طرف دھیان دینے کی کوشش کی۔ مولانا صاحب بہت جوش میں بول رہے تھے۔ وہ اب مسئلہ خلافت کے بارے میں بیان کر رہے تھے۔ صلوٰۃ کے نعرے بلند ہو رہے۔ ٹی وی اسکرین سے ہٹ کر میری نظر دیوار پر گئی جہاں امام خمینی اور امام خوئی کی تصویر وں کے نیچے فرنچ اور انگریزی میں فائر ڈیپارٹمنٹ کا ایک نوٹس لگا تھا۔

    ’’اس عمارت میں بہ یک وقت ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگوں کا جمع ہونا منع ہے۔ آگ لگنے کا خطرہ ہو سکتا ہے‘‘۔

    میں نے سوچا کہ اس وقت یہاں تقریباً چار سو لوگ جمع ہوں گے اگر پولیس آ جائے تو کیا ہوگا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ چند برس پہلی جب تک امام باڑے کی بلڈنگ نہیں خریدی گئی تھی تب محرم کی مجالس اک اسکول کے جمنیزیم میں ہوتی تھیں۔ وہ محرم کی دس کی تاریخ تھی جب وہاں ایک بار پولیس آ گئی تھی، شاید محلے والوں نے ماتم او ر رونے کی آوازیں سنی ہو ں گی تو پولیس کو اطلاع دی تھی۔ پولیس آفیسر نے آکر دیکھا، بات چیت کی ا ور جب پتہ چلا کہ اک مذہبی اجتماع ہے تو پولس آفسر نے بس اتنے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر بہت تمیز سے تنبیہ کی تھی اور چلا گیا تھا۔۔۔ نہ ہوا ہماراملک ورنہ پولیس والے بدتمیزی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے یا رشوت لے کر ہی ٹلتے۔

    اس وقت ہال میں آہ وبکا کا شور ہورہا تھا مولانا مصائب بیان کررہے تھے اور زانو پیٹ رہے تھے۔

    ’’ارے بیٹا علی اکبر اٹھو۔۔۔ ارے پھپی زینب خیمے سے پکارتی ہیں۔۔۔ ارے جوان بیٹے کا پامال شدہ لاشہ کیسے دیکھے گا بوڑھا باپ۔۔۔ ارے علی اکبر اٹھو اذان دو۔۔۔ اٹھو بیٹا۔۔۔‘‘

    نہ جانے میرے کم بخت دماغ میں کیسے کیسے خیال آتے ہیں بے وقت۔ اک دم بابری مسجد کا ملبہ آنکھوں میں پھر گیا۔۔۔ کون تھی وہ۔۔۔ سادھوی ۔۔۔ کیا نام تھااس کا۔۔۔ رتھمبرا۔۔۔ کیسے نعرے لگا رہی تھی۔

    ’’ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو‘‘۔

    وہ عصر کی نماز کا ہی وقت ہوگا۔۔۔ میں نے پر دیکھا تھا کہ نعرے لگ رہے تھے۔۔۔ مندر یہیں بنائیں گے۔۔۔ جے شری رام کی۔۔۔ گیروے رنگ کا طوفان تھا جس نے اس قدیم مسجد کو شہید کر دیا تھا۔

    اب ہال میں ’’یا حسین‘‘، ’’یا حسین ‘‘ کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ کالے کپڑے پہنے لوگ حلقہ در حلقہ کھڑے ہوگئے تھے۔ اسکرین آف ہو گیا تھا اور مردانے ہال سے قاسم صاحب کی پاٹ دار آواز ابھری۔ انھو ں نے نوحہ شروع کیا۔

    ’’وہ خون ناحق چھپے گا کیوں کر جسے یہ دنیا چھپا رہی ہے‘‘۔

    اندر کے ہال میں عورتوں نے ماتم کے لئے حلقہ باندھ لیا تھا۔ میری دوست سکینہ کی بچیوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی آوازوں میں نوحہ شروع کیا۔ وہ کاغذ سے دیکھ دیکھ کر اٹک اٹک کر پڑھ رہی تھیں۔ میں نے اُ چک کر دیکھا انگریزی حروف میں اردو کا نوحہ لکھا ہوا تھا۔ اس کے بعد مسز سجاد کی نمبر تین بہونے پر سوز آواز میں نوحہ شروع کیا۔ وہ تھوڑے دن پہلے لکھنؤ سے بیاہ کر آئی تھی، وہ پڑھ رہی تھی۔؂

    صدا ہے بن میں کسی ماں کی دل دکھائی ہوں

    میں اپنے شیر کو جنگل میں لینے آئی ہوں

    اس نوحے نے میرے ذہن ودل میں کتنی یادوں کے دریچے کھول دئیے۔۔۔ امروہے کا امام باڑہ۔۔۔ پھوپھی اماں کی پرسوز آواز۔۔۔ دلدل اندر آنگن میں آیا ہے تاکہ عورتیں زیارت کر لیں۔ بڑی بوڑھیاں حلقہ باندھے سر کا ماتم کر رہی ہیں۔۔۔ سب کچھ میلوں دور۔۔۔ برسوں دور۔۔۔ آپ ہی آپ میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔

    اب ہال میں خوجہ خواتین کا گروپ ماتم کے لئے حلقہ زن تھا، عورتیں ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے حلقے میں گھوم گھوم کر ماتم کر رہی تھیں۔ خاص لے اور تال کے ساتھ وہ نام بنام شہیدانِ کربلا کو پرسہ دے رہی تھیں۔

    ’’پرسے کے لئے آئے ہیں ہم فاطمہ زہرا۔۔۔ شبیر کا پرسہ۔۔۔ عباس کا پرسہ۔۔۔‘‘

    آج امام باڑہ میں بہت بھیڑ تھی۔ بہت سے لوگ اپنی منتیں اتارنے آئے تھے۔ مسز مہدی نے حضرت عباس کا علم چڑھایا تھا۔ مہدی صاحب جو جنگی جہاز بنانے والی ایک امریکن کمپنی Prett & Wittney میں کوالٹی کنٹرول انجینئر تھے۔ سنا تھا کہ ان کی کمپنی کافی لوگوں کو بر طرف کرنے والی تھی۔ مہدی صاحب کی باری ابھی نہیں آئی تھی، اسی لئے مسز مہدی نے علم چڑھایا تھا۔ مسز جعفری اپنے چھوٹے سے پوتے کو منت کا ہرا کرتا پہنارہی تھیں۔ زیدی صاحب کی چھوٹی بہو ماتم کرتے کرتے بے ہوش ہو گئی۔

    زہرا آپا نے سرگوشی کی۔

    ’’سنا ہے بے چاری اپنے میاں اور ساس کے ہاتھوں بہت پریشان ہے۔ ‘‘

    ماتم اور نوحوں کا سلسلہ جاری تھا مجھے اپنی بیٹی کولا ئبریری سے لیناتھا جو وہاں ا پنے امتحان کی تیاری کر رہی تھی۔ اس کا یہ انجینئرنگ کا آخری سال ہے۔ علی باہر مردانے ہال کے دورازے پر میرا انتظار کررہا تھا۔ باہر کے دروازے پر تبرک بانٹنے والوں کی بھیڑ بھی۔ آج بہت سے لوگ تبرک تقسیم کرنے کے لئے لائے تھے۔ سموسے، چاکلیٹ، Donuts اور نہ جانے کیا کیا جمع ہوگیا تھا میرے اور علی کے پاس۔

    مسز فقیرانی آج لمبے لمبے پلاسٹک کے گلاسوں میں آئس کریم بانٹ رہی تھیں۔ علی تو بہت خوش ہوا۔ انھیں پہچان بھی گیا مجھ سے بولا۔

    ’’Mom یہ وہ ہی آنٹی ہیں، نا ! جن کی Swenson آئس کریم کی دوکان ہے۔ یہ آنٹی تو وہاں کیش رجسٹر پر کھڑی ہوتی ہیں‘‘۔

    مسز فقیرانی مسکراکر بولیں۔

    ’’ہاں بیٹا۔ مولا کے کرم سے ہی Swenson کی رونق ہے۔‘‘ انھوں نے خوش ہوکر علی کو دو گلاس پکڑا دئیے۔

    مسز نصیرالحق پلاسٹک کے ڈبوں میں بند حلیم سب کو تھما رہی تھیں۔

    جب ہم تبرکات سے لدے پھندے باہر نکلے تو رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے، موسم خوشگوار تھا۔ محلے کے اٹالین لوگ اپنے گھر کے سامنے کی سیڑھیوں پر یا بالکنی میں بیٹھے تھے۔ اکثر مردوں نے صرف نیکر اور بغیر آستین کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ عورتیں بھی شارٹس یا کندھوں سے عریاں گرمی کے لباس میں تھیں۔ سب کے ہاتھوں میں بیئر کے گلاس تھے۔

    سامنے سے آتا ہواایک بوڑھا جو نشے میں دھت لگتا تھا مجھ سے ٹکرا گیا۔ کاغذ میں لپٹی بیئر کی بوتل اس کے ہاتھ میں تھی۔بڑے میاں نے سرسے ہیٹ اتار کر مسخرے اندازمیں سینے پر رکھا اورُ جھک کر فرنچ میں بولا۔

    ’’سوری مادام۔۔۔ ایک سِپ آپ جیسی خوبصورت خاتون کے لئے‘‘

    اور اس نے منھ سے بیئر کی بوتل لگائی۔ باقی ماندہ بیئر اس نے غٹاغٹ گلے میں انڈیل لی۔

    گاڑی کے قریب پہنچی تو دیکھا کہ ہماری گاڑی سے ٹیک لگائے ایک نوجوان جوڑ ا دنیا سے بےخبر، ایک دوسرے میں کھویا ہوا Kiss کر رہا تھا۔ ہماری آہٹ سن کر دونوں نے سر اٹھایا، لڑکے نے انگریزی میں کہا۔

    ’’کتنی خوبصورت رات ہے‘‘۔

    دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ ہلکا سا اک Kiss کیا اور چل دئیے۔

    میرے دس سالہ بیٹے علی نے مسکر اکر فرانسیسی انداز میں کندھے اچکائے اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔

    گاڑی اسٹارٹ کرتے وقت میں سوچا کہ گھر پہنچ کر سونے سے پہلے شاور لینا پڑےگا تاکہ بالوں اور جسم سے حلیم، سموسوں اور مسالوں کی بو نکل جائے صبح آفس بھی تو جانا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے