Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انسان نما

آدم شیر

انسان نما

آدم شیر

MORE BYآدم شیر

    رفیق پڑھائی مکمل کر کے نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا لیکن کہیں بات نہ بنی۔ جہاں امید نظر آتی وہاں تنخواہ اتنی کم بتائی جاتی کہ وہ صحیح طرح کوشش بھی نہ کرتا۔ رفیق کے والد نے، جو پرچون فروش تھے، ایک سال بیٹے کی نوکری لگنے کا انتظار کیا اور دوسرے برس کے آغاز میں ہی رفیق کو اپنا چھوٹا موٹا کام کرنے کے لیے زور دینے کے ساتھ دکان پر وقت بیتانے کے لیے مجبور کرنے لگے۔ رفیق کچھ مہینے کڑھتے ہوئے دکان پر کام کرتا رہا اور روتے دھوتے گربھی سیکھ گیا۔

    نئے ہوائی اڈے کو جانے والی سڑک پر نئی آبادی باقاعدہ منصوبے کے تحت بسائی گئی جس میں رہائش کے لیے تگڑی رقم کی ضرورت ہوتی اور اسی پوش نگری کے پاس غرباء نے بھی آہستہ آہستہ اپنی بستی بسالی۔ ان دو آبادیوں کے درمیان ایک گندا نالا بہتا تھا جس میں دونوں طرف کا فضلہ گرتا تھا۔ امیر کہلانے والوں کی سوسائٹی کے ساتھ ساتھ گندا نالا کنکریٹ بچھا کر ڈھانپ دیا گیا اور اس کے ساتھ سڑک بھی بچھا دی گئی تھی جس کا فائدہ دوسری طرف رہنے والوں کو بھی ہوا۔ غریبوں کی طرف سے جو مکان بدرو کے قریب تھے، ان میں دکانیں بنائی گئیں اور انہیں میں سے ایک مکان کی چار دکانوں میں سے ایک کاسمیٹکس کی تھی جس کے باہر رفیق نے اپنا کاؤنٹر سجا لیا اور میٹھی گولیاں، ٹافیاں اور چاکلیٹ جیسی چیزیں فروخت کرنے لگا۔ اس کے کاؤنٹر پر پہلے عام لوگوں کے بچے آتے تھے لیکن بعد میں خود کو خواص سمجھنے والوں کے بچے بھی بکری بڑھانے لگے۔ سڑک کے دونوں طرف سے بچوں کی آمد پر اس نے سستی کے ساتھ مہنگی ٹافیاں بھی رکھنا شروع کر دیں اور بات صرف میٹھی گولیوں تک محدود نہ رہی۔وہ اکبری منڈی سے کھانے کی ایسی ایسی اشیاء ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتا کہ بچے بھاگے بھاگے آتے۔

    کاؤنٹر سجائے سال پورا نہیں ہوا تھا کہ رفیق کو دُکان کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور اسے یہ کام بھی پسند آ گیا ورنہ پہلے چھ ماہ وہ روز اخبار میں نوکری کے اشتہار ڈھونڈتا اور درخواستیں بھیجتا رہا تھا۔ جب اسے نئی سڑک کے قریب دکان ڈھونڈتے دو مہینے ہونے کو آئے تب کاسمیٹکس اسٹور کے ساتھ والی دکان خالی ہو گئی جو رفیق نے والد کی مالی مدد سے کرایہ پر لے لی۔

    رفیق نے دکان میں بھی پہلے بچوں کی چیزوں کو ترجیح دی اور اس کے بعد اپنی جیب کے مطابق گھریلو استعمال کی اشیاء تھوڑی تھوڑی لانا شروع کر دیں جنہیں وہ تول کر چھوٹے چھوٹے شاپروں میں بھر کے رکھتا جس سے دکان اس کی ترتیب میں آتی زندگی سے زیادہ سجی نظر آنے لگی اور سڑک کے اطراف میں بسے لوگ جو بچوں کو ٹافیاں دلانے آتے تھے، اشیائے خوردنی بھی خریدنے لگے۔

    رفیق کو دکان ڈالے پانچ سال پورے نہیں ہوئے تھے کہ کاسمیٹکس اسٹور سمیت تین دوسری دکانیں بھی اس کے استعمال میں آ چکی تھیں اور اس کی دکان اب جنرل اسٹور بن چکی تھی جہاں سے نئی سڑک کی ہری بھری جانب بسنے والے لوگ تیس تیس ہزار کا راشن لے جاتے تھے اور پچھلی طرف سے تیس روپے کا سودا لینے والے بھی آتے تھے۔ پہلے وہ خود نوکری ڈھونڈتا تھا، اب اس کے پاس چھ ملازم تھے۔ ایک سال ہی اور گزرا تھا کہ رفیق نے وہ مکان بھی خرید لیا تھا جس میں اس کا سٹور تھا۔ مکان کا پچھلا حصہ رفیق نے گودام بنا لیا۔ رفیق کے والد جب پہلی بار مکان دیکھنے آئے تو بولے۔

    ’’اوئے کھوتے، تیرا اک بھرا وکیل اے تے دوجا حساب کتاب کر دا اے پر اصلی ترقی تے توں کیتی اے۔ ہون میں تیرا وی ویاہ کر دینا اے ایسے مہینے۔‘‘ رفیق نے والد کی بات پر خوشی کا اظہار کیے بغیر اپنے میں اطمینان کی ایک لہر دوڑتی محسوس کی کیونکہ زندگی میں پہلی بار اسے ایسا محسوس ہوا کہ باپ کو بیٹے پر فخر ہے۔ اس کے والد نے محض خوشی میں شادی کا عندیہ نہیں دیا تھا بلکہ اپنا قول پورا بھی کردیا۔بیاہ کے بعد چند مہینے تو خیر خیریت سے گزرے لیکن گھر، جو اصل میں عورتوں کا ہوتا ہے، مردوں کے لیے تو مسافر خانہ ہوتا ہے، کی پرانی اور نئی عورتوں میں چپقلش اتنی بڑھ گئی کہ والد نے وکیل اور اس سے چھوٹے رفیق کو دو مہینے میں اپنا اپنا بندوبست کرنے کا کہہ دیا، صرف چھوٹے حسابی کتابی بیٹے کو ساتھ رکھنے کا فیصلہ سنایا کیونکہ وہ ابھی کنوارا تھا۔

    رفیق نے مکان کی تلاش نئی سڑک کی اس جانب شروع نہ کی جس طرف اس کا اسٹور تھا بلکہ سامنے والی آبادی میں ڈھونڈا۔ اس مکان نما کوٹھی کی خریداری کے لیے رفیق کو بیوی کا زیور بھی بیچنا پڑا اور وراثت سے زیادہ حصہ ملنے کے باوجود قرض لینا پڑا جو اتارنے میں اسے سال تو لگا لیکن اس کی بیوی کا گھر بن گیا جو دراصل ایک مختصر سی کوٹھی تھی۔

    اس مکان نما کوٹھی میں پہلی بار قدم رکھتے ہی جس چیز نے اس کے ابا کو متوجہ کیا، وہ تھی بیٹھک۔۔۔ اسی کی وجہ سے وہ کوٹھی نہیں تھی بلکہ مکان نما کوٹھی تھی اور اسی کے سبب قیمت کم تھی لیکن رفیق کے والد کو بیٹھک پسند بہت آئی اور اس نے پہلی بات ہی قہقہہ لگاتے ہوئے اسی کے متعلق کی۔

    ’’اوئے! توپیو دے گھر وی بیٹھک چ رہندا سی۔ ایتھے وی بیٹھک ملے گی۔‘‘

    اگرچہ مکان نما کوٹھی کی بیٹھک آبائی گھر جیسی نہ تھی جہاں بیٹھنے سے گلی میں ہوتی چہل پہل اور پڑوس میں ہونے والی تو تکار کی خبر رہتی تھی، یہاں تو بغل میں رہنے والوں کا کچھ پتا نہ چلتا، لیکن وہ دوپہر کوا سٹور سے واپسی پر بیٹھک میں ہی ڈیرہ ڈالتا۔ ایک روز وہ لیٹا ہی تھا کہ نیند کے ہلکورے لینے لگا گو وہ اپنے تئیں بیدار تھا لیکن سویا ہوا تھا اور معلوم نہیں کتنی دیر خواب میں رہتا کہ کسی کی کانوں کے پردے پھاڑ کر سینے میں گھس جانے والی آواز آئی۔

    ’’نی باجی، نی باجی، روٹی کھانی اے۔ اللہ دا واسطہ ای۔ نی باجی، روٹی کھانی اے۔‘‘

    رفیق نے کروٹ بدل کر نیند میں رہنے کی کوشش کی مگر وہ آواز مسلسل آ رہی تھی۔

    ’’نی باجی، نی باجی، روٹی کھانی اے۔ اللہ دا واسطہ ای۔ نی باجی، روٹی کھانی اے۔‘‘

    وہ آنکھیں ملتے ملتے اٹھ بیٹھا اور بیوی کو آواز دی، ’’کچھ دو اور چلتا کرو۔‘‘ بیوی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے جواب دیا، ’’کتنوں کو دوں؟ سارا دن لائن لگی رہتی ہے۔ ہر بندہ ہی بھکاری بن گیا ہے۔ میں کیا کروں؟‘‘

    رفیق نے بیوی کی طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو ’اچھا جیسے آپ کی مرضی‘ اور دوبارہ لیٹ گیا۔ اس کی آنکھیں چھت میں لٹکتے پنکھے کے پروں کو گھور رہی تھیں لیکن کان باہر کی طرف متوجہ تھے۔ پہلے اسے آواز ہلکی ہوتی محسوس ہوئی اور پھر بالکل بند ہو گئی۔ اس نے سکون کا سانس لیا کہ چلو کچھ دیے بغیر ہی گزارا ہو گیا۔ وہ بیوی کو کھانا لگانے کا کہہ ٹی وی دیکھنے لگا جس پر خبریں پڑھی جا رہی تھیں لیکن نیوز کاسٹر خبر سنا کم اور گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان زیادہ کر رہا تھا جیسے سیاسی جلسے میں تقریر کر رہا ہو۔ وہ خبروں والے چینل مسلسل بدلتا رہا مگر سب اسے ایک جیسے لگ رہے تھے۔ کچھ نہ بھایا تو اُس نے ٹی وی کی آواز بند کر دی اور تبھی وہ آواز کانوں سے دوبارہ ٹکرانے لگی۔

    ’’نی باجی، نی باجی، روٹی کھانی اے۔ اللہ دا واسطہ ای۔ نی باجی، روٹی کھانی اے۔‘‘

    وہ آواز کے گھٹنے بڑھنے پر غور کرنے لگا۔ آواز پہلے ہلکی تھی پھر تیز ہونے لگی۔۔۔ لمحہ بہ لمحہ۔۔۔ اور اس قدر بلند ہو گئی کہ بیٹھک کی دیوار کے دوسری طرف کوئی کھڑا پکار رہا ہو۔ اسی دوران میں رفیق کی بیوی ٹرالی پر کھانا سجائے آ گئی۔ اس کے سامنے کھانا پڑا تھا اور کوئی آواز لگا رہا تھا۔

    ’’نی باجی، نی باجی، روٹی کھانی اے۔۔۔‘‘

    وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھا، بیوی نے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ بیٹھک سے نکلا، بڑے گیٹ میں نصب چھوٹا دروازہ کھول دیا اور صدا دینے والا سامنے آن کھڑا ہوا جو پہلے بیٹھک کی طرف ہی کھڑا تھا۔ اس کے چہرے سے میک اپ کا لیپ یوں اکھڑ رہا تھا جیسے رفیق کے ابا کے آبائی گھر میں غسل خانے کی دیوار سے ڈسٹمپر کی پپڑیاں بن کر جھڑتی رہتی تھیں جو بہتیرے ٹوٹکے اپنانے کے باوجود سیلن کے باعث ٹھہر نہ پاتی تھیں۔ وہ گھر جو چھوٹ گیا تھا، جس سے دکھی یادیں وابستہ تھیں، جس سے بچپن کا سکھ بھی جڑا تھا، چھوڑنا پڑا مگر وہ اب تک اس کے گھیرے میں تھے جس کے اندر ایک نوری ہیولا سکڑتا نظر آتا تھا۔

    اس نے غسل خانے کی یاد دلانے والے سترہ اٹھارہ سال کے شبیر احمد کو اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ سر پر سفید دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا اور مردانہ شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ وہ جگہ جگہ سے داغی قمیص کا ایک کونا باہنے ہاتھ سے مسلے جا رہا تھا اور رفیق کو یوں دیکھ رہا تھا کہ خود ہی کچھ دے دے لیکن رفیق اسے جانچنے میں مصروف تھا اور چند لمحوں میں سب جان لینا چاہتا تھا۔

    رفیق کے ا سٹور پر روز درجن بھر مانگنے والے آتے تھے اور ہر ایک کے لیے رفیق نے پانچ روپے کے سکے رکھے تھے۔ ایک ملازم کی ڈیوٹی تھی کہ وہ ہر آنے والے کو اسٹور کے باہر کھڑے کھڑے بھگتا دے۔ اس نے کبھی کسی کو پانچ روپے سے زیادہ نہیں دیے تھے سوائے کوئی بوڑھا یا بوڑھی آ جائے۔ اس کی بیوی بھی گھر آنے والوں کے ساتھ یونہی پیش آتی تھی، کبھی کسی کو پانچ روپے سے زیادہ نہیں دیتی تھی مگر جاننے والوں پر اچھا خاصا خرچ کر لیتی تھی جیسے رفیق بھی ایک دو گھروں میں ہر مہینے راشن بھجواتا تھا لیکن مانگنے والوں کو علیحدہ خانے میں رکھتا تھا۔۔۔ دل میں ان کے لیے غصہ پاتا اور نہ چاہتے ہوئے سکے بھی دیتا تھا۔ میاں بیوی کو مشکل اس وقت پیش آتی تھی جب کوئی پانچ روپے لینے سے انکار کر دیتا تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ اس کے بھی عادی ہو گئے اور انہیں خود بخود پتہ چل جاتا کہ انکاری کو زیادہ دینے چاہئیں یا نہیں گو ایسا موقع کبھی کبھار ہی آتا جیسے اس وقت رفیق طے نہیں کر پا رہا تھا کہ پانچ روپے کا سکہ دے یا زیادہ نکالے؟ اور زیادہ دے تو کتنے؟ دس۔۔۔ بیس۔۔۔ پچاس؟ اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر راندۂ درگاہ کے گلے سے وہی آواز گھسٹتے ہوئے نکلی۔

    ’’صاب جی، وے صاب جی، روٹی کھوا دے۔‘‘

    رفیق نے سوچنا ترک کیا، مٹھی میں دبا پانچ کا سکہ بغل کی جیب میں ڈالا، اسے رکنے کا کہہ کر اندر گیا اور واپس آکر پچاس کا نوٹ پکڑا دیا جسے شبیر نے پکڑتے ہوئے دعائیں دینے کے بجائے التجا کی۔

    ’’صاب جی، روٹی نئیں مل سکدی؟‘‘

    رفیق کو غصہ آ گیا، ’’پچاس روپے دیے تو ہیں اور کیا دوں؟‘‘

    وہ ڈرتے ڈرتے بولا، ’’صاب جی! ایس علاقے چ تے اینے دی دال دی پلیٹ نئیں ملدی۔ تسی روٹی دے دیو۔‘‘ اس نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ’’اے لو۔ پیسے رکھ لو۔‘‘

    رفیق اس کی بات سن کر لاجواب ہوکر بیٹھک میں گیا اور سرہانے کے نیچے پڑے نوٹوں میں سے پانچ سو کا نوٹ نکال لایا جو اس نے مردودِ حرم کی طرف مسکراتے ہوئے بڑھا دیا۔ شبیر نے نوٹ کو دیکھا اور پہلے سے زیادہ ڈرتے ہوئے کہا، ’’صاب جی! روٹی آکھی سی۔ تسی۔۔۔‘‘

    ’’روٹی کے لیے ہی دے رہا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا۔ صرف روٹی لئی؟‘‘

    ’’ہاں۔ ہاں۔ صرف روٹی لئی۔ کیوں؟

    ’’کدی کسے نے صرف روٹی لئی اینے پیسے دتے نئیں۔‘‘ شبیر نے نوٹ پکڑتے ہوئے کہا تو رفیق کا ہاتھ لرز گیا۔ اس نے منہ سے چند الفاظ نکالنے کی کوشش کی اور ناکامی پر ہونٹ بھینچ لیے۔ ایک پل میں محسوس ہوا کہ کسی نے زمین پر پٹخ دیا ہے اور دوسرے لمحے شبیر پر ترس آ رہا تھا کہ اسے کیسے کیسے گھسیٹا گیا۔ اس نے دوبارہ کچھ کہنے کی کوشش کی مگر کہہ نہ سکا اور اپنی قمیص کا داہنا کونہ مسلنے لگا جیسے اس کے سامنے چپ چاپ کھڑا شبیر باہنے کنارے کو انگلیوں سے رگڑ رہا تھا۔ یہ عمل نجانے کتنی دیر خاموشی سے جاری رہتا کہ پیچھے سے رفیق کی بیوی نے تیسری بار کھانے کے لیے پکارا تو اس نے گردن گھما کر ٹھہرنے کے لیے کہا اور دوبارہ شبیر کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے چند ثانیے بعد ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا، اندر جا کر بیوی سے بیٹھک خالی کرنے کے لیے کہا، واپس گیٹ پر آیا اور اُسے بازو سے پکڑ کر ساتھ لے گیا۔

    اگلے دن رفیق کے ا سٹور پر ملازموں کی تعداد بڑھ چکی تھی اور شبیر لپک لپک کر چیزیں پکڑا رہا تھا۔ اس کے لمبے لمبے بال کٹ چکے تھے۔ سر سے دوپٹہ غائب تھا۔ شلوار قمیص نئی تو نہ تھی البتہ صاف تھی۔ اس کے چہرے پر نمی سے اکھڑنے والا پلستر بھی نہیں تھا مگر خراشوں کے نشانات باقی تھے۔ وہ پہچانا نہیں جا رہا تھا لیکن شکاریوں کے لیے شناخت مشکل نہ تھی جو بھرے بازار میں جان لیتے ہیں کہ کس عورت سے پیسے پوچھنے ہیں اور کس سے کترا کے نکل جانا بہتر ہے یا کون سی شریف زادی زیادہ اچھل رہی ہے۔ وہ بھی سب کے سامنے ٹھیک تھا لیکن ایک ساتھی اسے۔۔۔ اور باقی رفیق کو کنکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔

    وہ ساتھی جو شبیر کو معنی خیز نگاہوں سے دیکھ رہا تھا، بعد میں اس کا دوست بن گیا گو اس نے آغاز میں گھیرنے کی کوشش کی لیکن جلد اسے معلوم ہو گیا کہ وہ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس نئے دوست کو ہر ماہ کے آخر پر پیسوں کی ضرورت ہوتی تھی جو شبیر تھوڑی بہت پوری کر دیتا جیسے وہ گودام، جو اس کا گھر ٹھہرا تھا، میں چوہے پکڑنے کے لیے رکھی گئی بلی کی دودھ کا کٹورا بھر کر خوراک پوری کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پہلے پہلے جب بلی کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا تو وہ کھسک جاتی لیکن چند دن میں اتنی مانوس ہوئی کہ اس کے پاس بیٹھنے لگی۔ جب بلی جیسا نک چڑھا جانور سدھ سکتا ہے تو اسٹور پر کام کرنے والے ساتھی کیوں نہ رویہ بدلتے۔

    اسے ا سٹور پر کام کرتے چند ماہ گزرے تھے کہ رفیق کو اس کے دس جماعتیں پاس ہونے کا علم ہو گیا اور رفیق نے شبیر کی ڈیوٹی مختلف چیزوں پر نظر رکھنے پر لگا دی۔ ایک رات اسٹور بند کرتے وقت اس نے مزید پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اوقات کار میں کچھ تبدیلی کی درخواست کی تو رفیق نے اسے سوچنے کا کہہ کر ٹرخا دیا لیکن گھر آکر جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو اسے اپنا وہ استاد یاد آ گیا جو اسے کبھی مفت ٹیوشن پڑھایا کرتا تھا۔ ان دنوں رفیق کا خاندان قصور سے نیا نیا لاہور آیا تھا اور مالی حالت بڑی پتلی تھی۔۔۔ اس قدر کہ اسے دودھ دہی کی دکان پر کام کرنا پڑتا جہاں استاد اسے بطور گاہک ملا تھا اور وہ یہ جان کر حیران ہوا تھا کہ وہ اکیلا نہیں جو فیض پا رہا ہے۔

    ہر رات کے بعد دن آتا ہے جیسے رفیق کی زندگی میں آیا تھا، جیسے شبیر کے لیے پو پھٹ رہی تھی۔ وہ کالج جانے لگا تھا جہاں اسے بُری طرح ستایا گیا لیکن وہ ایک اصلی مرد کی طرح ڈٹا رہا اگرچہ وہ نہیں رہا تھا جیسا سمجھا جاتا ہے۔ وہ کالج سے اسٹور آ جاتا اور رات کو گودام میں اِس آس پر بے سدھ سو جاتا کہ ایک دن وہ سویرا ہوگا جو تاریکی کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا اور بلی اسے اپنے پنجوں سے جگا دیتی تاکہ وہ وقت پر اسے کچھ کھلا سکے اور خود کالج جا سکے۔ یہی دور تھا جب اسے رفیق کا کار خاص ٹھہرا دیا گیا۔ رفیق اکثر اس کی باتیں اپنی بیوی سے کرتا تھا جو پہلے حیران ہوتی اور ٹوہ لینے کی کوشش بھی کرتی تھی لیکن جب اسے یقین ہو گیا کہ رفیق ہم جنس پرست نہیں تو وہ بھی شبیر کی مدد کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنے لگی۔

    شبیر کی قسمت اچھی تھی یا وہ بڑا ڈھیٹ تھا کہ ہار نہیں مانتا تھا۔ اتنی ڈھٹائی کا کچھ نتیجہ تو نکلتا ہے۔۔۔ کبھی اچھا۔۔۔ کبھی برا۔۔۔ ایک دن وہ اسٹور پر آیا تو اس کے ہاتھ میں مٹھائی کے دو ڈبے تھے۔ ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا۔۔۔ بڑا اس نے رفیق کے آگے رکھا جسے وجہ پوچھتے ہوئے رفیق نے کھولا تو شبیر نے خوشی سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے بتایا کہ وہ گریجوایٹ ہو گیا ہے۔ رفیق نے باقی ملازموں کو بلا کر شبیر کی کامیابی کا اعلان کیا اور مٹھائی بانٹی۔ چند منٹ پر مشتمل یہ پارٹی ختم ہوئی تو شبیر نے چھوٹا ڈبہّ رفیق کو گھر والوں کے لیے پکڑا دیا جس پر اس نے حیرانی کے ساتھ دیکھا، کچھ سوچ کر شلوار کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ہزار ہزار کے چند نوٹ نکال کر شبیر کے ہاتھ میں تھما دیے جو اُس نے ناں ناں کرتے ہوئے لے لیے۔

    رفیق کے اسٹور میں دو سال بعد پھر مٹھائی بٹ رہی تھی۔ اب شبیر پوسٹ گریجوایٹ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد بھی ایک بار مٹھائی تقسیم ہوئی تھی جب اس نے بتایا کہ وہ ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہو گیا ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’سر جی! کبھی کاغذات کی تصدیق کروانی ہو تو میں خادم ہوں۔‘‘

    رفیق نے ملازموں کی موجودگی میں اپنی سیٹ سے اٹھ کر اسے گلے لگایا تھا اور شبیر کی آنکھوں سے نکلے کسیلے پانی نے رفیق کے کالر پر دو آنکھیں بنا دی تھیں جو شکریہ ادا کر رہی تھیں۔ رفیق کو خوشی تھی کہ اس نے برسوں پہلے صحیح فیصلہ کیا تھا اور اس جشن منانے کے لیے ملازموں کو کوٹھی میں رات کے کھانے کی دعوت دی جس کے اختتام پر شبیر نے رفیق کو بتایا کہ اب وہ جلد کہیں کرائے پر کمرہ حاصل کر لے گا لیکن رفیق نے اسے کہا، ’’وہ جب تک چاہے، گودام میں رہ سکتا ہے۔‘‘

    رات گئے جب شبیر قبرستان کی طرح خاموش بستی کی پر رونق کوٹھی سے نکلنے لگا تو بے اختیار رفیق کے گلے لگ گیا اور اب کی بار شکر گزار آنکھوں کے ساتھ ساتھ مسکراتے ہونٹ بھی بنا دیے۔

    اس نے چند ہفتوں میں رہنے کے لیے ایک مکان ڈھونڈ نکالا جو اسٹور کی پچھلی طرف بسی آبادی میں واقع تھا لیکن سامنے والی کالونی میں رہنے والے مالک مکان وہ گھر کرایہ پر دینے میں تامل تھا مگر رفیق کی ضمانت پر مان گیا۔

    وہ اتوار کے روز اسٹور پر چکر لگاتا اور ضرورت کی چیزیں خریدنے کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر رفیق سے گپیں بھی ہانکتا تھا۔ رفیق نے اسے کئی بار کہا کہ دفتر سے واپسی پر اس کے پاس اسٹور پر آ جایا کرے لیکن وہ اتوار کے اتوار ہی آتا۔ ایک دن رفیق کی نگرانی میں ملازم ا سٹور بند کر رہے تھے کہ وہ نمودار ہو گیا۔ رفیق نے اسے حیرانی سے دیکھا کہ آج اتوار نہیں تو یہ یہاں کیسے آ گیا؟

    ’’خیر تو ہے؟‘‘

    شبیر نے اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا اور رفیق کو ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ جب سٹور بند ہو گیا اور ملازم اپنی اپنی راہ ہو لیے تو رفیق نے بھی سڑک پار کرنے کے لیے قدم اٹھایا لیکن اس نے ہاتھ پکڑ کر پچھلی جانب جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو رفیق اس کے ساتھ چپ چاپ چل پڑا۔

    ’’سر جی! آپ کو یاد ہے کہ جب میں آپ سے پہلی بار ملا تھا؟‘‘

    ’’ہاں۔ اچھی طرح یاد ہے۔‘‘

    ’’اس دن میں پہلی مرتبہ اس علاقے میں آیا تھا۔‘‘ شبیر نے اپنا گال کھجاتے ہوئے رفیق کو غور سے دیکھا اور دوبارہ گویا ہوا۔’’مجھے گرو نے بڑا برا بھلا کہا تھا۔ گروپ کے دوسرے لوگ بھی ناراض تھے۔ میں ان پر بوجھ بن گیا تھا۔ اس لیے میں ادھر آ گیا کہ چلو مانگ کر کچھ کھا لیتے ہیں۔۔۔ وہ کام ضرور کرنا ہے جو کرنے کو من نہیں کرتا لیکن مجبوری میں کرتا رہا۔‘‘ شبیر سانس لینے کو رکا تو رفیق نے جھٹ سے پوچھا۔

    ’’یہ گرو کون تھا؟‘‘

    ’’وہ بس گرو تھا۔ یوں کہہ لیں مائی باپ تھا۔ میٹرک اسی نے کرایا تھا۔۔۔ پرائیویٹ۔۔۔ جس دن نتیجہ نکلا تھا، اسی روز میری ایسی تیسی کر دی اور میں نے گروپ چھوڑ دیا۔ اچھا بندہ تھا، بس کبھی کبھی پھرکی گھوم جاتی تھی اُس کی۔۔۔‘‘

    رفیق نے راکھ کریدنے کی کوشش کی، ’’تم نے کبھی اپنوں کے متعلق بتایا نہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی؟‘‘

    ’’سرجی! آپ نے کبھی صحیح طرح پوچھا ہی نہیں تو بتاتا کیا؟‘‘

    وہ چلتے چلتے رک گیا اور اندھیرے میں آسمان کو تکنے لگا جہاں گہرے بادلوں نے چاند کو چھپا دیا تھا اور بہت دور اک تارا اکیلا نظر آ رہا تھا۔ خبر نہیں وہ کب تک یونہی دوسرا تارا تلاشتا کہ رفیق نے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے کہا، ’’ہوں۔۔۔ سرجی! آج سن لیں۔ میں چھوٹا سا تھا جب گلی میں کھیلتے ہوئے اغوا ہو گیا۔ گرو کہتا تھا میں اغوا نہ بھی ہوتا تو میرے گھر والے ہی مجھے کسی کو دے دیتے۔ بھلا وہ کیسے کسی کو دے دیتے۔گرو کو مجھ میں پہلے سے کسی کمی کا یقین تھا مگر مجھے لگتا ہے کہ ہماری گلی میں بے سرا گا کر۔۔۔ بے ڈھنگا ناچ کر پیسے اکٹھے کرنے والے گرو نے مجھ میں کوئی خرابی ڈالی تھی۔ شبیر سے شبانہ کیا تھا۔‘‘ اس نے گہری سانس لی اور دوبارہ بولا۔

    ’’کئی سال بعد جب گھر لوٹا تو مَیں، مَیں نہ رہا تھا، انسان نما بن چکا تھا اور موت کے گولے کے گرد ناچ ناچ کر پیسے کمانا میرا پیشہ ہو چکا تھا۔ میرے ابا۔۔۔ ابا مرچکے تھے اور۔۔۔ ابا سے پہلے ماں کب کی دم توڑ چکی تھی۔ گھر میں ایک عورت تھی جسے میری سوتیلی ماں بتایا گیا۔ دوسری عورت میری سگی بہن تھی۔ وہ۔۔۔ ہاں وہ میری بہن تھی۔ بڑا روئی تھی گلے لگ کر۔۔۔ میں بھی رویا تھا جی۔۔۔ ہائے۔۔۔ کتنا رویا تھا میں۔۔۔‘‘ شبیر پر خاموشی چند لمحوں کے لیے طاری رہی اور وہ خالی ہاتھوں کی ہتھیلیاں باہم رگڑ کر حرارت سے قوت کشید کرتے ہوئے بولا۔

    ’’اس کی دو مہینے بعد شادی ہو گئی۔ یہ دو مہینے بھی میں گھر میں نہیں رہا تھا۔ سوتیلی ماں نے رہنے ہی نہیں دیا تھا لیکن ان دو مہینوں میں میں نے زیادہ سے زیادہ پیسے بنانے کی کوشش کی۔ گرو سے بھی ترلے کر کے کافی رقم لی اور جہیز بنا کر دیا۔ جب میں نے روپوں کی تھیلی اسے پکڑائی تھی، وہ بڑا روئی تھی۔۔۔‘‘

    ’’توجس دن گرو نے تمہیں نکال دیا تھا۔ تم اس کے پاس چلے جاتے۔‘‘ رفیق نے بات کاٹی تو وہ بولا، ’’نکالا نہیں تھا، سر جی۔ میں نے اسے چھوڑا تھا۔ بہن کے پاس کیسے جاتا؟ شادی کے بعد تین بار گیا تھا۔ ہر دفعہ کچھ نہ کچھ لے کر گیا۔ تیسری بار سونے کا ہار لے کر گیا تو اس نے منع کر دیا۔ کہتی تھی، نہ آیا کرو، میری بے عزتی ہوتی ہے۔‘‘

    رفیق سوچ میں ڈوب گیا لیکن شبیر نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ کبھی ماں جائی کا چہرہ تک نہیں دیکھا۔ سکھی ہوگی۔ وہ کھاتے پیتے لوگ تھے۔‘‘

    ’’تو اپنے ابا کے گھر چلے جاتے۔ تم وارث تھے۔‘‘

    ’’وہاں اور بھی کئی وارث تھے۔ میری دال کیا گلتی؟‘‘

    اس نے زہرخند قہقہہ لگایا اور۔۔۔ اور چند خاموش ساعتوں کے بعد کپکپاتی تان اٹھی۔

    نی مائے!

    اور شاہ حسین کی کافی سروں میں ڈھل گئی۔

    نی مائے! سانوں کھیڈن دے، مِیرا وت کھیڈن کون آسی

    ایہہ جگ جھوٹا، دنیا فانی، ایویں گئی میری اَہل جوانی

    شاہ حسین فقیر ربانا، سو ہو سی جو رب دا بھانا

    اوڑک ایتھوں اوتھے جانا اس ویلے نوں پچھو تاسی

    نی مائے! سانوں کھیڈن دے

    رفیق جذب کے عالم میں سنتا رہا اور جب آہ و زاری تھم گئی تو اسے معلوم ہوا کہ اس نے کچھ نہیں سنا اور اس کا ذہن دوبارہ بے عزتی کی طرف مرکوز ہو گیا۔ شبیر پر خاموشی کے خول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ صورت احوال کی پیچیدگی کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کرتا رہا جب تک ہم راہی نے اپنے لب نہ کھول لیے۔

    ’’سرجی۔ مزے کی بات بتاؤں۔ ناچتا تھا تو ذلیل کیا جاتا تھا۔ اب افسر بن گیا ہوں مگر ذلیل ہی سمجھا جاتا ہوں۔ ہے نا مزے کی بات؟‘‘

    ’’نہیں۔ یار۔ ایسے نہ کہو۔ سب تمہیں سر سر کہتے ہیں۔‘‘

    ’’نہیں۔ ایسی بات نہیں۔ میں اب اچھا لباس پہنتا ہوں لیکن لوگ مجھ سے اسی طرح کَنی کتراتے ہیں جس طرح میری ماں جائی۔۔۔ لوگ میرے پاس آنے سے ڈرتے ہیں اور جو آتے ہیں، ان کے ارادے نیک نہیں ہوتے۔‘‘

    ’’میں سمجھا نہیں۔اِرادے تو گنتی کے لوگوں کے نیک ہوتے ہیں تو اس میں پریشانی کیا ہے؟‘‘ رفیق اس گلی کی نکڑ پر رک گیا جو شبیر کے گھر کو جاتی تھی اور بڑی سنجیدگی سے ہاتھ ہلا کر جواب طلب کیا۔

    ’’سر جی! میں ان ارادوں کی بات نہیں کر رہا جن کی آپ کر رہے ہیں۔ میں سمجھاتا ہوں۔ جب مَیں ناچتا تھا تو مجھے ’ایسا ویسا‘ سمجھا جاتا تھا اور اب تک ’ویسا‘ ہی مانا جاتا ہوں۔ ساتھی افسروں کا برتاؤ گزارے لائق ہونے کے باوجود ٹھیک نہیں ہوتا۔ مسئلے حل کرانے والوں کا رویہ بھی جو ہوتا ہے سوہوتا ہے مگر وہ کام نکلوا کر واپس جاتے ہوئے کھسر پھسر کرتے چوری چوری مسکراتے ہیں اور آج کی بات سنیں۔ دفتر سے نکلا تو سوچا، پیدل گھر جاتا ہوں۔ ذرا ورزش ہو جائے گی۔ یہاں سے تھوڑی دور تھا کہ ایک کار میرے پاس آ کر رکی اور اس میں سے ایک برا سا منہ باہر نکلا جو پوچھ رہا تھا۔۔۔ کی پروگرام اے؟۔۔۔ اور یہ پہلی بار نہیں ہوا۔‘‘

    ’’تم پریشان نہ ہو۔ کوئی بات نہیں۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ رفیق نے کمر تھپکتے ہوئے کہا تو وہ بولا، ’’آپ سے کبھی کسی نے پروگرام پوچھا ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ رفیق نے ترنت جواب دیا تو شبیر نے ہنسی میں کرب چھپاتے ہوئے کہا، ’’پھر پریشانی والی بات تو ہے نا، سر جی۔‘‘

    رفیق نے اب کی بار کوئی سوال کیا نہ جواب دیا۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔ وہ بس سوچ رہا تھا اور یونہی خیالوں میں کھویا اس کے گھر پہنچ گیا۔ جب اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو رفیق ہکا بکا رہ گیا۔ وہاں ایک اور انسان نما کرسی پر بیٹھا تھا جس نے دروازہ کھلنے پر ہاتھ میں پکڑی کتاب ایک طرف رکھ دی اور سلام لے کر چمکتی آنکھوں سے رفیق کو دیکھنے لگا۔ رفیق نے کچھ دیر ننھے کو اسی طرح اوپر سے نیچے تک دیکھا جیسے شبیر کو برسوں پہلے گیٹ میں کھڑے کھڑے جانچنے کی کوشش کر چکا تھا۔ پھر اس نے چھوٹے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے کے گلے لگ گیا۔ اس کی آنکھوں سے چند قطرے نکلے جسے شبیر نے خوشی کے آنسو سمجھا مگر رفیق کو اپنا وہ بھائی یاد آ رہا تھا جسے برسوں پہلے کسی نے انسان نما جان کر استعمال کیا تھا اور وہ انسان سمجھے جانے کا انتظار کرتے کرتے کبھی نہ جاگنے کے لیے سو گیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے