aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جلدی کرو

شفیع مشہدی

جلدی کرو

شفیع مشہدی

MORE BYشفیع مشہدی

    زمین پر تیس پینتیس بچوں کی لاشیں قطار سے رکھی، سورماؤں کو داد شجاعت دے رہی تھیں۔ دونوں جانب رائفلوں پر سنگینیں چڑھائے سپاہی پہرہ دے رہے تھے۔ کوئی بیس گز دور جلے ہوئے برگد کے نیچے دس پندرہ مزدور جلدی جلدی گڈھا کھود رہے تھے اور کچھ باوردی افسر بار بار مزدوروں کو جلدی کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ افسر نے مزدوروں کو پھرڈانٹا۔’’ جلدی کرو۔ گڈھا کم از کم چھہ فٹ ہونا چاہیے۔ اس کی چوڑائی بھی بڑھاؤ۔ ساری لاشیں اسی میں دفن ہونی ہیں‘‘ گڈھا کھودنے والے مزدوروں میں سے کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ان میں سے کئی مزدوروں کے ماتھے اور بازوؤں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں، جن سے سُرخ خون چھلک رہا تھا۔ شاید وہ بھی اسی گاؤں کے رہنے والے تھے جو زخمی تو ہوئے تھے لیکن مر نہیں سکے تھے اور اب ان سے لاشوں کو دفن کرنے کے لیے گڈھا کھودنے کا کام لیا جا رہا تھا۔ وہ سب میکانیکی انداز میں اس طرح مٹی کھود رہے تھے جیسے وہ انسان نہ ہوں بلکہ مشین ہوں۔ ان کے چہروں پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ بھی مر چکے تھے اور اب اپنے لیے ہی قبریں کھود رہے تھے۔ ایک افسر نے دوسرے سے کہا ’’ہمیں جلدی کرنا چاہیے۔ اگر وہ لوگ آ گئے تو مشکل ہوگی‘‘۔ اس نے پھر مزدوروں کو ڈانٹا۔ ’’جلدی کرو‘‘۔ مزدوروں میں سے ایک بوڑھے سے شخص نے اپنی کدال زمین پر رکھ دی اور کچھ اس انداز سے ڈانٹنے والے افسر کی طرف دیکھا کہ اسے جھرجھری آ گئی اور اس نے نگاہیں نیچی کر لیں۔ دوسرے افسر نے کہا۔ ان لاشوں میں اس کا بھی ایک بچہ ہے اور مڑ کر شاہراہ کی طرف دیکھنے لگا جدھر سے غبار اُڑاتی ہوئی ایک جیپ پاس آ رہی تھی۔ ’’وَیری بیڈ، وَیری بیڈ‘‘ افسر بڑبڑایا’’اب کیا ہوگا۔ صاحب بہت ناراض ہوں گے‘‘۔ دوسرے نے کہا ہم کیا کر سکتے ہیں گڈھا کھودنے میں وقت لگتا ہے۔ ہمارے پاس بلڈوزرس تھوڑا ہی ہیں۔ جیپ پاس آکر رکی اور دھما دھم پانچ چھ آدمی کیمرے لیے ہوئے کود پڑے، اسٹین گن لیے ہوئے سپاہی نے انھیں ’’ہالٹ‘‘ کہہ کر آگے بڑھنے سے روک دیا مگر پے در پے کیمرے کے فلیش چمکتے گئے اور دونوں افسران ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ ایک رپورٹر نے اپنا تعارفی کارڈ افسرکو دکھاتے ہوئے نزدیک آنے کی اجازت چاہی، اجازت مل گئی۔ لاشوں کے نزدیک آکر کیمرہ مین مختلف زاویوں سے بے شمار تصویریں لینے لگے۔ وہ ایک دوسرے کو مشورے بھی دے رہے تھے۔ ادھر سے فوٹو لو جس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ اس زاویے سے لو کہ اس کے چہرے کی اذیت تصویر میں آ سکے ....یس ویری گڈ۔ ویل ڈن۔ دفعتاً ایک کیمرہ مین سنتری کی طرف مخاطب ہوا ....ذرا اس لاش کو گھما کر سامنے کر دیجیے، میں اس کی پوری تصویر لینا چاہتا ہوں۔ سنتری نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کیمرہ مین لاش ہٹانے کے لیے آگے بڑھا تو سنتری نے جواب نہیں دیا ....’’ہالٹ‘‘ پیچھے ہٹ جاؤ۔ تم اسے چھو نہیں سکتے۔

    ’’کیوں ....؟ یہی حکم ہے‘‘۔

    ’’نہیں ....‘‘

    ’’ہٹ جاؤ میرا کام ان کی حفاظت کرنا ہے، تم انھیں چھو نہیں سکتے۔ حفاظت....‘‘ ایک رپورٹر مسکرایا۔ مرنے کے بعد حفاظت؟ سنتری کچھ نہیں بولا۔ سپاٹ چہرے کے ساتھ سامنے دیکھتا رہا سامنے جلے ہوئے مکانات اور جلے ہوئے درختوں کا ایک سلسلہ تھا۔ جلے ہوئے گوشت اور سڑتی ہوئی لاشوں کے تعفن نے پوری فضا کو ہولناک بنا دیا تھا۔ رپورٹرز اپنی ناک پر رومال رکھے میدان میں کھڑے ہوئے تھے۔ اچانک سامنے سے ایک سنتری ایک بچے کو ہاتھوں میں اٹھائے آتا ہوا نظر آیا۔ سارے لوگ اسی کی طرف دوڑ پڑے۔ صاحب یہ ادھر جنگل میں پڑا ہوا تھا۔ زندہ ہے پھولتی ہوئی سانسوں کے درمیان سنتری نے افسر سے کہا اور بچے کو زمین پر بٹھا دیا۔ بچہ زخمی تھا۔ اس کے کپڑوں پر خون کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ خوف سے اسے سکتہ لگا ہوا تھا۔ خالی خالی نظروں سے وہ اِدھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ فلیش چمکنے لگے۔ رپورٹروں نے اسے گھیر لیا۔ افسروں اور سپاہیوں نے انھیں دور رکھنے کی کوشش کی لیکن وہ رکے نہیں۔ ہم اس کا انٹرویو لیں گے، آپ ہمیں نہیں روک سکتے۔ یہ پریس کی آزادی کا سوال ہے ....ایک رپورٹرنے افسرکو دھمکی دی ....افسر بڑبڑاتا ہوا ہٹ گیا۔ ’’سب کو آزادی چاہیے ....انجام سامنے ہے‘‘۔

    سارے لوگوں نے بچے کو گھیر رکھا تھا اور وہ گھبرائی گھبرائی نظروں سے چاروں طرف کھڑے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ مہذب لوگوں کا حلقہ اس کے گرد گھنا ہو گیا تھا۔

    ’’کون ہے یہ‘‘؟ ایک نے پوچھا۔

    ’’اس کے ماں باپ کہاں ہیں؟ دوسرے نے پوچھا۔

    ’’اس کا رنگ روپ دیکھو۔ شاید ہریجن ہے‘‘۔

    ’’نہیں نہیں یہ مسلمان لگتا ہے۔ نہیں ہندو ہے‘‘۔

    ’’یہ بچہ ہے اور بچے کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ ذات‘‘۔ ایک فلسفی قسم کے صحافی نے کہا جو کیمرے کے لینس سے بچے کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد فلیش کی چمک سے بچے کی آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ وہ بوکھلائی ہوئی نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔

    ’’It is a wonderful story میں اسے فرنٹ پیج کے باکس میں دوں گا‘‘۔ ایک رپورٹر بولا ’’لیکن تمھیں اس کے بارے میں کچھ بھی تو نہیں معلوم ہے‘‘ دوسرا بولا۔

    ’’ہمیں سب معلوم ہے ....یہ ہمارے سماج کے اتیاچاروں کا سمبل ہے۔ میں اس ہریجن بچے کی پوری کہانی کہوں گا۔

    لیکن کیسے ....؟ ابھی تو اس کی کہانی ہمیں معلوم ہی نہیں ہوئی ہے۔ کہانی معلوم نہیں ہوتی۔ کہانی کہی جاتی ہے۔ وہ گمبھیر آواز میں بولا۔ بچہ ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ سنتری نے مقامی زبان میں بچے سے اس کا نام پوچھا۔ کئی بار سوال دہرائے جانے پر اس نے تتلاتی لڑکھڑاتی زبان میں کہا ’’چھوٹو‘‘ اور چپ ہو گیا۔ اس سے زیادہ بولنے کی صلاحیت شاید اس میں تھی بھی نہیں۔

    ’’چھو ٹو ....‘‘کئی آوازیں ابھریں۔

    ’’اس نام سے تو کچھ بھی پتہ نہیں چلتا۔ نہ ذات نہ دھرم‘‘۔

    ’’اتنا چھوٹا بچہ ہے۔ یہ کہاں جائےگا۔ لگتا ہے ماں باپ میں سے کوئی نہیں بچا‘‘ ایک سپاہی رازدارانہ لہجے میں بولا‘‘۔ پس منظر میں گڈھا کھودنے کی آواز آ رہی تھی گڈھا کھودنے والے اس منظر سے قطعی بے نیاز تھے جیسے یہ بچہ بھی ان لاشوں میں سے ایک تھا جو مدفن کے انتظار میں سوکھ رہی تھیں۔ فوٹو گراف لے کر لوگ بچے سے الگ ہو چکے تھے۔ بچہ اب بلک بلک کر رونے لگا تھا۔ جیسے اس ہولناک ماحول پر ماتم کرنے کی ساری ذمہ داری صرف اسی کی تھی۔ باقی سارے لوگ ٹریجڈی کا تجزیہ کرنے میں مصروف تھے۔ سناٹے کو بچے کے رونے کی آواز منتشر کر رہی تھی مگر کوئی بھی اس غلیظ اور زخمی بچے کو سنبھالنے کو تیار نہیں تھا۔ دور کھڑی ایک قومی اخبار کی اسپیشل کرسپونڈنٹ مس پانڈے خاموش اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور ہلکے قدموں سے چلتی ہوئی بچے کے پاس آئی۔ تھوڑی دیر تک روتے ہوئے بچے کو غور سے دیکھنے کے بعد اس نے اس گندے بچے کو گود میں اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔

    ’’مس پانڈے .... مس پانڈے‘‘۔ کئی آوازیں اس کی طرف لپکیں۔ ’’یہ بچہ میرا ہے۔ میں اس کی ماں ہوں‘‘۔ وہ آہستہ سے بولی۔ ’’ہاں میں اس کی ماں ہوں۔ میں نے اسے جَنا ہے۔ یہ میری کوکھ سے پیدا ہوا ہے‘‘۔ مس پانڈے ہسٹیریائی انداز میں بول رہی تھی اور سارے لوگ دم بخود تھے۔ اس کی شفاف ساری بچے کے خون اور گندے کپڑوں سے داغدار ہو گئی تھی۔ وہ بچے کو گود میں لیے اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی اور موٹر گرد اڑاتی ہوئی نگاہوں سے اوجھل ہونے لگی۔ گڈھا کھودنے کی آواز اب بھی سناٹے کو منتشر کر رہی تھی مگر کدال کی آواز میں ایک ہلکا سا ترنم پیدا ہو گیا تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے تاریکی میں ایک چھوٹی سی کرن بکھر گئی ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے