Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جالے میں پھنسی مکڑی

شاہد جمیل

جالے میں پھنسی مکڑی

شاہد جمیل

MORE BYشاہد جمیل

    رفعت کھلی چھت پر ہاتھ پھیلائے اس وقت تک دعائیں مانگتی رہی جب تک عید کا چاندنظر آیا۔ تنہا اداس کھڑی رفعت کے دوپٹے کا سرا کلس کی جھنڈی سا لہرا رہا تھا اور زلفیں دھیرے دھیرے آزاد ہوکر مچلنے لگی تھیں۔ سر کے ہلکے جھٹکے کھاکر بھی دائیں آنکھ کے سامنے آدھمکنے والی گستاخ لٹ کو اس نے کان کے پیچھے دباکر دوپٹے درست کرتے ہوئے غور سے اس مقام کو دیکھا، جہاں کچھ دیر پہلے دلکش ہلال تھا۔ اس نے سوچا کہبے اولاد انسان کی زندگی بھی بے چاند آسمان کی طرح سونی اور اداس ہوتی ہے۔

    رفعت کا دایاں ہاتھ بےخیالی میں پیٹ پر چلا گیا اور اس کی ممتا جاگ اٹھی۔ نین کٹورے آنسو سے لب ریز ہو گئے، تب اسے ایک منظر نظر آیا کہ اس کا لخت جگر آغوش میں آنے کے لئے ہمک رہا ہے اور وہ اسے صبر دلا رہی ہے۔ جذباتی ہیجان پر قابو پانے کے لئے اس نے نگاہیں آسمان پر جما دیں، جہاں موہوم اور ٹمٹماتے ستاروں میں نور بڑھنے لگا تھا۔

    وقت کے قدم موج دریا کی طرح رواں رہتے اور دن، کچھوا چال چل کرماہ و سال کی دوریاں طے کرتا رہتا ہے۔ آنگن میں اتری دھوپ کب دیوار پر چڑھتی اور کب اتر جاتی ہے، احساس نہیں ہوتا۔ رفعت نے آہیں بھرکر سوچاکہ شادی شدہ زندگی کے کئی سال بھی لامحسوس گزر گئے۔۔۔

    شادی سے قبل کی ایک رات رفعت کے ذہن میں مجسّم و متحرک ہو گئی۔ اس رات عشاء کی نماز اس نے تاخیر سے پڑھی تھی۔ مچھردانی لگانے سے پہلے ابّااس کی اسٹڈی کرسی پر آ بیٹھے تھے۔ اس نے مشکوک نگاہوں سے انھیں دیکھتے ہوئے پوچھا تھا، ’’آج پھر بھیا سے جھگڑا ہوا کیا؟‘‘

    انھوں نے جواب نہیں دیا۔ پھر وہ کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ پھر بولے تھے، ’’عید کے چاند کی گیارہ تاریخ میں نے طے کر دی ہے۔ وہ لوگ سیوان ضلع کے حسن پورا گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ماسٹر برکت اﷲ مرحوم دو بیٹیوں کی شادی کرچکے تھے۔ ان کی موت کے بعد عظیم اﷲ کی شادی خالہ زاد بہن سے ہوئی۔ حلیم اﷲ آئی اے پاس ہے۔ وہ آرا مشین لگانے والا ہے۔ قدرت اﷲ نے میٹرک کا امتحان دیا ہے۔ جڑواں بیٹیاں نیم بالغ ہیں۔ بڑی بیٹی کے دو بیٹے نانیہال میں رہ کر انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔۔۔‘‘

    اتنا کہہ کر وہ کرسی سے اٹھے اور دو قدم چل کرکھڑے ہو گئے، جیسے انھیں کوئی خاص بات یاد آ گئی ہو۔ پھر وہ افسردہ لہجے میں بولے تھے، ’’عاصم میاں پر مجھے اب بھروسا نہیں رہا۔ اسی لئے اپنی زندگی میں اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘

    پھر وہ اس کی مرضی جانے بغیر کمرے سے نکل گئے تھے۔

    انھیں جاتے ہوئے دیکھ کر اس نے سوچا تھاکہ ابا اس کے کمرے میں نہیں، چرچ میں آئے تھے اور کنفیشن کے بعد دَبے پاؤں لوٹ رہے ہیں۔ عمر کی تیسری دہائی میں قدم رکھ چکی قبول صورت لڑکی کے لئے بغیر جہیز شادی کے پیغام کو ایک باپ ٹھکرا نہیں سکتا۔ وہ بھی ایسی حالت میں جب کہ سر سے ماں کا سایہ اٹھ چکا ہو اور چھوٹی بہن بھی شادی شدہ ہو۔

    رفعت نے خیالوں کا تار توڑ دیا۔ بچپن میں بھی جب کبھی اسے اپنے ہی تار میں جھولتی مکڑی نظر آ جاتی، تب وہ فوراً انگلی سے اس کا تار توڑ دیتی تھی۔ پھر وہ جد وجہد میں مصروف مکڑی کو بڑے غور سے دیکھی تھی۔ مکڑی کا منزل پا لینا اسے اچھا لگتا تھا۔

    اس نے ذہن بھٹکانے کے لئے اختر شماری شروع کر دی۔ لیکن ہر بار اس کی گنتی گڑبڑا جاتی۔ اس کی آنکھوں میں نیا ستارہ روشن ہو جاتا۔ اختر شماری کا شوق اسے بچپن سے ہے۔ وہ اکثر پڑوسن سُشما کے ساتھ اختر شماری کیا کرتی تھی۔

    اچانک دل کی چڑیا اڑان بھرکر گزشتہ ایک شام کے کلس پرجا بیٹھی۔ حد نگاہ کو وسعت ملی۔ پھر وہ دھڑ دھڑ ماضی کی سیڑھیاں اترنے لگی۔

    اس دن ماموں جان ڈھیر سارے آم لے کر آئے تھے۔ اس نے پہلے پسندیدہ آموں کو چن چن کر بالٹی میں رکھا تھا۔ پھر نظریں بچاکر اس نے صراحی کا ٹھنڈا پانی بالٹی میں انڈیل کر تازہ پانی بھر دیا تھا۔تین بار چھڑکاؤ کے بعد ہی چھت پاؤں رکھنے لائق ہوئی تھی۔

    فطرتاً چلبلی اور شرارتی سشماکی آمد کا انداز ہمیشہ نرالا ہوتا۔ کبھی وہ بلی کی طرح دبے پاؤں آتی اوراس کے جوڑے کو کھول دیتی اور کبھی چپکے سے پیٹھ کے پیچھے کھڑی ہوکر گردن پر پھونک مارکے جسم میں سہرن پیدا کرا دیتی۔

    اس نے ایک بار اچانک دوپٹا کھینچ لیا تھا اور وہ ہتھیلیوں سے سینے کو چھپاکر بیٹھ گئی تھی۔ سُشما نے قہقہے لگاکر دوپٹّے کا گھونگھٹ بناکے کہا تھا، ’’رفّو ! زندگی کا احساس تو محسوس کرنے سے ہوتاہے۔‘‘

    پھر اس نے اس کی آنکھوں کو ہتھیلیوں سے بند کر کے انگلیوں کا دباؤ بڑھاتے ہوئے پوچھا تھا، ’’رنگ برنگے قمقموں کا سنسار نظر آیا؟‘‘

    ’’آیا۔‘‘ اس نے میٹھے درد کو سہتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’رفّو! اب تو جیسا محسوس کرےگی ویسا ہی نظر آئےگا۔ محسوس کئے بنا نہ دکھ ہوتا ہے اور نہ سکھ ملتا ہے۔ آنکھوں میں سپنے اور دل میں ارمان ہوں تو جینے کی چاہت بڑھ جاتی ہے۔ تو بھی کھل کر جینا شروع کر دے۔۔۔ ‘‘ اس نے پشت پر ناک رگڑ کے کہا تھا۔

    اس شام سُشما نے آنکھ بچاکر بیلے کا ایک گجرا اچانک اس کی گردن میں ڈال کر اسے ڈرا دیا تھا۔ اس کی بدحواسی پر اس نے خوب قہقہے لگاکر کہا تھا،’’عورت اور چڑیاں دونوں ایک سمان ہوتی ہیں۔ چھوؤ، چھیڑو تو بدحواس ہو جاتی۔۔۔‘‘

    پھر اس نے ایک آم اٹھاکر اعلان کیا تھا، ’’آج تو میں صرف آم کھاؤں گی۔ پردیسی ستاروں سے میرا کوئی رشتہ ناطہ نہیں۔۔۔‘‘

    ’’نہیں سمی !ہم آم بھی کھائیں گے اور ستارہ شماری بھی کریں گے۔۔۔‘‘ اس نے التجا کی تھی۔

    آم کھاتے ہوئے اختر شماری شروع ہوئی تھی۔ لیکن بہت جلد سشماکی شرارتوں سے وہ عاجز ہو گئی۔ پھر وہ ناک بھوں چڑھاکر منڈیر سے لگ کے کھڑی ہو گئی تھی، تب اس نے اپنی چوٹی کی نوک سے اس کے کان میں گدگدی لگاکر پوچھا تھا، ’’مائی ڈیر رفّو! تاروں کو کیوں گننا چاہتی ہو؟ اچھا بتاؤ! تمھاری قسمت کا ستارہ کون سا ہے؟ پھر اس نے انگلی سے دکھاتے ہوئے کہا تھا، ’’دیکھ وہ بڑا سا چمچماتا ستارہ ہو سکتا ہے، وہ مریل سا ٹمٹماتا ہوا بھی یا پھر وہ ،جو ہمیں نظر ہی نہیں آ رہا ہے۔ ’’بھگوان جانے اس سمے وہ کون سی چال چل رہا ہوگا؟ سچ کہوں رفو! اگر ہم اسے پہچان بھی لیں تو کوئی فائدہ نہیں۔ وہ اپنے من مرضی کی چال چلتا رہےگا۔ پھر چنتا کیوں؟۔۔۔‘‘

    اس نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا تھا، ‘’سمی!چالوں کے بھیدمیں نہیں جانتی۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ انسان سے ستاروں کا بھی ایک رشتہ ہے اور ان کی چالیں اثر ڈالتی ہیں۔ ورنہ۔۔۔‘‘ اس نے بات نا مکمل چھوڑ کر چوسے ہوئے آم میں ہوا بھر کراسے خلامیں اچھال دیا تھا۔

    ‘’بہورانی! اب نیچے اترآؤ۔ دیکھو تو ذرا! کون کون ملنے آئی ہیں۔۔۔‘‘

    رفعت خیالوں کی دنیا اور ستاروں کی انجمن سے لوٹ آئی۔ وہ خاموشی سے سیڑھیاں اترنے لگی۔ پیشکار صاحب کی بیوی سے شاکرہ بیگم کہہ رہی تھیں، ’’تیس روزے کا انعام عید۔ چاند رات کو خدا جھوٹ نہ بلوائے لڈن کی اماں! بڑی بہو تو سگی بہن کی بیٹی ہے۔ اس کے گنوں کا بکھان، اپنے منہ میاں مٹھّو بننا ہے۔ لیکن چھوٹی بہو کی میں جتنی بھی تعریف کروں سمجھو، کم ہے۔ میں کہنے کو بہو کہتی ہوں لیکن اسے بیٹی سے۔۔۔‘‘

    پیشکار صاحب کی بیوی قطع کلام کرتے ہوئے بولیں، ’’برا نہ مانو تو ایک بات کہوں؟ دونوں بہوؤں کی قسمت سے تمھارے دن پھیرے ہیں۔ بےچارے ماسٹر صاحب کی قسمت میں یہ عیش و آرام نہیں لکھا تھا۔۔۔‘‘

    قدموں کی آہٹ پا کر شاکرہ بیگم موضوع بدلنے کی نیّت سے بہو سے بولیں، ’’دیکھو تو! لڈن کی اماں بھی تم سے ملنے آئی ہیں۔‘‘

    آنگن میں مستقل بچھی چوکی پر بیٹھی پڑوسنوں کو رفعت نے سلام کیا، ان سے دعائیں لیں اور بچوں کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ بولی، ’’بس، ابھی آئی۔‘‘

    شاکرہ بیگم نے دبی زبان سے منقطع گفتگو کا سلسلہ جوڑا، ’’پورا گھر سنبھال رکھا ہے۔ ہر ماہ موٹی رقم شوہر کو اور چائے پانی کے لئے مجھے الگ سے دیتی ہے۔ اوپری آمدنی سے وہ کچھ نہ کچھ لے کر آتی ہے۔ محبت پاکر بچے بھی اس کی راہ دیکھتے رہتے ہیں۔۔۔‘‘

    رفعت ٹرے سجاکر آئی، تب شاکرہ بیگم اٹھ کے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔

    پیشکار صاحب کی بیوی نے چائے میں بسکٹ ڈبوکر بڑی مہارت سے اسے منہ میں ڈالا۔ بسکٹ میں موجود کاجو کے ٹکڑوں کو چباکر وہ گھونٹ گھونٹ چائے پینے لگیں۔ عمدہ لیف کے ذائقے نے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ خدا کی شان نرالی ہے۔ وہ چاہے تو دن پھرتے دیر نہیں لگتی۔ ماسٹرائین کی حیثیت پلک جھپکتے بدل گئی۔ اس پکے دو تلے مکان کی جگہ دو چھوٹے چھوٹے کمروں کا ایک بوسیدہ مخدوش کھپڑیل گھر تھا۔ بےچاری دن رات آمدنی کے نئے نئے جگاڑ تلاش کرتی رہتی تھی۔ سب سے پہلے مرغیاں پالی گئیں۔ گھر آنگن مرغے مرغیوں اور چوزوں سے بھر گیا۔ مرغا، مرغی اور انڈے بکنے لگے۔ لوگوں کو بھی چوبیس گھنٹے کی سہولت ہاتھ لگ گئی۔ دیر رات آیا مہمان بھی مرغا پلاؤ یا پھر انڈا پراٹھا کھاکر سوتا۔ پھر بکریاں پالی گئیں۔ ان کے بول و براز سے گھر میں ہر وقت بدبو پھیلی رہتی اور گھر میں قدم رکھنے سے گھن آتی تھی۔ بچے مجبوراً ناک پر ہاتھ رکھ کر گھر میں داخل ہوتے۔ واپسی میں کوئی گھاس پر چپل رگڑ رگڑ کے صاف کرتا اور کوئی سرکاری نل پر پاؤں دھوکر گھر لوٹتا تھا۔ ماسٹرائن کا زیادہ وقت گھر آنگن کی صفائی کی نذر ہو جاتا۔ پڑوسی کے گھروں سے لائے ماڑ، دھون، جوٹھن، سبزی، پھل کے چھلکے اور باہر گھوم پھیر کے گھاس پات کھاپی کر پلے بڑھے خصّی بقرعید میں اچھی قیمت ادا کر جاتے۔ اسی رقم سے قرض کی ادائیگی ہوتی۔ بچوں کے بدن پر نیا کپڑا چڑھتا اور بقرعید میں عید سا لطف و خوشی ملتی۔ مڈل اسکول کے اردو ٹیچر کی اوقات ہی کیا؟ بےچارے ماسٹر صاحب نے بہت کوشش کی لیکن مرتے دم تک انھیں ٹیوشن پڑھانے کا موقع نہیں ملا۔ مولوی صاحب ہی بچوں کو عربی کے ساتھ مفت میں اردو پڑھا دیا کرتے۔۔۔

    پان کی گلوری پیش کرتے ہوئے شاکرہ بیگم نے کہا، ’’کہاں کھو گئیں؟‘‘

    وہ جھینپتی ہوئی گلوری پکڑ کے اٹھیں اور اعلان کیا، ’’جسے اور بیٹھنا ہو، وہ شوق سے بیٹھے۔ میرا تو سارا کام پڑا ہوگا۔ اب میں چلی۔ آج رات شاید ہی سونا نصیب ہو۔‘‘

    انھوں نے چاروں طرف نگاہیں دوڑاکر پکارا، ’’شبّو! کہاں مر گئی۔۔۔‘‘

    پھر وہ بڑبڑانے لگیں، ‘’ضرور ٹی وی دیکھتی ہوگی۔‘‘

    شبّو جلدی سے بسکٹ کونیفے میں اڑنس کر لپکتی ہوئی رفعت کے کمرے سے نکلی اور بچے کو گود میں لے کر کھڑی ہو گئی۔ پیشکار صاحب کی بیوی کے اٹھتے ساتھ آئیں عورتیں بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔سوئے بچوں کو گود لیا گیا اور پاؤں چلنے والے کو کھڑا کرکے دوچار قدم چلا پھراکر ان کی نیند اڑائی گئی۔ ایک بچے کا مشین گن اٹھاکر رفعت نے لپک کر اس کی ماں کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ وہ بچہ دونوں ہاتھوں میں بسکٹ پکڑے سو گیا تھا۔

    بھابھی کے کمرے میں عید کی تیاری چل رہی تھی۔ قمرالنساء صوفے پر آلتی پالتی مارے گود میں سینی رکھے میوے کتر رہی تھی۔ مہر النساء پلنگ پربیٹھی بھابھی کے گوٹے لگے دوپٹّے میں سلمٰی ستارہ ٹانک رہی تھی۔ بھابھی پلنگ پر پاؤں لٹکائے بیٹھی تھی۔ فرش پر بچھی چٹائی پر بیٹھا حلیم اﷲ بھابھی کو مہندی لگارہا تھا۔ وہ ہاتھ تھماکر کچھ زیادہ ہی جھک گئی تھی۔ ان کا جوبن دعوت نظارہ دے رہا تھا۔ قمرالنساء تھوڑی تھوڑی دیر پر اٹھ کے بھابھی کے منہ میں کترے ہوئے میوے ڈال رہی تھی۔قدرت اﷲ بھانجے کے ساتھ عید ملن کمیٹی کی بیٹھک میں گیا ہوا تھا۔

    بھابھی کے پاؤں میں منہدی لگاکر حلیم اﷲ نے پاؤں کو کرسی کے ہتھوں پر رکھا۔ پھر ایک مسند اس کی گود میں اور دوسرا پیٹھ کے پیچھے لگا دیا، تب وہ ایک خاص ادا سے بولی، ’’اﷲ! اب مجھے کوئی گدگدی نہ لگائے۔۔۔‘‘

    ’’میں گدگدی لگا سکتا ہوں لیکن لگاؤں گا نہیں۔ مجھے تو مزدوری چاہئے، وہ بھی پسینہ خشک ہونے سے پہلے۔۔۔‘‘اس کا لہجہ معنی خیز اور آنکھیں پیغام رساں تھیں۔

    ہاتھ دھوتے وقت حلیم اﷲ کو ایک شرارت سوجھی۔ وہ کچن سے ایک تلچٹے کو مار کر اس کی مونچھ پکڑے کمرے میں داخل ہوا۔ بھابھی چیخ پڑی۔ان کا دوپٹا سرک گیا۔ وہ بازوؤں سے سینے کو چھپاتے ہوئے مخصوص ادا سے بولی، ’’یاﷲ! اب میں کیا کروں؟‘‘

    حلیم اﷲ تلچٹے کو پھینک کر ہنستے ہوئے ڈھلکے دوپٹّے کو درست کر رہا تھا۔اسی وقت سیڑھیاں چڑھتی رفعت نے ٹھِٹھک کر سب کچھ دیکھ لیا۔ اس نے فوراً آنکھیں بند کر لی۔ ناسور رسنے لگا۔ ماضی، نم آنکھوں میں آبی پرندوں کی طرح اترنے لگا، تب اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں۔ اب وہ کمر کے پیچھے دوسرا مسند لگا رہا تھا۔ اس نے ٹھنڈی آہیں بھر کے خود سے سوال کیا کہ یہ وہی انسان ہے؟ جس نے سہاگ رات میں اس کے مہندی لگے ہاتھوں کو پرے کرتے ہوئے کہا تھا،’’مہندی کی بو سے میرا سر چکراتا ہے۔۔۔‘‘

    اس نے مہندی سے عاری ہتھیلیوں کو دیکھ کر آسمان کو دیکھا، جہاں ستارے جگمگا رہے تھے۔ اچانک اسے سشما یاد آگئی۔ اس نے کہا تھا، ’’رفو! گھل مل جانا عورت کی فطرت ہے۔ وہ پانی کی طرح اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ پانی،دودھ میں مل کر دودھ اور شراب میں مل کر شراب کہلاتا ہے۔‘‘

    رفعت کے پاؤں کانپنے لگے، تب وہ بھاگتی ہوئی کمرے میں گئی اور پلنگ پر اوندھے منہ جا گری۔ اس کے ذہن میں گزرے ایام گردش کرنے لگے۔ وہ وقت، جس نے اسے دکھ دیا تھا، ذلیل و رسوا کیا تھا، آنکھوں کو آنسوؤں کی سوغات بخشا تھا اور جگر جلایا تھا، قاتل کی طرح مسکرا رہا تھا۔ تکیے کو سینے سے بھینچ کر اس نے سوچاکہ اماں زندہ ہوتیں تو وہ ان کے سینے سے لگ کر خوب روتی۔ سچ ہے، ماں سے میکہ ہوتا ہے۔ اماں تسبیح کا دھاگہ تھیں۔ دھاگہ ٹوٹتے دانے بکھر گئے۔ الماری کے کارخانے پر دھیرے دھیرے عاصم بھیا قابض ہو گئے۔ ابا کی حیثیت ناکارہ چھٹی انگلی سی رہ گئی۔ بھابھی کی نازیبا حرکتوں اور بھیّا کی چپّی سے نالاں ابا تبلیغی جماعت میں وقت گزارنے لگے۔ سنا ہے، اب وہ زیادہ تر سفر میں ہی رہنے لگے ہیں۔ سشما، لو جہاد کے چکر میں پھنس کر نہ جانے کس حال میں ہے؟ کہیں وہ تار ے کی طرح ٹوٹ کر گم تو نہیں ہو گئی؟ اگر کبھی ملاقات ہوئی تو وہ پوچھےگی، اس نے کیسے آگ کا دریا عبور کیا؟ سلمان کو پاکر وہ خوش ہے یا پچھتار ہی ہے؟ وہ تمھارے رخسار اور گردن پر مور پنکھ سے گدگدی لگاتا ہے؟ تمھاری فلسفیانہ باتوں کی داد دیتا ہے؟ تمھاری شرارتوں کا اب کون کون شکار ہے؟ تین سال چھوٹی عفو (عفت) دو بچے کو جنم دےکر اس سے بڑی لگنے لگی ہے۔ غربت نے اس کے حسن و شباب کو۔۔۔

    بھابھی کے ٹھہاکوں سے اس کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ اس نے دم سادھ کر گمان کا گھوڑا دوڑایا، کمرے سے بہنیں جا چکی ہوں گی۔ امی صندوق سے چینی مٹی کے برتن، تانبے کی دیگچی، پیتل کی سینی، اسٹیل کے چمچے، مرادآبادی عطردان و گلدان، شیشے کا گلاس، فائیبرکے ٹِرے اور المونیم کا اگلدان نکال رہی ہوں گی۔ تلچٹے بےپناہ ہوکر ادھرادھر بھاگ رہے ہوں گے۔ دونوں بہنیں اب اپنی اپنی تیاریوں میں مگن ہوں گی۔ کمرے میں وہی دونوں ہوں گے۔ انھوں نے ضرور کوئی گندا لطیفہ سنایا ہوگا۔ یا پھر۔۔۔

    وہ اس سے آگے سوچنے سے گھبرانے لگی۔ مضطرب ذہن نے دل کو اکسایا۔ سیڑھی پر کھڑی ہوکر جائزہ لینے کی نیّت سے وہ اٹھ بیٹھی۔ پھر اس خیال سے وہ لیٹ گئی کہ بھرم توڑکر کرچیوں پر ننگے پاؤں چلنے سے اپنا ہی تلوا لہولہان ہوگا۔۔۔

    اب میوزک سسٹم سے تیز انگریزی دھن نکلنے لگی تھی۔ اس نے کروٹ بدل کے سوچا کہ اس میں بھی راز ہے۔۔۔

    درگاہی فقیر کی طرح خیال پیچھے پڑ گیا۔ اس نے سوچاکہ عورت کا اپنا گھر نہیں ہوتا، میکہ اور سسرال ہوتا ہے یا پھر بیٹے اور داماد کا گھر۔ اس کی ذاتی زندگی بھی نہیں ہوتی۔ وہ فقط شریک خاندان، شریک حیات اور شریک کار ہوتی ہے۔ روزی کماکر اور نام پیدا کر کے بھی وہ اپنی شناخت نہیں بنا پاتی۔ وہ حوالوں سے پہچانی جاتی ہے۔ اس کی حیثیت اضافی اور الحاقی ہے، پتنگ میں لگی پونچھ کی طرح۔ سیتا جی نے بن باس میں شری رام کا ساتھ دیا اور کشٹ سہاتھا۔ پھر بھی انھیں ہی اگنی پریکچھا دینی پڑی۔ لوک لاج سے مردوں کا واسطہ نہیں۔ مریاداؤں کا پالن عورتوں کو کرنا ہے۔ یہ کیسا سماجی انصاف ہے؟ خدایا! میعاد پوری نہیں ہوئی گندم خوری کی سزا کی؟

    خیالوں کی دھماچوکڑی سے اس کا سر آبلے کی طرح دکھنے لگا۔ اس نے اٹھ کر پانی پیا، سر میں تیل ڈال کے ملایا۔ پھر تکیہ سر کے اوپر رکھ کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔ راحت ملتے آنکھ لگ گئی۔

    ’’رفو! کیا حال بنا رکھا ہے؟‘‘

    ’’اماں! میری اماں! آپ زندہ ہیں؟‘‘

    رفعت ان سے لپٹ گئی۔ دوپٹے سے اماں کے بہتے آنسو کو پونچھتے ہوئے وہ بھی سبک پڑی۔

    ‘’بیٹی! تیری مصیبتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔‘‘

    پھر وہ اسے سینے سے لگاکر سسکتے ہوئے بولیں، ’’شادی میں کچھ بھی نہیں دے سکی تھی۔ اسے رکھ لو۔۔۔‘‘

    وہ شہانہ جوڑے دے کر بولیں،’’تو شروع سے ہی بےزبان ہے۔ غموں کو آنسو بناتی اور دوسروں کو سکھ بانٹتی رہی ہے۔ تیرے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ تیرا حق مارا جا رہا ہے۔ کب تک آنسوؤں سے تکیہ تر کرتی رہوگی؟ بیٹی! یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ بہت سہہ لیا تم نے۔ اب اور نہیں۔ تیرے ساتھ اﷲ اور ماں کی دعائیں ہیں۔۔۔‘‘

    وہ دروازہ کھول کرٹھہر گئیں۔ پھروہ مڑکے بولیں، ’’اپنے ابّا کی سدھ بدھ لے لیا کرنا۔‘‘ پھر وہ تیز قدموں سے نکل گئیں۔

    ’’نہیں، مجھے چھوڑکر مت جاؤ اماں! دلدل میں دھنستی جا رہی ہوں۔۔۔‘‘

    رفعت کی دلدوزچیخ سن کر شاکرہ بیگم بیٹیوں کے ساتھ کمرے میں پہنچ کر اسے وحشت زدہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔ وہ پلنگ پرسینے سے تکیہ لگائے سِسکیاں لے رہی تھی۔شاکر ہ بیگم آنسو پونچھتے ہوئے شفقت سے بولیں، ’’شام کے وقت چھت پر برے سایے کا بھی گزر ہوتا رہتا ہے۔ میں نے کئی بار منع کیا کہ۔۔۔‘‘

    پھر وہ بیٹیوں کو جانے کا اشارہ کرکے بولیں، ’’کوئی خاص بات نہیں ہے۔خواب میں ڈر گئی ہے۔ کمرہ بھی تو اندھیرا کر رکھا تھا۔‘‘

    تھوڑی دیر بعد وہ اٹھتے ہوئے بولیں، ’’حافظ صاحب سے پانی پڑھواکر منگواتی ہوں۔‘‘

    رفعت ان کا ہاتھ پکڑکے بولی، ‘’کچھ دیر اور ٹھہر جائیے۔۔۔‘‘

    شاکرہ بیگم کسمساکر بیٹھ گئیں۔

    ’’امّی! اب مجھے رہائی چاہئے۔۔۔‘‘ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

    شاکرہ بیگم چپ رہیں۔ ان کی چپی سے اکتاکروہ بولی، ’’شاید آپ کو معلوم نہیں؟ بھابھی کے ساتھ ان کا ناجائز رشتہ ہے۔مجھے کسی نے کہا نہیں۔ میں نے کئی بار دونوں کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا ہے۔ اب تو دونوں دیدہ دلیری پر اتر آئے ہیں۔ امی! پانی سر سے اوپر ہو گیا ہے۔۔۔‘‘

    وہ قطع کلام کرتے ہوئے بولیں، ’’یہ رشتہ تمھاری شادی کے قبل سے ہے۔‘‘

    ’’کیا کہہ رہی ہیں آپ؟‘‘ وہ ہکا بکا ہوکر انھیں ایک ٹک دیکھنے لگی۔

    ’’میں سچ کہہ رہی ہوں۔ سوچا تھا، تم پڑھی لکھی اور کماؤ ہو۔ خود ہی لگام لگا لوگی۔۔۔ اس فعل بد میں حلیم کا قصور کم ہے۔‘‘ ان کا لہجہ بےباک تھا۔

    ’’ماں کی ممتا ڈھال بن رہی ہے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے امی۔۔۔‘‘

    ’’تم سچ مچ سیدھی سادی اور نیک ہو۔ کھوٹ تم میں نہیں، میرا ہی سکہ کھوٹا ہے۔‘‘

    ’’مجھے پتا ہے، ابا تو بڑے نیک انسان تھے۔‘‘

    ‘’بیشک۔ جب تک زندہ رہے، ناموس کی چادر بےداغ رہی۔‘‘

    ’’یعنی ان کی موت کے بعد؟‘‘

    ’’دلہن! بیوگی سے بہتر موت ہے۔ بیوہ اس قدر بےسہارا، بےزبان اور بےوقعت ہو جاتی ہے، اس کا علم مجھے نہیں تھا۔۔۔‘‘

    ‘’ان دیکھی اور چیی سے ہی شہہ ملا ہوگا، یا پھر۔۔۔‘‘

    شاکرہ بیگم قطع کلام کرتے ہوئے بولیں، ’’ننگی اپنا کون ساستر چھپائے؟ بیٹی! اب تجھ سے کیا چھپارہ گیا ہے؟ میں سچ کہتی ہوں کہ غربت سے بڑی کوئی لعنت نہیں۔ہم پر بہت برے دن گزرے ہیں۔ تمھارے خسر تنگ دستی کے سبب خون تھوک تھوک کر مرے۔ ایک یگ کے بعد انھیں کی موت پرپُرسا دینے صابرہ آپا آئی تھیں۔ آتے ہی گھر کا سارا خرچ اٹھا لیا تھا۔چالیسواں کے بعد جب آپا جانے کو تیار ہوئیں تو نسرین انکار کرتے ہوئے بولی، اماں! خالہ کو چھوڑکر میں نہیں جاؤں گی۔ رو روکر یہ بھی جان دے دیں گی۔۔۔‘‘

    صابرہ آپا بولیں، ’’نسو بیٹا! تجھے چھوڑکر جانے میں ہمیں کوئی عذر نہیں۔ لیکن اس گھر میں جوان لڑکے بھی ہیں۔ لوگ باگ کے منہ بےلگام ہوتے ہیں۔‘‘

    انھوں نے اپنی مجبوری ظاہر کی تو مشاطہ خورشیدہ بولی،’’بہن! نکاحی بیٹی تو چھوڑکر جاسکتی ہو۔ سگی بہنوں کے درمیان رشتے میں جانچ پرکھ کیسا اور کیا لینا، کیا دینا۔ جب کہ دھن دولت اکلوتی نسرین بیگم ہی کاہے۔ لگا لو رشتے میں ایک گانٹھ اور۔ بن جاؤ سمدھن۔‘‘

    نسرین اٹھ کر کمرے میں چلی گئی، تب خورشیدہ بولی، ’’بڑی حیادار بچی ہے۔ شادی کی بات سن کر سرخ ہو گئی۔ چہرہ، نانامرحوم کی طرح نورانی اور رنگ، ناک نقشہ ہو بہو ماں کا پایا ہے۔ لاکھوں میں ایک ہے بٹیا۔ کہیں میری ہی نظر نہ لگ جائے، ماشااﷲ۔۔۔‘‘

    پھر وہ آپا سے مخاطب ہوئی، ’’بہن اسے ہی کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا۔۔۔‘‘

    صابرہ آپا قطع کلام کرتے ہوئے بولیں، ’’میں تو بیٹی والی ہوں نہ۔ شاکرہ راضی ہو جائے تو مجھے خوشی ہوگی۔‘‘

    ’’بیٹے سے توپوچھ لوں پہلے۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے اس وقت جان چھڑائی تھی۔

    عظیم اﷲ سے پوچھا تو مجھے لگا کہ وہ تیار ہی بیٹھا تھا۔ وہ افسردہ لہجے میں بولا، ’’ابا کے مرنے کے بعد ہی ہمارے دن پھرنے والے ہیں ورنہ خالہ اتنی رحم دل نہیں۔کبھی ہم لوگوں کی سدھ نہیں لی تھی۔‘‘

    پھر وہ تھوڑی دیر چپ رہ کر بولا، ‘’لگتا ہے خدا کو بھی یہ رشتہ منظور ہے۔ اماں ! اب تمھیں بھی آرام کی سخت ضرورت ہے۔ دن رات مرغی بکری میں لگی رہتی ہو۔ صحت بھی گرنے لگی ہے۔ آپ کی مشقّت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔‘‘

    بیٹی! مستقل دکھ جھیلتے رہنے سے آدمی کی عقل ماری جاتی ہے۔ سوچا تھا کہ بہن، بیٹی دے گی تو اس کے عیش و آرام کا بھی انتظام کرے گی۔میرے گھر کا نقشہ بدل جائےگا۔ سر پر لڑکیاں بیٹھی اور لڑکے بےروزگار ہیں۔ ان کا بھی بھلا ہوگا۔ اسی لالچ میں رضامند ہو گئی تھی۔

    پھر صابرہ آپا نے واپسی کا سفر ملتوی کیا۔ نوشے بھائی کو آدمی بھیج کر بلایا گیا اور سادگی سے نکاح ہوا۔ پھر نوشے بھائی نے اپنی نگرانی میں یہ مکان تعمیر کروا یا۔بیٹی! میں نے جیسا سوچا تھا، ویسا ہی ہوا۔مجھے بھی مرغی بکری کے جھمیلوں سے نجات مل گئی۔ غلہ پانی سے گھربھرا رہنے لگا۔ کھان پان اور رہن سہن میں بڑا فرق آ گیا۔ محلے میں بھی عزت بڑھ گئی۔

    اتفاق سے شادی کے بعد رمضان میں آپا کے گاؤں کی ایک فقیرن فطرہ زکوٰۃ مانگتی ہوئی آئی اور موقع نکال کر مجھے سے بولی، ’’اماں! آپ صاف دل کی سیدھی سادی عورت ہو۔سگی بہن فریب دے گئی۔ نسرین بی بی پیٹ گرا کر آئی تھی۔ عین وقت پر ماسٹر صاحب کی موت ان کے کام آئی۔ مجھے سب معلوم ہے، خورشیدہ کو ایک ہزار روپئے، پازیب اور ساڑی کپڑا دیا کیا گیا ہے۔ یقین نہ آئے تو خورشیدہ کو بلواکر میرے سامنے پوچھ لو، اماں! اس کی مجال کہ میرے سامنے مکر جائے۔ آمدورفت کا خرچہ مل جائے تو میں دائی کو بھی ساتھ لا سکتی ہوں اماں!‘‘

    خدا گواہ ہے، پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی تھی۔ حالات کا رخ بدل دینا میرے بس میں نہیں تھا۔ بھلا نگلی ہوئی مکھی کا کوئی اعلان کرتا ہے؟ میں نے اس کی خوب خاطردادی کی۔ رخصت کرتے وقت ایک ہزار روپئے اور نئے پرانے کپڑے دے کر تین بار بلند آواز میں اولاد کی قسم کھِلائی کہ وہ اس بات کو ہمیشہ کے لئے سینے میں دفن کر لےگی۔

    سال بھی پورا نہیں ہوا کہ میاں بیوی کے جھگڑے اور تو تو میں میں سے گھر کا سکون جاتا رہا۔ وہ بات بات پر میاں کو نکما نکھٹو کا طعنہ دینے لگی۔ بیٹی! مرد کی انا خرگوش کے کان کی طرح حساس ہوتی ہے۔ ایک دن عظیم اﷲ کی انا بیدار ہو گئی۔ وہ کلکتہ جانے کی تیاری کرنے لگا، تب اس نے کہا تھا، ’’خالی ہاتھ کلکتے جاکر ہاتھ ملتے گھر لوٹوگے۔ مرد بنتے ہو تو عرب جاؤ۔ میں گھر بیٹھے سارا انتظام کروا دوں گی۔۔۔‘‘

    بیٹی! غضب کی عورت ہے۔ اس نے سچ مچ میاں کو ہوائی جہاز پر چڑھاکر ہی دم لیا۔ میں نے سوچا کہ چلو اچھا ہی ہوا۔ آمدنی بڑھےگی اور گھر کا سکون بھی لوٹ آئےگا۔ لیکن یہ میری خوش گمانی ثابت ہوئی۔ عظیم کو گئے ابھی ہفتہ دس دن بھی نہیں گزرا تھا کہ منہ اندھیرے حلیم کو چورکی طرح بہو کے کمرے سے نکلتے ہوئے میں نے دیکھ لیا تھا۔ پہلے اشاروں سے کام لیا۔ پھر میں دبی زبان سے بیٹے کو ٹوکنے روکنے لگی۔ لیکن دھیرے دھیرے دونوں کی دیدہ دلیری بڑھنے لگی۔ میں بےچین رہنے لگی کہ بات کہیں آنگن کی دیوار پھاند نہ جائے۔ حلیم اﷲ کی شادی میں ہی مجھے مسئلے کا حل نظر آیا۔ لیکن بیٹی! تو بھی تو میاں کی گائے نکلی۔

    شاکرہ بیگم اتنا کہہ کے پلنگ سے اتر گئیں۔ پھر وہ دو قدم چل کر لوٹیں اور بہو کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولیں،’’ﷲ بڑا کارساز ہے۔ بس کچھ دن اور صبر کر لو۔ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ اﷲ تمھارا شوہر لوٹا دےگا۔۔۔‘‘

    ’’وہ کیسے۔۔۔؟‘‘ اس نے بےتابی سے پوچھا۔

    ’’وہ موبائل پر میاں کو حلیم اللہ کے لئے ویزا بھیجنے کا حکم دے رہی تھی۔ پاسپورٹ کے لئے تھانے سے سپاہی آکر اس بار سات سو روپئے لے گیا ہے۔‘‘

    شیشے پر منہ سے بھانپ نکال کر شاکرہ بیگم آنچل سے عینک صاف کرنے لگیں، تب رفعت نے پوچھا، ’’آپ اسی بنیاد پر کہہ رہی ہیں؟‘‘

    ’’نہیں۔ایک وجہ اور ہے۔۔۔‘‘

    اس نے بے تابی سے ان کا ہاتھ پکڑکے پوچھا، ’’جلدی سے بتائیے نہ۔۔۔‘‘

    ’’ایک رات جب وہ فاحشہ رفع حاجت کے بہانے نکلی تھی، تب میں نے قدرت اﷲ کو بلی کی طرح پنجوں کے بل چل کر اس بدکار کے کمرے میں گھستے ہوئے دیکھ لیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیز قدموں سے باہر نکل گئیں۔

    رفعت بت سی پلنگ پر بیٹھی رہی۔ اچانک اسے شدید گھٹن کا احساس ہوا۔ اس نے جسم سے الجھے دوپٹے کو نوچ کر تکیے پر رکھا۔ پھر وہ کھڑکی کے سلاخوں کو پکڑکے صبح اختر کا انتظار کرنے لگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے