Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جنم جہنم-۳

محمد حمید شاہد

جنم جہنم-۳

محمد حمید شاہد

MORE BYمحمد حمید شاہد

    اور وہ کہ جس کے چہرے پر تھوک کی ایک اور تہہ جم گئی تھی۔

    اُس کی سماعتوں سے تھوک کر چلی جانے والی کے قہقہوں کی گونج اَبھی تک ٹکرا رہی تھی

    وہ اُٹھا۔ بڑ بڑایا۔

    ’’جہنم۔ لعنت‘‘

    پھر اَپنے وجود پر نظر ڈالی اور لڑکھڑا کر گر گیا۔

    اب نگاہ اوپر کی تو نظر میں کوئی بھی نہ تھا‘ جو سما رہا ہو

    وہ خالی پن سے گھبرا اُٹھا

    مٹی مٹھیوں میں بھر لی اور ہوا کے رُخ پر اُچھال دِی۔۔۔ ساری مٹی ہوا نے واپس اُسی پر بکھیر دی۔

    مٹی۔مٹی پر بکھر گئی۔وہ منمنا یا۔

    ’’اگر یہ مٹی ہے اور میں بھی ہوں تو حقیقت کیا ہے۔‘‘

    مٹی کا جواب تھا۔

    ’’شونیتا‘‘۔

    شَونیتااس نے دہرایا

    ’’مٹی ہمیشہ سچ کہتی ہے۔ یہ جو شونیتا ہے نا!۔ یہ حقیقت کا اصل الاصول ہے۔ منہتائے دانش‘ کلی حقیقت۔ تتھتا اور آخرکار نروان۔‘‘

    تو کیا یہ سب کچھ واہمہ ہے‘ دھوکہ ہییہ صوت‘ یہ نگاہ‘ یہ جذبوں سے لبالب بھر جانا‘ یہ قہقہے‘ یہ آنسوؤں کا امنڈ آنا اور اور

    ’’یہ تو نردبان ہے۔‘‘

    وہ مباحثے پر اُتر آیا‘ کہی باتوں کو سوال کی صورت لوٹانے لگا۔ نردبان؟

    ’’دیکھو جس منزل کے تم متلاشی ہو اُس کا جاپ شونیہ ہے۔‘‘

    خاموش ہو جاؤ خود میں اُترو اور اِنسانی بقا کے گہرے رازوں کی کھوج میں نکل جاؤ ورنہ تم اَپوہ کے اسیر ہو جاؤ گے۔‘‘

    وہ رہ نہ سکا۔ اَپوہ؟۔

    ’’محدود ہوتا ہے۔ اتنا کہ جتنا دوسرے کو رد کرنے سے جگہ بنا پاتا ہے۔‘‘

    وہ حیرت سے اسے دیکھتا رہا۔

    ’’یہ جو میں ہوں نا!۔ یہ میں اس لیے ہوں کہ میں تُو نہیں ۔

    اور یہ جو تُو ہے نا۔تُو اس لیے ہے کہ تُو میں نہیں۔

    جب تجھ سے دوسرے سارے نفی ہو جائیں گے تو فقط تو ہوگا۔ تب آنند کی کھلی بانہیں تمہیں آغوش میں لے لیں گی۔‘‘

    آنند؟۔

    ’’ہاں آنند۔ اور یہ جو آنند ہوتا ہے نا!۔ یہی رَس ہے۔ اور یہ جو رَس ہوتا ہے نا یہی آنند ہے‘‘

    تب اُس نے اس کی بابت سوچا جو رَس کی طلب میں زِیست کی نئی شاہ راہ پر نکل کھڑی ہوئی تھی اور خود کو سوچا کہ آنند پانے کو اُسے دیکھا تھا تو آنکھ میں وہ بھر گئی تھی جو منظر بننے کی خواہش سے وراء الوراء تھی۔

    پھر ایک اور نگاہ اَپنے وجود پر ڈالی جو رَس بھوگ سے بھوگنا چاہتا تھا مگر آنکھوں میں مٹی کی رَڑَک تھی۔

    اُسے یاد آیا۔ کہ وہ جو خودبخود نظر میں بھر گئی تھی پہلے پہل آئی تھی تو مَدَن مد تھی۔ جگر جگر کرتی۔ لشکارے مارتی چکا چوند کرتی۔ مگر اب وہ شو نیہ ہی شونیہ تھی۔

    بیچ کی ساری منزلوں سے وہ بےخبر تھا۔

    ’’بیچ کی منزلیں جان لو گے نا!۔ تو بھے کا شکار ہو جاؤ گے۔ ان منزلوں سے گزرنے والے تو ان جانے میں گزر جاتے ہیں‘‘

    اَن جانے میں؟

    ’’ہاں اَن جانے میں

    رتی کے سہارے‘۔۔۔ شوک سہتے ہوئے‘ ۔۔۔بغیر کسی کُرودھ کے‘۔۔۔ بغیر کسی بھے کے‘۔۔۔بغیر کسی جگپسا کے

    کہ اس راہ میں وسمے ہی وَسمے ہے۔‘‘

    وسمے۔؟

    ’’ہاں اِستعجاب کے فلک سے تحّیر کا برستا ہوا جَل۔ اور آدمی اس سے بھیگ بھِیگ جاتا ہے تم بھی بھیگ گئے ہونا!‘‘

    پھر اس نے دیکھا اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبالب تھیں۔

    وہ ‘وہاں پہنچا جہاں وہ تھی جسے نہ دیکھنے کی خواہش تھی نہ دیکھے جانے کی اشتہا۔

    تم اس منزل تک کیسی پہنچ گئیں؟

    تمہارے طفیل۔ تم نے میری تکفیر کی اور میں خود کو بھول گئی۔ جب مجھے اَپنی نیستی کا یقین ہو گیا تو میں ان لعنتوں سے چھٹکارا پا گئی جن میں اب تم لتھڑے ہوے ہو۔

    اب تم جہاں ہو وہاں کی بابت کچھ بتاؤ؟

    دیکھو! میں جب ہوں ہی نہیں تو اَپنی بابت کیا بتاؤں؟

    اور یہ جو تم میرے مقابل ہو۔

    یہ میں نہیں اس کا پر تو ہے ہاں جو ہے۔ مگر نہیں ہے۔

    کیا کہتی ہو؟۔ جو ہے۔ مگر نہیں ہے۔ اور یہ جو تم ہو اور یہ جو میں ہوں او ر یہ جو زیست کی لمبی شاہ راہ ہے۔ اور اس پر بھاگتی قہقہے لگاتی وہ ہے‘ جو نظر کی طلب میں منظر بن گئی تھی اور یہ جو نظارے ہیں اور یہ جو نظر ہے

    وہ ہنسی کچھ بھی نہیں ہے بس لعنت ہی لعنت ہے۔

    یہ جنم بھی۔ اور اس کے علائق بھیسب لعنت ہی لعنت ہے

    وہ بڑ بڑایا۔ لعنت؟

    پھر بھاگتا ہوا آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔۔ اور تاڑ تاڑ تھپڑ اپنے ہی منھ پر یوں رسید کرنے لگا جیسے جہنم کے بھڑکتے شعلے بجھا رہا ہو۔

    پھر چیخا لعنت ۔لعنت

    تب اس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیئے

    اور ہونٹوں سے اس کے زخمی گالوں کو چوما۔

    اور پوروں سے اس کے آنسوؤں کو صاف کیا۔

    اور اسے دیکھا۔

    اور جب اُسے دیکھا تو وہ اس کی آنکھ میں گر گئی اور ساری کی ساری بھیگ گئی۔

    بھیگ گئی اور بہہ گئی۔

    بہہ گئی اور ڈوب گئی۔

    تب اس کے اندر اسی کی ہستی اُتر آئی۔

    وہ مچل اُٹھی اور چیخ کر کہا۔

    ’’یہ جو لعنت کی کٹاری کی تیز دھار ہے نا! ۔ بالآخر یہی تو بندے کا مقدّر ہے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے