Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کڑی دھوپ کا سفر

صغیر افراہیم

کڑی دھوپ کا سفر

صغیر افراہیم

MORE BYصغیر افراہیم

    سبھی کے دل دھڑک رہے تھے۔ برات آنے میں دو گھنٹے باقی تھے۔ دادی نے تمام رات مصلے پر گزار دی تھی۔ امی کو کسی بات کی سدھ بدھ نہ تھی۔ ابو اور اشرف کے ہاتھ پاؤ ں پھولے ہوئے تھے۔ سب کام میں مصروف تھے مگر سب کے دل سہمے ہوئے تھے۔ خدا کر ے سب ٹھیک رہے اور حمیراخوشی خوشی رخصت ہو جائے۔ اﷲاﷲ کر کے بارات آئی، نکاح ہوا اور پھر کھانے کے بعد رخصت کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ دو لہا زنان خانہ میں سلامی کے لیے حاضر ہوا۔ لڑکیوں نے نوشہ میاں سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ حمیرا سرخ جوڑ ے میں سمٹی ہوئی بیٹھی تھی۔ اسلم نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔ گول چہرہ، چمپئی رنگت، اونچی ستواں ناک اور مہین لبوں نے دل و ماغ کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ فوٹوگرافر کے کہنے پر حمیرانے ایک پل کے لیے پلکوں کو اٹھا یا تو اسلم خمار آلود آنکھوں کی مستی میں سب کچھ بھول گیا۔ ارد گرد کے ماحول سے غافل وہ ٹکٹکی باندھے حمیرا کو دیکھ رہا تھا۔ چہ مہ گوئیاں فلک شگاف قہقہوں میں تبدیل ہونے لگیں تو اسلم چونک گیا۔ باہر آنے کے بعد بھی اُس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ ڈھیر سارا جہیز دونوں بسوں کی چھتوں پر لادا جا رہا تھا۔ پھولوں سے لدی کارپورٹیکو میں لائی گئی۔ مرا ثنوں نے بدائی گیت شروع کیا۔ حمیرا کابڑا بھائی اشرف بہن کے سر پر قرآن حکیم کا سایہ کرتا ہوا آنگن سے پور ٹیکو کی طرف بڑھا۔ ملازمہ حمیرا کے بھاری زربفت کے غرارہ کو تھامے ہو ئے ہولے ہولے چل رہی تھی۔ آنگن پار کر تے ہی دیر سے ضبط کیے آنسو ابل پڑے اور پھر ایک ایک کرکے خالائیں پھوپھیاں، بہنیں حمیرا سے لپٹ لپٹ کر رونے لگیں۔ اچانک حمیرا کے چہرے پر تبسم رقص کرنے لگا۔ وہ زور زور سے ہنسنے لگی اور بےتحاشا ہنستے ہنستے وہ اچانک گری اور بےہوش ہو گئی۔ گھر کی عورتوں نے اسے سخت نرغے میں لے لیا تھا۔۔۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ برات میں آ ئی عورتیں اس صورت حال سے گھبرا گئیں۔ باہر مرد ایک دوسرے کا منھ تک رہے تھے۔ میزبان انھیں دلاسہ دے رہے تھے۔ دلہن ہوش میں آ گئی کی صدا نے سکتہ کے عالم کو توڑا۔ والد افضل علی نے اس کو نیم غشی کی حالت میں کار میں داخل کیا۔ ایک جانب ملازمہ اور دوسری طرف نفیسہ خالہ بیٹھ گئیں۔ افضل علی اور دوسرے بزرگوں نے براتیوں سے کہا۔ دیر کر نے کی ضروت نہیں۔ حمیرا کھلی فضا میں ٹھیک ہو جائےگی۔ آپ لوگوں کو ڈیڑھ سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا ہے لہٰذا بسمہ اﷲ۔

    اسلم کار کا درواز کھول کر ڈرائیور کے پاس بیٹھ گیا۔ کار کے پیچھے دونوں بسیں روانہ ہوئیں۔ اس کا ذہن دور خلا میں گھور رہا تھا۔ سڑک پر پھیلی ہوئی روشنی سمٹتی جا رہی تھی۔ فضا میں شفق کی سرخی نے مانگ بھرنی شروع کی اور بڑھنے والی تار یکی کو کار کی ہیڈلائٹس نے دور کرنا شروع کر دیا۔ اسلم نے محسوس کیا کہ حمیرا اب ٹھیک ٹھاک ہے۔ اس کے ذہن پر چھائی دُھند چھٹنے لگی اور ساس اور نندوں سے جن کے تیوروں پر بل پڑے ہوئے تھے کہا۔ حمیرا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے بہتر ہوگا اسے آرام کرنے دیا جائے۔

    تیسرے دن حمیرا، اسلم کے ساتھ میکے واپس آ گئی اشرف علی نے بہن بہنوئی کے لئے شہر سے دور گا ؤں کے چھوٹے سے مکان کو آراستہ کیا تاکہ وہ لو گ پورا ہفتہ آرام و اطمینان سے گزار سکیں۔ گاؤں کے سرسبز شاداب اور پرسکون ماحول میں کب ایک ہفتہ گزرا اسلم کو پتہ بھی نہ چل سکا۔ سبھی کے اصرار پر وہ دو دن اور رک سکا۔ دسویں دن اپنی دلہن کے ساتھ واپس فتح پور آ گیا اور پھر چار دن ٹھہر کر دہلی روانہ ہو گیا کیونکہ اگلے دن مسقط کے لئے اس کی فلا ئٹ تھی۔ جانے سے قبل اس نے حمیرا کے پا سپورٹ کی درخواست دے دی تھی اور اس وعدے کے ساتھ حمیرا سے رخصت ہو ا تھا کہ اسے جلد ہی بلا لےگا۔

    اسلم کی جدائی کے شب و روز نے حمیرا کو بےقرار کر دیا۔ اس کے والد افضل علی اسے لینے آئے تو سسرال والوں نے منع کر دیا کہ ابھی بہو کو کچھ دنوں رہنے دیجیے پھر پہنچا دیا جائےگا۔ باپ کی واپسی کے بعد حمیرا کی گھبراہٹ نے وحشت کا روپ اختیار کر لیا۔ گھنٹوں گم صم رہنا۔ رونا چلانا اور پھر بیہوش ہو جانا اس کا معمول بن گیا۔ اسلم کے محبت بھرے خط مداوا ثابت ہوتے۔ جبکہ اسلم کو اس کی بہنوں نے لکھا، بھیا ہمیں دھوکا دیا گیا ہے۔ ایک پا گل لڑکی کو سر باندھ دیا گیا۔ ماں نے شکا یتوں کا دفتر کھولتے ہوئے لکھا کہ ہم نے افضل علی کے بےدا غ خاندان اور حمیرا کی صورت وشکل کو دیکھتے ہوئے فوراََ حامی بھرلی تھی۔ خبر کیا تھی کہ ہمار ے ساتھ فریب کیا جا رہا ہے۔ سارا شہر جا نتا تھا کہ حمیرا پر تیرہ چودہ سال کی عمر سے دورے پڑتے ہیں۔ مگر کسی نے نہیں بتایا۔ پھر ہماری عقلوں پر بھی پتھر پڑے تھے کہ ادھر ادھر معلوم کر نے کے بجائے پٹ حامی بھر لی، یہ سوچ کر کہ تمھیں پر دیس جانا ہے۔ جانے سے پہلے تمہارے سر پر سہرا دیکھ لیں۔ پر بیٹا اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے ہم تمہارے لیے اس سے بھی اچھی اور بڑے گھر کی بیٹی لے آئیں گے۔ اسلم ماں بہنوں کے خطوط پڑھ کر بوکھلا گیا جیسے۔ اب دوسری شادی کا توسوال ہی نہیں اٹھتا۔ حمیرا جیسی بھی ہے اب وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا پھر اس کے آنے تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا۔ وہ فوری چھٹی لے کر گھر آیا تو ما ں نے بتایا کہ ہم نے اس دیوانی اور خبطی لڑکی کو اس کے گھر بھیج دیا ہے۔ اب وہ چھٹکارے کی تلقین کر رہی تھیں اور اسلم گہری سوچ میں ڈوبا ہو ا تھا۔رات اس نے کروٹوں میں گزار دی۔ علی الصباح سسرال روانہ ہو گیا۔ حویلی میں داخل ہوتے ہی سب کے چہرے کھِل گئے۔ حمیرہ دیر تک اسلم کو ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی۔ لبوں کو جنبش ہوئی مگر آواز بلند نہ ہو سکی۔ اس کی کیفیت پر اسلم دل مسوس کر رہ گیا۔ شاداب چہرہ مرجھا گیا تھا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے دور سے نظر آ رہے تھے۔ وہ برسوں کی بیمار لگ رہی تھی۔

    اسلم کو آئے ہوئے پانچ دن ہو چکے تھے۔ یہ پانچ دن اس نے چپ چاپ حمیرا کی تیمارداری میں گزار دیے۔ چھٹے دن اس نے حمیرا کو لے جانے کی اجازت چاہی سبھی فکرمند ہو گئے مگر حالات کے پیش نظر کچھ کہنے کی ہمت نہ کر سکے۔ اسلم اپنے گھر نہ جا کر سیدھا دہلی گیا اور وہاں سے مسقط کے لئے روانہ ہو گیا اور پھر پلٹ کر خبر نہ لی۔ دونوں گھروں میں ہلچل مچ گئی۔ خط و کتا بت کے ذریعے منت سماجت معافی تلافی ہوئی مگر اسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    اس طرح تین سال بیت گئے۔ عیدالفطر کے دن اچانک اسلم سلام کرتا ہوا گھر میں داخل ہو ا۔ سبھی اس کی صورت دیکھ کر ہکا بکا ہو گئے۔ ابھی حیرت کا طلسم ٹوٹا بھی نہ تھا کہ پیچھے سے مسکراتی ہوئی حمیرا ڈیوڑھی میں داخل ہوئی۔ جس کی گود میں نہایت ہی خوبصورت بچہ تھا۔ دونوں کی آمد نے عید کی خوشیوں کو دوبالا کر دیا تھا۔ حمیرا اب بالکل نارمل تھی۔ دور آسمان گھٹا ٹوپ سیاہ بادلوں کے درمیان سے سورج آہستہ آہستہ نمودار ہو رہا ہے جس کے ہونٹون پر ارم کی معصوم مسکراہٹ اور اسلم کی شیریں قربت حمیرا دیکھ رہی ہے اور باغِ محبت کی اس نرم چھاؤں تلے جیسے کڑی دھوپ کا سفر اب ختم ہو چکا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے