Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کرم سنگھ

MORE BYفیروز ناطق خسرو

    میں کرم دین (کرمو) کی قبر کے سہارے ٹیک لگائے ماضی کے دھندلکوں میں نجانے کیا تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

    ہند و پاک کی تقسیم سے قبل میں اور کرم سنگھ ایک ہی گاؤں میں رہتے تھے۔۔۔ پنجاب کا یہ چھوٹا سا گاؤں ہماری جنت تھا۔ بچپن لڑکپن اور جوانی کی سنہری یادیں آج بھی میرا سرمایۂ حیات ہیں۔

    وہ کون سا کھیل یا شرارت تھی جس میں ہم دونوں ایک ساتھ شامل نہ ہوئے ہوں۔۔۔ تالاب میں گرمیوں کے موسم میں گھر والوں کی نظروں سے بچ کر ڈبکیا ں لگانا۔۔۔ کسی آوارہ گدھے کو پکڑکر سوار ی کرنا۔۔۔ کٹی پتنگوں کو لوٹنا اور سب سے بڑھ کے آس پڑوس کے دیہاتوں میں کشتی کے مقابلوں میں جیتنے کے بعد جلوس کی شکل میں اپنے گاؤں واپس ہونا۔۔۔ سارا گاؤں ہی ہمارے استقبال کو امنڈ آتا۔۔۔ ہم دونوں ہی اچھے قد کاٹھ کے تھے، اوپر سے بے فکری کی زندگی۔۔۔ اپنی زمینیں اور باپ دادا کی بنائی ہوئی ساکھ۔ غرض راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔

    کرمو تھا تو سکھ لیکن میرے ساتھ محرم کے جلوسوں، نعت کی محفلوں اور بزرگوں کے مزاروں پر پابندی سے حاضری دیتا تھا۔۔ اسے دھمال ڈالنے کا بھی بہت شوق تھا۔ مزاروں پر موالیوں کے ساتھ اس خوبی سے دھمال ڈالتا کہ لوگ اس کے ہاتھ چومنے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے لگتے۔۔۔ پتہ نہیں اس پر وہ جذب و کیف کی کیفیت اصلی وہوتی تھی یا بناوٹی۔ دھمال کے وقت اس کے شانوں تک آئے کھیس ہوا میں لہراتے، منہہ سے اللہ ہو اللہ ہو کی آواز دیکھنے سننے والوں کو بھی اُسی رنگ میں رنگ دیتی۔

    ایک سکھ کا دھمال ڈالنا اور اللہ ہو کی متاثر کن صدا بلند کرنا لوگوں کی آنکھوں میں عقیدت کے آنسو لے آتا تھا، دھمال کا اختتام کرمو کے بےسدھ ہوکر گر پڑنے پر ہوتا تھا۔۔۔ اس وقت لوگوں کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔۔۔ کوئی کرمو کے ہاتھ چومتا تو کوئی آنکھوں سے لگاتا۔

    وقت پر لگا کر اڑتا چلا گیا، ہم ایک دوسرے کی دوستی کے نشہ میں سرشار اس وقت چونکے جب برصغیر پاک و ہند کی تقسیم نے ایک خونی لکیر ہم دونوں کے درمیان کھینچ دی۔۔۔ کرمو راتوں رات اپنے خاندان کے ساتھ سرحد پار چلا گیا۔ ہمارا گاؤں پاکستان میں شامل ہو گیا۔

    ایک عرصے تک کرمو کی کوئی خیر خبر نہ ملی۔ کسی واقف کار سے صرف اتنا پتا چلا تھا کہ وہ دھمال ڈالنے والا سکھ صرف اکیلا سرحد پار کرتے دیکھا گیا تھا۔

    کل جب مجھے اپنے موبائل فون پر اچانک ایک مانوس آواز سنائی دی تو یقین نہ آیا۔ میرا جگری یار کرمو، برسوں بعد مجھ سے مخاطب تھا۔ نجانے کہاں سے اس نے میرا فون نمبر حاصل کیا۔

    تھا۔ ایئرپورٹ سے سیدھا وہ میرے پاس آیا۔۔۔ وہ کرمو جو کشتیوں میں پہلوانوں کو پچھاڑا کرتا تھا اب پہچان میں نہیں آ رہا تھا۔۔۔ اسے جگر کا کینسرتھا۔ماں باپ، بھائی بہن سب جشن آزادی کے کینسر کا شکار ہو گئے تھے اور وہ اکیلا خون تھوکنے رہ گیا تھا۔ بقول کرمو کے یہ اس کی زندگی کا آخری دن تھا۔ کینسر کاشکار میرا یار کرمو اپنے اس آخری دن کو اپنے جگری یار کے ساتھ گزارنے چلا آیا تھا۔

    کرمو کی خواہش پر ہم دونوں شہر سے اپنے آبائی گاؤں پہنچے، وہاں بہت کچھ بدل چکا تھا، لیکن گاؤں کے آخری سرے پر پیپل کا وہ گھنا درخت آج بھی اسی طرح قائم و دائم تھا۔ وہ پیپل کا درخت جس کی گھنی چھاؤں تلے ہم گھنٹوں بیٹھے دنیا جہان کی باتیں کیا کرتے۔

    کرمو کو نجانے کیا سوجھی، باتیں کرتے کرتے وہ اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور میرے منع کرتے کرتے وہ دھمال ڈالنے لگا۔۔۔ اس کے کھیس ہوا میں لہرارہے تھے، منہہ سے اللہ ہو اللہ ہو کی آوازیں بلند ہو رہیں تھا، وہ کہیں سے بھی جگر کے کینسر کا مریض نہیں لگ رہا تھا، جیسے جسے اللہ ہو کی آوازیں بلند ہوتی گئیں اس کے دھمال میں تیزی آتی گئی۔ یکایک وہ ایک طرف کو جھول گیا، اس سے پہلے کہ وہ زمین پر گرتا میں نے تیزی سے اٹھ کر اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اس کے منہ سے بے ربط سے جملے نکل رہے تھے۔ میں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی، اس کی زبان لاالہٰ اﷲ کا ورد کر رہی تھی۔ جگر کے کینسر کا شکار اپنے جگری یار کی بانہوں میں اپنی زندگی کے آخری دن کا سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے کرم سنگھ (کرمو) سے کرم دین (کرمو) بن چکا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے