Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خالی پٹاریوں کا مداری

اقبال متین

خالی پٹاریوں کا مداری

اقبال متین

MORE BYاقبال متین

    اگر وہ مجھے پیچھے سے پکار لیتا۔۔۔ ابا

    تو بھی کیا میں پل بھر کو اس کے لیے ٹھہر سکتا تھا؟

    ’’آنسو مٹی میں گرے کہ دامن میں جذب ہو۔ پلکوں سے چھوٹنے کے بعد نہ کنکر ہے نہ موتی۔‘‘

    کیسی کیسی راحتیں تج کر عمر کی کشتی میں ڈولتے ہم کتنی مسافتیں طے کر لیتے ہیں۔ نہ پلٹ کر دیکھنے کی فرصت ہے نہ یاد ہی کر لینے کا یارا۔

    آج کوئی دامن پکڑ کر پوچھتا بھی تو نہیں جو شرم سے گردن جھک جائے اور کتنے ٹھسے سے میں گردن اٹھا کر چلتا ہوں۔ سرافراز، سر بلند۔ لیکن سچ پوچھو تو ہم کہاں کہاں جا کر اس بیسوا زندگی سے مصالحت کر لیتے ہیں۔

    راحت کی عمر ہوگی چودہ برس۔ بالی سی عمر، گڑیاں کھیلنے کے دن۔ کھ سوچے بغیر نیند کی آغوش میں اپنا آپا تج دینے کی راحتیں اور یہ لڑکی مجھے عمر کی اس منزل پر ملی جہاں ابھی ابھی میری مسیں بھگی تھیں اور اس کے لیے درخت پر چڑھ کر پکے شہتوتوں سے اس کا دامن بھر دینا میرے لیے فخر کی بات ہوتا۔

    اللہ یہ کچی کچی املیاں۔ راحت کا جی میرے ہوتے بھلا یوں ترس سکتا تھا۔

    پتھر اٹھا کر درخت پر دے مارا اور لدی امیاھں میں نے اس کے قدموں میں بکھیر دیں۔

    اور ہم نے کتنی ہی کچر کچر چبا کر تھوک ڈالیں۔

    برسات سے جل تھل ہوتے ہوئے میدان میں ایک دوسرے کو چھونے اور پکڑنے کے لیے بھاگنا او ر پھر ایک دوسرے کی دسترس سے بچنے کے لیے گھٹنوں گھٹنوں پانی میں اتر جانا۔۔۔ پانی کے چھینٹے اڑا کر کھیلنا اور پھر غور غور سے ایک دوسرے کے گیلے کپڑوں میں سے چھنتے ہوئے بدن کو جھانکنا۔

    پھر ہاتھ بڑھا کر اس کی لمبی لمبی گھنی سیاہ اور بھگی زلفوں کو اپنے ہاتھ پر لپیٹ لینا۔

    وہ گر رہی تھی اور جب میں نے اس کو پہلی بار سنبھالا تھا تو جسم کے کتنے ہی خطوط، کتنے ہی زاویے، کتنی ہی قوسیں میری آنکھوں میں بس کر رہ گئی تھیں۔

    سنبھلنے کے لیے مجھ سے چمٹی ہوئی جب وہ کنارے تک پہنچی تو گویا وہ بھی بہت دور نکل آئی تھی۔ میں بھی بہت دور اسے لے آیا تھا اور اب میں اسے راحت کے بجائے رات پکارنے لگا تھا۔

    اب میں اس کی گڑیوں کے گھروندوں تک جا پہنچا تھا۔ اس کی ان پٹاریوں تک جا پہنچا تھا جن میں جانے کیا الم غلم وہ سو سو جتن سے چھپائے رکھتی تھی۔

    پھر جیسے سب کو چھوڑ کر اس نے گھروندوں میں۔۔۔ مجھے بسا لیا۔۔۔ ان پٹاریوں میں مجھے چھپا لیا۔

    کرکٹ کا بلا گھما کر جب میں نے گیند پر بہت زور سے ہٹ لگائی تو یہ گیند مٹی کے اس گھروندے کو توڑ کر نکل گئی جو راحت نے بڑے چاؤ سے بنایا تھا۔

    لیکن اس نے کوئی پروا نہیں کی، نہ ہی میرا دل دکھا۔

    میں ڈر کر اس کے قریب گیا۔ گیند کو میں نے پرے پھینک دیا تو ہم دونوں مل کر دوسرا گھروندا بنانے میں منہمک ہو گئے۔

    گھروندے بناتے، مجھے ان میں بساتے، پٹاریوں میں پہلے میرے تحفے پتھر جیسے خود مجھے چھپاتے، مری چو مکھی گیند کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوتے، جب وہ گھٹنوں گھٹنوں پانی میں اتر گئی تو میں نے گرا گراکر سنبھالتے ہوئے کنارے پر لا کر اس سے پوچھا ایک بالکل نیا کھیل کھیلوگی؟

    اور وہ شرما گئی۔

    پھر میں نے زیادہ چاؤ سے شہتوت اس کے دامن میں بکھیر دیے۔

    کچی کچی امیو ں کی بونگیں اس کے منھ میں ٹھونسیں تو اس نے زیادہ مزے لے لے کر کچر کچر چبا ڈالیں۔ہم نے یہ نیا کھیل جاری رکھا۔ اس کی آنکھوں کے راستہ میں اس کے دل میں اترتا گیا۔ پھر اس کے بدن ہی کا ایک حصہ ہوکر رہ گیا۔ کہتے ہیں حوا آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی تھی۔

    اپنی چھوٹی سی عمر کی مختصر سی پونی لے کر وہ جتنی تیزی سے میری زندگی میں داخل ہوئی اتنی ہی تیزی سے اپنا سب کچھ مجھ پر نچھاور کر کے مجھ سے جدا بھی ہو گئی۔

    جب وہ اپنا سب کچھ مجھ پر لٹا رہی تھی، اس وقت نہ ہی میں نے جنم جنم کے لیے اس کا ہو رہنے کی قسمیں کھائیں، نہ اس کا ہاتھ تھام کر اس کو یقین دلایا کہ اب اسی طرح اس کے قدم بہ قدم زندگی کا سفر پورا کر لوں گا۔

    ہمارے بنگلے کے پیچھے ایک عالی شان محل تھا جس کے احاطے میں ایک خوبصورت سا چمن تھا جو اپنی رعنائی آہستہ آہستہ کھو رہا تھا، اس محل کے ایک حصے میں راحت اور اس کی ماں رہتے تھے۔ بنگلے کا تین چوتھائی حصہ مقفل تھا۔احاطے کے باغ میں جو بیرونی کمرے بنے ہوئے تھے ان میں ایک مالی ایک مالن اور اس کے بچے رہتے تھے۔ چمن کی دیکھ بھال اور راحت اور ا سکی ماں کے احکام کی تمیل ان کے ذمہ تھی۔ اس کی ماں اسی بڑے گھرانے کی پروردہ تھی۔ گھر کی بیگم صاحبہ کو خوش کرنا۔ اپنی الٹی سیدھی باتوں سے ان کا دل بہلانا۔ اداس ہوں تو ہنسانا۔ ہنس رہی ہوں تو قہقہے لگوانا۔ قہقہے لگائے جائیں تو عمر بھر خوش رہنے کی دعائیں مانگنا۔ بس یہی کبھی اس کے فرائض تھے لیکن اب وہ بیگم صاحبہ رہ گئی تھیں، نہ ان کو ہنسانے کے جتن کرنے والے۔ راحت کی ماں بھی اپنی دی ہوئی دعاؤں میں تاثیر ڈھونڈتی رہ گئی اور آہستہ آہستہ جاگر یں ضبط ہو گئیں۔

    راحت کی ماں نے بھی اچھے دن دیکھے تھے۔ ان کے میاں صاحب کے مصاحب تھے اور تھیں بیگم صاحب کی منھ چڑھی۔ راحت کے ابا کو اللہ کو پیارے ہوئے کوئی تین سال ہو گئے تھے۔ صاحب اور بیگم صاحبہ کے وہ دن نہ رہے تھے کہ انھیں خوش رہنے کی دعائیں دی جا سکتیں۔

    راحت کی ماں کو ماہ بہ ماہ پنشن برابر ملتی تھی۔ جاگیروں کی ضبطی کے بعد حکومت نے ان وظائف کو یک لخت مسدود نہیں کیا تھا جو پہلے ہی سے منظور تھے۔سو انھیں ماہ بہ ماہ پنشن مل جاتی۔ اس کے علاوہ ضلع بھر میں راحت ہیرآئیل بہت مرغوب ہو گیا تھا۔ راحت کی ماں نے اپنی لاڈلی ہی کے نام سے جب یہ چھوٹا سا کاروبار شروع کیا تو اسے کافی منافع ہوا اور واقعی ضلع بھر میں راحت ہیرآئل گھر گھر میں تھا۔ ہمارے گھر نہ صرف امی وہی لگاتی تھیں بلکہ تحفے کے طور پر ہمارے چند رشتہ داروں کو جب انھوں نے شاشیں شہر بھجوائیں تو پھر ہر ماہ بھجوانے کا انتظام بھی انھیں کرنا پڑا۔

    راحت کی ماں کہتی تھیں کہ شیشووں کے لیبل پر جس لڑکی کی تصویر ہے، وہ راحت ہی کی ہے۔

    یہ دعویٰ نہ کبھی میری سمجھ میں آیا، نہ ہی میں نے کبھی اس کو سمجھنے کی کوشش کی۔

    ہیر آئل کی تصویر میں اگر کوئی چیز راحت سے مشابہ تھی تو بس لمبی لیکی زلفیں تھیں۔ چہرہ تو بالکل جدا تھا۔ اچھی خاصی بھر پور عورت کا۔ لیکن مجھے ان تصویروں سے بھلا لینا دینا ہی کیا تھا۔ میں تو راحت کی ان لمبی لمبی گھنی زلفوں میں منھ چھپا کر جو راحت ہیرآئل سے معطر رہتیں، اس سے کہا کرتا۔

    ’’تم خدا کے لیے یہ تیل مت لگایا کرو رات۔ تمہاری زلفوں میں جب منھ چھپاتا ہوں تو تمہارا یہ تیل میرے گالوں پر، میرے سارے چہرے پر لگ جاتا ہے۔ سوچو تو بھلا اگر میرے چہرے پر یہ لمبے لمبے بال اگ آئیں۔۔۔ پھر تو تم ہی ڈر کر میرے قریب نہیں آؤ گی۔ تب میں کیسا اکیلا اکیلا پھروں گا۔ بن رات کا چند اکہیں بھایا ہے۔‘‘ اور اس کی زلفوں میں منھ چھپا کر میں ریچھ، بن بن کر اسے ڈراتا، گدگداتا اور وہ اپنے لمبے لمبے بالوں سے میرے ہاتھ ملا کر انھیں زنجیر کر دیتی۔

    کیسے کیسے کھیل اس مختصر مدت میں ہم نے رچا ڈالے۔ اپنا دامن پھیلائے وہ میرے ساتھ ساتھ چلتی رہی اور میں نے بغیچے کے سب ہی شاداب اور رنگین پھول توڑ ڈالے اور اس کا دامن بھر دیا۔ ان پھولوں کا اس نے جب ہار بنا کر مجھے پہنانا چاہا تو میں نے جھپٹ کر اس سے ہار چھین لیا اور اس کی لمبی سیاہ راتوں جیسی زلفوں میں گوند کر جیسے ستارے ٹانک دیے۔

    پھر انہی سیاہ راتوں میں چھپ چھپ کر انھیں ستاروں کی چھاؤں میں میں کتنی ہی بار اس کا ہو گیا اور وہ میری۔ ایک دن اس نے سر جھکا کر مجھ سے کہا۔

    ’’مجھے ابکائیاں سی آتی ہیں۔ میراجی اوبتا رہتا ہے۔ مجھے وہ کچی املیاں توڑ دو نا۔‘‘ اس سے پہلے کہ میں پتھر لے کر لدے ہوئے املی کے درخت پر دے مارتا۔ میں نے راحت کا کرتا اٹھا کر اس کے پیٹ کو سہلایا۔ پھر جھک کر چٹا چٹ پیٹ کو چومنے لگا۔

    اس نے حیران ہو کر پوچھا۔۔۔’’یہ کیا کرتے ہو۔‘‘

    میں نے خوشی خوشی اس کی آنکھوں میں اترتے ہوئے کہا، ’’اس میں میرا بچہ ہے پگلی۔‘‘

    اس کی آنکھیں پل بھر کو جگنوؤں کی طرح چمک اٹھیں۔ پھر صرف اس کی زلفوں کی سا ہ رات رہ گئی اور آنکھوں کے جگنو جانے کہاں جا بسے۔

    میں ابھی خوش ہی تھا کہ وہ اس قدر اداس ہو گئی۔

    میرے سینے پر سر رکھ کر جب وہ سسکنے لگی تو سسکتے سسکتے اس نے پوچھا، ’’اب کیا ہوگا؟‘‘

    اور میں سوچنے لگا واقعی اب کیا ہو گا۔ میں تو اس قدر خوش ہو رہا تھا۔

    راحت کی آنکھوں میں بھی جگنو چمک اٹھے تھے۔ لیکن شاید یہ کوئی خوش ہونے کی بات ہی نہ تھی۔

    میں نے اس کو دلاسا دیا۔ جھوٹ موٹ تسلیاں دیں۔ بہلایا منایا اور جب وہ کچھ مسکرا سکی تو اس کو گدگداکر ہنسایا اور اپنی محبتیں جھوم جھوم کر اس پر نچھاور کیں۔

    میں سمجھ گیا تھا کہ میں اور راحت اب کچھ اور دنوں تک ایک دوسرے کے نشے میں چور نہ رہ سکیں گے۔ اب نہ میں اس کا دامن شہتوت سے بھر سکوں گا نہ چمن کے شاداب پھولوں سے اب نہ ڈھیر سی املیاں اس کے حکم پر مجھے توڑ لانا ہے نہ وہ اب میری بانہوں میں جھومتی ہوئی انھیں کچر کچر چبا کر تھوکتی رہےگی۔

    پانی برسا کرےگا۔ میدان بھی جل تھل ہوں گے۔ سوکھے ڈبرے پھر سے بھر جائیں گے۔ ہریالی دور دور تک مخمل کی طرح بچھی رہےگی۔ نبولیاں پکیں گی۔ خالی جھولا اس گھنے نیم کے پیڑ پر ہوا سے ہلکورے کھاتا رہ جائےگا۔۔۔ مینڈک سرشام ٹر ٹر کرنے لگیں گے۔ میں اکیلا گھر سے نکلوں گا تو راحت قدم قدم پر راستہ روکےگی۔ ہنستی دوڑتی اچھلتی بھاگتی مجھ سے چمٹی میری بانہوں میں جھولتی۔ میرے دونوں ہاتھوں کو اپنی زلفوں سے زنجیر کرتی، قہقہے لگاتی۔ پھر وہ ایک دم ٹھٹک کر رہ جائےگی۔ پھر اس کی آنکھوں میں جگنو دم بھر کو بھٹکیں گے۔ پھر وہ گردن جھکا کر اداس ہو جائےگی، پھر وہ سسکنے لگےگی۔ میں اپنے تصورات کی دنیا میں اس کو کب تک اٹھائے اٹھائے پھروں گا ایک دن، دو دن پھر میں بھی شہر چلا جاؤں گا۔

    دو دن گزر گئے۔ راحت نہیں آئی۔ جب میں سر شام اپنے مخصوص راستوں سے ہو کر اس کے گھر پہنچا تو اس کے باغیچے کے پھول رو رہے تھے۔۔۔ کانٹے ہنس رہے تھے۔ عمارت کے اس حصے میں جہاں وہ رہتی تھی، مالن دیا جلا کر رکھ رہی تھی۔ مالی نے مجھے بتایا راحت بی بی بہت بیمار ہو گئی تھی۔ اس کی ماں بہت پریشان تھی اس کو علاج کے لیے شہر لے گئے ہیں۔

    میں لوٹنے لگا تو راحت جیسے کرتہ اٹھائے اپنا ننگا پیٹ میرے سامنے لیے کھڑی تھی۔

    ’’اس کو چومو اس میں تمہارا بچہ ہے۔‘‘

    راحت کی ماں امی کی بڑی چہیتی تھی، اس کی خوش طبعی، اس کے آداب و تمیز، اس کے رکھ رکھاؤ کی امی دلدادہ تھیں۔ مجھے یقین تھا کہ اس نے امی سے کچھ نہ کچھ ضرور کہا ہوگا۔ میں نے کرید کرید کر امی سے پوچھنا چاہا لیکن انھیں تو اس کا بھی علم نہ تھا کہ راحت اور اس کی ماں شہر چلے گئے ہیں۔ بمشکل آٹھ دن گزرے ہوں گے کہ راحت کی شادی کے دعوت نامے ہمیں ملے۔ امی نے ٹیلی گرام کے ذریعہ راحت کی امی کو مبارکباد دی اور انھیں نیک تمنائیں بھیجیں۔

    میں چپکے سے اس کے باغیچے میں پہونچ کر بہت سا وقت وہاں گزار آیا۔

    کالج کھل گئے تو میں بھی داخلہ لینے کے لیے شہر چلا گیا کیوں کہ ہائی اسکول میں پاس کر چکا تھا۔

    کچھ ہی دن بعد ابا کا تبادلہ اس ضلع سے ہو گیا اور اس طرح راحت سے ملنے اسے دیکھنے، اس سے صرف ایک بار بات کر لینے کی تمنا بھی پوری نہ ہو سکی اور اس سے پہلے کہ یہ تمنا حسرت بن کر دل میں جا گزیں ہو جاتی، اپنی موت آپ مر گئی اور وہ اس طرح کہ مجھے کچھ پتہ نہ چل سکا۔

    میں ’’رات‘‘ کو بھول بھال گیا۔ عمر کی اس منزل میں جب کہ کالی راتیں جگمگاتے دنوں سے زیادہ پیاری ہوتی تھیں میں راحت کی ساوہ زلفوں میں اپنے ہاتھوں کو کب تک زنجیر رکھ سکتا تھا۔ کالج کے دن رات، ہماہمی، چہل پہل، گہما گہمی۔

    ہاں ایک ننھی سی یاد تھی جو دل کے کسی تاریک گوشے میں چھپ کر سہمی، سمٹی بیٹھ گئی تھی۔ لرزاں لرزاں، ہراساں ہراساں۔ سپیرے کی پٹاری میں چھپی ایسی ناگن کی مانند جس کا زہر چھین لیا گیا ہو۔ پھن کھول کر سرنکال لینا تو آئے، پرڈس کر تڑپانا بس میں نہیں۔

    اور یہ بےضرر ناگن کبھی کبھی اپنا پھن پٹاری سے باہر اس وقت نکال لیتی ہے جب میرے خاندان میں کسی کو پہلونٹی کا بچہ ہوتا ہے۔۔۔ اور پھر خود ہی اپنا سر اندر کر کے چھپ رہتی ہے اور وقت اس پٹاری کا منھ پل بھر میں ڈھنک دیتا۔ راحت مجھے اس وقت بھی یاد نہں آئی۔ جب میں نے اپنی دلھن کا گھونگھٹ الٹا۔ میں تو پلکیں جھپکا کر چودھویں کی اس چاندنی کا ہو رہا تھا جو میرے اطراف پھیل گئی تھی۔

    ایک دن جب میری بیوی نے اپنا سر میرے سینے پر رکھ کر نیچی نیچی نظروں سے مجھے بتایا کہ جی اچھا نہں ہے۔ وہ مضمحل مضمحل سی ہے۔۔۔ اسے ابکائیاں سی آتی ہیں۔ تو جھٹ کسی لڑکی نے کرتا پیٹ پر سے اٹھا کر مجھ سے کہا، ’’اسے چومو اس میں تمہارا بچہ ہے۔‘‘

    مجھے راحت سے جدا ہونے کے بعد پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ مداری کی پٹاری میں چھپی ہوئی بے ضرر ناگن کچھ اس طرح لہرا کر میرے سامنے آئی ہے کہ مجھے ڈس لےگی۔ پتہ نہیں کس نے اس کو زہر لوٹا دیا تھا۔

    میں نے اپنی بیوی کے گال چوم لیے۔ اس کا پیٹ نہ چوم سکا۔

    تب میں نے اس ناگن کا سر کچل دینا چاہا۔ لیکن وہ بہت تیزی سے اپنی پٹاری میں جا چھپی۔ جب میں نے پہلی بار اپنے ننھے کو چوما تو اس ناگن نے لہرا کر پھر ایک بار سر نکالنے کی کوشش کی لیکن میں نے پٹاری کا منھ مضبوطی سے بند کر دیا۔

    پھر آہستہ آہستہ یہ ناگن مر گئی اور میں بھول گیا کہ کوئی خالی خالی پٹاری میں نے اپنے دل میں چھپا رکھی ہے۔

    آج بھرے میلے میں جب میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ گھوم رہا تھا تو کسی عورت نے مجھے سلام کیا۔ کچھ ہی دور پر وہ کسی دوکان پر کھڑی اپنے بچوں کو کھلونے دلا رہی تھی۔ میری بیوی کسی سہیلی سے جو اسے ابھی ابھی ملی تھی بڑی پیاری پیاری باتیں کرنے میں مگن تھی۔ آیا میرے بچوں کو پاس ہی کی ایک دکان سے کھلونے دلا رہی تھی۔ میں نےکن انکھیوں سے پھر اس عورت کی طرف دیکھا جو مجھی کو دیکھ رہی تھی۔ کسی اضطراب کا اظہار کیے بغیر خراماں خراماں جب میں اس کے قریب پہنچا تو کوئی مانوس سا چہرہ اپنی چھب دکھلا کر سامنے آتے آتے چھپ گیا۔ پھر کسی لڑکی نے اپنا دامن پھیلا کر آہستہ سے کہا اسے پکے پکے شہتوتوں سے بھر دو اور جب میں نے دامن بھر دیا تو اس نے سارے شہتوت میرے قدموں میں ڈال دیے اور اپنی ساکہ لمبی رات جیسی زلفوں سے میرے دونوں ہاتھ ملا کر زنجیر کر لیے ’’اوہ۔! راحت‘‘

    وہ میرے پہچان لینے سے خوش ہو گئی۔

    ’’لیکن رات تمہاری زلفیں۔۔۔‘‘ بے اختیار میری زبان سے نکلا۔

    اس نے دھیرج سے کہا۔۔۔’’بے چاند کے کالی رات بھیانک لگتی تھی مجھے۔‘‘ وہ راحت ہیرآ ئیل کے لیبل کے اس بھر پور عورت سے بہت مشابہ ہو گئی تھی جس کو کبھی اس کی ماں راحت ہی کی تصویر کہا کرتی تھی اور آج اس کی وہی سیاہ زلفیں نہ رہی تھیں جو اس تصویر سے کبھی اس کی وجہ مشابہت تھیں۔

    میں نے حال احوال پوچھا۔

    اس نے کوئی شکایت نہیں کی۔

    پاس کھڑے ہوئے سات آٹھ سالہ بچہ کی بانہہ پکڑ کر میرے مقابل کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔ ’’اس کو پہچانتے ہیں آپ؟‘‘

    البم میں محفوظ اپنے بچپن کی تصویر آنکھوں میں پھر گئی جسے دیکھ کر میری بیوی نے کہا تھا اس وقت بھی آپ اتنے ہی شریر رہے ہوں گے جتنے آج ہیں۔

    میں نے کوئی جواب نںی دیا اور بس اس کو دیکھتا رہ گیا۔ راحت نے پھر پوچھا۔

    ’’نہیں پہچانا آپ نے؟‘‘

    میں نے کہا، ’’یہ تو میں ہوں رات۔‘‘

    تو اس نے نظریں جھکالیں اور بچے کو چمٹا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’انھیں سلام کرو۔ ننھا سا سرخم ہوا۔ ننھا سا ہاتھ پیشانی تک اٹھا۔

    اور میں نےجھک کر اس کی پیشانی چوم لی۔

    میری بیوی اپنی سہیلی سے رخصت ہو کر میرے پاس آ گئی تھی۔ میں نے راحت کا تعارف اس سے کرایا، ’’ابا کے زمانہ ملازمت میں یہ اور ہم ایک ہی ضلعے پر تھے۔ امی میں اور ان کی والدہ میں بڑا بہناپا تھا۔‘‘

    دونوں جانب سے ہاتھ اٹھے۔

    میری نظریں خود ہی اس ننھے پر اٹھتی رہیں۔

    میری بیوی نے بھی جب اس کو دیکھا تو اس کی نظریں اسی کے چہرے پر جم کر مرکوز ہو کر رہ گئیں۔ اس نے بڑی مخصوص نظروں سے مجھ کو دیکھا۔ پھر بچے کو دیکھ کر قریب کرتے ہوئے کہنے لگی، ’’کتنا پیارا سا ہے۔‘‘

    میں نے اس کی باتوں سے بوکھلاتے ہوئے کہا، ’’چلو چلیں اب۔‘‘

    جب ہم جدا ہونے لگے تو میں نے راحت پر بس اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال لی۔ اس سے نظریں چار نہ کر سکا اور نہ بچے ہی کو دیکھا۔

    جب ہم آگے بڑے گئے تو میں نے کسی نہ کسی بہانے پلٹ کر بچے کو دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ مجھے نظر نہ آیا۔ اور ایسے میں اگر وہ مجھے پیچھے سے پکار لیتا، ’’ابا‘‘ تو بھی کیا میں پل بھر کو اس کے لیے ٹھہر سکتا تھا؟

    راحت کی آنکھیں لیکن میرے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں۔

    میری بیوی نے کہا، ’’وہ بچہ واقعی کتنا پیارا ہے۔ آپ کے بچپن کی وہ شریر سی تصویر ہے نا۔ ہو بہو اسی طرح۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔؟‘‘ میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے غور نہیں کیا۔ تم نے وہیں بتایا ہوتا۔‘‘

    وہ ہنس پڑی۔ کہنے لگی، ’’بھلا ایسی بات میں وہاں کیسے کہہ سکتی تھی۔۔۔‘‘

    مجھے یوں لگا جیسے میری بیوی میرے دل میں چھپی ہوئی بند پٹاری کھول رہی ہے اور میں جھپٹ کر اس کا ہاتھ تھام رہا ہوں کہ اس میں ناگن ہے ڈس لےگی۔

    لیکن پٹاری کھلی تو خالی تھی۔

    اس میلے میں، اس چہل پہل میں، اس گہما گہمی میں کوئی بھی تو نہیں تھا جو میری خاموش پکار سنتا کہ میں خالی پٹاریوں کا مداری ہوں۔ کوئی ہے جو میرا تماشا دیکھے۔

    مأخذ:

    خالی پٹاریوں کا مداری (Pg. 150)

    • مصنف: اقبال متین
      • ناشر: نصرت پبلیشرز، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1977

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے