aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خلا

MORE BYنیلم احمد بشیر

    مہمانوں کے آنے سے پہلے فضیلہ نے اپنے بیک یارڈ پر ایک طائرا نہ نظر ڈالی۔ سب کچھ کتنا خو بصورت لگ رہا تھا۔ نفاست سے کٹی ہوئی ہری گھاس، ٹراپیکل پھولوں والے سرا مک کے نما ئشی گملے، لان کے ایک طرف نیلے نگینے کی طرح چمکتا ہوا بڑا سا سوئمنگ پول اور اس کے پانی سے اٹھتی کلو رین کی مہک، اطراف میں بچھی پکنک ٹیبلز پر ہر طر ح کا سامان خوردونو ش۔

    ’’بڑی گرینڈ پارٹی لگ رہی ہے۔ فیز ی!‘‘ فضیلہ کے شوہر طارق احمد نے پارٹی کی تیاریاں دیکھ کر اپنی بیوی کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔

    ’’بس دیکھ لیں تیاری، آپ کو تو پتہ ہی ہے آپ کی بیٹر ہاف کی پارٹیاں کتنی سپیشل ہوتی ہیں۔ مہینوں اپ سٹیٹ نیو یارک کی پاکستانی کمیونٹی میں چرچے ہوتے رہیں گے ہمارے۔‘‘ فضیلہ اترا کر بولی اور قریب جا کر میزوں کو چیک کرنے لگی کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ گئی ہو۔ ہر میز پر سفید میز پوش بچھا تھا جس پر سجی اعلیٰ کوالٹی کی ایسی خوبصورت ڈسپوز یبل پلیٹیں اور گلاس رکھے تھے جو دور سے بالکل اصلی چائنا کے لگتے تھے۔ باربی کیو انگیٹھیاں پہلے ہی جلا دی گئی تھیں جن پر سنکتے ہوئے سیخ کباب، چکن پیس اور یو ایس ڈی اے گریڈون کے بیف سٹیک کی اشتہا انگیز خوشبو چاروں طرف پھیل رہی تھی۔

    ’’یار فیز ی! تم نے تو کمال ہی کر دیا۔‘‘ طارق زور زور سے ہنسنے لگا۔

    ’’پلیز تاری! ابھی سے ٹپسی ہونے لگے تو آگے جا کر کیا ہوگا۔ ابھی تو پوری شام پڑی ہے۔‘‘ فیزی نے خو د سے چپکتے طارق کو اپنے سے علیحدہ کرتے ہو ئے اس کا ڈرنک چھین لیا اور خو د پی گیا۔

    ’’یو آر اے ڈیول‘‘ طارق نے اسے بھینچ لیا اور دونوں ہنس پڑے۔ ان کی نظریں اپنے ملین ڈالر ہاؤس پر پڑیں اور مسرت و اطمینان سے بھر گئیں۔ اللہ نے انہیں کتنا نوا زا تھا۔ روپے پیسے کی ریل پیل اور آپس میں محبت۔ ایک ہونہار، فرمانبردار پیارا سا بیٹا اور اس کی آئندہ زندگی کے خوشگوار خواب، انہیں اور کیا چاہئے تھا؟ آج وہ بےحد خو ش تھے کیونکہ ان کے بیٹے عمران نے اپنے ہائی سکول سے آنرز سٹوڈنٹ اعزاز کے ساتھ گریجویشن کیا تھا اور سپورٹس میں بھی ڈسنکشن (Distinction) حا صل کی تھی۔

    وہ چا ہتے تھے کہ ساری کمیونٹی والے عمران کو کامیابی کی راہوں پر گامزن ہونے پر اپنی نیک تمناؤں سے نوا زیں اور ان کی خوشیوں میں شریک ہوں، ہنسیں بولیں، ہلہ گلہ کریں کیونکہ زندگی کی کامیابیوں کو اپنے دوستوں سے شیئر کرنا وہ بہت ضروری سمجھتے تھے۔

    عمران کو کاؤنٹی سکولوں کے مابین مقابلوں میں بھیجا جاتا تھا، جہاں سے وہ ہمیشہ ٹرافیاں جیت کر لاتا اور اپنے سکول اور ٹاؤن کا نام روشن کرتا۔ مقامی اخبارات میں اس کی کامیابیوں کی خبریں اور تصاویر چھپتیں اور سب سے شاباش ملتی۔ طارق اور فضیلہ کا سر فخر سے اونچا ہوجاتا اور وہ بیٹے کو سو سو دعائیں دیتے۔

    امریکہ میں ہر طرح سے کامیاب زندگی گزارنے کے باوجو د فضیلہ اور طارق احمد کے دلوں میں وطن کی محبت زندہ تھی۔ وہ باقاعدگی سے پاکستان جاتے اور کئی اداروں اور این جی اوز کو غریبوں کی مدد کرنے کے لیے موٹے موٹے چیک دیتے رہتے۔ طارق اپنے بیٹے عمران کو پاکستان کے بارے میں بتاتے اور یاد دلاتے ہوئے کہتے ’’وہ بنیادی طور پر ایک پاکستانی امریکن بچہ ہے، اسے اپنی اصلیت، شنا خت اور حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے۔ جو لوگ اس بات کا خیال نہیں رکھتے، ان کی آئندہ نسلیں بھٹک کر رہ جاتی ہیں بیٹا۔‘‘ کبھی کبھا ر وہ عمران کو ایک کہانی سناتے اور کہتے ’’سنو عمران ! امریکہ دریافت کرنے کے بعد جب کو لمبس اپنا سفینہ لے کر وطن واپس لوٹا تو اس کے عملے میں شامل ایک قیدی عورت دوڑ کر سا حل پر اتری اور بے تابانہ اپنی جنم بھومی کو بو سے دینے لگی۔ وطن کی محبت ایسا ہی طاقتور جذبہ ہوتا ہے بیٹا۔ وہ عورت میری آئیڈیل ہے اور میرے خیالوں میں بستی ہے۔ ہمیں اپنی اصل کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے عمران بیٹا۔‘‘ عمران اپنے ڈیڈ کی باتیں سن کر مسکراتا اور انہیں ہمیشہ یادرکھنے کا وعدہ کرتا۔

    عمران ہائی سکول کے بعد کالج میں ایسے کو رسز لینا چاہتا تھا جو اسے ایئر و ناٹک فیلڈ میں لے جانے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔ اسے بچپن سے ہی خلا باز بننے کا بہت شو ق تھا۔ اس کے والدین اس کے اس عزم میں اسے مکمل طور پر سپورٹ کرتے تھے اور کیوں نہ کرتے۔ ان کے پورے خاندان میں، جن میں امریکہ میں بسنے والے کئی بہن بھائی اور کزن رشتہ دار شامل تھے، کسی کے بچے نے بھی کبھی اس طرف جانے کی خوا ہش یا ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا۔

    ’’میں تو اس دن کے انتظار میں جی رہا ہوں کہ میرا بیٹا کسی بڑے نا سامشن میں جائے اور کامیاب لوٹے۔ ایک آدھ ستارہ تو ہماری گود میں لا کر ڈال ہی دےگا نا۔‘‘ طارق سوچتے اور پھر سارے گھر میں گنگناتے پھرتے، ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔۔۔ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے، ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند‘‘ ۔۔۔۔۔عمران اپنے والد سے ان اشعار کا مطلب پو چھ کر مسکراتا اور ان کا یہ خواب پورا کرنے کا وعدہ کرتا۔

    تھوڑی ہی دیر میں مہمان آنا شروع ہوگئے اور ہیلو ہائے، السلام علیکم کی ملی جلی آوازیں رنگین غباروں کی طر ح فضا میں تیرنے لگیں۔ کمیونٹی کی معتبر شخصیات، قو نصلیٹ کا عملہ، دوست احباب سب ایک دوسرے سے ہیلو ہائے کر رہے تھے اور حال احوال پر چھ رہے تھے۔ طارق تیس سال سے یو ایس اے میں ایک کامیاب کا رپٹ ایکسپورٹر کے طور پر اپنی ساکھ قائم کرچکے تھے اور آج ان کے اکلوتے بیٹے کی گریجویشن پارٹی تھی۔ ایسا ہنگامہ تو ہونا ہی تھا۔

    ’’السلام علیکم ورحمتہ اللہ‘‘ فیزی کے گلے سے لگنے والی نرم کو مل آواز والی خاتون بولی۔ ’’رو زی تم؟ یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے بھئی؟ تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔‘‘ فضیلہ مکمل طور پر برقع پوش خاتون کو دیکھ کر حیرت سے کہنے لگی۔ ’’کم آن روزی، ہمیں بتا دیا ہوتا تو ہم بھی فینسی ڈریس پہن کر آ جاتے۔‘‘ فضیلہ اور روزی کی مشترکہ دوست رشمی ہنس ہنس کر دہری ہونے لگی۔

    ’’فارگا ڈزسیک پلیز، تم دونوں خدا کا خو ف کرو۔۔۔ یہ فینسی ڈریس نہیں ہے۔ اب میں ہمیشہ اسی لباس میں رہتی ہوں۔ Now I am a born again Muslim یونو، اللہ تعالیٰ نے ہم عورتوں کے لیے یہی ڈریس کو ڈ تجو یز کیا ہے تو ہمیں اسی طرح رہنا چاہئے اور اب پلیز مجھے آئندہ سے روزی نہیں، رضیہ کہہ کر بلایا کرو‘‘

    ’’اوہ آئی ایم سوری ۔۔۔‘‘ رشمی کچھ سنجیدہ ہوگئی۔ فضیلہ بھی اپنی پرانی سہیلی کی اس بدلی ہوئی ہیئت کو دیکھ کر پل بھر کر تو ٹھٹھک کر رہ گئی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی روزی ہے جسے لاس اینجلس کی لائٹ آف دی پارٹی کہا جاتا تھا۔ اس کی ڈرنکنگ، ڈانسنگ، اور مردوں سے بےتکلفی کی داستانیں ویسٹ کوٹ سے نکل کر ایسٹ کو سٹ تک پھیل چکی تھیں۔ روزی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ شرط لگا کر جس مرد کو چاہے اپنی طرف مائل کر سکتی تھی۔

    ’’اچھا میں ذرا مغرب کی نما ز پڑھ آؤں۔ وقت نکلتا جا رہا ہے۔ ایکسکیو زمی۔‘‘رضیہ اپنی سہیلیوں کو حیران پریشان چھوڑ کر گھر کے اندر چلی گئی۔

    ’’کتنا چینج آ گیا ہے اس میں۔‘‘ رشمی کہے بغیر نہ رہ سکی۔

    ’’یہ نائن الیون تو ہماری جان کو ہی آ گیا ہے۔ جسے دیکھو اسلامک فنڈا منٹیلسٹ بنتا جا رہا ہے یہاں۔ کیا ہوگا اس قوم کا آخر؟‘‘

    ’’سب نے برقعے، حجاب اور عبائیں پہن لی ہیں۔ خدا خیر ہی کرے۔‘‘ دونوں سہیلیوں نے روزی کی کایا پلٹ جانے پر اپنے اپنے تبصرے شروع کر دئیے۔

    سوئمنگ پول کے اردگرد پارٹی زوروں پر چل رہی تھی۔ ڈیک سے مو سیقی فل بلا سٹ پر لگی ہوئی تھی اور نوجوان لڑکے، لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ خانی میں مصروف نظر آ رہے تھے۔ عمران کے ہم جماعتوں میں گورے، کالے، میکسیکن، چینی، ہسپانوی، ہر نسل کے بچے شامل تھے۔ خو ش باش، کھاتے پیتے، مسکراتے بچوں کو دیکھ کر ان کے ماں باپ بھی خو ش تھے کہ سب اتنا گڈ ٹایم انجوا ئے کر رہے ہیں۔ کوئی پول میں نہا رہا تھا تو کوئی کسی کو پول میں گر ارہا تھا۔ کوئی میز پر تھرک رہا تھا تو کوئی تصویریں کھنچواتا ہوا پھڑک رہا تھا۔ عمران اپنے دوستوں کو آلو کے چپس اور سافٹ ڈرنکس پکڑاتا جا رہا تھا اور خو ش تھا کہ وعدے کے مطابق اس کے تقریباً سبھی کلاس فیلوز پارٹی میں شریک ہونے کے لیے آ گئے تھے۔

    ’’ماشاء اللہ بڑا پیا ر انکل آیا ہے عمران بیٹا۔‘‘ ایک آنٹی نے پاس آکر پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

    ’’کیوں نہ ہو، آخر بیٹا کس کا ہے۔‘‘ طارق احمد فخر یہ انداز میں ہنس کر کہنے لگے۔

    ’’ہاں ہاں جب کسی بات کا کریڈٹ لینا ہو تو یہ آپ کا بیٹا بن جاتا ہے اور جب اس سے کوئی شکایت ہوتو یہ صرف میرا بیٹا ہوتا ہے۔‘‘ فضیلہ مصنوعی غصے سے بولی تو طارق نے اپنی منہ بسورتی بیوی کے منہ میں آئس کریم کا چمچ ڈال دیا اور سب ہنسنے لگے۔

    پارٹی اتنی زبردست تھی کہ کمیونٹی میں ہفتوں اس کا چرچا ہوتا رہا۔ دور دور کی ریاستوں سے ان دوستوں نے جو بوجوہ شریک نہیں ہو سکے تھے، مبارکباد کے فون کئے اور پارٹی مس کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے رہے مگر تحفے بھجوانے میں کسی نے کنجو سی نہیں کی۔ عمرا ن کے لیے چیزوں کا انبار لگتا چلا گیا اور فضیلہ اور طارق انہیں سمیٹنے لگتے حالانکہ عمران کے پاس پہلے ہی بھلا کس چیز کی کمی تھی۔

    گریجویشن کے بعد لمبی موسم گرما کی ایک تعطیل تھی اور پھر ستمبر میں کالج میں داخلہ ہونا تھا مگر کچھ عرصے سے طارق اور فضیلہ محسوس کر رہے تھے کہ سمسٹر قریب آتے آتے عمران اپنے داخلے میں کوئی خا ص دلچسپی کا اظہار کرتا نظر نہیں آ رہا۔ اس کی بھلا کیا وجہ تھی؟ عمران جیسا تعلیم پسند بیٹا نہ کالج کے پلا نز بنا رہا تھا اور نہ ہی ان سے کچھ زیادہ ڈسکس کر رہا تھا۔

    ’’عمران بیٹا! تم نے اپنے کاغذات مکمل کرکے یونیورسٹی کو بھجوا دئیے ہیں نا؟‘‘ ایک روز طارق نے اسے ناشتہ کی میز پر گھیر لیا۔

    ’’‘ابھی نہیں ڈیڈ، میں آج کل ذرا کچھ مصروف ہوں۔‘‘ عمران مزید کچھ کہے سنے بغیر اچانک کھڑا ہوا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

    ایک رو ز ڈیڈ نے اسے پھر جا لیا۔ ’’دیکھو بیٹا! اگر تم نے واقعی خلا باز بننا ہے تو گھر بیٹھے تو نہیں بنو گے۔ اس کے لیے کالج تو جانا ہی ہوگا۔ پری کورسز کے بغیر نا سا پرو گرام میں کیسے داخل ہوگے، سمجھ آرہی ہے یا نہیں؟‘‘ طارق کا لہجہ کر خت ہو گیا۔ فضیلہ نے شوہر کو آنکھوں ہی آنکھوں میں سرزنش کی کہ اتنا غصہ نہ دکھائیں۔

    ’’بیٹا! ڈیڈ کیا کہہ رہے ہیں، کچھ سنا تم نے یا نہیں؟‘‘ ماں نے پیار سے بیٹے کے آگے چکن کا پیس رکھتے ہو ئے پوچھا۔

    ’’مام، ڈیڈ! میں آپ دونوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ عمران کے چہرے پر ایک عجیب سی سنجیدگی چھا گئی۔ ’’دراصل میں فی الحال آگے نہیں پڑھنا چاہتا۔‘‘ کمرے میں ایک بم سا پھٹا اور درودیوار لرزنے لگے۔

    ’’کیا کہا؟ واٹ نان سینس؟ کیوں نہیں پڑھنا چاہتے؟پڑھو گے نہیں تو کروگے کیا؟ یہ کیا امریکن بچوں والی بات ہے۔ ہائی سکول نہ کا لج ختم کیا۔ کوئی Odd job کر لی، گیس سٹیشن پر گیس بھری۔ Hourly wages پر کام کیا، پھر Quit کیا۔ نہ کوئی تعلیم نہ تربیت، نہ کوئی مستقبل کا منصوبہ۔‘‘ طارق غصے سے چیخنے لگے۔

    ’’بیٹا ہم امریکیوں جیسے حرکتیں نہیں کر سکتے۔ ہم ایشین لوگ ہیں، ہم لوگوں کے زندگی میں Goals ہوتے ہیں، پلانز ہوتے ہیں، ہم اپنا وقت ضائع نہیں کر سکتے۔‘‘ فضیلہ تحمل سے بات کرنے لگی۔

    ’’آپ لوگ ایشین ہیں ، میں نہیں۔ میں امریکن ہوں کیونکہ میں اسی سر زمین پرپیدا ہوا ہوں۔ آپ مجھے اپنی طرح سوچنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔‘‘ عمران پورے اعتما د سے ماں باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔

    ’’ہائے اللہ پڑھو گے نہیں تو کروگے کیا؟ باہر گھوم پھر کر آوارہ گردی؟ امریکن بچوں کی طر ح، شراب، ڈرگز، بدکاری، ان لوگوں کا تو نہ ماں ہے نہ باپ، مگر تم ہمارے بیٹے ہو۔ ہم تمہیں یوں بگڑنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘ فضیلہ بھی چیخنے لگی۔

    ’’میں آوارہ گردی نہیں کروں گا مام‘‘ عمران نے اسے پیار سے چھوا۔

    ’’تو کیا کرو گے گھر بیٹھ کر؟‘‘ طارق نے فضیلہ کی طرف دیکھ کر سر پکڑ لیا۔’’ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ صاحبزادے کے ارادے کیا ہیں؟‘‘

    ’’میں شادی کروں گا، مام ڈیڈ۔‘‘ عمران بڑے اطمینان سے بولا۔

    ’’شادی؟ یہ شادی بیچ میں کہاں سے آ گئی؟ ابھی شادی کا کیا ذکر؟ ابھی تو تم بچے ہو۔ بیٹا عقل کرو۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے؟ شادی بھی وقت آجانے پر ہو جائےگی۔ یہ وقت تمہاری تعلیم کا ہے۔‘‘ فضیلہ نے پیا رسے کہا۔

    ’’کون ہے وہ؟ ڈاکٹر عنایت کی بیٹی نادیہ تو نہیں؟‘‘ فضیلہ نوٹ کر رہی تھی کہ کچھ دنوں سے اس کے کافی فون آ رہے ہیں۔

    ’’نو مام، وہ تو صرف میری دوست ہے۔‘‘ عمران کچھ نروس سا نظر آنے لگا۔

    ’’تو پھر؟ ہائے کہیں کوئی امریکن لڑکی تو نہیں؟‘‘ فضیلہ کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔

    ’’کیا پاکستانی لڑکیوں کی کوئی کمی ہے امریکہ میں؟‘‘ فضیلہ کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔

    ’’ملوا دوں گا آپ لوگوں سے اسے۔۔۔ آج ہی شاید۔۔۔ مام ڈیڈ! آئی ایم سوری، آپ کو دکھ ہوا، لیکن بس میں اب کیا بتاؤں۔ مینڈی اور میں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بہت پیار ہے ہمیں ایک دوسرے سے ۔پلیز ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ۔‘‘ عمران ماں باپ کو حیران پریشان چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا اور وہ سو چنے لگے، جب ہیرو شیما پر ایٹم بم گرا تھا تو کیا وہاں کے باسی بھی اسی طرح اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے راکھ کی ڈھیریوں میں تبدیل ہو گئے تھے؟‘‘

    ’’کیا ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے فیزی؟‘‘ طارق نے بچوں کی طرح روتے روتے فضیلہ کی گود میں سر دے دیا اور وہ خا موشی سے اسے تھپکا کر اپنے آنسو پونچھنے لگی۔

    اگلے چند دن کچھ عجیب سی خاموشی میں کٹے۔ عمران صبح سویرے نکل جاتا اور رات گئے گھر وا پس آتا۔ ماں باپ سے بھی کم ہی ملاقات ہوتی۔ نہ جانے کہاں رہتا تھا وہ؟ فضیلہ اٹھتے بیٹھتے اس امریکن چڑیل کو کوسنے اور بد دعائیں دیتی رہتی جس نے اس کے معصوم بیٹے پر جادو کر دیا تھا۔

    ’’فیزی، ٹیک اٹ ایزی۔ کیا پتہ وہ اچھی لڑکی ہو۔ شاید وہ ہماری بیٹی بن جائے۔ آخر ہماری کوئی بیٹی بھی تو نہیں ہے ناں۔۔۔ شاید اس میں خدا کی کوئی مصلحت چھپی ہو۔ آخر ہم اپنا اکلوتا بیٹا کھونا تو نہیں چاہتے نا۔‘‘ طارق بیوی کو سمجھاتے رہے۔

    ’’ہیلو مام ڈیڈ!‘‘ عمران نے ایک شام گھر میں گھستے ہی انہیں پیار سے مخاطب کیا اور پھر کسی کو دروازے کے پیچھے چھپتے ہوئے دیکھ کر آواز دی۔۔۔ ’’مینڈی ، اندر آجاؤ۔۔۔ ڈونٹ بی شائی۔‘‘ چند لمحے مکمل خاموشی رہی، پھر عمران اٹھا اور اس کا ہاتھ پکڑکر اسے ان کے سامنے لاکر کھڑا کر دیا۔ فضیلہ اور طارق کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ اس کالی لمبی تڑنگی لڑکی کو انہوں نے عمران کی گریجویشن پارٹی میں دیکھ تو رکھا تھا لیکن شاید زیادہ قریب سے نہیں کیونکہ موٹے موٹے ہونٹوں، بڑی بڑی آنکھوں اور پیٹ کے نمایاں ابھار والی آبنوسی لڑکی کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔

    ’’اوہ مائی گاڈ!‘‘ طارق کے منہ سے بےاختیا ر نکلا۔ فضیلہ کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا اور اس نے کرسی تھام کر لمبے لمبے سانس لینا شروع کر دئیے۔

    ’’کیا تم؟‘‘ فضیلہ نے مینڈی کے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے سوال بیچ ہی میں چھوڑ دیا۔

    ’’یس۔ چار مہینے ہونے والے ہیں۔‘‘مینڈی نے اپنے پیٹ کی طرف فخر سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    مینڈی کے جانے کے بعد گھر میں بھونچا ل سا آ گیا۔ ڈیڈ چیخ رہے تھے۔ مام زار زار رو رہی تھی اور عمران گھر چھوڑ کر جانے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔

    ’’ہم نے تمہیں کیا نہیں دیا؟ تمہاری ہر فرمائش پوری کی۔۔۔ پھر تم ہمارے ساتھ یہ سب کیسے کر سکتے ہو؟‘‘

    ’’ڈیڈ سمجھنے کی کو شش کریں۔۔۔ ہم نے جان بو جھ کر تو بے بی پلان نہیں کیا تھا۔ بس ہو گیا۔ یونو It Happens۔‘‘ عمران نے کندھے اچکائے۔ مینڈی بہت تنہا تھی۔ جیک کے ساتھ اس کا بریک اپ ہوا تو میں نے ہی اسے سنبھالا تھا۔وہ بہت اچھی لڑکی ہے، آپ ملیں گے تو خود ہی دیکھ لیں گے۔

    ’’بےشرم لڑکے یہ ہمارا کلچر نہیں ہے۔‘‘ ماں تڑپ کر بولی۔

    ’’مام یہ اس ملک کا کلچر ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ میں امریکن ہوں۔ یہاں کا رہنے والا ہوں۔ آپ کو اندازہ بھی ہے کہ ہم ایشین بچوں پر اس سو سائٹی میں کتنے پریشرز ہوتے ہیں۔ جوان ہونے کے بعد ہم اپنے ساتھیوں سے الگ تھلگ کیسے ہو جائیں؟ اگر ہم کسی کے ساتھ ڈیٹنگ نہ کریں تو ہمیں ابنارمل یا ’’گے‘‘ سمجھ لیا جاتا ہے اور اگر اپنے فرینڈز کی طرح امریکن لائف گزاریں تو آپ لوگوں کی ویلیو ز خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ ہم لوگ اس سوسائٹی میں رہ کر مس فٹ نہیں ہونا چاہتے۔ یہ ہمارے سروائیول کا مسئلہ ہے۔ آپ لوگ سمجھنے کی کوشش کری۔ ہمیں یہاں رہنا ہے، ہمیشہ اور مستقلاً۔ ہمیں مت روکیں۔‘‘ عمران کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

    ’’ایک غلام زادی اب ہماری بہو بنے گی۔‘‘ فضیلہ نے دانت پیسے۔

    امریکی آسائشوں اور معاشی آسودگیو ں کے غلام، تیسری دنیا کے تارک وطن، بےبسی کے سمندر میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے اور لہریں اونچی سے اونچی ہوتی چلی جا رہی تھیں۔

    فضیلہ کو اپنی ایک پرانی امریکن ہمسائی یاد آ گئی جس نے اپنے بیٹوں کے لیے گھر میں پلے بوائے میگزین لگوا رکھا تھا۔ ’’تم اپنے بیٹوں کو خودہی کیوں بگاڑ رہی ہو؟‘‘ ایک بار فضیلہ نے اس سے سوال کیا تو اس کے جواب نے فضیلہ کو حیران کر دیا ’’میں نے یہ اس لیے لگوایا ہے کہ کہیں میرے بیٹے، لڑکیوں کی جگہ لڑکوں میں دلچسپی نہ لینے لگ جائیں۔‘‘

    طارق اور فضیلہ کی پاکستانی کمیونٹی کے لوگ حیران تھے کہ اتنی پیاری فیملی کو کس کی نظر کھا گئی؟ سب کچھ اچھا بھلا تو تھا۔ چند ماہ پہلے ہی تو اتنی عا لیشان گریجویشن پارٹی دی تھی انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے اور اب یہ اچانک شادی کا دعوت نامہ؟ فضیلہ نے رو رو کر پہلے ہی سب دوستوں کو بتا دیا تھا کہ ان کے بیٹے سے ایک غلطی ہو گئی ہے اور اب وہ اسے باعزت طریقے سے نبھانا چاہتے ہیں۔ راز تو شادی کے دن کھل ہی جاناتھا۔ ’’شیطان کا کیا ہے کسی بھی وقت کسی کے بچے کو بھی بہکا سکتا ہے۔‘‘ ان کے بچے کو بھی بس شیطان نے بہکا دیا تھا۔

    ساری کمیونٹی میں ایک شادی پارٹی ہونے کے خیال سے خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ خواتین اپنے نئے نئے پاکستان سے منگوائے ہوئے جوڑے پہننے کے خیال سے جھوم اٹھیں اور نوجوان لڑکے، لڑکیاں مہندی کے فنکشن پر ناچنے گانے کے خیال سے پرو گرام سیٹ کرنے لگے۔

    فضیلہ اور طارق نے سوچا اب سر پر پڑ ہی گئی ہے تو کیوں نہ اسے خوبصورتی سے ہی نبھائیں ۔ انہوں نے دولہا دلہن کے لیے نئے سرے سے بیڈ روم کوری ماڈل کیا اور لاہور سے دلہن کے لیے ڈیزائنر عروسی جوڑے آرڈر کر دئیے۔ طارق کی بہن زبیدہ نے کپڑے تو بھجوائے تھے مگر چونکہ اسے دلہن کی اصلی صورت حال نہیں بتائی جاسکتی تھی لہٰذا لہنگا شلوار ٹخنوں سے اونچی اور قمیض کمر سے تنگ رہی۔

    شادی والے دن آبنو سی رنگت والی دلہنیا کو لال جوڑے میں لاکھ سجایا مگر وہ کسی بھی طرح پاکستانی دلہن نہ لگ سکی۔ کرتے کی سلائیاں سائیڈ سے نکال دی گئیں مگر پھر بھی اس کا پیٹ گیند کی طرح باہر کو ابلتا دکھائی دیتا رہا۔ چھوٹے چھوٹے گھنگھریالے سیاہ بالوں کے چھتے پر دوپٹہ ٹکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ بالوں کو ہر طرف سے لاکھ کلپ لگائے گئے تب جا کر کہیں سر پر دوپٹہ ٹھہرا اور فضیلہ کی جان میں جان آئی۔

    ’’تم ایک بہت بڑی نیکی کا کام کر رہی ہو فضیلہ بہن۔ اللہ تمہیں اس کا بہت اجر دیگا۔‘‘ چہرہ چھپائے ہوئے رضیہ عرف سابقہ روزی نے فضیلہ کو گلے لگا کر پیا رکیا تو فضیلہ آنے والی زندگی میں ملنے والی دودھ اور شہد کی نہروں کے کنارے بیٹھ کر سستانے کے خیال سے مسکرا دی۔

    دونوں سہیلیاں دلہن کو سرخ دوپٹہ اٹھا کر دھیرے دھیرے باہر لائیں تو مینڈی کی باسکٹ بال پلیئر سہیلیوں نے مسکرا کر تالیاں بجائیں اور آگے بڑھ کر اس کا دوپٹہ اور لہنگا اٹھا اٹھا کر اس پر ہونے والا کام دیکھنے لگیں۔ انہیں مینڈی کے کپڑے بہت اچھے لگ رہے تھے۔

    Give me a joint مینڈی نے اپنی ایک دوست لِنڈا کو قریب پاتے ہی اس سے ایک سگریٹ لیا اور زور زور سے کش لینے لگی۔

    you look stressed لِنڈا نے پیار سے اس کی کمر پر ہاتھ پھیرا تو مینڈی نے سکون سے آنکھیں بند کر لیں۔

    ’’بہت تھک گئی ہے مینڈی‘‘ عمران نے اسے دور سے دیکھا تو اس کے قریب جا پہنچا اور مینڈی کی فرینڈز سے اپنی شیروانی آؤٹ فٹ پر داد سمیٹنے لگا۔ مینڈی نے اپنے پیٹ پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور کہنے لگی Baby look, your dad is looking so handsome

    عمران بہت خو ش تھا۔ آخر اس کے ماں باپ اس کی خوشی کے لیے راضی ہو ہی گئے اور اب تو ان سب کی لگی بندھی روٹین لائف میں ایک خوشگوار تبدیلی بھی آنے والی تھی۔ گھر کے آنگن میں ایک نئے پھول کی مہک پھیلنے والی تھی۔ اس نے جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے پیارے ماں باپ کو چوم لیا۔

    مینڈی کو پہلے مسلمان کر کے منزہ بنایا گیا۔ اسلامی نام رکھنے کا ایک اہم مرحلہ طے ہو گیا۔ جوان جہان کالی داڑھی اور شرارتی نظروں والے امام صاحب دلہن کے پیٹ کو مستقلاً گھورتے رہے مگر منہ سے کچھ نہ بولے۔

    ’’فیزی! یہ تم نے بڑا نیکی کا کام کیا ہے۔۔۔ ایک غیر مسلم کو مسلمان بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی بہت جزا دیں گے۔‘‘ رضیہ نے پھر سے فیزی کے کان میں سرگوشی کی تو فضیلہ پھیکی سی مسکراہٹ سے ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئی۔

    بہو کے آ جانے سے فیملی کے روز و شب میں کافی تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ منزہ بیٹی اور عمران بیٹے کے باہر آنے جانے کے اپنے اوقات اور طور طریقے تھے۔ فضیلہ کئی بار سوچتی کہ بیٹے کی شادی صحیح وقت پر اور کسی پاکستانی لڑکی سے کی ہوتی تو وہ بہو کے کتنے چاؤ پورے کرتی۔ مگر یہاں تو اسے سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ بہوکے ساتھ کیسے پیش آئے؟ منزہ کھلاڑی لڑکی تھی، اس لیے جسمانی فٹنس کا پورا خیال رکھتی تھی۔ چند ہی ماہ بعد اسے کسی باسکٹ بال میچ میں شرکت کرنا تھی جسے وہ کسی قیمت پر بھی مس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے ہر وقت ورزش کرتی رہتی۔

    فضیلہ اسے پاکستانی کا م والے زرق برق جوڑے پہنا کر فرینڈ ز کے گھروں میں دعوتوں پر لے جاتی تو وہ بہت انجوائے کرتی۔

    اتنی محبت کرنے والا شوہر اور خدمتگار سا س ملی تھی۔ وہ تو ایسی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس کا تو خیال تھا وہ اپنے بچے کو سنگل پیرنٹ بن کر پالے گی یا اپنی ماں کی مدد طلب کرےگی جو خو د بھی ہمیشہ تنہا رہی تھی مگر یہاں تو سب کچھ اتنا مختلف اور اچھا تھا کہ لائف ونڈر فل ہو گئی تھی۔ اب نہ اسے گھر کے کرائے کی فکر تھی نہ کمانے کی ٹینشن، بےبی کے لیے بھی سب انتظامات خود بخو د ہوتے چلے جا رہے تھے۔

    فضیلہ کو ایک فکر دن رات کھائے جا رہی تھی کہ اگر بچہ ماں پر چلا گیا تو پھر کیا ہوگا؟ وہ دن رات جائے نماز پر بیٹھی خدا سے التجا ئیں کرتی کہ ’’اے اللہ پاک!میرے پوتے کو ماں جیسے موٹے بھدے نین نقش اور کالے چھتے جیسے پھولے بال نہ دینا ۔یا اللہ ! ہمارے حال پر رحم کرنا۔ بچہ بیشک عمران جیسا نمکین ہو مگر اسے نقش پاکستانی دینا۔‘‘ فضیلہ نے بہو کے کمرے میں جابجا خو بصورت پاکستانی بچوں کی تصویریں سجا دی تھیں تا کہ وہ ہر وقت انہیں دیکھتی رہے اور ویسا ہی خو بصورت بچہ پیدا کرے۔

    عمران بڑے شوق سے اپنی بیوی کو میڈیکل چیک اپ کے لیے لے جاتا اور اس کی صحت کے متعلق معلومات حا صل کرتا رہتا۔ ہر ماڈرن امریکی جوڑے کی طرح ان کی بھی یہی خو اہش تھی کہ وہ اپنے بچے کی پیدائش کے مرحلے میں ایک دوسرے کے مدد گار اور معا ون ثابت ہوں۔ اس لیے انہوں نے ان کلاسوں میں بھی جانا شروع کر دیا تھا جہاں مرحلہ پیدائش کے دوران حاملہ ماؤں کو تنفس کے ذریعے آسان برتھ کی تربیت دی جاتی تھی۔

    ’’مام ڈیڈ! میری پیدائش کے وقت آپ لوگ بھی بہت ایکسائٹڈ ہورہے ہوں گے۔ ہیں نا؟‘‘عمران نے اپنی بیوی کے لیے بنائی گئی لذیز پنجیری اٹھاکر منہ میں ڈالتے ہوئے پوچھا

    ’’کتنا مزے کا ہے یہ۔‘‘ منزہ بولی۔

    ’’ہاں بیٹا! لیکن اب یہ بھی سو چو کہ تمہیں اپنی تعلیم مکمل کرنا ہے۔۔۔ خلا باز بننا ہے۔‘‘ ڈیڈ نے اسے وعدہ اور فرض یاد دلایا۔

    ’’کروں گا، کروں گا ۔۔۔۔سب کچھ کروں گا۔ آپ کے سب خواب پورے ہوں گے۔ آخر آ پ میرے اتنے پیارے ڈیڈ ہیں۔ آپ کی سپورٹ نہ ہوتی تو میں زندگی کے اس حسین لمحے میں کتنا اکیلا رہ جاتا۔ تھینک یو۔۔۔‘‘

    منزہ بھی فرط مسرت سے ساس سے لپٹ کر بولی ’’یو آر دا بیسٹ‘‘۔

    فضیلہ کے دل پر ایک گھو نسہ سا لگا۔ ہائے کاش یہاں کوئی پاکستانی لڑکی ہوتی۔ خوبصورت، نازک اندام، پتلے پتلے نین نقش والی۔ وہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی۔

    ’’مام کتنی اچھی بات ہے کہ منزہ اتنی خو ش ہے۔۔۔ ہم سب کو اسے خوش ہی رکھنا چاہئے۔ آپ لوگ بھی خوش ہیں ناکہ یہ بچہ اس دنیا میں آ رہا ہے؟‘‘

    طارق اور فضیلہ بیٹے کی معصومیت پر مسکرا دئیے ’’ہاں بیٹا !ہم خوش اور بہت خو ش ہیں۔ ہماری تنہائیاں دور ہو جائیں گی، گھر میں رونق ہو جائےگی، بڑا مزا آئےگا۔‘‘ طارق بچوں کی طرح خو ش ہو کر بولے۔

    ’’میں نے اسلامی ناموں کی کتاب سے نام بھی چننے شروع کر دئیے ہیں۔‘‘ فضیلہ نے اترا کر کہا ۔۔۔۔’’رحمان کیسا رہےگا؟‘‘

    ’’اچھا ہے، سویٹ ہے، لیکن ہم اسے Raymond رجسٹرکر وائیں گے۔ مام ڈیڈ کے لئے رحمان رہےگا۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘ منزہ خو ش ہو کر بولی۔

    ’’گریٹ آئیڈ یا ہنی! اس طرح اسے کوئی مسلم دہشت گرد نہیں سمجھےگا۔‘‘ عمران نے بھی گفتگو میں حصہ لیا اور وہ دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

    یوں تو بہو کی ہر طرح سے دیکھ بھال کی جارہی تھی، مگر پھر بھی نہ جانے کیسے ایک روز غسل خانے میں اس کا پاؤں پھسل گیا اور اسے اس وقت سے پہلے ہی دردیں شروع ہو گئیں۔ سب اسے لے کر بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے اور فوراً داخل کروا دیا۔ عمران اندر جا کر بیوی کو لا ماز کی ورزشیں کروانے لگا اور فضیلہ نے تسبیح پکڑ کر خدا سے بچے کے صحتمند اور خوبصورت ہونے کی دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ طارق بھی نروس ہو کر ہسپتال کے کاری ڈور میں گھومنے لگے اور خدا سے یہ مرحلہ بخیریت طے ہونے کی دعا کرنے لگے۔

    کئی گھنٹوں کی سخت لیبر کے بعد یکا یک عمران بھا گا بھا گا باہر دوڑ آیا۔ ’’مام ڈیڈ! آ جائیں بےبی ازہیئر‘‘

    ’’اچھا؟ کیا ہوا ہے‘‘ طارق نے بے چینی سے پوچھا۔

    ’’تم نے دیکھا اسے؟‘‘ فضیلہ نے بے تابی سے پوچھا۔

    ’’نرس نے بس یہ بتایا ہے کہ لڑکی ہے۔۔۔ بہت پیاری ہے۔۔۔ چلیں چل کر دیکھتے ہیں۔‘‘ عمران کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔

    ’’او ہو تو اب رحمان کا نا م بد لنا ہوگا۔۔۔ کیا رکھوں گی؟‘‘ فضیلہ نے جلدی جلدی سو چا ’’چلو رحمان نہ سہی، ریما ہی سہی، ٹھیک عمران؟‘‘

    ’’آپ کی جو مرضی، مام!۔۔۔۔ یہ آپ پر چھوڑ رہا ہوں۔‘‘ عمران بولا۔

    ذہن میں بہت ساری سوچیں جنم لینے لگیں۔ کاش لڑکی کا نام بھی پہلے ہی سو چ لیا ہوتا۔ خیر کوئی بات نہیں۔ تینوں بےچینی سے منزہ کے پاس چلے آئے۔ فضیلہ نے بہو کے ماتھے پر بوسہ دے کر بسم اللہ پڑھی اور چھوٹی پلنگیا میں لیٹی بے بی کو پیار سے اٹھالیا۔

    ’’ریما جانی آنکھیں کھول دو۔۔۔‘‘عمران ، فضیلہ اور طارق نے سوئے ہوئے ننھی پری کو دیکھا اور اس پر سے کپڑا ہٹا دیا ۔

    ’’میرے اللہ ! اس قدر خوبصورت بچی !‘‘سب حیران ہو کر وہیں جمے کے جمے رہ گئے۔ لچھے دار سنہری بالوں ، گوری گلابی رنگت اور نیلی سمندر آنکھوں والی حسین باربی گڑیا گود میں آتے ہی بھوک کے مارے اوں اوں کرنے لگی ۔ فضیلہ کو تو جیسے کرنٹ سا لگ گیا ۔ اس نے بچی کو ماں کے پہلو میں لٹا کر نفرت سے یوں منہ پھیرلیا جیسے اس نے اس سے پہلے کبھی اتنی بدصورت بچی نہ دیکھی ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے