Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خلیج

MORE BYاسرار گاندھی

    رات خاصی تاریک تھی۔ اس تاریکی کو آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں نے اور بھی گہرا کر دیا تھا۔

    ٹرین کی رفتار کافی تیز تھی۔

    کھڑکی سے آتی ہوئی ہوا نے اس کے ہوش و حواس بجا کر رکھے تھے ورنہ حبس جان لیوا ثابت ہوتا۔ وہ اس گرمی سے بھاگ کر ہی دارجلنگ کے لئے روانہ ہوا تھا۔

    ایسا برسوں سے ہوتا آ رہا تھا۔ گرمیاں آتے ہی اس کے حواس باختہ ہونے لگتے اور تلوے کا تل اسے پریشان کرنے لگتا۔ پھر وہ رختِ سفر باندھ لیتا۔ شروع شروع میں ایک آدھ بار اس کی بیوی اور بچے بھی اس کے ساتھ گئے لیکن بعد کے برسوں میں نہ انھیں دارجلنگ جانے میں دلچسپی رہ گئی اور نہ اسے لے جانے میں۔

    دارجلنگ اس کی پسندیدہ جگہ تھی۔ وہاں کا موسم، وہاں کے لوگ، خوبصورت مناظر، پہاڑوں کے نشیب و فراز، حسین چہرے اور خاص طرح کا ماحول اس کی روح میں کچھ اس طرح رچ بس گئے تھے کہ گرمی آتے ہی دارجلنگ اس کے خوابوں میں آنے لگتا اور یہ خواب اپنے ساتھ مسز ورما کو بھی لے آتے اور مسز ورما کے ساتھ بلیو پائن کا ہونا ضروری تھا۔

    بلیو پائن۔۔۔ پر سکون جگہ پر بنا ہوا ایک بہت اچھاسا ہوٹل۔ یہاں گرمیوں میں کمرے حاصل کرنا خاصا مشکل ہوتا۔ شہر کے شور شرابے والی زندگی سے اکتائے ہوئے لوگ دارجلنگ آنے کے بعد سب سے پہلے بلّیو پائن میں ہی قسمت آزماتے۔

    وہ برسوں سے یہیں ٹھہرتا آ رہا تھا۔

    مسز ورما کیا خوبصورت خاتون تھیں۔ کھلتا ہوا گیہواں رنگ، بے حد تیکھے نقوش، چہرے پر بلا کی ملاحت، اتنی پر کشش کہ دیکھنے والا اس میں الجھ کر رہ جائے۔ وہ کبھی انتہائی نرم نظر آتیں اور کبھی کوکونٹ کی طرح سخت۔ خاصی تیز طرار واقع ہوئی تھیں۔ جو بات دل میں وہی زبان پر، کئی بار بلّیو پائن میں ٹھرنے والے سیاح ان کے اس رویہ سے پریشان ہو جاتے اور اس ہوٹل میں کبھی نہ ٹھہرنے کی قسم کھا لیتے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد مسز ورما کی ایک مسکراہٹ ان تمام قسم کھانے والوں کے گلے شکوے دور کر دیتی۔

    ان کی عمر یہی کوئی پینتیس چالیس کے درمیان رہی ہو گی۔ لیکن دیکھنے میں تیس سال سے زیادہ کی نہ لگتیں تھیں۔ پہلے پہل اسے خیال گزرا تھا کہ وہ اور مسز ورماہم عمر ہوں گے لیکن گزرتے ہوئے دنوں نے اسے بتایا تھا کہ وہ مسز ورما سے کئی برس چھوٹا ہے۔ شاید مسز ورما کو بھی اس کا اندازہ ہو چلا تھا۔

    وہ دارجلنگ میں بڑی اسناب(Snob) سمجھی جاتی تھیں کہ مقامی لوگوں سے ہمیشہ ایک فاصلہ بنا کر ملتیں۔

    برسوں پہلے مسز ورما کے رویے اس کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوتے تھے جیسے دوسرے سیاحوں کے ساتھ ہوا کرتے۔ لیکن وہ دھیرے دھیرے اس سے مانوس ہوتی گئی تھیں۔ پھر اس کے ساتھ ان کا رویہ قطعی پروفیشنل نہیں رہ گیا تھا۔ اس کی حیثیت دوست جیسی ہو گئی تھی۔ وہ ان کے اندر ہونے والی اس تبدیلی کو بڑی شدت سے محسوس کرتا لیکن اسے کوئی نام نہ دے پاتا۔

    ادھر چند برسوں سے وہ جب دارجلنگ پہنچتا تو مسز ورما اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ایسی گرم جوشی سے اس کا استقبال کرتیں کہ اس کا پورا وجود تمتما اٹھتا۔ وہ اس کے لئے ایک ایسا کمرہ رکھ چھوڑتیں جو ان کے اپنے ذاتی کمروں کے قریب ہوتا۔ وہ جب چاہتیں اسے بلا لیتیں یا پھر خود ہی اس کے کمرے میں چلی جاتیں اور شروع ہو جاتا طرح طرح کی باتوں کا سلسلہ۔ صبح کی چائے وہ عموماً ان کے ساتھ ہی پیتا۔ نہ جانے کیوں اسے مسز ورما کے ساتھ لان پر بیٹھ کر چائے پینا بہت اچھا لگتا۔وہ اگر اچھے موڈ میں ہوتیں تو صبح کچھ زیادہ ہی روشن محسوس ہونے لگتی۔ اپنی باتوں سے وہ اسے خوب ہنساتیں اور خود بھی ہنستیں۔ ہاں اگر ان کا موڈ مختلف ہوتا تو پھر خاموش ہی رہتیں۔ اسے اس خاموشی سے بڑی چبھن محسوس ہوتی لیکن وہ بھی چپ ہی رہتا کہ نہ معلوم اس کی کون سی بات انھیں اچھی نہ لگے اور وہ بگڑ جائیں ایک با ر اس کو اس کا تجربہ ہو چکا تھا۔

    اسے یاد آیا کہ اس دن بھی وہ اچھے موڈ میں نہیں تھیں۔ اس نے انھیں چھیڑنے کی غرض سے بلیو پائن میں ٹھہری ہوئی ایک غیر ملکی سیاح لڑکی کی خوبصورتی کا ذکر کچھ زیادہ ہی کر دیا تھا اور وہ ابل پڑی تھیں۔

    ’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم میں اور ایک عام آدمی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تمھارے لئے بھی عورت کسی چٹپٹی چیز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، تمھیں شرم آنی چاہئے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمھیں دوسروں سے الگ سمجھا۔‘‘

    پھر وہ پیر پٹختے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔

    وہ ہکا بکا ہو کرانھیں جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔

    اسے ان کے اس رویہ پر شدید دھکا لگا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مذاق میں کہی گئی بات اس طرح کا رخ اختیار کر لےگی۔

    کچھ دیر بعد اس نے اپنے کمرے کے باہر کسی کے قدموں کی آہٹ سنی تھی۔ ایک جانی پہچانی سی آہٹ۔مسز ورما اس کے کمرے میں داخل ہو رہی تھیں۔ وہ اس کے بالکل قریب آ کر کھڑی ہو گئیں۔ ان کے چہرے پر خجالت کے آثار تھے۔

    ’’ویری سوری‘‘ وہ شرمسار سے لہجے میں بولیں۔ پھر اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔ اس نے مسز ورما کے نرم نرم ہاتھوں میں خاصی گرمی محسوس کی اس نے انکی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا لیکن ایسا کچھ نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا۔ اسے قدرے مایوسی ہوئی۔

    ’’کوئی بات نہیں مسز ورما یہ سب بھی چلتا ہے۔‘‘ وہ ٹھہر ٹھہر کر بولا۔

    ’’ نہیں واقعی مجھے اپنے رویہ پر افسوس ہے۔میں خود بھی نہیں سمجھ سکتی کہ اچانک مجھے کیا ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے آہستہ سے بولیں۔

    چند لمحے کے لئے خاموشی چھا گئی۔

    ’’چلو ٹی گارڈن کی طرف چلتے ہیں۔ تمھارا موڈ فریش ہو جائےگا۔‘‘

    پھر وہ اسی طرف چلے گئے۔

    مسز ورما کے ساتھ اسے اس طرح کبھی کبھی گھومنا ہمیشہ اچھا لگا۔

    ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ کسی اسٹیشن پر رکی تو اس کی سوچ کو بھی جھٹکا لگا۔ وہ منتشر ہو گئی لیکن ٹرین کے دوبارہ چلتے ہی وہ پھر یکجا ہو کر اس کے وجود پر منڈرانے لگی۔

    اسے پچھلے برس سے پچھلے کی گرمیاں یاد آ گئیں۔

    وہ اس صبح چائے کی میز پر قدرے دیر سے پہنچا تھا۔

    ’’کتنا سوتے ہو۔‘‘وہ اسے دیکھ کر بولیں۔

    ’’سوری مسز ورما دراصل رات مجھے نیند کم آئی اس لئے سو کر ذرا دیر سے اٹھا۔‘‘

    ’’نیند کم کیوں آئی؟‘‘ ’’کہہ نہیں سکتا کیا وجہ تھی۔‘‘

    ’’میں دیر سے تمھارا انتظار کر رہی تھی۔‘‘

    ’’شکریہ مسز ورما۔‘‘

    ’’شکریے کی کوئی بات نہیں۔ تمھیں شاید نہیں معلوم کہ میں گرمیوں کے انتظار میں پورا سال کس طرح بے چینی سے گزارتی ہوں۔ دراصل یہاں تمھاری موجودگی میرے لئے سکون کا باعث ہوتی ہے۔‘‘

    مسز ورما ایک لمبی سانس لیتے ہوئے آہستہ سے بولیں۔

    اس نے ان کی بات کو بڑی خاموشی سے سنا۔ اپنے اندراس نے ایک ہلکی سی اتھل پتھل محسوس کی۔ اس کی آنکھوں نے مسز ورما کی آنکھوں میں کچھ ایسی کیفیت تلاش کرنے کی کوشش کی جسے کوئی نام دیا جا سکے ۔ اسے ان کی آنکھوں میں رنگین لہریے سے گزرتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اگلے لمحے وہاں ایسا کچھ نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا۔ اس نے سوچا کہ یہ لہریے شاید اس کا واہمہ رہے ہوں گے۔ وہ قدرے اداس ہو گیا۔

    اس کی اداسی سے بے خبر مسز ورما پھر بولیں ’’نہ جانے کیوں مجھے تمھاری موجودگی ایک ایسا احساس دیتی ہے جسے میں بتا نہیں سکتی۔‘‘

    وہ خاموش رہا۔ اس کی نظریں سامنے والے نشیب میں چکر لگاتی پھر رہی تھیں۔

    ’’کہاں کھو گئے؟‘‘ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔

    ’’اوہ!‘‘ اس نے ایک طویل سانس لی پھر دھیرے سے بولا۔’’کہیں بھی نہیں۔‘‘

    ’’جانتے ہو ہریش کے جانے کے بعد میں کتنا پریشان رہی۔ تم شاید اس کا اندازہ بھی نہ کر سکو۔ لیکن میں اب اس ذہنی کیفیت سے باہر آ چکی ہوں۔ Thanks to you.‘‘

    اسے مسز ورما کی بات سن کر بڑی حیرت ہوئی۔ وہ خود ہی اپنے شوہر ہریش کا ذکر کر رہی تھیں۔ ورنہ وہ تو ہریش کا ذکر آتے ہی جھنجھلا جاتیں۔ اسے یاد آیا کہ ایک بار ان کے ہوٹل میں ٹھہرنے والے ایک سیاح نے ان سے ان کے شوہر کے بارے میں پوچھ لیا تھا اور وہ اس سیاح پر اتنا بگڑی تھیں کہ اسے بلیو پائن سے نکال کر ہی دم لیا تھا۔

    ’’ مجھ کو بڑا تعجب ہے کہ تم نے کبھی ہریش کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی۔‘‘ وہ اسے خاموش دیکھ کر بولیں۔

    ’’میں نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ میںیوں بھی کسی کی ذاتی زندگی میں جھانکنے سے پرہیز کرتا ہوں۔‘‘

    تھوڑی دیر کے لئے سناٹا چھا گیا۔

    ’’ مجھے گزرا ہوا وقت یاد آ رہا ہے۔ میں ان لمحوں کو تمھارے ساتھ Share کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

    ’’مجھے بہت خوشی ہوگی۔‘‘ وہ مسز ورما کو غور سے دیکھتا ہوا بولا۔

    مسز ورما نے ایک لمبی سی سانس لی، پھر آہستہ سے بولیں ’’ہریش سے میری پہلی ملاقات کلکتہ میں ہوئی تھی۔۔۔‘‘

    ’’کلکتہ میں۔۔۔؟‘‘ اس نے ان کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی سوال کر دیا۔

    ’’ہاں کلکتہ میں۔ میرے پاپا چاہتے تھے کہ میں اچھی تعلیم حاصل کروں۔ اسی لئے انھوں نے مجھے وہاں بچپن سے ہی بھیج دیا تھا۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک اچھا خاصا حصہ ہاسٹل میں رہ کر گزارا ہے۔ کیا دن تھے وہ بھی۔ ہر طرح کی آزادی، ہر طرح کا آرام۔ میں ہمیشہ سے ہی تیز طرار اور شوخ تھی۔ یہ شوخی اس وقت بھی قائم رہی کہ جب میں کالج سے نکل کر یونیورسٹی پہنچ گئی۔ دن بھر ساتھیوں سے چھیڑ چھاڑ رہتی۔ کبھی یہ نشانے پر ہوتا کبھی وہ۔ میں اپنی انھیں شوخیوں کی وجہ سے بہت جلد یونیورسٹی میں ایک جانی پہچانی شخصیت بن گئی۔ میں اپنی کلاس ختم کرنے کے بعد ساتھی لڑکیوں کے ساتھ یونیورسٹی کیمپس میں ٹہلنے نکل پڑتی۔ پھر کسی نہ کسی لڑکے کو بکرا بننا ہی پڑتا۔ بس ایک کپ کافی اور معمولی سے اسنیکس پر اکتفا کر لیا جاتا تھا کہ اسے آئندہ بھی گھیرا جا سکے۔ انھیں دنوں کئی لڑکے میری جانب سنجیدگی سے متوجہ ہوئے۔ لیکن میرے رویوں سے وہ جلد ہی اپنی دنیا میں واپس لوٹ گئے۔ کہاں میں اور کہاں سنجیدگی۔‘‘

    مسز ورما سانس لینے کے لئے ذرا ٹھہر گئیں۔ اسے لگا کہ جیسے ان کی آنکھیں ماضی میں کچھ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔

    ’’مسز ورما وہ ہریش۔۔۔آپ نے اپنی بات پوری نہیں کی۔‘‘

    ’’ہاں میں اسی طرف آ رہی ہوں۔ ہریش میرا کلاس فیلو تھا میں نے شروع سے ہی محسوس کیا تھا کہ وہ مجھ سے دور دور رہتا ہے۔ بس یہی بات میرے اندرونِ جاں میں کہیں چبھ گئی۔ میں نے طے کر لیا کہ ہریش کو اس کی اوقات بتائے بغیر نہیں رہوں گی۔ پھر اس کی اوقات بتانے کے چکر میں کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ میں محسوس کرنے لگی تھی کہ میں اب ہریش کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس کے رویے بھی بدل گئے تھے۔ وہ اپنے وقت کا زیادہ حصہ میرے ساتھ ہی گزارتا۔ میرا چنچل پن نہ جانے کہاں چلا گیا تھا اور اس تبدیلی کو میرے تمام ساتھی محسوس کرنے لگے تھے۔ پھر ایک دن سات پھیروں کے بعد ہریش اور میں ایک ہی چھت کے نیچے رہنے کے لئے آ گئے۔‘‘

    ’’شروع کے دن بہت اچھے گزرے۔ میں ہوتی ہریش ہوتا اور یہاں کی خوبصورت وادیاں ہوتیں۔ لیکن دو تین برسوں کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ ہریش کی دلچسپیاں مجھ سے زیادہ دوسری عورتوں میں بڑھ گئی ہیں۔ میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتی لیکن وہ میری بات سمجھنے کے بجائے لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہو جاتا۔ پھر اس دن حد ہی ہوگئی جب میں نے اسے ایک نوکرانی سے فلرٹ کرتے ہوئے اپنی نظروں سے دیکھا۔ میں نے اسے یہاں سے چلے جانے کو کہا اور وہ سچ مچ چلا گیا۔ کبھی نہ آنے کے لئے۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ دارجلنگ چھوڑتے وقت وہ اپنے ساتھ کسی عورت کو بھی لے گیا۔‘‘

    ’’اوہ !‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔

    ’’اور پھر برسوں بعد میں آنے والی گرمیوں کا انتظار کرنے لگی۔‘‘ وہ اپنی گہری گہری آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔

    ان کی آواز میں نہ جانے کیا تھا کہ اسے اپنے اندر ایک لہر سی اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ اسے پھر وہاں ویسے ہی رنگین لہریے گزرتے ہوئے نظر آئے۔ جس طرح کے لہرئے وہ پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا تھا اور انھیں اپنا واہمہ سمجھا تھا۔

    مسز ورما کی آنکھوں سے وہ رنگین لہریے پھر غائب ہو چکے تھے اور ان کی جگہ ایک ایسے سونے پن نے لے لی تھی جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ اوروہ ایک بار پھر اداس ہو گیا۔

    ’’چلو گھوم آئیں‘‘ وہ اسے خاموش دیکھ کر بولیں۔

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’کہیں بھی چل سکتے ہیں۔‘‘

    ’’اچھا میں تیارہو کر آتا ہوں‘‘ وہ اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑا۔

    تھوڑی دیر بعد جب وہ تیار ہو کر نکلا تو دیکھا کہ مسز ورما اس کے انتظار میں لان پر بیٹھی ہیں۔

    وہ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئیں پھر کار پر بیٹھتی ہوئی بولیں۔

    ’’چلو راک گارڈن چلتے ہیں۔ تم میرے ساتھ وہاں پہلے کبھی نہیں گئے۔‘‘

    ’’چلئے‘‘ وہ مسز ورما کے بغل میں بیٹھتا ہوا بولا۔ اسے معلوم تھا کہ راک گارڈن مسز ورما کی کمزوری ہے۔

    انھوں نے کار اسٹارٹ کر کے آگے بڑھائی اور اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔

    ’’یہ کار میرے پاپا نے مجھے شادی کے موقع پر تحفتاً دی تھی۔ کتنے اچھے تھے وہ۔ مجھے بے پناہ چاہتے تھے۔ میری تمام خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ میرا چھوٹا بھائی جو اب امریکہ میں رہتا ہے، اس بات پر پاپا سے خوب لڑتا تھا، وہی بھائی اب اگر روز فون پر بات نہ کر لے تو شاید اس کا کھانا ہضم نہ ہو۔‘‘

    مسز ورما کار خاصی تیز رفتار سے چلا رہی تھیں۔ دارجلنگ کے راک گارڈن کا راستہ یوں بھی کافی پر پیچ ہے۔ اتار چڑھاؤ بھی بہت خطرناک، ذرا سی لغزش ہزاروں فٹ نیچے لے جا سکتی تھی۔

    اسے ڈر سا محسوس ہوا۔ اس نے اپنی آنکھیں نشیب کی جانب سے ہٹا لیں اور مسز ورما سے بولا ’’میڈم آپ کافی خطرناک ڈرائیو کر رہی ہیں۔ مرنے کی اتنی بھی کیا جلدی ہے؟‘‘

    وہ ہنستے ہوئے بولیں ’’مجھے تیز کار چلانے میں بہت مزہ آتا ہے اور اگر کسی حادثے میں مر گئے تو اس طرح سے مرنے کا اپنا ایک الگ رومانس ہوگا۔ ویسے کیا تم ڈر رہے ہو؟‘‘

    ’’بالکل نہیں۔ مجھے بھی آپ کے ساتھ اس رومانس میں شرکت کر کے اچھا لگے گا‘‘ وہ بھی ہنستا ہوا بولا۔

    مسز ورما نے ایک لمحے کے لئے ونڈ اسکرین سے اپنی آنکھیں ہٹائیں اور اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ وہاں ایسا کچھ بھی نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا۔ وہ قدرے اداس ہو گئیں۔

    ’’مسز ورما جب میں لگا تار شدید ذہنی الجھنوں کا سامنا کرتے کرتے تھک جاتا ہوں تو زندگی کی سچائیوں سے فرار حاصل کرنے کے لئے یہاں آ جاتا ہوں۔ پھر آپ کی موجودگی سے وہ الجھنیں اس قدر خوف زدہ ہو جاتی ہیں کہ میرے قریب بھی نہیں پھٹکتیں۔‘‘

    ’’کیسی الجھنیں؟‘‘

    ’’گھریلو‘‘

    ’’کیا میں ان الجھنوں کو جان سکتی ہوں؟‘‘

    ’’ہاں ہاں کیوں نہیں؟ میں آپ کو بتاتا ہوں‘‘ وہ سانس لینے کے لئے رکا۔ اس کی آنکھیں سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اس نے اپنی آنکھیں بندکیں تو شکنیں پیشانی پر آ کر بیٹھ گئیں۔ ایسا لگا کہ جیسے وہ ڈور کے اس سرے کی تلاش میں ہو کہ جہاں سے وہ اپنی بات شروع کر سکے۔ چند لمحوں کے بعد وہ مدھم سی آواز میں بولا۔

    ’’میری شادی میں میرے ماں باپ کی رضا مندی پوری طرح سے شامل نہیں تھی۔ لیکن میری خوشیوں کے لئے انھوں نے میری اس خواہش کو قبول کر لیا۔ دراصل وہ ڈرتے تھے کہ خاندان کے باہر سے آنے والی لڑکی شاید ان کا وہ خیال نہ رکھ سکے جس کے وہ مستحق تھے۔ ان کا یہ خوف فطری بھی تھا کہ ایک کالج میں پڑھانے کی وجہ سے اس کے پاس وقت کی اتنی کمی تھی کہ میرے والدین کی کون کہے، مجھے بھی اس سے جتنا وقت درکار تھا، نہیں دے پاتی تھی۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ رات جب میں دوستوں کی محفل سے واپس آتا تو وہ سو چکی ہوتی اور جب میں اسے کھانے کے لئے جگاتا تو چڑھ جاتی اور پھر تو تو میں میں شروع ہو جاتی۔ میں محسوس کرتا کہ میرے والدین اس صورت حال سے رنجیدہ رہنے لگے تھے۔ میں انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا لیکن مایوسی ہاتھ لگتی۔ان کے گلے شکوے بے جا نہیں تھے۔ انھوں نے اپنی بہو کو لے کر جو خواب دیکھے تھے وہ بکھر چکے تھے۔ میں خود بھی ان حالات سے پریشان تھا۔انھوں نے بڑی پریشانیوں سے میری پرورش کی تھی۔‘‘

    وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا اس کی آنکھوں سے اداسی ٹپک رہی تھی۔

    مسز ورما بے چین سی ہو گئیں۔ انھوں نے اپنا بایاں ہاتھ اسٹیرنگ پر سے ہٹایا اور اس کی پیٹھ تھپتھپاتی ہوئی بھاری بھاری سی آواز میں بولیں ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

    ’’پھر میرے ماں اورباپ دونوں ہی ہارٹ اٹیک کا شکار ہو کر اس دنیا سے چلے گئے۔ دونوں کے جانے کا درمیانی وقفہ بہت کم تھا۔ وہ چلے گئے لیکن میرے دل میں ایک ایسی چبھن چھوڑ گئے جو شاید کبھی ختم نہ ہو۔ پھر میرے اور بیوی کے بیچ انا در آئی اور دھیرے دھیرے ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے ایک ہی چھت کے نیچے رہنے کے باوجود اجنبی ہو کر رہ گئے۔ اور اب ہم دونوں کے درمیان بچے ایک پل کا کام کر رہے ہیں۔‘‘ وہ پھر چپ ہو گیا۔

    ’’تم اس سے اپنا پیچھا کیوں نہیں چھڑا لیتے؟‘‘ مسز ورما نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک سپاٹ سا سوال کر دیا۔

    مسز ورما بس یہی تو نہیں ہو سکتا۔ میں اگر اپنا پیچھا چھڑا لوں تو پھر بچوں کا کیا ہوگا؟ ان کا مستقبل۔۔۔؟ نہیں مسز ورما ! میں اپنے بچّوں کے مستقبل کی قیمت پر اپنی خوشیاں حاصل کرنا کبھی پسند نہ کروں گا۔ وہ شاید بچّے ہی ہیں جو زیادہ تر گھروں کو پوری طرح سے ٹوٹ کر بکھرنے سے بچائے ہوئے ہیں۔ ہر کسی میں آپ جیسی ہمت کہاں؟‘‘

    مسز ورما نے گھوم کر اس کی طرف دیکھا تو دونوں کی نظریں ملیں اور دونوں کے چہروں پر ایک بے نام سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

    راک گارڈن گھومتے وقت وہ کئی بار اداس ہوئیں کہ جب بھی انھوں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، وہاں ایسا کچھ بھی نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا۔

    راک گارڈن سے واپسی پر انھیں خاصی دیر ہو گئی تھی۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا تھا اور اس اندھیرے میں دور تک پھیلے ہوئے پہاڑوں کا سلسلہ اسے کسی عفریت جیسا لگ رہا تھا۔ مسز ورما بڑی مشاقی سے کار چلا رہی تھیں۔ وہ کبھی کبھی کسی موڑ پر جب اچانک بھرپور بریک کا استعمال کرتیں تو اس کا جسم ان سے ٹکرا جاتا اور ایک عجیب سی کیفیت بیدار ہونے لگتی۔

    وہ جب بلیو پائن پہنچے تو رات کوئی نو۹ بج رہے تھے۔ وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے اسے اس کے کمرے تک پہنچانے آئیں۔ رخصت ہوتے وقت دونوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا انھیں وہاں دھنک کے رنگ لہراتے ہوئے نظر آئے۔ وہاں کچھ نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا۔ صرف ایک چمک تھی۔ سراب جیسی چمک۔

    وہاں ایک گہری خاموشی پسر گئی۔ پھراس خاموشی کو مسز ورما کی چاپ نے توڑا۔ وہ کشاں کشاں اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھیں۔

    اسے یاد آیا کہ آخری بار جب وہ دارجلنگ سے واپس لوٹ رہا تھا تو مسز ورما اسے الوداع کہنے نیو جلپائی گڑی تک اس کے ساتھ آئی تھیں۔ اس نے انھیں روکا بھی تھا، لیکن انھوں نے یہ کہہ کر اسے خاموش کر دیا تھا کہ انھیں وہاں کوئی ضروری کام ہے۔

    انھوں نے ٹرین چھوٹنے سے پہلے اس سے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملا کر کہا تھا:

    ’’اگلے Summer میں پھر ملتے ہیں۔‘‘اورٹرین کو نظروں سے اوجھل ہونے تک اپنے ہاتھ ہلاتی رہی تھیں۔

    پھر وہ پچھلی گرمیوں میں دارجلنگ نہیں جا سکا تھا۔ انجینئرنگ میں بیٹے کے داخلے کے لئے بھاگ دوڑ اور لگاتار الجھنوں میں رہنے کے باعث خود اس کی اپنی گرتی ہوئی صحت دارجلنگ کی راہ میں روڑا بن گئے تھے۔ اسے پتہ تھا کہ مسز ورما کو ساری گرمی اس کاانتظار بڑی بے چینی سے رہا ہو گا۔ وہ ان سے فون پر بھی رابطہ نہیں قائم کر سکا تھا کہ ان دونوں کے درمیان فون کرنے کی کوئی روایت نہیں تھی۔

    وہ یہ سب سوچ سوچ کے نہ جانے کب سو گیا پھر اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ اور مسز ورما ایک ہرے بھرے پہاڑ پر دوڑ رہے ہیں۔ اس دوڑ میں مسز ورما آگے ہیں اور وہ پیچھے۔ وہ انھیں پا لینا چاہتا ہے لیکن وہ ان کے ہاتھ آتے آتے رہ جاتی ہیں۔ اس بھاگ دوڑ میں اچانک اس کے پیر پھسل جاتے ہیں اور وہ کوشش کے باوجود خود کو نہیں سنبھال پاتا۔ وہ تیزی سے ہزاروں فٹ گہری کھائی میں جا رہا ہے، وہ چیخنا چاہتا ہے لیکن آواز گلے میں گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ موت سرعت سے قریب آ رہی ہے۔ اس کا دل بڑی تیزی سے دھڑک رہا ہے۔

    پھر وہ جاگ گیا۔ لیکن وہ پوری طرح سے جاگا بھی تو نہیں تھا۔ سونے جاگنے کی درمیانی کیفیت۔ وہ پوری طرح سے ہوش میں آنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے ہاتھ پیر تو جیسے جم گئے تھے۔ اسے بے حد گھبراہٹ ہونے لگی۔ اسے لگا کہ جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہے۔ پھر اچانک وہ جاگ گیا اور اسے اس اذیت سے نجات مل گئی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کا دل اب بھی بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ ڈبے میں حبس پوری طرح سے براجمان ہے۔

    اس نے تھرمس سے پانی نکال کر پیا تو اسے قدرے سکون محسوس ہوا۔ پھر گھڑی دیکھی تو چار بج رہے تھے۔ ابھی کئی گھنٹے کا سفر باقی تھا۔ اس نے ڈبہ کے باہر دیکھا تو صبح کاذب کے آثار ہویدا تھے۔ وہ پھر لیٹ گیا اور کھڑکی سے آتی ہوئی ٹھنڈی ہوا نے اسے تھپک تھپک کر دوبارہ سلا دیا۔

    اس کے بعد اس کی آنکھیں نیو جلپائی گڑی کے اسٹیشن کے Outerپر ہی کھلیں۔ لوگ اپنا اپنا سامان اکٹھا کر کے اترنے کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ جلدی سے اٹھ بیٹھا اور اپنا سامان برتھ کے نیچے سے نکال کر اکٹھا کرنے لگا۔

    کوئی ڈھائی گھنٹے بعد دارجلنگ میں اس کے قدم آہستہ آہستہ بلّیو پائن کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ جب بلیو پائن پہنچا تو اسے ایک عجیب سے سناٹے کا احساس ہوا۔ اسے دیکھتے ہی رسیپشن کلرک اجمل تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔

    ’’ہلو کیسے ہیں آپ؟‘‘ اجمل اس کے قریب آ کر بولا۔

    ’’میں ٹھیک ہوں اور تم؟‘‘

    ’’میں بھی بس ٹھیک ہی ہوں۔‘‘ اس کے لہجے میں ایک بے نام سی اداسی تھی۔

    ’’مسز ورما کیسی ہیں؟‘‘

    اجمل خاموش رہا۔ اس کے چہرے پر بے چینی کے آثار صاف نظر آ رہے تھے۔

    ’’میں نے تم سے کچھ پوچھا؟‘‘ اس نے اجمل کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پھر سوال کیا۔

    ’’میڈم نہیں رہیں۔‘‘ اجمل نے ٹھہر ٹھہر کر جواب دیا۔

    ’’کیا بکتے ہو؟‘‘ وہ اتنی تیزی سے اچھلا کہ جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔

    ’’یہ سچ ہے۔‘‘ اجمل کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔

    اسے لگا کہ جیسے بلّیو پائن آہستہ آہستہ دھنس رہا ہو۔ پھر وہ اگر قریب رکھی ہوئی کرسی پر نہ بیٹھ جاتا تو یقیناً چکرا کر گر پڑتا۔

    اجمل نے کسی نوکر کو آواز دے کر پانی منگایا اور اس کی بغل والی کرسی پر خود بھی بیٹھ گیا۔

    ایک گلاس پانی نے اس کے حواس کسی قدر یکجا کئے۔

    ’’یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟‘‘ اس نے سونی سونی آنکھوں سے اجمل کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔

    ’’کیا بتاؤں آپ کو۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ گرمیاں شروع ہوتے ہی وہ آپ کا انتظار کرنے لگتی تھیں۔ پچھلی گرمیوں میں بھی ایسا ہی ہوا۔ لیکن آپ نہیں آئے۔ وہ ساری گرمی بے حد بے چینی میں مبتلا رہیں۔ مجھ سے بار بار کہتیں کہ آپ کسی اور ہوٹل میں نہ رک گئے ہوں۔ انھوں نے مجھے کئی بار آپ کو ڈھونڈنے کے لئے دوسرے ہوٹلوں میں بھیجا بھی۔ میں ان کی اس بےچینی کو دیکھ کر خود بھی پریشان ہو اٹھتا۔ وہ ذہنی طور پر لگاتار پریشان رہنے لگی تھیں۔ وہ برابر آپ کا ذکر کرتی رہتیں۔ ان کے مزاج میں اچھا خاصا چڑچڑا پن پیدا ہو گیا تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر چیخنے چلانے لگتیں۔ ہوٹل کے تمام ملازم جو ان کا بہت خیال رکھتے تھے، ان سے کترانے لگے۔ پھر سردیاں آ گئیں۔ سردیوں میں ہوٹل کا کاروبار بندسا ہو جاتا ہے۔ اس طرح ان کی مشغولیت ختم سی ہو گئی۔ وہ شدید تنہائی کا شکار ہو گئیں۔ پھر ایک دن ان پر نروس بریک ڈاؤن کا حملہ ہوا وہ بےحد بیمار پڑ گئیں۔ چند دنوں بعد امریکہ سے ان کا بھائی آ گیا۔ اس نے بڑی کوشش کی کہ میڈم کچھ دنوں کے لئے ان کے ساتھ امریکہ چلی جائیں لیکن وہ کسی طرح سے راضی نہ ہوئیں۔ وہ بہت ضدی ہو گئی تھیں۔ آہستہ آہستہ ان کی حالت ٹھیک ہونے لگی۔ خاصا مہنگا علاج ہورہا تھا۔ بھرپور طریقہ سے ان کی دیکھ ریکھ بھی ہورہی تھی۔ کوئی دو مہینے بعد ان کا بھائی امریکہ واپس چلا گیا۔ جاتے وقت وہ ہم لوگوں کو ہدایت دے گیا تھا کہ میڈم کو کار نہ چلانے دیا جائے۔ شاید اس لئے کہ ان کا نروس سسٹم بہت کمزور ہو گیا تھا۔

    ایک دن صبح جب میں ڈیوٹی پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ میڈم اپنی کار خود چلا کر راک گارڈن کی طرف گئی ہیں۔ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ وہ ابھی پوری طرح صحت مند نہیں ہوئی تھیں۔ میں نے ان کے خیریت سے واپس آنے کے لئے دعا کی۔ لیکن شاید دعا کرنے میں مجھے کچھ دیر ہو گئی تھی۔ چند گھنٹوں بعد پتہ چلا کہ ان کی کار ان کے قابو سے باہر ہو کر ہزاروں فٹ گہری کھائی کا نوالہ بن گئی ہے۔‘‘

    اجمل خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ سکتے کے سے عالم میں خالی خالی آنکھوں سے اسے گھورے جا رہا تھا، پھر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اسے محسوس ہوا کہ جیسے رسیپشن روم تیزی سے گردش کر رہا ہو۔ اس نے اپنا سر قریب رکھی ہوئی میز پر ٹکا دیا۔

    اور جب اس نے اپنی آنکھیں پھر کھولیں تو بلیو پائن کے دھنک رنگ غائب ہو چکے تھے اور وہاں ایسا کچھ بھی نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے