aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خونچکاں

شہناز رحمن

خونچکاں

شہناز رحمن

MORE BYشہناز رحمن

    خواب جل کر راکھ ہو گئے، چشم تمنا بجھ گئی، سرخ رنگ حنا پیلا پڑ گیا، بارش کی بوندیں ذروں سے ٹکراکر شور مچار رہی ہیں، شہر دل ویران ہو گیا۔۔۔

    ’’دلہن کی مہندی بڑی رنگ لائی ہے۔ پتی دیو بڑا پیار کریں گے‘‘ ریما کی بچی اپنا منھ بند رکھ ۔

    لڑکیاں تو گھر کی نعمت ہیں۔ والدین کے گھر ہیں تو ایک فرمانبرداربیٹی اور پیار کرنے والی بہن بن کر گھر کو رونق بخشتی ہیں اور سسرال گئیں تو وفادار بیوی اور ذمہ دار بہو کا فرض ادا کرکے سب کادل جیت لیتی ہیں اور پھر پوری دنیا انھیں کے دم سے تو چل رہی ہے۔ سو ں سوں کرتے ہوئے تایا جی نے آنسو پونچھے۔

    ’’یا خدا تایا جی کا ٹیپ ریکارڈ ر کب بند ہوگا‘‘ اس نے گھونگھٹ کو پیچھے سرکاتے ہوئے کہا۔

    ’’بجیا ولیمے کے سارے فوٹو گراف میری آئی۔ ڈی پہ میل کردینا اور ہاں ایک پیارا سا پوز جیجو کے ساتھ کلک کروا کے بھیج دینا۔ میں تو کنیڈا چلی جاؤں گی تین سال بعد ہی لوٹوں گی۔‘‘

    کیوں؟ اتنا بک رہی ہے۔

    ’’ماڈرن دلہن ذرا لحاظ کر، کسی بات کا جواب دینے سے نہیں چوک رہیں تم۔ ویسے میں کیوں اتنا رکویسٹ کر رہی ہوں تم خود اپنے’’ ان کے‘‘۔۔۔۔ ساتھ پوز دینے کے لئے بےچین ہوگی‘‘ اچھا تم اپنی ڈائری لے کر جا رہی ہو کہ نہیں جس میں تم نے فیوچر پلان لکھ رکھا ہے۔

    بیوقوف ڈائری کی کیا ضرورت وہ تو خواب تھا اب سب کچھ حقیت ہوگا۔

    اور سنو جو چوڑی میں نے دی ہے وہی پہننااتنی خوبصورت ہے کہ ’’وہ‘‘ اس کی سرخی میں کھو جائیں گے۔

    اپنا اسپیکر کب بند کروگی؟

    اپیا تمہیں تو لگم ( سونو نگم ) کے دانے ( گانے ) پسند ہیں یہ تھی ڈی (سی ڈی) تمہالے لئے لایا ہوں۔ عفو نے آنچل کھینچتے ہوئے کہا۔

    تایا جی نے دیوان فیض سنہرے مخملی غلاف میں رکھ کے پیش کیا۔ تائی جی نے ’’ماہ تمام‘‘ دیتے ہوئے کہا لے بیٹی میں لاہور سے خاص کر تیرے لئے لائی تھی۔

    بجیا تم سسرال جا رہی ہو یا اردو سے بی۔ اے۔ آنرز کرنے جا رہی ہو یہ لوگ شاید کنفیوز ہیں؟؟ ریما کان میں پھسپھسائی۔

    سب نے دعائیں دیں۔ مری بنی شادی کے جوڑا ماکتنی پیاری لگت ہی خدا سلامت رکھے۔ اعظم گڑھ والی ممانی نے کہا۔

    سب خدا حافظ کہہ کر چلے گئے۔

    ٹرین راجستھان کے صحراؤں میں داخل ہو چکی ہے۔ سرد ہوا کے بازو تھامے ایک تنہا لڑکی گیلی ریت پر گھوم رہی ہے اس کی بیکل آنکھیں بنا کاجل، اس کے سونی کلائیاں بنا کنگن کے، اس کے ساکت قدم بنا گھنگھرو کے ہیں وہ کسی کو ڈھونڈ رہی ہے بھری کشتی کے باد بانوں کوحیرت سے دیکھتے ہوئے حسرت سے اپنا آنچل مسل رہی ہے۔

    صبح ہو گئی۔۔۔ ولیمہ کی تیاریاں ہونے لگیں۔۔۔

    آداب بھابھی سا۔ آپ کے قدم بڑے مبارک ثابت ہوئے آپ آئیں تو بارش ہونے لگی۔

    سونی بٹیا۔۔۔ کھٹے گئی چھوری؟ جا دیکھ بیندڑی کے کمرے میں مالی نے کون کون سا پھول سجایا ہے۔ گلاب کا پھول ہے کہ نے۔

    ہاں۔۔۔ دیکھ لیا ہے۔۔۔ سب کچھ کمپلیٹ ہے۔

    ھابھی آپ کو پتا ہے؟؟؟؟ گووا سے مالی کو بلوایا گیا ہے۔

    ’’لمحہ رک گیا ہے حیرت سے آنکھیں جھپک رہی ہیں۔۔۔خوابوں کے جگنو تھک گئے۔۔۔لیپ ٹاپ ریما نے دیا تھا۔۔۔ اس کا میل آیا ہے۔‘‘

    ریماکے شکوؤں سے پورا پیج بھرا ہوا ہے۔۔۔ تم نے بتایا کیوں نہیں کہ جیجو کو چوڑی کیسی لگی۔ فوٹو گراف میل کیوں نہیں کیا؟ آن لائن کیوں نہیں ہوتی؟ ہنی مون کے لئے کہاں جا رہی ہو؟ اپنے پتی کے پیار میں اتنا کھو گئیں کہ ہم سب کو بھلا دیا۔ ہماری ضرورت ہی محسوس نہیں ہو رہی ہوگی۔۔۔ سوئٹزرلینڈ تو تمہارے خوابوں کا شہر تھا۔۔۔لیکن اب تمہاری حقیقتوں کا شہر کون سا ہے؟؟؟؟

    خوابوں کے شیش محل کو کب تک سینت کے رکھتی اجلے بادل کی طرح سارے خواب مغربی ہوا کے ساتھ اڑ گئے۔ وفا کی بانہوں میں کب تک چوڑیاں بجاتی؟؟ انھیں توڑ دیا۔

    اسے چوڑیوں کے کھنک سے چڑ ہے۔ پازیب کی جھنکار سن کر وہ دور بھاگ جاتا ہے، گھنیر ی زلفوں کی لمس سے اسے نفرت ہے، نازک لبوں کے بوسے اور مخروطی انگلیوں کی گداگداہٹ سے اس کی تشنگی پوری نہیں ہوتی۔ گداز جسموں کا آغوش اسے پسند نہیں۔ ساون کی چنچل ہوامیں نسوانی آوازوں کی مدھر گیت سے اس کے پردے پھٹنے لگتے ہیں، وہ کانوں کو بند کر لیتا ہے۔۔۔

    ’’بیند ڑی سمیر کا فون آوے ہے کی نہ؟ نہ جانے کون ساضروری کام آ گیا مہمانوں کو بھی وداع نہ کیا اور امریکہ بھاگ گیا۔ ایسا لگے ہے تھاری یاہم سب کی اسے کوئی فکر ہی نہ ہے۔ بس اپنے بزنس کی ہے۔۔۔ اس کی ساس نے کہا۔‘‘

    یاد ہے۔۔۔ اس نے گھونگٹ اٹھایا تھا۔۔۔ اس کی لمس سے آنچل آج تک صندل کی طرح ہر رات مہک اٹھتا ہے اور دل کے زخموں کو ہرا کر دیتا ہے، درد بے قابو ہو جاتا ہے اور آنکھوں کا کاجل پھیل جاتا ہے۔ وہ پہلی رات تھی اس نے سب کچھ میرے حوالے کر دیا تھا سوائے اپنے آپ کے۔۔۔ ’’یہ کالے ہیرے کی انگوٹھی ہے۔۔۔ تمہارے لئے فرانس سے منگوائی گئی ہے‘‘ اور پھر چلا گیا۔۔۔ تب سے رات اکیلی تنہائی کی بارش میں بھیگ رہی ہے۔ صبح ہو گئی کواڑ بے خواب رہ گئے۔

    ’’کواڑ کے دونوں پٹ ایک دووسرے سے ملنے کے لئے ترس گئے‘‘ جرم کس کا ہے؟؟ سزا کس کو مل رہی ہے؟؟

    شاید کبھی آنے کی زحمت کرے ۔۔جب برسات کے موسم میں بدن ٹوٹے تو انگڑائیاں جاگ اٹھیں۔

    ہوائیں چلیں بارشوں کی نوید ساتھ لائیں زمین کے چہرے پر نکھار آ گیا۔ بھنورے پوچھتے ہیں۔

    ’’تیرے آنگن میں کوئی گلاب کوئی چنبیلی کا پیڑ کیوں نہیںِ؟ برسات نے زمین کی کوکھ کو زرخیز کردیا تیری کوکھ میں اب تک کوئی پودا کیوں نہیں اگا؟

    کس نے اس کو کھ کو بنجر بنا دیا ہے؟؟

    بارش کا وہ نایاب قطرہ جو زمین کو زرخیز کرتا ہے۔۔۔ پیڑوں کو ہریالی دیتا ہے، میری کوکھ اس قطرے سے محروم ہے۔۔۔ ابر باراں کو یہ پیغام دے دو کہ میں جل رہی ہوں ایک قطرہ مجھے عطا کر دے۔۔۔

    تھاری منے کوئی پروانہیں۔۔۔ توآئے یا نہ آئے لیکن بیندڑی کی تو ہے۔۔۔ جو بھی ر شتے دار آویں ہیں ایک ہی سوال پوچھتے کہ تھاری بینڈڑی بانجھ ہے کی‘‘

    فیس بک پر ریما نے ٹیڈی بیرس کی فو ٹو ز اپ لوڈ کردیے ہے اور اس پر Comment لکھ دیا ہے یہ تمہارے چنے منے کے لئے۔۔۔

    ’’لیکن ہوا نے تو موسم باراں سے قحط کی سازشیں کرلی ہیں ڈوبتے سفینوں کی ناخدائی کے لئے بھیجے گئے بادبانوں نے غداری کر دی۔ مچھلیاں تشنگی سے پھڑ پھڑ انے لگی ہیں، گھٹائیں بارشوں کے سند یسے صرف سمندروں کو دیتی ہیں۔‘‘

    آواز سننے کے لئے کان ترس گئے۔۔۔

    مدتوں بعدفون کی گھنٹی بجی۔۔۔ دل کے زخموں کی مہک جاگ اٹھی، بھیگی ہوئی بوجھل پلکیں کھلیں، نمناک آنکھیں مسکرائیں۔ لمس نصیب نہیں تو آواز اور الفاظ کا رشتہ تو نصیب ہے دکھ کو گلے لگاتے لگاتے تھک گئی سکون سے کبھی تو دوستی نصیب ہو مگر۔۔۔

    ’’مجھے تم سے نفرت ہے صرف تم نہیں، بلکہ ہر لڑکی اور اس کے وجود سے مجھے نفرت ہے‘‘۔ فون کٹ گیا۔

    ہر رات چاند سے اس کے احوال پوچھتی ہوں۔۔۔ کیا کوئی میرے چہرے سے ملتی جلتی میری ہم شکل اس کے ساتھ ہے؟؟؟ جس کے چہرے کی اور دیکھ کر وہ مجھے یاد کرتا ہے۔

    ’’اس نے جواب دیا نہیں وہ سورج ہے اپنے آپ پر نازاں ہے خود پسند ہے اپنے ہی جیسے زور آور کو پسند کرتا ہے اس کا محبوب’’ میں ‘‘نہیں سورج ہے اپنے ہی ہم جنس پر عاشق ہے‘‘ اور پھر چاند نے کہا، سفر میں ہم دونوں ساتھ ہیں۔۔۔ تم زمین پر تنہا ہو۔۔۔ اور میں آسمان پر۔

    وہ آنے والا ہے۔۔۔

    کب آئےگا؟؟؟

    چمکتی کار آکر رکی۔۔۔ شور مچا۔۔۔ ماموں آئے۔۔۔ ماموں آئے۔۔۔ ارے ماموں کے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔

    کوئی اور۔۔۔ کوئی اور۔۔۔

    ’’پورا وجود کانپ اٹھا‘‘

    اماؤس کی رات ہے کمرہ پہلے سے بھی زیادہ تاریک ہو گیا، پیاسے رگوں کے مساموں پر تنہائی کی چادر لپیٹے لپیٹے تند ہواؤں میں وحشتوں سے باتیں کرتے کرتے تھک گئی ہوں۔

    کمرے کا دروازہ بند ہے کھڑکی کا ایک پٹ کھلا ہوا ہے وہ دونوں رفاقت اور وصل کے سارے مزے اٹھا رہے ہیں اور اپنے نئے جرم کو امر کرنے کے جواز ڈھونڈ رہے ہیں ان کی باتیں میری سماعت سے بجلی کی طرح ٹکرا رہی ہیں۔ کان بند کر لیے پھر بھی آوازیں گونج رہی ہیں تنگ آکر لاؤڈ اسپیکر آن کر دیا۔

    ضلع مجسٹریٹ نے دفعہ 144کے تحت لاؤڈ اسپیکر بجانے پر پابندی لگا دی۔ احکام کے مطابق 11بجے سے صبح 6بجے تک لاؤڈ اسپیکر نہیں بجایا جا سکتا۔ احکام کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں کاروائی کی جائےگی جس کے تحت چھ ماہ تک کی قید ایک ہزار روپیے کاجرمانہ دینا پڑےگا۔

    لاؤ ڈ اسپیکر بجانا جرم ہے؟؟؟

    لاؤڈ اسپیکر بجانا جرم ہے؟؟ قانونی جرم۔

    بستر پر سلوٹیں پڑی ہوئیں ہیں۔ اس کا مطلب وہ دونوں ایک جسم دو قالب ہوئے؟؟؟

    چاند کی روشنی گھنے درختوں کی اوٹ سے اترکر بستر پر پڑ رہی ہے۔ وہ نیم خوابی کے عالم میں کہہ رہا ہے۔

    ’’تمہارے پیارمیں دیوانہ ہوگیا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’تمہارے واسطے میں سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں۔ اس دیس میں ہمارے پیار کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، ہم امریکہ کے اس شہر میں گھر بنائیں گے جہاں ہمارے پیار کے درمیان کوئی نہیں آئےگا۔‘‘

    تاریکیوں کے ہالے سے چاند باہر آ گیا، وہ آسمان پر تنہا نہیں، ستارے اس کے ساتھ ہیں۔ ان دونوں کے اس گھناؤ نے فعل میں قانون ساتھ ہے، یہ ملعون فعل کوئی جرم نہیں۔

    مگر۔۔۔ مگر لاؤڈ اسپیکر بجانا جرم ہے۔

    شرمندہ کرنے والی حرکتوں کو قانونی درجہ عطا کرنے کے مطالبے میں سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے آوارہ گردوں کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کیوں نہیں ؟؟؟ اب تو اسے قانونی درجہ بھی احترام کے ساتھ مل گیا۔

    پروہت نے جنس کے پیٹ میں آگ لگا دی ہے۔

    ہے مارا رام جی۔ مارے چھورے کوکی ہوگیو ہے۔ بینڈری کے قریب بھی نہ بھٹکتا۔ ماری پوتے کی خواہش دل میں ہی رہ جاوےگی۔

    ممی اگر اتنا ہی شوق ہے تو Adapt کر لیجئے۔

    ’’بےحسی کی انتہا ہو گئی، روحوں کے اندر جنسی تلذذ کا مادہ نسل بڑھانے کے لئے رکھا گیا تھا مگر اب اس کی اہمیت صرف لطف اٹھانے تک محدود ہو گئی۔ نئی نسل نے اس نعمت کے خاص مقصد کو پس پشت ڈال دیا۔ محض جسمانی بھوک کی تکمیل اس کا محور ہے نئی نسل قانون فطرت سے بغاوت کر کے من مانا قانون بنانے پر آمادہ ہے‘‘ فیس بک پر ایک تصویر کے نیچے یہ کمنٹ لکھا ہے۔۔۔

    اخباروں میں اس کی روک تھام کے لئے سراغ ڈھونڈنے کی التجا ئیں ہو رہی ہیں۔

    بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام کے لئے نئی نئی تکنیکیں ایجاد ہورہی ہیں، اس نئی نسل کے لئے یہ تکنیک بھی ایک فیش کے طور پر سامنے آئی ہے اور جسموں کی آگ ٹھنڈی کرنے کا بہترین طریقہ بھی ہے۔

    ’’بجیا؛ تم نے ویوڈیو کا ل کیوں کیا؟ تمہاری شکل دیکھ کرامی جان بہت پریشان ہیں کہ تمہیں کس کی بددعا لگ گئی تم سوکھی جا رہی ہو سب تم کو اتنا پیار دیتے ہیں جیجو تو تمہیں امریکہ سے گڈیوں کی گڈی روپیہ دیتے ہیں کھاتی پیتی نہیں ہو کیا؟ جلدی سے علاج کروا لو۔‘‘

    سکھ کہاں ہے رہزنوں کو راہبر سمجھ رہے ہیں تو راستے پر خطر تو ہوں گے ہی۔ تقدیر کا کھیل دیکھتی ہوں تشنہ لبی کہاں تک لے جاتی ہے۔ دل شکن حادثوں نے کمزور کر دیا ہے۔ نئی سرکار نے پورے شہر میں روشنی کا انتظام سخت کر دیا پھر بھی تاریکی اس قدر گہری ہے کہ اپنا وجود بھی نہیں دکھائی دے رہا، تاریکی کا علاج چراغوں سے نہیں ہوگا۔

    ہرگام پر چنگاری رقص کر رہی ہے جس سے پوری نسل کے جلنے کا امکان ہے حالات کے موڑ پر کھڑی دیکھ رہی ہوں چنگاری کس طرف جارہی ہے نگاہیں اس کی تعاقب میں ہیں کہیں پوری کائنات راکھ نہ ہو جائے۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے