Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خوابوں کا قیدی

عشرت ظہیر

خوابوں کا قیدی

عشرت ظہیر

MORE BYعشرت ظہیر

    اس شیشی کو جو سائڈ ٹیبل پر رکھی ہے، میں بہت دیر سے گھور رہا ہوں، میں اس شیشی کو نہیں بلکہ اس کے اندر مکسچر کو گھور رہا ہوں، جس کو مجھے پینا ہے۔

    میں اس کشادہ مسہری پر تکیہ کے سہارے بیٹھا ہوں، میری بیوی میرے بازو میں سو رہی ہے اور میں اس کے چہرے پر بکھرے ہوئے بالوں کو دیکھ رہاہوں، اس کی بند پلکوں میں لمحہ بہ لمحہ اترتے ہوئے خواب کو محسوس کر رہا ہوں۔ لیکن میں اپنی بیوی کی بند پلکوں کے اندر اترتے ہوئے خوابوں کی تفصیل جاننا نہیں چاہتا، میں تو اس مکسچر کو بھی دیکھنا نہیں چاہتا۔۔۔ نہیں۔۔۔ شاید میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں، یہ مکسچر۔۔۔ اب میری زندگی ہے، میری آرزو ہے، میری تمنا ہے، میرا ماضی، میرا حال، میرا مستقبل ہے۔۔۔ یہ مسکچر میری خوب صورت اور تاریک راتیں ہیں، میراخواب ہے۔۔۔ خواب؟

    میں ساری زندگی خواب دیکھتا رہا، میں ساری زندگی اپنے خوابوں کو سجانے اور سنوارنے میں لگا رہا، لیکن اب وہ سارے خواب، جس میں سے کچھ شرمندۂ تعبیر ہو چکے ہیں اور کچھ کو شرمندۂ تعبیر ہونا میسر نہ ہوا، سارے کے سارے سکڑکر، سمٹ کر اس شیشی کے اندر بند ہو گئے ہیں، اس شیشی کے اندر نہیں بلکہ اس مسکچر کے طابع ہو گئے ہیں۔۔۔ اور میرے سامنے اب خوابوں کی رہ گذر پر یہاں سے وہاں تک، دور تک زرد پتے اڑ رہے ہیں، اندھیرا بہت گھنگھور ہو گیا ہے اور سمٹ سمٹ کر میرے اندر اتر رہا ہے، جنہیں میں اپنے آنسوؤں کی مغموم روشنی تلے دبا دینا چاہتا ہوں مگر۔۔۔ مگر آنسوؤں کی یہ مغموم روشنی، یونہی کپکپا کپکپا کر رہ جاتی ہے، اس کپکپاہٹ کومیں دن رات اپنے کپڑے کے اندر سینے میں محسوس کرتا ہوں۔۔۔ یہ کیسی کپکپاہٹ ہے، یہ کپڑے کا کھردراپن ہے، یا اس کی چکناہٹ۔۔۔!

    کپڑے کی الماری کھولے کھڑا میں سوچ رہا ہوں۔

    آج کون سے کپڑے پہنوں؟ کپڑوں کا انتخاب کم کٹھن نہیں ہوتا۔ مجھے لگتاہے کپڑوں سے بھری الماری اچانک خالی ہو گئی ہے، اس میں ایک جوڑا ہینگر کے سہارے لٹک رہا ہے۔ میرے اندر ایک عجیب سی لہر رینگ آئی، لگا اس لہر ،اس احساس سے میرا کوئی پرانا سمبندھ ہے، میری گہری شناسائی ہے۔۔۔

    ہاتھ بڑھاکر میں نے ہینگر سے لٹکے ہوئے کپڑے کو اتار لیا۔

    پینٹ کا اداس اور بجھا بجھا سا رنگ دیکھ کر لگا، زندگی بجھ رہی ہے، تھکی ہاری کیفیت دھیرے دھیرے میرے وجود کو گھیرنے لگی۔ شرٹ پہن کر میں نے بٹن لگانا چاہا تو معلوم ہوا بٹن غائب ہے۔۔۔ جھنجھلاہٹ اور بےبسی سے پورا بدن کانپ گیا۔

    ’’سنبل۔۔۔‘‘ میری آواز میں کرختگی تھی۔

    ’’قمیص سے بٹن غائب ہے کسی کام کا ہوش رہتا ہے تمہیں۔‘‘

    ’’اف۔۔۔او۔۔۔ آپ تو خواہ مخواہ غصہ ہوتے ہیں۔۔۔ لائیے ابھی بٹن ٹانکے دیتی ہوں۔۔۔‘‘

    جانے اس آواز میں کیا خوبی تھی، میری جھنجھلاہٹ ایسے چھٹ گئی، جیسے اس کا کوئی وجود نہ تھا۔

    وجود ۔۔۔؟ میرا اپنا بھی کوئی وجود ہے؟۔۔۔ کہاں ہے میرا وجود۔۔۔؟

    میں اس کپڑے سے بھری الماری کے سامنے کھڑا اپنے وجود ہی کو ڈھونڈ رہا ہوں، کہاں کھو گیا ہے، وہ۔۔۔؟

    اور۔۔۔! وہ جھنجھلاہٹ اور جھنجھلاہٹ کو کافور کر دینے والی جادو بھری آواز؟ کچھ بھی تو نہیں۔۔۔ سب کچھ کھو گیا۔۔۔ میری ساری زندگی غیرمحسوس طور پر نہ جانے کہاں کھو گئی؟ کہاں؟ ذراسی بےایمانی صرف ایک خواب کی تعبیر ڈھونڈ نے کے جرم کا مرتکب ہونا، اتنا بڑا گناہ ہے، اس کی سزا اتنی طویل اور ویران کر دینے والی ہوگی، میں نے سوچا بھی نہ تھا۔۔۔ میں سوچتا بھی کیسے، سیٹھ جیلانی کو سینکڑوں بار بےایمانی کرتے دیکھ چکا تھا، حکومت کے ساتھ، سماج کے ساتھ، فیکٹری کے ملازموں کے ساتھ، اس پر تو کوئی اثر نہیں، اس کی زندگی میں تو کوئی ویرانی نہیں، پھر مجھے کیا ہو گیا۔ دراصل ایمان داری کے سانچے میں، بےایمانی کی غیرمعین صورتوں میں ڈھلنے کا کرب کوئی معمولی نہیں ہوتا، ابتداء میں نہ یہ سازگار آتاہے نہ وہ۔۔۔

    میں ایک بار پھر کپڑوں کی الماری میں جھانکتا ہوں۔ میں کپڑوں کی بھری پری الماری میں آخر کیا تلاش کر رہاہوں! کیوں تلاش کر رہا ہوں؟ میرا سر چکرانے لگتا ہے۔ کون سا لباس پہنوں؟ اف یہ کیسی اذیت ہے، یہ کیسی سزا ہے؟ مجھے لگتاہے، میں یہاں کھڑا لباس کا انتخاب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہا ہوں بلکہ خود کو ڈھونڈنے کی سعی کر رہا ہوں۔ جانے اس کوشش کا کوئی اَنت بھی ہو کہ نہ ہو۔۔۔!

    میں نے کپڑوں کی الماری سے اپنے لیے ایک جوڑا نکال لیا ہے، کریم کلرکا پینٹ اور شوخ رنگ کی قمیص ،جس میں سرخ رنگ کی لکیر وں کا جال سا بنا ہے۔ میں نے یہ کپڑے پہن لیے ہیں اور اب آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر خود کو دیکھ رہا ہوں۔

    مجھے لگتا ہے، میں ایک ڈمی ہوں، جس کے اوپر خوبصورت اور قیمتی پوشاک منڈھ دی گئی ہے۔ خوبصورت اور قیمتی پوشاک سے جگمگاتا ہوا یہ ڈمی، اندر سے کتنا کھوکھلا، کھنڈر اور بےجان ہے، دیکھنے والے محسوس نہیں کرتے!

    قد آدم آئینے میں کھڑے اس ڈمی کو، میں گھور رہا ہوں۔ اچانک میری قمیص پر بنی لال لکیروں کا جال دھیرے دھیرے بڑھنے اور پھیلنے لگا، سرخ لکیروں کاجال بڑھتے بڑھتے پورے آئینہ پر پھیل گیا۔ پورے آئینہ پریہ لکیریں نہیں پھیلی ہیں، بلکہ میرے پورے وجود کے گرد اس طرح پھیل گئی ہیں کہ ان کے حصار میں میں جکڑا جا چکا ہوں۔۔۔ حصار کے اندر اور باہر سرخ رنگ ہے، سرخ رنگ۔۔۔ سرخ ۔۔۔

    خون کے چھینٹے کار کے ونڈ اسکرین پر پڑے اورمیں نے اپنی پوری قوت سے بریک لگایا مگر اس سے پہلے کہ کار رکتی خون یہاں سے وہاں تک پوری سڑک پر پھیل چکا تھا اور وہ معصوم چہرہ۔۔۔؟ اس کی دردناک آخری چیخ میرے اندر بہت نیچے اتر چکی تھی۔

    ’’حادثہ تو زندگی کا معمول ہے، آپ اس قدر نروس کیوں ہیں، ہم جانتے ہیں اس میں آپ کا قصور نہیں ہے۔۔۔‘‘ انسپکٹر نے مجھے دلاسہ دیا۔ لیکن میرے اندر جو دردناک چیخ اتر چکی تھی، اسے کس نے دیکھا تھا، کس نے محسوس کیا تھا؟ میں اس کیفیت کو بیان بھی تو نہیں کر سکتا۔۔۔۔ لیکن میں کیا کر سکتا ہوں، قصور میرا نہیں ،غلطی میری نہیں تھی، وہ اچانک میرے سامنے آ گیا تھا، لیکن۔۔۔؟ لیکن اس نے میرے دل میں جو کانٹا چبھو دیا ہے، اس کو نکالنے کے لیے سوزن کہاں سے لاؤں۔۔۔؟ اس چبھن کی اذیت کو کس سے بیان کروں؟ کاش اس حادثہ سے دوچار نہ ہوتا، کاش مجھے کار چلانے کی مہارت پر غرور نہ ہوتا۔۔۔ کاش میرے پاس کارہی نہ ہوتی۔۔۔ کار۔۔۔ ؟ اف، میں نے اس کے لیے خواب دیکھے تھے، اس کی تمنا کی تھی۔۔۔ مگر کون جانتا تھا میری تمنا ؤں کی تکمیل کے بعد میرے اندر یہ کھوکھلاپن در آئےگا، اس تنہائی اور کمی کا احساس مجھے نہ جینے دےگا نہ مرنے دےگا۔

    اچانک مجھے لگاکوئی باز، کوئی خوفناک پرندہ کہیں قریب سے مجھے گھور رہا ہے، اس کی لال لال دہکتی ہوئی آنکھیں مجھے اپنے سارے بدن میں چبھتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔۔۔ دفعتاً لگا اس نے اپنی لمبی اور نوکدار چونچ میری شہ رگ میں گڑا دی ہے اور اب میرے بدن کا خون دھیرے دھیرے اس کے جسم میں منتقل ہو رہا ہے۔۔۔۔ دھیرے دھیرے میرا بدن پیلا پڑ رہا ہے۔۔۔ پیلا۔۔۔ پیلا۔۔۔ پھرم جھے لگا میں بالکل زرد ہو گیا ہوں، رزد، بالکل ہلدی کی طرح۔۔۔ میرے وجود سے یہ زردی کس طرح چپک گئی ہے۔۔۔!

    زردی۔۔۔؟

    زندگی کے سارے رنگ کو جو دھو ڈالتی ہے، یہ کون سی شئے ہے؟

    اس زردی میں اتنی شدت کہاں سے آ گئی کہ ہر رنگ پر غالب آ گئی۔ لیکن یہ زردی میری جانی بوجھی ہوئی ہے، دیکھی بھالی ہے۔

    یہی رنگ تھا جو اس دن اچانک سیٹھ جیلانی کے چہرے پر ابھر رہی تھی اور میرے اندر سوناپن اور خالی پن مستقل ہو رہا تھا۔۔۔

    یہ سوناپن، یہ خالی پن مستقل ہو رہا تھا۔۔۔

    یہ سوناپن، یہ خالی پن، میرا احساس جرم تھا، یا سیٹھ جیلانی کے چہرے پر ابھری ہوئی زردی کا پرتو۔۔۔؟

    ایک لمحہ کے لیے میں ہار گیا تھا۔ میں ہمت چھوڑ چکا تھا۔ یا خالی پن سے خوف زدہ ہو گیا تھا؟ بات جو بھی رہی ہو، میں نے چاہا تھا، سیٹھ جیلانی کے چہرے سے زردی کو دھو ڈالوں، اپنی زندگی میں خالی پن کو گھسنے نہ دوں، لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ میں کچھ بھی نہ کر سکا۔۔۔ میری نظریں نیچی ہو چکی تھیں اور سیٹھ جیلانی کی آواز زندگی کے ہنگامے میں میرے وجود کا تعاقب کر رہی تھی۔

    ’’زندگی راس آئےگی تمہیں نہ موت ۔ساری زندگی اپنا کھوکھلاپن لیے تڑپتے رہوگے۔۔۔‘‘

    میں نے نظر اوپر اٹھائی تووہ جا چکے تھے، پھر بھی ان کی آواز میرے کانوں میں گرم سیسے کی طرح اتر رہی تھی ،میرے کانوں کے راستے سے اندر اترنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن جانے کیا ہوا، جانے مجھے کہاں سے قوت مل گئی، میں نے اس آواز کو دبا دیا، اسے اپنے اندر اترنے سے روک دیا۔ میں نے سوچا، میں نے تو کاغذات پر دستخط کراتے وقت ہی اشارہ کر دیا تھا۔

    ’’سر آپ بغیر پڑھے کاغذات پر دستخط کر دیتے ہیں، اگر کچھ غلط کاغذات پر آپ کے دستخط لے لیے جائیں تو۔۔۔‘‘

    ’’تو کیا ہوگا۔۔۔؟ میرا کیا جائےگا، میری طمانیت کو پھر بھی کوئی جھٹکا نہیں پہنچےگا۔ میں دستخط کر رہا ہوتا ہوں تو ان کے صحیح ہونے کی ضمانت تم ہو۔۔۔ اگر تم نے بےایمانی کی تو سمجھوں گا، اپنا یہاں کوئی نہیں اور یہ جان لینے کے بعد آگے کا سفر میرے لیے آسان ہو جائےگا۔۔۔! ‘‘

    اس وقت میرے اندر کیسی ہل چل مچی تھی۔۔۔!

    ان کاغذات پر دستخط لے کر میں نے کیا پایا؟ سیٹھ جیلانی نے کیا کھویا؟

    انہوں نے کہا تھا، آگے کا سفر میرے لیے آسان ہو جائےگا، پتہ نہیں وہ کیا کہنا چاہتے تھے۔۔۔؟ آگے کی منزل کیا ہے؟ ہماری اگلی منزل کہاں ہے؟ خوابوں کے مسافر بھی دھندلکے سے کتنا پیار کرتے ہیں! ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ ہمارے آنے کا مقصد کیا ہے، حاصل کیا ہے؟۔۔۔ ہمیں جانا کہاں ہے؟ میں کون ہوں؟ کیا ہوں؟ کیوں ہوں؟ کچھ بھی تو نہیں جانتا۔۔۔!

    اب تک میں خواب دیکھتا آیا ہوں، خوابوں کی تعبیر ڈھونڈتا رہا ہوں۔ میرے خوابوں نے مجھے کہاں کہاں رسوا کیا۔ کہاں مجھے وقار بخشا، کہاں غلاظت ملی اور کہاں پاکیزگی۔۔۔ اب کوئی تمیز نہیں رہی۔۔۔ صرف ایک احساس ہے، اپنے ویران ہونے کا، اپنے کھنڈر ہونے کا۔۔۔ سب کچھ پاکر بھی سب کچھ کھو دینے کا۔۔۔ سیٹھ جیلانی کو دغا دے کر جو کچھ میں نے حاصل کیا، وہ میرا اپنا ہوکر بھی تو مجھے سکون نہ دے سکا۔۔۔

    آنکھیں کھولتا ہوں تو میرے سامنے، میرا لمبا چوڑا یہ زرد مکان ہے اور اس کے اندر اور باہر میری لمبی اداس اور خاموش زندگی۔۔۔ دل کے اندر جھانکتا ہوں تو کبھی سوناپن ہاتھ آتا ہے تو کبھی جھلسا دینے والا سرخ سمندر دکھائی دیتا ہے اور دل سے باہر؟ یہ سائڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی شیشی کے اندر سے جھانکتا ہوا مکسچر۔۔۔

    یہ میرا بھرا پڑا گھر، یہ بیوی بچے، نوکر چاک، لیکن دکھوں کا کوئی بھی امان نہیں، اس دل کے سوا، اس دل نے بھی تو ٹھوکریں کھلائی ہیں۔ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے اجنبی رہگذاروں پر اتنا آگے نکل آیا ہوں کہ اب بھٹکنے کے سوا کوئی چارا بھی تو نہیں۔۔۔!

    رات بھیگ چکی ہے۔ میرے بازو میں میری بیوی سنبل کروٹیں بدل رہی ہے لیکن میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ کل سویرے ایک پارٹی سے تجارتی ایگر یمنٹ بھی کرنا ہے۔ میری کوئی خواہش نہیں۔ لیکن سنبل کے چہرے پر رینگتے ہوئے سائے کو میں دیکھ رہا ہوں اور سمجھ رہا ہوں۔ تاہم اس کی خواہش کی تکمیل کی ذرا بھی سکت مَیں خود میں نہیں پا رہا ہوں۔

    اب مجھے سو جانا چاہئے۔۔۔ میں سوچتا ہوں، پھر سائڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی شیشی میں جو آخری نشان تک مکسچر تھا، اسے حلق سے نیچے اتار لیتا ہوں اور پانی کا گلاس اٹھاکر کئی بڑے بڑے گھونٹ سے مسکچر کے تیکھےپن کو دور کر تاہوں۔ پھر سوئچ آف کرکے مسہری پر لیٹ کر آنکھیں موند لیتا ہوں تاکہ میرے ذہن کے کسی دراڑ کسی شگاف سے میرے ماضی، حال اور مستقبل تک روشنی کا گزر نہ ہو سکے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے