aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کواڑ کی اوٹ سے

اختر اورینوی

کواڑ کی اوٹ سے

اختر اورینوی

MORE BYاختر اورینوی

    کہانی کی کہانی

    یہ ٹھٹھیروں کے خاندان میں بیاہ کر آئی ایک ایسی عورت کی داستان ہے جس نے تمام عمر کواڑ کی اوٹ میں بیٹھ کر گھر سے فرار اپنے شوہر کا انتظار کرنے میں گزار دی۔ وہ جب بیاہ کر آئی تھی تو کچھ دنوں بعد ہی اس کا شوہر اسے چھوڑ کر کلکتہ چلا گیا تھا، کیونکہ وہ دوسرے ٹھٹھیروں کی طرح نہیں بننا چاہتا تھا۔ شروع شروع میں وہ اسے کبھی کبھی خط لکھ دیتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ خطوط کا یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ اس درمیان اس کی بیوی کی ایک بیٹی بھی ہوئی،جب بھی شوہر نہیں آیا۔ سالوں اس کی کوئی خبر نہ ملی۔ بیوی نے بیٹی کی شادی کر دی۔ بیٹی کی بھی بیٹی ہو گئی اور اب اس کی شادی کی تیاریاں ہو رہی ہیں کہ شوہر کا آسام سے خط آتا ہے جس میں اطلاع دی گئی ہے کہ وہ واپس آ رہا ہے۔ معینہ تاریخ بھی ہمیشہ کی طرح گزر گئی اور شوہر نہیں آیا۔

    چلتی ہوئی سڑک کی جنوبی جانب ایک چھوٹی سی دکان سے ملحق فٹ پاتھ پر مرمت طلب سائیکلوں کے پیوظں اور سلاخوں کے متوازی دائرے، خطوط اور مکڑی کے جالوں کی سی کمانیاں رہرووں کی نگاہوں کو الجھا لیتیں تھیں۔ دکان کے اندر چھت سے لٹکی ہوئی کوئی سائیکل ہوتی۔ اسی پر ایک پست قد چند لا دکاندار اپنا عمل جراحی کرتا رہتا تھا۔ کاٹھ کے تختوں اور حلقوں سے بنی ہوئی ایک شکستہ و گریزاں سی شئے، جسے حسن تخیل کی پرواز کے کسی اچانک دورے کے وقت ہی الماری کہا جا سکتا تھا، کبوتروں کے ڈربہ کی طرح دیوار سے لگی شاید ازل سے وہیں کھڑی تھی۔ اس ڈربہ نما چیز کے اندر کٹ کے خالی ڈ بے، ربڑ کے ٹکڑے، ٹین کے چھوٹے کنٹری، لوہے کے زنگ آلود اوزار، پرانے پر زے، ٹوٹے ہوئے پمپ، ٹائر اور ٹیوب، اپنے زوال و انحطاط کی مختلف منزلوں میں اور سوتی چتھڑے داغ دھبوں، میل کچیل سے اٹے ہوئے، پڑے رہتے تھے۔ یہ سب چیزیں یوں رکھی رہتی تھیں جیسے مداری کی جھولی میں جنتر منتر کی گڈ مڈ ہو۔ فرش پر کیل کانٹے بکھرے ہوئے اور عرش پر جھول جھکڑ کے تانے بانے، گوشے میں صنا دید عجم کے وقت کی لوہے کی بنی ہوئی ایک عبرت خیز کرسی اور دیواروں پر گڈایر، ڈنلاپ، مچلین کے اشتہاری پلیٹ آویزاں۔

    چند لا دکان دار ہر وقت اپنے کام میں منہمک نظر آتا۔ وہ گاہکوں سے بڑی نرمی سے باتیں کیا کرتا تھا۔ اس کی آواز میں نمایا ں کی اہٹ کے ساتھ مردہ سی خاکساری تھی۔

    سائیکل کی دکان کے ہمسائے میں بہت سی ٹھٹھیروں کی دکانیں تھیں۔ ہر وقت کاریگروں کے ہاتھ اوپر اٹھتے اور نیچے گرتے رہتے تھے۔ ٹھائے ٹھائے ہوتی ہی رہتی۔ ننگے بدن سب مشینوں کے لیور کی طرح اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے اور ہتھوڑے کو چوٹ دیئے جاتے، دیئے جاتے، مسلسل، یکساں، دھوتیاں جانگھوں تک اٹھائے، پیٹھ اور پوکھڑے نہیو ڑائے، گردن اور آنکھیں جھکائے، ٹھٹھیرے خدا کی جاندار اور حساس مخلوق نہیں معلوم ہوتے تھے، بلکہ کسی بڑے ماہر سائنس انجینیر کے بنائے ہوئے، روبٹ، دکھائی دیتے تھے۔

    چند لا سائیکل والا کٹھ پتلی نظر آتا اوراس کی دکان کے اغل بلو قد آدم گڈے ٹھائے ٹھائے، کھٹ کھٹ کئے جاتے۔ پوری فضا پر بے جان سی کیفیت طاری تھی۔ حرکت میکانکی اور سکون بےروح۔

    مگر جب چند لے کے بے برگ و گیاہ، سپاٹ اور اداس سر سے غیر مطمئن نظریں پھسل کر دکاندار کے عین متصل الکترے کی رنگی ہوئی سیاہ کواڑ کی اوٹ میں جا پڑتیں تو وہاں دو جاندار، روشن اور گویا ہستیاں دکھائی دیتیں۔ جیسے ریگستان میں پانی کا چشمہ۔ اکتائی ہوئی طبیعت کو سکون سا ہوتا اور مستفسرا نہ دل چسپی۔ اس سارے ماحول کی بےرنگی و بےکیفی کو وہی چمکتی ہوئی ہستیاں دور کر سکتی تھیں۔ کوئلے کی کان کے اندر جیسے چمیلی کے پھول کھل جائیں، یالوہے کے کارخانے کی گھڑگھڑاہٹ کو خاموش کر کے کوئی بانسر ی بجانے لگے۔ بس اسی طرح روح افزا اور جذبات خیز احساس ان کے مشاہدہ سے ہوتا تھا۔ وہ دو آنکھیں کتنی افسانہ خواں تھیں: کتنی پرکشش! آتشیں شیشہ کی طرح روح اور دل کی نور و حرارت کی شعاعوں کی مرتکز کر کے وہ دوسرے دلوں کو بھی برما دیتی تھی۔ اتنی زندہ آنکھیں، اتنی عمیق و تکلم ریزنگاہیں اس یاسکں طور پر لڑھکتی ہوئی بڑی سی گیند، یعنی دنیا کی سطح پر شاز و نادر ہی نظر آتی ہیں۔

    کواڑ کے پٹ سدا نیم وا رہتے اور اندر سے سفید ملگجی ساری کے کچھ حصے دکھائی دیتے۔ پٹ کے پیچھے کوٹھری تاریک معلوم ہوتی اور اس تاریکی سے دوستارے صبح طلوع ہوتے اور شام شام تک وہیں دمکتے رہتے۔ مستقل مظاہر فطرت کی مانند یہ بھی دائمی مظہر حیات تھے۔ سالوں سال کواڑ کی اوٹ سے یہ چمکتے رہے تھے۔ دو نسلوں نے دیدۂ انجم کو اسی برج میں کھلا دیکھا تھا۔ روشن دیدے لازوال ٹکٹکی کے ساتھ گزر گاہ کو نصف صدی سے تکتے رہے تھے اور اب تک ابوالہول مصر کی طرح تکتے جاتے تھے۔ راہ گیر ان زندہ آنکھوں کی کرنوں کی قوت محسوس کرتے اور گزر جاتے مگر وہ آنکھیں نگراں ہی رہتیں۔

    وہ آنکھیں ایک بوڑھی عورت کی آنکھیں تھیں، جس کے چہرے پر جھریاں پڑ گئی تھیں۔ مگر جس کی حیا گلاب کی ایک تازہ پنکھڑی کی طرح بے شکن تھی۔ اس کا گھونگھٹ کبھی نہ چھوٹا اور کواڑ کے پٹ ہمیشہ نیم وا ہی رہے۔ بوڑھی عورت پس پردہ جھانکتی رہتی تھی۔ جوانی اب دور کی گونج بھی نہ رہی تھی۔ شباب کیا، رمق حیات بھی مٹتی جاتی تھی۔ مگر اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیوں میں اپنی پامال حسرتوں کو گرہ باندھ کر رکھا تھا۔ انتظار ایک ابدی انتظار میں آنکھیں سرشار رہتیں اور ان آنکھوں کے سوتے ایک ایسے دل سے ملتے تھے جو وفا، صبر،تمنا اور درد و غم کی ایک کائنات تھا۔

    وہ سولہ سال کی تھی تو اس کی شادی ہوئی۔ اس کا شوہر بھی ایک ٹھٹھیرا تھا۔ مگر وہ اس کام سے آزردہ ہی رہا۔ بیس سال کا ہنس مکھ چونچال نوجوان یوں بت بن کر کام کرتے چلے جانے سے گھبراتا تھا، شاید اس کی رگوں میں عام ٹھٹھیروں کی طرح پگھلا ہوا سیسہ نہیں تھا، بلکہ چھلکتا ہوا پارہ۔

    باپ چاہتا تھا کہ صدیوں کی خاندانی روایت کے جمود کے وارث بیٹے کو بھی میخ کی طرح دکان میں ٹھونک دے، تکلے ناچتے رہیں، چرخی چلتی رہے۔ لوہے کی چھینیاں دھاتوں کو کترتی جائیں، ہتھوڑوں کی ٹھائے ٹھائے جاری رہے اور بھاتی پھنکارتی جائے۔ مگر بیٹا رانگا، سیسہ، جستہ، تانبا، پیتل بننے سے انکار کرتا تھا۔ وہ انوکھا تھا، نرالا، بالکل ان گڑھ۔ خاندانی سانچے پر نہ ڈھلنے والا، ننگ خاندان، چھوٹا سا باغی، لڑکپن میں تو مارے باندھے دکھا کی مشین کا پرزہ بنا۔ مگر عنفوان شباب سے ہی سینگ پھوٹتے، زور آور بچھڑے کی طرح رسی توڑکر بھاگنے لگا۔ لاکھ کھونٹے سے باندھئیے۔ مگر اسے تو کلیل بھاتی تھی۔ موقع ملا اور ترارے بھرنے لگا۔ وہ آزادی کا رسیا بیاہ کے رستے میں باندھا تو گیا پر جکڑا نہ جاسکا۔ شادی کو ابھی سال بھی نہ لگا تھا کہ وہ اپنے شہر کی تنگ دامانی چھوڑ کر کلکتہ بھاگ گیا۔

    نوجوان بیوی نے پہلے تو سمجھا کہ ترنگ ہے، من کی موج کا جواز ختم ہوتے ہی وہ واپس آ جائےگا۔ ابھی تو وہ ایک دوسرے کو سمجھتے بھی نہ تھے۔ جسم کی مملکت کے انکشاف کی کشش کم بھی ہو جائےگی مگر دل کی اقلیم کے راز ہمیشہ نت نئی دل چسپیاں پیش کرتے رہیں گے۔ اس کی محبت کے بھید تو ان گنت تھے۔ اس کے دل کا ساگر تو اتھاہ تھا۔ ابھی تو وہ پریم کے بے شمار انمول موتی اپنے سوامی کے قدموں میں رول سکتی تھی۔ مگر پردیس سدھارنے والا واپس نہ آیا۔ کلکتے سے خطوط آتے رہے اور روپے بھی، پر وہ خود کبھی نہ آیا۔

    ایک معجزہ رونما ہونے والا تھا۔ اس معجزہ کی کرامت پر عورت کو اعتبار تھا، کامیابی کے تصور میں وہ گم تھی۔ اسے یقین کامل تھا کہ اس نے مرد کی روح کو پریم کے جادو کے زور سے اپنے اندر مقید کر لیا ہے اور اب و ہ جلد بہت جلد، چند مہینوں کے اندر کشاں کشاں چلا آئےگا۔ اس کے اندر جادو جاگ رہا تھا، بالیدہ ترہوا جاتا تھا اور اسی پیمانے سے اس کا اعتماد— وہ حاملہ تھی۔ اس کے جسم کے ذرے ذرے میں ایک عظیم الشان انقلاب ظہور پذیر ہو رہا تھا۔ اس کی رگ رگ میں حیات کی موجیں مچل رہی تھیں۔ عورت نے اپنے جذب و کشش، اپنی محبت، اپنی امید، اپنے شباب و زندگی کے اعتماد کا سرمایہ اسی معجزہ کی پرورش میں صرف کر دیا۔ وہ اپنی حیات سے ایک حیات نو کی تخلیق کر رہی تھی۔

    اسے ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ عورت کا دل دھک سے رہ گیا۔ ایک شبہہ، ایک جگر خراش شک، اسے توہمات نے آ گھیرا۔ شاید اس کا جادو پورا نہیں اترا۔ مرد کا پتلا تیار نہیں ہوا۔ اب جوگ کے اجاگے۔ عورت آس اور نراس کے درمیان گھلتی رہی۔ کلکتے اطلاع بھیجی گئی۔ مگر معجزہ بے اثر نکلا۔ اس کا دل چور چور ہو گیا۔ بنگال کا جادو جیت گیا، وہ ہار گئی۔

    اسی طرح کئی سال بیت گئے۔ ایک روز خبر آئی کہ بھگوڑا واپس آ رہا ہے۔ مگر عورت کے لئے وہ بھگوڑا نہیں روٹھا ہوا دیوتا تھا۔ اب وہ آ رہا تھا۔ من مندر کے سب دئیے جلا لئے گئے اور اس کی دہلیز پر دو روشن چراغ پپوٹوں کی اوٹ سے راہ تکنے اور محبت کی شعاعوں کے بلاوے بھیجنے لگے۔ وہ انقلابی گھڑی تھی۔ جب پردیسی کے آنے کی خبر آئی۔ عورت اپنی بیٹی کو لےکر، الکترے سے رنگی ہوئی سیاہ کواڑ کی پٹوں کو نیم وا کر کے بیٹھ گئی۔ چشم براہ، پر امید، بیتاب، وہ دن بھر اسی طرح بیٹھی رہی اور بہت رات گئے تک سڑک کی تاریکیوں کو اپنی نگاہوں سے پرے ہٹاتی اور الٹ پلٹ کرتی رہی۔ آخر راہ گیر کو بھی رات نے نگل لیا۔ ٹمٹمیں کھڑکھڑائی ہوئی آتیں اور دل میں رکے رکے انتظار کے ہچکولے پیدا کر دیتیں اور پھر؟ پہیوں کی آخری گردش سیاہی میں گھل جاتی۔ اس کی منتظر آنکھوں کا کاجل آنسوؤں سے دھلا جاتا تھا اور سر کے سیندور کی لکیر زخم کے کٹاؤ سے زیادہ درد خیز تھی۔ اس کا سارا ساج اکارت ہوا جاتا تھا۔ رات بھر وہ سسکیاں لیتی رہی، پر کوئی نہیں آیا۔ صبح تڑکے ٹھٹھیروں کی ہتھوڑوں کی ٹھائے ٹھائے سنائی دینے لگی۔ تب اسے احساس ہوا کہ رات بیت چکی ہے۔

    ا ب یہ اس کا معمول ہو گیا کہ ہر صبح وہ کواڑ کی اوٹ سے راہ تکتی رہتی، ایک ارمان و امید سے لبریز، شاید اس میں اس کی زندگی سکڑ کر بیٹھ گئی تھی، بنی سنوری، گھونگھٹ نکالے، وہ سڑک کو، فضا کو، بھیڑ کو، گاڑیوں کو نظر سے کریدتی رہتی۔ ہزاروں، لاکھوں بار دن بھر سیدھی سڑک پر اس کے کالے لرزاں لرزاں دیدوں کا پہیا چل جاتا۔ لیکن اس کی آنکھوں کی سواری میں بیٹھ کر اس کا اپنا مسافر گھر کے دروازے پر نہ آیا۔ ان گنت بے درد دنوں اور بے شمار بجھے ہوئے کوئلوں جیسی سیاہ راتیں مل مل کر وبال جان سالوں کے گلا گھونٹنے والے لچھے بنا گئیں۔ عورت انتظار کے لمبے اور بےچھور دھاگوں سے امید و یاس، محبت و نفرت پر سوز اضطراب اور غم جاوداں کے نئے نئے قماش بنتی رہی۔ سورج کی سنہری گرم کرنوں، نرم خرام اور سنکتی ہوئی ہواؤں، زیر لب گنگناتی ہوئی چاند نیوں، امڈتی سر سبز برساتوں، دل آویز جاڑوں اور پاگل گرمیوں نے اس کی بچی کو جوان اور اسے ادھیڑ کر دیا۔ وہ چونتیس سال کی ہو گئی اور اس کی بیٹی سترہ سال کی۔ دنیا بدل گئی لیکن اس کا معمول نہ بدلا۔ الکترے سے رنگی ہوئی کواڑ کی اوٹ سے وہ گھونگھٹ نکالے منتظر ہی رہی۔

    عورت کا سسر دھاتوں کو گلاتا، ٹھوکتا ٹھاکتا، ریتتا، مر گیا۔ اس نے شوہر کو خط لکھوایا کہ اس کا باپ گزر چکا اور اس کی بیٹی بیاہ کے قابل ہو گئی ہے۔ پر یہ خط منزل مقصود تک کبھی نہ پہنچا۔ ایک سال کے بعد اچانک آسام کے چائے کے باغات سے شوہر کا خط آیا کہ کلکتہ میں اس کا کاروبار تباہ ہو گیا تھا۔ اسی وجہ سے وہ آسام چلا آیا۔ اس نے لکھا تھا کہ اسے بیٹی کی ذمہ داری کا خیال ہے۔ اس کی شادی کے لئے وہ کافی روپے جمع کر لے تو آئے۔ عورت کے دل میں امید کی ایک نئی پھلجھڑی چھوٹی، مگر کچھ عرصہ میں وہ بھی راکھ بن گئی۔ وہ آخری خط ثابت ہوا۔ پھر کوئی اطلاع نہ آئی اور نہ وہ خود ہی آیا۔

    بوڑھے ٹھٹھیرے نے اتنا پس انداز چھوڑا تھا کہ اس کی پوتی کی شادی ہو گئی۔ مگر داماد کو ساس نے گھر میں بسا لیا اور اسے ٹھٹھیرا ہونے بھی نہ دیا۔ بلکہ سائیکلوں کی مرمت کی دکان کھلوا دی۔ اسے اس پیشے سے نفرت اور خوف ہو گیا تھا۔

    بیٹی کی شادی کے بعد اس کے معمول میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس کا چند لا داماد زخمی سائیکلوں پر اپنا عمل جراحی کرتا رہتا اور وہ خود الکترے سے رنگی ہوئی سیاہ کواڑ کی اوٹ سے سڑک کو تکتی رہتی، پیہم۔ صرف اتنی تبدیلی ضرور ہوئی کہ اب وہ کاجل اور سیندور نہیں لگاتی، ساج نہیں کرتی تھی، مگر کواڑ کبھی پوری نہ کھلی۔ اور گھونگھٹ کبھی نہ چھوٹا۔ وہ اس فضا کی ایک مستقل، غیر مبدل جز ہو کر رہ گئی تھی۔ زمانہ بدلتا جاتا لیکن وہ اٹل تھی۔ اس کی جاگتی ہوئی آنکھیں عمیق اضطراب کے ساتھ رات رات تک تاریکیوں کے پردے چاک کرتی اور اپنے آنے والے مسافر کو ڈھونڈتی رہتیں۔ کوئی موسم ہو، کوئی رت بدلے مگر راہگیر کواڑ کی اوٹ سے دو شدید طور پر زندہ آنکھوں کو نگراں ضرور دیکھتے۔ وہ آنکھیں سڑک کی پیٹھ کے ہر نشیب و فراز سے بڑی یگانگت کے ساتھ واقف ہو گئی تھیں۔ اس کی ریڑھ کی ہڈیاں اور پسلیاں دن بھر ان کے سامنے کڑکتی رہتی تھیں۔ وہ اس کے ہر مہرے سے ہم آغوش ہو ہو کر تھک چکی تھیں مگر پسپا نہ ہوئی تھیں۔ سامنے کی نالی سے خس و خاشاک بہہ بہہ کر سالوں سال گزرتے رہے اور اسی طرح آدمیوں کا بےمعنی ہجوم سڑک پر رواں دواں رہا۔ سڑک کے کالے بھورے، چتلے کتے، ان کی ٹیڑھی ٹیڑھی دم، محلے کے لوگ باگ، ان کا ناک نقشہ، ان کی بولی ٹھولی، ان کی لڑائیاں، ان کی صلح، ان کا فقر و فاقہ، ان کی خوش حالیاں، شادی بیاہ، پیدائش اور موت، یہ سب اس گھونگھٹ کی دنیا میں یکساں داخل ہوتے اور پھر زندگی کی یہ ساری تحریکات عورت کے حساس دل میں جذب ہوکر اس کی منتظر آنکھوں میں سلگ اٹھتیں۔ الکترے سے رنگی ہوئی کواڑوں کے سامنے چھوٹے چھوٹے مکانات توڑ دیئے گئے اور ان کے عقب کے گوبھی کے کھیتوں میں فٹ بال کا میدان اور کالج کی عظیم الشان عمارتیں اگ آئیں۔ شہریوں کی صورتیں، ان کا سج دھج، ان کی بول چال بدل گئی۔ ’’ہندو مسلم بھائی بھائی! ’’بھارت آزاد‘‘! اور ’’انقلاب زندہ باد!‘‘ اور لال پیلی ہری جھنڈیوں کے ساتھ آسمانوں کو سر پر اٹھا لینے والے جلوس منتظر عورت کی راہ میں بچھی ہوئی آنکھوں اور تشنہ کانوں میں خراش پیدا کر کے تاریخ کے مقبرے میں دفن ہو گئے۔ سڑک کی کھال ادھڑ گئی مگر افتادہ حالوں کی طرح ’’اسے روندا جاتا ہی رہا۔ ٹمٹموں اور بگھیوں کی جگہ موٹریں اور لاریاں آ گئیں۔ وہ فراٹے بھرتی، دھول اڑاتی، ہوا کے جھکڑ کی مانند دندنانے لگیں۔ مگر جس مسافر کی راہ سالہا سال سے دیکھی جا رہی تھی وہ اس باد پاسواری پر بھی نہ آیا۔ سڑک کی کیچلی بدل گئی، الکترے کی سیاہ تہہ بچھا کر روڑوں اور بالوؤں کو کوٹ دیا گیا، تاکہ وہ فتادگی کا بار آسانی سے اٹھا سکے۔ بجلی کے تار اور قمقموں سے شہر کی پیشانی دمک اٹھی۔ مگر کواڑ کی اوٹ میں وہی دو ازلی چراغ جلتے رہے۔ پرانے رفیق روڑوں اور شناسا کنکریوں کے مٹ جانے سے منتظر عورت کا دل دکھ گیا۔ وہ تو در و دیوار کے ادنیٰ سے داغ دھبے کو بھی مٹنے دینا نہ چاہتی تھی۔ وہ وقت کی رو کو اس گھڑی تک ساکت کر دینا چاہتی تھی جب کوئی روٹھا ہوا پردیسی واپس آ جائے لیکن بے درد زمانہ تیزی سے اس کے جسم کو اور جسم کے ماحول کو بدل رہا تھا۔ وہ اب بوڑھی ہوتی جا رہی تھی۔ کاش بوڑھاپا ایک لانبی ڈگ بڑھا کر ہی اچانک آ جاتا مگر وہ تو رینگتا ہوا آیا تھا، جنت کے سانپ کی طرح، عورت کو ہر آن شکست کھاتی ہوئی جوانی کا تلخ احساس ہوتا رہا تھا۔ جب وہ آئےگا، تو اس کے سامنے کیا تحفہ پیش کرےگی۔ بیٹی کی شادی کے بعد وہ الم انگیز طور پر تنہا ہو گئی تھی۔ زمانہ اسے صلیب پر چڑھانے والا تھا۔ اور اپنی صلیب وہ خود سے سر پر اٹھائے ہوئے تھی، اکیلی، بےسہارا، ایک ہارتی ہوئی آس کے ساتھ، مجبور۔ سب کچھ بدل رہا تھا۔ لیکن اس کا دل اور اس کی نگاہیں ویسی ہی تھیں، جیسی اس کا شوہر انھیں چھوڑ گیا تھا۔ صرف دیا کی لو کبھی کبھی زیادہ تیز ہو جاتی تھی۔ زلزلے آئے، شہر کانپ کانپ اٹھا، عمارتیں ملیا میٹ ہو کر پھر بنیں، جنگیں چھڑیں، بغاوتیں ہوئیں، شکستہ دل باغیوں نے، بریگیڈ، بنا بنا کر سڑک دل چھلنی کر دیا۔ بجلی کے تار توڑ مروڑ کر سڑک پر بکھیر دیئے گئے۔ دو آنکھیں کواڑ کی اوٹ سے اس ماجرا کو دیکھ کر خوش ہوئیں، کیوں ان ساری جدید چیزوں سے انھیں نرئت تھی۔ یہ بیگانہ تھیں نا۔ ان کی اپنی پرانی چیزوں کو فنا کر کے ان نئی چیزوں نے سر اٹھایا تھا۔ مگر جب اسے راستہ رک جانے کا احساس ہوا اور جب ریل کے بند ہونے کی خبر ملی تو کواڑ کی اوٹ میں بیٹھی ہوئی عورت کانپ کانپ گئی۔ پھر وہ کیسے آئے گا، جس کے انتظار میں ایک عمر گزر رہی ہے۔ عورت کو مائل بہ تخریب باغیوں سے بے پناہ نفرت ہوئی۔ جیسے وہ اس کا کلیجہ کاٹ رہے ہوں۔ پھر ٹڈی کی طرح فوجی لاریاں آگئیں اور ٹامیوں نے سڑک پر فوجی بریگیڈ لگائے۔ گولیاں چلیں اور بھگدڑ مچی۔ کواڑ کی اوٹ میں دل پھر لرزا۔ کہیں پردیس سے آنے والا گولی کاشکار نہ ہو جائے، کہیں کرنٹے اسے روک نہ لیں۔ ان دنوں ٹھٹھیروں کی سب دکانیں بند رہتیں مگر الکترے سے رنگی ہوئی کواڑ کے پٹ ضرور کھلتے اور اس کی اوٹ میں آنکھوں کا دیا گھونگھٹ تلے جلتا ہی رہتا۔ ان آنکھوں میں باغیوں اور گوروں دونوں سے نفرت کی آگ سلگ رہی تھی۔

    سب کچھ گزر گیا۔ تبدیلیاں، زلزلے، بغاوتیں اور ان کے ساتھ نصف صدی مگر کوئی طوفان منتظر آنکھوں کا چراغ گل نہ کر سکا۔ عورت کےچند لے دامادکے بہت سے لڑکے لڑکیاں ہوئیں۔ لیکن عام بوڑھی عورتوں کی طرح ناتی نتنیوں سے اسے وہ دل چسپی نہ ہوئی جو عموماً ہوتی ہے۔ لڑکے پھڑکے آتے۔ انھیں بھی وہ کواڑکی اوٹ میں بٹھا لیتی۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ اکتا کر بھاگ جاتے۔ عورت اپنی ادھیڑ بیٹی سے طعنے سنتی۔ چند لا داماد نکیا نکیا کر بگڑتا رہتا پر سب بےاثر۔

    پھر ایک واقعہ ہوا۔ جب وہ پینسٹھ سال کی ہوئی تو اس کی نتنی کی شادی ہوئی۔ نتن دامادکے بارے میں اسے خبر ملی وہ کلکتہ میں کماتا ہے۔ کلکتے کے نام سے ایک فوری خوف اس کے دل میں پیدا ہوا مگر جب نتن داماد کا پہلا خط آیا تو اس کی آنکھیں نئی روشنی سے دمک اٹھیں۔ اس کی نتنی کوٹھری میں چھپ کر خط پڑھ رہی تھی۔ وہ دبے پاؤں وہاں پہنچی اور چپ چاپ پلنگ کے نیچے نوعروس کے نزدیک بیٹھ گئی۔ لڑکی ہاتھ میں خط اٹھائے پڑھنے میں منہمک تھی اور کبھی کبھی وہ جملے زور سے ادا کر دیتی۔ دلہن کے نوجوان وفا شعار دل کا چونچال خون محبت اور آرزؤں کی آنچ سے لودینے لگتا اور بوڑھی عورت کی متمنی و نگراں آنکھیں دل کی ویرانی کی آگ سے تابندہ تھیں۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ خط اس کے گم شدہ شوہر کا ہے اور وہ اسے اپنی نتنی سے پڑھوا کر سن رہی ہے۔ وہ کھسکتی ہوئی خط پڑھنے والے کے قریب تر ہوتی جاتی تھی۔ جب اس کے ہاتھ دلہن کے پاؤں سے مس کر گئے تو دلہن چونک اٹھی اور شرم سے عرق عرق ہو گئی۔

    پھر تو ہر بار یہی ہونے لگا۔ بوڑھی عورت کواڑ کی اوٹ سے ڈاکیہ کا انتظار کرتی رہتی۔ کلکتہ سے آنے والے وہ پیارے لفاف! ڈاکیہ بھی کتنی رومانی ہستی ہے۔ اس کے قدموں سے کتنی بیتاب نگاہیں لپٹی رہتی ہیں اور اس کی آہٹ سے کتنے دل دھک سے کر اٹھتے ہیں۔

    نوجوان دلہن قاصد خوش خرام، کا انتظار کرتی اور کبھی کبھی بےچینی میں وہ الکترے کی رنگی ہوئی سیاہ کواڑ کی اوٹ میں کھڑی ہو جاتی۔ مگر بوڑھی عورت کاانتظار بادۂ رسا کی طرح تھا، سکر مکمل عطا کرنے والا اور نوجوان لڑکی اس ہرن کی طرح تھی جس کے نافہ میں ابھی ابھی مشک پیدا ہوا ہو۔ لڑکی بیتاب زیادہ تھی، نکہت نوجوانی کے مانند۔ بوڑھی عورت بحر الکاہل کی مثال اتھاہ تھی۔ اسے صرف انتظار تھا۔ مجرد و مطلق و ابدی۔ نوعروس اپنی خود بیں و خود آرا جوانی کی طرح نگراں ہونے کے نتیجے میں پیام یار کا انتظار کھینچتی تھی۔ پورب دیس کلکتہ سے آنے والا محبوب لفاف کبھی کبھار ہی لڑکی کے ہاتھ میں پڑتا۔ یہ جنس گراں مایہ بوڑھی نانی کے ہاتھ لگتی۔ لامتناہی صبر کے ساتھ کواڑ کی اوٹ سے لگا ہوا اور کون بیٹھ سکتا تھا۔ وہ خط لے کر راز دارانہ مگر نشاط ریز انداز میں اپنی نتنی کی کوٹھری میں جاتی اور اس کے ہاتھ خط دے کر امید وار بیٹھ جاتی۔ نانی کا دبے پاؤں تیزی سے دلہن کی کوٹھری کی طرف جانا اس بات کی علامت ہوتی کہ بنگال کا جادو جاگ گیا ہے۔ لڑکی اگر اپنی کوٹھری میں نہ ہوتی تو نانی کو اس طرف جاتے دیکھ کر فوراً بےتابانہ اس جانب دوڑ پڑتی۔ پہلے تو اسے نانی سے نفرت سی ہوئی، رقابت و حجاب کی پروردہ نفرت، مگر رفتہ رفتہ مصالحت ہو گئی۔ امداد باہمی کی شکل پیدا ہو گئی تھی۔ نانی بےچوک لڑکی کے ہاتھ میں خط لا کر دیتی اور لڑکی سوائے چند جوان فقروں کے سبھی کچھ سنا دیتی تھی۔ بوڑھی عورت خوش ہوتی۔ اسے روحانی اطمینان حاصل ہوتا۔ وہ یوں سمجھتی کہ خط اسی کے نام کا ہے۔ انسان کی نفسی گہرائیوں میں زمان و مکان ڈوب کر تحلیل ہو جاتے ہیں نصف صدی بوڑھی عورت کے دماغی بھولے پن میں فنا ہو گئی۔ کلکتہ سے آنے والا ہر خط اس کے اپنے بسرے ہوئے پردیسی کا خط تھا۔ وہ تو اپنی نواسی سے گویا صرف پڑھوا کر سنتی تھی۔ بوڑھی عورت خط سن کر ایک مدہوش مسرت میں کھو جاتی۔ کئی دنوں تک اس پریہ عالم طاری رہتا اور ہر روز وہ کواڑ کی اوٹ میں بیٹھی ابدی انتظار میں محو رہتی۔

    ایک خط آیا۔ اطلاع تھی کہ دلہن کا دلہا آ رہا ہے۔ عروس کا چہرہ گلنار ہو گیا۔ بوڑھی عورت پر سنجیدگی کے بادل منڈلانے لگے۔ پھر اسے ہسٹریا سا ہونے لگا۔ وہ اپنی نواسی سے دن میں کئی کئی بار خط پڑھوا کر سنتی، رہ رہ کر تاریخ اور وقت کے بارے میں پوچھتی اور بھول جاتی اور پھر کواڑ کی اوٹ میں جا بیٹھتی۔ کبھی اس کا چہرہ ایک مردہ چہرے کی طرح پر اسرار بن جاتا، ساکت مگر علاماتی، گہرا اور تاریک اور کبھی تاثرات و جذبات اس کے چہرے کی سطح پر آ کر اپنے تانے بانے بننے لگتے۔ وہ گاہ بیحد شاداں نظر آتی اور گاہے انتہائی رنجیدہ۔

    آخر وہ دن آ گیا۔ دلہا کلکتہ سے تین بجے شب کی گاڑی سے آنے والا تھا۔ بوڑھی عورت حسب معمول علی الصباح کا روبار شروع ہونے سے بہت پہلے بلاکش انتظار ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں نئی امید چمک رہی تھی، اس کا انتظار ایک تازہ کسمساہٹ لئے ہوئے لرزاں تھا۔ نگاہوں میں البیلے بھاؤ اور رس تھر تھرا رہے تھے۔ اس دن اس نے کھانا بھی نہیں کھایا۔ بس وہ کواڑ کی اوٹ میں لوہے کی میخ کی طرح جڑی رہی۔ دوپہر گزاری اور پھر رات اپنی انجان گہرائیوں کے ساتھ طاری ہو گئی۔ لیکن بوڑھی عورت وہاں سے اٹھانے پر بھی نہیں اٹھی۔ کواڑ کا ایک پٹ اس کے منتظر دیدوں کی طرح بے خواب ہی رہا۔ رات بھیگ گئی، سب لوگ سو رہے اور وہ رات کی تاریکی میں گھل کر اس کی خاموش ابدیت کا جزوبن گئی۔ جب سناٹا چھا گیا تو وہ اچانک اٹھی اور اپنی نتنی کے کمرے میں دبے پاؤں داخل ہوئی۔ نوجوان عورت اپنے ہی بار سے تھکی ہوئی جوانی کی نیند میں ڈوبی ہوئی تھی۔ بوڑھی عورت نے سنگار بکس سے سیندور کی شیشی نکالی اور آئینہ کی مدد سے اپنی مانگ میں سیندور اچھی طرح سے بھر لیا۔ پھر وہ بہ عجلت تمام واپس لوٹی اور کواڑ کی اوٹ سے لگ کر بیٹھ گئی۔ اب وہ زیادہ مطمئن تھی۔ سڑک پر صرف جاڑے کی ہوا چل رہی تھی۔ بوڑھی عورت کے جذبات موسم سر ما کی خشک مگر برچھی کی انی کی طرح تیز ہوا کی مانند تھے۔ پھر بھی وہ سکون جس کی گود میں لامتنا ہی درد ہو، اپنی تمام سنجیدگیوں کے ساتھ اس پر طاری تھا۔

    اس کا نتن داماد آیا، ٹھیک وقت پر آیا۔ لیکن جاڑے کی رات زیادہ بیتنے کی وجہ سے وہ سڑک والے دروازے پر نہ آیا۔ وہاں سے زنانہ دروازہ دور پڑتا تھا۔ اس نے خیال کیا کہ اتنی رات گئے اس طرف دروازہ کھولنے کون آئےگا۔ پہلو کی گلی کی طرف جو دروازہ تھا وہ آنگن میں کھلتا تھا اور وہاں سے آواز کا اندر پہنچنا آسان تھا۔ چار بجے بھور کو نوجوان دلہن نے آنگن والا دروازہ کھولا، اور آنے والا اندر داخل ہو گیا۔ نوجوان عورت آدھی رات سے بیدار اور نیند کے درمیان لذت انتظار حاصل کر رہی تھی۔ وہ دونوں اپنے کمرے میں چلے گئے جہاں بوڑھی عورت کے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ابتدائے شب میں گرے ہوئے سیندور اب تک بکھرے ہوئے تھے۔

    بوڑھی عورت کواڑکی اوٹ میں بیٹھی ہوئی، انتظار کرتی، انتظار کرتی، انتظار کرتی رہی۔ لیکن کسی نے آواز نہیں دی، کوئی نہیں آیا۔ صرف سرد ہوائیں کھلے ہوئے پٹ کے اندر سنسناتی ہوئی داخل ہوتی رہیں اور نظر و دل کے علاوہ بوڑھی عورت کی ہڈیاں بھی خلش انتظار خوشی سے برداشت کرتی رہیں۔

    رات بیت گئی۔ صبح ہوئی۔ سڑک جاگ اٹھی۔ دلہا دلہن جاگ اٹھے، مگر بوڑھی عورت کواڑ کی اوٹ سے لگی بیٹھی رہی۔ سبھوں نے دیکھا۔ منتظر آنکھوں کی چمک اور بڑھ گئی تھی۔ نگاہیں لازوال ہو گئی تھیں اور اس کا انتظار اتھاہ، اٹل، امٹ تھا۔

    مأخذ:

    (Pg. 196)

    • مصنف: اختر اورینوی
      • ناشر: بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1977

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے